ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سینکڑوں طلبہ اور طلبہ تنظیموں کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں مکمل خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.


آپ سے سے دو با دو ملاقات میرے لیے بہت ہی خوشی کی باعث ہے، دو سال کی محرومی کے بعد یہ شیریں اور دوستانہ ملاقات، ساتھ ہی ساتھ جو تقاریر یہاں کی گئیں ہیں وہ بھی۔  البتہ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ کچھ حضرات نے بہت تیز رفتاری سے بولے - آخری والے جناب پناہی کے علاوہ جو تھوڑا اطمینان سے بولے اور مجھے انکی بات قدرے زیادہ سمجھ آئی، باقی احباب نے بہت تیز رفتاری میں بات کی - کچھ نکات مجھے سمجھ آئے جبکہ کچھ کو میں نہیں سمجھا۔ آپ مجھے اپنی تحریریں ضرور دیں تاکہ میں انہیں بعد میں دیکھ سکوں۔

میں اس کے بارے میں صرف ایک مختصر جملہ کہنا چاہتا ہوں، اور پھر میں اپنی بات شروع کروں گا، وہ یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ دل کی بات ہے۔ یہ دل سے نکلنے والی باتیں ہیں اور انسان ان باتوں کو سننا پسند کرتا ہے، لیکن ان میں سے بہت سے سوالات کے مدلل جواب موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سی تنقیدوں کے حلی جوابات موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو اعتراض آپ کے ذہن میں یا آپ کے مجموعے کے ذہن میں آیا ہے اور یہاں اس کا اظہار کیا گیا ہے، اس کو واقعی کوئی حل موجود نہیں۔ نہیں، ان میں سے بہت کے جوابات موجود ہیں۔ بلاشبہ آپ کی تقریر میں ایسی تجاویز تھیں کہ ان میں سے کچھ تجاویز واقعی عملی اور ممکن ہو سکتی ہیں لیکن زیادہ تر تنقید اور اعتراض تھے۔ بہت سے اعتراضات اور تنقیدوں میں - میں نہیں کہتا کہ سب- ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی متعلقہ حکام سے گفت و شنید نہیں ہوئی ہے؛ اس مسئلہ کو حل ہونا چاہیے۔

خیر، میں - ہم اب کی کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم چالیس سال پہلے کی بات کر رہے ہیں - میں ہفتے میں ایک دن تہران یونیورسٹی جاتا تھا - بغیر کسی استثنا کے - اور طلباء جمع ہوتے اور وہ اپنے سوالات پوچھتے، میں جواب دیتا؛ بہت سی گرہیں کھلتی تھیں، بہت سی مشکلات حل ہوتی تھیں۔ ایسی باتیں بھی تھیں جہاں اعتراض کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ ہم محسوس کرتے تھے کہ، مثال کے طور پر، ہمیں جا کر اس ضمن میں کچھ کرنا چاہیے۔ اس کو کسی نہ کسی طرح ٹھیک ہونا چاہیے۔ میں نے حکام کو تاکید کی ہے؛ وزراء اور مختلف اداروں کے عہدیدار کو آکر آپ سے بات کرنی چاہیے - اب مثال کے طور پر جنرل اسٹاف کا نام لیا گیا، سپاہ پاسداران کا نام بتایا گیا - وہ آکر بات کریں، بیان کریں۔ ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ ہاں، بعض جگہ ممکن ہے کہ مسئلہ قابل جواب نہ ہو، تو دوسرا فریق سمجھ جاتا ہے کہ اسے جا کر کچھ کرنا چاہیے، ایکشن لینا چاہیے۔ یہ ایک نکتہ تھا جس میں اس مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا۔

اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی بات ہوئی اور پارلیمنٹ پر اعتراض اور مجھ سے اس پارلیمنٹ سے انقلابی کا عنوان واپس لینے کا کہا گیا۔ ان اراکین پارلیمنٹ میں سے بہت سے ایسے نوجوان ہیں جو آپ ہی کی طرح چند سال پہلے یہاں آتے، کھڑے ہوتے، تنقید کرتے، بیان کرتے، اعتراض کرتے تھے۔ یہ انقلابی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ انقلابی نہیں ہیں۔ میں یقیناً آپ میں سے ایک ایک کو نہیں جانتا۔ میں کلی طور سے فیصلہ کرتا ہوں، مجموعہ برا نہیں ہے، اچھا ہے؛ یہ حکومت، پارلیمنٹ اور کچھ دوسرے شعبوں میں، ایک اچھا مجموعہ ہے۔ اب کچھ میں ہو سکتا ہے کہ قابل اعتراض بات موجود ہو۔

بہرحال، آج جو آپ نے کہا مجھے بہت اچھا لگا، یہ جان لیں! یہ کہ آپ بیٹھتے ہیں، آپ سوچتے ہیں، آپ مسائل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں، کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور اسے آپ یہاں صریح طور پر بیان کرتے ہیں، یہ میرے نزدیک ایک مطلوبہ اور مفید چیز ہے۔

اور اب وہ جو میں کہنا چاہتا ہوں؛ پہلی بات وعظ و نصیحت کا ایک جملہ ہے، میں آپ عزیزوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے پیارے فرزند امام حسن علیہ السلام کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ وعظ و نصیحت سن کر اپنے دل کو زندہ کریں! یہ امیرالمومنین علیہ السلام نے کہا ہے، وہ بھی امام حسن ع جیسے سے، اپنے بڑے بیٹے، اپنے پیارے بیٹے سے؛ اور یہ جاننا دلچسپ ہے کہ یہ خط امیر المومنین نے صفین سے واپسی پر مختلف مسائل جو ان پر پیش آئے تھے ان کے درمیان لکھا تھا۔ نہج البلاغہ میں جو یہ خط ہے اس سے رجوع کرنا، اسکو دیکھنا اور پڑھنا برا نہیں۔ اَحیِ قَلبَکَ بِالمَوعِظَه؛ اب وعظ و نصیحت ضروری ہے۔

آج میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ سورہ مریم کی آیت ہے، جو قرآن کی چونکا دینے والی آیات میں سے ایک ہے، انسان جب بھی اس آیت کو یاد کرتا ہے، واقعی کانپ اٹھتا ہے۔ فرماتے ہیں: وَ اَنذِرهُم یَومَ الحَسرَةِ اِذ قُضِیَ الاَمرُ وَ هُم فی غَفلَة یعنی ہمارے نبی! غفلت برتنے والوں کو بتاؤ اور انہیں "یومِ ندامت" سے خبردار کرو۔ ندامت کا دن قیامت کا دن ہے جسے ندامت کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ "اذ قُضِيَ الاَمر" کا مطلب ہے جب کام ختم ہو جائے اور اس کے بعد کچھ نہ ہو سکے۔ ’’قُضِيَ الاَمر‘‘ کا مطلب یہ ہے۔ انھیں اس دن سے ڈراو، خبردار کرو۔ انسان حشر میں دیکھے گا کہ کبھی کبھی اسے ایک چھوٹے سے عمل سے بڑا اجر مل سکتا تھا۔ دنیا میں ایک چھوٹی سی حرکت کا یہاں گہرا دیرپا اثر ہو سکتا تھا، اور ایسا نہیں ہوا۔ آدمی پچھتاتا ہے۔ دنیا میں وہ دردناک عذاب سے بچ سکتا تھا ایک عمل سے پرہیز کر کے، گریز کر کے، ایک بات سے اجتناب کر کے اور عمل سے دور رہ کر۔ اس نے نہیں کیا، اس نے کوشش نہیں کی۔ ہم صحیح کام کرنے کا فیصلہ کریں، ہم درست کام کرنے کا فیصلہ کریں، صحیح کام کی منصوبہ بندی کریں؛ فیصلہ کریں؛ ندامت کا دن سختی کا دن ہے۔ اور یہ چیزیں، یہ فیصلے جوانی میں ممکن ہیں۔ بندہ ناچیز کی عمر اور مجھ جیسوں کی عمر سے زیادہ آسان ہے۔ ہم کبھی کبھی دنیا میں اس عظیم ندامت کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ ایک چیز کھو جاتی ہے، چھٹ جاتی ہے، افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا، اس طرح کیوں نہیں کیا؟ یقیناً یہ کیفیت قیامت کے اس ندامت کی نسبت بہت کمتر ہے، اس ندامت سے ہزاروں گنا کم تر ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ندامت ہے۔ خوش قسمتی سے، آج آپ کیلئے یہ ندامت نہیں ہے، کیونکہ آپ جوان ہیں؛ یہ ہم جیسے لوگوں کے بارے میں ہے جو جوانی اور ادھیڑ عمر سے گزر چکے ہیں، ہمیں کچھ کام کرنے چاہیے تھے جو ہم نے نہیں کیے، ہمیں کچھ کام نہیں کرنے چاہیے تھے، جو ہم نے کئے۔

اس موقع کی قدر کریں جو آپ کے پاس ہے؛ اس عمر میں جس میں آپ ہیں ممکن ہے کہ آپ کی عمر میں ساٹھ سال، ستر سال آپ کے پاس باقی ہوں۔ ان وسائل کی قدر کریں جو آپ کیلئے مہیا ہیں اور آپ کے سامنے ہیں۔ یہ ہماری آج کی وعظ و نصیحت ہے۔

لیکن میں نے جو کچھ مطالب  تیار کئے ہیں وہ یونیورسٹی (جامعات) اور یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں ہیں۔ آپ کی تقریروں میں ایک صاحب نے میرے خیال میں جامعہ یا مثلاً طلبہ کے بارے میں مختصر تنقید کی تھی۔ میں یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں؛ میرا ایک نقطہ نظر بھی ہے اور ایک تجویز بھی ہے جو میں اب بیان کروں گا: اول، یونیورسٹی کا کردار اور کردار ادا کرنے کے امکانات اور مستقبل قریب میں یہ کردار ادا کرنے کی ضرورت، دوم، کچھ مواقع اور کچھ خطرات جو وجود رکھتے ہیں، اور پھر طلباء کے لیے کچھ مفید عملی نکات۔ یہ آج ہمارے موضوعات ہیں کہ انشاء اللہ، اگر آپ حوصلہ کریں اور میں بھی بیان کرسکوں، تو میں یہ عرض کروں گا۔

انقلاب کے آغاز سے ہی یونیورسٹی کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔ یعنی جب انقلاب برپا ہوا تو اس کے اہداف تھے، اس کے عظیم اہداف تھے: انفرادی اور آمرانہ حکمرانی کو عوامی حکمرانی میں بدلنا۔ ملک اور بیرون ملک کی سیاست میں غلامی کو استقلال اور انقلاب کے اہم مقاصد میں تبدیل کرنا؛ لیکن ان اہداف کے علاوہ، اس کے سامنے کئی فوری ایکشن پلان تھے۔ یونیورسٹی کا مسئلہ ان پروگراموں میں سے ایک تھا۔ اب مثال کے طور پر ایک اور مسئلہ فرض کیجیے، ملک کی سلامتی، سرحدوں کی حفاظت، داخلی سلامتی، جو بنیادی اور اہم مسائل تھے جو انقلاب کے سامنے تھے اور جن پر انقلاب نے توجہ دی تھی۔ ان میں سے ایک تو یونیورسٹی کا مسئلہ تھا۔

یونیورسٹی کا مسئلہ اس لیے اہم تھا کہ یونیورسٹی ایک حقیقت تھی اور ایسی حقیقت تھی جس کی ضرورت تھی۔ تاہم، یونیورسٹی کے بارے میں دو طرح کے نظریات تھے: ایک انقلاب کا نقطہ نظر تھا اور دوسرا یونیورسٹی سے متعلق پسماندہ اور ضد انقلاب نظریہ تھا۔ دوسرے نظریہ کو انقلابی نظریہ میں تبدیل ہونا چاہیے تھا۔ تو یہ ایک چیلنج تھا۔ یونیورسٹی کا مسئلہ انقلاب کے پہلے دن سے سب سے زیادہ چیلنجنگ مسائل میں سے ایک رہا ہے۔ لہذا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام خمینی رح نے کام کے آغاز میں ہی ثقافتی انقلاب سپریم کونسل تشکیل دی تھی۔ ایک مقرر نے ثقافتی انقلاب کونسل پر اشارہ کیا، یہ کونسل ایک مطالعہ کی بنیاد پر بنائی گئی تھی، ایسا نہیں تھا کہ وہ بلا وجہ کونسل بنانا چاہتے تھے۔ اس کونسل سے پہلے، ثقافتی انقلاب مرکز تھا، جسے خود امام خمینی رح نے تشکیل دیا تھا۔ بلاشبہ سپریم کونسل بھی امام نے تشکیل دی تھی لیکن مرکز تشکیل دینے کے بعد۔ ابتدائی طور پر، امام نے یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے ثقافتی انقلاب مرکز بنایا۔ آپ نے دیکھا کہ یہ امام خمینی رح کی نگاہ میں یونیورسٹی کی اہمیت کی علامت ہے۔ اس کے بعد امام خمینی رح نے یونیورسٹی کے بارے میں اہم مطالب بیان کئے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کا مسئلہ انقلاب کے درجہ اول کے مسائل میں سے ہے۔

تو ان دونوں نظریات میں جن کا میں نے ذکر کیا ہے انکا تضاد کہاں پر ہے؟ ایک یہ کہ انقلاب نے یونیورسٹی کو ملک کی ترقی اور ملکی مسائل کے حل کے لیے اچھی استعداد کے مالک افراد کی تربیت کے مرکز کے طور پر دیکھا۔ یہ یونیورسٹی کی نسبت انقلاب کا نقطہ نظر ہے؛ ملک کے مسائل کے حل کے لیے، ملک کی ترقی کے لیے، ملک کی دو تین سو سال کی پسماندگی کی تلافی کے لیے اچھی استعداد کی مالک افرادی قوت کی تربیت، انقلاب نے اسی نظر سے یونیورسٹی کی طرف دیکھا۔ جب کہ پسماندہ ضد انقلاب دھارے کی یونیورسٹی کی نسبت بالکل ایسی نگاہ نہیں تھی۔ انہوں نے ملک میں یونیورسٹی بنائی اور اسے آلہ کار تربیت کرنے کے لیے آگے بڑھایا، تاکہ قوم کے اندر سے اور خود قوم کے لوگ اندر سے وہ کام کر سکیں جو وہ (استعمار) باہر سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے، یہ بہت لمبی داستان ہے۔ استعماری سیاست۔

بدقسمتی سے نوجوان کتابیں کم پڑھتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ نے جدید استعمار اور نوآبادیاتی نظام کے بارے میں کتنا پڑھا ہے اور آپ کتنا جانتے ہیں۔ یورپیوں نے ایک مخصوص وقت میں سترہویں صدی سے - 1600 عیسوی کے آس پاس؛ پہلے پرتگالی، پھر ہسپانوی، اور پھر دوسرے - دنیا کو اپنی مستعمرہ بنانے لگے۔ یعنی انہوں نے ملکوں کو فتح کیا اور خونریزی اور تشدد اور تسلط و مداخلت کے ذریعے اسی طرح کمزور ممالک کا انتظام سنبھالا اور ان کے مفادات ہڑپ کرتے رہے۔ بیسویں صدی میں، تقریباً استعماریت کی تین صدیوں بعد، چار صدیوں کے بعد، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ براہ راست استعماریت اب فائدہ مند نہیں رہی۔ ایک نئی پالیسی بنائی گئی، اور وہ پالیسی یہ تھی کہ مدنظر ممالک میں ایسے افراد کو تربیت دی جائے تاکہ وہ لوگ وہی کریں جو استعماری قوتیں کرنا چاہیے تھیں، وہی بات کریں جو وہ کہنا چاہتی تھیں، وہی کام ملک میں انجام دیں جو استعماری قوتیں کرنا چاہتی تھیں۔ یہی اصل ہدف ہے. پس مغرب کا یونیورسٹی سے متعلق نظریہ اور مدنظر ممالک میں افرادی قوت کی تربیت اور تشخیص کا ہدف یہ تھا کہ جو میں بیان کررہا ہوں؛ اس کا نام ہے جدید استعماری نظام۔ انہوں نے اس پر کتابیں لکھی ہیں، اس پر بات کی ہے، بہت سارے تحقیقی مضامین لکھے ہیں، جنہیں اچھا ہے کہ دیکھا جائے۔ یہ یونیورسٹی سے متعلق پسماندہ  ضد انقلاب رجحان کا نظریہ تھا۔ لہذا، یہ انقلابی نقطہ نظر کے بالکل برعکس تھا۔

یونیورسٹی کے حوالے سے ایک اور چیلنج یہ تھا کہ انقلاب نے یونیورسٹی کو علم و سائنس کی ترقی کے مرکز کے طور پر دیکھا، سائنس کی ترقی کے لیے ایک مرکز، تاکہ وہ علم و سائنس کو آگے بڑھا سکے — پہلے سیکھیں، پھر ایجادات کریں، اور آگے بڑھائیں — تاکہ علم و سائنس کے ذریعہ قومی اقتدار فراہم کیا جاسکے۔ کیونکہ علم اور سائنس ایک قوم اور ملک کو طاقت دیتے ہیں، قوت بخشتے ہیں۔ یہ انقلاب کی نگاہ تھی۔ اس پسماندہ اور ضد انقلاب دھارے کی نگاہ بالکل بھی یہ نہیں تھی۔ انہیں یونیورسٹی سے یہ مقصود نہیں تھا کہ یونیورسٹی خود علم و سائنس ایجاد کرے گی۔ نہیں، وہ چاہتے تھے کہ- نہ صرف ہماری یونیورسٹیاں؛ سارے مدنظر ممالک کی یونیورسٹیاں- مغربی علم کی باقیات کو سیکھیں اور درحقیقت اس بیکار باقی ماندہ یا کم فائدہ علم کو سیکھیں تاکہ علوم و سائنسز کو ایجاد نہ کرسکیں۔ یعنی علم و سائنس کو ان ممالک میں حقیقی معنوں میں ترقی اور توسیع نہ مل سکے۔ انکا یہی مقصد تھا۔ ان ممالک میں ہر شعبے میں ہر جدید علمی اقدام کو دبا دیا گیا ہے۔ یہ حقائق ہیں، یہ فقط دعوے نہیں، یہ واقعات ہیں جو رونما ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک چیلنج تھا. وہ یونیورسٹی کے ذریعہ ایک "صارف سائنسدان" اور "صارف معاشرہ" پیدا کرنا چاہتے تھے۔ "صارف سائنسدان" کا مطلب ہے وہ جو مغربی علم کو ہی استعمال کرتا ہے، جدید علم نہیں [بلکہ] پسماندہ علم، متروک علم۔ "صارف معاشرہ" سے مراد وہی پڑھے لکھے صارف سائنسدان جب معاشرے میں آتے ہی اور انتظام سنبھالتے ہیں اور نتیجے میں اپنی مانند صرف ایک صارف معاشرہ تشکیل دیتے ہیں، مغربی مصنوعات کے کھپنے کے لیے مارکیٹ تیار کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کا مقصد یہ رہ گیا تھا؛ یونیورسٹی سے متعلق نظریہ یہ تھا۔

یونیورسٹیوں سے متعلق ایک اور چیلنج یہ تھا کہ انقلاب کا مقصد ایک دین دار یونیورسٹی بنانا تھا، جہاں ملک کا نوجوان جب یونیورسٹی میں آتا ہے اور چند سال یونیورسٹی میں رہتا ہے اور پھر باہر آتا ہے، تو وہاں سے دین دار بن کر نکلے۔ یونیورسٹی میں داخل ہونے سے پہلے سے بھی زیادہ دیں دار۔ لیکن ان کا مقصد اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ یونیورسٹی کو بے دین بنانا چاہتے تھے، اور انہوں نے ایسا کیا۔ بلاشبہ وہ اس مقصد میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے لیکن انہوں نے اپنی ہر ممکن کوشش کی۔ البتہ یہ جو میں کہ رہا ہوں کہ "وہ کامیاب نہیں ہوئے" کیونکہ انھی طاغوت کی بنائی ہوئی اور مغرب کی طرف سے منصوبہ بندی کی گئی اسی یونیورسٹی میں عظیم المرتبت ممتاز شہید حسن باقری جیسے لوگ وجود میں آئے جو تہران یونیورسٹی کے اسی شعبہ قانون کے طالب علم تھے۔ یا ان ایٹمی سائنسدان شہداء میں سے کتنے اس دور کے طالب علم ہیں، دفاع مقدس کے بہت سے شہداء، کمانڈرز اور ممتاز شخصیات اور ان جیسے لوگ، انقلاب سے پہلے یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں۔ لہٰذا، وہ دین کو ختم کرنے کے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے، لیکن آخر کار انہوں نے ہر ممکن کوشش کی، اور اس حوالے سے تلخ یادیں ہیں، جن میں سے کچھ قابل بیان ہی نہیں، کچھ اس ملاقات اور اس مختصر وقت کے لیے موزوں نہیں۔ لہذا، یونیورسٹی کا مسئلہ پہلے دن سے انقلابی رجحان اور ضد انقلاب رجحان کے درمیان ٹکراو کا میدان تھا۔
تو انقلاب نے یونیورسٹی کے لیے کیا کیا؟ انقلاب نے یونیورسٹی کے لیے جو عظیم کام کیا وہ یونیورسٹی کو اپنی ایک پہچان دینا اور اس کے نتیجے میں ایرانی قوم کی پہچان دینا تھا۔ انقلاب نے قوم کو تشخص پانے کا احساس دیا، ایک ہدف، شخصیت اور اسقلال کا احساس، ایک واضح وژن دیا۔ یہ وہ کام ہیں جو انقلاب نے ایرانی قوم کے لیے کیے تھے۔ فطری طور پر جب کسی قوم میں ایک قومی پہچان، قومی تحریک، قومی ہدف سازی جنم لیتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ یونیورسٹی کے نوجوانوں اور طلبہ کو ہوتا ہے، جو احساسات وہ رکھتا ہے، اس کے پاس جو علم ہے، جو پاکیزگی اور اخلاص اس کے پاس ہوتا ہے۔ یونیورسٹی نے پہچان پائی، اور پہچان کا یہ احساس اس چیز کا سبب بنا کہ یونیورسٹی اور طلباء برادری مغربی طاقتوں کے مقابلے میں احساس کمتری اور حقارت محسوس نہ کریں۔ انقلاب سے پہلے جو کچھ تھا اس کے بالکل برعکس۔ یعنی تہران یونیورسٹی کا طالب علم، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ جو لوگ یونیورسٹی میں مورچہ بندی کئے ہوئے تھے وہ سوویت سفارت خانے سے امداد حاصل کر رہے تھے اور سوویت پالیسیوں پر عمل کر رہے تھے، پوری قوت سے ان عناصر کا مقابلہ کرتا ہے اور تہران یونیورسٹی کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرتا ہے۔ یا وہ طلباء جنہوں نے جا کر امریکی سفارت خانے پر اسلامی نظام کے خلاف سازش کے اڈے کے عنوان سے قبضہ کر لیا، وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، وہ امریکی طاقت سے پنجہ آزمائی کر رہے تھے۔ وہ خود کو کمزور محسوس نہیں کرتے تھے، وہ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتے تھے؛ یہ وہی پہچان ہے؛ یہ تشخص کا احساس ہے، اسقلال کا احساس، شخصیت کا احساس؛ یہ یونیورسٹی کو دیا گیا تھا۔

پھر میری نظر میں سب سے زیادہ طلبہ ہی تھے -  اب میں اعداد و شمار نہیں دے سکتا، میرے خیال میں - جنہوں نے سپاہ پاسداران میں شمولیت اختیار کی؛ یعنی پہلے پہل طلباء آئے اور سپاہ کے ممبر بنے۔ اس وقت سپاہ کو ایک انقلابی اور قومی اقتدار کا مرکز سمجھا جاتا تھا، جو کہ حقیقت تھی اور ہے۔ وہ گئے، ممبر بنے اور آمادہ رہے۔ یعنی جو بھی سپاہ میں جاتا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کا مقابلہ کرنے، لڑنے، مقابل میں کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔ یہ یونیورسٹی کو پہچان ملنا تھی۔ یہ استقلال کا احساس تھا، صف اول کی عالمی طاقتوں کی تذلیل تھی۔


اس وقت نوجوان طالب علم نے خود مختاری کے احساس کی مٹھاس کو چکھا۔ آج آپ کو استقلال کے احساس سے اتنی مٹھاس محسوس نہیں ہوتی۔ آپ نے اپنی ساری زندگی ایک ایسے ملک میں گزاری ہے جو شاید سیاسی طور پر سب سے زیادہ آزاد ممالک میں سے ایک تھا۔ یعنی [بڑی طاقتوں] کی عدم پیروی اور عدم اطاعت۔ آپ نے غلامی کی اس ذلت کا ادارک نہیں کیا، محسوس نہیں کیا، اس لیے آپ، آج کے نوجوان، استقلال کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے؛ اس دن کے نوجوان نے ہاں ضرور محسوس کیا۔ میدان مبارزہ میں موجود ہماری طرح کے افراد نے بہت محسوس کیا۔ نوجوان طلباء بھی سمجھتے تھے، انہوں نے عدالت اور حکومت اور حکام کے رویے کو دیکھا کہ امریکہ کے سامنے ایک طرح، یورپ کے سامنے دوسری طرح، انہوں نے یہ سب تو دیکھا تھا۔ انہوں نے وہ ذلت دیکھی تھی، اس لیے انہوں نے واقعی آزادی و استقلال کے احساس کو ایک شیریں پیشرفت جان کر قبول کیا۔


لہذا پہلے مرحلے میں، انقلاب نے یونیورسٹی سے متعلق کسوٹی میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں. ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اس نے مکمل طور پر یونیورسٹی کو انقلابی اور اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا۔ نہیں، کوئی بھی ایسا دعویٰ نہیں کرتا، لیکن وہ کامیاب ہوا کہ ضد انقلاب رجحان کے مقابل یونیورسٹی سے متعلق ایک درست، مضبوط اور قابل تعریف اقدام کر سکے۔ اس نے یونیورسٹی کو پہچان دی، اس نے یونیورسٹی کو تشخص دیا۔ بہت سے طلباء نے فوراً جا کر قم میں ایک مجموعہ کے ساتھ رابطہ کیا، انسانی علوم پر کتابیں ترتیب دینے کے لیے تفصیلی ملاقاتیں کیں، جو یقیناً زیادہ کامیاب نہیں تھیں، لیکن اس کام کیلئے بھی جرئت کی ضرورت تھی۔ جسکا انہوں نے مظاہرہ کیا؛ تہران کے پروفیسروں اور متعدد طلباء اور قم کے متعدد اسلامی مفکرین نے کتابوں کا ایک مفصل ذخیرہ تیار کیا۔ پہلے مرحلے میں یہ کام انجام دئیے گئے تھے۔

بعد ازاں جب ملک کی جامعات میں اسلامی انجمنیں قائم ہوئیں، پھر طلبہ کی بسیج اور پروفیسروں کی بسیج قائم ہوئی، جو انقلاب کے جھنڈے گنے جاتے تھے؛ اسلامی انجمنیں اس دن حقیقی معنوں میں انقلاب کے جھنڈے جانی جاتی تھیں۔ اور اچھی بحثیں ہوتی تھیں، گہری بحثیں ہوتی تھیں۔ میں مربوط تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انجمنوں نے امام خمینی رح سے رجوع کیا، اور امام خمینی رح نے بندہ حقیر کو متعارف کرایا کہ فلاں سے مربوط رہیں؛ میں انجمنوں کے مجموعہ اور ان سے مربوط نوجوانوں سے مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ ہمارے اسی امیر کبیر یونیورسٹی میں کئی نشستیں ہوئیں، مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ اچھی گہرائی کی حامل نظریاتی گفتگو۔ یہ پہلا قدم تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ محاذ آرائی ختم ہو گئی تھی؛ نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اب انقلابی گروہ کی اس کامیابی کے ساتھ، ضد انقلاب دھارا پیچھے ہٹ گیا اور یونیورسٹی سے ہاتھ اٹھا لیا اور ٹکراو ختم ہو گیا۔ نہیں ایسا نہیں تھا۔ ٹکراو جاری رہا، تصادم جاری رہا، اور اسی طرح کئی سالوں میں - [ان] دہائیوں میں - اتار چڑھاؤ آئے، یونیورسٹی میں اتار چڑھاؤ آئے جن کے حوالے سے لمبی داستان ہے۔ یہ، میری رائے میں، ایک تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے؛ اہم تحقیقی کاموں میں سے ایک انقلاب کے بعد ملک کی یونیورسٹیوں کی تاریخ ہو سکتی ہے۔ اس کے اتار چڑھاؤ، اس کے نشیب و فراز، اس کے لوگوں میں تبدیلی، کہ وہ کون تھے، کہاں چلے گئے، ان کی تقدیر کیا ہوئی، ان کی جگہ کون آیا۔ یہ وہ اہم موضوعات ہیں جو مفصل اور اچھی تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں۔

اب میں اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی بات یہ کہ آج اسلامی جمہوریہ نظام اپنی یونیورسٹی پر فخر کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اسکا فریضہ ہے کہ وہ اپنی یونیورسٹی کے حوالے سے فکرمند رہے۔ اب میں دونوں کی تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔ یہ کہ اسلامی جمہوریہ کا نظام اپنی یونیورسٹی پر فخر کر سکتا ہے، کیونکہ آج کی یونیورسٹی کا واقعی طور پر انقلاب سے قبل یونیورسٹی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، ان دنوں ماحول زیادہ پرجوش تھا، اور آج سے زیادہ ولولہ انگیز تحریکیں چل رہی تھیں - ٹھیک ہے، یہ انقلاب کا آغاز تھا - لیکن ہمارے ملک کی آج کی یونیورسٹیوں کا واقعی ان یونیورسٹیوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جو انقلاب کے آغاز میں ہمارے پاس تھیں۔

پہلے تو طلباء کی تعداد کے لحاظ سے۔ اس دن ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی، آج طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب تعلیم یافتہ اور فارغ التحصیل افراد کے علاوہ لاکھوں طلبہ تعلیم میں مشغول ہیں۔ اس سلسلے میں، مقدار بالکل قابل موازنہ نہیں ہے؛ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیاں دونوں میں۔

دوم، استاد کے لحاظ سے؛ اُس دن جو رپورٹ ہمیں دی گئی، اُس کے مطابق انقلاب کے آغاز میں تہران کی یونیورسٹیوں کے تمام پروفیسرز کی تعداد تقریباً پانچ ہزار تھی۔ آج ہمارے پاس دسیوں ہزار پروفیسرز ہیں، جن میں نامور پروفیسرز موجود ہیں، برجستہ پروفیسرز ہیں۔ یعنی طلباء کی تعداد کی طرح پروفیسروں کی تعداد بھی واقعی قابل فخر ہے۔

اس کے علاوہ، مایہ ناز علمی و سائنسی پیش رفت؛ اس وقت یونیورسٹی میں سائنسی کام کے حوالے سے ہمارے پاس واقعی کوئی قابل فخر چیز نہیں تھی۔ یہ واقعی ایک حقیقت ہے؛ اب یہ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں ایک با استعداد نوجوان، مثلاً کسی کونے میں کوئی ایسا کام کیا ہو یا نظریہ دیا ہو، جس کا ہمیں علم نہیں ہوسکا ہو، لیکن جامعہ میں بحیثیت مجموعی، کوئی قابل ذکر سائنسی کام نہیں تھا ; آج خدا کے فضل سے، توفیق الٰہی سے، یونیورسٹی میں بڑے اور عظیم علمی و سائنسی کام ہوئے ہیں، اور وہ ایک بار پھر انھی پروفیسرز، تعلیمی ورکشاپس، با استعداد طلباء کے توسط سے انجام پارہے ہیں۔

با استعداد طلباء کی تربیت؛ آج ہمارے ملک میں کس قدر با استعداد طلباء ہیں۔ اب ان میں سے کچھ ملک چھوڑ دیتے ہیں، اور پھر کچھ ماتم کرتے ہیں کہ [انہوں] نے ملک چھوڑ دیا۔ بالکل، ہم چاہتے ہیں کہ با استعداد طلباء ملک میں رہیں، لیکن ملک میں موجود با استعداد طلباء کی تعداد ان طلباء سے کئی گنا زیادہ ہے جو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہماری یونیورسٹیاں اس حوالے سے بہت اچھی ہیں۔

سرکاری انتظامیہ میں یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی؛ یہ بہت ضروری ہے۔ ہمارے پاس مختلف ادوار میں اچھے منتظم رہے ہیں۔ ہمارے پاس اچھے مینیجرز تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب آپ ایک خاص حکومت، مثلاً، اور اس کے عہدیداروں پر اعتراض کر رہے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس حکومت میں کوئی ممتاز، اچھا اور ذمہ دار منتظم نہیں تھا، اور ہمارے اس برادر کے الفاظ میں عقلمند، بہادر اور ایماندار فرد موجود نہیں تھے; نہیں، بہت اچھے مینیجرز؛ جیسا کہ اب بھی ہیں؛ اب وہ لوگ جن کے دہان سے اب بھی عوامانہ اصطلاح میں یونیورسٹی کے دودھ کی خوشبو آتی ہے، وہ حکومت میں، پارلیمنٹ میں اور اس طرح کے دیگر اداروں میں موجود ہیں۔ یہ ملک کی یونیورسٹی کے اعزازات میں سے ایک ہے۔

پھر بہترین اسلامی اور مذہبی مظاہر کی موجودگی؛ ایسا نہیں ہے کہ میں آج کی یونیورسٹیوں کے فکری، مذہبی اور اخلاقی مسائل سے ناواقف ہوں۔ میں کم و بیش بے خبر نہیں ہوں، لیکن ملک کی جامعات میں دین و مذہب کی موجودگی بہت نمایاں، بے مثال، دلچسپ اور منفرد موجودگی ہے۔ یقیناً عالم اسلام میں کہیں بھی ہمارے پاس اتنی تعداد میں نوجوان نہیں ہیں جو عبادت سے، اعتکاف سے، مستحب نمازوں سے، باجماعت نمازوں سے، نماز سے، شب بیداری سے اور قرآن سے انس رکھنے والے ہوں۔ اسلامی دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے، اور یہاں خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہے. تو آج اسلامی جمہوریہ اپنی یونیورسٹیوں پر واقعی فخر کر سکتا ہے۔ البتہ میں نے کہا کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آج کی یونیورسٹی وہی یونیورسٹی ہے جو انقلاب چاہتا ہے۔ نہیں، لیکن یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے جس پر ہم واقعی فخر کر سکتے ہیں۔

اور فکر مند رہنے کی ضرورت؛ یونیورسٹی کی فکر کیوں کرنی چاہیے؟ کیونکہ ضد انقلابی پسماندہ دھارا بیرونی ڈوریوں سے منسلک تھا، اور وہ ڈوریاں اب بھی موجود ہیں اور ان کی حمایت کی جا رہی ہے، اور اس رجحان کو اندرون ملک سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ وہ دھارا اب بھی موجود ہے اور فعال بھی ہے۔ مغربی استعماری پالیسیوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ نوآبادیاتی پالیسی جس کے بارے میں میں نے مختصراً بات کی تھی وہ اب بھی زندہ اور باقی ہے۔فکری حلقے جسے وہ "تھنک ٹینک" کہتے ہیں، وہ سوچتے ہیں، پیسہ لگاتے ہیں، وہ ہماری یونیورسٹی پر کام کرتے ہیں۔ لہذا، فکر مند ہونا چاہئے؛ اب بھی چیلنج موجود ہے۔

اب آپ آج کی یونیورسٹی اور ملک اور ملک کے مسائل پر اس کے اثر و رسوخ کا انقلاب کے آغاز میں 150,000 تعداد کی حامل یونیورسٹیوں کے اثر و رسوخ سے موازنہ کریں۔ تاثیر بہت زیادہ ہے. اس لیے اگر دشمن یونیورسٹی کے اندر خرابی پھیلا سکے تو اس کے اثرات اور نقصانات انقلاب کے آغاز سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ یونیورسٹی اب زیادہ ہے، وسیع ہے، اس میں لاتعداد نوجوان ہیں، اس میں مقرر ہیں، اس میں اسٹوڈنٹ تنظیمیں ہے، اس میں آرٹسٹ ہیں، وغیرہ۔ اس لیے ہمیں اب فکر مند ہونا چاہیے۔

ہمیں کس چیز کی فکر ہونی چاہیے؟ کون سا نکتہ زیادہ اہم ہے کہ جس کے بارے میں حکام اور اہل جامعات اور آپ طلباء کو فکر مند ہونا چاہئے؟ میری رائے میں، سب سے پہلے، یہ یونیورسٹی کی پہچان مٹنا اور یونیورسٹی کا بے ہدف ہونا ہے کہ جس کے بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔ آپ کو اس کے بارے میں سوچنا ہوگا؛ سب کو سوچنا چاہیے؛ یونیورسٹی کے منتظمین، یونیورسٹی کا علمی حلقہ جیسے پروفیسرز اور یونیورسٹی کے محققین، طلباء اور سرکاری افسران کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

آج آپ اخبارات اور سائبر اسپیس میں موجود بہت سے بیانات میں سنتے ہیں، نظریہ ختم کرنے کا معاملہ ایک ضروری مسئلے کے طور سے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ پہچان ختم کرنا ہے۔ نظریہ، سوچ، اقدار، قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ آج ان کا قبلہ امریکہ ہے جبکہ امریکی مسلسل امریکی اقدار پر انحصار کرتے ہیں کہ امریکی اقدار اس طرح کہتی ہیں، امریکی اقدار اس طرح چاہتی ہیں- امریکی اقدار، یعنی نظریہ- [لیکن] وہ امریکہ سے یہ چیز سیکھنے کو تیار نہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ نظریہ ختم کرنا اور اندروں ملک میں نظریہ کو ختم کیا جانا چاہیے، یعنی معاشرے کی فکری شناخت، جس کے یونیورسٹی اور طالب علم دونوں ایک اہم مظہر ہیں، اسے ختم کر دینا چاہیے۔ عدم شناخت کا مطلب یہ ہے کہ: کسی ملک کے تاریخی اور قومی نظریات اور نقطہ نظر کی بنیادوں کی تذلیل و تحقیر کی جائے، کسی ملک کے ماضی کی تحقیر کی جائے، انقلاب کے ماضی کی تحقیر کی جائے، جو عظیم کام ہوئے ہیں ان کو چھوٹا کرکے دکھایا جائے۔ اور یقیناً خامیاں ہیں اور ان خامیوں کو دس گنا بڑھایا جائے۔ شناخت اور پہچان ختم کرنے کا مطلب یہ ہے۔ پھر اس شناخت کی جگہ مغربی نظامِ فکر کو لایا جائے۔ اس کی ایک مثال امریکی 2030 دستاویز ہے، جو ہمارے دور میں جدید مغربی استعماری تسلط کا مظہر ہے۔ یہ اس کے مصادیق میں سے ایک ہے۔
انقلاب کی بدولت ملک میں فکر و ثقافت کے عظیم ورثے کو زندہ کیا گیا۔ اسکو کمزور یا ختم ہونا چاہئے؛ [دشمن کا ہدف] یہ ہے۔ آج ہمارے ملک میں لاکھوں نوجوان ہیں جو ترقی کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے تیار ہیں، یعنی ہمارے ملک کے نوجوان آج واقعی آمادہ ہیں - اب کچھ مذہبی اور انقلابی مقاصد کے ساتھ، کچھ نہیں، شاید کچھ کے محرکات انقلابی اور مذہبی بھی نہ ہوں۔ لیکن وہ آمادہ ہیں، علمی ترقی کے لیے آمادہ ہیں اور قومی غیرت اور وقار کی چوٹیوں کو سر کرنے کیلئے آمادہ ہیں، انہیں ناکام ہونا چاہیے، مایوس ہونا چاہیے، انھیں چوٹیوں سے منہ موڑنا چاہیے، جو آگے بڑھ چکے ہیں انکی بے قدری کی جائے، نامیدی کے صور میں ٹھنڈی اور زہریلی سانسیں پھونکی جائیں اور نوجوان مجموعہ کو مایوس کیا جائے۔ یہ ہے جو آج کیا جا رہا ہے؛ ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ حتما کھڑا ہونا چاہیے۔ آپ جو یہاں آتے ہیں اور اس ہمت کے ساتھ، اس جرئت کے ساتھ [ یہاں بولتے ہیں] کہ انسان واقعی لذت اٹھاتا ہے - میں واقعی لذت اٹھاتا ہوں؛ انسان کو یہ مضبوط طرز بیان و اظہار اور اچھی منطق پسند آتی ہے - [وہ چاہتے ہیں کہ] اسے وسوسوں کے ذریعے ٹھنڈا کیا جائے، اسے مایوس کیا جائے، اسے تعطل کا احساس دلایا جائے کہ وہ محسوس کرے کہ کچھ نہیں ہوسکتا، تعطل موجود ہے، فائدہ نہیں ہے۔ یہی کام انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ پہچان اور تشخص کو ختم کرنا کے بارے میں۔

بے ہدف کرنے کا مطلب ہے لوگوں کو غربت، بدعنوانی اور امتیازی سلوک سے بے پرواہ بنانا۔ انہیں ان تین بڑے شیطانوں اور معاشرے میں موجود تین شریر عناصر سے متعلق لاپرواہ بنانا - غربت، بدعنوانی اور امتیازی سلوک- جس کا خاتمہ ہونا چاہیے، ان کے خلاف لڑنا چاہیے۔ مغربی ثقافت کے غلبے سے انکے متعلق بے پرواہ کرنا، انقلاب اسلامی کے خصوصیات کے بارے میں بے حسی کا فروغ۔ انقلاب کی کچھ ایسی خصوصیات ہیں کہ جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ملکوں میں مزاحمت کو زندہ کیا ہے۔ جبر کے خلاف مزاحمت کی خصوصیت، جبر کے بوجھ تلے نہ دبنے کی خصوصیت، طاغوت کو تاوان ادا نہ کرنے کی خصوصیت، یہ اسلامی انقلاب کی خصوصیات ہیں، یہ اسلامی ایران کے اشارئیے ہیں، انہی نے دنیا اور اسلامی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور قوموں کو ایران کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمارے ہر صدر نے گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی رجحانات کے ساتھ - پالیسیوں اور نظریات کے لحاظ سے کچھ کے رجحانات، ایک دوسرے کے مخالف تھے- دوسرے ملک میں، عوام [میں] جب بھی قدم رکھا، عوام نے ان کے لیے نعرے لگائے اور ان کے تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کیا، وجہ کیا ہے؟ اسلامی جمہوریہ کا جھنڈا مختلف ممالک میں لوگوں کی جانب سے کیوں لہرایا جاتا ہے، [لیکن] امریکی پرچم کو جلایا جاتا ہے؟ دنیا ان خصوصیات سے ہل کر رہ گئی ہے، پھر ملک کے اندر ان خصوصیات کو کمزور کرنا اور لوگوں کو ان کی جانب لاپرواہ بنانا چاہتے ہیں۔ خالص اسلام کی طرف پلٹنے کی خصوصیت اور پسماندگی و ارتجاع کی نفی کی خصوصیت، مسئلہ فلسطین پر مزاحمت کی خصوصیت، میں اپنی تقریر کے آخر میں ان شاء اللہ فلسطین کے بارے میں ایک جملے کہوں گا۔


یہ بنیادی خدشات ہیں؛ یعنی یہ تشویش ضرور ہونی چاہیے۔ اب [وہ] جو پہچان مٹانا چاہتے ہیں، بے ہدفی کو فروغ دیتے ہیں، عدم اسقلال کو فروغ  دیتے ہیں، وہ کون ہیں، کتنے ہیں، کتنے کامیاب ہیں، یہ الگ بحث ہے۔ یہ بحثیں آپ کی ذمہ داری ہے۔ اپنی نشستوں میں بیٹھیں، ان پر بحث کریں، بررسی کریں، تحقیق کریں، تلاش کریں، لیکن جان لیں کہ ایسی مسائل موجود ہیں جو یقیناً آپ بھی جانتے ہیں۔ یہ خدشات موجود ہیں۔

یہ خدشات شاید دس سال پہلے بھی موجود تھے، [لیکن] یہ آج زیادہ ہیں۔ کیوں؟ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں: دنیا آج ایک نئی ترتیب کے دہانے پر ہے۔ دنیا ایک نئے عالمی نظام کے دہانے پر ہے، جو کہ بیس سال پہلے موجود دو قطبی نظام کے برخلاف ہے - امریکہ اور سوویت یونین؛ مغرب اور مشرق - اور اس یک قطبی نظام کے بھی برعکس جس کا اعلان بش سینئر نے بیس سال پہلے کیا تھا۔ دیوار برلن کے گرنے اور دنیا کے مارکسی سسٹم اور سوشلسٹ حکومتوں کے انہدام کے بعد، بش نے کہا کہ آج دنیا نیو ورلڈ آرڈر کی دنیا ہے، امریکی یک قطبی نظام؛ یعنی امریکہ دنیا کا محور ہے۔ وہ یقیناً غلط تھا؛ اسے غلط فہمی ہوئی تھی۔ انہی بیس سال قبل سے، بیس سال پہلے سے لے کر آج تک، امریکہ روزبروز کمزور ہوتا گیا ہے۔ یہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اپنے اندر بھی اور اپنی ملکی سیاست میں، اپنی خارجہ پالیسی میں، اپنی معیشت میں، اپنی سلامتی میں، ہر چیز میں، امریکہ بیس سال پہلے سے لے کر آج تک کمزور ہوتا رہا ہے، لیکن آج دنیا ایک نئے نظم کے دہانے پر ہے۔ میرے خیال میں اس یوکرائن جنگ کو گہرائی سے دیکھا جانا چاہیے۔ یہ جنگ صرف ایک ملک پر فوجی حملہ نہیں ہے۔ اس اقدام کی جڑیں جسے انسان آج یورپ میں دیکھ رہا ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں، انسان تصور کرتا ہے کہ ایک پیچیدہ اور مشکل مستقبل وجود رکھتا ہے۔ 

اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ہمارا قیاس درست ہے اور دنیا ایک نئی ترتیب کے دہانے پر ہے، تو ہمارے اسلامی ایران سمیت تمام ممالک کا فرض ہے کہ وہ اس نئی ترتیب میں موجود رہیں یعنی ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر موجودگی برقرا رکھیں تاکہ اپنے ملک، اور ملک و قوم کے مفادات کو فراہم کرسکیں، کنارہ کش نہ رہ جائیں، پیچھے نہ رہ جائیں۔ اگر ملک کو اتنا بڑا کام انجام دینا ہے، یعنی نئے ورلڈ آرڈر میں ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر موجودگی اختیار کرنی ہے، تو سب سے زیادہ ذمہ داری کس کی ہے؟ پہلی صفوں میں کون ہونگے؟ طلباء، جامعات؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو سب سے آگے ہونا پڑے گا۔ آپ کو سب سے زیادہ بااثر طبقہ ہونا چاہیے۔ اگر یونیورسٹی کے بارے میں جن خدشات کا میں نے اظہار کیا - عدم شناخت اور بے ہدفی - سچ ہیں، تو یہ خدشات اس دور میں موجودہ صورتحال کی وجہ سے اور زیادہ ہوجائیں گے۔

یہ یونیورسٹی سے متعلق مسائل کی وضاحت تھی، ایک تجزیہ تھا ؛ البتہ اس حوالے سے بہت سی باتیں کرنے کو ہیں، ایک نشست میں بات کرنا ممکن نہیں۔ وقت بھی محدود ہے، اور جیسا کہ آپ میں سے کچھ دوستوں نے کہا ہے، طلباء سے ایک سے زیادہ نشستوں کی ضرورت ہے، جو کہ اگر مجھ میں اسکی توانائی بھی ہو تو، کرونا کے حالات میں ابھی ممکن نہیں ہے۔ انشاء اللہ کورونا ختم ہو جائے تو دیکھتے ہیں اس حوالے سے متعدد نشستیں منعقد ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ دوسروں کو بھی چاہیے کہ نشستیں منعقد کریں؛ یعنی ملک کے مفکرین، ملک کے ماہرین۔ہمارے پاس ماہرین ہیں۔ بعض احباب نے جو کہا ہے اس کے برعکس ملک میں مفکرین اور نظریہ پرداز موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ موجود نہیں ہیں– انہیں بیٹھنا چاہیے، نشستیں رکھنی چاہیے، بات کرنی چاہیے۔ ان موضوعات پر بہت بات کرنی چاہیے اور بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہمارے پاس بھی بہت سی باتیں ہیں جن سے میں ابھی گزر کر رہا ہوں۔

میرے پاس چند نصیحتیں ہیں؛ آپ طلباء کو میرا پہلا مشورہ یہ ہے کہ لا پرواہی اور مایوسی سے بچیں۔ محتاط رہیں؛ یعنی اپنی حفاظت کریں، اپنے دل کی حفاظت کریں، ہوشیار رہیں کہ بے پرواہ نہ ہوجائیں، مایوس نہ ہوں۔ آپ کو دوسرے شعبوں کے لیے امید کا مرکز بننا چاہیے۔ جی ہاں، مختلف شعبوں میں مسائل ہیں، لیکن کیا یہ مسائل باقابل حل ہیں؟ بلکل بھی نہیں؛ ان کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ اچھے منتظم ہیں، موجود ہیں، ان شاء اللہ، وہ کر سکتے ہیں، وہ کرتے ہیں، جیسا کہ اب تک بہت کام ہو چکا ہے۔ دس یا پندرہ سال پہلے، ایک سائنسی تحریک نے جنم لیا، کس کا خیال تھا کہ یہ یہاں تک پہنچ جائے گی۔ الحمد للہ یہ تحریک آگے بڑھی، بڑے بڑے کام ہوئے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے میدان میں، اسی طرح صحت عامہ کی دیکھ بھال کے شعبے میں، اسی طرح ملکی سلامتی، بہت سے شعبوں میں بہت اچھا کام کیا گیا ہے، اور یہ دوسرے شعبوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ اسی معنی میں ہے جیسا کہ میں نے یہاں اقتصادی شعبے میں فعال افراد کے ساتھ ملاقات میں کہا۔ تقوی یعنی اپنی مسلسل حفاظت اور محتاط رہنا۔ اپنی حفاظت کریں اور مایوسی اور نا امیدی کے شکار نہ ہوجائیں کہ نہیں ہوسکتا، فائدہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ ہماری پہلی نصیحت ہے۔ اگر آپ اس مشورے کو نظر انداز کریں گے تو نہ صرف طالب علم کا کردار تنزلی کا شکار ہو جائے گا بلکہ بقیہ متحرک شعبے بھی سست ہو جائیں گی۔ یعنی ان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

آپ کے ہم عمر نوجوانوں نے دفاع مقدس میں محنت کی اور ملک کو نجات دی۔ انہوں نے حقیقی طور پر ملک کو بچایا۔ وہ آپ کی ہی عمر کے جوان تھے۔ اس وقت بھی بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ میں میدان میں حاضر تھا، یعنی میدان جنگ میں نہیں، فوجی امور اور فوجی فیصلوں کے میدان میں پوری طرح موجود تھا، ہم دیکھتے تھے۔ بعض نے کہا کہ “جناب! بے فائدہ ہے، نہیں ہوسکتا، یہ ممکن نہیں، کچھ نہیں کیا جا سکتا؛ یعنی صدام کی فوجیں جو اہواز میں دس کلومیٹر کے فاصلے تک آئی ہیں، وہیں رہنے دیں، کچھ نہیں ہو سکتا۔” ایسے لوگ تھے جو اس وقت بھی یہ کہتے تھے۔ آپ جیسے ہی نوجوانوں نے میدان کے بیچ میں آکر وہ کام کر دیا جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ یہاں، خرمشہر کی فتح کے بعد، متعدد اسلامی ممالک کے صدور کا ایک وفد، جس کی سربراہی احمد سیکو توری کر رہے تھے، جو گھانا کے صدر تھے - اسلامی ممالک کے سات یا آٹھ صدور کا ایک وفد - جو ثالثی کے لیے آیا تھا؛ خرمشہر کی فتح کے بعد وہ یہاں آئے تھے۔ وہ پہلے بھی ایک دو بار آئے تھے، میں صدر بھی تھا اور ان سے ملاقات بھی ہوتی تھی۔ اس بار وہ آئے، سیکو توری نے کہا کہ اس بار جو ہم آئے، ایران کی صورتحال ماضی سے مختلف ہے۔ کیوں؟ چونکہ خرمشہر فتح ہو چکا تھا، خرمشہر دوبارہ حاصل کر لیا گیا تھا۔ یعنی یہ ہے؛ یہ دنیا میں ہونے والی پیشرفتوں کا اثر ہے۔ یہ آپ کی عمر کے نوجوان ہی تھے جو اس قابل ہوئے کہ یہ کام کرسکیں۔ آپ بھی کر سکتے ہیں۔

یقیناً، آپ سے کچھ پچھلی نسلیں یہاں شکست کھا گئے، اس معاملے میں شکست کھا گئے، اور غلطیاں کر بیٹھے۔ یعنی جہاں انہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے تھا، ناامید نہیں ہونا چاہیے تھا، وہ مایوس ہوئے، اور اس مایوسی نے انھیں میدان سے باہر کردیا، اور ان میں سے کچھ بری طرح باہر ہوئے! اب کچھ تو باہر ہوگئے، لیکن کچھ، انقلابی جدوجہد کا میدان چھوڑنے کے علاوہ، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئے۔ تو اس کے بعد میری پہلی نصیحت یہ ہے: ہوشیار رہیں اور آگے کے روشن افق سے منہ نہ موڑیں، انتہائی ہدف سے منہ نہ موڑیں، ہمیشہ چوٹی کی طرف اور روشن افق کی جانب قدم بڑھاتے رہیں۔

میری اگلی نصیحت تفکر کرنا اور نظریہ پردازی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ یونیورسٹی میں دو چیزیں ضروری ہیں: علم اور فکر۔ علم بغیر فکر کے مشکل بن جاتا ہے، علم بغیر فکر کے غلط راستے پر چلا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور جوہری ہتھیاروں اور کیمیائی ہتھیاروں اور کچھ دوسرے سائنسی مظاہر میں تبدیل ہوجاتا ہے جو انسانیت کو برباد کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علم ہے جو صحیح فکر کے ہمراہ نہ ہو، اور علم اگر بغیر سوچے سمجھے یا غلط سوچ کے ساتھ آگے بڑھے تو اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ علم کے بارے میں ہماری تاکید پر یونیورسٹیوں نے کافی اچھی طرح سے عمل کیا ہے۔ میں نے فکر پر بھی ہمیشہ بہت تاکید کی ہے، گویا یہ زیادہ مشکل ہے۔ اس حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ کام زیادہ مشکل ہے اور زیادہ کام نہیں ہوا ہے۔

اہم کاموں میں سے ایک تفکر کرنا ہے؛ میرا مشورہ ہے: بیٹھ کر تفکر کریں۔ آپ باصلاحیت ہیں، آپ اچھی سوچ رکھنے والے ہیں، آپ فکر کرسکتے ہیں؛ بیٹھ کر سوچیں۔ بلاشبہ فکر کے لیے رہنما کی ضرورت بھی ہوتی ہے، فکر کے لئے استاد بھی ضروری ہے۔ بغیر سوچے سمجھے، اگر ہم حرکت کرتے ہیں، تو حرکتیں منحرف ہو جائیں گی اور جمود کا باعث بنیں گی اور رک جائیں گی اور پسماندگی اور اس کے مانند چیزوں کا سبب بنیں گی۔ تمام شعبوں میں تفکر کی ضرورت ہے، یقیناً آپ میں سے بعض نے اپنی تقریروں میں بھی کہا۔ ملک کی انتظامی سطح پر فکر کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اب میں آپ طلباء کو تاکید دیتا ہوں - حکام کی بحث الگ ہے - بیٹھ کر تفکر پر کام کریں۔

تفکر "کیا کرنا چاہئے" اور "کیا نہیں کرنا چاہیے" کا تعین کرتا ہے، علم ہمیں "حقائق" بتاتا ہے، فکر ہمیں "کیا کرنا چاہئے" بتاتی ہے، ہمیں "کیا نہیں کرنا چاہیے" بتاتی ہے۔ یہ بہت حساس معاملہ ہے۔ یہ تفکر صحیح راستے پر ہونا چاہیے؛ اگر آپ تفکر کو صحیح طریقے سے منظم نہیں کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ منحرف ہوجائے۔ یقینا میں بہت کم لوگوں کا نام ذکر کرتا ہوں، [لیکن] مرحوم آقائے مصباح (رضوان ‌الله ‌علیه) صاحبِ فکر استاد تھے۔ بلاشبہ انہوں نے سیاسی کام بھی کیا اور سیاسی فکری کام بھی، میں ان کے سیاسی کاموں کے متعلق گفتگو نہیں کررہا، لیکن فکری مسائل کے حوالے سے وہ ایک رہنما اور مرشد تھے جو ایک مرجع اور ملجا ثابت ہو سکتے تھے۔ ایسے لوگوں کو فکر کا استاد ہونا چاہیے۔ جس طرح علم کیلئے استاد درکار ہے، اسی طرح فکر بھی استاد چاہتی ہے۔ یہ بھی اس [حوالے سے ایک نکتہ۔] میں نے اس فکر کے بارے میں دو تین اور نکات لکھے ہیں، جنہیں میں وقت کی کمی کے باعث چھوڑ رہا ہوں۔

نصیحت کا اگلا حصہ ملک کے مسائل سے رابطے میں رہنا ہے۔ انسان جب ملک کے معاملات کو دور سے دیکھتا ہے تو معاملہ کچھ ہوتا ہے، [لیکن] جب چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ کبھی کبھار یہ فرق کرتا ہے۔ اب مثال کے طور پر ایک دوست نے پانی کا مسئلہ اٹھایا۔ پانی کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں، اس سے واسطہ پڑتا ہے، تحقیق کرتے ہیں اور دقت کرتے ہیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں جو کہ یہاں بیان کردہ نتائج سے مختلف ہوتا ہے۔ ملکی مسائل سے مربوط رہیں، مسائل کو قریب سے دیکھیں، سمجھیں، اس پر کام کریں، توجہ دیں۔ اب یہ توقع رکھنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کا گروہ اور آپ جس تنظیم میں ہیں، وہ ملک کے تمام مسائل پر توجہ دے سکتی ہے۔ نہیں، ایک مسئلہ، دو مسائل پر توجہ مرکوز کریں، ان مسائل کے بارے میں سوچیں، کام کریں، پیروی کریں، تحقیق کریں۔ آپ کی تحقیق کے نتائج سے استفادہ کیا جائے گا۔

آجکل ہمارے پاس نوجوان طلباء کے ایسے مجموعہ ہیں جن کے تحقیقی نتائج سے مختلف شعبوں میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے گروہ ہیں. یقیناً میں نام نہیں لینا چاہتا۔ کچھ ایسے ہیں جن کی تحقیق کا نتیجہ، ان جگہوں پر بھی اور ان مقامات پر بھی کہ جہاں نوجوانوں کے کام پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی، توجہ دی جارہی ہے۔ (بالمقابل) کچھ ایسے مقامات ہیں کہ جہاں تاکید اور حمایت کی جاتی رہی ہے، اور نوجوانوں کو کسی نتیجے پر پہنچنے کو اہمیت اور ان پر توجہ اور کام کیا جاتا رہا ہے۔

اب مثال کے طور پر اس سال کے نعرے کے بارے میں، علم محور کمپنیوں کے بارے میں; اب یہاں ایک دوست نے ان کی تعداد میں اضافہ کو مفید نہیں سمجھا۔ اب، کیونکہ وہ تیزی سے بول رہے تھے، میں [ان کی باتوں] کو صحیح طور پر نہیں سمجھا۔ میرے خیال میں وہ انکی تعداد میں اضافے کو نقصاندہ بھی قرار دے رہے تھے۔ نہیں، اس پر سوچیں، علم محور کمپنیوں کے اس مسئلہ پر کام کریں۔ ان چیزوں میں سے ایک جس کے بارے میں اس کی تمام وسعت کے باوجود؛  آپ سوچ سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، اور اس سے مربوط رہ سکتے ہیں، علم محور کمپنیوں اور علم محور کاروباری اداروں کا مسئلہ ہے، جس کا یقیناً یونیورسٹی سے گہرا تعلق ہے۔ آپ علم محور کمپنیوں کے بارے میں کیا کام انجام دے سکتے ہیں؟ جو کچھ کرسکتے ہیں، علم محور کمپنیوں کے مجموعے تشکیل دیں گے۔ میری بحث یہ نہیں ہے، میری بحث طلباء کے امور سے متعلق بحث ہے۔ طلباء نظریہ سازی کر سکتے ہیں؛ علم محور کمپنیوں کے بارے میں نظریہ سازی کریں۔ جب کوئی موضوع ملک کے اندر ایک نظریہ بن جاتا ہے اور ایک عام رواج بن جاتا ہے، تو یہ قدرتی طور پر فروغ پاتا ہے۔ نظریہ سازی یہ ہوتی ہے۔

یا فکری لحاظ سے ماحول سازی کریں؛ علم محور کمپنیوں کی راہ میں خلل ڈالنے والے اجزاء کے خلاف نظریہ سازی کریں؛ مثال کے طور پر، خام مال کی فروخت، جس کا مطلب ہے بغیر کسی ویلیو ایڈڈ مواد کے فروخت - اس طرح کہوں کہ - بدقسمتی سے اب ہمارے ملک میں موجود ہے؛ یہ ابھی بہت عام ہے؛ اس مسئلے کے خلاف ماحول سازی کریں تاکہ اس کے مخالف نظریہ وجود میں آسکے۔ یا مصنوعات کی درآمدات، غیر پیداواری درآمدات؛ ہماری درآمدات میں سے کچھ درآمدات ایسی ہیں جبھی درآمد کرنے کی ضرورت ہے، لیکن کچھ درآمدات مصنوعات کی درآمدات ہیں۔ کچھ ضروری ہیں، کچھ ضروری اشیاء ضرور درآمد ہونی چاہیے، میں ان شعبوں میں ماہرانہ رائے پر یقین رکھتا ہوں، ماہر جو بھی کہے، لیکن عمومی طور پر ایسی مصنوعات کی درآمد جس کا متبادل ملکی سطح پر دستیاب ہے، ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو ملک میں علم محور رجحان کی تشکیل کے مخالف اور متضاد ہیں۔ یا مثال کے طور پر فرض کریں سمگلنگ۔ یہ بھی وہ موضوع ہے جس پر طلباء کام کر سکتے ہیں۔

[اگلی] نصیحت مطالبہ کرنا ہے؛ طالب علم کی فطرت کا تقاضا ہے؛ مطالبات کریں اور حکام سے سنجیدہ کام کا تقاضہ کریں۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک جو آپ کر سکتے ہیں یہی ہے؛ نمائشی کاموں سے حکام کو ہوشیار رکھیں؛ ان سے سنجیدہ اور حقیقی کام کا تقاضہ کریں۔ یہ طلباء کے بہترین اور درست مطالبات میں سے ایک ہے جس کا وہ تقاضہے کرسکتے ہیں۔

البتہ، شدت پسند رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے! کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تنبیہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شدت پسندی اختیار کرنا، تنقید کرنا، لڑنا، شور مچانا۔ نہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے - البتہ جب ہم جوان تھے ہم نے خود بھی ایسے کام کیے تھے؛ جب میں نوجوانوں کی کچھ شدت پسندیوں کو دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی اپنی جوانی کی یاد آجاتی ہے، جس کی یادیں ہیں- منطقی، ہوشمندانہ اور کافی سنجیدگی سے مطالبہ کے میدان میں اتر کر مطالبہ کیا جاسکتا ہے، اور جب اس طرح ہوگا تو طلباء پر فقط کیڑے نکالنے  کا الزام نہیں لگایا جاسکے گا؛ جب آپ شدت پسندی سے بات کرتے ہیں تو آپ پر الزام لگانے والے کہتے ہیں کہ جناب! "طالب علم آتا ہے اور صرف کیڑے نکالتا ہے۔" ایسا نہیں ہے۔ جب آپ منطق اور استدلال کے ساتھ مدلل اور سنجیدہ مطالبات کریں گے تو آپ پر فقط کیڑے نکالنے کا الزام نہیں لگے گا۔ مزید یہ کہ مطالبہ کرنا کچھ لوگوں کے یہ کہنے کا باعث نہیں بنے گا کہ " اب جبکہ حکومتی انتظامیہ ایک انقلابی انتظامیہ ہے - انقلابی پارلیمنٹ، انقلابی حکومت، اور اسی طرح اور ادارے - تو پھر اس میں انقلابی طلباء کا کیا کردار ہے؟" نہیں، کہا جاسکتا ہے کہ ان کا کردار بعض اوقات زیادہ موثر ہوتا ہے، کیونکہ ان کی موجودگی کا امکان، ان کی سرگرمی کا امکان، آج زیادہ ہے۔ ان چیزوں میں سے ایک جو آپ کر سکتے ہیں یہی مطالبے کرنا ہے۔

اب میں نے اس سال کے نعرے کو مثال کے طور پر پیش کیا کہ پیداوار علم محور ہونی چاہیے۔ ان سب میں اور بھی بہت سے موارد ہیں کہ جن کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، جیسے معاشی عدل و انصاف کا مسئلہ، ثقافت کا مسئلہ، طرز زندگی کا مسئلہ؛ یہ وہ تمام مسائل ہیں جن کا واقعی اور سنجیدگی سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ حکام سے سنجیدہ عمل کا تقاضا کرسکتے ہیں، البتہ میں نے بیان کیا کہ منطق اور صحیح استدلال کے ساتھ۔

ایک چیز جو مطالبہ کرنے میں وجود رکھتی ہے اور عمومی طور پر طلبہ کے معاملات میں اہم ہے، وہ یہ ہے کہ طلبہ کو اپنے اعتقادات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ طلباء کو چاہیے کہ وہ ایمان کی بنیادوں، عقیدے کی بنیادوں کو مضبوط کریں، جس کے اپنے مخصوص طریقے ہیں، [جیسے] علماء کی ہمراہی اور مطالعہ۔ دعائے ابو حمزہ میں خداتعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات میرے اندر دعا کی کیفیت کیوں نہیں پیدا ہوتی، توجہ کی کیفیت نہیں ایجاد ہو پاتی، امام سجاد علیہ السلام کے کلام سے جو بات بطور وجہ نقل ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ«اَو لَعَلَّکَ فَقَدتَنی مِن مَجالسِ العُلَماء» یہاں علماء سے مراد لازمی طور سے عمامہ پوش نہیں؛ بلکہ عالم دین اور عالم اخلاق ہے، ان کی بیٹھک میں شرکت کرنی چاہیے، آپ کو ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ لہٰذا، اعتقاد کی بنیادوں کو مضبوط کرنا، فکر کو مضبوط کرنا، ملکی مسائل میں گہرائی، راہِ حل اور تجربات کا جائزہ لینا۔ راہ حل کی جانچ پڑتال کریں۔ اب یہاں، مثال کے طور پر، فرض کریں کہ آپ کسی چیز پر تنقید کرتے ہیں، تو آپ ایک چیز کو تجویز اور حل کے طور پر پیش کرتے ہیں، مثلا یہ کام انجام دئیے جائیں۔ تو خود آپ نے اس راہ حل کی کتنی جانچ پڑتال کی ہے؟ آپ نے اسکا کتنا تجربہ کرکے دیکھا ہے؟ آپ نے اس کے آس پاس کے مسائل کا کتنا حساب کتاب کیا ہے؟ یہ چیزیں اہم ہیں۔ اگر یہ چیزیں انجام پائی ہوں تو، تو یہ بہت قیمتی اور فطری طور پر زیادہ قابل قدر ہے۔

یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ "شدت پسندی اختیار نہ کریں"، تو اسے یہ نہ سمجھیں کہ پس سمجھوتہ کرلینا چاہیے اور (تنقید کے برعکس) چاپلوسی کرنی چاہیے۔ نہیں، میں نے نوجوانوں اور طلباء کو یہ نصیحتیں کبھی نہیں کیں، اور نہیں کروں گا کہ اسکی اور اسکی تعریفیں کریں یا چاپلوسی کریں نہیں بالکل نہیں؛ یہ مراد نہیں ہے؛ مراد یہ ہے کہ ہمیں منطق کے ساتھ آگے بڑھنا اور بات کرنی چاہیے۔ بغیر منطق کے، شدت پسندی کے ساتھ، طعنہ دینے کے ذریعے ممکن نہیں- جو کہ بدقسمتی سے اب سائبر اسپیس میں طعنہ دینا اور اس جیسی چیزیں عام ہو چکی ہیں جو کہ بہت نقصان دہ ہیں - اگر آپ نے اس طرح عمل کیا تو پھر بعض ناقص کارکردگیوں کو اسلامی جمہوریہ اور انقلاب سے منسوب نہیں کیا جائے گا۔ یعنی، انقلاب کے مطلوبہ اہداف اور انقلاب کیا چاہتا تھا، اور فرض کریں، مثال کے طور پر، ایک منتظم کی ناقص کارکردگی کے درمیان فرق ایجاد ہوگا؛ یہ تفریق بھی ضروری ہے۔

ایک اور نصیحت بھی کرتا چلوں کہ جو میں نے یہاں نوٹ کی ہے۔ مطالبات کرنے میں - جو میں آپ کو کرنے کی تاکید کی ہے- محتاط رہیں کہ دشمن آپ کے جائز مطالبات سے فائدہ نہ اٹھائے۔ مسئلہ کے بیان اور راہ حل جو آپ پیش کریں دونوں میں، کوشش کریں دشمن کے ہمنوا نہ ہوجائیں۔ دشمن جیسا رخ اختیار نہ کرلیں۔ [کیونکہ] وہ بھی مسائل اٹھاتا ہے، وہ نقائص کو بیان کرتا ہے، وہ مسئلہ بیان کرتا ہے، اور نام نہاد راہ حل اور نتیجہ پیش کرتا ہے۔ آپ کے مسئلہ بیان کرنے کی صورت دشمن سے مختلف ہونی چاہیے، آپ کا نتیجہ لینا بھی اس سے بالکل مختلف ہونا چاہیے، کیونکہ وہ تو دشمن ہے۔ اسے عناد ہے، وہ خیر خواہی کے جذبے سے کام نہیں کر رہا ہے۔

ایک تاکید بین الاقوامی فعالیت کے بارے میں کرنی ہے۔ البتہ میں پہلے بھی یہ تاکید کر چکا ہوں۔ ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے طلبہ اور ہماری تنظیمیں بین الاقوامی سرگرمیاں انجام دیں۔ آج دنیا میں نوجوانوں کے سے طلباء اور غیر طلباء  گروپ موجود ہیں جو استکباری پالیسیوں، امریکہ، یورپ اور مغرب کی پالیسیوں کے خلاف بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ خود یورپ میں موجود ہیں۔ شاید امریکہ میں بھی ہوں۔ ویسے امریکہ کے بارے میں مجھے زیادہ اطلاع نہیں ہے۔ لیکن یورپ میں بہت سی تنظیمیں ہیں۔ اسلامی ملکوں میں اسلامی تنظیمیں ظاہر سی بات ہے بہت ساری ہیں۔ اگر ان سے آپ مناسب روابط قائم کر سکیں تو اس کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ ان کو آپ سے قوت ملے گی مدد ملے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ انھیں اسلامی جمہوریہ سے روشناس کرائیں گے۔ یعنی آپ ایک طالب علم کے طور پر اسلامی جمہوریہ سے مثلا فرانسیسی طالب علم، آسٹریا کے طالب علم یا برطانوی طالب علم کو روشناس کرائیں گے کہ اسلامی جمہوریہ کی یہ حقیقت ہے۔ اگر آپ یہ کام کرتے ہیں تو بہت اچھا ہے۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں۔ آپ کا یہ عمل اسلامی جمہوریہ کے تعارف کا ذریعہ قرار پانے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوری نظام کے لئے ایک ڈھال کا بھی کام کرے گا۔ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف میڈیا کا سامراج بڑی شد و مد سے ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔ یہ اس کا جواب شمار ہوگا۔ البتہ میں چند ہمسایہ ممالک کے سلسلے میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کی طلبہ تنظیموں سے جہاں تک ممکن ہو اپنے روابط بڑھائيے۔ آپ کے سلسلے میں ان کی فکری و قلبی آمادگی بہت زیادہ ہے۔ ان سے روابط قائم کیجئے۔

میری آخری سفارش ان افراد کے لئے ہے جو چند سال قبل آپ جیسے نوجوان تھے مگر آج وہ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔ خواہ پارلیمنٹ میں ہوں، آپ میں سے ایک صاحب نے ابھی ایسے لوگوں کی اچھی خاصی دھلائی کی ہے، خواہ حکومتی عہدوں پر ہوں۔ یہ بڑا موقع غنیمت ہے۔ یہ طے ہے کہ مومن، جوش و جذبے اور توانائيوں سے سرشار نوجوان افرادی قو کے بغیر اسلامی جمہوریہ کے اس سنگین بوجھ کو آگے لے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ میں نے چند سال قبل آپ کی اسی نشست میں 'نوجوان حزب اللہی منتظم' کی بات کہی تھی، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ نوجوان، پرجوش اور مومن انتظامیہ کے بغیر کام آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ان عہدوں پر نوجوانوں کو موجود ہونا چاہئے۔ لیکن ان عزیز نوجوانوں کے لئے جو بحمد اللہ میدان میں قدم رکھ چکے ہیں، خواہ مقننہ میں ہوں، عدلیہ میں ہوں یا مجریہ میں، ایک سفارش جو کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ افراد یہ کوشش کریں کہ موجودہ عہدے کو بالاتر عہدے تک پہنچنے کی سیڑھی نہ بنائیں۔ میری پہلی نصیحت اور اہم ترین تاکید یہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہماری یہ کارکردگی ہمارے لئے اس سے بڑے عہدے کی بنیاد بن جائے گا۔ نہیں! اسی عہدے پر محنت سے کام میں لگ جائیے۔ اللہ کے لئے کام کیجئے، اسی موضوع پر توجہ مرکوز کیجئے جو آپ سے مربوط ہے۔ خواہ اقتصادی شعبہ ہو، سیاسی شعبہ ہو، ثقافتی میدان ہو یا دیگر شعبے ہوں۔ مسائل پر پوری توجہ سے لگ جائیے اور اس مسئلے کو حل کیجئے جو آپ کے سپرد کیا گيا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ جن نوجوانوں کو عہدے ملے ہیں ان سے ہماری توقع یہ ہے کہ مسائل کے حل کو اپنا ہدف بنائیں گے۔

یوم القدس فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار کرنے اور انہیں حوصلہ دینے اور ان کی طاقت بڑھانے کا ایک اچھا موقع ہے تاکہ وہ ان میدانوں میں صحیح معنوں میں حاضر ہو سکیں۔ البتہ بدقسمتی سے اسلامی حکومتیں اس سلسلے میں بہت کم کام کرتی ہیں، وہ بہت خراب کارکردگی دکھاتی ہیں۔ فلسطین کے لیے اس سے بہت زیادہ کام کرنا ہوگا، محنت کرنی ہوگی اور بات کرنی ہوگی۔ اب ان میں سے بہت سے تو نہ صرف عمل نہیں کرتے، بلکہ ان میں سے کچھ صحیح طرح بولنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ فلسطینی عوام کے حق میں صحیح اور درست بات۔ اگر ہم یہ سوچیں کہ فلسطینیوں کی مدد کا طریقہ صیہونی حکومت سے رابطہ قائم کرنا ہے تو یہ بہت بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے۔ چالیس سال پہلے مصریوں نے یہ غلطی کی تھی۔ مصر اور اردن نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کیے؛ کیا ان چالیس سالوں میں صیہونی حکومت کے جرائم میں کمی آئی؟ نہیں، اس میں دس گنا اضافہ ہوا۔ یہ اقدامات جو آج فلسطینی مہاجر کیمپوں کے لوگ کر رہے ہیں، یہ حملے جو آج مسجد اقصیٰ پر ہو رہے ہیں، یہ ان دنوں نہیں ہوئے تھے۔ آج وہ مزید ظلم کر رہے ہیں۔ اب کچھ لوگ آج سے چالیس سال پہلے والے انور سادات کے مصری تجربے کو دہرانا چاہتے ہیں! یہ نہ ہی ان کے لیے اچھا ہے، اور نہ ہی فلسطینیوں کے لیے اچھا ہے، یہ انکے اپنے لیے بھی نقصاندہ ہے اور فلسطینیوں کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ یقیناً اس سے صیہونی حکومت کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یعنی اس سے انہیں بھی کوئی نفع حاصل نہیں ہوگا، فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم ان شاء اللہ امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جلد ہی فلسطین کے معاملے میں خیر اور خوشی دکھائے گا اور وہ فلسطینیوں کو غلبہ عطا کرے گا۔

پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ اس مبارک مہینے کے آخری ایام میں تمام ملت ایران پر اپنے لطف و رحمت کا سایہ فرما۔ ان راتوں میں دعا کے لئے بلند ہونے والے ہاتھوں، خاص طور پر عزیز نوجوانوں کے ان ہاتھوں کو پر کر دے۔ ہمارے نوجوانوں پر اپنے الطاف میں اضافہ فرما۔ دنیائے اسلام کو، دنیائے تشیع کو اپنے خاص فضل و کرم سے نواز۔ پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے عزیز شہیدوں اور ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کی راہ پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ اس نشست کو راہ خدا کی نشست قرار دے، اسے مخلصانہ قرار دے اور قبول فرما۔ بیان کرنے والوں، سامعین اور بعد میں ان باتوں کو سننے والوں کے لئے اس نشست کو مفید قرار دے۔
 
والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته