بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الطیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
خوش آمدید عزیز برادران، خواہران؛ اصفہان کے عظیم عوام کے نمائندوں جو واقعی تعریف کے مستحق ہیں جیسا کہ جناب طباطبائی نژاد نے درست کہا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہمیں اس حسینیہ میں آپ سے دوبارہ ملاقات کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔ خاص طور پر شہداء اور ایثار گروں کے گھرانے جو موجود ہیں۔ اور یہاں سے میں اصفہان کے تمام لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان کی کوششوں، ان کے ایمان، ان کے جہاد، اصفہانیوں کی ممتاز خصوصیات کی وجہ سے انھیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
آج، ابان کی پچیسویں برسی کے موقع پر، (2) یہ اجتماع یہاں منعقد ہوآ ہے؛ [اس لیے] میں اس اہم مسئلہ اور جہاد اور شہادت کے سلسلے میں اصفہانیوں کی عمومی تحریک کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایک نکتہ اور ایک جملہ ایران اور استکبار کی محاذ آرائی کی طرف ہماری اور انقلاب اور ملک کے عمومی نقطہ نظر کے بارے میں پیش کروں گا اور یہ کہ یہ تصادم کیا، کیوں اور کیسے انجام پا رہا ہے؟ پھر میں ملک کے حالیہ مسائل اور فسادات وغیرہ کے حوالے سے بات کروں گا۔
اب اصفہان کے معاملے میں، صرف ایک یا دو خصوصیات نہیں ہیں جس کی تعریف کی جائے۔ اصفہان علم کا شہر ہے، فن کا شہر ہے، جہاد کا شہر ہے، زندہ شہر ہے۔ علم کے حوالے سے، شاید ان پچھلے چار سو سالوں میں، فقہ، فلسفہ، حدیث، تفسیر وغیرہ میں اصفہان کے عظیم علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن کی اہمیت، قدر و منزلت کا محض اصفہان سے ہی تعلق نہیں ہے۔ کچھ نے پوری اسلامی دنیا کو منور کیا ہے اور کچھ نے پورے ایران کو مستفید کیا ہے۔ ہمارے زمانے سے نزدیک کے بزرگ علماء جیسے کہ جناب مرحوم نائینی، مرحوم سید ابوالحسن اصفہانی، مرحوم حاج شیخ محمد حسین اصفہانی، ان سے پہلے کے تمام مختلف ادوار کے علماء، تقریباً چار سو سال تک سب اصفہانی ہیں۔ یہ علم کا شہر ہے؛ یعنی یہ تربیت کا مرکز ہے۔ نہ صرف فقہ میں، بلکہ فلسفہ میں بھی۔ کچھ اصفہان کے نہیں ہیں، لیکن وہ اصفہان میں پلے بڑھے، اصفہان میں پرورش پائے، اصفہان نے انھیں بنایا۔ یہ اصفہان کی خصوصیت ہے۔
یہ اہل بیت پر ایمان اور ان سے محبت کا شہر ہے۔ یہ ان خصوصیات میں سے ایک ہے جس پر کم توجہ دی گئی ہے۔ میں 30 اور 40 کی دہائی کے اواخر سے اصفہان بہت جاتا تھا۔ جس چیز نے میری توجہ مبذول کی وہ یہ تھی کہ اصفہانی اہل توسل، اہل گریہ اور اہل توجہ ہیں۔ یہ چیز ایمان سے ماخوذ ہے۔ اب مثال کے طور پر فرض کر لیں کہ ہمارے مشہد میں ان سالوں میں ایک دعائے کمیل منعقد ہوتی تھی جو اتفاقا ایک اصفہانی عالم دین کی کاوش تھی۔ مرحوم کلباسی مشہد میں تھے اور وہ دعائے کمیل پڑھتے تھے۔ شاید وہ لوگ جو ان کے منبر کے نیچے جمع ہوتے تھے وہ بیس افراد بھی نہیں تھے۔ اب میں احتیاط سے بیس لوگ کہ رہا ہوں۔ شاید آٹھ، نو یا دس لوگ دعائے کمیل پڑھتے تھے۔ اسی وقت اصفہان میں سید مسجد میں مرحوم حاجی آقا مہدی مظاہری کی دعائے کمیل لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی تھی۔ یہ مشہد اور اصفہان کا موازنہ ہے۔ عزاداری کی مجالس کے حوالے میں، ائمہ معصومین علیہم السلام سے متعلق مجالس وغیرہ کے بارے میں، انسان جو کچھ بھی کہے وہ واقعی کم ہے۔ یہ ایمان کا شہر ہے۔
یہ علم کا شہر بھینہے، ایمان کا شہر بھی ہے اور فن کا شہر بھی۔ اصفہان میں مختلف نفیس ایرانی فنون موجود ہیں۔ اس شہر میں قابل قدر اور قیمتی فنی میراث موجود ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ اصفہان کے علاوہ یہ فنی ورثہ کہیں اور موجود ہو۔ یہ تمام چیزیں اصفہان کے لوگوں کی خصوصیات ہیں۔ مکمل ایرانی اور اسلامی شناخت کا حامل شہر۔ میری رائے میں ہمارے یہ اچھے ڈاکومنٹری بنانے والے افراد جن کی تعداد بہت ہے، الحمدللہ، ان چیزوں سے متعلق اور جو میں بعد میں پیش کروں گا، اصفہان کے لیے بہت سی دستاویزی فلمیں بنا سکتے ہیں جو دلوں اور آنکھوں کو بھائیں گی۔
اور اب انقلابی شناخت؛ اب جب کہ ہم نے علمی، دینی اور فنی کو بیان کردیا ہے، ہم انقلابی شناخت کی طرف آتے ہیں۔ بلاشبہ انقلاب سے پہلے ہمارے ملک کے بہت سے شہروں میں انقلابی فعالیتیں ہوئیں، یہ اچھی تھیں، مضبوط تھیں، لیکن اصفہان آگے تھا؛ کم از کم یہ برترین انقلابی شہروں میں سے ایک تھا۔ اگر بہترین شہر نہیں تو کم از کم یہ بہترین میں سے ایک تھا۔ طاغوت کے دور میں جس شہر میں پہلی دفعہ کرفیو لگا وہ شہر اصفہان تھا۔ اصفہان سے پہلے کہیں بھی کرفیو نہیں لگا تھا، اصفہان میں کرفیو لگایا گیا۔ [اس سے] ظاہر ہوا کہ یہاں کہ لوگ دوسروں سے زیادہ فعالیت کر رہے تھے۔ دفاع مقدس میں دو مشہور اور جنگجو لشکر یہاں سے تھے: لشکرِ امام حسین علیہ السلام، جس کے مشہور کمانڈر شہید خرازی تھے اور لشکرِ نجف جس کے مشہور کمانڈر شہید احمد کاظمی تھے۔ شہید خرازی کی شہادت کے بعد اور شہید کاظمی کے لشکرِ نجف سے کچھ عرصے میں جانے کے بعد، دیگر ممتاز کمانڈروں نے ان دونوں لشکروں کی کمان سنبھالا، واقعی ممتاز شجاع افراد، جن میں سے بہت سوں کو ہم قریب سے جانتے اور دیکھ چکے ہیں۔ انھی جدوجہد کے نتیجے میں صوبہ اصفہان میں تقریباً 24000 شہداء ہیں جن میں سے تقریباً 7500 شہداء اصفہان شہر کے گلزارِ شہدا میں مدفون ہیں۔ یہ غیر معمولی اعداد و شمار ہیں، یہ بڑی نشانیاں ہیں۔ دسیوں ہزار زخمی کئی ہزار آزاد شدہ فوجی۔ یہ اصفہان کے اعزاز کی سند ہیں۔ یہ آپ کے لیے ذمہ داری لاتا ہے۔ ہم صرف تعریف نہیں کرنا چاہتے۔ ان عظمتوں اور عظیم آثار کو برقرار رکھنا ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔
اور اب آبان کی پچیسویں کے بارے میں۔ 25 آبان کو اصفہان میں 360 کے قریب شہداء کو سپرد خاک کیا گیا۔ ایک شہر یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ 360 شہداء! جن کمانڈروں کی آنکھوں کے سامنے یہ شہداء شہید ہوئے وہ خود پریشان تھے کہ ان شہداء کو تدفین کے لیے اصفہان کیسے لایا جائے۔ یہ واقعہ اتنا بڑا اور عجیب تھا! میرے خیال میں اگر ایک دن دنیا میں کہیں بھی 360 خون آغشتہ نوجوانوں کو عوام کے درمیان لا کر دفن کیا جائے تو اس دن وہ شہر مفلوج ہو جائے گا۔ اصفہان مفلوج نہیں ہوا۔ ہماری خبروں اور ہماری مستند رپورٹوں میں یہ ہے کہ اسی شام نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور اگلے دنوں میں اس سے بھی زیادہ تعداد میں جوان محاذوں پر چلے گئے۔ اسی رات شہداء کی نیابت میں ایک بہت بڑا قافلہ اصفہان سے روانہ ہوا۔ اب اگر آج 360 شہید لائے جائیں تو لوگ بیٹھ کر ماتم کریں گے، وہ محاذ جنگ سے غافل ہوجائینگے۔ ایسا نہیں ہوا، اسی دن اور اگلے دنوں میں جمع غفیر جانا شروع ہوگیا۔ اس جذبے کو دیکھیں! اس حوصلے کو مشاہدہ کریں! دو شہید والے گھرانے، تین شہید والے گھرانے، چار شہید والے گھرانے، پانچ شہداء والے کئی گھرانے، چھ شہداء والے کئی گھرانے، سات شہید والا ایک خاندان! ان کا تعلق اصفہان سے ہے۔ یہ ہمارے لیے اصفہان کی انقلابی اور جہادی شناخت کی وضاحت کرتے ہیں۔ اصفہان کی بعض خصوصیات یہ ہیں؛ اصفہان کے لئے کہنے کو اس سے زیادہ چیزیں ہیں۔ ان چار دہائیوں میں جب بھی ضرورت پڑی اصفہان اپنا سینہ سپر کرتے ہوئے آگے آیا ہے۔ اصفہان کے عوام کسی بھی معاملے پر پیچھے نہیں ہٹے۔ مجھے خاص طور پر کچھ مواقع یاد ہیں۔ اب میں انھیں یاد دلانا اور نام لینا نہیں چاہتا۔ اتنی زندہ دلی کے ساتھ، ایک اشارہ اور ایک توجہ کے ساتھ، وہ کئی بار میدان میں آئے اور ایک فتنہ کی آگ کو بجھا دیا۔
بلاشبہ اصفہان کے لوگوں کی ان خصوصیات کا اصفہان کے لوگوں کی شکایات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ [نکتہ] جو جناب طباطبائی نے کہا ہے، وہ درست ہے؛ اصفہان کا پانی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ میں بھی اس معاملے کی پیروی کرتا رہا ہوں۔ کئی دوستوں نے خطوط لکھے، ہم نے ان کو ارجاع بھی دیا، پیروی کی، حال ہی میں میں نے ان کی پیروی کی، الحمدللہ حل میں مصروف ہیں۔ یعنی کہ اچھے کام کئے جا رہی ہیں۔ پانچ یا چھ اقدامات، مثلا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ طویل مدتی ہیں؛ خیر، آخر کار، کام ہو رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور انشاء اللہ حل ہو جائے گا۔ اب میں ان معزز سرکاری افسران کو، جو واقعی کوشش کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں، تاکید کرتا ہوں کہ اس میدان میں زیادہ سے زیادہ محنت کریں، جتنی جلدی ہو سکے کام کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصفہان کے لوگ واقعی اس لائق ہیں کہ ہم ان کی خدمت کے لیے شب و روز مشغول رہیں۔
خیر، اب یہ اصفہانیوں سے متعلق تھا۔ ملک کے دیگر شہروں نے بھی ایک طرح سے اقدار کو نمایاں کیا ہے۔ ہم صرف اصفہان پر انحصار نہیں کررہے۔ بلاشبہ، سب ایک جیسے نہیں تھے، سب ایک ہی سطح پر نہیں تھے۔ کچھ آگے تھے، اصفہان سب سے آگے والوں میں سے ہے۔ دوسری جگہوں پر اچھی کوششیں کی گئی ہیں۔ ملک بھر کے لوگوں کی ان مجموعی کوششوں نے ہمیں ایک غیر معمولی آزمائش میں [سرخرو] کیا۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کوئی چھوٹا امتحان نہیں تھا، یہ ایک بہت اہم ماجرا تھا۔ ہمارے بہت سے نوجوان نہیں جانتے کہ کیا ہوا۔ آٹھ سال تک، دنیا کی تمام طاقتیں ایک طرف، ایران ایک طرف! اب، مثال کے طور پر، کچھ اور جگہوں پر ایسے واقعات ہوتے ہیں اور ملکوں پر حملے ہوتے ہیں، جو البتہ سب سے پہلے تو اتنے وسیع نہیں ہوتے جتنے ایران میں ہوئے تھے، اور دوم، بالآخر کچھ اور ممالک ہوتے ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں۔ ہماری کسی نے مدد نہیں کی۔ نیٹو صدام کے ساتھ تھا، امریکہ خاص طور پر صدام کے ساتھ تھا، سابق سوویت یونین صدام کے ساتھ تھا، کچھ یورپی ممالک جو سوویت یونین پر زیادہ انحصار نہیں کرتے تھے، نہ ہی وہ امریکہ پر منحصر تھے، صدام کے ساتھ تھے، جیسے یوگوسلاویہ؛ میں نے جا کر قریب سے دیکھا، (3) یہ ممالک بھی اس کی طرف تھے۔ یعنی پوری دنیا ایک طرف اور اسلامی جمہوریہ دوسری طرف۔ خیر اس جنگ میں عوام کی اسی تحریک، عوام کے انہی جدوجہد سے خالی ہاتھ ایران جیتنے میں کامیاب ہوا۔ ہمیں آٹھ سالہ جنگ میں مکمل اور شاندار فتح ملی۔ ہم جیت گئے لیکن بات ختم نہیں ہوئی۔ اب میں اس دوسری بحث میں داخل ہونا چاہتا ہوں: اسلامی ایران اور استکبار، استکباری نظام، استکباری دنیا کی چپقلش ایک جامع نگاہ سے۔
براہ کرم اس پر توجہ دیں: استکبار کے نقطہ نظر سے، مشکل یہاں ہے؛ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ استکبار کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ، یہ نظام ترقی کرتا ہے، ترقی کرتا ہے اور دنیا میں خود کو ظاہر کرتا ہے تو مغربی دنیا میں لبرل جمہوریت کی منطق باطل ہو جائے گی۔ میں نے ایک بار اصفہان میں اس پر بات کی۔ اصفہان کے بڑے اسکوائر میں ایک بہت بڑے مجمع کے درمیان میں نے اس کا ذکر کیا۔ (4) لبرل ڈیموکریسی کے نظریے کے تحت مغربیوں نے پوری دنیا میں لوٹ مار کی، ایک جگہ پر، انہوں نے کہا کہ یہاں آزادی نہیں ہے اور داخل ہوئے۔ ایک جگہ انہوں نے کہا کہ جمہوریت نہیں ہے اور داخل ہوئے۔ جمہوریت کے قیام کے بہانے اور اس طرح کے بہانوں سے انہوں نے اس ملک کا سرمایہ، اس ملک کے خزانے، اس ملک کے وسائل کو لوٹا۔ فقیر یورپ امیر ہو گیا، ہندوستان جیسے کئی امیر ممالک کی قیمت پر۔ انہوں نے ہندوستان کو کنگال کر دیا۔ اگر آپ نہرو کی کتاب - عالمی تاریخ پر ایک نظر - پڑھیں گے تو آپ درست محسوس کرسکیں گے کہ کیا ہوا۔ اور بہت سے دوسرے ممالک؛ چین کو، دیگر جگہوں کو [غریب بنایا]۔ اب، ایران براہِ راست نوآبادیاتی نہیں بنا تھا، لیکن یہاں انہوں نے لبرل جمہوریت کے نظریے کے جو کرسکتے تھے کیا۔ یعنی انہوں نے کہا آزادی اور جمہوریت، آزادی اور عوام۔ ان چیزوں کے ساتھ، انہوں نے ممالک پر غلبہ حاصل کیا؛ انہوں نے ممالک کی آزادی اور عوامیت دونوں کے خلاف ہر ممکن کوشش کی۔
ایک مثال آپ کی آنکھوں کے سامنے افغانستان ہے۔ 21 سال پہلے، وہ افغانستان میں حکومت کو شکست دینے کے لیے آئے تھے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ عوامی نہیں تھی اور وہاں کی عوام کو آزادی حاصل نہیں تھی۔ امریکیوں نے آکر افغانستان میں 20 سال تک جرائم کیے، ہر قسم کے جرائم کیے، چوری کی، لوٹا، کھایا، مارا، جو کچھ ہو سکتا تھا تباہ کیا، خاندان تباہ کیے، ثقافت خراب کی، 20 سال بعد وہی حکومت جس کے خلاف وہ آئے تھے، برسر اقتدار آئی، افغانستان اسکے ہاتھ میں دیدیا، اور اس حقارت کے ساتھ واپس لوٹے! یہ ایک مثال ہے جو آج آپ جوانوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔
تین سو سال تک، پہلے یورپی، پھر امریکی، لبرل جمہوریت کے نظریے کے ساتھ آگے بڑھے۔ اب اگر دنیا میں کوئی ایسی حکومت یا نظام وجود میں آئے جو لبرل جمہوریت کی منطق کو رد کرتی ہو اور اپنے ملک کے عوام کو حقیقی نظریے کے ساتھ ایک شناخت دیتی ہے، انہیں زندہ کرتی ہے، انہیں بیدار کرتی ہے، انہیں مضبوط کرتی ہے اور لبرل جمہوریت کے بالمقابل کھڑی ہوتی ہے۔ یہ سب لبرل جمہوریت کے نظریے کی تردید ہے۔ اور یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ لبرل جمہوریت کی بنیاد مذہب کی نفی پر رکھی گئی تھی، اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد مذہب پر رکھی گئی۔ انہوں نے عوامی ہونے کا دعویٰ کیا، اور اسلامی جمہوریہ حقیقی طور پر ایک عوامی نظام ہے۔
البتہ یہ معلوم ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے اور اپنے ٹیلی ویژن پر اس کی تردید کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو قبول کرتے ہیں، یہ وہ خود جانتے ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آزادی نہیں ہے، عوامی نظام نہیں ہیں، اور اس مانند وہ انکے الفاظ دہراتے ہیں۔ تاہم آزادی میسر ہونے کآ ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ خود نظام کے خلاف یہ باتیں کر رہے ہیں اور انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا ہے۔ عوامی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امام خمینی رح کی وفات سے لے کر آج تک جو حکومتیں برسراقتدار آئیں، کوئی دو حکومتیں بھی فکری طور پر یکساں نہیں تھیں۔ ایک حکومت آئی، دوسری حکومت مختلف تفکر کے ساتھ برسراقتدار آئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکری آزادی ہے۔ لوگ آزاد ہیں، وہ انتخاب کرتے ہیں۔ ایک بار وہ اس کا انتخاب کرتے ہیں، دوسری بار وہ اسے منتخب کرتے ہیں۔
پس مغرب کا مسئلہ اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ اس کی مشکل یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ترقی کر رہا ہے، پیشرفت کر رہا ہے، اور پوری دنیا اس ترقی کو دیکھتی اور تسلیم کرتی ہے، اور یہ مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ وہ یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں مسئلہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایران ترقی کر رہا ہے۔ اگر ہم نے ترقی نہیں کی ہوتی، اگر ہم نے خطے میں مضبوط موجودگی کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا، اگر امریکہ اور اس کے استکبار کے سامنے ہماری آواز کپکپاتی، اگر ہم ان کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کو قبول کرنے پر آمادہ ہوتے، تو یہ دباؤ کم ہوجاتا۔ یقیناً وہ آتے اور مسلط ہوجاتے لیکن پابندیاں اور یہ دباؤ اور یہ چیلنجز کم ہوں جاتے۔ جب بھی اسلامی جمہوریہ کی طاقتور آواز بلند ہوئی - کیونکہ ان سالوں میں حالات مختلف تھے؛ آپ خود جانتے ہیں- اسلامی جمہوریہ پر حملہ کرنے کی دشمن کی کوششیں زیادہ رہی ہیں۔
لہٰذا، آج ہمارے ملک کے لیے بنیادی چیلنج ترقی اور جمود کا چیلنج ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ترقی اور پسماندگی کا چیلنج۔ کیونکہ جمود پیچھے جانا ہے، اور جو متوقف ہوتا ہے وہ دراصل پیچھے جانا ہے۔ کیونکہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے، اگر آپ کھڑے رہیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ: ہم ترقی کر رہے ہیں، ہم ترقی کے پیچھے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ دنیا کی تمام استکباری طاقتیں جن میں بنیادی طور پر امریکہ اور یورپ ہیں، اسلامی جمہوریہ کی اس پیشرفت کے سامنے بے چین، پریشان، مضطرب ہیں، اس لیے وہ مقابل میں میدان میں اترتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یقیناً وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ وہ اب تک کچھ نہیں کر سکے، اس کے بعد بھی نہیں کر سکیں گے۔
اس مہم میں امریکہ دشمن کی صف اول میں ہے۔ ہماری امریکہ پر تاکید کرنے اور اصرار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ فرنٹ لائن پر ہے۔ دوسرے بھی ہیں لیکن امریکہ کے پیچھے۔ تمام امریکی صدور انقلاب کی ان دہائیوں میں، ان کئی سالوں میں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ فرنٹ لائن پر لڑے ہیں۔ وہ اب کہاں ہیں؟ کچھ نابود ہوگئے، برباد ہوگئے، فنا ہوگئے، کچھ تاریخ کے کوڑے دان میں چلے گئے، خواہ وہ زندہ ہی کیوں نہ ہوں۔ کارٹر اور کلنٹن اور اوباما، ڈیموکریٹس سے لے کر ریگن اور بش، ریپبلکنز، اس سابقہ ذہنی مریض تک (5) اور اس موجودہ بے ہوش شخص تک (6) کو جو ایران کو نجات دینا چاہتا ہے، ایران کے لوگوں کو بچانا چاہتا ہے، یہ سب بغیر کسی استثنا کے اسلامی جمہوریہ کے خلاف کھڑے ہوئے، اور انہوں نے اپنے ہر دوست کو استعمال کیا۔ خاص طور پر انہوں نے صیہونی حکومت کو اکسایا اور اس کی مدد کی۔ اب کہا جاتا ہے کہ صیہونی حکومت، غاصب حکومت، انہیں اشتعال دلاتی ہے۔ ہاں، بعض صورتوں میں ایسا ہو سکتا ہے، لیکن [صیہونی حکومت] ان کا پالتو کتا ہے، خطے میں ان کا پاگل کتا ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ خطے میں فساد برپا کرے اور دباؤ ڈالے، بدقسمتی سے خطے میں کچھ دوسری حکومتیں بھی بلاشبہ ان کے ساتھ ہیں۔ البتہ، انہوں نے بھی نقصان پہنچایا - یہ نہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا - لیکن وہ مجموعی طور پر ناکام رہے، وہ [اسلامی] جمہوریہ کو نہیں روک سکے۔ ان کا کوئی منصوبہ آگے نہیں بڑھا، یعنی وہ اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جس کا وہ ارادہ رکھتے تھے۔ ہاں، انہوں نے کچھ مسائل پیدا کیے، لیکن ان کا ہدف پورا نہیں ہوا۔ نہ پابندیاں، نہ سائنس دانوں کو قتل کرنا، نہ کچھ لوگوں کو اندر سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف بولنے کے لیے رشوت دینا، اور نہ ہی ان کے مختلف سیاسی اور حفاظتی حربے، ان میں سے کوئی بھی ایرانی قوم کی تحریک، پیشرفت اور استقامت کو روک نہیں سکتا۔
ٹھیک ہے، اب ہم ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں. میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ہم سب کا فرض- ملک کے حکام، عوامی حلقے، معاشرے کے دانشور، فعال نوجوان اور معاشرے کے خواص، اور علمی طبقے؛ حوزہ علمیہ ہو یا یونیورسٹی، یہ جاننا ہے کہ ہمیں ترقی کرنی ہے۔ آج ترقی کرنا ہمارا فرض ہے۔ تمام شعبوں میں۔ ہمیں پیشرفت حاصل کرنی چاہیے؛ ہمیں علمی ترقی کرنی چاہیے، ہمیں فنی ترقی کرنی چاہیے، ہمیں معاشی ترقی کرنی چاہیے، ہمیں سیاسی ترقی کرنی چاہیے۔ یہ پیش رفت نظام کو مضبوط کرتی ہے، نظام کو اقتدار دیتی ہے۔ جب آپ اقتدار حاصل کرتے ہیں تو دشمن آپ کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ دشمن کا مقصد اقتدار کے ستونوں کو ہلانا ہے۔ آپ دیکھئے، وہ نہیں چاہتے کہ نظام طاقتور ہو۔ ہم سب کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہیے، کیونکہ ترقی ہمیں طاقت دیتی ہے، ہمیں خود کفیل بناتی ہے، اور ہمیں مضبوط کرتی ہے۔ اگر یہ پیشرفت - سائنسی ترقی، روحانی اور اخلاقی ترقی، اقتصادی ترقی، اور سیاسی ترقی - جاری رہے، جیسا کہ اب تک جاری ہے خدا کا شکر ہے، تو دشمن بے چین ہے۔ دشمن اس سے بہت خوفزدہ ہے اور اسے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
اب ہم کیسے ترقی حاصل کریں؟ ترقی کے بہت سے وسیلے ہیں، وہ مختلف وسیلے ہیں؛ میں صرف ایک اہم بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے امید۔ امید ترقی کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور دشمن کی توجہ اسی پر ہے۔ دشمن مایوسی پھیلانے، تعطل کا احساس پیدا کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک نوجوان جو دنیا کے مسائل سے ناواقف ہے، کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ وہ متاثر ہو جاتا ہے، وہ بھی مایوس ہو جاتا ہے۔ جب وہ مایوس ہوتا ہے تو وہ کام نہیں کرتا۔ ترقی کو امید کی ضرورت ہوتی ہے. دشمن ایرانی قوم کی امیدوں پر مرکوز ہے۔ یہ وسیع وسائل جو دشمن نے استعمال کی ہیں، یہ میڈیا، یہ سیٹلائٹ، یہ عجیب و غریب سائبر اسپیس، یہ کرائے کے ٹیلی ویژن چینلز، یہ سب لوگوں میں اس امید کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔ خوش قسمتی سے، امید زندہ ہے - اب میں بعد میں ایک اشارہ دوں گا - لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو پرامید نہ رہنے دیں، ہمارے حکام کو پرامید نہ رہنے دیں۔ حتیٰ کہ وہ حکام سے امیدیں چھیننے کے لالچ میں ہیں۔ اب ان کآ ملک کے اندر بھی ایک دھارا ہے، بدقسمتی سے؛ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ایسی چیز موجود ہو، لیکن ایسا ہے۔ یہ اندر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا یہ دھارا بھی یہی مایوسی کی ہیداوار ہے، مایوسی ایجاد کرنا کہ جی "کوئی فائدہ نہیں"، "ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا"، "ہم کیا کرسکتے ہیں"؛ آپ ان باتوں کو سنیں گے۔ ملک کے اندر کچھ اخبارات، کچھ سائبر اسپیس کارکن، بدقسمتی سے، ان کے پاس یہ چیزیں ہیں۔ یہ ان کے دھارے ہیں۔
اب ان کے وسوسوں کے مقابل ایک حقیقت موجود ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہم پیشرفت کررہے ہیں۔ [یقینا] ہمارا ایک معاشی مسئلہ ہے - میں اقتصادی مسائل کی نفی، انکار نہیں کرنا چاہتا۔ ان شاء اللہ، یہ حل ہو جائے گا - لیکن دوسرے شعبوں میں، خدا کا شکر ہے کہ ہم مسلسل ترقی کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں. وہ خاص طور پر نوجوان نسل کو ان پیش رفتوں سے آگاہ نہیں ہونے دینا چاہتے، اس لیے وہ انھیں چھپاتے ہیں۔ انکے اسی اندرونی دھارے میں جیسا کہ میں نے کہا، یہی ہے؛ ہماری بہت سی ترقیاں چھپائی جاتی ہیں یا چھوٹی دکھائی جاتی ہیں۔
اب میں نے جو کچھ آپ کے سامنے بیان کرنے کے لیے لکھا ہے وہ یہ ہے کہ ان چند ہفتوں میں جب چند انگشت شمار بدکردار یا فریب خوردہ سڑکوں پر آئے اور فساد برپا کیا تو ان ہنگاموں کے دوران ہی بڑے بڑے کام کیے گئے جن کا اگر دوسرے ہفتوں اور دوسرے مہینوں سے موازنہ کیا جائے تو بہت اچھا نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ میں اب ان چیزوں کو گنتا ہوں جو پچھلے چند ہفتوں میں انجام پائی ہیں:
ایرانی سائنسدانوں نے خون کے کینسر کے علاج کا نیا طریقہ منکشف کیا۔ یہ ترقی ہے، یہ ایک اہم پیش رفت ہے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔
تیل اور گیس کے کنوؤں کے لیے کلیدی مشین کی مقامی پیداوار۔ ہمارے اہم قدرتی وسائل میں سے ایک تیل اور گیس ہے۔ ہمیں تیل اور گیس نکالنے کے معاملے میں جدت کی ضرورت ہے، یہ اختراع انجام پارہی ہے۔ ابھی چند ہفتے پہلے، اس کام کے لیے ایک اہم اقدام انجام پایا؛ یہ ایک بڑی بات ہے.
بلوچستان کے ایک اہم حصے کی ریلوے لائن [کا افتتاح کیا گیا]؛ یہ ریلوے لائن، انقلاب کے آغاز سے - اب انقلاب سے پہلے، تو اس کی کوئی بات ہی نہیں تھی - ہماری ایک اہم ارزو تھی کہ ہم ایک شمال تا جنوب ریلوے لائن بنا سکیں، جس میں بلوچستان ریلوے لائن شامل ہے اور یہ شمال تا جنوب لائن ہے ; یعنی کہ ہم ملک کے شمال کو خلیج فارس اور بحیرہ عمان سے متصل کرسکیں جو بلوچستان سے گزرے۔ ابھی چند روز قبل اس ریلوے کا ایک اہم حصہ کا افتتاح ہوا۔ ایک عظیم کام انجام پایا۔ یہ ترقی ہے۔
کئی کارخانے کھولے گئے۔ ایک دوسرے ملک میں ہماری آف شور ریفائنری کا آغاز کیا گیا تھا۔ چھ برقی پاور پلانٹس کا آپریشن انھی چند ہفتوں میں شروع کیا گیا، جن کے شہر مشخص کرکے مجھے اطلاع دی گئی، میں اب ان سب کا [نام] نہیں لینا چاہتا۔ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ میں سے ایک کا ملک میں افتتاح کیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی ٹیلی سکوپ میں سے ایک مکمل ہوئی، فعال کی گئی اور اسکا افتتاح ہوا۔ ایک سیٹلائٹ کیریئر کی رونمائی کی گئی، ایک نئے میزائل کی رونمائی کی گئی اور اسی طرح [دیگر چیزیں]۔ یہ پچھلے چند ہفتوں کے کام ہیں جو فسادات کے دوران تھے۔ اگر کوئی شخص ان کو ایک ایک کرکے گننا چاہے تو بہت ہو جائے گا۔ وہ نہیں چاہتے کہ نوجوان نسل ان سے واقف ہو۔ وہ ان چیزوں کو چھوٹا کرکے بتاتے ہیں اور جھٹلائے جاتے ہیں۔ ہم دفاعی سہولیات میں بہت ترقی کرچکے ہیں، انہوں نے انکار کیا۔ اس کی تصویر دکھائی جاتی تو کہتے تھے کہ یہ فوٹوشاپ ہے، یہ اصل نہیں ہے۔ اب بعد میں اقرار کرنا پڑا، مجبورا اقرار کرنا پڑا۔
اب یہ کام جن کا میں نے ذکر کیا ہے وہ کام کے نقطہ نظر سے بھی اہم ہیں اور اس لیے بھی کہ یہ معاشرے کی ترقی کی علامت ہے۔ معاشرہ جمود کا شکار نہیں ہے، یہ آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کر رہا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ معاشرہ ترقی کر رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ ایرانی نوجوان دشمن کی شرارت کے دنوں میں بھی زندہ، حوصلہ مند ہے۔ ٹھیک ہے، اگر آپ ایران دوست ہیں، تو آپ کی ایران دوستی کی نشانیوں میں سے ایک امید افزائی ہے۔ اگر آپ مایوسی پیدا کرتے ہیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ایران کے دوست ہیں۔ ایران دشمنی کا بنیادی معیار مایوسی پیدا کرنا، امید کم کرنا، احساس ناتوانی پیدا کرنا، تعطل کا احساس پیدا کرنا ہے۔ یہ ایران دشمنی کے اشاریے ہیں۔ ایران سے محبت کرنے والے مخالف سمت میں آگے بڑھتے ہیں۔اجازت نہ دیں کہ وہ لوگ جو ایران کے دشمن ہیں، قومی مفادات کے دفاع کے بھیس میں الٹی تصویر دکھاتے ہیں، وہ اپنا چہرہ بدل سکیں اور اس طرح کے کام کرسکیں۔ یعنی معیارات پر قابو پا سکیں۔ آپ ادیب، آپ شاعر، آپ دانشور، آپ عالم دین ایران سے محبت کرتے ہیں، آپ اسلامی ایران سے محبت کرتے ہیں، بہت اچھے، آپ کو امید ضرور افزائی کرنی چاہیے۔ اگر اس کے خلاف انجام پارہا ہو تو آپکا یہ دعویٰ قبول نہیں کیا جا سکتا۔
تو اصل مسئلہ، ترقی کا مسئلہ ہے. میں خلاصہ کروں۔ استکباری دنیا کے ساتھ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں اور ہم میں ترقی کی لگن ہے اور وہ ہماری ترقی کو اپنے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔ یہ ہمارا بنیادی چیلنج ہے۔ امریکہ اور استکباری حکومتوں کے نقطہ نظر سے اسلامی ایران کو ترقی نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری طرف، ہم کہتے ہیں: اسلامی ایران کو اسلام کا کلمہ بلند کرنے کے لیے ترقی کرنی چاہیے۔
اور جہاں تک تیسرے نکتے کا تعلق ہے جو میں نے فسادات کے بارے میں کہا تھا، میں اس متعلق آپ سے چند عرض کرتا ہوں۔ اس کے مرکزی کردار جو پس پردہ موجود ہیں - ان لوگوں سے علیحدہ جو سڑکوں پر آتے ہیں؛ پردے کے پیچھے جو لوگ معاملات کو چلا رہے ہیں - وہ لوگوں کو سڑکوں پر لانا چاہتے تھے، اور اب جب وہ ایسا نہیں کر سکے، وہ خرابی پیدا کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ملک کے حکام اور اداروں کو تھکانا چاہتے ہیں۔ وہ غلط سوچتے ہیں؛ ان حرکتوں کی وجہ سے لوگ تھک جاتے ہیں، اور ان سے نفرت کرتے ہیں، ان سے اور زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ اب جب کہ عوام ان اشرار سے نفرت کررہے ہیں تو اس کام کا تسلسل عوام کی نفرت میں اضافے کا سبب بنے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل ضرور، لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ سڑکوں پر، آپ کو اپنی دکان بند کرنی پڑتی ہے، آپ کو اپنی گاڑی کی حفاظت پڑتی ہے، وغیرہ وغیرہ اور اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جرائم بھی کرتے ہیں، تباہکاری بھی کرتے ہیں، اس طرح کے کام بھی کرتے ہیں، لیکن جو منظر عام پر ہیں اور جو پس پردہ ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ کمتر ہیں کہ وہ نظام کو نقصان پہنچا سکیں۔ بلاشبہ فسادات کی یہ بساط لپٹ جائے گی۔ اس کے بعد ملت ایران مزید طاقت اور نئے جذبے کے ساتھ میدان میں آگے بڑھے گی۔ یہی کام کی نوعیت ہے؛ یہ ایک با ایمان قوم کی فطرت ہے۔ ہاں، اس کے ساتھ حادثہ ضرور پیش آتا ہے، لیکن وہ اس حادثے سے جو ممکنہ خطرہ ہو سکتا ہے، اپنے لیے ایک موقع پیدا کرتی ہے ۔ وہ حادثات اور خطرات سے اپنے لیے مواقع پیدا کرتی ہے۔ اب تک ایسا ہی رہا ہے۔ اسلام کے آغاز سے ہی ایسا ہی ہے۔
یہی آیت شریفہ جو ان برادر نے پڑھی: وَ لَمّا رَأَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا هٰذا ما وَعَدَنَا اللَهُ وَرَسولُهُ وَ صَدَقَ اللَهُ وَرَسولُه۔ خیر، جنگ احزاب کوئی چھوٹی جنگ نہیں تھی۔ قریش، طائف، مکہ اور ہر جگہ سے تمام عرب قبیلے کئی ہزار کی تعداد میں جمع ہو کر مدینہ کے ایک شہر میں لڑنے کے لیے آئے۔ یہ احزاب کی جنگ تھی، اس کو دلوں کو ہلا دینا چاہیے تھا۔ مومنوں نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگے قالوا هٰذا ما وَعَدَنَا اللَهُ وَ رَسولُه؛ یہ کوئی نئی بات نہیں، خدا نے کہا تھا کہ یہ آئیں گے، تمہارا ایک دشمن ہے، دشمن تمہارے پیچھے آئیں گے، وہ آگئے۔ وَ صَدَقَ اللَهُ وَرَسولُهُ وَ ما زادَهُم اِلّا ایمانًا وَ تَسلیما.(7) اور یہ «وَ ما زادَهُم اِلّا ایمانًا وَ تَسلیما» کا موقع ہے۔ یہ ایک خطرہ تھا، انہوں نے اس خطرے سے استفادہ کیا، ان کا ایمان بڑھ گیا۔ یعنی ایمان بڑھانے کا موقع مل گیا۔ اسلام کے اوائل میں ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔
مقدس دفاع کے معاملے میں [بھی] اسی طرح؛ مقدس دفاع ایک جنگ احزاب تھی۔ انہوں نے ہر طرف سے حملہ کیا۔ ایرانی قوم نے اس خطرے سے موقع بنایا۔ وہ موقع کیا تھا؟ وہ موقع پوری دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ ایرانی قوم شکست نہیں کھا سکتی۔ سب آئے۔ امریکہ نے حمایت کی، یورپ نے حمایت کی، نیٹو نے حمایت کی، اس وقت کا وارسا - وارسا معاہدہ، جو کمیونسٹوں کا تھا - نے صدام کی حمایت کی، سب نے حمایت کی، [لیکن] ایران کو شکست نہیں ہوئی؛ ملت ایران کو شکست نہیں ہوئی۔ یہ ایک کارکردگی بن گیا۔ یہ موقع ہے۔ جب بھی دنیا کی طاقتیں یہ سوچتی ہیں کہ ان کے پاس میز پر سارے آپشن ہیں، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، میز پر تمام آپشن موجود ہیں - ایک آپشن فوجی کارڈ ہے - جب بھی وہ اس بارے میں سوچتے ہیں، انہیں آٹھ سال کی مسلط کردہ جنگ یاد آتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایرانی قوم ناقابل شکست ہے۔ ایرانی قوم کئی بار اپنے مخالفین سے، امریکہ سے، دوسروں سے کہہ چکی ہے کہ تم اختیار سے آو گے، لیکن تمہارا جانا تمہارے اختیار میں نہیں ہے! تم ممکن ہے کہ آگے آجاؤ لیکن پھنس جاؤ گے، تمہیں تباہ و برباد کر دیا جائے گا! ایران کی قوم نے اس مسلط کردہ جنگ سے یہ فائدہ اٹھایا۔ اصفہان کے لوگوں نے اس 25 آبان سے استفادہ کیا، انہوں نے اس کو اسطرح استعمال کیا کہ ان کے حوصلہ میں اضافہ ہوا، جیسا کہ میں نے کہا، اصفہان کے بہادر جوانوں کی محاذ کی طرف نقل و حرکت اس کے بعد بڑھ گئی۔
حالیہ ہنگامہ آرائی میں بھی ایسا ہی ہے۔ ان پریشانیوں میں، ایرانی قوم نے اس نام نہاد خطرے کو استعمال کیا - جسے وہ ایرانی قوم کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس نے کیا کیا اس نے اپنی حقیقت اور اپنی سمت دکھائی۔ کہاں؟ 13 آبان کو۔ اس سال ابان کا 13 تاریخ گزشتہ تمام سالوں سے مختلف تھی۔ امریکہ کے اکسانے پر چند لوگ سڑکوں پر آئے، [لیکن دوسری طرف] ایران کی عظیم قوم نے 13 آبان کو آکر امریکہ کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک مثال 13 آبان کی ہے۔ ایک اور مثال ان شہداء کی تدفین کی ہے۔ ان دنوں ایک پیارا شہید اور ایک جوان شہید ہوا - ان عزیز شہداء میں سے جو سیکورٹی کے شہداء ہیں، بسیج کے شہداء، پولیس فورس کے شہداء، شہید ہونے والے عام عوام - مثال کے طور پر شہید روح اللہ عجمیان کو فرض کریں، جو ایک غیر معروف نوجوان ہے، [لیکن] اسکی شہادت میں اس کے جنازے میں بہت بڑا ہجوم باہر آیا! یہ عوام کا ردعمل ہے۔ وہ اس خطرے کو ایک موقع میں بدل دیتے ہیں۔ یعنی لوگ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ہم ایسے ہیں۔ تم ہمارے جوان کو شہید کر دو، ہم سب اس نوجوان کے پیچھے ہیں! بالکل اس کے برعکس بات جو دشمن دکھانا چاہتا ہے کہ ایرانی قوم فلاں کے خلاف سڑک پر آگئی، ایرانی قوم فلاں کے خلاف ہے، ایرانی قوم نے فلاں کام کیا، [لیکن] قوم نے اپنا اصل چہرہ دکھایا۔ اس نے اس خطرے سے استفادہ کیا اور ایک موقع پیدا کیا۔
ایک اور موقع جو پیدا ہوا، وہ یہ تھا کہ پس پردہ عوامل کے چہروں سے نقاب الٹ گئی۔ پس پردہ عوامل ایرانی قوم کے حامی ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن وہ ایرانی قوم کے تمام مطالبات، عقائد اور مقدسات سے دشمنی رکھتے ہیں۔ وہ اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں، انہوں نے مساجد کو جلایا، قرآن کو جلایا۔ انہوں نے ایران سے دشمنی کی، ایرانی پرچم کو جلایا، ایرانی قومی ترانے کی بے حرمتی کی۔ ان کے اصل چہرے سامنے آگئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی قوم کی حمایت کرتے ہیں، ایرانی قوم ایک مسلم قوم ہے، یہ قرآن کی قوم ہے، یہ امام حسین ع کی قوم ہے۔ تم امام حسینؑ کی توہین کر رہے ہو، گستاخی کرتے ہو، کیا تم ایرانی قوم کے حامی ہیں؟ تم اربعین کی توہین کرتے ہو، تم اربعین مارچ کی توہین کرتے ہو، کیا تم ایرانی قوم کے حامی ہو؟ خیر اس خلفشار کے اصل ہدایت کاروں کے چہرے بھی سامنے آگئے۔ اس لیے ان خلفشار کے بارے میں جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم نے اس خطرے سے بھی اپنے لیے بہت سے مواقع پیدا کر لیے۔
ایک اور نکتہ پس پردہ عناصر سے نمٹنے کی نوعیت کے بارے میں ہے۔ کچھ پس پردہ عوامل ہیں، کچھ فریب خوردہ ہیں، کچھ وہ ہیں جنہوں نے پیسے لیے، کچھ نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ وہ شخص جس نے صرف دھوکہ کھایا اور اس نے کوئی جرم نہیں کیا، اسے متنبہ کی جائے، نصیحت کی جائے، رہنمائی کی جائے - چاہے وہ یونیورسٹی کا طالب علم ہو، چاہے وہ غیر طالب علم ہو، چاہے وہ سڑک پر ہو، چاہے وہ یونیورسٹی میں ہو۔ اس سے پوچھا جائے: تمہارا یہ اقدام ایران کی ترقی میں مددگار ہے یا ایران کی ترقی میں رکاوٹ ہے؟ وہ اس پر سوچے۔ یہ فریب خوردہ سے متعلق ہے۔ آپ کو اسے سوچنے پر اکسانا ہوگا۔ جو شخص دشمن کے اہداف سے آگاہی کے بغیر اس کا ساتھ دیتا ہے اسے بیدار کیا جائے اور بتایا جائے: "دشمن وہاں موجود ہے۔ ہوشیار رہو کہ دشمن کے لشکر میں شامل نہ ہو۔" امام خمینی رح کے الفاظ میں، ’’ جتنی چیخ و پکار مچانی ہے امریکہ پر مچاو۔‘‘ (8) تو یہ اس فریب خوردہ نوجوان سے متعلق ہے۔
لیکن جو شخص جرم یا قتل یا توڑ پھوڑ کا مرتکب ہو یا دکاندار کو دھمکی دیتا ہے کہ تمھیں بند کرنی پڑے گی، ورنہ ہم تمھاری دکان کو آگ لگا دیں گے۔ کار ڈرائیور کو دھمکی دیں کہ وہ روکے یا ہارن بجاے یا اس طرح کے کام کرے، ورنہ ہم آپ کی گاڑی پر توڑپھوڑ کریں گے۔ خطرے کا عنصر - ان کو سزا دی جانی چاہیے؛ ان کو ان کے گناہ کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔ قاتل عناصر ایک قسم ہے، تباہی پھیلانے والے دوسری قسم ہیں، جو شخص پرپگنڈے سے ایسے کاموں کا باعث بنتا ہے وہ ایک اور قسم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے اندازے کے مطابق سزا دی جائے۔ البتہ یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ سزا عدلیہ نے دینی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی کو سزا دے، نہیں؛ عدلیہ موجود ہے، خدا کا شکر ہے، وہ طاقتور، زندہ اور متحرک ہے۔ انہیں سزا ملنی چاہیے۔ تو ہمارے پاس نصیحت اور سزا دونوں ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ کا طرزعمل تھا۔ امیر المومنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّهِ قَد اَحکَمَ مَراهِمَهُ وَ اَحمیٰ مَواسِمَه؛(9)؛ مرہم بھی تیار رکھا ہوتا تھا اور لوہا بھی گرم کر رکھا ہوتا تھا۔ پرانے زمانے میں زخم جو بھرتے نہیں تھے گرم کیے جاتے تھے۔ آگ میں لوہا ڈالتے تھے، جب وہ سرخ ہو جاتا ہے، تو زخم بھرنے کے لیے اسے اس پر لگا دیتے تھے۔ [امیر المومنین] کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرہم بھی تیار رکھا ہوتا تھا اور لوہا بھی گرم کر رکھا ہوتا تھا۔ دونوں تیار رکھتے تھے۔ بقول سعدی:
درشتی و نرمی به هم در به است
چو رگزن که جرّاح و مرهمنه است(10)
جراحی بھی کرتے اور مرہم بھی لگاتے ہیں۔ دونوں کام انجام دینے چاہیے۔ خیر یہ بھی ایک نکتہ اس سے متعلق۔
ایک اور بات یہ ہے کہ اس وقت تک اللہ کا شکر ہے کہ دشمن نے شکست کھائی ہے۔ دشمن کا ارادہ عوام کو میدان میں لانا تھا، عوام نے دکھایا کہ وہ دشمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ بلاشبہ دشمن میڈیا میں اپنا لشکر بناتا ہے۔ دکھاوے کا لشکر، بے تحاشا جھوٹ کا پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دشمن اپنے مختلف ذرائع ابلاغ میں وہ اس طرح دکھاوا کرتا ہے کہ ایک غافل اور بے خبر شخص یہ سمجھتا ہے کہ یہ واقعی کچھ ہونے والا ہے۔ [جبکہ] معاملہ ایسا نہیں ہے۔ جو چیز بے تحاشا ہے، جو چیز بہت عظیم ہے، وہ انقلاب کی خدمت میں اور انقلاب کے میدانوں میں لوگوں کی موجودگی ہے۔ جی ہاں، یہ بہت عظیم بات ہے؛ لیکن دوسری طرف ایسا نہیں۔ وہ لوگوں کو لانا چاہتے تھے، لیکن لوگوں نے ان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔ البتہ، میں کہہ دوں: دشمن کے پاس ہر روز ایک چال، ایک حربہ ہوتا ہے۔ وہ یہاں ناکام ہوا، یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ رک جائے گا، وہ دوسری جگہوں پر جائے گا۔ یہ دوسرے طبقات میں جائے گا، یہ کارکنوں کے پاس جائے گا، یہ خواتین کے پاس جائے گا۔ بلاشبہ ہماری معزز خواتین اور ہمارے معزز کارکنان دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور دشمن کے فریب میں مبتلا ہونے سے کہیں زیادہ ہوشیار ہیں۔ یہ مسلم بات ہے۔
اس لیے دشمن کا مقصد وہ تھا جو اس کے لیے حاصل نہیں ہوسکا۔ تاہم، معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس مسائل ہیں۔ ہمیں مسائل ہیں۔ آج ہمارا سب سے اہم مسئلہ معاشی مسئلہ ہے۔ آپ دیکھیں، میں برسوں سے ہر سال کے نعرے کو کوئی اقتصادی نقطہ قرار دے رہا ہوں اور اس طرح میں حکام سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلے کے حل کی طرف جائیں اور اس نکتے پر عمل کریں۔ 90 کی دہائی ہمارے لیے معاشی طور پر اچھی دہائی نہیں تھی۔ ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ اگر انہوں نے انھیں تاکیدات پر، وہی کام جو اب انجام پانے والے ہیں انشاء اللہ اور اسے انجام دینگے، وہ اس دن انجام دیتے، آج ہمارے حالات بہتر ہوتے۔ بالآخر، پابندیاں بھی مؤثر ہیں، کچھ غلط اقدامات مؤثر ہیں، کچھ ناقص انتظامی عنصر مؤثر ہے؛ یہ سب دخیل ہے۔ البتہ، میں دیکھ رہا ہوں - جو انسان اب مشاہدہ کرتا ہیں - حکام واقعی کوشش کر رہے ہیں، وہ بہت محنت کر رہے ہیں، وہ کام کر رہے ہیں، ان کا کام بہت سے معاملات میں موثر ہے، یہ اس معاشی صورتحال میں بھی کارگر ہے، لیکن ایک اقتصادی مسئلہ ہے۔ آج یقیناً دنیا کے مختلف ممالک معاشی مسائل کا شکار ہیں اور ہم بھی۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، انشاء اللہ۔ یہ عوام کا حکام کے ساتھ تعاون، حکومت کے ساتھ قوم کے تعاون، اسی جذبے، ہمدردی، ہم آہنگی سے حل ہوگا ان شاء اللہ، اور خدا کے فضل سے معیشت کے میدان میں بھی ایرانی قوم دشمن کے منہ پر طمانچہ مارے گی۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ عزیز لوگوں کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اصفہان کے لوگ روز بروز زیادہ خوشحال، زیادہ زندہ دل، زیادہ آمادہ اور انقلاب کی اگلی صفوں میں زیادہ سے زیادہ حاضر ہوں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ امام خمینی رح کی پاکیزہ روح ہم سے راضی ہوگی۔ خدا کرے کہ ہم بھی ان معزز لوگوں کے تئیں جو ہمارا فرض ہے اسے انجام دے سکیں۔ ان شاء اللہ
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کی ابتداء میں اصفہان کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین سید یوسف طباطبائي نژاد نے تقریر کی۔
(2) 16 نومبر 1982 کو محرم آپریشن میں شہید ہونے والے اصفہان کے 370 جوانوں کا جلوس جنازہ نکالا گيا تھا جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔
(3) مارچ 1989 میں رہبر انقلاب کے صدر کی حیثیت سے یوگوسلاویہ کے دورے کی طرف اشارہ
(4) اصفہان کے مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقات میں تقریر، 30/10/2001
(5) ڈونلڈ ٹرمپ
(6) جو بائيڈن
(7) سورۂ احزاب، آيت 22 اور (سچے) اہلِ ایمان والوں نے جب لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ ہے وہ (لشکر) جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا اور رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس (بات) نے ان کے ایمان اور (جذبۂ) تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا۔
(8) صحیفۂ امام، جلد 11، صفحہ 121
(9) نہج البلاغہ، خطبہ 108، رسول اللہ ایسے طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو اور اس نے اپنے مرہم کو تیار کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو بھی تپا لیا ہو۔
(10) گلستان سعدی، باب ہشتم