بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین۔
میرے عزیزوں، ہمارے جوانوں، ہمارے نوجوانوں خوش آمدید! آپ نے اس حسینیہ کو نورانیت بخشی۔ آپ کے پاکیزہ دل، آپ کی زندہ دل روحیں، آپ جہاں کہیں بھی ہوں، آپ جس ماحول میں بھی موجود ہوں، نوارنی اور پاکیزہ کردیتے ہے۔ میرے پیارے بچو، میں نے آج آپ کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے چند آپس میں مربوط مطالب آمادہ کیے ہیں۔
پہلا نکتہ 13 آبان کے بارے میں ہے۔ آپ نے بہت سنا ہے؛ 13 آبان ایک تاریخی دن ہے۔ یہ تاریخی بھی ہے اور عبرت آموز بھی۔ "تاریخی" کا مطلب یہ ہے کہ اس دن رونما ہونے والے واقعات تاریخ میں باقی رہیں گے۔ اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا اور اسے فراموش بھی نہیں کرنے چاہیے۔ "عبرت آموز" [یعنی] ان واقعات کی وجہ سے کچھ ایسے ردعمل سامنے آئے ہیں جو ہمارے لیے سبق ہیں۔ آپ کو ان تجربات سے ملک کے مستقبل کے لیے، اپنی زندگی کے مستقبل کے لیے، اپنی قوم کے مستقبل کے لیے استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ مستقبل آپ کا ہے۔
ویسے تو یہ دن ہمارے لیے ایک اہم دن ہے لیکن امریکی اس دن سے بہت گھبرا جاتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جس کی یاد امریکیوں کے اعصاب جھنجھوڑ دیتی ہے۔ اب آپ کی یہ نشست، یہی ملاقات جب اس کی عکاسی ہو گی تو آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ امریکی رجحان اور خود امریکی اس اجتماع سے، اس ترانے سے، اس اظہار عقیدت سے، ان کے دماغ جھنجھلا جائیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ دن امریکہ کی خباثت، امریکہ کے مار کھانے اور امریکہ کے قابل شکست ہونے کی علامت ہے۔ یعنی جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک بقابلہ شکست طاقت ہے، اگر ہم اس دن کے واقعات کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں، وہ مکمل طور پر قابل شکست ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک تجربہ ہے۔
ویسے اس دن تین واقعات رونما ہوئے جن میں سے کچھ کا تعلق براہ راست امریکیوں سے اور کچھ کا بالواسطہ طور پر امریکیوں سے تعلق ہے۔ ایک واقعہ امام خمینی رح کی جلاوطنی کا ہے جو سن 43 میں آبان کی 13 تاریخ کو پیش آیا۔ امام خمینی رح کو کیوں جلاوطن کیا گیا؟ کیونکہ پارلیمنٹ میں شاہ کے حکم سے - محمد رضا کے حکم سے ایک قانون منظور کیا گیا تھا - اس قانون کے مطابق ایران میں موجود امریکیوں کو استثنیٰ دیا گیا تھا۔ اس وقت ایران میں عسکری، سیکورٹی اور اقتصادی اداروں میں تقریباً 45,000 امریکی تھے۔ اگر وہ ایران میں کوئی جرم کرتے تو اس قانون کے مطابق ان پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ یعنی اگر ایک امریکی گاڑی چلاتا ہے، مثال کے طور پر، کسی کو مار دیتا ہے، جرم کرتا ہے، ملک کے عدالتی نظام کو اس پر مقدمہ چلانے کا کوئی حق نہیں تھا! یہ امریکن امیونٹی ایکٹ تھا۔ امام خمینی رح نے اسے برداشت نہیں کیا۔ انہوں نے ایک مفصل تقریر کی - ان کی تقریر کا متن اب دستیاب ہے (1) - پھر اس تقریر کی وجہ سے وہ تیرہ سال کے لیے جلاوطن رہے! اب ہم کہتے ہیں تیرہ سال، کیونکہ ان تیرہ سالوں کے آخر میں انقلاب آیا۔ اگر انقلاب نہ آتا تو امریکی نواز قانون سے نمٹنے کی وجہ سے یہ جلاوطنی تیس سال تک جا سکتی تھی۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کا تقریباً براہ راست تعلق امریکیوں سے ہے۔
دوسرا واقعہ طلباء کے قتل عام کا ہے۔ اس تہران یونیورسٹی کے سامنے آپ کی عمر کے بچوں کا قتل عام کیا گیا۔ اب ان کی صحیح تعداد بتانا ناممکن ہے، کیونکہ اس وقت ایسے اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ لیکن تہران کی اس یونیورسٹی کے سامنے ہمارے کچھ پیارے بچے - حتی ایک بھی بہت زیادہ ہے، ایک بھی بہت زیادہ ہے - شہید ہو گئے۔ یہ 13 آبان کا دوسرا واقعہ ہے۔ یہ 1357 میں طلبہ کا واقعہ تھا۔
تیسرا واقعہ، جو کہ اس واقعے کے ایک سال بعد ہے یعنی انقلاب کی فتح کے بعد، امریکی سفارت خانے پر طلباء کی چڑھائی اور وہاں سے ایسی دستاویزات کا حصول ہے جس سے ایرانی قوم کے خلاف امریکی سازشوں کا پتہ چلتا ہے۔ ستر اسی جلدیں! ۔ آپ کے پاس ان کتابوں کو پڑھنے کا وقت نہیں ہے، [لیکن] میں نے ایک بار محکمہ تعلیم سے کہا تھا کہ ان کتابوں کے موضوعات کو نصابی کتب میں شامل کیا جائے، بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ [دستاویزات] ظاہر کرتی ہیں کہ امریکیوں نے، جس دوران وہ ایران میں تھے - یعنی مثال کے طور پر 28 اور 29 سال کے قریب- ایران میں کیا کیا، کیا سازشیں کیں اور کس طرح دھوکہ دہی سے کام لیا۔
یہاں ایک نکتہ ہے: یہ واقعہ اور امریکی سفارت خانے پر حملے کے مسئلہ کو - جس کے بارے میں کہا گیا "جاسوسی کا اڈہ" تھا اور حقیقت میں ایسا ہی تھا؛ یہ جاسوسی کا ایک اڈہ تھا - امریکیوں نے اپنے بیانات میں، اپنے پروپیگنڈے میں، اپنے انٹرویوز میں، جو انٹرویو انہوں نے میرے ساتھ نیویارک میں دوران صدارت کیا تھا، ایرانی قوم اور امریکہ کے درمیان چپقلش کے آغاز سے تعارف کرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے ایرانی قوم کی مخالفت کی وجہ وہ سفارت خانے والا واقعہ تھا۔ یعنی آپ نے ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا، ہمارے درمیان اختلاف ہوا، لڑائی ہوئی، دشمنی شروع ہوئی۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں؛ مسئلہ یہ نہیں ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان چپقلش کا آغاز 28 مرداد ہے؛ 28؍ مرداد 1332۔ 28 مرداد کو قومی حکومت کام کر رہی تھی۔ مصدق حکومت ایک قومی حکومت تھی۔ مغرب والوں کے ساتھ اسکا مسئلہ صرف تیل کا تھا۔ یہ نہ حجۃ الاسلام تھا، نہ اسکا اسلامیت کا دعویٰ تھا؛ صرف تیل کا مسئلہ تھا۔ تیل انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے کہا کہ ہمارا تیل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے، اس کا جرم صرف اتنا تھا۔ امریکیوں نے اسکے خلاف بغاوت ایجاد کی، ایک عجیب و غریب بغاوت۔
میرے ذہن میں [اس واقعے کے بارے میں] کچھ مبہم چیزیں ہیں۔ میں اس وقت چودہ سال کا تھا، ابھی بتاؤں گا۔ ہماری 14-15 سال کی عمر اور آج کے نوجوان کی 14-15 سال کی عمر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج، آپ مسائل کو درست طریقے سے سمجھتے اور ان کا تجزیہ کرتے ہیں، [لیکن] ہم نے اس وقت ایسے نہیں تھے۔ لیکن ٹھیک ہے، ہم نے تاریخ کو غور سے پڑھا ہے اور ہمیں اس واقعے کی تفصیلات معلوم ہیں۔ امریکیوں نے بیٹھ کر مصدق کے خلاف سازشیں کیں، حالانکہ مصدق امریکیوں سے پر امید تھا، وہ ان پر بھروسہ کرتا تھا، وہ ان سے لگاو بھی رکھتا تھا، اور اس کا خیال تھا کہ امریکی حکومت برطانویوں کے خلاف اس کا ساتھ دے گی۔ لیکن انہوں نے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ انہوں نے اپنا ایجنٹ - جس کا نام کم روزویلٹ تھا - کو ایران بھیجا، برطانویوں کے ساتھ مل کر، اسے ڈالروں سے بھرا سوٹ کیس دے کر ایران بھیجا؛ وہ برطانوی سفارت خانہ گیا - امریکی سفارتخانہ بھی نہیں گیا - اس نے کچھ غدار فوجیوں کے ساتھ ہم آہنگی کی، اس نے کچھ برطانوی عناصر کے ساتھ ہم آہنگی کی، انہوں نے غنڈوں اور اوباش کو اکٹھا کیا، انہوں نے فوجیوں کو مار ڈالا، اور 28 مرداد کو انہوں نے بغاوت کی اور مصدق اور اس کے ساتھیوں نے سب کو گرفتار کر لیا۔ کچھ کو بعد میں پھانسی دی گئی، کچھ کو کئی سالوں تک قید رکھا گیا۔
ایرانی قوم اور امریکہ کے درمیان اختلاف 28 مرداد سے ہے۔ آپ نے بغاوت کیوں کروائی اور ایک ایسی قومی حکومت کا تختہ الٹ دیا جسے عوام نے منتخب کیا تھا؟ اور آپ نے وہ تیل جو انگریزوں سے لیا گیا تھا ایک کنسورشیم کو دیا، (2) جس میں انگلستان، امریکہ اور کئی دوسری حکومتیں شامل تھیں۔ یعنی آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔ امریکیوں کے ساتھ ہماری لڑائی اسی دن سے شروع ہوئی۔ چنانچہ امریکیوں نے اپنے مفادات کی خاطر جو ان دنوں تیل تھا، ایک ایسے شخص کو بھی نہیں بخشا جو امریکہ سے خوش بین تھا اور انکے نظریات کا حامل تھا۔
یہ شروعات تھی؛ اب امریکی سیاستدان منافقت اور بے شرمی سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کی حمایت کرتے ہیں! آپ یہ الفاظ خبروں اور سائبر اسپیس اور دیگر جگہوں پر سنتے ہیں؛ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ انتہائی شرمناک ہے۔ میرا امریکیوں سے سوال ہے کہ انقلاب کے بعد چار دہائیوں میں آپ ایرانی قوم کے خلاف کیا کچھ نہیں کر سکے تھے جو آپ نے کیا؟ انہوں نے اگر کچھ نہیں کیا تو اس لئے کیونکہ وہ نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ یہ ان کے لیے فائدہ مند نہیں تھا۔ اگر وہ کر سکتے، تو ضرور کرتے۔ اگر یہ ان کے لیے نفع بخش ہوتا اور وہ ایرانی جوانوں سے خوفزدہ نہ ہوتے تو وہ عراق کی طرح براہ راست جنگ شروع کر دیتے۔ لیکن وہ خوفزدہ ہوگئے۔
انہوں نے اپنی ہر ممکن کوشش کی: انقلاب کے آغاز میں، انہوں نے علیحدگی پسند گروپوں کی حمایت کی۔ انہوں نے ہمدان میں شہید نوزہ بیس میں بغاوت کی حمایت کی (3)؛ امریکیوں نے منافقین کی اندھا دھند دہشت گردی کی حمایت کی جنہوں نے ملک کی گلیوں اور بازاروں میں کئی ہزار افراد کو شہید کیا۔ انہوں نے آٹھ سالہ جنگ کے دوران وحشی صدام کی ہر طرح سے حمایت کی۔ انہوں نے اسکو اسلحہ دیا، معلومات دی، مدد کی، عربوں کو اسے پیسے دینے پر مجبور کیا۔ ایسی معلومات موجود ہیں - جس کے بارے میں مجھے ابھی زیادہ یقین نہیں ہے، لیکن بظاہر یہ موثق معلومات ہیں - کہ جنگ کے آغاز پر بھی امریکیوں نے اکسایا اور انہوں نے صدام کو آٹھ سالہ جنگ شروع کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے ہمارے مسافر بردار طیارے کو خلیج فارس میں مار گرایا جس سے تقریباً تین سو لوگ مارے گئے جو اس مسافر طیارے کے اندر تھے اور پھر انہوں نے کوئی افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے اس مجرم جنرل (4) کو انعام دیا جس نے اس طیارے کو نشانہ بنایا تھا، انہوں نے اسے طمغہ دیا (5)؛ تم نے ایرانی قوم کے ساتھ یہ برتاو کیا۔
انہوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی ایرانی قوم پر پابندیاں لگائیں۔ حال ہی میں اور پچھلے چند سالوں میں انھوں نے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی ہیں، جو خود ان کا کہنا تھا کہ کسی قوم کی تاریخ میں کبھی ایسی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔ 2009 کے فسادات میں، آپ نے کھلم کھلا غداری کرنے والوں کی حمایت کی۔ اس سے پہلے اوباما (6) نے مجھے لکھا تھا کہ آئیں مل کر کام کریں، ہم آپ کے دوست ہیں، ہماری زبان میں یعنی قسم کھاتے ہیں کہ ہم آپ کی حکومت گرانے کا ارادہ نہیں رکھتے، لیکن جب 88 کا فتنہ شروع ہوا، انہوں نے اسکا ساتھ دینا شروع کردیا اس امید سے کہ شاید یہ فتنہ کسی نتیجے پر پہنچے، ملت ایران کو گھٹنوں کے بل گرا دے، اسلامی جمہوریہ کو ختم کر دے۔ آپ نے ایران کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔
تم امریکیوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ تم نے ہمارے عظیم جنرل، شہید سلیمانی کو قتل کیا۔ تم نے قتل کیا اور اس پر فخر کیا۔ [تم] نے اعتراف کیا کہ تم نے حکم دیا۔ شہید سلیمانی صرف قومی ہیرو نہیں تھے، وہ خطے کے ہیرو تھے۔ اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ میں یہ بتاوں کہ خطے کے کئی ممالک کے مسائل کے حل میں شہید سلیمانی نے کیا عظیم اور منفرد کردار ادا کیا۔ آپ نے اس عظیم انسان اور اس کے ساتھیوں کو شہید کیا۔ شہید ابو مہدی اور دیگر کو۔ آپ نے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں کے قاتلوں کی حمایت کی۔ صیہونیوں کے ایجنٹوں نے ہمارے سائنسدانوں کو ایک ایک کر کے شہید کیا اور تم نے ان کا ساتھ دیا۔ آپ نے کسی چیز کی بھی مذمت نہیں کی، آپ نے ان کا ساتھ دیا۔
آپ نے اس قوم کے اربوں ڈالر کے اثاثوں کو مختلف ممالک میں ضبط کرلیا، جو اگر یہ رقم موجودہ حکومت کی طرح کسی خادم حکومت کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ ان سے بہت سے اچھے کام کر سکتی تھی۔ [لیکن] انہوں نے انہیں فریز کر دیا، انہیں ضبط کرلیا، اس رقم کے علاوہ جو انقلاب کے آغاز سے ہی امریکہ میں ضبط ہوگئی تھی۔ (7) بیشتر ایران مخالف واقعات میں انکے ہاتھ نظر آتے ہیں۔ پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے ہمدرد ہیں! انہوں نے کل پھر وہی بات کہی کہ ہاں ہمیں ایرانی قوم سے ہمدردی ہے۔ صاف جھوٹ [بولتے ہیں] پوری ڈھٹائی کے ساتھ۔ بلاشبہ انہوں نے بہت دشمنیاں کیں لیکن ان کو سبق سکھاتے ہوئے ملت ایران نے ان میں سے بہت سی دشمنیوں کو بے اثر کر دیا۔ ان میں سے کچھ واقعات کی یاد آج بھی ہمارے ہاں باقی ہے، اور ہم بھولے نہیں ہیں۔ ہم سلیمانی کی شہادت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ وہ یہ جانیں۔ ہم نے اس بارے میں کچھ کہا، اور ہم اس پر قائم ہیں۔ اپنے مناسب وقت اور مقام پر اسے انجام دیا جائے گا۔
آج کا امریکہ وہی ہے جو کل کا امریکہ تھا۔ آج کا امریکہ وہی ہے جو 28 مرداد کا امریکہ ہے، وہی امریکہ ہے جس نے صدام کی مدد کی تھی، یہ پچھلے سالوں والا وہی امریکہ ہے البتہ ایک دو اہم فرق ہیں؛ دو فرق ہیں جن پر ہمیں توجہ دینی چاہیے: ایک یہ کہ دشمن کے حربے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ دشمنیاں وہی دشمنیاں ہیں، لیکن دشمنی کا طریقہ مختلف، پیچیدہ، اب گرہیں کھولنا اتنا آسان نہیں۔ آپ کو دھیان دینا ہوگا، آپ کو چوکنا رہنا ہوگا۔ بے شک، ہم اپنے بچوں، اپنے نوجوانوں، اپنے کارکنوں پر بھروسہ کرتے ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ وہ [گرہیں] کھول سکتے ہیں، لیکن بالآخر یہ پیچیدہ ہے۔ یہ ایک فرق ہے۔
دوسرا، اسوقت - 28 مرداد اور اس جیسے ایام میں - اور یہاں تک کہ انقلاب کے آغاز تک، امریکہ دنیا کی غالب طاقت تھا، [لیکن] وہ آج نہیں ہے۔ یہ ایک اہم فرق ہے۔ آج امریکہ دنیا کی غالب طاقت نہیں ہے۔ دنیا کے بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ زوال پذیر ہے، وہ آہستہ آہستہ پگھل رہا ہے۔ یہ ہمارا کہنا نہیں ہے۔ یقیناً یہ ہماری رائے ہے لیکن دنیا کے سیاسی تجزیہ نگار بھی یہی کہتے ہیں۔ اس کی نشانیاں بھی واضح ہیں۔ امریکہ کے اندرونی مسائل بے تحاشا ہیں۔ ان کے معاشی مسائل، ان کے سماجی مسائل، اور امریکہ کے اندر ان کے اخلاقی مسائل۔ ان کے آپسی اختلافات، ان کی خونی گروہ بندیاں، عالمی مسائل میں ان کے حساب کتاب کی غلطیاں۔
مثال کے طور پر بیس سال پہلے، انہوں نے افغانستان پر حملہ کیا - اس وقت طالبان حکومت میں تھے - طالبان کو ختم کرنے کے لیے، انھوں نے حملہ کیا، خرچ کیا، جرائم کیے، انکے لوگ مارے گئے، انھوں نے کتنے مارے اور اسی طرح وہ بیس سال افغانستان میں ہی رہے۔ بیس سال بعد طالبان کو افغانستان ہاتھ میں تھما کر باہر نکل آئے! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب تجزیاتی غلطی ہے۔ یہ معلوم چلتا ہے کہ امریکی تجزیاتی ادارے منظم، مرتب اور دقیق نہیں ہے۔ وہ مسائل کو غلط سمجھتے ہیں۔ وہ غلط سمجھتے ہیں، اور اس کی بنیاد پر غلط عمل کرتے ہیں۔ یا انہوں نے عراق پر حملہ کیا اور ناکام رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج آپ عراق میں انتخابات دیکھ رہے ہیں اور ایک عراقی شخص [منتخب] ہے، یہ وہ نہیں تھا جو امریکی چاہتے تھے۔ صدام جب چلا گیا تو امریکیوں نے ایک فوجی کو عراق کا انچارج بنا دیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ کسی فوجی سے نہیں ہوسکتا، انہوں نے اسے ہٹا دیا، اور ایک سویلین جناب برمر (8) کو عراق کا انچارج بنا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک عراق پر ایک غیر عرب، غیر عراقی اور امریکی حکومت کی حکومت ہو!
اب میں نے کہا تھا کہ مجھے حج قاسم سلیمانی کے معاملے میں کچھ کہنا ہے، یہاں ایک بات یہ ہے کہ اب اسے کہنے کا کافی وقت نہیں ہے۔ یہ ان کا ارادہ تھا۔ ان کا ارادہ عراق چھوڑنے کا نہیں تھا۔ پھر انہوں نے اپنے ایجنٹوں سے کام لینے کی کوشش کی لیکن وہ مکمل طور پر ناکام رہے۔ وہ عراق میں ناکام ہوئے، وہ شام میں بھی ناکام ہوئے، اور وہ لبنان میں بھی ناکام ہوئے۔ سمندری حدود، گیس کے ذخائر اور اسی طرح کے معاملے پر غاصب حکومت کے ساتھ لبنانیوں کا یہ حالیہ معاہدہ امریکہ کی ناکامی تھی۔ جب امریکی بیچ میں آئے تو انہوں نے ہدایات دیں: ایسا ہونا چاہیے، ایسا ہی ہونا چاہیے، حزب اللہ نے ان سب کو رد کی۔ یہ امریکہ کی ناکامی ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کا محاسبہ غلط ہے۔
ان چیزوں میں سے ایک - میں اب یہ کہہے رہا ہوں؛ دنیا کے کچھ اور لوگوں نے بھی بظاہر یہ کہا ہے - میری رائے میں امریکہ کے زوال کی نشانیوں میں سے ایک موجودہ صدر (9) اور سابق صدر (10) جیسے لوگوں کا اقتدار میں آنا ہے۔ تین سو ملین، تین سو کچھ ملین کا ملک، سارا زور لگا کر، ٹرمپ جیسا صدر کے کر آتا ہے، جسے پوری دنیا پاگل کہتی ہے؛ پھر وہ رخصت ہوتا ہے اور اس جیسا شخص آتا ہے، اب آپ اس کی حالت جانتے ہیں، (11) یہ قوم کے زوال کا ثبوت ہے؛ تہذیب کے زوال کی علامت ہے۔ یہ امریکہ کے بارے میں تھا۔
بہت سی دوسری مغربی طاقتیں ان چیزوں میں امریکہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اب ہم نام نہیں لینا چاہتے، کچھ اور مغربی طاقتیں اس میدان میں امریکہ کی مانند ہیں۔ اپنے میڈیا میں وہ تباہکاری سکھاتے ہیں، وہ فسادات کرنا سکھاتے ہیں، وہ آگ کے کاک ٹیل بنانا سکھاتے ہیں، وہ دستی بم بنانے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اسکی وجوہات کیا ہیں؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا کر کے جرم کر رہے ہیں، ہاں یہ جرم ہے، لیکن یہ زوال ہے، پستی ہے۔ ایک حکومت کے اخلاقی انحطاط کی سطح کو ظاہر کرتا ہے، ایک نظام حکمرانی جس کا ریڈیو اس طرح کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں کئی ہفتوں سے جاری حالیہ بدامنی میں امریکہ نے یہاں بھی واضح کردار ادا کیا۔ وزارت اطلاعات اور سپاہ کا حالیہ بیانیہ جو انھوں نے دیا، ایک اہم بیانیہ ہے۔ یہ طویل ہے اور کچھ لوگ اسے مکمل نہیں پڑھ سکیں گے۔ ہمارے پاس اس کی معلومات اور رپورٹس تھیں۔ یہ بہت اہم معلومات ہیں، اس میدان میں بہت سے نکات ہیں؛ پھر ہماری ایجنسیوں کی اس میدان میں دریافتیں بہت قیمتی ہیں۔ تہران کے لیے، بڑے شہروں کے لیے، چھوٹے شہروں کے لیے، انہوں نے خاکہ بنایا ہے اور منصوبہ بندی کی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مثال کے طور پر مٹھی بھر نوجوان یا نوعمر بچے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ یہ نوجوان ہمارے اپنے بچے ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ جذبات، احساسات، مسائل کو سمجھنے میں تھوڑی سی لاپرواہی ہے جو اس طرح باہر آجاتے ہیں۔ نہیں، بحث ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو ایک منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔
یہ [بات] جو میں عرض کر رہا ہوں اس پر ہر ایک کو غور کرنا چاہئے: دشمن کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ ہمارے حکام کو بھی غور کرنا چاہئے - جس پر خوش قسمتی سے ہماری ایجنسیاں متوجہ ہیں۔ ہمارے سیاسی عہدیدار، ہمارے اقتصادی عہدیدار، ہمارے مختلف عہدیداروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن ایک منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترا ہے - عوام اور آپ جوان دونوں کو معلوم ہونا چاہئے۔ وہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ وہ ایرانی قوم کو اپنے ساتھ ملانے کے قابل ہوجائیں، تاکہ ایرانی قوم کو برطانوی اور امریکی لیڈروں وغیرہ کی رائے اپنانے پر مجبور کیا جائے۔ یہی منصوبہ ہے، یہی ہدف ہے۔ بلاشبہ ایرانی قوم نے ان کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔ اس کے بعد یہی کرے گی۔
جن لوگوں نے ارادہ اور منصوبہ بندی اور سمجھ بوجھ کے ساتھ سازش تیار کی اور میدان عمل میں اترے - یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے - وہ غیر ملکی ایجنسیوں سے جڑے ہوئے تھے اور جرائم کے مرتکب ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ شاہچراغ شیراز کا یہ حادثہ کتنا بڑا جرم تھا! دوسری جماعت (12) یا چھٹی جماعت (13) یا دسویں جماعت (14) کے اس بچے نے کیا گناہ کیا ہے؟ وہ چھ سالہ بچہ (15) جس نے اپنے ماں باپ اور بھائی کو کھو دیا، اس نے غم کا یہ بھاری پہاڑ اسکے کندھوں پر کیوں گرایا؟ کیوں؟ یہ بچہ اس عظیم اور ناقابل برداشت غم کا کیا کرے؟ یہ جرائم ہیں؛ یہ سنگین جرائم ہیں۔ اس نوجوان طالب علم نے کیا گناہ کیا؟ - ارمان عزیز (16) - تہران میں نوجوان شہید طالب علم؛ وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اور وہ طالب علم بن گیا۔ مذہبی، مومن، دیندار، حزب اللہی ۔ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اسے اذیت دے کر مار ڈالا گیا، اس کی لاش سڑک پر پھینک دیں۔ کیا یہ چھوٹی چیزیں ہیں؟ یہ کون ہیں؟ ہمیں سوچنا ہوگا۔ یہ کون ہیں؟ یہ ہمارے بچے نہیں ہیں، یہ ہمارے نوجوان نہیں ہیں۔ یہ کون ہیں؟ انہیں کہاں سے آرڈر ملتے ہیں؟ انسانی حقوق کا دعویٰ کرنے والوں نے ان کی مذمت کیوں نہیں کی؟ انہوں نے شیراز حادثے کی مذمت کیوں نہیں کی؟ وہ انٹرنیٹ پر اپنے صفحات پر ہزاروں بار جھوٹا حادثہ، جھوٹا واقعہ کیوں دہراتے ہیں، لیکن ارشام کے نام پر انٹرنیٹ پر پابندی کیوں لگاتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر نظر نہ آئے؟ کیوں؟ کیا یہ انسانی حقوق کے حامی ہیں؟ یہ اس طرح ہیں۔ انھیں جانیں۔ یقیناً ہم انکو نہیں چھوڑیں گے۔ اسلامی جمہوریہ نظام ان مجرموں کو ضرور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ جو بھی ان جرائم میں تعاون کرنے والا ثابت ہوا، اس کا ان جرائم میں ہاتھ ہوا، انشاء اللہ سزا دی جائے گی۔ بغیر کسی شک و شبہ کے!
اچھا اب میں آپ نوجوانوں سے چند باتیں عرض کروں گا۔ سب سے پہلے، آج کا نوجوان، پرانے نوجوان کے برعکس، ایک بالغ اور عقلمند عنصر، ایک ذہین عنصر ہے۔ ہمارا زمانہ ایسا نہیں تھا۔ یہ میں آپ کو بتادوں۔ میں اپنے بارے میں کہتا ہوں؛ 28 مرداد کا واقعہ، جب یہ ہوا تو ہم آپ میں سے کچھ کی عمر کے تھا، مثلاً فرض کریں کہ ہماری عمر چودہ یا پندرہ سال تھی؛ ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ مجمل واقعات تھے، [لیکن] دقت سے دیکھیں کہ یہ کون ہیں، کون سے عناصر ہیں، اس طرف کون ہے، دوسری طرف کون ہے، مقصد کیا ہے، کیوں کر رہے ہیں؟ یہ، نہیں، ہم ان پر توجہ نہیں تھے۔ آج کے نوجوان ایسے نہیں ہیں۔ آج کا نوجوان سوچتا ہے، تجزیہ کرتا ہے، تجزیہ کو صحیح سمجھتا ہے، نکات اٹھاتا ہے، آج کا نوجوان تجزیاتی ہے؛ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے، یہ بہت قابل توجہ ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوانو اہل فکر ہیں اور یہی اسلامی انقلاب کی خصوصیت ہے۔ میں یہ کہہ دوں: یہ اسلامی انقلاب کی خصوصیت ہے۔ اگر اسلامی انقلاب نہ ہوتا تو ہمارے جوان، صرف نوعمر اور بچے نہیں، یہاں تک کہ نوجوان لڑکے؛ مثال کے طور پر بیس پچیس سال کی عمر کے نوجوان بھی لغویات اور ہوس میں اس قدر مصروف ہوتے کہ انہیں ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں سوچنا یاد ہیننہیں رہتا۔ وہ دوران ایسا ہی تھا۔ میں یہاں سڑک پر آتا تھا، اس دن اور آج کے شہ
خیر، اب یہ ایک حقیقت ہے؛ دشمن بھی اس حقیقت کو اسی طرح سمجھتا ہے جس طرح ہم اسے سمجھتے ہیں۔ دشمن بھی یہ سمجھتا ہے کہ آج کے نوجوانوں کی آنکھیں اور کان کھلے ہیں، وہ مرکوز ہیں، وہ ذہین ہیں، وہ تجزیہ کر سکتے ہیں۔ وہ کیا کر رہا ہے؟ دشمن بیکار نہیں بیٹھتا۔ ہماری جوان کی اس حالت کو بے اثر کرنے کے لیے دشمن نوجوانوں کے لیے ذہنی مواد تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ سائبر اسپیس میں جھوٹ کی یہ بڑی مقدار اس کی وجہ سے ہے۔ یہ سب جھوٹ، یہ سب غلط بیانیاں، یہ تمام انحرافی باتیں، یہ تمام بہتان، اس لیے ہیں تاکہ دشمن اس متحرک ذہن کے لیے مواد تیار کریں۔ یہی وجہ ہے کہ میں کہتا رہتا ہوں "بیان و تشریح کا جہاد، تشریحی جہاد"۔ آپ مواد بنائیں؛ میں حکام سے کہہ رہا ہوں؛ میڈیا کے حکام، مواصلات کے حکام۔ اس سے پہلے کہ دشمن جھوٹا اور منحرف مواد تیار کرے، آپ صحیح اور درست مواد تیار کر کے نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچا دیں۔ دشمن اس کام میں مصروف ہے۔(17) (بہت شکریہ، بہت بہت شکریہ، ابھی یہاں سن لیں، پھر جا کر واقعی منصوبہ بنائیں)
میں واقعی آپ نوجوانوں سے یہی توقع رکھتا ہوں۔ میں اب کہہ رہا ہوں، دوبارہ کہوں گا۔ ابھی کچھ وقت گزر گیا ہے، لیکن آپ سے بات کرنے کا یہ اچھا موقع ہے۔ تو دشمن بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ میں نے کہا کہ حکام کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے، جاننا چاہیے کہ دشمن کسی خاص لفظ، مخصوص نام کے بارے میں حساس کیوں ہے اور کیوں اس پر پابندی عائد کر دیتا ہے، اور سائبر اسپیس میں اتنے جھوٹ کیوں شائع کرتا ہے۔ اور پھر علاج کریں، مقابلہ کریں؛ حکام کا یہ [فرض] ہے۔ آپ نوجوانوں کا بھی فرض ہے، آپ کو ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لیے آپ کو بھی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے۔ میرے خیال سے یہ ممکن ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنی چیزوں کو کثرت استعمال سے، بہت زیادہ تکرار کے ساتھ ذہنوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں، لیکن یہ سمجھنا ممکن ہے کہ یہ حقیقت کے خلاف ہے یا نہیں۔ پس سچ کو جھوٹ اور تحریف سے الگ کرنا۔
دوم، دشمن کے ہمسو ہونے والوں سے ہوشیار رہیں۔ ان کی رہنمائی کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان سے لڑیں، [لیکن] رہنمائی کریں، وضاحت کریں۔ کچھ لوگ ہیں جو دشمن کے ہمسو ہوجاتے ہیں۔ [یقینا] جان بوجھ کر نہیں؛ کچھ لوگ نہیں سمجھ پاتے، وہ غافل ہیں۔ انسان ایسے لوگوں کو دیکھتا اور جانتا ہے جو سائبر اسپیس میں کچھ باتیں کہتے ہیں، اخبارات میں لکھتے ہیں۔ وہ مخالف نہیں ہیں، [لیکن] وہ غلط سمجھتے ہیں؛ ان کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ بہترین لوگ جو رہنمائی کر سکتے ہیں وہ آپ نوجوان ہیں۔ انہیں لکھیں، انہیں بتائیں، انہیں پیغام دیں، انہیں سمجھائیں، اپنی محفلوں میں ان سے دلیل کے ساتھ بحث کریں۔
یقینا، ہم جانتے ہیں کہ ان مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کی جانی چاہئے۔ ان چند ہفتوں کے واقعات صرف سڑکوں پر ہونے والے فسادات نہیں تھے۔ [پیچھے] یہ بہت گہرے منصوبے تھے۔ دشمن نے مرکب جنگ شروع کی۔ ایک مرکب جنگ؛ یہ میں آپ کو اپنی معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ دشمن امریکہ، اسرائیل، کچھ مکار اور بددیانت یورپی طاقتیں، کچھ تنظیمیں اور گروہ اپنے تمام وسائل میدان میں اتار چکے ہیں۔ تمام وسائل کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ان کی ایجنسیاں، ان کے میڈیا ادارے، ان کی سائبر اسپیس کے وسائل، ان کے ماضی کے تجربات۔ انہیں ایران میں تجربہ ہے۔ ان کے پاس 1378 کا تجربہ ہے، ان کے پاس 1388 کا تجربہ ہے، ان کے پاس اگلے سالوں کا تجربہ ہے، وہ وہاں ناکام ہوئے، وہ ان تجربات کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ ان تجربات کو بھی میدان میں لے آئے۔ انہوں نے یہ چیزیں دوسرے ممالک میں کی ہیں، وہ ناکام ہوئے ہیں، انہیں کامیابی بھی ملی ہے، اور وہ ان تجربات کو استعمال کرتے ہیں۔ دشمن ان چند ہفتوں میں ایرانی قوم کو شکست دینے کے لیے ان تمام وسائل کو میدان میں لے آیا۔ میں نے کہا کہ حقیقی طور پر قوم نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا۔ ایرانی قوم نے انہیں حقیقی طور پر ناکام بنا دیا۔
خیر، یہ آپ سے توقع کا اظہار ہے، پیارے نوجوانو، اور تمام نوجوان جو بعد میں یہ گفتگو سنیں گے، لیکن مجھے ایک اور توقع بھی ہے۔ آپ دیکھیں، میں نے ایک یا دو پچھلی تقریروں میں کہا تھا کہ اس بات کی بہت سی نشانیاں ہیں کہ موجودہ عالمی نظام بدل رہا ہے اور ایک نیا نظام دنیا پر راج کرے گا۔ اس نئی ترتیب میں ہم ایرانیوں کا کیا کردار ہے، ہم ایرانیوں کا کیا مقام ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اب یہ کون سا نیا نظام ہے جس کی میں بات کر رہا ہوں کہ موجودہ ترتیب کو بدل کر نیا نظام آئے گا۔ قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں، قطعی طور پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ نئی ترتیب اس طرح ہوگی، لیکن کچھ خاکہ بنانا ممکن ہے۔ ایک بنیادی اصل ہے، جو یقینی طور پر اس نئی ترتیب میں بنیادی ہے۔ پہلی بنیادی اصل امریکہ کی تنہائی ہے۔ امریکہ نئے عالمی نظام میں تنہا ہو جائے گا۔ اس کے برعکس، جو بش سینئر نے دس یا بیس سال پہلے کہا تھا کہ امریکہ آج دنیا کی واحد غالب طاقت ہے۔ کویت پر عراق کے حملے اور امریکیوں کی آمد اور عراقی حملے کو پسپا کرنے کے بعد، [بش سینئر] نے فخر سے کہا - اس تناظر میں - کہ آج دنیا کی واحد طاقت امریکہ ہے؛ اس نئے نظام میں جس پر میں بات کر رہا ہوں۔۔۔ نہیں! امریکہ اس میں کوئی اہم مقام نہیں رکھتا اور الگ تھلگ ہوجائے گا۔ (19) بالکل اسی طرح ہوگا۔ "امریکہ مردہ باد" ہوجائے گا! اس کے علاوہ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کہتے ہیں "مرگ بر امریکہ"، اس وجہ سے امریکی آپ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ میں کہتا ہوں نہیں، جس دن امریکیوں نے دشمنی شروع کی تھی، یعنی 28 مرداد کو، ایران میں کسی نے بھی امریکہ مردہ باد نہیں کہا، لیکن انھوں نے ضرب لگائی۔ ان کی ضرب "مرگ بر امریکہ" کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی سال (20) کی 16 آذر کو اس ضرب لگنے کے بعد، تہران یونیورسٹی کے طلباء نے کہا کہ امریکہ مردہ باد؛ امریکہ مردہ باد 16 آذر کی یادگار ہے۔ تب سے یہ امریکہ مردہ باد کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے امریکی ضرب لگا چکے تھے۔
پس ایک بات یہ ہے کہ امریکہ کو دنیا کے مختلف حصوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اب دنیا کے کئی حصوں میں امریکیوں کے اڈے ہیں۔ ہمارے خطے میں، یورپ میں، ایشیا میں، بڑی تعداد والے فوجی اڈے، پیسے بھی ان غریب ملک سے لیتے ہیں جہاں اڈے واقع ہیں۔ وہ انکے اخراجات پورے کرے اور امریکی کھائیں اور سردار بنیں! یہ سب ختم ہو گاا؛ پوری دنیا میں موجودگی سے امریکہ دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ پہلی بنیادی اصل ہے، جو دنیا کے مستقبل کے نئے نظام کے اہم اصول میں سے ایک ہے۔
پس ایک بات یہ ہے کہ امریکہ کو دنیا کے مختلف حصوں سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اب دنیا کے کئی حصوں میں امریکیوں کے اڈے ہیں۔ ہمارے خطے میں، یورپ میں، ایشیا میں، بڑی تعداد والے فوجی اڈے، پیسے بھی ان غریب ملک سے لیتے ہیں جہاں اڈے واقع ہیں۔ وہ انکے اخراجات پورے کرے اور امریکی کھائیں اور سردار بنیں! یہ سب ختم ہو گاا؛ پوری دنیا میں موجودگی سے امریکہ دستبردار ہو جائیں گے۔ یہ پہلی بنیادی اصل ہے، جو دنیا کے مستقبل کے نئے نظام کے اہم اصول میں سے ایک ہے۔
دوسری بنیادی اصل؛ سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور یہاں تک کہ سائنسی طاقت کی مغرب سے ایشیا میں منتقلی ہے۔ آج، مغربی طاقتوں کے پاس سیاسی اقتدار، سائنسی اقتدار، ثقافتی اقتدار اور اقتصادی اقتدار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس بہت سی چیزیں ہیں، یقیناً، زیادہ صحیح تشریح یہ ہے کہ ان کے پاس تھیں اور وہ آہستہ آہستہ کھو رہے ہیں۔ لیکن اُن کے پاس برسوں سے یہ تھیں۔ مغرب والوں نے دو تین صدیوں تک یہ اقتدار رکھا۔ اس نئے نظام میں یہ اقتدار کو مغرب سے ایشیا میں منتقل ہوجائے گا۔ ایشیا علم کا مرکز، معیشت کا مرکز، سیاسی طاقت کا مرکز اور فوجی طاقت کا مرکز بن جائے گا۔ اور ہم ایشیا میں ہیں۔ یہ اگلا نقطہ ہے.
تیسرا نکتہ، [یعنی] تیسری بنیادی اصل: مزاحمت کا تفکر اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا محاذ وسیع ہوگا، جس کا موجد اسلامی جمہوریہ ہے۔ کیونکہ یورپیوں نے جب سے صنعتی انقلاب برپا ہوا اور انہوں نے ترقی کی اور استعمار کا آغاز کیا، دنیا کے لوگوں اور دنیا کے ممالک کو اس بات کا عادی بنا دیا کہ تسلط پسندی اور تسلط پذیری دنیا کے دو مقابل حصے ہیں، یعنی دنیا حتمی طور سے تسلط پسند ریاستوں، طاقتوں اور حکومتوں اور تسلط پذیر ممالک میں بٹی ہوئی ہے۔ یہ [صورتحال] ہے اور یہ تسلط کا نظام کئی صدیوں سے جاری ہے۔ سب نے اس بات کو قبول کیا کہ انہیں مغربی طاقتوں کے تسلط کو قبول کرنا چاہئے، ان کی ثقافت کو بھی قبول کرنا چاہئے، یہاں تک کہ ان کے جیسے نام رکھنے کو بھی قبول کرنا چاہئے۔
میں یہاں یہ بات کہہ دوں - ایک بار اور بھی میں نے کہا [تھا] - ہمارے خطے کو کہا جاتا ہے: مشرق وسطی! مشرق وسطیٰ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی کہ دنیا کا محور اور دنیا کا مرکز یورپ ہے۔ جیسا کہ ملانصرالدین کی داستان جس سے پوچھا کہ دنیا کا مرکز کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ وہ جہاں میرے گدھے کے اصطبل کا کیل ہے۔ یہ دنیا کا مرکز ہے! جو بھی خطہ جو یورپ سے دور ہے مشرق بعید کا خطہ کہلاتا ہے۔ کیونکہ یہ یورپ سے بہت دور ہے۔ جو بھی قریب ہے، کچھ شمالی افریقی ممالک کی طرح، یہ مشرق قریب ہے؛ ان میں سے جو بھی وسط میں ہے، وہ مشرق وسطیٰ ہے؛ یعنی ممالک کے نام رکھنے کی بنیاد بھی یورپ ہے۔ اہل مغرب اپنے لئے اس قدر حق کے قائل تھے! اس لیے میرا اصرار ہے کہ مشرق وسطیٰ نہ کہوں بلکہ مغربی ایشیا کہوں۔ یہاں مغربی ایشیا ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ کیوں کہتے ہیں؟ غاصب طاقتوں کے استبداد اور اقتدار کی ہوس اور تسلط کے خلاف مزاحمت کے اس جذبے کو اسلامی جمہوریہ نے ایجاد دیا۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے "نہ مشرق نہ مغرب" کہا وہ ہمارے عظیم امام خمینی رح تھے۔ نہ مشرق نہ مغرب۔ اس دن دنیا کی طاقت امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تقسیم ہو چکی تھی۔ لیکن انھوں نے فرمایا: نہ یہ اور نہ وہ۔ دنیا کے تمام ممالک کو یا تو اس (مغرب) سے جڑنا تھا یا اس(مشرق) سے جڑنا تھا۔ وہ خود کو مجبور پاتے تھے، [لیکن] انھوں نے کہا کہ نہ یہ اور نہ وہ۔ یہ فکر، یہ منطق، یہ محکم نظریہ رواج پا چکا ہے۔ آج ہمارے خطے میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مزاحمتی محاذ سے وابستہ سمجھتے ہیں، وہ اہل مزاحمت ہیں، وہ مزاحمت پر یقین رکھتے ہیں اور مزاحمت کرتے ہیں، اور بہت سے معاملات میں وہ نتائج بھی حاصل کرتے ہیں، جیسا کہ گیس لائنوں کی تقسیم کے معاملے میں حزب اللہ کی برکت سے لبنانیوں کو نتیجہ ملا۔ میں نے تین بنیادی اصلوں کا ذکر کیا: امریکہ کی تنہائی، ایشیا میں اقتدار کی منتقلی، مزاحمتی محاذ اور مزاحمت کی منطق کی توسیع۔ البتہ دوسری باتیں بھی کہی جا سکتی ہیں، وہ بھی میرے ذہن میں ہیں، البتہ یہ زیادہ بنیادی مسائل ہیں۔
تو، ایران اب اس نئی دنیا میں کہاں ہے؟ ایران کا مقام کہاں ہے؟ ہمارے وطن عزیز کی حیثیت کیا ہے؟ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں آپ کو سوچنا چاہئے؛ یہ وہی سوال ہے جس کے لیے آپ کو خود کو تیار کرنا چاہیے۔ یہ کام ایرانی نوجوان کر سکتے ہیں۔ ہم اس نئی ترتیب میں نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم کر سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں ایسی شاندار خصوصیات ہیں جو بہت سے دوسرے ممالک میں نہیں ہیں۔ سب سے پہلے، افرادی قوت؛ ہمارے پاس بہت اچھے انسانی وسائل ہیں۔ یعنی کہ ایرانی نوجوان کی ذہانت اور قابلیت دنیا کی اوسط ذہانت اور قابلیت سے اوپر ہے۔ یہ ہے. آج ہم ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی ذہانت اور قابلیت کی برکات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نوجوان اور یہ لوگ جو آج مختلف سائنسی شعبوں، مختلف تکنیکی شعبوں میں اختراعات کر رہے ہیں، جدت لا رہے ہیں- مختلف شعبوں میں، مختلف سائنسی شعبوں میں- بعض شعبوں میں، وہ ملک کو دنیا کے چار یا پانچ ممالک میں شامل کر چکے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو 60 اور 70 کی دہائی میں پیدا ہوئے تھے۔ آج وہ پھل حاصل کر چکے ہیں؛ اور انشاء اللہ، ایران کی قوم اب 80 کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کی برکات دیکھے گی - جن میں سے زیادہ تر آپ ہیں - اور مستقبل میں 90 کی دہائی میں۔ خیر، اب یقیناً رکاوٹیں آئیں گی، ایسی مشکلات ہیں جو رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ تو ہماری پہلی نمایاں خصوصیت افرادی قوت کی ہے۔
دوسرا نمایاں پہلو، قدرتی وسائل، ملک کی فطرت ہے؛ ہمارے ملک میں ایسے وسائل ہیں کہ ہمارے ملک میں قدرتی وسائل کا تنوع دنیا کے نایاب ترین تنوع میں سے ہے۔ میں نے ایک بار یہاں حسینیہ میں ایک تقریر (22) میں کہا تھا - مجھے اعداد و شمار اب یاد نہیں، میں نے اس دن مطالعہ کیا تھا لہذا یاد تھا - میں نے کہا کہ صنعت کے لیے ضروری ان چند بنیادی دھاتوں میں، ہم خود دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہیں، ہم ایک فیصد ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ چند دھاتیں چار فیصد ہیں، دنیا کے سٹاک کا پانچ فیصد؛ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اپنی قوم کے حجم سے زیادہ قدرتی وسائل ہیں۔ اب میں نے دھاتوں کا ذکر کیا، جڑی بوٹیاں بھی اسی طرح ہیں، معدنیاتی کانیں بھی اسی طرھ ہیں۔ اس لحاظ سے ہم بہت غنی ہیں۔ میں نے مختلف حکومتوں میں معدنیاتی کانوں پر کتنا انحصار کیا ہے، بدقسمتی سے، انہوں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں کی، اور بہت سی حکومتوں نے ہماری بات نہیں سنی۔ ہم امید کرتے ہیں، انشاء اللہ، یہ حکومت [ان مسائل سے نمٹے گی]۔ میں نے سنا ہے کہ یہ کانوں کے میدان میں بھی اچھا کام کر رہے ہیں۔ تو یہ ایک اور اہم نکتہ ہے۔
اس لیے ہمارا ملک افرادی قوت کے لحاظ سے، قدرتی وسائل کے لحاظ سے اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے، ہم مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کے درمیان رابطے کا سنگم ہیں۔ آپ نقشے پر دیکھیں، دنیا کا نقشہ سامنے رکھیں اور دیکھیں۔ ہم ایک حساس مقام پر واقع ہیں۔ مشرق اور مغرب ہمارے ملک سے عبور کرسکتے ہیں۔ شمال اور جنوب کے ممالک دونوں ہم سے گزر سکتے ہیں۔ ہم دنیا میں ایک بہت ہی ترقی یافتہ اور اچھی ٹرانزٹ گزرگاہ بن سکتے ہیں۔ یقیناً اس کے لیے ریلوے لائنوں، ریلوے لائنوں کی ضرورت ہے۔ سڑکوں سے یہ کام نہیں کیا جا سکتا کہ میں نے ان ریلوے لائنوں کے بارے میں - اب ہمیں آپ نوجوانوں کے ساتھ ہی یہ درد دل کرنا چاہیے - میں نے ریلوے لائنوں کے بارے میں مختلف حکومتوں میں بار بار زور دیا ہے؛ (23) بدقسمتی سے، اس کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ یقیناً امام خمینی رح کی وفات کے بعد ابتدائی دنوں میں ریلوے میں کچھ اچھے کام کیے گئے تھے، لیکن اس کے بعد کوئی مناسب کام نہیں ہوا اور اب انشاء اللہ اچھے کام کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ، انشاء اللہ، تجارتی آمدورفت اور نقل و حمل کے اس میدان میں اپنا حقیقی مقام حاصل کر لیں۔
ان تمام پہلوؤں سے زیادہ نمایاں ہماری حکمرانی اور تہذیبی منطق ہے جو کہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم نے جمہوریت اور اسلامی کو ایک ساتھ جمع کیا؛ ہم نے لوگوں کی موجودگی اور لوگوں کی آراء اور الہی تعلیمات کو ساتھ ملایا۔ ان دونوں کو ملانا کوئی آسان کام نہیں ہے، [لیکن] ہم نے یہ خدا کے فضل سے کیا۔ یقیناً ہم میں کمزوریاں ہیں۔ میں کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ہم میں ان شعبوں میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ نہیں، ہم میں خامیاں ہیں، لیکن یہ فکر، یہ منطق، دنیا میں ایک نئی منطق ہے۔ خیر، یہ ان مسائل کے بارے میں کچھ باتیں۔
پیارے نوجوانو، آپ کے لیے میرے آخری بات۔ آپ دیکھیں، آپ کا اور ہمارا ہر عمل، اور ہماری تمام باتیں اور حرکات ملک سے باہر ایک پیغام دیتی ہے۔ محتاط رہیں کہ ہم کیا پیغام بھیج رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ پیغام ہمیشہ زبانی ہو۔ کبھی کبھی آپ کے بیٹھنے کا انداز پیغام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایک جگہ آپ کا اجتماع پیغام ہوتا ہے۔ کبھی کبھی آپ جو نعرہ دیتے ہیں اس میں کوئی پیغام ہوتا ہے۔ آپ جو پیغام دنیا کو بھیجتے ہیں اس کے بارے میں محتاط رہیں۔ میں کہتا ہوں کہ سب سے اہم چیز جسے ایرانی قوم اور ایرانی جوانوں کی جانب سے دشمن کے محاذ پر منتقل ہونا ضروری ہے وہ ایرانی قوم کی مزاحمتی طاقت ہے۔ ایران کے عوام، ایران کے جوانوں کو اپنے عمل سے، اپنی حرکات سے، اپنے نعروں سے، اپنے عمل سے دنیا کو بتانا چاہیے - جو یقیناً دشمن بھی عنقریب سمجھ جائے گا - کہ ایرانی قوم مزاحمت کی طاقت رکھتی ہے، اس میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا پختہ عزم ہے۔ یقیناً یہ عوام کا فرض ہے۔ حکومت پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس شعبے میں حکومتی افراد کی بہت زیادہ ذمہ داری ہے۔ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ کچھ سرکاری اداروں کو اس میدان میں فعال ہونا چاہیے، بشمول وزارت تعلیم، وزارت سائنس، وزارت صحت، وزارت ثقافت، اور پیداوار سے متعلق وزارتیں: وزارت صنعت، وزارت زراعت؛ یا نقل و حمل کے مسئلے سے متعلق وزارتیں - یہ اہم ادارے ہیں - یا وزیر سائنسی امور جو نمایاں استعداد رکھنے والوں کو ان کے متعلقہ ادارے سے [متصل کرتے ہیں]؛ ان پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
میرے عزیزو! یقین رکھیں کہ میں اپنا فرض ادا کروں، آپ اپنا فرض ادا کریں، مختلف ادارے اپنا فرض ادا کریں، ہم میں سے ہر ایک جہاں بھی ہیں، جہاں بھی کھڑے ہیں، اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنا فرض ادا کریں، ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور ملک اپنے آخری ہدف تک پہنچ جائے گا۔
خدا کی رحمت کو ہمارے عظیم امام خمینی رح پر، خدا کی رحمت ہو ہمارے اسلاف پر، خدا کی رحمت ہو ہمارے شہداء پر اور خدا کی رحمت شہداء کے گھرانوں پر۔
ان شاء اللہ آپ کامیاب رہیں۔ خدا آپ سب کی حفاظت کرے۔ جیتے رہیے۔
(1) صحیفۂ امام، جلد 1، صفحہ 415، عوام کے درمیان تقریر، 26/10/1965
(2) کسی چیز کے استعمال میں اجارہ داری کے لیے کئی کمپنیوں سے مل کر بنی ایک بڑی کمپنی۔
(3) شاہی فوج کے کچھ افسران نے، 'نقاب' کے نام سے تشکیل پانے والے ایک گروہ میں، نئے نئے تشکیل پائے اسلامی جمہوری نظام کو ختم کرنے اور شاپور بختیار کو اقتدار میں واپس لوٹانے کے ارادے سے جولائی 1980 میں بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ اس بغاوت کو ہمدان کی شہید نوژہ چھاؤنی سے چلایا جانا تھا، اس لیے یہ بغاوت، "نوژہ بغاوت" کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس بغاوت کا پہلا ہدف، تہران میں امام خمینی کے گھر پر ہوائی حملہ کرکے انھیں شہید کرنا، مہرآباد ہوائی اڈے کے کنٹرول ٹاور، وزارت عظمی کے دفتر، سپاہ پاسداران کی مرکزی کمان، انقلابی کمیٹیوں کی مرکزی کمان پر حملہ اور کچھ دوسری جگہوں پر بمباری، باغیوں کے اگلے اہداف تھے۔ یہ بغاوت، جو نو جولائی کو شروع ہونے والی تھی، اس کے سرغناؤں اور دیگر افراد کا سراغ لگاکر، شروع ہونے سے پہلے ہی ناکام کر دی گئی۔
(4) 3 جولائی 1988 کو امریکا کے جنگی بحری جہاز کے کمانڈر ویلیم راجرز کے حکم پر بندر عباس سے دبئی جا رہے ایران ایئر کے ایک مسافر بردار طیارے کو خلیج فارس کے اوپر دو میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا اور اس میں سوار تمام 290 مسافرین اور عملے کے افراد شہید ہو گئے۔
(5) سابق امریکی صدر، باراک اوباما
(6) جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بعد، امریکی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ایران کا معاشی محاصرہ شروع کر دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے ایک فرمان میں ایران سے تیل کی خریداری بند کرنے کے ساتھ ہی امریکی بینکوں میں ایران کے کیش رقوم اور سونے کے اکاؤنٹس کو سیز کرنے کا حکم دیا۔
(7) آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے دیگر شہید ساتھیوں کی شہادت کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا تھا: "ایک سخت انتقام ان مجرموں کے انتظار میں ہے جنھوں نے اپنے نجس ہاتھ ان کے خون اور کل رات کے واقعے کے دیگر شہداء کے خون سے رنگین کیے ہیں۔"
(8) عراق میں امریکی حاکم، پال بریمر
(9) جو بائیڈن
(10) ڈونلڈ ٹرمپ
(11) حاضرین کی ہنسی
(12) علیاصغر لری گویینی
(13) آرشام سرایداران
(14) محمد رضا کشاورز
(15) آرتین سرایداران
(16) آرمان علی وردی
(17) حاضرین نے نعرہ لگایا: "گوش بہ فرمان ولی، بہ سوی ایران قوی" (اپنے ولی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایران کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھتے رہیں گے۔)
(18) اسلامی نظام کے عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں تقریر (14/10/2022)
(19) حاضرین نے "امریکا مردہ باد" کا نعرہ لگایا۔
(20) 7 دسمبر 1953 کے واقعے کی طرف اشارہ جس میں امریکا کے اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن کے دورۂ ایران اور شاہ سے ان کی ملاقات کی مخالفت اور احتجاج کرنے والے تہران یونیورسٹی کے تین طلباء کو قتل کر دیا گیا تھا۔
(21) منجملہ، علم و سائنس میں ملک کے بعض جینیئس طلبہ اور کچھ نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکوں سے ملاقات میں تقریر (19/10/2016)
(22) منجملہ، اسلامی نظام کے عہدیداران سے ملاقات میں تقریر (23/4/2018)
(23) منجملہ، اسلامی نظام کے عہدیداران سے ملاقات میں تقریر (23/6/2015)