ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

4000 علماء شہداء کی یادگاری تقریب کے منتظمین سے خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.


ان علماء و مشائخ کو خراج تحسین پیش کرنا نہایت ہی قابل تقدیر عمل ہے جنہوں نے جہاد کے میدان میں خدمت کی اور جہاد میں حصہ لیا اور آخر کار شہادت کی سعادت حاصل کی۔ یہ ضروری ہے کہ علماء ہمیشہ نیکی کی دعوت دیں۔ اگر داعی خود نیکی کے میدان میں آگے آگے ہو تو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ کونوا دُعاةً لِلنّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم‌(2) ہمارے یہ شہید علماء وہ ہیں جنہوں نے اپنی زبان اور عمل سے لوگوں کو دعوت دی۔ دفاع مقدس میں، میں نے بارہا فوجی وردیوں میں نوجوان طلباء کو عمامے پہنے اور لڑاکا یونٹوں کے درمیان مبلغ کے طور پر آتے ہوئے دیکھا ہے تاکہ جہاد میں مصروف نوجوانوں کو دین کے احکام کی تعلیم، وعظ و نصیحت انجام دیں اور اپنے روحانی فرائض انجام دیں، لیکن انھوں نے اس پر اکتفا نہیں کیا - ہم نے دیکھا، جانا - اور وہ خود اگلی صفوں میں میدان جنگ میں داخل ہوئے؛ اور ان میں بہت سے شہید ہوئے۔

خیر، علماء کی شہادت کے حوالے سے، علمائے دین کے لیے شہادت کوئی نئی بات نہیں۔ ہماری نصابی کتابوں میں ہمارے پاس دو شہداء کی دو کتابیں ہیں: شہید اول(3) اور شہید ثانی(4)۔یعنی جب ہمارا طالب علم مدرسہ میں داخل ہوتا ہے تو دو یا تین سال بعد اس نے کتاب شرح لمعہ پڑھنی ہوتی ہے۔ لمعہ ایک شہید کی کتاب ہے، اس کی تشریح ایک دوسرے شہید نے لکھی ہے۔ ممتاز علماء میں سے دو عظیم شہداء اور ان میں سے جو علمی مرتبے کے لحاظ سے علم کی دنیا کے ستاروں میں سے ہیں، یعنی شیعہ استدلالی فقہ کی ان ہزار سالہ تاریخ کے دوران یہ نمایاں علماء میں سے ہیں۔ شہید اول اور شہید ثانی دونوں۔ شہید ثالث بھی ہیں، البتہ، شہید ثالث کئی لوگوں کا لقب ہے: شہید برغانی قزوین کا بھی اور شہید شیخ نور اللہ شوشتری ہندوستان کا بھی، اور دیگر متعدد شہداء۔ اس کے بعد دیگر شہید علماء ہیں جنہیں شہید اول یا شہید ثانی یا شہید ثالث کے طور پر پہچانا نہیں گیا۔ شہید مدرس، عظیم عالم، شہید شیخ فضل اللہ نوری، عالیقدر عالم؛ یہ علم دین کی دنیا کے شہداء ہیں۔ اس طرح کے اور بھی ہیں۔ لہٰذا علمائے کرام کے درمیان شہادت کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور ہمارے ہاں عظیم شہداء ہوئے جاتے ہیں۔

یہی بات سنی علما میں بھی ہے۔ [یہ] صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ ہمارے پاس جنگ میں اور جنگ کے بعد مختلف ادوار میں افراد موجود تھے۔ حال ہی میں، یہ شہید شیخ الاسلام (5)، جو کردستان کے بہت بااثر اور کارآمد علماء میں سے ایک تھے، انکو شہید کر دیا گیا؛ اور بے شمار دوسرے شہداء جو اس خطے اور دوسرے خطوں میں شہید ہوئے۔

بلاشبہ، یہ علماء کے لئے اعزاز ہے؛ ہم اسے باقی طبقات کے مقابلے میں نہ دیکھیں۔ یہ دوسری اور تیسری درجے کی بات ہے؛ ہم اس کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھیں کہ دنیائے تبلیغ میں شہید عالم وہ ہے جو اپنی جان کے ساتھ دعوت کے میدان میں داخل ہوا ہے؛ یہ بہت ضروری ہے۔ اور آج نوجوان علماء میں، نوجوان فضلاء میں ہمیں اس جذبے کی ضرورت ہے کہ جان لیں عالم دین ہونے اور ایک عظیم ملا اور اعلیٰ مجتہد ہونے کا مطلب میدان جہاد سے دستبردار ہونا اور الگ تھلگ ہونا نہیں ہے، بلکہ عالم دین، مرجع تقلید، مدارس علمیہ کے صف اول کے استاد جیسے عظیم امام خمیمی رح میدان جہاد میں اترے اور وہ عظیم جہاد سر انجام دیا کہ تاریخ تشیع میں ایسی عظمت اور شان کے ساتھ کوئی جہاد نہیں ہے۔ وہ ایک عالم، محقق، فقیہ اور اصولی تھے، ایک عارف اور الہی حکیم تھے؛ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عظیم امام رح کی طرح ایک ممتاز علمی ہستی، وہ اپنے زمانے بلکہ کئی ادوار کے مجاہد ترین انسان تھے، اور وہ جہاد کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے۔ اس لیے یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم عالم، محدث، محقق، ایک اعلیٰ درجے کا استاد بننا چاہتے ہیں تو جہاد اور میدان جہاد وغیرہ سے دستبردار ہونا ضروری ہے۔ نہیں، میدانِ جہاد میں اترنا ہمارا فرض ہے۔ ہمیں لازمی جہاد کرنا چاہیے۔

اب جہاد کی مختلف قسمیں ہیں: ایک وقت میں علمی جہاد کو فوقیت حاصل ہو سکتی ہے - ہاں، ہمارے پاس ایسے معاملات ہیں جن میں علمی جہاد کو فوقیت دی جاتی ہے - کبھی عسکری جہاد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، کبھی سیاسی جہاد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔، سماجی جہاد اور سماجی سرگرمیوں میں شمولیت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان تمام معاملات میں ہمارے نوجوان علما، ہمارے نوجوان فضلاء کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ سب سے پہلے مخاطب وہ ہیں۔ کیونکہ عالم برادری کے طور پر ہمارا پہلا اور سب سے اہم فریضہ کار خیر کی دعوت دینا ہے۔ وہ کام جو انبیاء کیا کرتے تھے؛ یہ ہمارا اولین فرض ہے۔ اور نیکی کی طرف دعوت دینے کا بہترین ذریعہ عمل ہے۔ نیکی کے میدان میں اور دعوت کے میدان میں عمل۔ اس لیے مجاہدت کے میدان میں داخل ہونا علمائے دین کا اولین، واضح اور یقینی فریضہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ جو بھی میدانِ جہاد سے دستبردار ہو جائے، وہ درحقیقت یہ جان لے کہ میدانِ جہاد ہی اس حقیقت کی بنیاد ہے۔

خوش قسمتی سے، ہم اپنے معزز علماء میں اس جذبے کو دیکھتے ہیں۔ اب شہداء کو حضرات نے شمار کیا ہے [6] ۔ مرحوم امینی الغدیر کتاب کے مصنف کی ایک کتاب ہے شهداء‌الفضیلة جس میں انھوں نے تمام تاریخ میں شہید علماء کا شمار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے سب نہیں، ان میں سے کچھ کو تلاش کرنے میں وہ کامیاب رہے۔ چوتھی سے پانچویں صدی کے بعد سے انھوں نے شروع کیا، اس سے پہلے کا شمار نہیں کیا۔ پوری تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو شہید ہوئے یا جہاد اور جدوجہد کے میدان میں رہے اور شہید نہیں ہوئے لیکن مجاہد فی سبیل اللہ تھے؛ ان کتابوں میں [فطری طور سے انکا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ علمائے دین کے مابین ایک افتخار آمیز روایت ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جذبہ اور یہ روایت انشاء اللہ جاری رہے گی۔

میرے عزیز دوستوں اور بھائیوں کو جو ان تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں میری نصیحت ہے کہ ان تقریبات کو مقصد کے طور پر نہ دیکھیں۔ یہ وسیلہ ہیں، یہ ابزار ہیں۔ ان تقریبات کے بعد بہت کام کرنا باقی ہے۔ کام کرنے کے طریقے اور ذرائع تلاش کرنے کے لیے فکری گروہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مفکرین کے مجموعے، جو مفکر ہیں، ثقافتی ماہرین، فن کے ماہرین، بیٹھیں اور مختلف طریقے تلاش کریں۔ جیسا کہ ہم نے حضرات سے کہا کہ (7) ان کے ناموں کی تشہیر، ان کی تصاویر کی تشہیر، ان کی سوانح عمری کا بیان، ان کی وصیت ناموں کی تشہیر اور ان کی اشاعت اور ان کے حالات کا بیان کرنا جن میں وہ تھے اور جن حالات میں انہوں نے یہ جہاد کیا، بہت اہم کام ہیں؛ ان کو نشر کیا جانا چاہیے اور انشاء اللہ سب کو ان ہستیوں کی روحانیت سے استفادہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ آپ کو توفیقات نصیب ہوں اور یہ کہ خدا آپ کی مدد کرے کہ آپ اس سلسلے میں ضروری کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته

(1) اس ملاقات کے آغاز میں، جو اجتماعی ملاقات کے تناظر میں ہوئي، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے اور سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین عبداللہ حاجی صادقی اور اصفہان کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین سید یوسف طباطبائي نژاد نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) کافی، جلد 2، صفحہ 78

(3) شیخ شمس‌الدّین محمّد بن ‌‌مکّی بن احمد عاملی نبطی

(4) شیخ زین ‌الدّین بن علی بن احمد عاملی جبعی

(5) ماہرین اسمبلی کے رکن ماموستا محمد شیخ الاسلام جو ستمبر 2009 میں رمضان المبارک کی ستائيسویں تاریخ کو زرخرید دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

(6) اسلامی علوم کے ایک شعبے اصول فقہ کا ماہر

(7) بوشہر صوبے کے دو ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان سے خطاب
13/1/2020