بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین والصلات و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاھرین سیما بقیہ اللہ فی الارضین۔
ہم آپ عزیز دوستوں اور شعراء سے ملاقات کے بے حد منتظر تھے۔ الحمدللہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور ہم یہاں ایک بار پھر ہمیں اس مجموعے سے ملنے اور ان کے خیالات، دلوں اور روحوں کی پیداوار (شعر ) سے مستفید اور لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، جو کہ حقیقی معنوں میں بہت قیمتی ہے۔ یعنی اچھی شاعری سے جو لطف انسان کو ملتا ہے وہ اعلیٰ ترین لذتوں میں سے ہے۔
خوش قسمتی سے ملک میں شاعری کا دائرہ وسعت پاچکا ہے۔ شعر کی تعداد میں اضافے کے معنی میں بھی اور سامع کی تعداد میں اضافے کے معنی میں بھی۔ یہ ایک موقع ہے اور اس موقع سے استفادہ کرنا چاہیے۔ شاعری ایک ذریعہ ہے۔ یہ ایک موثر ذریعہ ہے۔ ایک دور ایسا گزرا ہے جب دنیا کا واحد بااثر میڈیا - یعنی اسلامی دنیا جہاں تک ہم جانتے ہیں - شاعری تھی۔ شاعر شعر کہتا تھا اور یقیناً اچھا شعر تیزی سے منتشر ہوتا تھا اور لوگ اسے سنتے تھے۔ دعبل نے خراسان میں اپنے مشہور شعر پڑھے تو حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس کو عربی لباس دیا اور انعام سے نوازا۔ خیر وہ باہر نکلا اور قم پہنچا۔ قمیوں نے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ امام ع نے آپ کو عربی لباس دیا ہے، وہ ہمیں دے دیں۔ اس نے کہا نہیں؛ انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ اس کا ایک ٹکڑا دے دو۔ وہ راضی نہیں ہوا۔ وہ ایک قافلے کے ساتھ قم سے روانہ ہوا اور راستے میں ایک راہزن، جو صحرا میں قافلوں پر حملہ کرنے والوں میں سے تھا، ان کے پاس پہنچا اور ان کو روکا اور ان کا سارا مال ان سے چھین لیا۔ چوروں کا سردار ایک چٹان پر بیٹھا تھا۔ چور ایک ایک کر کے اس کارواں کا سامان کھول رہے تھے، لے جا رہے تھے، سمیٹ رہے تھے، اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
اَریٰ فَیئَهُم فی غَیرِهِم مُتَقَسِّماً
وَ اَیدِیَهُم مِن فَیئِهِم حَسَراتٍ(۲)
شعر کا مفہوم یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ میرا مال جو مجھ سے متعلق ہے، کھو رہا ہوں۔ [چوروں کا سردار] قافلوں کو یہ کہہ رہا تھا، جن کے ہاتھ خود اس فیء سے خالی ہیں; یعنی کہ یہ ان کا اپنا مال، دوسروں کا ہاتھ میں ہے۔ یہ اسی دعبل کی نظم کا ایک شعر تھا۔ دعبل نے کہا جا کر پوچھو کہ تم نے یہ نظم، یہ شعر جو تم نے پڑھا کس نے کہا ہے۔ قافلہ والوں میں سے ایک نے جا کر پوچھا کہ یہ نظم جو تم نے پڑھی کس کی ہے، یہ شعر کس کا ہے؟ اس نے کہا کہ اس کا شاعر دعبل ہے۔ اس نے بتایا کہ دعبل یہاں ہے۔ اس نے پوچھا کہاں ہے؟ انہوں نے اسے دعبل دکھایا۔ دعبل نے آگے بڑھ کر کہا ہاں یہ نظم میری ہے۔ میں [دعبل] ہوں۔ اس نے حکم دیا کہ جو کچھ چور لے گئے تھے وہ انہیں واپس کر دیا جائے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں: "ذرائع ابلاغ" کا مطلب یہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ نظم خراسان میں رجب کے مہینے میں کہی گئی تھی، ایک چور نے اسے شعبان کے مہینے میں یاد کیا اور اس میں سے ایک شعر پڑھا اور اس سے تشبیہ دینا چاہی۔ شعر اسطرح منتشر ہوتا تھا، اسطرح پھیلتا تھا۔ میڈیا [تھا]۔ آج، بلاشبہ، میڈیا کے ذرائع مختلف ہیں، لیکن شاعری اپنی جگہ قائم ہے؛ شاعری کی مانند میڈیا میں سے کوئی بھی ذریعہ اس خاص معنوں میں بااثر نہیں ہے۔ بلاشبہ، کچھ میڈیا، جیسے سنیما، شاید شاعری سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں - بصری میڈیا اور اس جیسے - لیکن یہ (اثر ) ختم ہوجاتا ہے، اسے بھلا دیا جاتا ہے۔ آپ نے فلم ایک بار دیکھی، دو بار دیکھی، بھلا دی جائے گی، لیکن یہ شعر باقی ہے، رہے گا، یہ نظم ہزار سال رہے گا۔ یہ شاعری کی خصوصیت ہے۔ اس لیے شاعری ایک موثر اور دیرپا ذریعہ ہے۔
فارسی شاعری کے بارے میں ایک بات ہے اور وہ یہ ہے کہ فارسی شاعری کی ایک خصوصیت علمی اور روحانی سرمائے کی پیداوار ہے۔ دیگر اشعار میں، جہاں تک ہم جانتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ موجود نہیں ہے، لیکن اس شدت میں موجود نہیں ہے۔ یعنی ہم فارسی شاعری کی قابل فخر ہستیوں پر نظر ڈالتے ہیں، یا وہ حکیم ہیں - [جیسے] نظامی یا حکیم فردوسی؛ فردوسی ایک حکیم ہیں، اور شاہنامہ واقعی حکمت کی کتاب ہے- یا تو وہ علم، تصوف اور روحانیت کے مولانا (رومی) ہیں، یا وہ قرآن کے حافظ(شیرازی) ہیں، یا سعدی کی طرح ان کی کتاب حکمت اور روحانیت سے بھری ہوئی ہے۔ آپ اسی طرح اوپر سے لے کر نیچے تک آجائیں یہاں تک کہ ہم سعدی، حافظ، جامی، صائب، بیدل تک پہنچ جائیں۔ دیکھیں، یہ سب حکیم ہیں، ان سب کے [اشعار] حکمت ہیں۔ یعنی ہماری شاعری، فارسی شاعری، حکمت کی علمبردار، علم کی علمبردار رہی ہے، ہمارے روحانی سرمائے کو محفوظ کیا اور اس میں اضافہ کیا۔ یعنی اگر آپ علم کی ایک خاص سطح پر ہیں، جب آپ مثلاً رومی کی مثنوی پڑھتے ہیں تو یہ علم بڑھتا ہے۔ یعنی معرفت میں اضافے کا باعث ہیں، وہ اس سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں، اور صرف سرمائے کی حفاظت نہیں ہے۔ یہ فارسی شاعری کی خصوصیت ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس سرمائے کی تشکیل اور سرمائے کا تحفظ انتہائی مشکل حالات میں ہوا۔ مثال کے طور پر منگول حملے کے دور میں۔ آپ نے دیکھا کہ منگول حملے کے دوران ہمارے پاس عطار ہیں، ہمارے پاس مولوی ہیں، ہمارے پاس سعدی ہیں، ہمارے پاس حافظ ہیں۔ یہ سب منگول اور تیمور کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی جب ملک غیروں کی یلغار کے سخت حالات سے دوچار تھا، ملک کی ہر چیز اس سے متاثر ہوئی، لیکن علم، شاعری اور روحانیت نہیں رکی۔ یہ فارسی شاعری کی خصوصیت ہے اور ہمیں اپنی شاعری کے بارے میں یہ جاننا چاہیے۔
ویسے ہمارے شعراء، جن ممتاز شاعروں کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان میں سے کچھ ناصر خسرو، جیسے نظامی گنجاوی، جیسے خاقانی، جیسے خود مولوی، جیسے سعدی، یہ حقیقی طور پر سورۃ الشعراء کے آخر میں اسی آیت ’’اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ ذَکَرُوا اللهَ کَثیرا‘‘ کے مصادیق ہیں۔ (جہاں قرآن فرماتا ہے) کہ "وَ الشُّعَراءُ یَتَّبِعُهُمُ الغاوونَ * اَ لَم تَرَ [اَنَّهُم فی کُلِّ وادٍ یَهیمونَ * وَ اَنَّهُم یَقولونَ ما لا یَفعَلونَ] * اِلَّا الَّذینَ آمَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ ذَکَرُوا اللهَ کَثیراً وَ انتَصَروا مِن بَعدِ ما ظُلِموا»(۵) "۔ واقعی ایسا ہی ہے کہ ہمارے بڑے شاعر اس کے مصادیق ہیں۔ یہ ہمارا ماضی ہے۔
آج میری رائے میں منگولوں کے زمانے میں ہونے والی یلغار کو دہرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ان نئے ٹائی اور بوٹائیز پہنے ہوئے، عطر لگا کر اور کوٹ اور پتلون پہنے ہوئے منگولوں کی یلغار کی نوعیت ان منگولوں سے مختلف ہے، لیکن یلغار موجود ہے، وہ یلغار کر رہے ہیں۔ ان کی یلغار کیسی ہے؟ خیر، ہم نے خود محسوس کیا ہے، لازم نہیں کہ تاریخ میں پڑھا جائے۔ بلاشبہ، اگر کوئی استعمار کی 340 سالہ تاریخ پڑھے تو سمجھ جائے گا کہ انہوں نے دنیا کے ساتھ کیا کیا؟ استعمار نے ایشیا کے ساتھ، افریقہ کے ساتھ، لاطینی امریکہ کے ساتھ، پورے امریکی براعظم کے ساتھ کیا کیا! وہ اور معاملات ہیں۔ انھوں نے ہمارے زمانے مین، صدام جیسے پاگل کتے کو اسلحے سے لیس کیا۔ جرمن کیمیکل فیکٹریوں نے صدام کی مدد کی تاکہ حلبچہ اور سردشت اور مخالف میدانوں میں ہزاروں لوگوں کو قتل کرکے اپنے جرم کا مرکز بنایا جائے۔ انہوں نے ایران میں یہ کیا۔ یہ یلغار ہے۔ یہ یلغار متنوع ہے، یعنی یہ ایک جیسی نہیں ہے۔ اسکی ایک قسم یہ ہے۔
پابندیاں بھی یلغار میں شامل ہیں۔ [جیسے] ادویات کی پابندی۔ اگر مغربی ممالک اسلامی ایران جیسے ملک کو جو آزادی، استقامت اور استقامت کا خواہاں ہے، بنیادی خوراک سے محروم کرسکین تو وہ بھی کردیں گے۔ جیسا کہ انہوں نے ضروری دوائیوں پر پابندی لگا دی، انہوں نے ویکسین کے لیے پیسے لیے جب ہمیں اس کی ضرورت تھی [لیکن] ویکسین نہیں دی - 2019 میں انھوں نے ویکسین کے لیے پیسے لیے اور مختلف بہانے کرکے ویکسین نہیں دی - اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ان کے بس میں ہوتا کہ کچھ ایسا کرسکیں کہ عوام کی روٹی ملک کے اندر نہ آسکے یا ملک میں نہ بن سکے، وہ ضرور کرتے گے۔ یعنی وہ ایسے ہیں۔ اب صدی کے قحط کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے، (6) یہ بھی ایک قسم کی یلغار ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے سینکڑوں اور ہزاروں میڈیا ذرائع کو جھوٹ، افواہوں، انحرافات اور اسی طرح کی چیزوں پر لگایا۔ ابھی یلغار کا ایک متنوع مجموعہ ہے، فوجی سے معاشی، سخت [جنگ] سے نرم [جنگ] تک، ہر قسم کی یلغار موجود ہے ۔ تو یہاں شاعر کا کیا کردار ہے؟ میرا مقصود یہی ہے۔ ہمارے شاعر کچھ ادوار میں سربلند ہوئے۔ یعنی انہوں نے جو فریضہ تھا انجام دیا۔
آج دشمن کا مقصد ہماری فکری اور تعلیمی نمایاں پہلوؤں کو چھیننا ہے۔ ہم آزادی چاہتے ہیں، وہ ہمارے ارادے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ہم مغربی ظلم کے خلاف ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں، یہ ہمارے ارادے کو کمزور کرنا چاہتا ہے، ہمیں شک و تردید میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہمارے اندر اسلامی افکار اور اسلامی تعلیمات کو کمزور کرنا چاہتا ہے، اسلامی عمل کو کمزور کرنا چاہتا ہے، قومی یکجہتی کو کمزور کرنا چاہتا ہے، خواتین کی دینداری کو کمزور کرنا چاہتا ہے، خواتین کی حیا کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب ایک قوم اور ملک کی روحانی ضروریات ہیں۔ وہ ان چیزوں کی تلاش میں ہیں۔ اب یہاں ایک خاتون نے خواتین کے بارے میں پڑھا اور کتنا ہی اچھا پڑھا؛ واقعی، اس طرح کی بہت سے کام ہونے چاہیے، بہت ہونی چاہیے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مغربی لوگ ایرانی خواتین پر رحم نہیں کھاتے جو وہ کہتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے، [بلکہ] انہیں ایرانی خواتین سے نفرت ہے۔ یقیناً اگر خواتین نہ ہوتیں تو انقلاب کی فتح نہ ہوتی۔ میں یہ واضح کہتا ہوں، میں انقلاب کے مسائل کے محور میں موجود تھا۔ یعنی اگر خواتین ان بڑے اجتماعات میں شریک نہ ہوتیں تو انقلاب کی جیت نہ ہوتی۔ اگر عورتیں اس معاملے میں اپنے شوہروں، اپنے بچوں، اپنے بیٹوں کی مخالفت کرنا چاہتیں تو سب کچھ مختلف انداز میں تمام ہوتا۔ جنگ میں بھی اسی طرح۔ جب کوئی شخص ان ماؤں اور بیویوں کی سوانح عمری پڑھتا ہے تو وہ واقعی متاثر ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ان جوانوں اور ان مردوں کے دلوں میں یہ ہمتیں، یہ قربانیاں زندہ کر دیں۔ وہ ایرانی خواتین سے نفرت کرتے ہیں! وہ اپنے آپ کو خواتین کے حقوق کے حامی، انسانی حقوق کے حامی، آزادی کے حامیوں کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ یہ سب دشمن کے حملے ہیں۔
انسانی حقوق! بنیادی طور پر، لوگ حیران ہوتے ہیں، کیونکہ انسانی حقوق کی اصطلاح مغربیوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ خیسا کہ یہاں پر شاعر کی نظم کی ردیف "به من نمیآید" تھی۔ بالکل، خواتین کے حقوق مغربیوں کو واقعی زیب نہیں دیتے۔ آج کل مغربی ممالک میں خواتین سب سے بڑے مسائل کا شکار ہیں یعنی دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ۔ وہ بالکل بھی انسانی حقوق کے علمبردار نہیں ہیں۔ یہ انسانی حقوق کے بالکل بھی اہل نہیں ہیں۔ یہ انسان کے دشمن ہیں! ہم نے ان کے انسانی حقوق کو "داعش" کی شکل میں دیکھا جو سب کی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو زندہ زندہ جلا دیتے یا پانی کے اندر ڈبو دیتے تھے۔ ہم نے اسے منافقین اور صدام کی حمایت میں دیکھا اور غزہ اور فلسطین میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم مغرب کے انسانی حقوق نوجوانوں کے قتل و غارت گری میں دیکھتے ہیں! تہران کی سڑکوں پر انہوں نے ہمارے پاکیزہ ترین نوجوانوں کو قتل کر دیا، بطور مثال یہی نام جو لئے گئے آرمان علیوردی و روحالله عجمیان، یہ ہمارے پاکیزہ ترین، طاہرترین، پاک ترین جوان تھے۔ انہیں اذیتیں دیدے کر قتل کر دیتے ہیں، اور وہ اس پر بالکل بھی بات نہیں کرتے اور یہ معاملہ ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ الٹا اکساتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ سکھاتے ہیں۔ ان کا میڈیا اور عناصر یہ چیزیں سکھاتے ہیں۔ یہ ہیں مغرب کے انسانی حقوق!
میں کہتا ہوں کہ آج سب کو دشمن کو پہچان لینا چاہیے۔ ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن اپنے حملے کو کہاں نشانہ بناتا ہے۔ دشمن کے طریقے سب کو معلوم ہونا چاہیے۔ ہر کسی کو دشمن کی موجودگی کا مقام معلوم ہونا چاہیے، جیسے عسکری جنگ۔ عسکری جنگ بھی اسی طرح ہے۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ دشمن کہاں سے حملہ کرنے والا ہے تو آپ مار کھا جائیں گے۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ اس کا مقصد کہاں پر قبضہ کرنا ہے، تو وہ آپ کو دھوکہ دے سکتا ہے، آپ مار کھا جائیں گے۔ آپکو پتہ ہونا چاہئے. نرم جنگ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے، اس کا ہدف کہاں ہے، اس کا ہدف کیا ہے اور اس کے طریقے جانیں۔ ہر ایک کو اسے پہچاننا چاہیے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، لیکن سب سے بڑھ کر فنکاروں کا مجموعہ، ثقافتی مجموعہ ہے۔ شاعر، مصور، کہانی کار، ہدایتکار، معمار؛ جو لوگ مختلف ثقافتی مسائل میں شریک ہیں وہ جان لیں کہ آج ہم اس دشمن کی لوٹ مار اور دشمن کی یلغار کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھیں خود توجہ دینی چاہیے، منظر کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے، اور دوسروں کو بھی دکھانا چاہیے۔ انہیں سب کو [مطلع] کرنا چاہئے۔ انہیں متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے ہاں ایسے اچھے شاعروں کی کمی نہیں جو باایمان ہیں، مذہب پر یقین رکھتے ہیں اور انقلاب پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں جس کی ایک مثال، آپ ہیں.
خوش قسمتی سے، ایک اچھا کام جو مختلف اداروں نے کیا ہے، [بشمول] ادارہ فن اور کچھ دوسرے جگہوں پر، اس کام کو پورے ملک میں پھیلانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج ملک بھر کے شاعر، یہاں تک کہ دیہات سے، چھوٹے شہروں سے، اپنا تعارف کروا سکتے ہیں، مراکز میں بیٹھ سکتے ہیں، اپنی شاعری پیش کر سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے. بالآخر، شاعر احساسات کا مالک ہوتا ہے، شاعر حساس ہوتا ہے، جذباتی ہوتا ہے۔ اسے جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔ مسائل کا سامنا کرتے وقت جذباتی نہ ہوں، سوچیں اور منظر کو صحیح طریقے سے پہچانیں اور جو کچھ ہے اس کے مقابل اپنا فریضہ ادا کریں، اس فریضے کو اپنے فن کے ذریعے ادا کریں۔ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو فن خواہ کتنا ہی اعلیٰ ہو، انسان اس کی قدر نہیں کرسکتا۔ کہا گیا:
میِ نابی ولی از خلوت خُم
به ساغر چون نمیآیی چه حاصل؟(۸)
باید بیایید درون ساغر تا وسیلهی شادی باشید۔۔۔ جیسا کہ ایک صاحب نے پڑھا۔
انشاء اللہ، اللہ آپ سب کو کامیاب و کامران رکھے اور ہم سب کو توفیق دے تاکہ ہم اپنے ملک اور اپنے نظام کی قیمتی اور بے بدیل سہولیات بشمول فن و شاعری سے استفادہ کر سکیں۔ ان شاء اللہ کامیاب رہیں۔ میں آپ سب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، جناب امیری اسفندقہ (9) اور جناب قزوہ (10) کا نشست کا انتظام سنبھالنے کی وجہ سے، حالانکہ انھوں نے خود شعر نہیں پڑھے۔ انشاء اللہ ہم مستقبل میں ان کی شاعری بھی سنیں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1) ملاقات کے آغار میں کچھ شعراء نے اپنے کلام پڑھے
2) کمال الدین و تمام النعمہ ج 2 ، ص 73
3) مال و دولت
4) بیان کرنا، حوالہ دینا
5) سورہ شعراء آیت 224 سے 226 تک اور آیت نمبر 227 کا ایک حصہ " اور جو شعراء ہیں ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ہر وادی میں حیران و سرگرداں پھرا کرتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں ہیں۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور بکثرت اللہ کا ذکر کیا اور بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا انہوں نے بدلہ لیا۔
6) سن 1917 میں ایران میں آنے والا قحط جو دو برسوں تک جاری رہا۔ یہ قحط در اصل اس لئے آیا تھا کیونکہ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم میں ایران کی اشیائے خورد و نوش کو استعمال کر لیا تھا۔ اس قحط میں ایرانیوں کی بہت بڑی تعداد ماری گئي۔
7) جناب حسن خسروی وقار کی غزل کی طرف اشارہ ہے جس کا مطلع ہے :
من شرابم شادی ام، شیون نمی آید بہ من
رودی از روحم، سراب تن نمی آید بہ من
8) صائب تبریزي، دیوان اشعار۔ اس غزل کا شعر جس کا مطلع ہے :
ز خلوت بر نمی آیی چہ حاصل، بہ چشم تر نمی آیی چہ حاصل
9) جناب مرتضی امیری اسفندقہ
10) جناب علی رضا قزوہ