بسم اللہ الرحمن الرحیم.
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین.
پلیس اور سیکیورٹی اداروں کے شہداء کے عزیز اہل خانہ کو بہت خوش آمدید کہتے ہیں۔ ملت ایران پر آپ کے شہداء اور ان کے اہل خانہ، والدین، ماؤں، بیویوں، بچوں کا عظیم حق یے جو واقعی ناقابل بیان ہے۔ انشاء اللہ ہماری یہ ملاقات جو آپ کی موجودگی اور ان عزیز بھائیوں کی آمد سے نورانی ہوئی ہے، ہمارے دلوں کو ملت ایران پر خدا کے فضل و کرم کی حقیقت سے مزید روشناس کرائے گی۔
’’امن و امان (پلیس ،سیکیورٹی) کے شہداء‘‘ کی قدر کیسے جانیں؟ اس کا اندازہ ’’سیکیورٹی اور امن‘‘ کی اہمیت سے لگایا جاسکتا ہے۔ جب ہم یہ جان جائیں گے کہ کسی بھی ملک کے لیے امن و امان کتنا اہم ہے، تو پھر ہمیں اس سیکیورٹی گارڈ، پلیس کی اہمیت کا اندازہ ہوگا - اب چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے سے ہو، چاہے بسیج سے ہو، چاہے وہ اطلاعاتی اداروں سے ہو یا جس بھی شعبہ سے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری حفاظت کے لیے اپنا سینہ سپر کیے ہویے ہیں۔ اسی لیے ہم اس راہ کے شہید کو راہ حق کے سرکردہ شہداء میں شمار کرتے ہیں۔ اس معاملے کی حقیقت بھی یہی ہے۔
یقینی طور پر، ہر ملک، ہر معاشرے کی اولین ضرورتوں میں سے ایک امن و آمان ہے۔ معاشرے میں تحفظ و امن نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ نہ کوئی معیشت باقی رہتی ہے، نہ تعلیم، نہ کوئی ترقی، نہ ہی خاندان ۔درحقیقت، امن کسی قوم اور ملک کی ترقی کے تمام ذرائع اور وسیلوں کی بنیاد ہے۔ امن و آمان اس طرح ہے۔ معاشرے کا ذہنی سکون امن و امان سے ہوتا ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم اور ترقی کا امکان بھی امن و آمان کی فراہمی کی وجہ سے ہے۔ اس لیے یہ خدا کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ امن کی اہمیت کو اس حد تک بڑھایا ہے کہ مسلمانوں کو ایک عظیم نعمت کے طور پر یاد دلاتا ہے: فَلیَعبُدوا رَبَّ هٰذَا البَیتِ * اَلَّذی اَطعَمَهُم مِن جوعٍ وَ آمَنَهُم مِن خَوف(۱) یعنی اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہیں یہ عظیم نعمتیں دی ہیں۔ اس نے آپ کو تحفظ دیا ہے، اس نے آپ کو محفوظ زندگی کا امکان دیا ہے۔ یہ امن و آمان کی اہمیت ہے۔ خیر یہ مسئلہ اتنا ہی اہم ہے تو اگر کچھ لوگ، اس راہ میں شہید ہو جائیں یا قربانیاں دیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ان شہداء کے درجات بھی بہت بلند ہیں۔
جہاں بھی امن و امان کے یہ محافظ نہیں ہیں وہاں برائی ہے یہ ایک کلی قانون ہے۔ اسی لیے ان عزیز نوجوانوں کے مشن کا میدان جو کہ سیکیورٹی کے مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں - جس کا میں نے ذکر کیا ہے - بہت وسیع ہے۔ یہ سب اس خدائی فضل و کرم اور رب کے عطیہ ہے کہ یہ لوگ بہترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ کوئی سرحد پر شرارت کرتا ہے، کوئی گلی کوچوں میں فساد پھیلاتا ہے، کوئی گھروں اور دکانوں کو لوٹ کر فساد پھیلاتا ہے اور یہ کہ کوئی افواہیں پھیلا کر فساد کرتا ہے، کوئی قتل کرکے فساد پھیلاتا ہے، کوئی منشیات کی سمگلنگ کر کے بدامنی پھیلاتا ہے۔ کویٰ ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرتا ہے۔ یہ سب برائیاں ہیں۔ جو بھی ان میں سے کسی بھی برائیی کے سامنے کھڑا ہو جائے تو اسے " امنیت کا محافظ ــــ اور "امنیت کا پاسدار " کا خطاب دینا چاہییے، یہ ان کے لئے عظیم اعزاز ہے۔ ان تمام واقعات میں ہمارے یہ عزیز بھائی سینہ سپر ہوکر خطرات کا سامنا کرتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی ملک میں امن و آمان کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری عنصر کیا ہے؟ کچھ لوگ، اپنے مختلف تجزیوں میں، اس مسئلے کی عجیب و غریب تفسیر کرتے میں، تصور کرتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک محفوظ رہے، تو ہمیں طاقتوں کے حساس اوزاروں کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ مثال کے طور پر، ’’ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم ایسے میزائل رکھتے ہوں جو فلاں رینج رکھتے ہوں اور حساس ہوں‘‘! وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے وہ ملک کی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؛ یعنی وہ دراصل یہ سمجھتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ملک محفوظ رہے، تو ہمیں ان طاقتور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں؛ یہ غلط ہے۔ وہ چیز جو کسی ملک کی سلامتی کو برقرار رکھتی ہے وہ اس کی "قومی طاقت" ہے، اس ملک کی طاقت؛ تمام پہلوؤں میں مضبوط ہونا: سائنس اور علوم میں مضبوط ہونا، معیشت میں مضبوط ہونا، دفاع میں مضبوط ہونا، ہتھیاروں میں مضبوط ہونا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی ملک کی سلامتی اور امنیت کو برقرار رکھتی ہیں اور یقینی بناتی ہیں۔ ہم نے جب بھی اپنے ملک کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ان ہتھیاروں کی طرف جانے سے منہ موڑا تو دشمن ہم پر حاوی ہو گیا۔ قاجار دور، پہلوی دور میں، اس قوم پر یہ آفت آئی۔ انہوں نے قوم کو مضبوط نہیں بنایا۔ لہذا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پہلی بین الاقوامی جنگ اور دوسری بین الاقوامی جنگ - جن میں سے کسی کا بھی ایران سے کوئی تعلق نہیں تھا اور انہوں نے غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا - ہمارے ملک پر قبضہ کیا گیا ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی ملک اپنے دفاع کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ نااہل حکمرانوں کا ناقابل معافی گناہ ہے - کچھ نااہل، کچھ غدار قوم کو اتنا کمزور کردیتے ہیں کہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ یقیناً اس طرح امن ختم ہو جائے گا۔ امن و آمان کو یقینی بنانے کا طریقہ طاقت ہے؛ ایران کے عوام اور ملک کے حکام کو اس بات کو سمجھنا چاہیے: اور ہمیں مضبوط ہونا چاہیے۔
ہم نے کئی بار اس کی تاکید کی ہے: ایران کو مضبوط ہونا چاہیے۔ قوم کو دن بدن خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ آج ایران مضبوط ہے، وہ اپنا دفاع کرسکتا ہے، اپنی حفاظت خود فراہم کر سکتا ہے، اپنی ترقی خود کر سکتا ہے، وہ اس ترقی اور اس طاقت کے فوائد میں دوسروں کی مدد کر سکتا ہے۔ مضبوط ایران کے لیے طاقت ضروری ہے۔ بلاشبہ، طاقت کا مطلب صرف ہتھیار بنانا نہیں ہے۔ سائنسی طاقت، سیاسی صلاحیتیں، انتظامی صلاحیتیں، یہ سب ان چیزوں میں شامل ہیں جو معاشرے کو محفوظ بناتے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارا فرض ہے اور تمام حکام کا فرض ہے کہ وہ تعلیمی میدان میں ترقی ، دفاعی میدان میں ترق ، اسی طرح مختلف میدانوں میں ترقی سے ملک کو مضبوط کریں۔
امنیت کے بارے میں ایک اہم نکتہ - جسے میں یہاں آپ شہداء کے عزیز خاندانوں کی خدمت میں اٹھانا چاہتا ہوں - معاشرے کی "نفسیاتی امنیت" کا مسئلہ ہے جس پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ معاشرے کی نفسیاتی حفاظت؛ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو پریشان نہ کریں، لوگوں کو خوفزدہ نہیں کریں اور تردید و الجھن کا شکار نہ کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ کچھ لوگ جو خبریں دیتے ہیں، جو تجزیہ کرتے ہیں، واقعات کی جو تشریح کرتے ہیں، اس سے لوگوں میں شک اور خوف پیدا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اسے رد کیا ہے؛ قرآن اس لحاظ سے واضح ہے۔ لَئِن لَم یَنتَهِ المُنافِقونَ وَ الَّذینَ فی قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَة؛(۲) قرآن اس معنی میں واضح ہے: یہاں مرجفون سے مراد وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے دلوں میں اضطراب اور خوف پیدا کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے سے باز نہ آئے تو خداتعالیٰ نبی سے کہے گا: "لَنُغریَنَّکَ بِهِم" (۳) ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے پاس جاؤ اور انہیں سزا دو۔ ذہنی و نفسیاتی امنیت کا یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ مرجفون وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی نفسیاتی سلامتی و امن میں خلل ڈالتے ہیں اور افواہیں پھیلاتے ہیں۔ کچھ لوگ جان بوجھ کر مختلف مسائل کے غلط تجزیے پیش کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو سوشل میڈیا سے منسلک ہیں، ان نکات پر توجہ دیں! ہر وہ چیز جو انسانی ذہن میں آتی ہے اسے سوشل میڈیا میں منتشر نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ پہلے دیکھنا چاہیے اس کا لوگوں کی فکر پر، لوگوں کی روح پر کیا اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگ جو سوشل میڈیا کے متعلق اقدام کرنا چاہتے ہیں - جس کا اکثر تذکرہ کیا جاتا ہے اور اس پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے انہیں مسئلے کے اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے۔ اس بات پر توجہ دیں کہ سوشل میڈیا میں غلط تجزیہ، غلط خبر، کسی مسئلے کا غلط تصور لوگوں کو کس طرح پریشان کرسکتا ہے، شک اور خوف کا باعث بنا سکتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو معاشرے کی ذہنی امن کو تباہ کر دیتی ہیں۔ امن و امان کے مساـؑل میں، ذہنی تحفظ کا یہ مسئلہ اہم ہے، اور ملک کے حکام سماجی تحفظ، گلیوں اور بازاروں کی حفاظت، سرحدوں کی حفاظت، اور لوگوں کے گھروں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ان کے فرائض میں سے ہے۔
دشمن بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ آج قوموں اور ملکوں کے دشمن جو ان ملکوں کے وساـــــؑل کو ہتھیانہ چاہتے ہیں ،وہ وہاں اسلحہ لے کر نہیں آتے، بندوقین اور ٹینک اور دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ اس ملک میں داخل نہیں ہوتے، بلکہ سافٹ وار کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ اور سوفٹ وار کے مختلف طریقوں میں سے ایک معاشرے میں لوگوں کا ذہنی سکون خراب کرنا ہے۔ ایک تو یہ ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں، آپ نے دیکھا ہے کہ دشمنوں نے اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے کس طرح سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔ ہمیں اس پر توجہ کرنی چاہیے۔ یہ سیکورٹی کے مسائل سے ہی ربط رکھتا ہے۔
آپ شہداء کے اہل خانہ کو اپنے شہیدوں پر فخر کرنا چاہیے۔ آپ کےجو جوان شہید ہوئے ہیں یقیناً انہوں نے اعلیٰ الٰہی مقام حاصل کیے ہیں -یہ حقیقت ہے کہ آپ کو، آپ کے دلوں کو، آپ کی روحوں کو، آپ کے جذبات کو ان پیاروں کے کھونے سے دکھ پہنچا ہے، لیکن فخر کیجئے؛ کہ وہ اس اچھی راہ میں آگے بڑھے، اور اچھی راہ میں شہید ہوئے، انہوں نے ایک اہم کام کے لیے اپنا سینہ سپر کیا، اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں امن ہے۔ اگر یہ امن کے پاسدار نہ ہوں تو ایرانی عوام کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ ہم سب کو ان کی قدر کرنی چاہیے، آپ کو بھی فخر ہونا چاہیے۔
غاصب صیہونی حکومت کے مسائل کے بارے میں میں مختصراً دو نکات کا تذکرہ کرتا ہوں اور آگے بڑھوں۔ سب سے پہلے یہ کہ دنیا میں غاصب صیہونی حکومت کے متعلق ایک بہت بڑی کوتاہی کی جا رہی ہے۔ بہت سی حکومتیں، خاص طور پر اقوام متحدہ اور اس جیسی بین الاقوامی تنظیمیں صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے میں واقعی ناکام ہو رہی ہیں۔ جو کچھ غاصب صہیونی حکومت نے غزہ میں کیا اور کر رہی ہے، اور لبنان میں کر رہی ہے، وہ سب سے وحشیانہ جنگی جرائم میں شامل ہیں۔ بلاشبہ جنگ آسان نہیں لیکن جنگ کے بھی اصول، اور حدود ہوتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ جب کوئی کسی سے لڑتا ہے تو وہ ان تمام حدوں کو روندے اور کچل دے، جو ظلم یہ مجرم گروہ یہ صہیونی مقبوضہ فلسطین میں کررہے ہیں تو دنیا کو ان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، حکومتوں کو کھڑا ہونا چاہیے، خاص طور پر اسلامی حکومتوں کو انکے مقابلے کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ بحث صرف اس موضوع پر نہیں ہے کہ آیا ہمیں اسرائیل کی مدد کرنی ہے یا نہیں ۔ بلکہ یہ تو سب سے زیادہ حرام چیزوں میں سے ہے۔ اس حکومت کی تھوڑی سی مدد کرنا بد ترین اور بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ بات تو واضح ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کو اسرائیل ان جرائم کے ارتکاب سے روکنا چاہیے۔
اس شیطان صہیونی حکومت کے خلاف جو آج انتہائی وحشیانہ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہےایک عالمی اتحاد تشکیل دیا جانا چاہیے - ایک سیاسی اتحاد، ایک اقتصادی اتحاد، اگر ضروری ہو تو ایک فوجی اتحاد - یہ بات سحیح ہےکہ ، "جنگی جرم" آج کی دنیا میں مجرمانہ عنوانات میں سے ایک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج دنیا میں جنگی جرائم کی مذمت کی جاتی ہے۔ صرف ہم ہی مذمت نہیں کرتے ۔ بلکہ، پوری دنیا، تمام بین الاقوامی عدالتیں - اب چاہے وہ صحیح طور پر تشکیل دی گئی ہوں، یاغیر منصفانہ طور پر تشکیل دی گئی ہوں وہ جنگی جرائم کی مذمت کرتی ہیں۔ اس سے بڑھ کر جنگی جرم کیا ہوگا؟ دس ہزار بچے مارے گئے، دس ہزار عورتیں یا اس سے زیادہ شہید ہوگے۔ ان کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔ دنیا اور بالخصوص عالم اسلام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف عالمی اتحاد تشکیل دینے چاہیے۔
دوسری بات انکی دو دن پہلے کی گیؑ اس شرارت سے متعلق ہے(۴)۔ یقیناً وہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ ان کی اس ھرکت کو بہت بڑا کرنا غلط ہے، لیکن یاد رکھیں کہ اس کو ایک معمولی کام سمجھنا بھی غلط ہے۔ مثلا ہم کہیں کہ ، کچھ نہیں ہوا، کویؑ اتنا اہم نہیں، یہ بھی غلط ہے۔ صیہونی حکومت کی اس اسٹریٹجیک غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ ایران کے حوالے سے وہ خام خیالی کا شکار ہیں۔ وہ ایران کو نہیں جانتے، وہ ایران کے نوجوانوں کو نہیں جانتے، وہ ایرانی قوم کو نہیں جانتے، وہ ابھی تک ایرانی قوم کی طاقت، صلاحیت، جدت عمل اور ارادی قوت کو صحیح طرح سے نہیں سمجھ سکے ہیں۔ ہمیں یہ بات ان کو سمجھانی ہوگی۔ اس کی تشخیص کو ہمارے عہدیدار دیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور انہیں اس بات کو سمجھنا چاہئے اور انہیں وہی کرنا چاہئے جو اس ملک اور اس قوم کے لئے بہتر ہو۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایرانی قوم کون ہے، ایرانی نوجوان کیسے ہیں۔ اور آج جو یہ سوچ، یہ حوصلہ، یہ ہمت، یہ تیاری جو آج ملت ایران میں موجود ہے، امن و امان کی فراہمی کو یقینی بنانے والی ہے۔ اور ہمیں اسکی حفاظت کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کی راہ پر، اسلام کی راہ میں، امام عالی مقام کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے ان عزیز نوجوانوں کو محفوظ رکھے۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
- سورۂ قریش، آيات 3 اور 4 (تو انھیں چاہیے کہ اس گھر (خانۂ کعبہ) کے پروردگار کی عبادت کریں۔ جس نے انھیں بھوک میں کھانے کو دیا اور خوف میں امن عطا کیا۔)
- سورۂ احزاب، آيت 60 (اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہیں پھیلانے والے (اپنی حرکتوں سے) باز نہ آئے ...)
- سورۂ احزاب، آيت 60 (تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لے آئیں گے)
- صیہونی حکومت نے جمعہ 25 اکتوبر 2024 کو عراق کی فضائی حدود سے جو امریکی فوج کے کنٹرول میں تھی، اپنے جنگي طیاروں سے کچھ میزائيل فائر کیے۔ ان میں سے زیادہ تر میزائیلوں کو تباہ کر دیا گيا لیکن اس کے باوجود کچھ میزائيل تہران، ایلام اور خوزستان جیسے صوبوں میں فوجی ٹھکانوں پر گرے جس کی وجہ سے فوج کے ائير ڈیفنس کے کچھ جوان شہید ہوئے۔