ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

دفاع مقدس کے سینئیر فوجیوں اور شہداء کے گھرانوں کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم (1)

الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

یہ ملاقات اس حسینیہ میں، جو عظیم امام خمینی رح  سے منسوب ہے، ہونے والی سب سے بہترین، ضروری اور ان شاء اللہ سب سے مفید ملاقاتوں میں سے ایک ہے۔ سینئیر افراد کی تعریف کرنا سب کا فرض ہے۔ کسی بھی شعبے کے سینئر افراد اس شعبے میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے قابل احترام اور قابل فخر ہوتے ہیں۔ مقدس دفاع - وہ پرجوش، گہرا، معنی خیز اور فائدہ مند دور - ان واقعات میں سے ایک ہے جو ہمارے ماضی، آج اور کل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے اس اہم واقعہ میں سئنئیر فوجیوں کو ضرور مورد توجہ اور مورد احترام قرار دینا چاہیے۔ مقدس دفاع کے عزیز سابق فوجیوں میں آپ کے تئیں اپنے احترام اور عقیدت کا اظہار کرتا ہوں، جو یہاں موجود ہیں، وہ جو مختلف شہروں میں ہماری باتوں کو سن رہے ہیں اور ان اجلاسوں میں شرکت کررہے ہیں، اور وہ دسیوں ہزار دوسرے فوجی جو ان جلسات میں نہیں ہیں لیکن وہ سابق سپاہیوں میں سے ہیں۔

درحقیقت سابق فوجی "اَلسّابِقونَ الاَوَّلون‌" (2) کی مثال ہیں۔ مثالیں "وَ السّابِقونَ السّابِقون" (3)؛ یعنی جنہوں نے ضرورت کو دوسروں سے پہلے پہچانا اور سمجھا وہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دوڑ پڑے۔ وہ بھی مشکل میدان میں جیسے میدان جنگ، میدان جہاد، میدان قربانی۔ یہ سابقون ہیں، اس لیے ان کی تعریف کرنا اور ان کا احترام کرنا ہم سب کا فرض ہے۔

خیر، دفاع مقدس کو ختم ہوئے تیس برس بیت گئے۔ درحقیقت، واقعات کا خلاصہ باہر سے کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم واقعہ کے اندر میں ہوتے ہیں تو واقعہ کی مختلف جہات کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ یعنی جب آپ دفاع مقدس کے دوران کام کر رہے تھے تو یقیناً آپ اس واقعے کے ابعاد کو آج کی طرح نہیں دیکھ سکتے تھے اور اس کی خصوصیات، اس کی حدود، اس کی گہرائی، اس کے اثرات کا مشاہدہ نہیں کر سکتے تھے۔ آج ممکن ہے۔ آج مقدس دفاع کو جیسا کہ یہ رونما ہوا دیکھا جا سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جتنا وقت گزرتا جارہا ہے، اگر یہ اچھے کام جو جناب سردار باقری نے یہاں بتائے ہیں، اچھی طرح اور مکمل طور پر انجام پائیں اور اس کے نتائج پر بھی توجہ دی جائے، تو اس سے علم اور آگاہی میں اضافہ ہو گا اور مقدس دفاع کو زیادہ جانا جائے گا اور ہماری تاریخ میں فطری طور پر اس دور کو ایک شاندار اور اثر انگیز دور کے عنوان سے صحیح طور سے درک کیا جائے گا اور یہ کام ضروری ہے اور ہونا چاہیے۔ میں نے ماضی میں دفاع مقدس کے میدان میں ہونے والے کام کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے یعنی اس اہم واقعہ کے وضاحت کے بارے میں۔ آپ دفاع مقدس کے مسائل کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، نئی نسل نہیں جانتی۔ نئی نسل کو دفاع مقدس کے بہت سے مسائل کا علم نہیں۔ میری بات یہ ہے؛ میں کہہ رہا ہوں کہ آپ جو اس واقعے میں خود موجود تھے، حقائق کو جانتے ہیں، ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ آج کی نسل اس واقعے کو اسی طرح جان سکے، دیکھ سکے اور سمجھ سکے۔ اس میدان میں مجھے اپنے آپ سے اور دوسروں سے یہ توقع ہے۔

خیر اب میں دفاع مقدس کے بارے میں کچھ حقائق بتانے جا رہا ہوں اور میرا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں ہمارے نوجوانوں کے کانوں تک پہنچیں۔ میرا تعلق کسی حد تک نوجوانوں سے ہے۔ کبھی وہ سوال کرتے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں، میں دیکھتا ہوں کہ وہ بہت سی چیزیں نہیں جانتے، وہ واقعی نہیں مطلع نہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ حقائق، مقدس دفاع کے حقائق ان کے کانوں تک پہنچیں۔ البتہ اس محدود نشست میں ہم کچھ زیادہ نہیں کہیں سکیں گے لیکن معتمرین کا اصل کام یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اس نشست میں موجود ہیں۔ وہ حقائق جن پر ہم جنگ اور مقدس دفاع کے بارے میں توجہ دیتے ہیں - جو ہم کئی بار کہہ چکے ہیں - آج صرف دعوے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک دن ہم نے دعویٰ کیا کہ تمام عالمی طاقتیں ہم سے لڑ رہی ہیں، ہماری جنگ ایک بین الاقوامی جنگ تھی۔ ہم یہ کہتے تھے۔ مشرق، مغرب، نیٹو، وغیرہ وغیرہ۔ اس دن ہمارا دعویٰ یہی تھا، اور کوئی جواب میں کہہ سکتا تھا، ٹھیک ہے، آپ صرف دعویٰ کرتے ہیں۔ آج وہ خود یہ باتیں کہہ رہے ہیں۔ آج، وہ دستاویزات خود شائع کرتے ہیں، اور لوگ ان کے اعترافات، ان کی دستاویزات دیکھتے ہیں۔ ہماری باتیں اور دعوے ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ اس طرح  حقائق ہیں جو ہم پیش کر رہے ہیں۔

ہاں، صدام نے حملہ کیا تھا - جو طاقت کا دیوانہ تھا - لیکن صدام کے پیچھے عالمی استکبار تھا۔ زیادہ تر، ایک طرف مغرب اور اسکے دوسری طرف سوویت حکومت اور سابق سوویت یونین کے تحت مشرقی ممالک تھے؛ یہ صدام کے پیچھے تھے۔ انہوں نے اسے ایسا کرنے کی ترغیب دی - یقیناً وہ خود بھی طاقت کا متلاشی تھا، اس کا پس منظر اس کام کے لیے آمادہ تھا، [لیکن] انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی بھی کی، اور جیسا کہ مشہور کہاوت ہے، اسے سبز چراغ دکھایا- انہوں نے وعدہ بھی کیا کہ ہم نے تمہاری مدد کریں گے اور حمایت بھی کی۔ یعنی انہوں نے صدام کے ساتھ وہ کیا جو انہوں نے کہا۔ لہٰذا، جنگ میں ہمارا بقابلہ صرف صدام اور عراقی بعث [حکومت] سے نہیں تھا، بلکہ عالمی استکبار، تسلط کے نظام سے تھا۔

ایک حقیقت جس پر میں انحصار کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ انقلاب کے بعد ملک پر فوجی حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ان کا انقلابی نظام پر حملہ ایک فطری امر ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ انقلاب سے میں بہت ناراض تھے اور یہ اس عظیم انقلاب کی کامیابی پر ان کا ردعمل تھا۔ اس انقلاب نے وہ کام کیے جو شاید ہم خود اس کی جہتوں سے زیادہ واقف نہیں تھے۔ اس دن وہ ہم سے زیادہ سمجھ گئے کہ اس انقلاب کے ذریعے دنیا میں کیا ہوا۔ [مسئلہ] صرف یہ نہیں تھا کہ ایران کا اسلامی انقلاب امریکہ یا استکبار یا تسلط کے نظام کیلئے ایک وقتی سیاسی شکست کا سبب بنا۔ صرف یہ نہیں تھا؛ یہ انقلاب نظامِ تسلط کی حاکمیت کے لیے خطرہ تھا۔ اب آپ لوگوں کی عمر کا تقاضا نہیں ہے کہ آپ نے ان دنوں کے واقعات کو ان دنوں کی دستاویزات اور پریس میں دیکھا ہو، لیکن حقیقت یہی تھی۔ اس دن دنیا میں حکومتیں اور قومیں یا تو اس دھڑے سے وابستہ تھیں یا اس دھڑے سے وابستہ تھیں۔ بے شک، مختلف قسم کے انحصار تھے، لیکن انحصار تھا؛ یعنی جو جو کوئی مغربی نظام پر بھروسہ رکھتا ہو، اس نظام پر بھروسہ رکھتا ہو، وہ مشرقی نظام کے خلاف دو لفظ بول سکتا تھا اور اسکے برعکس بھی ایسا ہی تھا۔ ایک قوم، ملک کا اس سامراجی نظام تسلط سے آزاد ہوکر اپنا سینے سپر کرنا، اپنی بات کہنا، کوئی نیا پیغام دینا، یہ ہرگز قابل برداشت نہیں تھا۔ ایک قوم کا امریکہ سے خوفزدہ نہ ہونا، اس وقت دنیا پر حکمرانی کرنے والی فوجی، سیاسی اور اقتصادی طاقت سے خوفزدہ نہ ہونا، ان کے لیے بالکل بھی قابل برداشت نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا سیاسی نظام تھا جو ایک ایسی جگہ یعنی ایران میں قائم کیا گیا ہے جو دو طاقتوں میں سے ایک یعنی امریکہ کی امید، بھروسہ اور مکمل لالچ کا مرکز رہا ہے۔ 

مجھے نہیں معلوم کہ آپ یہ کتابیں، یہ تحریریں دیکھتے ہیں، انہیں پڑھتے ہیں، ان پر وقت لگاتے ہیں یا نہیں۔ اس وقت ایران کے بارے میں مغربی طاقتوں اور امریکیوں، خاص طور پر مغربی طاقتوں، امریکہ اور بعض یورپی ممالک کا نظریہ ایک ایسا نظریہ تھا جو مکمل طور پر اطمینان خاطر اور نظام تسلط پر اعتماد کیوجہ سے تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ یہاں کے وافر فوائد کو بغیر کسی رکاوٹ، بغیر کسی خوف، بغیر کسی تشویش کے استعمال کر سکتے ہیں۔  ایسی جگہ اچانک انقلاب برپا ہوتا ہے، امام خمینی رح جیسی شخصیت اٹھتی ہے، قوم کو متحرک کرتی ہے، صف آراء کرتی ہے، اور اس دن تین کروڑ کی قوم پوری قوت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے لیے بالکل ناقابل برداشت تھا، اس لیے انھیں بدلہ لینا پڑا، انھیں انتقام لینا پڑا، انھیں جوابی وار کرنا پڑا، انھوں نے وار بھی کیا، لیکن وہ کام نہیں کیا۔ انہوں نے بغاوت کروائی، طبس پر ہوائی حملہ کیا، ایرانی اقوام کو بھی مشتعل کیا۔ انہوں نے ان میں سے بہت سی چیزیں کیں، [لیکن] یہ کام نہیں آئیں، کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ [لہذا] فوجی جنگ مسلط کرنی پڑی۔ ایک اصول کے طور پر، ایک فوجی جنگ ایک پڑوسی کی طرف سے لڑی جانی چاہئے؛ ایک مکمل فوجی جنگ ایک پڑوسی کو شروع کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس پڑوسی کو بہت آسانی سے پا لیا۔ طاقت کا دیوانہ، مقام پرست، ایران کے پڑوس میں؛ اس کا ماضی بھی انکے سامنے تھا، انہوں نے اسے مجبور کیا، اکسایا، وہ جنگ میں داخل ہوا۔ اس لیے یہ فوجی اقدام توقعات کے خلاف نہیں تھا۔ ایسا ضرور ہونا تھا۔

میں اس وقت وزارت دفاع میں تھا، وہاں زیادہ آنا جانا تھا۔ جب ہم اپنے بڑے عسکری عہدیداروں کے ساتھ بیٹھتے تو وہ کچھ اندازے لگاتے تھے لیکن انقلابی گروہ کو یقین نہیں آتا تھا کہ اس طرح کا خطرناک حملہ ہوجائے گا۔  ہاں، سرحدی تنازعات تھے، لیکن ہمیں اس طرح کے مکمل آل آؤٹ حملے کی زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی، لیکن ہم سے زیادہ  تجربہ رکھنے والے لوگ - ہم اس وقت ناتجربہ کار تھے - جو ہم سے زیادہ تجربہ رکھتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ایسے ایک چیز پیش آئے گی۔ احمد سکوتور، گنی کے صدر، جو افریقہ کی ممتاز سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے اور ایک آزاد خیال شخص بھی تھے، کئی بار ایران آئے؛ یہ میری صدارت کے آغاز میں تھا کہ وہ ایک وفد کو لیکر عراق کے ساتھ جنگ ​​بندی کی درخواست کرنے آئے تھے۔ جنگ کو شروع ہوئے ابھی ایک یا دو سال ہی ہوئے تھے کہ وہ جنگ بندی کرانے آئے تھے لیکن انھوں نے مجھ سے خصوصی طور پر کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جنگ تمہارے لیے ناگزیر تھی- ان کی بات کا خلاصہ یہ تھا- کیونکہ کوئی بھی انقلاب جسکا اگر وہ تختہ الٹ نہیں سکتے اور ایک انقلابی قوم کو گھٹنے نہیں ٹکا سکتے تو اس کا انجام ایسی جنگ ہے۔ ایسی جنگ ضرور مسلط ہوگی اور انہوں نے مثالیں بیان کیں کہ ایسا ہوا ہے اور یہ بھی استکباری طاقتوں کا کام ہے۔ وہ ایک بوڑھے انسان تھے، وہ بوڑھے ہوچکے تھے جب انھوں نے یہ بندہ حقیر سے کہا۔ انہوں نے کہا کہ سامراج - انکی تشریح میں "سامراج"، ہماری تشریح میں "استکبار" - باز نہیں آتا، وہ پیچھے لگا رہے گا اور اس جنگ کو مسلط کرے گا۔

 یہ ایک حقیقت ہے. اب کچھ لوگ پروپگنڈہ کرنے لگتے ہیں کہ "جناب، آپ نے عراق کے ساتھ جنگ ​​کیوں کی؟"؛ ایسا لگتا ہے جیسے ہم عراق کو فتح کرنے کے لیے نکلے تھے! ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یا "خرمشہر کو فتح کرنے کے بعد آپ نے جنگ کیوں جاری رکھی؟" آپ جنگ کو روکنا چاہتے تھے"؛ خیر، خوش قسمتی سے - یعنی خوش قسمتی سے ایک لحاظ سے - جنگ کے آخری حملے میں ایک تلخ واقعہ پیش آیا، ہم نے جب جنگ بندی کو قبول کیا، امام خمینی رح نے قرارداد کو قبول کیا۔ میں نے بطور صدر اعلان بھی کیا اور اقوام متحدہ کو بھی بتایا۔ اس کے بعد عراق نے ہم پر حملہ کیا۔ ہمارے قرارداد 598 کو قبول کرنے کے بعد عراق جو تقریباً سرحد کے پیچھے چلا گیا تھا، یعنی اس نے خوزستان اور تمام مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دیا تھا، دوبارہ حامد بیرک تک آیا (4) جو کہ اہم اور حساس علاقوں میں سے ایک ہے، اور ملک کے اندر پھر داخل گیا۔ ہماری افواج کے حملے کے بعد جنگجو پورے ملک سے حرکت میں آئے اور جا کر ان حملہ آوروں کے منہ پر زوردار مکا رسید کر کے انہیں بھگا دیا، پھر مرصاد کا معاملہ ملک کے مغرب میں شروع ہوگیا۔

ان کا خیال ہے کہ خرمشہر حادثے کے بعد ہم ہاتھ جوڑ کر ایک طرف بیٹھ جاتے تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا۔ یہ ختم نہیں ہوتا، یہ صرف اسکا آغاز ہوتا. جس دن بیت المقدس آپریشن میں خرمشہر فتح ہوا، ہماری سرزمین کا ایک اہم حصہ ابھی تک دشمن کی فوج کے ہاتھ میں تھا۔ یعنی لاپرواہی سے بات کرنا، غیر ذمہ داری سے اظہار خیال کرنا ان مسائل میں سے ہے جو واقعی موجود ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم جنگ شروع کرنا چاہتے تھے، ہم حملہ کرنا چاہتے تھے، ہم چاہتے تھے [جاری رکھیں]۔ نہیں، یہ دشمن اور نظام تسلط اور اسکی حاکمیت کی حکمت عملی تھی۔ مسئلہ یہ تھا۔ وہ ہر صورت میں ایرانی قوم کو گھٹنے ٹکانا چاہتے تھے، وہ اسی کی تلاش میں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام کو، جس نے ان کے خلاف اپنا سینہ سپر کر رکھا تھا، زمین بوس کر دیا جائے۔ یہی وہ چاہتے تھے، وہ اسی کے پیچھے تھے۔ دفاع مقدس کے اہم حقائق میں سے ایک یہ جاننا ہے کہ مقدس دفاع میں ہمارے مقابل کون تھا، اس کا مقصد کیا تھا اور اس نے حملہ کیوں کیا۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ یہ پہلی حقیقت ہے۔

دوسری حقیقت جو کہ ایک بہت اہم حقیقت بھی ہے، وہ یہ ہے کہ انقلاب کی طاقت کے یہ تین عناصر- [یعنی] انقلاب کی عظیم طاقت اور انقلاب کی ابھرتی ہوئی طاقت اور امام خمینی رح کی قیادت جو کہ ایک بہت اہم اور بااثر عنصر تھا، اور ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات - جو کہ اب ان نمایاں خصوصیات کے بارے میں، اگر مجھے یاد رہے اور وقت ہو تو میں مختصراً بیان کروں گا - باعث بنے کہ اس خطرے (جنگ) کو ایک موقع میں بدل دیا جائے۔ جنگ ایک تلخ ماجرا ہے، یہ ایک یقینی خطرہ ہے، لیکن انقلاب کا ابلتا چشمہ اور انقلاب کی طاقت اور امام خمینی رح کی قیادت اور ملت ایران کی خصوصیات اس عظیم خطرے کو ایک عظیم موقع میں بدلنے میں کامیاب ہوئیں، جو مقدس دفاع کے ان دلچسپ مضامین میں سے ایک ہے۔ اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مقدس دفاع کے نتیجے میں ملک کیلئے جو مواقع حاصل ہوئے وہ زیادہ تر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔ کچھ واقعات پیش آئے کہ اب میں ان میں سے چند کا مختصر حوالہ دوں گا، لیکن سارا ماجرا وہ نہیں جو میں پیش کر رہا ہوں۔ اصل حقائق اس سے بہت زیادہ ہیں۔

ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جنگ کے مقاصد کیا تھے، ہم پر کیوں حملہ کیا گیا، صدام نے ہم پر حملہ کیوں کیا۔ پہلے مرحلے میں اس کا مقصد ملک کو تقسیم کرنا اور ملک کے ایک اہم حصے یعنی خوزستان کو الگ کرنا تھا۔ پہلے مرحلے میں، مقصد اسکو الگ کرنا تھا۔ خیر، خوزستان کے لوگوں اور خوزستان کے عرب [عوام] نے، دشمن کے باوجود، اپنی طرف سے ایک بہترین دفاع کیا۔ جی ہاں، پورے ملک سے مدد کیکئے خوزستان گئے، لیکن خود خوزستان میں ایک مجاہد اور جنگجو، مثال کے طور پر، شہید علی ہاشمی (5) - جو اہواز سے ہے؛ وہ ایک اہوازی عرب ہے - اس کا شمار مقدس دفاع کے پہلے درجے کی نمایاں شخصیات میں ہوتا ہے۔ یعنی خوزستانیوں نے دشمن کے سامنے اس طرح فعالیت کی۔ یہ پہلا کا مقصد تھا.

لیکن اگلے مرحلے میں - جیسا کہ ہم نے کہا - یہ ہدف ایرانی قوم کو گھٹنے ٹکانا تھا۔ وہ اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنا چاہتے تھے، وہ ایران کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ یہ مقصد تھا۔ وہ اس تقدیر کو بدلنا چاہتے تھے جو انقلاب نے سامنے رکھی تھی اور ایران کی تقدیر بدلنا چاہتے تھے۔ یہ مقصد تھا۔ وہ ایرانی قوم کی آواز کو گھنٹنا چاہتے تھے۔ ایرانی قوم کے پاس ایک نیا پیغام تھا، دنیا کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا تھا۔ "اسلامی جمہوریہ" ایک نیا باب ہے۔ "مذہبی جمہوریت" ایک نیہ اصطلاح ہے، زندگی کا ایک نیا نظام ہے، قوموں کی زندگی کے لیے ایک نیا انداز ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ پیغام جو مزاحمت کا پیغام ہے، کھڑے ہونے کا پیغام ہے، غنڈہ گردی کا مقابلہ کرنے کا پیغام ہے، جبر کا مقابلہ کرنے کا پیغام ہے، بین الاقوامی تفریق کا مقابلہ کرنے کا پیغام ہے آگے نہ پہنچ سکے۔ وہ اس پیغام کو دبانا چاہتے تھے۔ یہ مقصد تھا۔

 یہ قوم بدعنوان حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ جیسی عظیم طاقت کو نیچا دکھانے میں کامیاب رہی۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے جس سے دوسری قومیں سبق سیکھ جائیں۔ وہ یہ سمجھ لیں کہ اگر کوئی امریکہ کے خلاف اٹھے گا اور ایسی حرکتیں کرے گا تو اسے ایرانی قوم کی طرح گھونٹ دیا جائے گا۔ دوسری قومیں سمجھ جائیں اور مزاحمت کا راستہ بند ہو جائے۔ یہ انتہائی اور بنیادی مقصد تھا۔

تو ایرانی قوم کا جواب کیا تھا؟ ایرانی قوم نے ان تمام اہداف کو ناکام بنا دیا اور خود کو سربلند کیا اور جو کچھ وہ کرنا چاہتے تھے اس کے بالکل برعکس ہوا۔ یہ جو میں نے کہا کہ یہ بہت پرجوش مضمون ہے اور یہ ایک دلچسپ حصہ ہے، اسی وجہ سے ہے۔ قوم نے اس کے بالکل برعکس کرکے دکھایا جس کی وہ تلاش کر رہے تھے، جس کی وہ خواہش کر رہے تھے اور اس کے لیے اتنا خرچ کیا۔
سب سے پہلے، جیسا کہ میں نے ذکر کیا، جن حصوں کو وہ ملک سے الگ کرنا چاہتے تھے، ان حصوں کے لوگ از خود جوش کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے عرب ہونے اور ایک زبان ہونے اور ایسے وسوسوں کے لالچ پر توجہ نہ دی، وہ کھڑے ہوگئے۔ میں نے خود اہواز کے آس پاس کے ایک گاؤں میں ایک عرب خاندان کو دیکھا کہ جب دشمن کی فوجیں، بعثی فوجیں چلی گئیں اور ہم اندر داخل ہوئے تو وہ ہمیں دیکھ کر اس قدر خوش ہوئے جیسے جشن منا رہے ہوں۔ وہ ایک عرب خاندان تھا۔ عربی [لوگ] جو فارسی بھی نہیں سمجھتے تھے۔ یہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہوں نے ان سے ہمدردی نہیں کی، انہوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا، وہ ان کے خلاف کھڑے ہوئے، انہوں نے قیام کیا، وہ لڑے، اور انھوں نے شہید دئیے۔ خیر ان کے مسلسل وسوسے انہیں کمزور نہ کر سکیں۔ ان کے پاس ایرانی گروپ کے عناصر بھی تھے جو ان کے لیے کام کرتے تھے۔ ایسا بھی تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی وہ کام نہیں کر سکا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔

دوم، مقدس دفاع کا میدان ایرانی قوم کے مذہبی عقائد اور اخلاقی معیارات کے جلوہ گر ہونے کا سرچشمہ بن گیا۔ قوموں میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو تاریخی، ثقافتی، جغرافیائی یا موسمی کیفیات کا [نتیجہ] ہوتی ہیں- جو بھی ہو - قوموں میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو بعض اوقات ظاہر نہیں کرتیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے ابھرنے کے لیے کوئی میدان نہیں ملتا۔ مقدس دفاع ایران کی ممتاز ترین خصوصیات کے ظاہر ہونے کے لیے میدان بن گیا۔ یہ قربانیاں، یہ جدوجہد، یہ مذہبی عقائد؛ کون مانتا؟ کس نے یقین کرنا تھا؟ ملک بھر سے گھرانوں نے خوشی و رغبت سے اپنے بچوں کو دفاع مقدس کے میدان میں بھیجا۔ ان کے مارے جانے کا امکان تھا لیکن اسکے باوجود انہوں نے اپنی خوشی اور مرضی سے بھیجا۔ فداکار باپ اور مائیں، فداکار بیویاں۔ پورا ملک مورچوں کی دفاعی گہرائی بن گیا۔ محاذوں کی صف اول ملک کے جنوب میں اور ملک کے مغرب میں تھی، لیکن پورا ملک اس صف اول کی دفاعی گہرائی بن گیا۔ خواہ وہ لوگ جو جنگ میں گئے، یا وہ جنہوں نے پشتپناہی کی، یا وہ جنہوں نے فکری مدد فراہم کی، یا جنہوں نے حوصلہ افزائی اور حمایت کی، زبانی حمایت فراہم کی، یا وہ لوگ جنہوں نے جنگ کی مذہبی بنیاد پر تشریح کی۔ ان سب نے پشتپناہی کی۔ یہ ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ یہ ظاہر ہوئیں، جلوہ گر ہوئیں۔ حمایتیں، عوامی امداد؛ شہر اور گاؤں، مسجد اور انجمنین، مدرسہ اور یونیورسٹی، سب کے سب جنگ میں شامل ہوگئے، انقلاب کے دفاع میں مشغول ہوگئے؛ یہ [کامیابی] ایرانی قوم کی خصوصیات کا ظہور تھا۔

ایک اور کامیابی، قوم کا اتحاد تھا۔ جن لوگوں کو وہ وقت یاد ہے وہ جانتے ہیں کہ ملک کی اعلیٰ سیاسی سطح میں اختلافات پیدا ہوتے تھے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو اسوقت ہمارا ایک مسئلہ یہی تھا: صدر اور وزیر اعظم کے درمیان صدر کی بد اخلاقی اور بدتمیزی کی وجہ سے اختلافات، جس نے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا، اور درحقیقت گھرانوں میں بھی تفرقہ اور اختلافات کا باعث بن گیا تھا۔ انحرافی گروہ بھی اپنے مفاد کے لیے تقسیم ایجاد کرنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے لوگوں کو گروہ گروہ کیا۔ مقدس دفاع پیش آیا اور اس نے لوگوں کو متحد کیا، مقدس دفاع نے لوگوں کو یکجان کیا۔ پورا ملک دفاع مقدس کے تئین متحد ہوگیا۔ بے شک، ہمیشہ مستثنیات ہیں، لیکن عوام، لوگ یکجان ہوگئے تھے اور سب نے مقدس دفاع میں ہاتھ بٹایا۔

ایک اور کامیابی، خطرے کو موقع میں تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ایک، ملک کے عسکری اقتدار کا مسئلہ تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ہم عسکری طور پر اچھی پوزیشن میں نہیں تھے: فوج کو کمزور کیا جاچکا تھا۔ انقلاب سے پہلے، انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد کمزور ہوچکی تھی۔ سپاہ ابھی جڑ نہیں پکڑ سکی تھی، اس میں جان نہیں تھی۔ دفاع مقدس ایک طرف اسلامی جمہوریہ کی فوج کی اسلامی مقدس نظام کے ساتھ وفاداری کا امتحان ثابت ہوا، جس نے اپنی صلاحیتوں کو میدان میں اتارا، اور اس کی ممتاز شخصیات نے عظیم کارنامے انجام دیئے۔ دوسری طرف سپاہ ایک چمکتا ہویہ حقیقت بن کر ابھری۔ اگر مقدس دفاع نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ سپاہ اور اسکا ڈھانچہ بھی باقی نہ رہتا۔ مثال کے طور پر، کمیٹیوں کی طرح کا انجام ہوتا۔ یہ مقدس دفاع ہی تھا جو اس ترتیب کے ساتھ، اس نظم و ضبط کے ساتھ، اس حکمت عملی کے ساتھ سپاہ کو میدان میں لانے میں کامیاب رہا۔

مسلح افواج کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ جب کسی ملک کے لوگ جب مسلح افواج میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں تو اس ملک میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ جب لوگ فوج اور سپاہ سے ن ہوجاتے ہیں تو قدرتی طور پر لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ تحفظ کا یہ احساس بہت اہم ہے، اور ایسا ہوا؛ مقدس دفاع نے انہیں تحفظ کا یہ احساس دلایا۔ اور بلاشبہ، میں یہاں یہ بات کہتا چلوں، یہاں فوج اور سپاہ کے معزز حکام موجود ہیں، کہ یہ مقبولیت اور یہ اختیار اس وقت تک قائم رہے گا جب تک مسلح افواج اپنی پیش قدمی کو اسی رفتار کے ساتھ برقرار رکھیں گی۔ یعنی وہ دشمن سے پیچھے نہ رہیں۔ بے شک، ہم آج تک بہت اچھی طرح سے آگے بڑھے ہیں۔ ہماری افواج نے مختلف شعبوں میں، مختلف اداروں میں بہت اچھی ترقی کی ہے، یعنی اس میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ یہ ترقی اچھی پیش رفت ہے، لیکن جمود کے خطرے کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جمود ایک خطرہ ہے اور کبھی بھی پیش آسکتا ہے۔ جمود کا مطلب بھی پیچھے ہٹنا ہے۔ جمود کا مطلب ایک جگہ ٹھہرنا نہیں ہے۔ جب آپ ایک لمحے کے لیے رک گئے، تو آپ پیچھے چلے گئے۔ کیونکہ دوسری جانب دشمن آگے بڑھ رہا ہے۔ آپکو محتاط رہنا ہو گا۔ فوجی حکام اور قومی حکام دونوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ حکومت اور پارلیمنٹ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلح افواج کی حمایت فرائض میں سے ہے۔

خیر، آج خوش قسمتی سے، ملک اقتدار تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کی عسکری صورت حال اور اس سے پیدا ہونے والی سلامتی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں ملک غیر ملکی خطرات کو روک رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو پریشانی نہیں ہے، وہ اپنے آپکو مضبوط محسوس کرتا ہے، دوسرے بھی یہ جانتے ہیں، مخالفین اور دشمن بھی یہ جانتے ہیں۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

اس وقت، مسلح افواج کے حوالے سے، میں یہ بھی کہنا چاہوں گا - یقیناً، آپ، جو خود وہاں موجود رہے ہیں اور جانتے ہیں؛ وہ لوگ جو نہیں تھے، یا آج کی نوجوان نسل جنہوں نے جنگ کے واقعات کو قریب سے نہیں دیکھا [یہ بھی جان لیں] - کبھی کبھی، مثال کے طور پر، یہ کہا جاتا ہے کہ انسانی ڈھال اور نوجوان اور ان جیسے لوگوں نے [جنگ کو آگے بڑھایا]؛ معاملہ یہ نہیں تھا؛ آٹھ سالہ عسکری فعالیت میں معقولیت نمایاں تھی۔ اب سردار باقری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ حربے اور طریقے اور صحیح تشریح میں حکمت عملی - ٹیکٹک کا ترجمہ - جو دفاع مقدس میں استعمال ہوتے تھے، اختراعی تھے، اور قرار یہ ہے کہ وہ نصابی کتابوں میں شامل ہون، یا جاچکی ہیں یا جائیں گی۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے؛ یعنی جب کوئی شخص دیکھتا ہے، مثلاً فتح المبین آپریشنز میں، ایک حکمت عملی جو اپنائی گئی، سکھائی جا سکتی ہے، دنیا کو دکھائی جا سکتی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کوئی چھوٹا کام نہیں تھا۔ اب اس پر عملدرآمد ایک اور بحث ہے۔ خود منصوبہ بندی. یا بیت المقدس آپریشن میں جہاں دشمن ہمارے مغرب کی طرف اور جنوبی علاقہ اہواز میں تھا، مثلاً فرض کریں کہ انہوں نے بہت بڑا صحرا اور وہاں کے علاقوں کو لے لیا ہے تو ہمیں شمال سے جنوب کی طرف آنا چاہیے۔ اور اس سے نمٹنا؛ معاملے کی نوعیت اور اس کی صورت یہ  ہے؛ لیکن آپریشنل ہیڈکوارٹرز اور مرکزی کیمپوں میں منصوبہ سازوں نے ایک نیا راستہ تلاش کیا: ایک دوسرے کا سامنا کرنے کے لئے شمال سے آنے کے بجائے، وہ مشرق سے مغرب کی طرف آتے ہیں، دشمن کے قافلے کو بیچ سے کاٹتے ہیں، اور دشمن کو گھیر لیتے ہیں کہ دشمن جب محسوس کرتا ہے کہ اس طرح اس ہر حملہ کیا گیا ہے  تو محاصرے کے خوف سے دشمن کا ایک بڑا حصہ اس علاقے کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ بندی ہے، یہ عقلیت ہے، یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جنہیں آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ عقلمندی اور تدبیر۔ اس سے ملتا جلتا ہمارے بہت سے آپریشنز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چیزیں مغرب اور جنوب دونوں میں بار بار دہرائی گئین۔ یا والفجر 8 میں اروند کو عبور کرنے کا مسئلہ، کربلا 5 کا مسئلہ، خیبر کا بہت اہم آپریشن اور دیگر مسائل؛ کہ یہ کام جو وہاں کیے گئے، وہ منصوبے جو وہاں بنائے گئے، یہ وہ منصوبے تھے جو انسانوں کو کم ہی نظر آتے ہیں۔ یہ عقلیت تھی۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔
ایک اور معاملہ جو خطرے کو موقع میں بدلنے کی مثالوں میں سے ایک ہے، وہ یہ ہے کہ دفاع مقدس نے ایرانی قوم کے لیے ایک اصول ثابت کیا اور وہ اصول یہ ہے کہ ملک کی حفاظت اور دشمن کے حملے سے ملک کا تحفظ مزاحمت سے حاصل کیا جا سکتا ہے، ہتھیار ڈالنے سے نہیں۔ یہ ایک اصول بن گیا۔ اسی دوران، شروع میں ہی، کچھ لوگ تھے جو ہتھیار ڈالنے پر یقین رکھتے تھے، لیکن مختلف شکلوں میں؛ شاید صراحت سے اسکا نام تسلیم نہ رکھا جاسکے، لیکن اس کا معنی اور باطن تسلیم تھا، لیکن امام خمینی رح [ان کے سامنے] مختلف موڑ اور مراحل میں مضبوطی سے کھڑے رہے۔ مقدس دفاعی جہاد کے نتیجے میں ایرانی قوم سمجھ گئی کہ فتح، ترقی، دشمن کو پیچھے چھوڑنا، ملک کی حفاظت، ہتھیار ڈالنے سے نہیں بلکہ مزاحمت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہم نے یہ سمجھا؛ یہ ایران کی قوم نے حاصل کیا۔ یہ ہمارے لیے ایک اصول بن گیا۔ ہم نے اس اصول کو بہت سے مختلف سیاسی، اقتصادی، ثقافتی وغیرہ مسائل میں استعمال کیا ہے اور کرتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مسائل اور سرخیوں میں ملک کی حکمت عملی کھڑے رہنے کی حکمت عملی ہے، عمل کی حکمت عملی ہے، ترقی کی حکمت عملی ہے، ہتھیار ڈالنے اور پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی نہیں ہے۔ یہ احساس کہ مزاحمت کرنا ضروری ہے، ملک کے سیاست دانوں، ملک کے فعال عناصر، ملک کے ثقافتی کارکنوں کے اندر اعتماد اور خود اعتمادی پیدا ہونے کا سبب بنتا ہے، تاکہ ملک کو درپیش تمام مختلف مسائل میں خود انحصاری پیدا ہو۔ اور اطمینان خاطر حاصل ہو - اور دشمن کو سکھایا کہ وہ اپنے محاسبے میں ایران کی اندرونی طاقت کو مدنظر رکھے، ایران کی مزاحمت کو مدنظر رکھے۔ خوش قسمتی سے اس جذبے سے ہم دشمن کے متعدد اہم منصوبوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری سیاسی قوتیں، ہماری عسکری قوتیں کئی جگہوں پر دشمن کو شکست دینے میں کامیاب ہوئیں۔ دشمن نے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا، ناکام رہا۔ دشمن مشرق وسطیٰ کا نیا منصوبہ (6) لایا، ناکام ہو گیا۔ دشمن نے کسی نہ کسی طرح ہوا اور سمندر سے ہماری سرحدوں پر حملہ کرنا شروع کیا لیکن ناکام رہا۔ ہم نے اس کے ہوائی پرندے کو مار گرایا، (7) ہم نے اس کے سمندری حملہ آوروں کو پکڑ لیا؛ (8) قومی خود اعتمادی کا مطلب یہ ہے؛ یہ دفاع مقدس میں سیکھے گئے اسی اصول کی وجہ سے ہے کہ مزاحمت ہی ملک کی حفاظت کا راستہ ہے۔

اب میں نے کہا ان شعبوں میں بہت بحث ہوسکتی ہے۔ اس معاملے پر مزید بات کرنے کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ہے، لیکن ایک اہم نکتہ جس کو میں اس تناظر میں دہرانے کی تاکید کرتا ہوں وہ جنگ کی صحیح تشریح کا مسئلہ ہے، جس پر میں کئی بار زور دے چکا ہوں۔(9) یہ جو سرگرمیاں اب تک کی گئی ہیں وہ اچھی سرگرمیاں ہیں۔ یعنی فعالیت اچھی فعالیت ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کو [حسینیہ سے باہر] جب ہم نے اس نمائش کو دیکھا بتایا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے وہ ڈھانچہ ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچے ہیں جو ثقافتی سرگرمیوں، فکری سرگرمیوں، سیاسی سرگرمیوں، تاریخی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔ آپ کو کاموں کا نتیجہ دیکھنا چاہئے۔ آپ کو جب اطمینان محسوس چاہیے کہ جب آپ دیکھیں کہ آپ کا اسکول کا بچہ، آپ کا نوجوان طالب علم مقدس دفاع کو ان ہی نظروں سے دیکھتا ہے جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں اور مقدس دفاع اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بارے میں وہی تصور رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو مستقبل میں مختلف شعبوں میں کامیابی یقینی ہے۔ کیونکہ ہم صحیح تشریح کے مختلف نتائج اور ان کے اثرات دیکھ چکے ہیں۔ یہ جوان جو حرم کے دفاع کے لیے گئے اور شہید ہوئے، وہ وہ ہیں جو جنگ کے خاتمے کے برسوں بعد پیدا ہوئے۔ دفاع مقدس کے زمانے کے عظیم شہداء کی اہم مہم جوئیوں کو [سمجھنا]، فرض کریں کہ ایک نوجوان، مثلاً شہید حججی [10] یا وہ نوجوان درچہ ای (11) یا کسی اور کو میدان میں اتارتا ہے، اور وہ اسی ہمت و بہادری  کے ساتھ اور دفاع مقدس کے اسی دور کی طرح جا کر لڑتے ہیں اور شہید ہو جاتے ہیں۔
بلاشبہ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ تشریح کے اس معاملے میں حقیقت کے برعکس کام کرے۔ دشمن کامیابیوں اور بلندیوں کا انکار کرتا ہے۔ اگر کوئی نقص تھا، تو یہ اسے بڑا کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ دشمن کا کام ہے۔ وہ اپنا ثقافتی کام، پروپیگنڈہ کا کام اور میڈیا کا کام پوری شدت سے کرتے ہیں۔ وہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا سرگرمیوں کے ذریعے نوجوانوں کو استکبار کا روب اور ہیبت دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ان کی رنگینیاں دکھا کر ان کی پستی اور تاریکی کو چھپاتے ہیں اور دوسری طرف مقدس دفاع اور اس کے مسائل کے نتیجے میں سرافرازی، اہمیت اور کامیابی کو چھپاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ان سے ڈرانا چاہتے ہیں۔ جب دشمن کی شان و شوکت دوسری قوموں کے سامعین، ہماری قوم کی مانند، اسکی آنکھوں میں ظاہر ہوتی ہے، جب دشمن کی جھوٹی ہیبت اور دبدبہ دکھایا جاتا ہے، تو سیاسی میدان میں اسکا نتیجہ دشمن کا خوف ہوتا ہے۔ ثقافتی میدان میں اسکا نتیجہ دشمن کے سامنے  سر تسلیم خم کرنا ہے اور دشمن کے سامنے احساس کمتری ہے۔ اس لیے بیان و تشریح کا یہ کام بہت اہم کام ہے۔
ہمیں دفاع مقدس کے بارے میں تحریف شدہ، جھوٹی اور تحریف شدہ تشریحات کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور انقلاب کی اصل کے بارے میں ان [ایسی] تشریح کا بھی جواب دینا چاہیے۔ وہ ابھی بھی مصروف ہیں۔ میں کچھ کتابیں صہیونیوں یا امریکیوں یا یورپیوں کی لکھی ہوئی دیکھتا ہوں۔ وہ فلمیں بناتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں تاکہ انقلاب اور ملت ایران کی تحریک میں اور انقلاب کی بنیادوں میں کوئی کمزور نکتہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے۔ ہمیں ان کے خلاف محنت کرنی چاہیے۔ جو لوگ ہیں، اہل فکر ہیں، اہل فن ہیں، ان کو کام کرنا چاہیے، ان شاء اللہ۔
اس موضوع پر اب بھی بہت باتیں ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ خدا آپ کو توفیق عطا کرے تاکہ آپ وہ کر سکیں جو ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے، انشاء اللہ۔ اور ایک بار پھر ہم دفاع مقدس کے سینئیر فوجیوں، سابقین اور حقیقی معنوں میں السّابقون الاوّلون کے تئیں اپنی عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خداوند متعال حضرت امام راحل رح کے درجات بلند فرمائے جنھوں یہ راستہ ہم سب کے لیے کھولا، اور شہداء کی پاکیزہ روحوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کو ہم سے راضی رکھے، انشاء اللہ۔والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته(1) اس ملاقات کی ابتدا میں، جو صوبائی مراکز سے ویڈیو لنک کے ذریعے متصل تھی، مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیر جنرل محمد باقری نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) سورۂ توبہ، آیت 100، "سبقت کرنے والوں میں اولین لوگ"

(3) سورۂ واقعہ، آیت 10، "اور آگے رہنے والے تو آگے رہنے والے ہی ہیں۔"

(4) اہواز-خرمشہر شاہراہ سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور

(5) خوزستان میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر

(6) یہ منصوبہ سنہ دو ہزار چھے میں امریکا کی اس وقت کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت نام نہاد مشرق وسطی کے علاقے میں، جو لبنان، فلسطین، شام سے لے کر عراق، خلیج فارس، ایران اور افغانستان میں نیٹو کی سرحدوں اور شمالی افریقا تک پر محیط ہے، بدامنی، اختلافات، تشدد اور نراجیت کو پھیلایا جاتا۔ اس سے صیہونی حکومت، امریکا اور برطانیہ کو یہ موقع ملتا کہ وہ اپنی ضرورتوں اور اپنے اہداف کی بنیاد پر مشرق وسطی کا ایک نیا نقشہ تیار کریں۔

(7) منجملہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فورسز کے ذریعے خلیج فارس کے علاقے میں امریکا کے گلوبل ہاک ڈرون کو مار گرائے جانے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

(8) منجملہ تیس اگست 2022 کو ایرانی بحریہ کی جانب سے امریکی ہوور کرافٹ کو روکے جانے  کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

(9) منجملہ چوبیس ستمبر سنہ 2018 کو مقدس دفاع کی یادیں تازہ کرنے کے پروگرام میں تقریر

(10) شہید محسن حججی اٹھائیس جولائی سنہ 2017 کو شام کے تنف علاقے میں داعش کے دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور اس کے دو دن بعد ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور وہ شہید ہو گئے۔ 

(11) شہید ابو الفضل علی خانی بائیس اگست 2022 کو شام میں ایک مشاورتی مشن کے دوران شہید ہو گئے۔