بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.(1)
آپ سب کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ عزیز بھائیو اور بہنو، میں یکایک شہداء کے معزز اور باوقار خاندانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ایک عظیم روایت جو مختلف صوبوں اور شہروں میں شروع ہوئی اور آج بھی ادا کی جاتی ہے وہ ہے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا تقاریب۔ شہداء کی یاد میں تقریب اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام۔ آپ نے بہت اہم کام انجام دیا ہے۔ یہ کام جو آپ دو تین سال سے کر رہے ہیں، اللہ کا شکر ہے، بہت اہم کام ہے۔ تاہم، میرے خیال میں، یہ تھوڑی دیر سے شروع ہوا۔ یعنی لورستان میں جس کی اپنی منفرد خصوصیات اور اقدار ہیں جو کہ واقعی یہاں بکثرت ہیں، مناسب تھا کہ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہوتا۔ کوئی بات نہیں، پھر بھی غنیمت ہے۔ اللہ آپ کو آپ کے کام میں کامیابی عطا فرمائے۔ میں نے باہر جو کچھ دیکھا، اب تک جو کام ہوئے ہیں، کتاب (تالیف) سے لے کر مختلف سرگرمیاں، یہ سب بہت قیمتی کام ہیں، بہت اچھے کام ہیں۔ معزز امام جمعہ اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر کے بیانات سے بھی معلوم ہوا کہ اس موضوع کے نتائج اور اس عمل کے حقیقی اہداف پر بہت زیادہ توجہ ہے۔ انشاء اللہ، آپ کامیاب و کامران رہیں۔
میں لورستان کے عوام اور لور قوم کے بارے میں تھوڑی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔ ان میں زبردست خصوصیات ہیں۔ میں نے جہاں تک لور قوم اور اسکیمختلف طبقات کی عظیم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کے مطابق اس قابل ذکر قوم کی دو خصوصیات ان کی دیگر خصوصیات سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک تو ہمت اور بہادری کی خصوصیت ہے۔ یہ لوگ جہاں بھی ہوں، میدان جنگ میں، اپنے ایمان کے اظہار میں، مختلف سماجی پلیٹ فارمز پر ہمت اور بہادری رکھتے ہیں۔ یہ بہادر اور دلیر لوگ ہیں۔ ایک اور خصوصیت جو میری نظر میں بہت اہم ہے وہ ہے دوستی، خلوص اور وفاداری۔ لور قوم کے لوگوں کی یہ خصوصیت واقعی بہت نمایاں ہے۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق، اگرچہ میں نے کچھ باتیں دوسروں سے سنی ہیں، لیکن اپنے ذاتی تجربے کے مطابق، یہ دونوں خصوصیات کچھ دوسری خصوصیات کے ساتھ واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ مرحوم سید حسن طاہری خرم آبادی، شہید سید فخرالدین رحیمی، مرحوم سید جعفر شہیدی، ڈاکٹر شہیدی، شہید بروجردی، یہ لوگ جن کے اخلاق، طرز عمل، طرز فکر اور طرز زندگی کو ہم نے قریب سے دیکھا ہے، وہ واقعی عظیم ہیں۔ نمایاں لوگ ہیں۔ یا مرحوم الحاج آقا روح اللہ کمالوند، جن کی شخصیت کو بہت کم وقت میں، محدود وقت میں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، اس کے علاوہ ان کے بارے میں بہت سی باتیں سننے کو ملی۔ مجھے یاد ہے کہ 1963 میں جب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ تہران میں طویل عرصے تک نظر بند تھے اور قم میں انقلابی جوش و خروش اور تحریکی سرگرمیاں قدرے ماند پڑ گئی تھیں، مرحوم الحاج آغا روح اللہ کمالوند نے قم کا دورہ کیا۔ ہم میں سے چند لوگوں نے ان سے لوگوں کو متحرک کرنے کی درخواست کی۔ یعنی ان میں ایسی صلاحیت تھی۔ علماء و مشائخ میں ان کی بڑی عزت تھی۔
البتہ ان لوگوں کی خصوصیات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ تاہم یہ دونوں خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔ یہ بہادری کا جذبہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے، جس کی وجہ سے 'پہلوی اول' کے بدنام زمانہ دور حکومت میں لور قوم کے لوگوں کو شدید جبر، قتل عام، جلاوطنی، قید اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لوگ واقعی ان لوگوں کی بہادری سے ڈرتے تھے۔ اس لیے وہ قبل از وقت کارروائی کرکے ان پر دباؤ ڈالتے تھے۔ دوسرے خطوں کے لوگوں میں جو چیز مقبول تھی وہ یہ خصوصیت تھی۔ مثال کے طور پر مشہد میں ہمارا لرستان سے کوئی رابطہ نہیں تھا لیکن ہم اپنے اردگرد جدوجہد سے وابستہ نوجوانوں کی باتین سنتے تھے، وہ بہت سی باتیں بیان کرتے اور بتاتے تھے۔ اہل مشہد قومِ لور کے لیے ایک شعر پڑھا کرتے تھے:
"دایہ دایہ وقت جنگ است۔" (اے ماں! اے ماں! جنگ کا وقت آ گیا ہے۔)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ مرد مجاہد ہیں، وہ بھی 1963 اور اس کے بعد کے شدید جبر کے دوران۔
تاہم، میں یہاں ایک اور نکتہ بیان کرتا ہوں۔ آج کے نوجوانوں کے لیے ملت ایران کی حقیقی تصویر کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے جیسا کہ قوم کی ساخت کے مختلف اجزاء۔ گزشتہ سو سالوں میں لور قوم کی تاریخ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ پہلوی دور سے متعلق ہے۔ یہ ظلم کا دور ہے، بے شک یہ بہت مظلوم تھے۔ دوسرا حصہ اسلامی جمہوریہ کے دور سے متعلق ہے۔ یہ اس قوم کے مختلف میدانوں میں ابھرنے، بلندیوں پر جانے اور اپنی روشنی پھیلانے کا دور ہے۔ ان دونوں حصون کو ایک ساتھ محفوظ کرنا چاہیے۔ خاص کر نوجوانوں کی اپنی تاریخ سے آگاہی کے لیے تاکہ قوم کی تاریخ کی یاد کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ان دو حصوں کو محفوظ کیا جانا چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کیا جانا چاہئے۔ ایک طرف جبر ہے اور دوسری طرف جنگ کے کارنامے ہیں، ایک طرف ظلم ہے جس کی وجہ سے مختلف میدانوں میں قوم کی صلاحیت ابھر نہیں سکی اور اسے کچل دیا گیا۔ اسکے بعد دوسرا حصہ اور دوسرا باب شروع ہوتا ہے جب زمینہ کھلتا ہے تو صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ عظیم شخصیتیں ابھرتی ہیں۔ جن شخصیات کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر مرحوم شہداء اسلامی جمہوریہ سے پہلے کے دور میں بھی تھے لیکن یہ چہرےے اسلامی جمہوریہ کے دور میں مزید نکھرے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ سے پہلے وہی شخص جس نے تعلیم حاصل کی تھی، ترقی کی تھی، ایک ممتاز مقام بھی حاصل کیا تھا، لیکن وہ مایہ ناز مقام اور بلندی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اسلامی جمہوریہ نے آزادانہ ماحول فراہم کیا تو ان کی روشنی دور تک پہنچ گئی۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، توجہ دی جائے۔ تاریخ کے ان دونوں ادوار میں سے کسی چیز کو بھی فراموش نہیں ہونے دیا جانا چاہیے۔ ان دونوں ادوار کو آنکھوں کے سامنے رکھیں اور ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کریں۔ اسلامی جمہوریہ کے دور میں، لور کا علاقہ، خواہ وہ صوبہ لورستان ہو یا لورستان سے باہر کا علاقہ لیکن اس میں لور قوم آباد ہے، واقعی شاندار کارکردگی کا مالک بن گیا۔ اب حضرات نے باتیں کی، رپورٹیں پیش کین، جو سچی اور درست رپورٹیں تھیں۔ اتنے شہید، اتنے طلباء اور اساتذہ، شہید خواتین، شہید علماء، شہید دانشور، یا دیگر شخصیات جو موجود تھیں۔ یا دفاعی شعبے سے منسلک یونٹس، واقعی شاندار کارنامے، انہوں نے رقم کئے اور مختلف شعبوں میں تعاون کیا اور آج تک اللہ کا شکر ہے، یہ سلسلہ جاری ہے۔
میں غزہ کے مسئلے کے حوالے سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ اس وقت عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ فلسطین کا مسئلہ اور غزہ میں رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ یہ سب مستقبل کی تعمیر کے معاملات ہیں۔ غزہ کا مسئلہ ایک طرف ظلم کی داستان ہے اور دوسری طرف طاقت و استحکام کا آئینہ ہے۔ بے شک غزہ کے لوگ واقعی مظلوم ہیں۔ اس دہشت گرد غاصب بھیڑیے نما خونخوار دشمن کے جرائم کی کوئی حد نہیں۔ یعنی وہ ایک بم دھماکے میں ایک ہزار لوگوں کو مار دیتے ہیں۔ یہ صورتحال ہے۔ کوئی حد نہیں ہے۔ لوگوں کی مظلومیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے۔
لیکن اس ظلم کے ساتھ ساتھ دو اہم چیزیں بھی ہیں۔ ایک ان لوگوں کا صبر اور ان لوگوں کا توکل۔ یہ لوگ واقعی بڑے صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے کچھ مناظر بین الاقوامی میڈیا اور ہمارے میڈیا نے دکھائے۔ بیٹا شہید ہوا، باپ رب کی حمد کرتا ہے۔ اس کا بیٹا شہید ہو گیا ہے اور وہ کہتا ہے فلسطین کے لیے قربان! زخمی حالت میں نوجوان اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور قرآن کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ ان لوگوں کا یہ صبر بہت اہم ہے۔ دشمن ان لوگوں کو زیر کرنے کی کوشش کر رہا تھا، چاہتا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ وہ جھکے نہیں، سر تسلیم خم نہیں کیا۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ توکل اور صبر ان کی مدد کرے گا، یہ ان کی فتح کا راستہ ہموار کرے گا اور آخر کار ان کی فتح ہوگی۔
یہاں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس واقعہ میں غاصب حکومت (2) کو فلسطینی مجاہدین کے حملے سے ایک دھچکا لگا ہے۔ آج تک اس حکومت کو اتنا گہرا دھچکا نہیں پہنچا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا (3) اسے دوبارہ پر کرنا ممکن نہیں ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے یہ زیادہ سے زیادہ واضح ہوتا جاتا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ کے صدر، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ظالم اور طاغوتی ممالک کے لیڈر یکے بعد دیگرے وہاں جا رہے ہیں! اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ (ظالم صیہونی حکومت) بکھر رہی ہے۔ یہ دیکھ کر کہ وہ تباہ ہو رہی ہے۔ اسے تباہی سے بچانے کے لیے وہاں جارہے ہیں۔ اگر قابض حکومت کو ٹوٹ پھوٹ اور فنا کا خطرہ لاحق نہ ہوتا تو دنیا کے یہ شریر لوگ وہاں جا کر اظہار ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ ضرب کاری اور فیصلہ کن تھی۔ یہ زخمی، چوٹ زدہ اور درحقیقت زمین بوس حکومت، جو اسے ہتھیاروں اور بموں وغیرہ کی مدد سے کھڑا رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، چونکہ جانبازوں کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ بگاڑ پائے گی، اس لیے وہ مظلوم اور غریب عوام سے اپنا بدلہ لے رہی ہے اور ان پر بمباری کررہی ہے۔ جبکہ مجاہدین اس دوران مسلسل کارروائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور ان کا جذبہ، ہمت اور توانائی قائم ہے۔ انشاء اللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی غزہ کے بارے میں بات کرے اسے عوام کے صبر و استقامت اور مجاہدین کی طاقت و قوت کی بات کرنی چاہیے۔ ورنہ ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ واقعی جو صبر انہوں نے دکھایا ہے (یہ بہت اہم ہے۔)
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس (غزہ) معاملے میں امریکہ مجرموں کا یقینی ساتھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان جرائم میں امریکہ کے ہاتھ مظلوموں، بچوں اور بیماروں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ درحقیقت وہ ان مجرمانہ کارروائیوں کی تدبیر کر رہا ہے جو غزہ کے خلاف کی جا رہی ہیں۔
ان جرائم کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا کہ عالمی رائے عامہ ہل کر رہ گئی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ امریکی شہروں میں، یورپی شہروں اوردارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک میں بھی کھل کر اپنی مخالفت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اگرچہ یورپی ممالک میں، جو آزادی اظہار کے بڑے دعوے دار ہیں، غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے والے جلوسوں میں عوام کی شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ بھی ان کے ذلت آمیز کاموں میں سے ایک ہے۔ ہر چیز کے لیے جلوس نکالنے کی اجازت ہے، مظلوم کے دفاع میں، جلوس پر پابندی لگا دی گئی ہے! لیکن لوگوں نے کان نہیں دھرے، آپ نے ٹیلی ویژن پر تصاویر میں دیکھا کہ لوگ باہر نکلے اور شرکت کی۔ دنیا بھر کے لوگ غم و غصے کا شکار ہیں، معلوم ہے کہ عوام میں جو غصہ پیدا ہوا ہے، ان ممالک میں جو جذبات مجروح ہوئے ہیں، اس کا ردعمل آئے گا اور اس ردعمل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کتنی ہی کوشش کریں، آپ اس ردعمل کو روک نہیں پائیں گے۔
میں تاکید کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مسلم حکومتوں کو اس معاملے میں کسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ بات ذہن میں نہ آنے دیں کہ اگر امریکیوں اور بعض مغربی ممالک نے کوئی احمقانہ حرکت کی ہے اور اپنے وطن اور مٹی کے دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں تو ان پر فرض ہے کہ وہ وہی لفظ دہرانا شروع کر دیں۔ کیا جو لوگ اپنے وطن اور مٹی کا دفاع دشمنوں سے کر رہے ہیں کیا وہ دہشت گرد ہیں؟ دہشت گرد وہ جعلی اور ظالم حکومت ہے جس نے ان کے گھر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسلامی حکومتوں کو توجہ دینی چاہیے، سیاسی ترجمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ انکی بات نہ دہرائیں۔ یاد رہے کہ موجودہ مسئلہ اور مستقبل میں ہونے والے واقعات میں فتح فلسطین کی ہوگی۔
مستقبل کی دنیا فلسطین کی دنیا ہوگی نہ کہ غاصب صیہونی حکومت کی دنیا۔ مستقبل ان (فلسطینیوں) کا ہوگا۔ بے شک وہ (صیہونی) مظالم کر رہے ہیں، جرائم کر رہے ہیں، المیے پیدا کر رہے ہیں، لیکن جو کچھ بھی وہ کر رہے ہیں وہ رائیگاں ہے، ان شاء اللہ رب العزت کی مرضی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم اسلام اور امت اسلامیہ کی بھلائی اور خیر کو اس کی تقدیر میں لکھے گا اور ان شاء اللہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کو ذلیل و خوار اور رسوا کرے گا۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
1. اس میٹنگ کے آغاز میں صوبہ لرستان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور خرم آباد کے امام جمعہ حجۃ الاسلام سید احمد رضا شاہ رخی اور صوبہ لرستان میں آئی آر جی سی کے کمانڈر اور سیمینار کے سیکرٹری سردار مرتضیٰ کشکولی نے رپورٹیں پیش کیں۔
2. فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے 7 اکتوبر 2023 بروز ہفتہ طوفان الاقصیٰ کے نام سے ایک وسیع آپریشن شروع کیا اور چند ہی گھنٹوں میں بڑی تعداد میں صیہونیوں کو ہلاک، زخمی اور جیلوں میں ڈال دیا۔
3. مسلح افواج کی گریجویشن یونیورسٹیز کی تقریب سے خطاب مورخہ 10 اکتوبر 2023