بسماللّهالرّحمنالرّحیم (۱)
الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین.
میں بہت خوش ہوں، اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے آج یہ توفیق عطا فرمائی، رمضان المبارک کے سورج کے طلوع ہونے پر ہم آپ معززیں سے جو اللہ کا شکر ہے، اس نور سے منور ہیں، قرآن سے آشنا ہیں، یہ ملاقات کر سکیں اور ہم قریب سے آپکا دیدار کرسکیں۔ آج میں نے حقیقت میں ان تلاوتوں اور قرآنی پروگرامات سے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا۔
میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بارے میں چند جملے، قرآن اور کلام الٰہی کے ساتھ انسیت کے حوالے سے چند جملے عرض کروں گا، اور پھر میں آپ تلاوت کا ہنر رکھنے والوں کے بارے میں چند باتیں بیان کروں گا۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بارے میں، رسول اللہ نے فرمایا: دُعیتُم فیهِ اِلی ضیافَةِ اللَّه (2) آپ کو دعوت دی گئی ہے. انسان کو کبھی کہیں دعوت دی جاتی ہے، وہ قبول کرتا ہے، اس دعوت میں جاتا ہے اور اسکی کی مہمانان نوازی کی جاتی ہے۔ کچھ مواقع پر ایسا نہیں ہوتا، ہمیں مدعو کیا گیا ہوتا ہے، ہم اس دعوت میں جانے اور مہمان نوازی کئے جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ پس تو یہ میرے اور آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ مہینہ رمضان کا مہینہ ہے، الہی مہمانی کا مہینہ ہے، رحمت الٰہی کے لامحدود دسترخوان کا مہینہ ہے۔ کون ہے جو جائے، اس دسترخوان پر بیٹھے تاکہ اس کی مہمان نوازی کی جاسکے؟ یہ مہمانی کیا ہے؟ اب اگر آپ سب انشاءاللہ بہترین شکل میں اس مہمان خانے اور الہی دعوت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تو خدائے متعال آپ کو کیا دے گا؟ الہی مہمان نوازی سے مراد خدا کے قریب ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یعنی یہ اس سے زیادہ کوئی شہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں اپنے آپ سے قریب ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اگر آپ اس ضیافت میں شرکت کریں گے تو آپ اس مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوں گے۔ یہ موقع کیا ہے؟ یہ موقع روزہ ہے؛ یہ موقع تلاوتِ الٰہی، تلاوتِ قرآن کا لامتناہی ثواب ہے۔ یہ موقع حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خطبہ کے مطابق آپسی معاملات میں اصلاح اور اس طرح کی چیزوں کا دوہرا اجر ہے۔ آئیے ہم اللہ تعالی سے ان کے لیے تقاضا کریں؛ اللہ تعالیٰ ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ چنانچہ فرمایا: فَاسأَلُوا اللَّهَ رَبَّکُم بِنیّاتٍ صادِقَةٍ وَ قُلوبٍ طاهِرَةٍ اَن یُوَفِّقَکُم لِصِیامِهِ وَ تِلاوَةِ کِتابِه؛(3) اس کو خدا سے مانگیں۔
الحمد للہ، آپ زیادہ تر نوجوان ہیں، اور یہ پاکیزہ، نورانی اور روشن دل، آپ نوجوانوں پر انسان واقعی رشک کرتا ہے۔ آپ ان مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حضرت سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ کی چوالیسویں دعا میں جو کہ رمضان کے مہینے میں داخل ہونے کی دعا ہے، خدا سے یوں فرماتے ہیں: وَ اَعِنّا عَلی صیامِهِ بِکَفِّ الجَوارِحِ عَن مَعاصیه؛ اس طرح روزہ رکھنا؛ معلوم ہوا کہ روزہ صرف کھانے اور ان ظاہری چیزوں سے پرہیز ہی نہیں ہے۔ یہ بھی ان روزوں میں سے ہے جو اس طرح آپ کو خدا کے قریب کرتا ہے۔ معصیت الہی سے کفّ جَوارِح اور استِعمالِها فیهِ بِما یُرضیک؛ بلاشبہ یہ ایک مفصل دعا ہے اور میں تجویز کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے نہیں پڑھی وہ یہ دعا پڑھیں۔ یہ دعا پڑھیں اور واقعی فائدہ اٹھائیں؛ آپ صحیفہ سجادیہ میں امام سجاد کے الفاظ سے بہترین انداز میں استفادہ کرنے کے لائق ہیں۔ کچھ فاصلے کے بعد فرماتے ہیں: وَ اَن نَتَقَرَّبَ اِلیکَ فیهِ مِن الاَعمالِ الزّاکیَةِ بِما تُطَهِّرُنا عَن الذُّنوبِ وَ تَعصِمُنا فیهِ مِمّا نَستَأنِفُ مِنَ العَیوب خدا تعالیٰ ہمارے ماضی کو بھی پاک کرے اور مستقبل میں بھی ہماری حفاظت فرمائے۔ اس مہینے کی قدر جانیے۔
اب، کلام الہی سے انسیت رکھنے کے حوالے سے۔ قرآن مجید کے بابرکت ناموں میں سے ایک نام ’’ذکر‘‘ ہے۔ خود قرآن میں "ذکر" کی اصطلاح متعدد بار استعمال ہوئی ہے اور اس سے مراد، قرآن ہے؛ مثال کے طور پر، وَ هذا ذِکرٌ مُبارَکٌ اَنزلناه»(4) سورہ الانبیاء میں، جہاں قرآن کو "ذکر" کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے، یا یا «اِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَ اِنّا لَهُ لَحافِظون»(۵) سورہ حجر میں کہ یہاں بھی اسی طرح ہے اور قرآن میں چند جگہ اور- شاید کل چار یا پانچ چھ مقامات پر - قرآن کو "ذکر" کہا جاتا ہے؛ کیوں "ذکر"؟ ذکر کا مطلب ہے "یاد"؛ "قرآن کا ذکر ہے" سے کیا مراد ہے؟ یعنی یہ "مذکر" ہے، یاد دلانے والا ہے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے۔ یہاں (صیغہ) مبالغہ ہے۔ عربی میں جب مبالغہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ اسم فاعل کو اسم فاعل کے طور پر استعمال نہیں کرتے ہیں، وہ اسے مصدر کی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "زیدٌ عدل"؛ جب وہ کہنا چاہتے ہیں: زید بہت عادل ہے، تو کہتے ہیں: زیدٌ عدل؛ زید عدل و انصاف ہے۔ یہ [مسئلہ]، اس قسم کا ہے۔ قرآن ذکر ہے؛ یعنی یہ یاد دلانے اور مذکِّریّت کا انتہائی درجہ ہے۔ یہ قرآن ہے۔ "ذکر" رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ ذکر کا مطلب ہے یاد۔ اگر آپ کو یاد رہے گا، آپ کسی سے بھی، کسی بھی چیز سے رابطہ برقرار کرسکیں گے، اگر آپ اسے بھول جاتے ہیں، تو آپ فطرتا رابطہ نہیں کرپاتے؛ ذکر فطری طور پر رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر ہم خدا کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، جنت کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں، اپنے بلند مرتبہ باطن کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں جو خدا تعالی نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے اور اس تک پہنچنے اور اسے تحقق بخشنے کے قابل بھی ہیں، تو ہمیں اسے یاد رکھنا چاہئے؛ اگر یاد ختم ہوجائے تو غفلت حاصل ہو جائے گی اور یہ غفلت وہی چیز ہے جس سے قرآن میں بار بار اجتناب کیلئے کہا گیا ہے اور ہمیں اس سے متنبہ کیا گیا ہے۔ قیامت کے دن کافروں اور منحرفوں سے کہا جائے گا: لَقَد کُنتَ فی غَفلَةٍ مِن هذا وَ کَشَفنا عَنکَ غِطائَک؛(۶) جو سورہ ق میں آیا ہے، یا سورہ انبیاء میں ہے: یا وَیلَنا قَد کُنّا فی غَفلَةٍ مِن هذا؛(۷) قیامت کے دن کافروں اس طرح کہے گا: یا وَیلَنا! افسوس ہم پر; ہم غفلت میں تھے۔ غفلت بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس لیے نماز تہجد سے متعلق دعاؤں میں سے ایک میں ہے: اَللَّهُمَّ اِنّی اَعوذُ بِکَ مِنَ الکَسَلِ وَ الهَرَمِ وَ الجُبنِ وَ البُخلِ وَ الغَفلَةِ وَ القَسوَة؛(۸) غفلت سے خدا کی پناہ! پس "غفلت" "ذکر" کا مخالف ہے؛ قرآن بھی ذکر ہے۔ جتنا آپ قرآن سے آشنا ہوں گے اتنا ہی ذکر زیادہ ہوتا جائے ہوگا۔ اور بلاشبہ، "ذکر" اور "مراقبہ" تقریباً ایک ہی چیز ہیں یا ایک معنی میں متحد ہیں۔ [وہی] مراقبہ جس پر تمام اہلِ روحانیت زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسانی عروج کا زینہ مراقبہ ہیں۔ اپنی حفاظت کرنا. میرا خیال ہے کہ مرحوم ملا حسین قلی ہمدانی یا ان کے ایک شاگرد کے حوالے سے میں نے ایک بار دیکھا کہ وہ فرماتے ہیں کہ بغیر مراقبہ کے بعض اوقات انسان کے لیے حال واقع ہو جاتا ہے لیکن یہ کیفیت باقی نہیں رہتی۔ اگر مراقبہ ہوگا تو انسان کی روحانی کیفیت بھی باقی رہتی ہے۔ لہٰذا، قرآن کی تلاوت، قرآن کے ساتھ انس، یہ خصوصیات رکھتا ہے۔
یہ خدا کا کلام کرنا ہے؛ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے بات کر رہا ہوتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف ماضی اور قرآنی مسائل یا کہانیوں کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کا تعلق ہمارے موجودہ حالات سے ہے، جس کا اظہار اس زبان میں کیا جاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے ہے کہ ہم اپنا راستہ تلاش کریں اور خُدا کے کلام کو سنیں۔ اور یہ ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالی نے ہمیں عطا کی ہے۔ ایک نعمت یہ ہے کہ جب ہم چاہیں خدا سے بات کر سکتے ہیں: «بِغَیرِ شَفیع» (9) - جو کہ ابو حمزہ کی عظیم دعا میں ہے - جب ہم چاہیں، خدا تعالی سے بات کر سکتے ہیں۔ یہ دعا ہے؛ اور جب بھی ہم چاہیں، ہم خدا کے کلام کو سن سکتے ہیں۔ وقت کا تعین آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ دراصل خدا کے کلام کو سننے کیلئے بیٹھنے اور مستفید ہونے کا وقت تعین کر رہے ہیں۔ آئیے قرآن کی تلاوت کو اس نظر سے دیکھیں۔ آئیے قرآن کو اس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اور تلاوت کی تکرار ضروری ہے۔ میں نے کئی بار کہا ہے کہ تلاوت کی تکرار کی جائے۔ قرآن کو شروع سے آخر تک پڑھنا اور ختم کرنا چاہیے، پر دوبارہ شروع سے، شروع سے آخر تک، اور قرآن سے ہمیشہ اور مسلسل مستفید ہونا ہے۔
اور قرآن پیغمبر کا معجزہ ہے۔ یہ پیغمبر، پیغمبر خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ان کا دین ابدی ہے، اس لیے ان کا معجزہ بھی ابدی ہونا چاہیے۔ پیغمبر کا دین ایک ابدی دین ہے، ان کا معجزہ بھی ابدی ہونا چاہیے؛ ابدی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تاریخ کے طویل ترین دور سے لے کر اس مذہب کے قائم ہونے تک، یعنی ہمیشہ کے لیے، کسی بھی وقت، زندگی گزارنے کے لیے ضروری تعلیمات حاصل کر سکتے ہیں۔ زندگی سے کیا مراد ہے؟ زندگی کا مطلب زندگی کا وہی وسیع مفہوم ہے: روحانی زندگی، الہی ماورائی زندگی، مادی زندگی، خاندان، حکومت، سماجی تعلقات، اللہ تعالیٰ سے تعلق تک؛ وسیع منظر نامہ میں اور انسانی زندگی کی وسعت یہ ہے۔ قرآن کو اس تمام وسیع حدود کے بارے میں آپ کے سوالات کے جوابات دینے اور خدا کی اعلیٰ تعلیمات کی طرف رہنمائی کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ قرآن ہمیں انسانی زندگی کے اعلیٰ ترین تصورات سے متعارف کرا سکتا ہے، جو یقیناً تعلیم اور تفقہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مت بھولئے۔ جی ہاں، زیادہ تر لوگ - اور بھی تمام لوگ نہیں - قرآن کے ظاہر سے کچھ استفادہ کرتے ہیں، لیکن قرآن کی گہرائیوں اور قرآن کے باطن سے استفادہ صرف تعلیم اور تفقہ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جو نہج البلاغہ میں خطبہ 110 میں ہے:وَ تَعَلَّمُوا القُرآن؛ پھر کچھ فاصلے کے ساتھ: و تَفَقَّهوا فیه - تفقه کا مطلب ہے گہری تعلیم، گہری تعلیم کو "تفقہ" کہتے ہیں - دیکھیں، قرآن کے بارے میں گہری تعلیم ؛ فَاِنَّهُ رَبیعُ القُلوب؛ جو دلوں کی بہار ہے۔ یہ دلوں کی بہار ہے۔ یہ دل کو تازگی بخشتا ہے اور دل کو پروان چڑھاتا ہے۔ یہ [اس طرح] ہے؛ اور اس کے لیے غور و فکر، تعلیم اور تفقہ ضروری ہے۔ بلاشبہ اس کی شرط دل کی پاکیزگی ہے۔ ہمیں اپنے دلوں کو پاک کرنا چاہیے، اپنے آپ کو دل کی بہت سی چیزوں سے بچانا چاہیے، جو کہ آپ نوجوانوں کے لیے مجھ سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں؛ جان لیں کہ ہم آپ کے وقت سے بھی گزر چکے ہیں، عبور کرچکے ہیں ہے، ہمارے پاس اس کا تجربہ ہے اور ہماری عمر کا بھی جس کا آپ کو تجربہ نہیں ہے۔ دل کی یہ تطہیر کرنا جو میں نے بیان کی آپ کی عمر میں ہماری نسبت بہت آسان ہے۔ لا یَمَسُّهُ اِلّا المُطَهَّرون؛ (10) دل کو پاک کرنا اور قرآن سے اس سے اسکو مس کرنا ضروری ہے۔
علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت نقل کرتے ہے، (11) میں آپ کو وہ بتانا چاہتا ہوں؛ یہ روایت امیر المومنین (ص) کی ہے جو مرحوم طباطبائی نقل فرماتے ہیں: و هو من غرر الاحادیث، یہ اہل بیت علیہم السلام کی سب سے نمایاں اور بہترین احادیث میں سے ایک ہے۔ قیل له هل عِندَكُم شَيءٌ مِنَ الوَحِي؛ امیر المومنین سے کوئی پوچھتا ہے کہ کیا آپ کے پاس قرآن کے علاوہ جو ہمارے پاس ہے کوئی اور وحی موجود ہے؟ قالَ لَا وَ الَّذی فَلَقَ الحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَة؛ وہ فرماتے ہے کہ نہیں، خدا کی قسم، ہمارے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اِلَّا أَن يُعطى اللّهُ عَبداً فَهماً في كتابه؛ ہماری روایتی زبان میں اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ہاں، اگر اللہ تعالیٰ راستہ کھول دے، ہمارے پاس جو کچھ ہے اگر اس پر غور کریں، تو اسوقت ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ توحید کے حوالے سے، الہی تعلیمات کے بارے میں امیرالمؤمنین کے یہ بیانات، جو ان کے نزدیک امیرالمؤمنین کے اعلی ترین بیانات میں سے ہیں- کہ آپ نہج البلاغہ کو دیکھیں، واقعی ان کی نظر میں ایک عجوبہ ہے - امیرالمؤمنین نے ان تمام کو قرآن سے استخراج کیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام عمدہ اور اعلی تعلیمات، جنہیں سمجھنے کے لیے عام ذہن کافی نہیں ہیں، اور انہیں سمجھنے کیلئے انسان کو سوچنا، سیکھنا، تعلیم چاہیے، یہ تمام تعلیمات کو امیرالمؤمنین نے قرآن سے لیا ہے، قرآن سے استخراج کیا ہے۔ یہ قرآن ہے۔ یہ گہرا سمندر ہے، اس طرح ہے۔
خیر اب چند جملے اور چند نکات اجتماع میں تلاوت کے مسائل کے بارے میں جو آپ کا قیمتی ہنر ہے۔
سب سے پہلے تو اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا ملک خوش لحن قاریوں کے لحاظ سے ممتاز اور مثالی ممالک میں سے ایک ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اسلامی دنیا میں، شاید، مثال کے طور پر، [سوائے] مصر، جسے اس سلسلے میں ایک اعزاز حاصل ہے، میں نہیں سمجھتا کہ دوسرے ممالک میں اتنے ممتاز، خوش لحن اور ماہر قاری موجود ہیں، جو خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی نعمت ہے۔ ہم کہاں تھے، کہاں پہنچ گئے! انقلاب کے آغاز میں ہماری سعی اور کوشش یہ تھی کہ ہمارے قاری کو معلوم ہو کہ کہاں سے پڑھنا ہے، کہاں سے جڑنا ہے، کہاں وقف کرنا ہے، کہاں رکنا ہے؟ یعنی اس حد تک وہ بھی چند قاری تھے۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ جب کوئی نظر ڈالتا ہے تو لاتعداد اور بے شمار قاری نظر آتے ہیں۔ میں تلاوت ریڈیو سے مانوس ہوں، الحمد للہ، فرصت کے وقت اکثر سنتا ہوں۔ اس ریڈیو پر اور کبھی ٹیلی ویژن پر - کہ میں کم ہی دیکھ پاتا ہوں - اتنی اچھی تلاوتیں آتی ہیں کہ انسان واقعی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ کئی دفعہ جب تلاوت سنتا ہوں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
آج ہمارے بہت سے قاری بہت سے [قاریوں] سے افضل ہیں۔ اب میں "سب" نہیں کہتا۔ آپ ابھی تک ان برجستہ افراد تک نہیں پہنچے جیسے وہ ہیں۔ آپ کو کام کرنا ہے؛ یہ ان نکات میں سے ایک ہے جسے میں اب بیچ میں عرض کرتا چلوں: آپ جو اچھی طرح سے پڑھتے ہیں اور درست طریقے سے پڑھتے ہیں اور سننے والے کو وجد میں لے آتے ہیں، یہ مت سوچیں کہ کام ختم ہو گیا ہے۔ جب بھی، کہیں بھی، کوئی سوچتا ہے کہ کوئی آخری سیڑھی تک پہنچ گیا ہے، کوئی اس سے اوپر نہیں ہے، وہی انسان کے زوال کا مقام ہے۔ میں شاعروں کو بھی یہی کہتا ہوں، ادیبوں سے بھی ہہی کہتا ہوں، علماء کو بھی یہی کہتا ہوں۔ آپ کو آگے بڑھنا ہے؛ آپ کو اور آگے بڑھنا ہے، آگے جانا ہے اور مکمل کرنا ہے، اور تکمیل کی ابھی بھی گنجائش ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ابھی جو کچھ موجود ہے وہ بہت قابل فخر ہے۔ یعنی آج ہمارے پاس جو کچھ ہے، خدا کا شکر ہے، یہ تعداد اور یہ کیفیت، ہم نہیں جانتے کہ میں نے جس جگہ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ کسی اور جگہ اتنا کچھ موجود ہو۔ یہاں تک کہ ہمارے بہت سے موجودہ قاری ان چند قاریوں سے بھی بہتر ہیں جنہیں ہم نے یہاں کبھی مدعو کیا ہے، ہم نے انہیں یہاں بلایا ہے، ہم نے ان کو پیسے بھی دیے ہیں، ہم نے ان کی تلاوتیں بھی سنیں ہیں، اور ہزاروں لوگوں نے بھی بغیر کسی وجہ کے ان کی تلاوت کے دوران "اللہ اللہ " کا نعرہ بھی لگایا ہے جو بالکل ضروری نہیں تھا! کبھی کبھی برا بھی ہڑھتے ہیں، لیکن مجمع "اللہ" کہتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ مجمع تلاوت کے اچھے اور برے کو نہیں سمجھتا، اس لیے وہ اچھی طرح پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ میں نے یہ دیکھا ہے؛ مصر میں جن بعض نے خوب تلاوت کی ہے، یہاں آکر انہوں نے تلاوت کی، نہیں، ان کی تلاوت کوئی قابل تعریف نہیں تھی! یہ اہم ہے؛ اب آپ جو سامعین سے مربوط ہیں، ان کو یہ تاکید ضرور کریں، اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے پاس ایسا مہمان نہیں آیا۔ الحمد للہ ہمارے قاری اچھے قاری ہیں۔
اب اسی گروہ میں سے جس نے آج پڑھا، میں دیکھتا ہوں کہ میں نے جو تلاوتیں سنیں وہ بہت اچھی تھیں!جناب نظریان (12) نے سورہ القصص سے تلاوت کی - وہی حصہ جو مصطفی اسماعیل نے پڑھا - بہت ہی اچھا تھا؛ یا جناب مقدّمی (13) نے سورہ ھود کی تلاوت کی جو بہت اچھی تھی، کافی نمایاں تھی۔ ان حامد آقا (14) کی تلاوت بھی بہت اچھی ہے۔ آج جن دوستوں نے یہاں پڑھا ہے، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں۔ دیگر افراد میں سے بھی بہت سے اسی طرح ہیں۔ اب چونکہ میں لوگوں کو نہیں دیکھ پاتا اور میں ان کے نام نہیں جانتا، میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں اور کون نہیں، لہذا میں نام نہیں لیتا۔ [صرف] میں نے ان چند لوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے یہاں تلاوت کی - ان میں سے بہت سے لوگ جو یہاں آئے اور انہیں استاد کہا جاتا ہے - فلانہ استاد - وہ بہت بہتر پڑھتے ہیں، اور خدا کا شکر ہے کہ یہ ہمارے اعزاز میں سے ایک ہے۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تلاوت ایک فن ہے، ایک مقدس فن ہے۔ یہ فن جو اعلیٰ ترین مقدس فنون اور اعلیٰ ترین آسمانی فنون میں سے ایک ہے، اس کو ذکر اور دعوت کی خدمت میں خرچ ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن ذکر ہے؛ آپ کی تلاوت ذکر کی خدمت میں ہونی چاہیے۔ اس طرح تلاوت کریں کہ میں سننے والا متنبہ ہو جاوں اور خدا کی یاد میں، قیامت کی یاد میں، اگلے جہانوں کے یاد میں؛ آدمی جتنا متنبہ ہو آپ کی تلاوت سے اس سے زیادہ متنبہ ہوجائے۔ اپنی تلاوت میں اس کا خیال رکھیں، اس کو مانگیں۔ ہوشیار رہیں کہ معمولی چیزیں، کچھ دکھاوے - کہ ہم انسان ہیں، ہم کمزور ہیں، ہمارے کام میں ایک حصہ تھوڑا دکھاوا ہے، اب میں اس تھوڑے سے کے بال کی کھال نہیں نکالنا چاہوں گا، بس وہ غالب نہ ہوجائے، آپ کی تلاوت کرنے میں یہ خودنمائی کی کیفیت خدا کی یاد، تذکر اور اسکی طرف دعوت پر پر غالب نہیں آنی چاہیے۔ آپ کو اسے صرف ایک فن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ کچھ غیر ایرانی قرآن پڑھنے والے کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اسے صرف ایک فن سمجھتے ہیں۔ نہیں، یہ صرف ایک فن نہیں ہے۔ یہ خدا کی طرف دعوت کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ کو اسے اس طرح دیکھنا ہوگا۔ ایسا ہونا چاہیے کہ «وَ اِذا تُلِیَت عَلَیهِم آیاتُهُ زادَتهُم ایمانا»؛(۱۵) جب آپ قرآن پڑھیں تو میرا ایمان بڑھ جائے۔ آپ کے سننے والوں کا ایمان بڑھنا چاہیے۔ اس میں سے کچھ آپ پر منحصر ہے، آپ کو یہ کرنا چاہیے، کافی حد تک یہ قاری پر منحصر ہے۔
آپ استعاذہ (اعوذباللہ) سے تلاوت شروع کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقی استعاذہ ہونا چاہیے۔ اس استعاذہ کے ساتھ واقعی شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں: «فَاِذا قَرَأتَ القُرآنَ فَاستَعِذ بِاللّهِ مِنَ الشَّیطانِ الرَّجیم»(۱۶) جو سورہ مبارک نحل میں ہے۔ اگر یہ تلاوت استعاذہ کے ساتھ کی جائے تو اس سے شیطانی مقاصد حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ تلاوت کی فنی مہارت( انجینئرنگ) ہے۔ یہ بات میں نے کئی بار اپنے سامنے تلاوت کرنے والے بعض قاریوں سے کرنا چاہی پر موقع نہیں ملا۔ ایک قاری کی حیثیت سے آپ کو جن چیزوں پر غور کرنا چاہیے وہ ہے تلاوت کی فنی مہارت۔ آپ کو اس تلاوت کو پہلے سے اپنے ذہن میں آمادہ کرنا ہوگا۔ یقیناً یہ بعد میں انسان کے لیے بتدریج فطری اور معمول بن جاتی ہیں، لیکن کام کے آغاز میں، شروع میں، طویل عرصے تک، آپ کو یقیناً توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
فنی مہارت کا کیا مطلب ہے؟ فنی مہارت کی کئی قسمیں ہیں: ایک یہ کہ ہر حصے کے لیے صحیح لحن کا انتخاب کریں۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ تمام لحن قرآنی داستان سے متعلق لحن کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا یہ کہ تمام لحن عذاب کی تنبیہ(انذار) کرنے والی آیات کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ کبھی کوئی لحن مناسب ہوتا ہے، کبھی کوئی لحن مناسب نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے مضمون کے لیے صحیح لحن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مصر کے بعض قاری اس معاملے میں واقعی اور بہترین طریقے سے ماہر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ انہیں ان آیات کو کس لحن میں پڑھنا چاہیے۔ کہ اگر انتباہ ہے، اگر وعدہ ہے، اگر بشارت ہے، اگر جنت کا وعدہ ہے، اگر داستان ہے، ان میں سے ہر ایک کو ایک خاص لحن کی ضرورت ہے۔ آپ کو فنی مہارت دکھانی ہوگی۔
ایک اور فنی مہارت اپنی آواز کو کم کرنے (17) اور (18) اٹہانے(اتار چڑھاو ) کی مہارت ہے۔ آواز کو کب اٹھانا ہے، کب کم کرنا ہے؛ یہ اہم ہے. کچھ لوگ بلا ضرورت اپنی آوازیں اٹھاتے ہیں، جہاں آواز اٹھانے کی بالکل جگہ نہیں ہوتی۔ آپ کو یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کہاں آواز کو اٹھانا ہے اور بلند آواز سے پڑھنا ہے، کہاں آرام سے پڑھنا ہے۔ البتہ مشہور قاریوں میں سے بعض تلاوتوں میں خاص زوال اور عروج پایا جاتا ہے جو اب ان کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کا تکرار ہمارے خیال میں بہت مناسب نہیں ہے۔ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے، اس طرف توجہ دیں کہ آپ نے کہاں آواز بلند کرنی ہے، کہاں آرام سے پڑھنا ہے۔
ایک تلاوت کو منتقل کرنے کی کیفیت ہے۔ منتقل کرنے کی کیفیت بھی بہت اہم ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں: عبدالفتّاح شعشاعی کی سورہ مبارک فاطر کی تلاوت - جو واقعی ایک غیر معمولی تلاوت ہے - [جب] وہ اس عظیم آیت پر پہنچتا ہے: یا اَیُّهَا النّاسُ اَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلَی اللّه.(۱۹) آپ جانتے ہیں کہ عربی محافل میں یہ پسند کیا جاتا ہے تلاوت میں لمبی سانسیں استعمال کی جائیں۔ جب قاری لمبے سانس کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں تو وہ اسے پسند کرتے ہیں اور اس کی ترغیب دیتے ہیں اور اللہ کہتے ہیں، اور مختصر سانس کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ عبدالفتاح کی سانس مختصر ہے، لیکن وہ اس آیت کو «یا اَیُّهَا النّاسُ اَنتُمُ الفُقَرآءُ اِلَی اللّه» ایک ایسے لحن سے پڑھتا ہے کہ پوری مجلس میں تہلکہ مچ جاتا ہے۔ میرے خیال میں آپ یہ تلاوت سنیں؛ مجلس میں تہلکہ مچا دیا؛ وہ اس طرح اچھے لحن میں پڑھتا ہے۔ اس موزوں لحن والی بات کو ذہن میں رکھیں۔ یہ فنی مہارت سے متعلق۔
ایک اور فنی مہارت وجود رکھتی ہے وہ ایسی تلاوت ہے کہ جو سامعین کے سامنے واقعہ کا مجسم کرسکے۔ یعنی اس طرح پڑھنا کہ آپ جو سن رہے ہیں، بالکل ایسا ہے کہ جیسے آپ واقعہ کو دیکھ رہے ہوں۔ اس معاملے میں، مسلّم استاد، واقعی طور پر، شیخ مصطفی اسماعیل ہیں، جو اس فن میں غیر معمولی ہیں۔ سوره قصص کی ان آیات میں: «وَجَدَ مِن دونِهِمُ امرَاَتَینِ تَذودانِ قالَ ما خَطبُکُما قالَتا لا نَسقیحَتَّی یُصدِرَ الرِّعآءُ وَ اَبونا شَیخٌ کَـبیرٌ * فَسَقَی لَهُما ثُمَّ تَوَلَّی اِلَی الظِّلِّ فَقالَ رَبِّ اِنّی لِمآ اَنزَلتَ اِلَیَّ مِن خَیرٍ فَقیرٌ * فَجآءَتهُ اِحداهُما تَمشی عَلَی استِحیـآء»،( 20) وہ ان کو اس طرح پڑھتا ہے کہ جیسے آپ دیکھ رہیں ہوں کہ لڑکی آرہی ہے اور شرما رہی ہے، کہ یہ شرمانا کسی جذبات کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے باپ کے پاس گئیں، اس نوجوان سے متعلق بات کی اور باپ نے کہا ٹھیک ہے اس جوان کو کہو کے ادھر آئے۔ "فَجآءَتُهِ احداهُما تَمشی على استيحيآء" کو کئی بار دہراتا ہے۔ یا مثال کے طور پر سورہ نمل میں اَیُّکُـم یَأتینی بِعَرشِهـا قَبلَ اَن یَأتونی مُسلِمین * قالَ عِفریتٌ مِنَ الجِنِّ اَنَا ءاتیکَ بِهِ قَبلَ اَن تَقومَ مِن مَقامِک(۲۱)۔ اس طرح اس «اَنَا ءاتیکَ بِهِ» کو عفریت جن کی زبان سے تکرار کرتا ہے کہ بالکل جیسے جیسے انسان اس جن کو دیکھ رہا ہے جو فخر سے کہتا ہے میں اسے تمہارے پاس لے کر آوں گا۔ قَبلَ اَن تَقومَ مِن مَقامِک پھر [وہ کہتا ہے]: قالَ الَّذی عِندَهُ عِلمٌ مِنَ الکِتابِ اَنَا ءاتیکَ بِهِ قَبلَ اَن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُک؛(۲۲)یعنی اس دوسرے جن نے عفریت جن کو بری طرح مات دے دی۔ اس نے کہا کہ اس سے پہلے کہ تم آنکھیں بند کرو، میں تمہارے پاس لے آوں گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ اسے اس طرح پڑھتا ہے کہ گویا آدمی دیکھ رہا ہو کہ یہ سب ہو رہا ہے۔ یہ بھی فنی مہارت کی ایک قسم ہے۔ بالآخر، مختصر یہ کہ تلاوت کرنے والے کی قرأت کو موثر ہونا چاہیے۔ اس طرح تلاوت کرنی چاہئے کہ سننے والے میں اثر پیدا ہو اور یہ اثر کا ذریعہ بن جائے۔ اِنَّما تُنذِرُ مَن أتبّعَ الذِّكَرَ وَخَشِيَ الرَّحَمٰنَ بِالغِيب؛ (23) آپ کی تلاوت کی وجہ سے اتباع وجود میں آنی چاہیے، آپ کی تلاوت سے اتباع پیدا ہو۔ یہ چند نکات تھے جو میں نے عرض کئے۔
میں قرائتوں میں فرق کے مسئلے کے بارے میں ایک نکتہ بھی بیان کرتا چلوں۔ ان چند سالوں میں ہم نے جن مصری قاریوں کو مدعو کیا اور وہ ادھر آئے۔ وہ انواع اقسام کی قرائتیں کرنے کے پابند تھے۔ اب میں چونکہ زیادہ مہارت نہیں رکھتا اس لیے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ لوگ شاذ (24) قرائت بھی پڑھتے ہیں۔ ہمارے پاس چودہ قرائتیں ہیں، اس کے علاوہ ہمارے پاس چند شاذ قرائتیں بھی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان میں بعض قاری اپنی تلاوت میں مسلسل جو اس بات کو کوشش کرتے تھے کہ الگ الگ قرائتوں سے پڑھیں تو شاذ قرائتوں سے بھی پڑھتے تھے۔ میری نظر میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں کوئی انتباہ نہیں ہے، کوئی دعوت نہیں ہے۔ ہاں، میں مختلف قرائتوں کے فرق کو پڑھنے کو رد نہیں کرتا، لیکن محدود حد تک۔ وَرش کی ورائت پڑھنا اہم ہے کیونکہ یہ شمالی افریقہ اور اسلامی دنیا کے مغربی حصے میں رائج قرائت ہے۔ ورش خود مصر میں کئی سالوں تک مقیم رہے - ورش اور قالون دونوں بالکل مصر میں ہی رہے - ورش کئی سالوں تک مصر میں رہے۔ اس لیے ورش کی قرائت مصر، شمالی افریقہ، تیونس وغیرہ میں مشہور ہے۔ ورش کی قرأت کے مطابق اور قالون کی قرأت کے مطابق قرآن وہاں شائع ہو چکے ہیں، جو ہمیں بھی بھیجے گئے ہیں اور میں نے دیکھے ہیں۔ یہ ورش کی قرائت ہے۔ اس لیے ورش قرائت میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ سب سے زیادہ عام قرائتوں میں سے ایک ہے۔ لیکن حفص کی جتنی بھی نہیں، لیکن بالآخر رائج ہے۔ یہ اچھا ہے. حمزہ کی قرائت جو ہمارا یہ 25 سالہ نوجوان آج پڑھ رہا تھا، ایک طرح سے اچھی بات ہے اور وہ یہ ہے کہ حمزہ کی قرائت میں حرف ساکن اور الف ھمزہ کے درمیان یہ سکون ایک خوبصورت چیز ہے۔ کیونکہ یہ تلاوت کو خوبصورت بناتا ہے، اس لیے بعض اوقات ہماری رائے میں اسے پڑھنا کوئی حرج نہیں رکھتا۔ اگر یہ بعض اوقات یہ دونوں پڑھی جائیں تو برا نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ دوسری قرائتوں کے مطابق تلاوت، ایک ہی حرف کو الگ الگ شکلوں میں ادا کرنا اور اس طرح کی چیزوں کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ یعنی جس چیز کی آپ سے توقع کی جا رہی ہے جیسے ذکر، دعوت، انتباہ وغیرہ وہ چیزیں اس سے واقعی حاصل نہیں ہوں گی۔
میں نے ایک اور نکتہ یہاں نوٹ کیا ہے جو بیان کردوں۔ قرآنی سرگرمیوں کے میدان میں بہت اچھے کام کئے جاچکے ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہیں۔ ہمیں مزید محنت کی ضرورت ہے۔ ایک تجویز جو ہمارے پاس آئی ہے، اور یہ مناسب بھی ہے، اور میں تجویز کرتا ہوں، اور آپ میں سے جو کوئی بھی کرسکتا ہے انجام دے، یہ ہے کہ محلے کی مساجد، مثال کے طور پر، تہران کے ایک حصے میں، اب یہ تین، چار، یا پانچ ہوں۔ ان مساجد میں سے ہر ایک میں قرآنی مرکز ہو اور یہ ایک دوسرے سے مربوط ہوں۔ وہ انکی دعوت پر انکے پاس جائیں، یہ ان کی دعوت پر انکے پاس آئیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں؛ یہ اوقاف اور دیگر کے زیر انتظام چلائے جانے والے رائج مقابلوں کے علاوہ ہے۔ ایسے کام کیے جائیں؛ نوجوانوں اور جوانوں کے لیے قرآن کی تلاوت کی وادی میں داخل ہونے کے لیے یہ بہترین ترغیب ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
ہمارے نوجوانوں کو قرآن کی تلاوت کے میدان میں داخل ہونا چاہیے، خاص طور پر حفظ قرآن، حافظ قرآن کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔ میں نے چند سال پہلے کہا تھا؛ (26) کچھ کوششیں کی گئی ہیں، لیکن ہم ابھی ہدف سے بہت دور ہیں۔ اگر آپ دس ملین حافظ فراہم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ ہمارے نوجوانوں کا قرآن کی وادی میں داخل ہونا ہے۔ اگر نوجوان داخل ہوگئے ہے تو حفظ آسان ہے۔ اس کو پورا کرنے کا طریقہ بھی یہ ہے کہ ہر مسجد میں قرآنی مرکز ہونا چاہیے۔ محلے کی مساجد کو ایک دوسرے سے مربوط ہونا چاہیے، آپس میں تعاون کرنا چاہیے۔ ان کے اساتذہ کو ان کا ایک دوسرے سے متعارف کرانا چاہیے۔ یہ ایک دوسرے کے پاس جائیں۔ ہمارے پاس یہ کام مشہد میں موجود تھا۔ مسجد کرامت میں بھی اور مسجد امام حسن مجتبیٰ میں بھی۔ خدا مشہد کے بہترین قاری جناب مختاری مرحوم پر رحمت نازل کرے اور ساتھ ساتھ جناب آقا مرتضیٰ فاطمی پر بھی جو کہ مشہد کے بہترین قاریوں میں سے ایک تھے اور اب بھی ہیں، خدا کا شکر ہے کہ بہترین قاریوں میں سے ایک ہیں۔ میں نے ان دو لوگوں کو مدعو کیا تھا، طلب کیا تھا، وہ کئی سالوں تک کرامت مسجد میں یہ قرآنی جلسہ کو منعقد کر رہے تھے۔ امام حسن مسجد میں، جہاں ہم تھے - یہ دونوں مساجد جن میں میں آنا جانا رہتا تھا - وہ آکر تلاوت کرتے تھے۔ اور مساجد کا ایک دوسرے سے تعلق اور تلاوت کرنے والوں اور سننے والوں کا اور قاریوں کے شاگردوں کا ایک دوسرے سے تعلق ان زمینوں میں سے ایک ہے جس سے انشاء اللہ اس مقصد کے لیے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ مناسب ہے کہ یہاں ہم آقائے مولائی مرحوم کو بھی یاد کریں، تہران میں تلاوت قرآن کے میدان میں ان کی بڑی خدمات ہیں، انھوں نے بڑی محنت کی۔ غفاری مرحوم اور دوسرے برادران جو اس نشست میں گزشتہ برسوں میں موجود رہتے تھے مگر اس سال ہمارے درمیان نہیں ہیں، اللہ تعالی ان شاء اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔
پروردگار! محمد اور آل محمد کے صدقے، ہمیں اہل قرآن میں سے قرار دے۔ ہمیں قرآن سے آشنا کر۔ ہمیں قرآن کے سے زندہ رکھ۔ قرآن کے ساتھ موت دے؛ قرآن کے ساتھ محشور کر۔ پروردگار! ہمارے دلوں میں قرآنی تعلیمات کو بیدار اور زندہ رکھ۔ پروردگار! ہمارے اساتید، جنہوں نے اس راہ میں ہماری رہنمائی کی، ہمیں قرآن سے مانوس کیا، انکو اپنی رحمت کے زیر سایہ قرار دے۔ ہمارے عظیم امام خمینی رح، ہمارے پیارے شہداء کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں ان کے راستے پر ثابت قدم رکھ۔
والسّلامعلیکمورحمةاللّهوبرکاتہ(1) رمضان 1443 کے پہلے دن منعقد ہونے والے اس پروگرام کی ابتدا میں ملک کے کچھ ممتاز قاریوں نے قرآن مجیدکی کچھ آيتوں کی تلاوت کی۔
(2) امالی صدوق، مجلس بیستم، صفحہ 93
(3) ایضا
(4) سورۂ انبیاء، آيت 50
(5) سورۂ حجر، آيت 9
(6) سورۂ ق، آيت 22
(7) سورۂ انبیاء، آيت 57
(8) کافی، جلد دو، صفحہ 586
(9) مصباح کفعمی، صفحہ 589 (دعائے ابو حمزہ ثمالی)
(10) سورۂ واقعہ، آيت 79 (کہ پاکیزہ بنائے گئے لوگوں کے علاوہ کوئي اسے مس نہیں کرتا)
(11) المیزان فی تفسیر القرآن، جلد 3، صفحہ 71
(12) جناب وحید نظریان
(13) جناب قاسم مقدمی
(14) جناب حامد شاکر نژاد
(15) سورۂ انفال، آيت 2، اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
(16) سورۂ نحل، آيت 98، تو جب بھی قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔
(17) سورۂ فاطر، آيت 15، اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو ...
(18) سورۂ قصص، آيت نمبر 23 سے 25، اور ان سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔ موسی نے ان عورتوں سے پوچھا: "تمہیں کیا پریشانی ہے؟" انہوں نے کہا: "ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نکال کر نہ لے جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے آدمی ہیں۔" یہ سن کو موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا، پھر ایک سائے کی جگہ جا بیٹھے اور بولے: "پروردگار! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں" (کچھ دیر نہ گزری تھی کہ) ان دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی۔
(19) سورۂ نمل، آيت 38 اور 39، تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لاتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں؟" جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا۔ "میں اسے حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں۔"
(20) سورۂ نمل، آيت 40، جس شخص کے پاس کتاب خدا کا (کچھ) علم تھا، وہ بولا: "میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں۔"
(21) سورۂ یس، آيت 11، آپ تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہیں جو کتاب حق کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے۔
(22) جناب علی رضا حاجی زادہ، تبریز
(23) پورے ملک کے قاریوں سے ملاقات میں تقریر بتاریخ 2 اگست 2011