بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
خوش آمدید. میں بہت خوش ہوں کہ الحمدللہ بظاہر دو تین سال کے بعد ہمیں آپ سے، محنت کش(لیبر) برادری کے نمائندوں سے قریب سے ملنے اور ان سے بات کرنے کی توفیق حاصل ہورہی ہے۔
محنت کش برادری سے ہماری سالانہ ملاقات کا مقصد ورکرز کی قدردانی، ورکرز کا شکریہ ادا کرنا اور خود کام اور محنت کی اہمیت اور قدر و قیمت کو اجاگر کرنا ہے، جو شاید پہلے مقصد سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے ملک میں عوامی سطح پر کام کی قدر اتنی واضح نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہیے۔ اسلام میں کام ایک قدر ہے۔ اب اس پر بھی بات کروں گا کہ اسلام کی محنت کش کے حوالے سے نگاہ بھی کچھ اسی طرح ہے اور تمام دوسرے مکاتب سے فرق رکھتی ہے۔ جو اعداد و شمار مجھے دیے گئے ہیں ان کے مطابق ہمارے معاشرے میں وہ افراد جو کام کی جستجو میں ہیں، دنیا کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ کیوں؟ وہ جو کام کی تلاش میں ہے اور کام نہیں ہوتا، اس کے پاس کام کرنے کا موقع نہیں ہے، اس کے پاس عذر ہے، لیکن جو شخص بالکل بھی کام کے پیچھے نہیں، اسلام اس رجحان کے خلاف مقابلہ کرتا ہے۔ اسلام اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ انسان کوشش کرے، محنت کرے، جستجو کرے۔ یہ کوشش اور محنت، معاشرے کی معاش فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ - اگر کام نہ ہو تو معاشرے کی معاش فراہم نہیں کی جاسکتی - خود محنت کش کیلئے بھی ایک اثاثہ ہے؛ کیونکہ اس سے اسے شناخت کا احساس ملتا ہے۔ وہ شخص جو کام کی تلاش میں نہیں ہے اور کام نہیں کرتا، شناخت حاصل نہیں کر پاتا، عدم تشخص کا احساس کرتا ہے۔ لہذا ہم اپنے عزیز محنت کشوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور پیغمبر اسلام ص کی اتباع میں آپ کے ہاتھ چومنا چاہتے ہیں اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ معاشرے میں کام کی قدر و قیمت اجاگر ہو کہ اسلام میں کام ایک قدر ہے۔
یہ بات مکرر بیان جانی چاہیے، اسے بتایا جانا چاہیے، ملک میں ثقافت پیدا کی جانی چاہیے تاکہ ہم کہہ سکیں کہ کام کرنے والوں اور کام کی تلاش میں رہنے والوں کی تعداد آبادی کے نسبت زیادہ ہے، مثال کے طور پر یہ تعداد ہے۔ زیادہ تناسب موجود ہے، اور ہم اسے مستقبل میں دیکھ سکیں۔ یہ وزارت محنت (لیبر) سمیت کام (لیبر) سے متعلقہ حکام کے منصوبوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ اب وزیر صاحب کے یہ بیانات جو انہوں نے بیان کئے بہت اچھے تھے، انہوں نے اچھی کارکردگی رپورٹ پیش کی، اور جو فیصلے آپ نے کیے، ان کی پیروی کریں تاکہ ان شاء اللہ ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ خاص طور پر، میں نے یہاں لکھا بھی ہے، میں مہارتوں کی افزائش کے مسئلہ پر بات کروں گا، جو بہت اہم ہے۔ محنت کشوں کے لیے مہارتوں کے افزائش کے تربیتی مراکز کا قیام ملک میں کام اور محنت کش کے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔
محنت کش کے بارے میں اسلام کا نظریہ قدر شناسانہ ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ نظر اور منہدم شدہ کمیونسٹ نظام کے نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا محنت کش کے بارے میں نظریہ استحصالی ہے۔ مزدور ان کے لیے دولت مند ہونے کا ایک آلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ نظر سے یہ ہے؛ وہ اس بات کو چھپاتے بھی نہیں۔ [اگر] آپ معاشیات کی کتابوں کو دیکھیں تو آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور ایک آلہ کار اور وسیلہ ہے، سرمایہ کا مالک امیر بننے کے لیے اسے حاصل کرتا ہے اور اس سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ نگاہ ہے۔ اگر کسی کارکن کو کبھی کچھ استحقاق بھی دیا جاتا ہے، تو یہ اس لئے ہے کہ یہ کارکن سرمائے کو افزائش دینے پر لگا رہے، ہاتھ نہ کھینچے، غصہ نہ کرے، اور اسی طرح کی چیزیں؛ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ ہے۔
کمیونسٹ مکتب کا نظریہ نعرہ کی حد تک تھا۔ اس کا نام یہ تھا کہ یہ نظام مزدوروں کا نظام ہے۔ فرض کریں، مثال کے طور پر - میں نہیں جانتا کہ اب آپ تاریخ کی کتابوں سے مانوس ہیں یا نہیں - سٹالن یا خروشیف کے زمانے کا روس - وہ لوگ جو ہمارے ہی زمانے کے تھے اور ہم نے اپنی جوانی اور اپنے مطالعہ اور سرگرمیوں کے دور میں ان کو قریب سے دیکھا۔ - صرف ان کے نظام کا نام مزدوروں کا نظام تھا، لیکن زمانہ قدیم کے بادشاہوں کی طرح برتاو کرتے تھے۔ کارکنوں کی پشت پناہی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ مجموعی طور پر معاشرے پر دباؤ، محنت کش طبقے پر دباؤ موجود رہتا تھا، ان کی اپنی کتابوں میں اگر دیکھا جائے تو اس چیز کا آپ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ انہی کتابوں میں جو انہوں نے لکھی ہیں، خواہ سوانحی کتابیں ہوں، فن کی کتابیں ہوں، ناول وغیرہ ہوں، یہ مفہوم پوری طرح جھلکتا ہے۔ محنت کش کا دفاع اور اس پر انکی گاہ، صرف ایک نعرہ تھا۔ انہوں نے صرف نعرے لگائے کہ نظام مزدوروں کا نظام ہے۔
اسلام میں نہ یہ ہے اور نہ وہ۔ بلکہ قدرشناسانہ نگاہ ہے، نگاہ قدر پر مبنی ہے۔ اسلام کام اور کارکن کیلئے اہمیت کا قائل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محنت کش کے ہاتھوں بوسہ لینے کا وہی قصہ جو انھوں نے بیان کیا وہ اسی پر دلیل ہے۔ یعنی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہیں کہ یہ ہاتھ کسی مزدور کا ہاتھ ہے تو جھک کر اسے چومتے ہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا، وہ ایک زیبا رو نوجوان تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نوجوان کو دیکھ کر خوش ہوئے، بظاہر انہوں نے اسے بلایا اور اس سے دو سوال کیے: ایک یہ کہ انہوں نے اس سے پوچھا کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا نہیں، انہوں نے کہا تمہارا پیشہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا میں بے روزگار ہوں؛ نبیﷺ نے فرمایا: سَقَطَ مِن عینی؛ یہ نوجوان میری نظروں سے گرگیا۔ یہ مسئلہ ہے۔ سَقَطَ مِن عَینی؛ اس نوجوان کے بارے میں، جس کا طرز عمل اور مثال کے طور پر اس کی حرکات و سکنات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئیں تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میری نظروں میں گرگیا ہے کیونکہ وہ کام کی تلاش میں نہیں تھا۔ اسلام کام کو اس نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ کام کو انسانی قدر کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے۔ خیر، یہ کام اور کارکنوں کے بارے میں ہمارے نظریہ کے اصول اور اس ملاقات اور آپ عزیزوں سے ملاقات کے بارے میں۔
ہم نے محنت کشوں کے بارے میں بہت بات کی ہے۔ میں نے ان متعدد سالوں میں محنت کشوں اور محنت کشوں کی اہمیت کے بارے میں کئی بار بات کی ہے۔ لیکن محنت کشوں کے بارے میں ایک یا دو باتیں دہرانا اچھا ہے، اور یہ ضروری بھی ہے۔ ہمارے محنت کش، انقلاب دور کے محنت کشوں- انقلاب سے پہلے مختلف تھے - نے اب تک ثابت کیا ہے کہ ان کے قومی مقاصد تمام شعبوں میں شاندار اور نمایاں ہیں۔ "تمام شعبوں میں" سے کیا مطلب ہے؟ یعنی عسکری میدان میں، معاشی میدان میں، اور سیاسی میدان میں۔
عسکری میدان میں جو منظر آنکھوں کے سامنے ہے وہ دفاع مقدس کا دور ہے۔ ہمارے چودہ ہزار شہید محنت کش ہیں۔ چودہ ہزار! اب میں نہیں جانتا کہ کتنی تعداد میں محاذ پر گئے کہ ان میں سے ایک شہید ہوا؟ یقیناً اس کے دس گنا زیادہ گئے ہوں گے۔ تاہم، ایک محنت کش کا محاذ پر جانا ایک نوجوان بسیجی کے جانے سے مختلف ہے۔ اکثر اس محنت کش کی بیوی بچے ہوتے ہیں - شاید ایک سے زیادہ بچے - والدین ہوتے ہیں؛ ان سب تعلق توڑ کر دفاع مقدس کے لیے جانا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا، اس نوجوان کے میدان جنگ میں جانے سے بہت مختلف ہے جس کا ابھی بیوی بچوں اور اس طرح کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عسکری میدان میں ایسا ہے۔ آج بھی اگر کوئی جنگی تنازعہ پیدا ہوتا ہے تو یقیناً محنت کش طبقہ سب سے آگلی صفوں میں ہوگا۔
اب معاشی میدان کے حوالے سے۔ یقیناً انقلاب کے آغاز سے ہی استکبار کی پالیسی رہی ہے اور پچھلے پندرہ سالوں میں یہ بہت واضح ہو چکی ہے۔ ان کی پالیسی ملک میں پیداوار کو ختم کرنے کی تھی۔ یہ دشمن کی پالیسی تھی۔ یہ پابندیاں اور یہ ساری باتیں، ملک میں پیداوار کو روکنے کے لیے تھیں۔ پیداوار اگر ناکام ہو جائے، ملک غریب اور محتاج ہو جاتا ہے، اس کی نظریں اِس پر اور اُس پر ہوتی ہیں۔ اقتصادی دباؤ کا اہم اور حتمی مقصد پیداوار کو ختم کرنا تھا۔ ہمارے کارکن فرنٹ لائن میں کھڑے رہے اور انھوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ ملک کی پیداوار کچھ میدانوں میں پچھلے سالوں سے بھی زیادہ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے محنت کش معاشی میدان میں سب سے آگے کھڑے ہیں۔ بلاشبہ، میں صنعت کاروں کے زحمتوں سے بھی واقف ہوں؛ ایسا نہیں ہے کہ ہم انہیں کریڈٹ نہیں دیتے - اس حوالے سے بعد میں بات کروں گا - لیکن یہ کہ اس میدان میں مورچے کا بنیادی ستون محنت کش تھا۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے؛ اقتصادی میدان.
اب سیاسی میدان میں۔ انقلاب کے اوائل کے دنوں سے ہی مزدوروں کی سرگرمیاں شروع ہو گئیں۔ میں خود قریب سے شامل تھا؛ ایک کارخانہ انکے کے اجتماعات کا مرکز بن چکا تھا ۔ انقلاب کی فتح سے نزدیک ایام - یعنی 18 بہمن، 19 بہمن، 20 اور 21 بہمن - وہ اتفاق سے ہمارے پاس آئے۔ اسوقت میں بھی مصروف تھا، ان دنوں کام بہت تھے، لیکن میں چلا گیا اور کچھ دن اس کارخانے میں رہا۔ یعنی میں رات کو وہاں سے آجاتا، اور صبح پھر چلا جاتا تھا۔ میں نے قریب سے دیکھا کہ وہ کیا کرتے تھے؛ تقریریں، سرگرمیاں۔ انھوں نے انقلاب کی فتح کے تیسرے یا چوتھے دن - پچیسویں یا چھبیسویں بھمن کو - امام کے گھر کی طرف ریلی نکالی! مزدوروں کی فعالیت اس دن سے شروع ہوئی، آج تک موجود ہے۔ آج بھی کارکنوں کی فعالیت جاری ہے۔
ان (دشمن) کا مقصد محنت کش طبقے اور محنت کش حلقے کو عوامی احتجاج کی علامت کے طور پر ظاہر کرنا تھا۔ [لیکن] محنت کش طبقے نے انکی ناک زمین پر رگڑ دی اور ان کے خلاف کھڑے ہوگئے اور ایسا نہیں ہونے دیا اور انقلاب اور نظام کے ساتھ کھڑے رہے۔
بلاشبہ، کچھ ایسے معاملات تھے جن کیوجہ سے کارکنوں نے احتجاج کیا، اور ان کا احتجاج جائز تھا۔ میں، جو مسائل پر نظر رکھتا ہوں، [جانتا ہوں] کہ بعض صورتوں میں، مظاہرے کرنے والے محنت کشوں کا احتجاج ایک جائز احتجاج تھا۔ فرض کریں کہ ایک کارخانے کو حکومت ایک شخص کے حوالے کرتی ہے، جو فیکٹری کا انتظام کرنے کے بجائے اسکے اوزار بیچ دیتا ہے، کارکنوں کو نکال دیتا ہے، اس زمین پر مثال کے طور پر، ایک ہوٹل بنانا چاہتا ہے؛ خیر، یہاں کارکن باہر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔ ان مظاہروں میں بھی محنت کشوں نے ہمیشہ دشمن کے ساتھ اپنی حدود علیہدہ رکھی ہیں۔ یعنی انہوں نے دشمن کو اپنا حق اعتراض استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ اہم ہے؛ یہ بہت اہم ہے۔ اس باشعور، بصیرت سے بھرپور، پرعزم مجموعہ کا کوئی کیسے شکر گزار ہو سکتا ہے؟
یہ ہمارے محنت کش طبقے کی خوبیوں کا کچھ حصہ ہیں، جو یقیناً ہم نے بارہا بیان کی ہیں، اور ضروری تھا کہ انھیں دہرایا جائے، آپ عزیز کارکنان اور عام عوام دونوں یہ جانیں کہ ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے مسائل ہیں - اب میں بتاتا ہوں کہ انشاء اللہ اس نئی حکومت کی پالیسیوں سے یہ مسائل بتدریج الہی توفیق سے حل ہوں گے لیکن آخر کار ان کے مسائل موجود ہیں - ان مسائل کے باوجود وہ اسلام کے ساتھ، انقلاب کے ساتھ، نظام کے ساتھ کھڑے رہے؛ عسکری، اقتصادی اور سیاسی سارے میدانوں میں۔
محنت کشوں کے معاملے میں، تین بنیادی نکات ہیں کہ منصوبہ بندی کے لیے ان تین بنیادی نکات پر توجہ دینا ضروری ہے: ایک نکتہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا زمینہ فراہم کرنے کا معاملہ ہے۔ ابھی ہمیں ملازمت کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے ملک میں ممکن بھی ہے، یعنی تمام ماہرین اور ملکی مسائل سے واقفیت رکھنے والے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ممکن ہے اور بے روزگاری کی شرح آج کے مقابلے میں بہت کم ہوسکتی ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے: ملازمت کے مواقع ایجاد کرنے کی زمینہ سازی کرنا یا خود بلاواسطہ دخالت کرکے ملازمت کے مواقع ایجاد کرنا۔
دوسرا، کام(لیبر ) اور سرمائے کے درمیان تعلق کو منظم کرنا؛ کہ ایک معقول اور صحیح رابطہ قائم ہونا چاہیے، جس کے بارے میں میں دو تین جملے کہوں گا۔
تیسرا مسئلہ ملازمت کے تحفظ کا مسئلہ ہے جس پر میں نے کئی بار حسینیہ میں کارکنوں کے اسی اجلاس میں تاکید کی ہے۔ آج اس سلسلے میں دو تین نکات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
ملازمت کے مواقع کے حوالے سے، حکام ملازمت کے مواقع بڑھانے کے لیے کوشش کر سکتے ہیں۔ کچھ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، کچھ پرائیویٹ سیکٹر میں دخالت کی ضرورت ہے، زیادہ تر حکومتی انتظام کی ضرورت ہے، یعنی حکومت ایک موثر منتظم کے طور پر میدان میں اترے اور ہر چیز کو مدنظر رکھے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے مکمل اطلاعات حاصل کی جائیں۔ یعنی یہ جاننا کہ مواقع کہاں ہیں اور کن جگہوں پر، ان مواقع میں ملازمت کے لیے شرائط کیا ہیں، اور کس کی، کتنی اور کیسی ضرورت ہے۔ دوسری طرف، ملازمت کے متلاشی افراد کی شناخت اور ان کو باہم منسلک کیا جائے اور ملازمت کے مواقع بحال کئے جاسکیں۔
ان ملازمتوں کے مواقع کو بحال کرنے والی چیزوں میں سے ایک وہی علم محور کمپنیاں ہیں جن کا ہم نے اس سال ذکر کیا ہے۔ علم محور کمپنیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ افراد کی بے روزگاری کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ آج ہم بے روزگاری کے جو اعداد و شمار دیکھتے ہیں، اس میں ملک کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل افراد کی بے روزگاری کی شرح دیگر تمام طبقات سے زیادہ ہے۔ اس نوجوان نے محنت کی، پڑھائی کی، حکومت نے [بھی] اس پر یہاں تک پہنچنے کے لیے سرمایہ لگایا، پیسہ لگایا، خرچ کیا، اب بے روزگار ہو کر باہر نکلے! کبھی کبھی میرے پاس آنے والے عوامی رپورٹوں میں، میں دیکھتا ہوں کہ، مثال کے طور پر، کسی موقع پر، ایک گھرانے کی احوال پرسی کیلئے گئے - بچے کی پیدائش کے موقع پر یا مختلف مواقع پر - والد ایک ماسٹرز کا گریجویٹ طالب علم ہے۔ ایک مخصوص فیلڈ میں، وہ کرتا کیا ہے؟ ٹیکسی چلاتا ہے! اب یہ بے روزگاری ہے۔ کسی خاص شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، اسے اس استفادہ حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ علم محور کمپنیاں اس خلا کو پر کریں گی جس پر کچھ اعتراض کرتے ہیں کہ "آپ کہتے ہیں کہ علم محور کمپنیاں، جب علم محور بن جاتی ہیں، تو انسانی وسائل پر ان کا انحصار کم ہو جاتا ہے"؛ نہیں، ایسی صورت پیدا کی جاسکتی ہے، ایسا رابطہ بنایا جاسکتا ہے کہ جس سے روزگار میں اضافہ ہو۔ تو میں دہراتا ہوں، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، میں پھر کہتا ہوں، علم محور کمپنیوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ البتہ صحیح معنوں میں علم محور۔
محنت کش اور صنعتکار، یا محنت کش اور سرمایہ کار، یا کام(لیبر ) اور سرمائے کے درمیان آمدنی کے رابطے کو منظم کرنے کے حوالے سے - جس طرح بھی آپ تعبیر کریں - سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ محنت کش اور سرمایہ کار پرواز کیلئے درکار دو پروں کی مانند ہیں۔ یعنی اگر مزدور ہے، سرمایہ کار نہیں تو کام آگے نہیں بڑھے گا۔ [اگر] سرمایہ کار ہے، اگر مزدور نہیں ہے تو کام آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ دونوں حتمی ضروریات ہیں، ان پر توجہ کرنی چاہیے۔ ایک طرف کام ہے اور محنت کش کی مہارت، دوسری طرف سرمایہ ہے، انتظام ہے اور علم اور ٹیکنالوجی وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک قدر ایجاد کرتا ہے۔ [یعنی] اس مجموعے کے ذریعے خام مال میں ایک اضافی قدر پیدا ہوتی ہے۔ ہر ایک کا حصہ کتنا ہے، اس کو دیکھنا چاہیے تاکہ منصفانہ تقسیم بندی کی جاسکے۔ اس کے لیے کام کرنے، سوچنے، غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مقاومتی معیشت کی پالیسیوں میں، ہم نے ایک حصہ اس کے لیے وقف کیا ہے۔ ایک بنیادی شق، ایک بند اسی سے مربوط ہے۔ محنت کش اور مزدور کو ایک باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہونا چاہئے۔ آج ہمارے محنت کشوں کو بہت سے معاشی مسائل درپیش ہیں۔ بلاشبہ، ان مسائل کا ایک اہم حصہ ملکی معیشت کے عمومی مسائل کی وجہ سے ہے، یعنی ہمارے پاس معاشی میدان میں ایسے مسائل ہیں جو جمع ہوگئے ہیں، مثال کے طور پر، برسوں سے، ایک کے اوپر ایک جمع ہوگئے ہیں، غیر حل شدہ؛ ہر ایک کے لیے مسائل ہیں، اور مزدوروں کے لیے بھی، اس مسائل کا ایک حصہ اس موضوع سے متعلق ہے، اس کا کچھ حصہ لیبر قوانین اور پالیسیوں اور منصوبوں سے متعلق ہے جن کی پیروی کی جانی چاہیے، انشاء اللہ۔
تدبر اور تفکر ضروری ہے، جانفشانی اور جدوجہد لازمی ہے، صبر و تحمل اور غیر پختہ کاموں کی طرف سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ یہ سب ایک ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ منصفانہ تقسیم اور منصفانہ حصہ بندی جو میں نے بیان کی ہے وجود میں آسکے اور قائم ہوسکے۔
محترم وزیر نے کہا کہ ان کے منصوبوں کی بنیاد عدل و انصاف ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھ ہے؛ اسی کو بنیاد قرار دیں؛ مسائل کو عادلانہ نظر سے دیکھیں، تاکہ ہر شعبہ حقیقی طور سے اپنے حصے کو حاصل کرسکے ۔ عہدیداروں کو بھی ان شعبوں میں سرگرم ہونا چاہیے، اسی طرح ایک ثقافت کی بنیاد ڈالنے کے لیے تشہیرات کے شعبے میں سرگرم عناصر متحرک ہونے چاہئیں، اور اس طرح خود محنت کش بھی متحرک ہوں۔ یہ اس مسئلے کے بارے میں۔
ملازمت کے تحفظ کے بارے میں۔ جب نوکری کی حفاظت کی بات آتی ہے، سب سے زیادہ عام طور پر ملازمت کی عدم تحفظ کے حوالے سے جو چیز زیادہ بیان کی جاتی ہے وہ یہی عارضی معاہدے اور اس طرح کی چیزیں ہیں؛ محنت کش اور سرمایہ کار کے درمیان طے پانے والے معاہدے جو اس چیز کا باعث ہیں کہ ملازمت کا دیرپا تحفظ وجود میں نہ آسکے؛ یہ کہا جاتا ہے اور یہ سچ ہے۔ ان مسائل میں سے ایک جس کی اصلاح اور تصحیح کی ضرورت ہے اور ایک عادلانہ قانون یہاں پر لاگو ہو وہ [یہ ہے]۔ منصفانہ قانون کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش آسودہ خاطر ہوسکے اور سرمایہ کار اور کاروباری طبقہ دونوں کام کی جگہ پر نظم و ضبط برقرار رکھنے میں کامیاب ہوسکیں؛ یعنی اس طرح نہ کیا جائے کہ مکمل بے نظمی قائم ہو جائے۔ نہیں، دونوں فریقوں کو فائدہ ملنا چاہیے۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ملازمت کا عدم تحفظ صرف عارضی معاہدوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اور بھی عوامل ہیں جن کو میں ابھی نہیں گننا چاہتا۔ میں [صرف] ایک خاص عنصر پر انحصار کرنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ "قومی پیداوار" جب مار کھائے گی تو محنت کش کا کام اور روزگار بھی متاثر ہوگا۔ یہ حتمی ہے۔ قومی پیداوار؛ اسی لیے ہم قومی پیداوار، ملکی پیداوار، مقامی پیداوار پر اتنی تاکید کرتے ہیں۔
[مثال کے طور پر] درآمدات اور ہوشربا بے حساب و کتاب درآمدات کے بارے میں؛ آپ دیکھتے ہیں، اب ہمارے یہاں دسیوں اربوں کی درآمدات ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی درآمدات ضروری بھی ہیں، یعنی وہ خام مال ہوں یا مصنوعات، کارخانے، اسپیئر پارٹس وغیرہ۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں، کوئی درآمد کے مکمل خلاف نہیں ہے۔ ہم بے تحاشا درآمدات کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ اب، اسمگلنگ ایک جدا اور الگ مسئلہ ہے۔ بے تحاشا درآمد کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو جنس مقامی سطح پر بنتی ہے، اس کا معیار بھی اچھا ہے، ہم اسکی مشابہ جنس درآمد کریں؛ یہ ملک کی پیداوار کی پشت پر خنجر ہے۔ یہ وہی ہے جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں۔ اس لیے میں بے حساب و کتاب درآمدات کو روکنے پر زور دیتا ہوں۔
دیکھیں، مجھے جو اعداد و شمار دئے گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہر بلین ڈالر کی بے حساب و کتاب درآمدات 100,000 ملازمتوں کی بندش کے برابر ہیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہے جو ہمیں ماہرین نے دئے ہیں یعنی اگر ہمارے ملک میں وہ مصنوعات ہے جو مقامی طور سے بنتی ہیں، جوتا ملک میں بنتا ہے، کپڑے ملک میں بنتے ہیں، گھریلو سامان اور دیگر چیزیں ہیں- اب یہاں گاڑیاں بنانے والے ہماری بات سے غلط استفادہ نہ کریں؛ ان کی صورت حال بالکل بھی قابل تعریف نہیں - جہاں واقعی پیداوار ہورہی ہے، اور معیاری پیداوار بھی ہو رہی ہے۔ جب ہم ملکی پیداوار کو تقویت دینے کے بجائے، اسکو فروغ دینے کے بجائے، بیرون ملک سے اسی قسم کی اشیا درآمد کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کی ایک ارب ڈالر درآمدات کا مطلب ایک لاکھ نوکریوں کی بندش ہے۔
جب آپ خریداری کرنے جاتے ہیں اور ملکی مصنوعات پر غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ غیر ملکی محنت کش کو نفع دے کر مقامی محنت کش کا حق مار رہے ہیں۔ اس لیے میں اصرار کرتا ہوں اور اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں یقینی طور پر ہوشربا درآمدات کو روکنا چاہیے۔ یہ حکام سے مربوط ہے، اور جو چیز لوگوں پر منحصر ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مقامی مصنوعات، مقامی اجناس کی خرید کریں۔ یعنی پابند رہیں۔
اور اس کی بنیاد پر میں کہتا ہوں کہ مقامی مارکیٹ کا ایک اہم حصہ حکومت سے متعلق ہے۔ یعنی حکومت سب سے بڑی مقامی خریدار ہے۔ سب سے بڑا خریدار، اجناس کا سب سے بڑا گاہک، حکومت ہے۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی غیر ملکی سامان استعمال نہ کرے۔ ملکی پیداوار کو تقویت دینے کے لیے یہ اپنے آپ میں بہت اہم مصداق ہے۔ میں نے بار بار مقامی مصنوعات کی خریداری پر انحصار کیا ہے۔ جب بھی ہم اس مسئلے پر تاکید کرتے ہیں، بہت سے لوگ مختلف دلائل کے ساتھ اس کی تردید کے لیے لائن میں لگ جاتے ہیں! اب، یا تو باہر سے غیر ملکی استعماری دلالوں کے وسیلے سے یا بدقسمتی سے، کچھ اندروں ملک سے۔ جیسے ہی ہم ’’ملکی خریداری‘‘ کہتے ہیں، وہ فوراً کسی نہ کسی قسم کی تنقید یا اعتراض شروع کردیتے ہیں۔ یہ اس مسئلے کے بارے میں۔
ایک اہم مسئلہ محنت کشوں کے فرائض کا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے محنت کشوں پر بھی ان شعبوں میں بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ محنت کشوں کے اہم فرائض میں سے ایک ’’پختہ کام‘‘ کرنا ہے۔ میں نے یہ حدیث کئی بار پڑھی ہے - بظاہر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا ائمہ علیہم السلام سے ہے - جنہوں نے فرمایا: رَحِمَ اللهُ امرَأً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَه؛ کارکن کے کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ: خدا اس پر رحم کرے جو جب کوئی کام کرتا ہے، پختگی سے انجام دیتا ہے، مضبوطی سے کرتا ہے۔ یہ کارکن کے فرائض میں سے ایک ہے: پختہ کام۔ دوسرا "کام میں نفاست" ہے۔ کام کو نفیس طریقے سے انجام دیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں ایک اہم مسئلہ ’’پیکجنگ‘‘ کا مسئلہ ہے جس پر میں ماضی میں بارہا تاکید کر چکا ہوں۔ ایک بار، میرے دور صدارت میں، جب میں صدر مملکت تھا، ایک ملک سے تحفہ بھیجا گیا تھا - میں اس کا نام نہیں لوں گا۔ کیا بھیجا گیا؟ کھجور؛ کھجوریں ہمیں تحفے کے طور پر بھیجی گئیں۔ میں کھجوروں کا وہی پیکج کابینہ میں لے گیا، وہاں رکھ دیا، کہا، دیکھو، یہ الٹے بانس بریلی کو بھیجنے کی بہترین مثال ہے! ہمارے پاس دنیا کی بہترین اور متعدد کھجوریں ہیں، لیکن اس نے ہمیں کھجوریں بھیجی ہیں۔ اس کی پیکیجنگ کو دیکھیں۔ ہم اپنی کھجور کو نا مناسب ڈبوں میں نچوڑ کر پیک کرتے ہیں، [لیکن] اس نے کھجوروں کی اسی شاخ کو جس سے کھجوریں جڑی ہوئی ہیں اٹھایا ہے، انہیں پلاسٹک میں لپیٹ کر ایک بہت اچھے پیکج میں ہمیں بھیج دی ہے۔ میں نے کہا سیکھیں۔ یہ ایک محنت کش کے فرائض ہیں۔ بلاشبہ، محنت کش اور ورک مینیجرز کے مشترکہ فرائض میں سے ہے جسے انھیں انجام دینا چاہیے۔ یہ بھی ایک بات تھی.
آخری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ ہمارے تعلیمی نظام کے بارے میں ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام، تمام تر تاکید کے باوجود، اب بھی عملی سے زیادہ ذہنی نظام ہے۔ اکثر ایسا ہے۔ اب یقیناً کچھ حصوں میں عملی چیزیں موجود ہیں، لیکن وہ ہر جگہ نہیں ہیں اور ہمیشہ نہیں۔ بلاشبہ طلباء کی ذہنی تربیت ایک ضروری کام ہے، انہیں علم ضرور سیکھنا چاہیے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ذہنی کام کے ساتھ ساتھ عملی کام کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ یونیورسٹی اور صنعت کے درمیان یہ رابطہ - جسے ہم نے کئی سال پہلے ایک صدر سے کہا تھا، اور آخر کار وزارت سائنس کو متعارف کیا گیا؛ جس کا بنیادی کام یونیورسٹی کو شعبہ صنعت سے جوڑنا ہے؛ یعنی، طالب علم طالب علمی کے زمانے سے ہی صنعت سے جڑا ہوا ہو - یہ صنعت کیلئے بھی اچھا ہے اور جدید علم اور نئے اقدامات کی کثرت، اور یونیورسٹی کے لیے بھی اچھا ہے کیونکہ اس سے یونیورسٹی کو سرمایہ آتا ہے، اس کے ذریعے یونیورسٹی کے پاس پیسہ آتا ہے اور آمدنی ہوتی ہے; یہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، یہی ہنر اور مہارتوں کی افزائش جس کا انہوں نے ذکر کیا ہے، بہت اچھا کام ہے، ضروری کام ہے، اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ محنت کشوں کی صلاحیتوں کو بہتر کرنا ضروری ہے؛ محنت کش کو اپنے عمل کو مہارت کے ساتھ خلاقیت، اختراع اور اچھے سلیقے کے ساتھ انجام دینے اور معیار کو بلند کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ جتنا معیار بہتر ہوتا ہے، اسی طرح گاہک اور دلچسپی رکھنے والوں اور ضرورت مندوں کی نظر میں کام کی قدر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ہم محنت کش طبقے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں اور ہم اللہ تعالی سے ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ دشمنوں کی ہر قسم کی اشتعال انگیزیوں کے خلاف ان کی مزاحمت، جیسا کہ موجود تھی، جاری رہے گی، انشاء اللہ؛ اور معاشی، سیاسی اور تعلیمی میدانوں میں، انشاء اللہ، محنت کش ادارے روز بروز آگے بڑھیں گے۔ اور ملک کے منتظمین اور عہدیداران انشاء اللہ وعدوں کے مطابق کام کریں گے اور سب منصوبہ بندی کے مطابق کام کریں گے اور سب حکومت کی مدد کریں گے۔ آج حکومت اقتصادیات کے میدان میں جو اقدامات کر رہی ہے وہ اہم ہیں اور ان میں سب کے تعاون کی ضرورت ہے۔ یعنی تمام ادارے، مختلف قوتیں، افراد، گروہ، سب کو، انشاء اللہ، ان مطلوبہ نتائج کے حصول میں حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته