بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)
والحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علیٰ سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین.
میں تمام معزز سامعین اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ ملاقات واقعی اور حقیقی طور پر ایک ممتاز اور شاندار ملاقات ہے۔ اس مجلس میں مسلمانوں کے ایک محترم گروہ کو بین الاقوامی ہم آہنگی اور تعامل کے مظہر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اہل بیت ع عالمی مجلس ایک اہم مرکز ہے، ایک عظیم مرکز ہے۔ یہ مرکز اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ ہے اور اہل بیت ع کو عالم اسلام میں بے مثال عظمت اور مقبولیت حاصل ہے۔ یعنی عالم اسلام میں کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں مل سکتی جو عالم اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ع کی طرح مشترکہ طور سے مقبول ہو۔ یہ مقبولیت، یہ عظمت، یہ شوکت اور روحانی شان قدرتی طور پر آپ کے اس مجموعے میں منتقل ہوتی ہے جو اہل بیت ع کے نام پر تشکیل دیا گیا ہے۔ تو یہ مقام اہم ہو جاتا ہے، یہ عظیم ہو جاتا ہے۔ اس عظمت سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ عنوانات اور نام ایک وسیلہ ہیں، ایک سبب ہیں، کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے۔ نتیجہ کیا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرکز تمام مسلمانوں کی توجہ اور تحریک کا مرکز بنے۔ آپ کی کامیابی یہ ہے کہ اس اہم مرکز یعنی اہل بیت ع کی عالمی مجلس کو عالم اسلام اور تمام عالم اسلام کے طالب اور خواہش مند افراد کے دلوں، روحوں اور جانوں کو متاثر کرنے کا مرکز بنا سکے۔
میں اس حوالے چند نکات بیان کرتا چلوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اس اسمبلی کے ارکان کے کندھوں پر بہت زیادہ بھاری ذمہ داری ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کا یہ مشہور جملہ جس نے فرمایا کہ "کونوا لنا زینا" (2) جو ہم سب سے خطاب ہے، ہم سب کو محتاط رہنا چاہیے، یہ آپ کیلئے اور زیادہ تاکید ہے؛ آپ کے کام کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس جملے "کونوا لنا زینا" کو اس مجلس اور ان لوگوں کے مجموعہ اور اس مجلس کے افراد اور اعضاء کے بارے میں زیادہ غور کیا جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہو تو ہمیں اس مجلس کو اہل بیت ع کی تعلیمات کو پھیلانے کا مرکز بنانا چاہیے۔ اہل بیت ع کی تعلیمات - یہ اہم ہے - زندگی کے مسائل کے کسی ایک حصے سے مخصوص نہیں ہے۔ جو بھی اہل بیت ع کے اقوال سے رجوع کرتا ہے، وہ تسلیم کرتا ہے کہ اہل بیت ع کی تعلیمات عمومی مسائل، علم الٰہی، توحید، تصوف، روحانیت، اخلاقیات، ذاتی و انفرادی فرائض، خاندانی فرائض، معاشرتی فرائض، وغیرہ سے لیکر ملک کے انتظامی فرائض اور تہذیب سازی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ یعنی اہل بیت ع کی تعلیمات کے مجموعہ میں یہ سب شامل ہیں۔
آج اسلامی معاشروں کو ان سب کی ضرورت ہے۔ کسی بھی اسلامی ملک کو آپ دیکھیں گے، آپ دیکھیں گے کہ انہیں علمی اور معرفتی مسائل دونوں کی ضرورت ہے۔ چاہے انفرادی سطح پر ہو اور ذاتی حدود کے اندر، چاہے چھوٹے مجموعہ کے دائرہ کار میں ہو، یا بڑے تہذیبی اور سیاسی احاطے میں، انہیں اس علم کی ضرورت ہے۔ آج عالم اسلام کو ان تعلیمات کی ضرورت ہے اور یہاں ایک خلا موجود ہے۔ آج بہت سے موثر وسائل موجود ہیں۔ آپ اہل بیت ع کی تعلیمات کو مختلف معاشروں میں درست اور دقیق منصوبہ بندی کے ساتھ اور عالم اسلام کی سطح پر مستعد کوششوں کے ساتھ، معقول طریقوں کے ساتھ منتقل کر سکتے ہیں؛ ممتاز افراد کے لیے بھی اور عوام کے لیے بھی۔ یہ ایک نقطہ ہے؛ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جو میرے خیال میں اس اسمبلی کے کندھوں پر ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ اہل بیت ع کے پیروکار اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ استکبار کے نظام اور نظام تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے اہم اقدام انہی نے انجام دیا۔ بہت سے نعرے ہیں، [لیکن] جو حقیقت میں انجام پایا وہ ایک واضح اور الگ چیز ہے، اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ کا پرچم۔ شیعہ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ نظام تسلط کے خلاف کھڑے ہوئے، اپنا سینہ سپر کیا اور اس سات سروں والے اژدھے کو روکا، جو ملکوں، حکومتوں اور قوموں کے تمام معاملات میں ظالمانہ اور جابرانہ طریقے سے مداخلت کرتا تھا، اور آج وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے ان کے اہداف اسلامی جمہوریہ کی جانب سے معطل اور تباہ کیے گئے؛ یہ اسلامی جمہوریہ کے اعزازات میں سے ایک اعزاز ہے اور یہ شیعوں کا اعزاز ہے۔ اور یہ ائمہ ہدیٰ (علیہ السلام) اور آل رسول (ص) کے بیانات سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہی ہے۔ وہی تھے جنہوں نے ہمیں قرآن پر غور کرنے اور قرآن سے سبق لینے کی ترغیب دی۔ وہی تھے جنہوں نے ہمیں قرآنی تعلیمات کی تعلیم کی۔ وہی تھے جنہوں نے اپنی عملی سیرت سے ہمیں سمجھایا کہ عمل کیسے کرنا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے لے کر حضرت عسکری علیہ السلام تک۔
اسلامی جمہوریہ کا یہ پرچم عدل و انصاف اور روحانیت کا پرچم ہے۔ یعنی یہاں کچھ بھی مبہم نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا پرچم وہی پرچم ہے جسے انبیاء ع اور ائمہ ع نے بلند کیا تھا۔ بہت سی زیارتوں میں، خواہ وہ امام حسین ع کی زیارت ہو یا حضرت رضا علیہ السلام کی زیارت، آپ انکی انبیاء کی وراثت کی تصریح کرتے ہیں: اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وارِثَ اِبراهیمَ خَلیلِ اللَّهِ اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وارِثَ موسیٰ کَلیمِ اللَّه (3) یہ وہی پرچم ہے، یہ ائمہ کا پرچم ہے، یہ انبیاء کا پرچم ہے، اور اس پرچم کی تحریر بھی وہی دو الفاظ ہیں: عدل و انصاف اور روحانیت۔
یاد رکھیں کہ جب آپ عدل اور روحانیت کا جھنڈا بلند کرتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جس کے طرز عمل کی بنیاد طاقت پر ہے اور جس کے نظریات کی بنیاد مادیت پر ہے- یعنی بالکل انصاف کے مخالف اور روحانیت کے مخالف طرزعمل۔ ردعمل دکھاتی ہے۔ کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں، "تم نے فلاں بات، فلاں چال، فلاں فیصلوں سے اپنے دشمن خود بنائے"؛ نہیں ہم نے اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا اٹھا کر دشمن بنائے، فرمان الٰہی کی ترویج کرکے دشمن بنائے۔ جب آپ عدل و انصاف کی بات کریں گے تو تسلط اور استکبار پر مبنی تہذیب اور دنیا آپ کی فطری طور سے مخالفت کرے گی۔ جب آپ روحانیت کو فروغ دیتے ہیں تو مادی دنیا، جس کی ہر چیز مادیت پر مبنی ہے اور دنیا کے تمام تصورات کو پیسے میں بدل دیتی ہے، آپ کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ کی تحریک کے ساتھ استکبار اور تسلط کی دنیا کی مخالفت اور تصادم ایک فطری اور قدرتی چیز ہے۔ آج امریکہ نظام تسلط کا محور ہے، اور کچھ نہیں۔ اس بات سے امریکہ کے تئیں سب کا فرض واضح ہو جاتا ہے۔ آج متحرک دشمن اور دشمن کے محاذ کا محور امریکہ ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ تھا۔
دوسرا نکتہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کے بعد ایک تکمیلی نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امام خمینی رح نے ہر ایک کو اسلامی معاشروں کی عوام کے درمیان تقسیم کی لکیروں کو ایک طرف رکھنے کی تعلیم دی۔ تقسیم کی ایک ہی لکیر ہے اور وہ تقسیم کی لکیر ایک طرف ایمان اور اسلام اور دوسری طرف کفر و استکبار ہے۔ امام خمینی رح نے یہ سب کو تعلیم دی۔ وہ تقسیم کرنے والی لکیریں جو امام خمینی رح نے ہمیں سکھایا کہ ہمیں ایک طرف رکھ دینا چاہیے وہ ہیں فرقہ وارانہ تقسیم کی لکیریں، نسلی تقسیم کی لکیریں، قومی تقسیم کی لکیریں، جماعتی تقسیم کی لکیریں اور اس کی مانند۔ انھوں نے فرمایا کہ انھیں نظرانداز کرو۔ تقسیم کی ایک ہی لکیر ہے، اور وہ اسلام اور اسلامی نظام کے تحقق اور امریکہ کی سربراہی میں تسلط کے نظام کے مقابل میں اسلام کے سیاسی پہلو کے تحقق کی لکیر ہے۔ یہ واحد تقسیم کرنے والی لکیر ہے جسے نمایاں ہونا اہیے، اور امام خمینی رح نے پہلے دن سے اس پر زور دیا؛ اسلامی انقلاب کے پہلے دن سے نہیں بلکہ تحریک کے پہلے دن سے۔ یعنی جس وقت سے امام خمینی رح نے یہ تحریک شروع کی تھی۔ اسلامی انقلاب کی فتح سے پندرہ سال پہلے۔ امام کا یہ فعل بھی آیات قرآنی سے ماخوذ ہے۔ قَد کانَت لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فی اِبراهیمَ وَ الُّذینَ مَعَهُ اِذ قالوا لِقَومِهِم اِنّا بُرَآءُ مِنکُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ کَفَرنا بِکُم وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَةُ وَ البَغضاءُ اَبَدًا حَتّیٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَه؛(4) اس قرآنی آیت سے ماخوذ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو ہم سے عقیدہ میں اختلاف کرے، ہماری اس سے دشمنی اور بغض ہے۔ نہیں دوسری آیت میں بھی جو سوره ممتحنه میں ہے: «لا یَنهاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَ لَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوهُم»؛(5) خدای متعال نے فرمایا ہے: «اِنَّما یَنهاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذینَ قاتَلوکُم فِی الدّینِ وَ اَخرَجوکُم مِن دِیـارِکُم》سے لیکر «اَن تَوَلَّوهُم» تک(6) پس امام خمینی رح کی نصیحت اور امام رح کے عمل کی دستاویز قرآن کی آیات اور قرآن کے نصوص پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ تقسیم کی لکیر ایک نمایاں تقسیم کی لکیر ہے، اور یہ عالم اسلام اور عالم کفر اور استکبار کے درمیان تصادم ہے۔ باقی تقسیم کرنے والی لکیریں مدھم ہونی چاہئیں، ان کو نظرانداز ہونا چاہیے۔ سنی، شیعہ، ایران، کوئی اور ملک، عرب، عجم، رنگ، فلاں نسل اور وغیرہ پر توجہ نہ دی جائے۔
اسی لیے آپ نے دیکھا کہ انقلاب کی فتح کے پہلے دنوں سے ہی ہمارے ملک میں فلسطین کا مسئلہ نمایاں ہوگیا۔ مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا گیا۔ میں موازنہ نہیں کرنا چاہتا، لیکن ہم نے عالم اسلام میں ایسے لوگ دیکھے جو اسلام کے نام پر حرکت میں آئے اور اٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ خبیث صیہونیوں کی مخالفت نہیں کی، بلکہ انہوں نے ان سے دوستی کا اظہار کیا، اور فوراً ہی اس سے نقصان بھی اٹھایا۔ اسلامی جمہوریہ نے یہ غلطی نہیں کی، امام خمینی رح نے یہ غلطی نہیں کی۔ اسلامی انقلاب کی فتح کے پہلے ہی دنوں میں انہوں نے مرکزی جگہ جہاں صیہونی حکومت کا بے نام سفارت خانہ ان سے لے لیا اور اسے فلسطینیوں کو دے دیا اور امام خمیمی رح فلسطین کے مسئلے پر دل و جان سے ڈٹے رہے۔ امام خمینی رح کے لیے لبنان میں شیعہ مجاہدین گروہ حزب اللہ ایک فلاں مجاہد اور جنگجو فلسطینی گروپ سے مختلف نہیں تھی۔ یعنی وہ ان دونوں کو اللہ کے لیے لڑنے والے اور اسلام کے لیے لڑنے والے کے طور پر دیکھتے تھے۔ جو جتنا بھی اسلامی جمہوریہ سے، ہمارے اعمال سے، ہمارے طرز عمل سے، ہمارے موقف سے، وہ لازماً [ہمارے] قریب ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ اس سے ملت ایران اور پوری اسلامی دنیا میں مسلم اقوام کے درمیان ایک منفرد ہمدلی پیدا ہوئی ہے۔ یہ موجود ہے۔ اب عالم اسلام کے مشرق میں، اسلامی دنیا کے مغرب میں، ایشیا سے لے کر افریقہ کی گہرائیوں تک، قومیں ایرانی ملت سے خوش ہیں؛ ہم حکومتوں سے کوئی سروکار نہیں، حکومتوں کا حال مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تقسیم کی لکیروں کو امام خمینی رح نے غیر اہم قرار دیا۔
آج بھی اسلامی جمہوریہ عظیم امام رح کی اسی سیاسی تفکر سے متاثر ہے۔ امام رح نے اسلامی نظام کے لیے یہ سیاسی ڈھانچہ دیا، ہم آج بھی اسی کی پیروی کرتے ہیں اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ اور امام کا اصول "اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم" (7) ہے۔ ہم نے کبھی بھی ممالک کو اپنے نظام کے ماڈل اور سیاسی شکل کی تقلید کرنے کو نہیں کہا۔ نہیں، ہم نے یہ بات کبھی کسی ملک سے نہیں کہی اور نہ ہی کہیں گے۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ آپ اسلامی اصولوں کے مطابق عمل کریں جو وہ آیت ہے جو میں نے پڑھی ہے اور سورہ فتح کی یہ آیت "اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم" اس طرح ہے۔ یہ اسلامی اصول ہیں۔ اور انشاء اللہ ہم آئندہ بھی تفرقہ کے خلاف کھڑے ہوں گے، آج بھی کھڑے ہیں۔
ایک اور نکتہ جو موجود ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم اسلامی دنیا کے بہت بڑے مجموعہ اور اور تسلط، استکبار اور استعمار کی دنیا کے درمیان اس تقسیم کی لکیر کو نمایاں کرتے ہیں تو - جس کے بارے میں میں اس تناظر میں مختصر وضاحت کروں گا - تو فطری طور سے اسکا ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ان کے لیے بہت سنگین ہے۔ استکباری دنیا کو زور زبردستی کی عادت ہے اور یہ کوئی بھی اس کی زبردستی کے مقابل قاطعانہ جواب نہ دے۔ یہ دنیا جو شاید ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے قوموں پر دھونس جمانے، حکم کرنے اور تجاوز کرنے کی عادی ہے، اب دیکھ رہی ہے کہ دنیا کے اتنے حساس حصے میں، اس اہم جغرافیہ میں ایک قوم نے سینہ سپر کیا ہوا ہے اور اپنے بل بوتے پر اور اپنے طرز عمل سے، اپنی باتوں سے، اپنے عمل سے وہ مسلمانوں کو اس کے خلاف، استکبار کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ فطری طور پر، یہ ان کے لئے ناقابل قبول ہے، وہ مخالف ہیں، یہ ان کے لئے سنگین ہے۔ یہ حقیقت کہ مختلف ممالک میں امریکہ کے مجرمانہ منصوبوں کو اسلامی جمہوریہ نے ناکام بنا دیا ہے، انہیں غصہ دلاتی ہے۔ اس کی مثال داعش ہے۔ داعش کو امریکہ نے بنایا تھا۔ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا۔ اب اگر اسلامی جمہوریہ میدان میں اترے اور اس سازش اور اس منصوبے کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہو جائے تو یہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لہذا، وہ ردعمل دکھاتے ہیں۔ تمام ایران فوبیا اور شیعہ فوبیا پروپیگنڈے اور فلانہ ملک اور اس ملک میں ایران پر مداخلت کا الزام لگانے کی اصل اور بنیاد اس کے منصوبوں کو ناکام بنانے پر امریکہ کا غصہ ہے۔ لہذا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ایران فوبیا اور شیعہ فوبیا دونوں میں الگ الگ پروپیگنڈے کو مختلف طریقوں کے ساتھ ہر ممکن طور سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا ایک قول یہ ہے کہ "ایران فلاں ملک میں مداخلت کیوں کر رہا ہے"! حالانکہ کوئی مداخلت نہیں ہے۔
ہماری پالیسی نوآبادیاتی نظام کے جرائم کے خلاف کھڑے ہونا ہے، اس سے وہ ناراض ہوتے ہیں، اس لیے وہ اسلامی جمہوریہ پر الزام لگاتے ہیں۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ امریکہ کی اس متکبرانہ پالیسی کا ساتھ نہ دیں۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں، ہماری رائے میں - یعنی میرے تجزیہ کے مطابق - یہ نااہلی اور بےچارگی کی وجہ سے ہے۔ یہ جو ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے، عجیب و غریب پروپیگنڈا کرتے ہیں، کیونکہ یہ بے اختیار ہیں، کچھ نہیں کر سکتے۔ بنیادی طور سے اسلامی جمہوریہ کی ترقی کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ کی نوعیت اسلامی نظام کے نعروں کی نمایاں اور متاثر کن کامیابی ہے۔ یہ معاملہ کی نوعیت ہے اور یہ رہا ہے اور آخر تک رہے گا اور انہیں قدم قدم پر پیچھے ہٹنا ہوگا۔ یہ معاملے کی نوعیت ہے اور یہ اس طرح ہوگا؛ وہ اس کے خلاف اقدام کرنے پر مجبور ہیں، اس لیے وہ دہشت گردی اور اس طرح کے پروپیگنڈے کا سہارا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ صدام جیسے لوگوں کو حملہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں - انقلاب کے آغاز سے ہی ایسا ہی تھا - وہ پست لوگوں کو عالم اسلام کی روشن شخصیات کی توہین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ایک حرکت جس سے ہوشیار رہنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ استکبار امام راحل کی اس حد بندی کو پلٹانا چاہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ سنی جنگ، عرب عجم کی جنگ، کبھی شیعہ-شیعہ جنگ اور سنی سنی جنگ سے اسلامی دنیا میں تقسیم کی لکیروں کو اجاگر کرنا جو آپ اس وقت اپنی آنکھوں کے سامنے اور مختلف ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ ایک سنی گروہ کی ایک سنی گروہ کے ساتھ (جنگ)، ایک شیعہ گروہ کی شیعہ گروہ کے ساتھ(جنگ)! یہ استکبار کا کام ہے، یہ امریکہ کا کام ہے، یہ ان کا اکسانا ہے، یہ ان کی منصوبہ بندی ہے، جو بدقسمتی سے موجود ہے۔ آپ کو محتاط رہنا چاہئے؛ یہ شیطان کی خواہش ہے۔ امام نے فرمایا کہ امریکہ بڑا شیطان ہے (8) اور قرآن کہتا ہے کہ "اِنَّما یُریدُ الشَّیطانُ اَن یُوقِعَ بَینَکُمُ العَداوَةَ وَ البَغضاءَ فِی الخَمرِ وَ المَیسِر"(9)۔ یعنی شیطان تمہارے درمیان عداوت اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کا ایک آلہ شراب اور عیاشی ہے؛ اگر وہ دوسرے ذرائع سے دشمنی اور نفرت پیدا کر سکتا ہے تو وہ فطری طور پر وہاں بھی ایجاد کرے گا۔ یہ فطری بات ہے. لہذا "اِنَّما یُریدُ الشَّیطانُ اَن یُوقِعَ بَینَکُمُ العَداوَةَ وَ البَغضاء"؛ جہاں بھی آپ کو دشمنی اور بغض نظر آئے وہاں شیطان کا ہاتھ ضرور نظر آئے گا۔ اب اس کا علاج کیسے ہو سکتا ہے، یہ دوسری بحث ہے۔ ہر جگہ علاج کسی نہ کسی طرح کیا جاسکتا ہے اور آپ کو سوچنا ہوگا اور اس کے علاج کا کوئی طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ ہمیں دشمن کی شیطانی سیاستوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
ہم اہل بیت ع کے پیروکاروں کو یکجہتی اور ہم آہنگی کا علمبردار ہونا چاہیے۔ پہلے دن سے ہم نے کہا کہ اہل بیت ع کی عالمی اسمبلی کی تشکیل کا مطلب غیر شیعہ سے تصادم اور دشمنی نہیں ہے۔ یہ سب پر واضح ہونا چاہیے۔ آپ نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ نے شروع سے ہی ایسے لوگوں کا ساتھ دیا ہے جو شیعہ نہیں ہیں لیکن اچھے طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، صحیح راستے پر چل رہے ہیں۔ عالم اسلام میں غزہ اور فلسطین کے عوام کی اتنی مدد کس نے کی جتنی ایرانیوں نے کی، جتنی اسلامی جمہوریہ نے کی؟ جن ممالک کے ساتھ انکا مذہب ایک ہے انہوں نے ان امداد کا ایک فیصد بھی نہیں دیا، الٹا بعض اوقات نقصان پہنچایا اور کبھی دھچکا بھی دیا۔
ایک نکتہ اور کہوں۔ جب مقابلے اور تصادم کی بحث آتی ہے تو ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مقابلہ کر سکتے ہیں؟ میرا جواب یقیناً اور سو فیصد ہے۔ ہاں ہم کر سکتے ہیں. عالم اسلام میں استکبار کو روکنے اور پھر استکبار اور تسلط کی دنیا کو پیچھے دھکیلنے کی صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ سافٹ ویئر صلاحیتیں اور ہارڈ ویئر صلاحیتیں دونوں۔ ہماری سافٹ ویئر صلاحیتیں ہمارا علم، ہمارے عقائد ہیں۔ دنیا کے بارے میں ہمارا نظریہ ایک امید افزا نظریہ ہے۔ تاریخ کے راستے اور تاریخ کی حرکت پر ہماری نگاہ ایک روشن نگاہ ہے، امید بھری نگاہ ہے۔ ہم ایک عظیم طاقت پر بھروسہ کرتے ہیں جو ہمیں طاقت اور امید دیتی ہے۔ ہم خدا پر بھروسہ کرنے والے لوگ ہیں۔ جن کے پاس یہ بھروسہ نہیں ہے، جن کے پاس یہ سہارا نہیں ہے، وہ مایوس ہو جاتے ہیں، وہ افسردہ ہو جاتے ہیں، وہ بے بس ہوجاتے ہیں، وہ بیچ راستے پر رک جاتے ہیں۔ وہ شور مچاتے ہیں، لیکن ان کے باطن کھوکھلے ہیں۔ آج، مغربی دنیا ایک فکری تعطل اور نظریاتی تعطل کا شکار ہے۔ دنیا کے بہت سے مسائل ان کے لیے ناقابل فہم اور ناقابل حل ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کا نظریہ جو ان کے پاس تھا، ان میں سے بہت سی چیزیں جو آج دنیا میں واقع ہورہی ہیں ان سے سازگار نہیں ہے۔ لیکن ہمارے لیے؟ نہیں، ہمارے لیے سب کچھ قابل حل ہے۔ انسان کا کردار، انسانی ارادے کا کردار، خدا پر توکل کا کردار، تاریخ کا کردار، مسئلہ مہدیت اور اسلام کا یقینی مستقبل، وہ چیزیں ہیں جو ہم پر واضح ہیں، لیکن ان پر نہیں۔ ان کے پاس نہیں ہیں، وہ نہیں رکھتے، ان کے ہاتھ خالی ہیں۔ یہ سافٹ ویئر سے متعلق
ہارڈ ویئر کے لحاظ سے بھی، انہوں نے اسلامی دنیا کے وسائل کو برسوں تک استعمال کیا، استعمار اور ہر قسم کی چالوں سے خود کو مضبوط کیا، لیکن اسلامی دنیا میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت ہے؛ وسیع زمینیں، انتہائی قیمتی وسائل جن کہ انسانی زندگی منحصر ہے. آج آپ کو دنیا میں تیل اور گیس کا مسئلہ درپیش ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا اہم ہے۔ یہ اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، عالم اسلام انہیں بہترین طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔
ہمارے پاس ماضی میں بھی یہ وسائل تھے۔ ماضی میں استعمار اور نوآبادیاتی دور میں بھی یہ وسائل موجود تھے لیکن جو چیزبنہیں تھات وہ عزم راسخ تھا، جو نہیں تھی وہ دشمن شناسی تھی۔ نوآبادیاتی دور میں ہماری قومیں دشمن کو نہیں جانتی تھیں، ان کے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے کا پختہ عزم نہیں تھا، ان کے پاس ہمارے بزرگ امام خمینی رح کی طرح رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا، اسی لیے وہ کچھ نہ کر سکے۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ یہ سب میسر ہیں اور قوموں کے پاس ضروری عزم ہے۔ قومیں اب تیار ہیں، قوموں کے خواص آج تیار ہیں۔ [یقینا] کچھ کمزوریاں ہیں جو ہمارے کام نہ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ عالمی اسمبلی کی ذمہ داری بھاری ذمہ داری ہے، ان شعبوں میں جن اداروں کو کام کرنا چاہیے ان میں سے ایک آپ کا ادارہ ہے اور یقیناً بہت سے دوسرے بھی۔ بلاشبہ ہماری اسلامی ریاست خود سب سے زیادہ ذمہ دار اور مسئول ہے۔ اگر کہیں کوئی خرابی ہے تو اس کی وجہ ہمارے کام کی کمی ہے۔ تاہم آج بہت سے وسائل موجود ہیں، اسلامی ممالک کے خواص تیار ہیں، وہ واقعی آمادہ ہیں اور عوام بھی۔ عالم اسلام کی حالیہ ظرفیت بھی اسلامی جمہوریہ کا نظام ہے۔
اسلامی جمہوریہ کا نظام ایک حقیقت ہے جو موجود ہے۔ یہ وعدہ نہیں ہے کہ "اب ہم کریں گے"۔ نہیں، یہ ایک ایسا نظام ہے جو وجود میں آگیا ہے، اور میرے خیال میں اسلامی نظام کا باقی رہنا اسلامی نظام کے وجود میں آنے سے زیادہ اہم ہے۔ اسلامی نظام نے یہ دشمنیاں، یہ حملے، یہ مختلف ضربیں برداشت کیں۔ بقا! وہ برداشت کرگیا، وہ کھڑا رہا، وہ باقی رہا اور وہ مضبوط ہوتا گیا۔ آج کا اسلامی جمہوریہ تیس چالیس سال پہلے کا اسلامی جمہوریہ نہیں ہے۔ آج خدا کا شکر ہے کہ تازہ اگایا ہوا پودا تناور درخت بن گیا ہے اور یہ ایک نمونہ عمل ہے۔ یہ ایک مثال ہے۔ البتہ ہم نے کہا کہ "اسلامی جمہوریہ ایک نمونہ عمل ہے" کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اسلامی ممالک کا سیاسی ڈھانچہ اسلامی جمہوریہ جیسا ہی ہونا چاہیے۔ نہیں، سیاسی ڈھانچہ بدل سکتا ہے۔ ہم نے خود بعض جگہوں پر اپنا سیاسی ڈھانچہ بدلا ہے، شروع سے لے کر آج تک تبدیلیاں آتی رہی ہیں، دوسری جگہوں پر اور سیاسی ڈھانچہ ہو سکتا ہے۔ اساس بنیادی اصول ہیں، بنیاد بنیادی باتیں ہیں - وہ بنیادی باتیں جو ہمارے محترم امام خمینی رح نے اپنے بیانات میں بیان کی ہیں - اصل مسئلہ "اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَهُم" ہے، اصل مسئلہ "وَ عَلَی اللَّهِ فَلیَتَوَکَّلِ المُؤمِنون" (10)؛ یہ اہم ہیں جن پر غور کرنا چاہیے۔
بہرحال، مستقبل، انشاء اللہ، ایک روشن مستقبل ہے۔ ہم عالم اسلام کے مستقبل کو ایک اچھا مستقبل دیکھتے ہیں اور دنیا کے شیعہ ایک عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں اور آپ عالمی شیعہ اسمبلی کی حیثیت سے ایک عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ میں آپ سب کو ایک بار پھر خوش آمدید کہتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور انشاء اللہ آپ سب کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں، امید کرتا ہوں آپ اس کام کو کرنے میں کامیاب ہوں گے، اور اس سفر میں آپ کا وقت اچھا گزرے گا، انشاء اللہ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں، جو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے آخری دن انجام پائي، اس اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) امالی صدوق، صفحہ 400، "ہمارے لیے زینت بنو۔"
(3) منجملہ کامل الزیارات، صفحہ 206
(4) سورۂ ممتحنہ، آیت 4، یقیناً تم لوگوں کے لیے ابراہیم اوران کے ساتھیوں میں (پیروی کا) ایک عمدہ نمونہ ہے جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو ہم تمہارے (اور تمہارے دین کے) منکر ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض پیدا ہوگیا یہاں تک کہ تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ۔
(5) سورۂ ممتحنہ، آیت 8، اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ جن لوگون نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو۔
(6) سورۂ ممتحنہ، آیت 9، اللہ تو صرف تمھیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا۔
(7) سورۂ فتح، آيت 29، ... (پیغمبر کے ساتھ والے) کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں ...
(8) منجملہ صحیفۂ امام، جلد 16، صفحہ 154، اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی قوم کے نام پیغام: "انھیں بڑی طاقتوں خاص طور پر بڑے شیطان امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی اور اب بھی ہے۔"
(9) سورۂ مائدہ، آيت 91، شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے بغض و عداوت ڈالے۔
(10) منجملہ سورۂ آل عمران، آيت 122، اور ایمان والے تو بس اللہ ہی پر توکل کریں۔