ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

جعفر ابن ابی طالبؑ الاقوامی کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات

بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

ہم تمام حضرات کے بے حد مشکور ہیں، خاص طور پر اس کام کے بانیوں کے، جو تاریخ کو زندہ کر رہے ہیں۔ یعنی جناب جعفر بن ابی طالب جیسی عظیم شخصیت یا مثلاً جناب حمزہ رہ کے بارے میں تحقیق کررہے ہیں  جب ان کے حالات کا ذکر کیا جاتا ہے تو  فقط ایک شخص کے حالات کا زکر نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت تاریخ بتائی جاتی ہے اور اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس تاریخ کے اہم درس  کیا ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا ، ضروری   اور مفید کام ہے، اور انشاء اللہ آپ اس کام میں  کامیاب رہیں  اور اسے  جاری رکھیں ۔

جن دس لوگوں کا آپ نے اس  فہرست میں زکر کیا ہے  مجھے اس کے متعلق کچھ کہنا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ یہاں زید بن حارثہ کو بھی شامل کریں۔  جنگ موتہ  میں زید بن حارثہ جناب جعفر کے  سپہ سالار  تھے۔ یعنی پیغمبر ﷺ  نے حضرت زید بن حارثہ کو سپہ سالار بنایا تاکہ اگر وہ شہید ہو جائیں تو جعفر [ سپہ سالار ہوں گے]۔ اور پھر  ہمیں ان بزرگوں کی سیرت میں ملتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے  عالم ملکوت مین انکے جسد مبارک کو دفن ہوتے دیکھا   تو زید بن حارثہ کی  میت سے آگے  جناب جعفر کی  میت دیکھی۔ آپ ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا کہ میں نے تو  زید کو  سردار بنایا تھا ، پس اسکی کیا وجہ ہے کہ جعفر کی میت آگے ہے؟  جبرئیل نے انہیں اس کا  جواب دیا۔ تو یہاں یہ  بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب زید بن حارثہ کو اہمیت دی تھی۔ اور پھر قرآن  میں  ان کے لئے آیت نازل ہوئی  ""«فَلَمّا قَضیٰ زَیدٌ مِنها وَطَرًا زَوَّجناکَها» (2)۔ وہ ایک شاندار  اور عظیم شخصیت ہیں۔ میری رائے میں انہیں بھی  اس فہرست میں شامل کریں اور ان کا اپنے وقت پر ذکر کریں، ان کی سوانح عمری لکھیں۔

جناب جعفر کے بارے میں، آپ نے جو باتیں بتائی ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ یہ ہماری توقع سے زیادہ ہیں۔ یہ دس جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا یا باقی جو کام ہوئے ہیں وہ عظیم  اور اہم کام ہیں اور میں ان تمام حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ان عظیم اور اہم کاموں  میں اپنا کردار ادا کیا۔

ہمارے کام کے نقائص  میں سے ایک  کتاب  کی ہے۔ شاید آپ کہیں کہ   کتاب  تو لائبریری میں چلی جاتی ہے، [لیکن]  میرے نزدیک کتاب آرٹ کا سب سے   پائدار  نمونہ  ہے۔ یعنی باقی چیزیں عارضی ہیں، [لیکن] کتاب باقی  رہتی ہے اور کتاب کو سو یا دو سو سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم کتاب کو اچھی طرح سے ایڈٹ کریں تو یہ بہت ضروری ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو ثقافت کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتی ہے، اور میری رائے میں، ہمیں کتاب پر بہت زیادہ انحصار کرنا چاہیے۔ البتہ اچھی کتاب ضرور لکھنی چاہیے، اعلیٰ درجے کی کتاب ضرور لکھنی چاہیے تاکہ وہ باقی رہے اور استعمال میں رہے اور پرانی اور متروک نہ ہو جائے۔ اور فلم بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر جناب جعفر کی اس کہانی میں - جناب حمزہ کی کہانی  - حبشہ کی طرف ان لوگوں کی یہ ہجرت اور اسی طرح کی فرنگی مبس کی تشریح میں ایک خوبصورت ڈرامائی پہلو ہے۔

یہاں چند نکات ہیں جو میں  بیان کرنا چاہوں گا۔ ایک بات یہ ہے کہ جناب جعفر ساتویں [ہجری] میں مدینہ واپس آئے۔ وہ ان سات سالوں سے حبشہ میں کیوں  رہے ؟ جب کہ ایک دفعہ یہ افواہ  پھیلی تھی کہ مکہ والوں نے اسلام قبول کر لیا، ان میں سے کچھ تارکین وطن حبشہ سے مکہ واپس  آ گئے۔ تاہم جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ ہے اور وہ دوبارہ حبشہ چلے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ سفر کرنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اور جب  یہ  طے پایا کہ  مسلمان  ہجرت کرکے  مدینہ جائیں تو ، نجاشی نے ان کے لیے ایک کشتی  بھیجی اور وہ حبشہ سے بحیرہ احمر کو عبور کر کے مدینہ منورہ پہنچے - اب مدینہ ساحل سے نزدیک نہیں ہے؛اسی لئے   ساحل سے مدینہ  تک آئے  یعنی حبشہ سے مدینہ آئے۔ وہ سات سال    حبشہ میں کیوں ر ہے؟ وجہ کیا ہے؟ جناب جعفر کی شخصیت پر غور کرتے ہوئے ان کے لیے ایک قابل قبول اور منطقی وجہ تلاش کی جانی چاہیے۔ البتہ جناب جعفر کے متعلق  میرا مطالعہ اتنا وسیع نہیں ہے جتنا کہ آپ  حضرات کا ہے۔ لیکن جتنا میں نے دیکھا، مجھے اس معنی کی کوئی وجہ نہیں ملی۔ میرے خیال میں  صرف "تبلیغ " کے لیے وہاں رکے۔ یعنی انہوں نے اس عظیم الشان حبشہ  کو افریقہ میں اسلام کے داخل ہونے کا دروازہ بنایا، جو وہی ہے؛ افریقہ میں پہلا مقام جس نے اسلام قبول کیا وہ حبشہ ہے۔ وہ اسلام کو مستحکم کرنے کے لیے وہاں ٹھہرے، جب کہ وہ جانتے تھے  یقیناً وہ  جانتے تھے  - کہ پیغمبر مدینہ تشریف لائے ہیں اور  لوگوں نے ان کا استقبال کیا   پیغمبر نے وہاں حکومت بنائی  اور جنگیں کیں۔ جنگ بدر، جنگ احد، بہت سی جنگیں۔ یہ سب بڑے سیاسی اوراجتماعی واقعات، پیغمبر اسلام کا بادشاہوں کو خطوط بھیجنا اور اردگرد  کے مختلف گروہوں کی نقل و حرکت کو سات سال گزر چکے ہیں اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس سے بالکل بے خبر تھے۔ اب تفصیل سے نہ سہی، مختصراً جانتے تھے۔ مگر  وہ  مدینہ نہیں  آئے اور تبلیغ  دین  کے لیے وہاں  رک گئے۔ یہ  تبلیغ کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ اب جو  لوگ  اس  کام میں فعال ہیں اگر وہ مزید تحقیق کر کے دیکھیں کہ اس باقی مدت میں انہوں  نے وہاں کس قسم کے کام کیئے  تو یقیناً بہتر ہو گا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کو  جناب جعفر سے بہت محبت تھی۔ مشہور ہے کہ "«اُسَرُّ بِفَتحِ خَیبَرَ اَم بِقُدومِ جَعفَر(3) کیونکہ ہجرت کے  ساتویں سال  خیبر فتح ہوا  اور جناب جعفر بھی اسی سال لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں معلوم کہ میں فتح خیبر پر خوش ہوں یا جعفر کی واپسی پر! اس کا مطلب ہے کہ ایک مسافر کی واپسی کی اتنی ہی قیمت ہے جتنی فتح خیبر کی - کہ فتح خیبر ایک عجیب چیز ہے؛  ، پیغمبر کی فتوحات کی تاریخ میں، یہ ایک  نمایاں فتح   ہے، مثال کے طور پر، یہ فتح مکہ کی طرح ہے۔ کچھ اس طرح - نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، "میں نہیں جانتا کہ میں خیبر کی فتح سے زیادہ خوش ہوں یا جعفر کی آمد سے؛ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ کیا آپ نے وہ روایت بھی پڑھی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "طبیعت اور کردار میں مشابہت"؛ (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھنے والے لوگ جعفر تھے، شیعہ اور سنی کی طرف سے نقل کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم خلق  اور  خلق  دونوں میں مجھ سے شباہت رکھتے  ہو۔ ویسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس  قربت کے باوجود  وہ ابھی  مدینہ  پہنچے ہی تھے کہ انہیں  شہادت کی خبر کے ساتھ جنگ ​​پر بھیج دیا!   ایک محبوب اور قریبی شخصیت کے لئے پیغمبر کا یہ ایثار میرے خیال میں ایک اہم نکتہ ہے۔ یعنی ساتویں سال مدینہ میں داخل ہوئے اور آٹھویں سال شہید ہوئے۔ تقریباً ایک سال یا شاید ایک ماہ یا دو ماہ کم یا زیادہ، جناب جعفر ہجرت کے بعد مدینہ میں موجود رہے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے جو میرے خیال میں ایک قابل غور اور اہم نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جب غیب سے  جناب جعفر  کی شہادت کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی - یعنی ابھی زمینی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچی تھی اس سے پہلے ہی آسمانی خبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں - نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسماء بنت عمیس کے گھر تشریف لائے۔ ; عبداللہ (6) اور ایک یا دو دوسرے بچے اس وقت چھوٹے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور ان بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھا۔ اسماء ایک ہوشیار خاتون تھیں، وہ سمجھ گئی انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا جعفر  کے ساتھ کوےی حادثہ  پیش آیا ہے جو  آپ  نے بچوں  کے سر پر ہاتھ  پھیرا ؟ نبیﷺ نے فرمایا ہاں؛ (7) خدا نے انہیں شہید کیا، جعفر شہید ہوگئے۔ اسما  رونے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مت رو۔ انہوں نے اسما کو تسلی دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جعفر کو دو پروں سے نوازا ہے اور وہ فرشتوں کے ساتھ آسمان  میں پرواز کرتے ہیں   یہ ان کا مقام  ہے۔ جب انہوں نے یہ کہا تو اسماء نے کہا یا رسول اللہ! یہ  بات لوگوں کو بتائیں۔ نبیﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ لوگوں کو بلایا گیا، جب [لوگ] آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے اور ان کا یہ مقام ہے یہ سب یمارے لئے درس  ہے؛ ہمیں اپنے شہداء کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں شہداء کے فضائل بیان کرنے چاہیے۔ یہ جناب جعفر کی زندگی کا ایک نقطہ ہے۔ ہمیں ان کے بارے میں بتانا چاہیئے ۔

بلاشبہ حضرت جعفر کے قصے میں  بہت دلچسپ باتیں  ہیں جنہیں مختلف حصوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب وہ حبشہ گئے اور پھر عمرو بن عاص اور دوسرے (8) حبشہ آئے تاکہ ان کی طرح کوشش کریں  (9) تو  نجاشی نے انہیں بلایا ۔ اُس نے کہا   کہ میرے پاس  آیئں اور  بتایئں کہ کیا کہنا چاہتے  ہیں۔  مگر وہ کیا کہتے ؟ نجاشی  نے جب انہیں بلایا تو گبھرا گئے کہ ہم وہاں  جاکر کیا کہیں گے؟ وہ اسی  سوچ میں تھے کہ  اب نجاشی کے پاس جائیں تو کیا کہیں؟ انہوں نے آپس میں تبادلہ خیال کیا اور اس نتیجے پر پہنچے: کہ ہم وہی کہیں جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے  اور  جو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا ہے ۔ ہم  وہی کہہ دیتے  ہیں؛ ہم اپنی طرف سے   کچھ نہیں کہیں  گے ، اور ہم کچھ نہیں چھپائیں گے۔ ہم وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔  وہ لوگ جناب جعفر کے ساتھ    نجاشی کے پاس آئے اور  نجاشی اور ان کے درمیان  وہ حیرت انگیز گفتگو ہوئی  جس میں جناب جعفر کے وہ مشہور بیانات شامل ہیں  ۔ جس کا نجاشی پر گہرا اثر پڑا اور وہ  رونے لگا پھر  قریش   نجاشی کے پاس آئے وہ چاہتے تھے کہ اسے مسلمانوں کی طرف سے بدظن کردیں  ۔ وہ نجاشی کے پاس آکر  کہنے لگے کہ یہ لوگ  عیسیٰ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ یہ سن کر نجاشی پریشان ہوگیا ؛ اس نے حکم دیا کہ  مسلمانوں کو بلاؤ۔ اس کے کارندوں نے کہا کہ  نجاشی تم سے عیسیٰ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے۔ ایک بار پھر،  مسلمان اسی سوچ میں تھے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا کہنا چاہیے! بحث کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہم بھی وہی کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہا ہے۔ اور وہ آئے اور انہوں  نے سورہ مریم کی وہ آیات "کیھعص" (10) کی تلاوت کی - اور نجاشی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

یہ ایک اور نکتہ ہے؛ یعنی دشمن کے سامنے یا اجنبی کے سامنے کیا کرنا ہے؟ ہمیں وہی کرنا چاہیے یا وہی  بات  کہنی چاہیئے  جو  خدا ہم سے چاہتا  ہے یہی سب سے بہتر ہے  دنیا کے مختلف واقعات میں کبھی  ہمارا سامنا دوستوں سے ہوتا ہے،  کبھی  دشمنوں  سے ، کبھی غیرجانبداروں سے ، وہ ہم سے سوال کرتے  ہیں، کہ آیا  ہم اس بات کو  چھپا لیں،بیان نہیں کریں۔  نہیں ہمیں وہی کہنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے۔ یقیناً یہ تقیہ سے متصادم نہیں ہے۔  یہاں تقیہ  کا موقع نہیں وہ کہیں  اور کے لئے ہے تقیہ کے بارے میں قرآن بھی واضح ہے: الٰہ عن تقویٰ وہی ہے (11) اس لیے میرے خیال میں یہ بھی ایک نکتہ ہے جو ہمیں جناب  جعفر کی زندگی سے ملتا ہے۔

یہ ایسے نکات ہیں جو انسان کے  ذہن میں آتے ہیں۔ ایک اور بات جو میرے ذہن میں آئی اور یہ  میری آخری گزارش ہے  اور پھر  آپ سے رخصت چاہوں گا   حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو خط لکھا۔ خیر، ایک خط جو نبیﷺ نے مدینہ آنے کے بعد لکھا، جس کا سب نے حوالہ دیا ہے۔ بعض دوسرے بیان کرتے ہیں کہ جب ہجرت کرنے والے نکل رہے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو ایک خط لکھا اور انہیں بھیج دیا۔ اب آپ اس میدان میں تحقیق کر چکے ہوں گے اور مزید جان چکے ہوں گے۔ میں نے اس خط کو دیکھا ہے۔ اس خط میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام مبارک ذکر فرمایا ہے۔ اس خط میں حضور نے  صرف یہ نہیں فرمایا کہ مسیح  پیغمبر  ہیں ۔ بلکہ  اس خط میں، وہ کہتے ہیں کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسیح خدا کی  روح ہے اور خدا نے ان میں  روح پھونکی ہے، جیسا کہ آدم مین پھونکی تھی۔ اور وہ  حضرت عیسی کی بابرکت ماں کا زکر  کرتے ہیں۔ یعنی، سب سے پہلے، پیغمبر ص ایسی کوئی بات نہیں کرت جس سے وہ  حساس  ہوجائے۔ لیکن [یقیناً] وہ حقیقت   چھپاتے بھی نہیں، اور نہ ہی  انکار  کرتے ہیں ، یہ  قرآن میں بھی  آیا ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے ۔بلکہ پیغمبر ﷺ اس بات پر زور دیتے ہیں  کہ جناب عیسی ع  خدا کی روح ہیں جو جناب  مریم علیہا السلام میں پھونکی گئی۔ یہ ہمارے لیے بھی ایک درس ہے۔

جناب حمزہ اور جناب جعفر کی زندگی  پر  فلم کی تیاری کے حوالے سے، ہمارے دفتر کے نمائندے یہاں موجود ہیں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے حکام کو بتائیں؛ ۔ یہ لوگ  موضوع کی تلاش میں ہوتے ہیں؛ ان لوگوں سے بہتر کون سا موضوع  ہوگا؟ یہ تاریخی شخصیات ہیں جو  حقیقی ہیں،اور  موجود ہیں، یہ جمونگ کی طرح خیالی نہیں ہیں، لیکن جمونگ کی طرح لڑے ہیں- وہ سیاسی میدان میں بھی  اور عسکری میدان میں بھی - ان میدانوں میں وہ موجود تھے، اور پھر شہید ہوئے؛ہنر  ا اور فلم  کی دنیا میں، ان لوگوں کے حوالے سے کام کرنا مکمل طور پر ممکن ہے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ یہ  انجام پائے گا۔

میں ایک بار پھر اپنے عزیز برادران ، اور جامعہ المصطفی کے محترم  مدیر - جو کہ المصطفی کے عملی میدان میں واقعی خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہیں  میں نے جامعہ  المصطفیٰ کے بارے میں مسئول سے چند باتیں کہی تھیں، مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے ابھی [بات] کی ہے یا بعد میں کریں گے - اور جناب رفیعی سے بھی جنہوں نے اس موضوع  پر کام کیا، اس کے ساتھ ساتھ باقی دوستوں اور حضرات کا جو حاضر ہیں، میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ آپ  سب کو کامیابی عطا کرے، اس کام کو صحیح طریقے سے کرنے میں آپ کی مدد کرے۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

۱) ملاقات کے آغاز میں حجّت‌الاسلام والمسلمین علی عبّاسی (رئیس جامعةالمصطفیٰ) اور حجّت‌الاسلام ناصر رفیعی (مدیر مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدّن اسلامی جامعةالمصطفیٰ و رئیس همایش) نے رپورٹ پیش کی۔
۲) سوره‌ احزاب، آیت ۳۷
۳) کشف‌الغمّة، ج ۱، ۳۷۳
۴) کانفرنس کے مسئول
۵) کشف‌الغمّة، ج ۱، ص ۹۹
۶) عبدالله‌بن‌جعفر
۷) المحاسن، ج ۲، ص ۴۱۹
۸) عمارة‌بن‌ولید
۹) غیبت کرنا
۱۰) سوره‌ مریم، آیت ۱
۱۱) سوره‌ آل‌عمران، آیت ۲۸؛