بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم الصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین وصحبہ المنتجبین ومن تبعھم باحسان الی یوم الدّین۔
خوش آمدید معزز حضرات، برادران عزیز و مجلس خبرگان کے سرگرم اراکین ۔ جناب بوشھری کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس میٹنگ میں مجلس خبرگان کے حوالے سے جو تفصیلی اور نکات بیان کئے۔ آپ نے اہم باتیں بیان کیں اور مجلس خبرگان کی زبانی ان مسائل کو بیان کیا ۔ اور بہت اہم مسائل اٹھائے۔ کاش ان پر عمل بھی ہو پائے اور آپ انکا مطالبہ کریں، انشاء اللہ، یہ کام ہو سکیں۔
آج جو میں آپ حضرات کے سامنے بیان کرنا چاہوں گا خلاصتا یہی ہے کہ مجلس خبرگان اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے اور ہمارے آئین میں جو اسکی تعریف بیان کی گئی ہے اسلامی جمہوریہ کا انقلابی ترین ادارہ ہے۔ "سب سے زیادہ انقلابی" سے میرا مطلب ہے اسلامی انقلاب سے سب سے زیادہ مرتبط ہے؛ اس لحاظ سے یہ [مجلس ] انقلابی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہاں " انقلابی ترین " سے میری مراد یہ ہے کہ رہبر کے انتخاب میں اس کااہم کردار ہے۔ یہ بہت اہم کام ہے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ مجلس خبرگان اس کے لیے تیار ہے اور اسے تیار رہنا چاہیے۔ اس تناظر میں میں چند جملے پیش کرتا ہوں۔
اسلامی نظام کے مجموعی فریم ورک میں،رہبر کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس نظام کی سمت کو انقلاب کے ہدف کی طرف رکھے ۔ یہ قیادت کی اہم ذمہ داری ہے۔ انقلاب ایک مقصد کے لیے ب وجود میں آیا تھا۔ بلاشبہ تمام انقلابات کے مقاصد ہوتے ہیں، ان کے بنیادی اہداف ہوتے ہیں، اس مقصد کی بنیاد پر وہ زندگی کی سمت کو بدل دیتے ہیں، ۔ اگر ہم اسلامی انقلاب کے ہدف کا خلاصہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ملک میں لوگوں کی زندگیوں میں "توحید" کا حصول ہے۔ علمی اور معرفتی پہلو میں "توحید" ایک ایسی چیز ہے جسے لوگوں کے فھم و سمجھ اور انکی علمی سطح کے حساب سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس مفہوم کو معاشرے میں اس نافذ ہونا چاہیے۔ [یعنی] معاشرے میں توحید تک پہنچاجائے۔ کیونکہ توحید ہی دین ہے۔ یہ دین کی اساس ہے اور پورا دین اسی پر قائم ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کا ہدف ہے، اس میں بہت وضاحت کی ضرورت ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ۔
اسلامی معاشرے کے لیے اس مقصد تک پہنچنے اور ایک توحیدی معاشرہ کی تشکیل کے لیے کوششیں ضروری ہیں اور اس راہ میں رکاوٹیں بھی ہیں۔ اس مقصد کی طرف بڑھنے کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ہیں، اس تحریک کو روکنے کے لئے ایک فکر اور محرکات ہیں۔ جن کا مقصد انقلاب اور نظام کو اپنے ہدف کی طرف بڑھنے اور ترقی و کامیابی سے روکنا ہے۔ [وہ چاہتے ہیں کہ] اسے روکا جائے اور پیچھے دھکیل دیا جائے۔ وہ چاہتےہیں کہ اسی سابقہ صورت حال پر واپس لے آئیں اب چاہے وہ نئے روپ میں، نئے طریقے سے ہی کیوں نہ ہو، لیکن مقصد وہی ہے۔ ہم نے دوسرے انقلابوں میں اس چیز کا مشاہدہ کیا کہ وہ ان انقلابوں کو اپنے مقاصد تک پہنچنے سے روکنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے انقلاب کا راستہ بدل دیا اور واپس پلٹا دیا۔ مثال کے طور پر فرانس کے عظیم انقلاب میں - جو کہ ہمارے دور کے سب سے بڑے انقلابوں میں سے ایک ہے - انقلاب کے آغاز کو پندرہ سال بھی نہیں گزرے تھے،کہ اسی حالت میں جو پہلےتھی واپس لے آئے ، یعنی فرانس میں دوبارہ ایک آمرانہ شاہی حکومت آگئی ۔ تمام عوامی تحریک، فرانس کے مشہور مفکرین کی تحریک، عوام کی کوششیں اور جدوجہد، ہلاکتیں، قتل و غارت، جھڑپیں، یہ سب حقیقتاً رائیگاں گئے اور پندرہ سال سے بھی کم عرصے میں تباہ ہو گئے۔ یہی معاملہ سوویت انقلاب [روس کا انقلاب]میں بھی بدتر شکل میں پیش آیا، جو ایک عظیم انقلاب تھا۔ وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ وہاں، ان دعووں، ان وعدوں اور جس انصاف کا انہوں نے دعویٰ کیا تھا اور جس نام نہاد عوامی کمیونسٹ جمہوریت کا انہوں نے وعدہ کیا تھا، وہ سب ختم ہو گئے اور برباد ہوگئے اور دوبارہ سٹالین جیسا طاقتور ڈکٹیٹر، حکومت میں آگیا اور سب وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یعنی یہ تمام انقلابوں کے لیے خطرہ ہے۔
قرآن پاک میں بارہا اس نکتے کی طرف توجہ دلائی گئے ہے اور اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیات میں بار بار پیٹھ پھیرنے اور اسی گذشتہ صورت حال کی طرف لوٹنے کے بارے میں آیا ہے جس سے انہوں نے نجات پائی تھی اور بچ گئے تھے۔ مومنوں کے حوالے سے بھی اور خود کافروں کے حوالے سے بھی
کفار کو انتباہ دیا جاتا ہے کہ تم اسی ماضی کی روش پر چل رہے ہو۔ سورہ توبہ کی یہ جو آیہ کریمہ ہے کہ " فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الّذین من قبلکم بخلاقھم وخضتم کالّذین خاضوا(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ وہی ماضی کے کام کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تم اسی ماضی کی حالت پر چل رہے ہو۔ یا سورہ ابراہیم کی اس آیہ شریفہ میں کہ "وانذر النّاس یوم یاتیھم العذاب (3) اور پھر یہاں پہنچتے ہیں کہ " وسکنتم فی مساکن الّذین ظلموا انفسھم و تبیّن لکم کیف فعلنا بھم وضربنا لکم الامثال"(4)
قرآن کریم کی متعدد آیات میں مومنین کو بھی مخاطب کرکے انتباہ دیا جاتا ہے اور خبردار کیا جاتا ہے۔ میں نے اس حوالے سے دو تین آیات نوٹ کی ہیں: "یا ایّھا الّذین ءَامَنُوٓاْ ان تطیعوا الّذین کفروا یردّوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین؛(5) یہ سورہ آل عمران میں ہے۔ اگر غفلت کی، اگر ان کی اطاعت کی تو پلٹ جاؤگے، پیچھے کی طرف پلٹ جاؤگے، واپسی ہو جائے گی۔ قرآن کریم خبردار کرتا ہے کہ " یا ایّھا الّذین آمنوا، ان تطیعوا فریقا من الّذین اوتوالکتاب یردّوکم بعد ایمانکم کافرین: (6) یہ بھی سورہ آل عمران میں ہے۔ اور سورہ بقرہ میں فرماتا ہے کہ "ولا یزالون یقاتلونکم حتّی یردّوکم عن دینکم ان استطاعوا(7) یا سورہ بقرہ کی ہی اس آیہ شریفہ میں فرماتا ہے کہ "ودّ کثیرا من اھل الکتاب ود کثیر من اهل الکتاب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفارا (8) یعنی پلٹ جانے، رک جانے اور پیچھے کی طرف واپس ہو جانے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے، بہت اہم مسئلہ ہے اور قرآن نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے. ہم خود اس تاریخ کی حقیقت کو دیکھتے ہیں جو ہم سے قریب ہے اور ماضی میں بھی یہ دیکھا ہے۔
ماضی کی طرف پلٹنے سے روکنے کے لئے ایک عامل ضروری ہے۔ اسلامی نظام میں یہ عامل قیادت اور رہبری ہے۔ یہ انحراف روکنا قیادت کا کام ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بنابریں مجلس خبرگان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ اسمبلی رہبر کے انتخاب کی ذمہ دار ہے۔ اس اسمبلی کی اہمیت یہ ہے۔ اس لئے میں نے عرض کیا کہ مجلس خبرگان انقلابی ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کی حیثیت یہ ہے۔ مصداق کے لحاظ سے ممکن ہے کہ مختلف صورتحال پیش آئے۔ کبھی یہ کام ہو اور کبھی نہ ہو۔ چنانچہ خود رہبر کے لئے بھی ممکن ہے کہ یہ کام کر سکے اور کبھی نہ کر سکے۔ البتہ یہ ناقابل تصور ہے کہ وہ نہ چاہے۔ چاہنے اور نہ چاہنے کا مسئلہ ہی نہیں ہے
مجلس خبرگان کی اس ذمہ داری کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس کا قیام اور اس کا وجود اس لئے ہے کہ اسلامی نظام نہ رکے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام میں کوئی وقفہ نہیں ۔ یہ کونسل ہمیشہ موجود ہے تاکہ اگلے رہبر کا انتخاب کر سکے ۔ یعنی یہ سلسلہ پوری قوت و طاقت اور صلاحیت کے ساتھ جاری رہے گا۔ اس کونسل کی یہ تیاری، اور اسکی موجودگی، یہ معنی رکھتی ہے۔ اگر یہ شخص نہ رہے، مجلس خبرگان فوری طور پر اقدام کرے گی اور اگلے رہبر کا انتخاب کرے گی۔اس طرح ہے۔
یہاں ایک معمولی مفہوم ہے، جو بہت اہم بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ منتقلی ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کسی شخص پر منحصر نہیں ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہر شخص کا ایک اہم کردار ہے، اور ان کے کچھ اہداف ہوتے ہیں ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو انہیں انجام دینی ہیں، لیکن نظام ان سے وابستہ نہیں ہے اور وہ ان کے بغیر بھی اپنی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے، چاہے وہ مخصوص شخص ان میں ہو یا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا اظہار سب سے عظیم پیغمبر، کائنات کی سب سے اہم اور عظیم ترین ہستی کے لیے کیا ہے: افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم؟ یہ آیت جنگ احد میں نازل ہوئی ، یعنی لوگوں کو خبردار کرتا ہے۔ اور ملامت کرتا ہے کہ تم لوگ ، جو رسول اللہ کے قتل کی افواہ سے پریشان ہوگئے ، اور غلط باتیں کرنے لگے ۔ کیا تم لوگ پیغمبر کے نہ ہونے سے پیچھے پلٹ جاؤگے ؟۔ آپ فرض کریں کہ تیسری ھجری میں خدا پیغمبر کو اٹھا لے ۔ اسلامی نظام جو ابھی مضبوط نہیں ہوا ہے ، اس میں ابھی ضروری صلاحیتیں نہیں پائی جاتی ان میں سے پیغمبر کو ہٹا دیا جائے؛ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ لوگوں کا دوبارہ پہلی حالت پر پلٹ جانا قبول نہیں کرتا یہ ثابت کرتا ہے کہ انقلاب کسی شخص پر منحصر نہیں ۔
یہ مجلس خبرگان کے اہم فرائض ہیں؛ یعنی یہاں میں نے جن باتوں کا زکر کیا اس سے مجلس خبرگان کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ طبیعی طور پر، یہ خبرگان کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ مجلس خبرگان کو اپنے انتخاب میں انتہائی احتیاط اور توجہ سے کام لینا چاہیے۔ قیادت کی شرائط آئین میں بیان کی گئی ہیں، جو سب کو معلوم ہے۔ ان شرائط میں سے ایک اہم ترین انقلاب کی راہ اور انقلاب کی منزل پر پختہ یقین ہے۔ یہ اعتقاد اور یقین ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس زمہ داری کو سنبھالنے والے کو انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہونا چاہیے۔ ایسے افراد کی شناخت کرنا جن میں یہ شرایط پائی جاتی ہوں ، اور پھر ان کو منتخب کرنا چاہیے۔ یہ وہ اہم بات تھی جو میں مجلس خبرگان کے متعلق کہنا چاہتا تھا۔
یہ دن ہمارے زمانے کے عظیم مجاہد کی شہادت کے چالیسویں کے ایام ہیں - صحیح معنوں میں ہمارے زمانے کے عظیم اور انتھک مجاہد مرحوم جناب اسید حسن نصر اللہ رحمۃ اللہ علیہ؛ یہ ایام ان کے چالیسویں کے ایام ہیں۔ ہم ان کی یاد کا احترام کرتے ہیں۔ ہم شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید یحییٰ السنور، شہید نیلفروشان اور دیگر شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اپنی تقریر کے آغاز میں ہی میں کہنا چاہتا تھا، لیکن اب عرض کرتا ہوں کہ ہم اس مجلس کے شہداء، شہید رئیسی رحمۃ اللہ علیہ اور شہید الہاشم رحمۃ اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان تمام معزز شہداء کے لیے اللہ تعالیٰ سے بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔
جن معززین کا میں نے ذکر کیا، شہید نصراللہ اور دوسرے شہدا جو ان دنوں شہید ہوئے ، انہوں نے صحیح معنوں میں اسلام کو عزت بخشی اور سربلند کیا، انہوں نے مزاحمتی محاذ کو بھی عزت بخشی اور اس محاز کو دگنی طاقت بخشی۔ ہمارے عزیز سید حسن نصر اللہ شہداء کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور انہوں نے وہ پالیا جس کی انہیں آرزوتھی لیکن انہوں نے یہاں ایک لازوال یادگار بھی چھوڑی اور وہ ہے "حزب اللہ"۔ "حزب اللہ" سید کی بہادری درایت و حکمت عملی ، اور ان کے عجیب صبر اور توکل کی بدولت پروان چڑھی۔ اور اس نے اتنی ترقی کی کہ صحیح معنوں میں ایک ایسی تنظیم بن گئی کہ دشمن ہر قسم کے مادی، ،پروپیگنڈہ، میڈیا وغیرہ کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر بھی اس پر قابو نہیں پا سکا اور انشاء اللہ اس پر قابو نہیں پا سکے گا۔ شہید سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کو ایک ایسی تنظیم میں تبدیل کر دیا۔
امریکہ کی اس جنگ میں شراکت واضح ہے اور سب کو معلوم ہے۔ بے شک امریکی حکومت کے ہاتھ خون آلود ہ ہیں۔ غزہ اور لبنان میں ہونے والے جرائم میں، امریکہ ایک واضح ساتھی ہے، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں پہلے صرف تجزیےو تحلیل کی صورت میں کہا جاتا تھا، لیکن اب سب اس کا مشاہدہ کررہے ہیں حتی کچھ یورپی ممالک بھی دیکھ رہے ہیں میں جس بات کی تاکید کررہا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا کا شکر ہے یہ جدوجہد آج بھی پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے اور لبنان، غزہ اور فلسطین دونوں میں یقینی طور پر حق کی فتح اور مزاحمتی محاذ کی فتح کا باعث بنے گی۔ ہم اس کی امید کرتے ہیں اور ان تمام واقعات سے یہی نتیجہ نکالتے ہیں اور جو وعدہ الٰہی ہے اس سے بھی ہم یقینی طور پر اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں
سب سے پہلے تو وعدہ الہی کی دلیل سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ حوادث اس آیہ شریفہ کے مصداق کامل ہیں کہ "اذن للّذین یقاتلون بانّھم ظلموا و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر" * الّذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الّا ان یقولوا ربّنا اللہ و لولا دفع اللہ النّاس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع وصلوات ومساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا۔
وہ چرچ پر بمباری کرتے ہیں، اسپتالوں پر حملے کرتے ہیں، مسجد پر حملے کرتے ہیں۔ یعنی واقعی وہ آیہ شریفہ "دفع اللہ النّاس بعضھم ببعض" کے مصداق کامل ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس آیت کے بعد بیان کیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ انّ اللہ لقوی عزیز(10) وہ تاکید جو اس عبارت میں پائی جاتی ہے، یہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسروں کو دفع کرنا ہے۔ یعنی مظلوم کے ذریعے ظالم اور مجاہدین فی سبیل اللہ کی مجاہدت سے جارح اور غاصب کو دفع کرنا۔ نتیجہ یہ ہے۔ ولینصرنّ اللہ من ینصرہ" یہ وعدہ الہی ہے۔ یعنی فرمان الہی ہے اور اس میں شک جائز نہیں ہے۔ وعدہ الہی پر شک جائز نہيں ہے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو خداوند عالم نے کیا ہے۔ اب تک وہی ہوا ہے جو خدا نے کہا ہے۔
ایک طرف قرآنی آیات اور خدائی وعدہ ہے تو دوسری طرف ہمارا تجربہ ہے۔ ان کئی سالوں کے دوران، مثال کے طور پر، تقریباً چالیس، تیس سالوں میں، حزب اللہ نے ایک بار بیروت سے، ایک بار صیدا سے، ایک بار صور شہر سے، ایک بار پھر پورے لبنان اور اس کے مختلف شہروں ، گاؤں ،دیہات اور پہاڑی علاقوں سے اس نحس غاصب صہیونی حکومت کو باہر نکالا۔ اس کا مطلب ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ مجاہدان فی سبیل اللہ کے ایک چھوٹے سے گروہ سے وہ ایک بہت بڑی تنظیم میں تبدیل ہو گئے ہیں جس کے پاس اتنی طاقت، ایسی صلاحیت ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اس دشمن کو شکست دے سکتی ہے، جو فوجی ہتھیاروں، پروپیگنڈوں کے ہتھیاروں، سیاسی ہتھیاروں سے لیس ہے۔حتی دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت امریکہ اور اس کے فاسق و فاجر صدور، کی حمایت جسے حاصل ہے اسے پیچھے ہٹنے اور شکست دینے پر مجبور کر دیا۔ یہ ہمارا تجربہ ہے ہم نے یہ سب دیکھا ہے۔ یہی تجربہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ بھی ہوا۔ سنہ 2008 سے لے کر آج تک ان کی صیہونی حکومت کے ساتھ نو بار جھڑپ ہوئی اور وہ ان تمام جھڑپوں میں جیت گئے۔
آج فلسطینی مزاحمت صیہونی حکومت پر غالب آگئی ہے۔ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کے برعکس ہے جو ایک سطحی شخص مشاہدہ کرتا ہے۔ کیونکہ دشمن چاہتا تھا کہ حماس کو جڑ سے ختم کردے لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ اس نے بہت سارے لوگوں کا قتل عام کیا، اپنا قبیح چہرہ پوری دنیا کو دکھایا، اپنی خباثت کا ثبوت دیا، خود کو پوری دنیا میں سب سے الگ کرلیا، مزاحمتی قیادتوں، حماس کے رہنماؤں کو یہ سوچ کر شہید کر دیا کہ حماس کا کام اب تمام ہے۔ جبکہ حماس اب بھی لڑ رہی ہے۔ یعنی صیہونی حکومت شکست کھا گئی ہے۔ اسی طرح حزب اللہ بھی مضبوط ہوگئی ہے۔ اب لبنان اور دیگر جگہوں پر بعض لوگوں نے یہ سوچ کر کہ حزب اللہ اب کمزور ہو گئی ہے، حزب اللہ کے اقدامات پر تنقید کرنے کے لیے اپنا منہ کھول دیا ۔ یہ لوگ دھوکہ کھاگئے ہیں۔ حزب اللہ اب بھی مضبوط ہے اور لڑ رہی ہے۔ ہاں جناب سید حسن نصر اللہ یا جناب سید ہاشم صفی الدین جیسی ممتاز اور اہم شخصیات ان میں شامل نہیں ہیں لیکن [یہ] تنظیم اپنے سپاہیوں کے ساتھ، اپنی روحانی اور معنوی طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ خدا کا شکر ہے اور دشمن ان تنظیموں پر قابو نہیں پا سکے گا اور انشاء اللہ دنیا اور یہ خطہ وہ دن دیکھے گا جب صیہونی حکومت کو واضح طور پر شکست ہوگی۔ انشا اللہ ہم امید کرتے ہیں، آپ سب وہ دن دیکھیں گے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس ملاقات جو چھٹی مجلس خبرگان کے دوسرے سیشن کے اختتام پر انجام پائی، پہلے، اسمبلی کے چیئر مین آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی اور وائس چیئر مین حجت الاسلام والمسلمین سید ہاشم حسینی بوشہری نے کچھ باتیں بیان کیں۔
2۔ سورہ توبہ آیت نمبر 69 ؛" ۔۔۔۔ اور تمہیں بھی جو تمھارا حصہ تھا وہ ملا جس طرح کہ ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے، وہ ملا جو ان کا نصیب تھا اور تم باطل میں ڈوب گئے جس طرح کہ وہ ڈوب گئے تھے۔ ۔۔"
3۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 44 " اور لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جب ان پر عذاب نازل ہوگا۔
4۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 45 " اور ان کے گھروں میں سکونت اختیار کی جنہوں نے خود پر ظلم کیا تھا اور تم پر آشکارا ہو گیا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، اور تمھارے لئے مثالیں قائم کیں۔
5۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 149 "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر ان کی اطاعت کی جو کافر ہو گئے تو وہ تمہیں تمھارے عقیدے سے پلٹا دیں گے اور تم خسارے میں رہو گے۔
6۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 100؛ " اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر اہل کتاب کی اطاعت کی تو وہ تمہیں ایمان کے بعد حالت کفر پر پلٹا دیں گے۔
7۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 217؛" ۔۔۔۔ اور وہ مسلسل تم سے جنگ کرتے ہیں تاکہ اگر ہو سکے تو تمہیں تمھارے دین سے پلٹا دیں۔۔۔"
8۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 109 ؛" بہت سے اہل کتاب کی آروز تھی کہ تمہیں تمھارے ایمان کے بعد کافر بنا دیں۔۔۔"
9۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 144؛" اگر وہ مر جائيں یا قتل کر دیئے جائيں تو کیا تم اپنے عقیدے سے پلٹ جاؤ گے؟۔۔۔"
10۔ سورہ حج آیات 39 و 40؛ " اور جن لوگوں پر جنگ مسلط کی گئی ہے، انہیں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ ان پر ظلم ہوا ہے اور یقینا خدا ان کی کامیابی پر قادر ہے۔ وہ لوگ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔( ان کا کوئی گناہ نہیں تھا) سوائے اس کے کہ کہتے تھے"ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں میں سے بعض کے ذریعے بعض کو دفع نہ کرتا تو صومعے، چرچ، کنیسے اور مساجد جن میں خدا کا نام بہت لیا جاتا ہے، تباہ اور ویران ہو جاتیں۔ اور یقینا خدا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی نصرت کرتے ہیں اور خدا بہت طاقتور اور نا قابل شکست ہے۔