بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب والابصار، یا مدبّر اللیل و النّهار، یا محوّل الحول و الاحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال.
میں ایرانی قوم کے ہر فرد کو، خاص طور پر شہداء، جانبازوں، اہل ایثار اور سماجی خدمت کرنے والوں کے گھرانوں کے ساتھ ساتھ نوروز کا تہوار منانے والی دیگر اقوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انشاء اللہ آپ سب کو اس عید کی خوشیاں نصیب ہوں۔
اس سال فطرت کے موسم بہار اور روحانیت کے موسم بہار یعنی رمضان کا ایک ساتھ آغاز ہورہا ہے۔ جس طرح نے موسم بہار کے بارے میں کہا گیا ہے: "اپنے جسم کو موسم بہار کی ہوا سے نہ ڈھانپو" (1)، رمضان کی روحانی بہار کے بارے میں بھی، ہمیں اس جملے پر بھی کاربند رہنا چاہیے: «ألا فتعرّضوا لها»، «إنّ فی ایّام دهرکم نفحات ألا فتعرّضوا لها» (2)۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روحانیت کی ہوا ہر ایک کیلئے فراہم ہے اور ہمیں خود کو آمادہ کرنا چاہیے۔ آئیے اپنے دلوں کو اس روحانی، الہی اور معطر ہوا سے روشن کریں۔
اس گھڑی کی اپنی اس گفتگو میں، میں سال 1401 پر ایک مختصر نظر ڈالتا ہوں، اس سال 1402 پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالتا ہوں جو اب شروع ہوا چاہتا ہے۔ . سال 1401 مختلف پیچیدگیوں سے بھرا ہوا تھا - معاشی پیچیدگیاں، سیاسی پیچیدگیاں، سماجی پیچیدگیاں - کچھ شیریں کچھ تلخ، مجموعی نقطہ نظر میں انسانی زندگی کے تمام سالوں کی طرح اور ، ایرانی قوم کیلئے خاص طور پر اسلامی انقلاب کے بعد کے تمام سالوں کی مانند۔ میری رائے میں 1401 میں قوم کے لیے سب سے اہم مسئلہ ملکی معیشت کا مسئلہ تھا جس کا براہ راست تعلق لوگوں کی معاش سے ہے۔ یہاں بھی معیشت کے معاملے میں تلخیاں تھی، خوشخبریاں بھی تھیں۔ کچھ حصوں میں جن کا میں اب ذکر کروں گا، تلخیاں تھیں، اور بعض صورتوں میں جو معیشت کا مسئلہ بنتے ہیں، آسانیاں تھیں۔ ان کو ایک ساتھ، مجموعی طور سے دیکھا جانا چاہیے، اور ان کا مجموعی نتیجہ اخذ کیا جانا چاہیے۔ تلخی بنیادی طور پر مہنگائی تھی، افراط زر تھی جو واقعی تلخ ہے۔ خاص طور پر اشیائے خورد و نوش اور بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کہ جب اشیائے خوردونوش اور بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں بہت بڑھ جاتی ہیں تو سب سے زیادہ بوجھ معاشرے کے نچلے طبقے پر پڑتا ہے۔ کیونکہ انکے گھریلو اخراجات میں خوراک اور زندگی کے اہم اور ضروری سامان کا سب سے زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے دباؤ ان پر زیادہ ہے اور یہ یقیناً ان تلخ باتوں میں سے ایک تھی اور میرے خیال میں ملک کے بیشتر معاشی مسائل میں یہ نکتہ زیادہ بنیادی اور اہم نکتہ تھا جو تلخ تھا۔
یقیناً معیشت کے شعبے میں اچھے اقدامات بھی کئے گئے ہیں اور ایسی تعمیرات جو معیشت کی بہتری کا باعث بنتی ہیں، جن کے بارے میں میں اب کہوں گا کہ ان تعمیرات کی سنجیدگی سے پیروی کی جانی چاہیے تاکہ ان سے لوگوں کی سطح زندگی اور معاش بہتر ہو۔ پیداوار کی حمایت کی گئی، سال 1401 کے دوران میرے پاس موجود معلومات کے مطابق، ملک میں پیداوار کی حمایت کی گئی ہے۔ کئی ہزار معطل اور نیم معطل فیکٹریاں بحال کی گئیں۔ نالج بیسڈ کمپنیوں میں اضافہ ہوا، حالانکہ میں نے پچھلے سال جس تعداد میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا وہ تعداد پوری نہیں ہوسکی، لیکن ان کمپنیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ ان کمپنیوں کی مصنوعات کی قدر میں بھی اضافہ ہوا۔ اور روزگار کے معاملے کو ایک دھکا ملا، یعنی بے روزگاری میں کچھ فیصد کمی ہوئی - خواہ وہ تھوڑا سی ہی کیوں نہ ہو - اور روزگار میں کچھ اضافہ ہوا، جو کہ غنیمت ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری صنعتکاروں کی طرف سے منعقدہ نمائش کے ساتھ ساتھ حسینیہ میں ہونے والی نشستیں، جہاں ملک کے بڑے صنعتکار آئے اور ان میں سے کچھ نے تقریر کی، واقعی خوش گوار نشست تھی۔ ملک میں صنعتکاروں کی پیداوار کے بارے میں میری رائے ایک مثبت رائے ہے اور کچھ اچھا کام کئے گئے۔ کچھ اقتصادی اشارے بڑھے؛ انشورنس میں، ہمارا انڈیکس ایک اچھا انڈیکس ہے۔ تعمیرات میں پانی، گیس، سڑک، ماحولیات کے شعبوں میں ان شعبوں میں اچھے کام ہوئے۔ بلاشبہ، جیسا کہ میں نے ذکر کیا، اب میں پھر زور دیتا ہوں، یہ کام لوگوں کی زندگیوں میں نظر انے چاہئیں، یہ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری کا باعث بنیں۔ یہ کب کیا جائے گا؟ ایسا کب ہوتا ہے؟ جب یہ جاری رہے گا، جب اس کے پیچھے مفصل اور سنجیدہ منصوبے ہوں گے، جو انشاء اللہ اس سال 1402ء میں بھی جاری رہیں تاکہ یہ تعمیری سرگرمیاں لوگوں کی زندگیوں میں خوشحالی کا باعث بنیں اور لوگوں خصوصاً کمزور طبقوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ البتہ یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معاشی مسائل صرف ہمارے لیے ہی نہیں ہیں۔ آج دنیا کے بہت سے ممالک یا کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو خاص اقتصادی مسائل درپیش ہیں، یہاں تک کہ امیر ممالک، مضبوط اور ترقی یافتہ معیشتوں کے حامل ممالک حقیقت میں بہت سے مسائل اور مخمصوں سے دوچار ہیں۔ ان میں سے کچھ ہم سے بھی بدتر ہیں۔ مضبوط معیشتیں بینکوں کے دوالیہ ہونے کا شکار ہیں جن کے بارے میں آپ نے حال ہی میں سنا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ کی خبریں باہر آئیں، کچھ کو نہیں آئیں اور اب انکی خبریں بھی نشر کی جائیں گی۔ بینکوں کا دیوالیہ پن ہے، کچھ ممالک پر کھربوں کے غیر معمولی قرضے ہیں، جو ایک مسئلہ ہے، یہ وہاں بھی ہے، یہاں بھی ہے۔ وہ بھی اسے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے، ہمیں کام کرنا چاہیے، حکام کو کوشش کرنی چاہیے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ اقتصادی کارکنوں اور سیاسی و ثقافتی کارکنوں کی تمام کوششیں 1402ء کو ایرانی قوم کے لیے ایک شیریں سال بنانے کے لیے ہونی چاہیے۔ یعنی کچھ ایسا کرنا چاہیے، ہم سب کا فرض ہے کہ اس سال کو عوام کے لیے ایک خوشگوار سال بنائیں، انشاء اللہ۔ تلخیاں کم ہو سکیں اور آسانیاں بڑھیں اور کامیابیوں میں اضافہ ہو، انشاء اللہ۔
خیر، اب سال 1402 سے متعلق; میری رائے میں 1402 میں ہمارا اصل مسئلہ معاشی مسئلہ ہے۔ یعنی ہمارے مسائل کم نہیں ہیں، ثقافتی میدان میں، سیاسی میدان میں مختلف مسائل ہیں، لیکن اس سال اہم اور مرکزی مسئلہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ یعنی اگر ہم ان شاء اللہ معاشی مسائل کو کم کریں اور ان شاء اللہ حکام اس میدان میں کوشش کریں، احتیاط کریں اور اہم کوششیں کریں تو ملک کے دیگر بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ حکومت، پارلیمنٹ، اقتصادی فعال عناصر، اور نوجوان اور باہمت لوگوں کے مجموعے کہ میں ان میں سے کچھ گروہوں کو جانتا ہوں اور مجھے ان میں بہت دلچسپی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ ان معاشی شعبوں میں بہت اچھا کام کرتے ہیں۔ ان کی تمام کوششوں کا مقصد ملک کے مسائل اور عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ہونی چاہیے۔ اب یہ مدد بعض اوقات بنیادی معاشی سرگرمیوں سے متعلق ہوتی ہے، جیسے کہ پیداوار، جو کہ معیشت میں ایک بنیادی سرگرمی ہے، یعنی پیداوار معیشت میں ایک بنیادی کام ہے۔ یا میں یہ کہوں کہ انسان دوست اور خیراتی کام جیسے خیرات اور لوگوں کی امداد اور معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ لوگوں کا تعاون۔
البتہ، جب میں نے پیداوار کہا، میں نے پیداوار پر انحصار کیا، تو پیداوار کے علاوہ سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ معزز حکومتی عناصر اور پرائیویٹ سیکٹر کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، ہم 90 کی دہائی میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ سرمایہ کاری، ہمارے ملک میں ایک اہم خلا سرمایہ کاری کا مسئلہ ہے۔ سرمایہ کاری ضرور انجام پانی چاہیے جو کہ یہ بھی ایک اہم کام ہے۔
خیر، میں تمام پہلووں پر غور کرتے ہوئے، مہنگائی اور ملکی پیداوار وغیرہ، وہ چیزیں جو اہم ہیں، مہنگائی اور افراط زر، جو بنیادی مسئلہ ہے، ملکی پیداوار، جو یقیناً ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کی کنجیوں میں سے ایک ہے، ان چیزوں پر غور کرتے ہوئے اس سال کا نعرے کو یوں اعلان کرتا ہوں: "مہنگائی پر قابو، پیداوار میں اضافہ"، یہ سال کا نعرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہدیداروں کی تمام کوششیں ان دو مسائل پر مرکوز ہونی چاہئیں۔ پہلے درجے پر حکام، دوسرے درجے میں، جیسا کہ میں نے کہا، فعال اقتصادی اور عوامی عناصر اور جو عناصر کچھ کرنے کی توان رکھتے ہیں، اور ثقافتی عناصر، ریڈیو اور ٹیلی ویژن، جو ان شعبوں میں ثقافت سازی انجام دیں، ان سب کو ان دو اہم نکات پر مرکوز ہونا چاہیے، افراط زر پر قابو پانا، واقعی مہنگائی کو کم کرنا اور ہر ممکن حد تک کم کرنا اور پیداوار کے مسئلے کو بڑھانا۔ لہذا، [سال کا نعرہ] مہنگائی پر قابو اور پیداوار میں اضافہ انتخاب کیا گیا۔
میں اللہ تعالیٰ سے سب کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں، میں اپنا سلام اور اپنی عقیدت روحِ کائنات حضرت بقیۃ اللہ ع کی خدمت میں پیش کرتا ہوں، ہماری جانیں ان ہر قربان ہوں۔ عظیم امام خمینی رح اور ہمارے عزیز شہداء کی پاکیزہ ارواح کے لیے اللہ تعالی سے درجات کی بلندی کی دعا کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ملت ایران کی خوشیوں اور مسرتوں کے لیے دعا گو ہوں۔
کچھ اور باتیں بھی ہیں جو انشاء اللہ تقریر میں عرض کروں گا۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) مثنوی مولوی، دفتر اوّل
۲) عوالی اللئالی، ج۴، ص ۱۱۸