بسم اللہ الرحمن الرحیم.
الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللّہ علی اعدائہم اجمعین.
خداوند عالم کے بہت شکر گزار ہیں کہ اس نے ہم پر یہ کرم کیا کہ ہم ایک بار پھر، چاہے محدود پیمانے پر ہی سہی، ان مبارک ایام میں، ماہ مبارک رمضان میں آپ نظام کے اعلی عہدیداروں اور کارکنوں کے درمیان حاضر ہو سکیں۔ ان شاء اللہ آپ کے اخلاص، آپ کی پاکیزگي اور آپ کی دعاؤں کے طفیل، اللہ کی برکتیں حاصل کریں گے اور اس کے لطف و کرم کے مستحق قرر پائیں گے۔ میں صدر مملکت کا بھی بہت شکر گزار ہوں۔ اچھی رپورٹ تھی جو انھوں نے پیش کی اور ان شاء اللہ وہ امور کو اسی شکل میں، مناسب وقت میں مناسب رفتار سے آگے بڑھائیں گے۔
میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جنھیں آپ کے سامنے عرض کرنا ہے، رمضان کے مبارک مہینے کی مناسبت سے کچھ جملے اخلاقی و معنوی نصیحتوں اور انتباہات کے ہیں جو درحقیقت سب سے پہلے مرحلے میں خود میرے لیے ہیں، انھیں بھی عرض کروں گا۔ تاکہ شاید ان شاء اللہ خود ہمارے دل پر ان کا کچھ اثر ہو۔ کیونکہ آپ سب سے زیادہ مجھ حقیر کو ان انتباہات کی ضرورت ہے۔ ایک حصہ ان نصیحتوں کا ہے جو ملک کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں کی حیثیت سے آپ کے کام، آپ کی اسپرٹ اور آپ کے جذبات سے متعلق ہیں۔ ایک حصہ ان سفارشات کا ہے جو تجربے اور مسائل پر نگاہ کی بنیاد پر بعض مسائل کے سلسلے میں کام اور اقدامات سے متعلق ہیں۔
سچی نیت۔ سچی، ٹھوس اور انتھک محنت کا سرمایہ اور بنیاد
جہاں تک ان انتباہات کی بات ہے تو سب سے پہلے عرض کروں کہ اس مہینے میں ہماری ایک درخواست سچی نیت کے بارے میں ہے جس کا سراغ ہمیں اس مہینے کی ماثورہ دعاؤں میں بھی ملتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے ایام کی دعاؤں میں آيا ہے: وَ القُوّۃَ وَ النَّشاطَ وَ الاِنابَۃَ وَ التَّوبَۃَ ... وَ النِّيَّۃَ الصّادِقَۃ(2) یہ 'سچی نیت' بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے اور اپنے پروردگار سے پوری سچائی کے ساتھ عہد کرنا چاہیے کہ صحیح راستے پر، جس راستے کے بارے میں ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ صحیح راستہ ہے، پوری مضبوطی کے ساتھ اور تھکن کا احساس کئے بغیر آگے بڑھیں گے۔ سچی نیت یہ ہے۔ اگر آپ لوگ ان شاء اللہ اس نورانی مہینے میں، اپنے اندر یہ سچی نیت پیدا کر لیں اور اسے مضبوط بنا لیں تو یہ آپ کے منصب اور عہدے کے دور میں اس راہ پر آگے بڑھنے کے لیے مددگار ہوگي، اس سے طاقت ملے گی اور یہ سچی نیت آپ کی مدد کرے گي کہ آپ اس راستے پر چلیں اور آگے بڑھیں۔
استغفار۔ رحمت اور برکت الہی کے نزول کا ذریعہ
اس مہینے میں، اس مہینے کی دعاؤں میں، سحری کی دعاؤں میں، دن کی دعاؤں میں، رات کی دعاؤں میں، ایک بات جو بار بار دوہرائي گئي ہے، وہ اللہ سے مغفرت طلب کرنے کی بات ہے۔ خدا سے معافی مانگنا، استغفار کرنا۔ دعاؤں کے جملے ہیں: ھذا شھر المغفرۃ (3) یہ مغفرت کا مہینہ ہے۔ ان دعاؤں میں مغفرت کرنے کی بات بار بار دوہرائي گئي ہے۔ استغفار کا مطلب کیا ہے؟ یعنی معافی مانگنا۔ ہم خداوند متعال سے معافی مانگتے ہیں بہت سے کاموں کی، ہمیں اپنے بہت سے کئے ہوئے اور ناکردہ کاموں پر خداوند عالم سے معافی مانگنی چاہیے۔
یہ عذر خواہی جو سچی نیت کے ساتھ ہے، آپ کے اندر ایک نشاط پیدا کرتی ہے، ایک پاکیزگي ایجاد کرتی ہے اور یہ نشاط اور پاکیزگي، اللہ کی رحمت کے نزول کا موجب بنتی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم پر اللہ کی رحمت و برکت نازل ہو۔ دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اَللّھُمَّ اِنّی اَسئَلُكَ موجِباتِ رَحمَتِك (4) اس میں کچھ اسباب ہیں جو رحمت الہی کو وجود میں لاتے ہیں اور انسان تک پہنچاتے ہیں۔ زندگي کے تمام میدانوں میں اس استغفار کا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زندگي میں در پیش رہنے والے مسائل کے بارے میں سورۂ ھود میں کہا گيا ہے: وَ يا قَومِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا اِلَيہ يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارا. یعنی خداوند متعال تم پر آسمانی برکتیں نازل کرے گا۔ اس کے بعد کہا گیا ہے: وَ يَزِدكُم قُوَّۃً اِلىٰ قُوَّتِكُم (5) تمھاری طاقت کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے اور یہ انفرادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ عمومی اور اجتماعی مسئلہ ہے، قومی مسئلہ ہے۔
زندگي کے مختلف میدانوں میں کامیابی میں استغفار کا اثر
استغفار کا اثر اس آيت سے زیادہ واضح، زندگي کے ایک سخت ترین میدان میں یعنی دشمن کے ساتھ کھلے مقابلے کے میدان میں سورۂ مبارکۂ آل عمران کی اس آیت میں بیان کیا گيا ہے: وَ كاَيِّن مِن نَبیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبّيّونَ كَثيرٌ فَما وھَنوا لِما اَصابَھُم فی سَبيلِ اللّہِ وَ ما ضَعُفوا وَ مَا استَكانوا وَ اللّہُ يُحِبُّ الصّابِرين. وَ ما کانَ قَولَھُم اِلّا اَن قالوا رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا(6) یعنی یہ لوگ جو میدان جنگ میں پیغمبر کے ساتھ جہاد کر رہے تھے – یہیں پر پیغمبروں کی روش بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پیغمبر اپنے گھروں میں بیٹھے رہا کرتے تھے یا مثال کے طور پر ہمیشہ مسجدوں اور عبادت گاہوں وغیرہ میں رہتے تھے۔ نہیں – جس میدان جنگ میں پیغمبر جاتے تھے، یہ بھی جاتے تھے اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے تھے، ان ربانیوں، خدا پرستوں اور خدا پرستی کا محور یہ دعا تھی: رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا وَ ثَبِّت اَقدامَنا وَ انصُرنا عَلَى القَومِ الكافِرين (7) مطلب یہ کہ جنگ سے، ثبات قدمی سے، نصرت سے استغفار کا رشتہ یہی ہے نا! استفغار ایسا ہوتا ہے۔
اگر انسان حقیقی معنی میں خداوند عالم سے اپنی خطاؤں اور غلطیوں وغیرہ کے لیے معافی مانگے اور استغفار کرے تو وہ جواب دیتا ہے۔ یہ قرآن مجید کی صریحی آيت ہے۔ جن لوگوں نے استغفار کیا اور خداوند عالم سے کہا کہ ہماری مدد فرما، ان کے لیے خداوند عالم کا جواب یہ تھا: فَآتَاھُمُ اللّہُ ثَوابَ الدُّنيا وَحُسنَ ثَوابِ الآخِرَۃ (8) آخرت سے پہلے دنیا میں ہی اس نے ان کا جواب دیا، ان کی جانب سے کیے جانے والے استغفار کی وجہ سے۔ تو قرآن کا درس ہے مختلف میدانوں میں کامیابی کے لیے استغفار سے مدد حاصل کرنا۔ یعنی استغفار کے بارے میں ہماری سوچ صرف یہ نہ ہو کہ یہ صرف انفرادی گناہوں کی معافی اور ہمارے دلوں کی پاکیزگي کے لیے کافی ہے۔ نہیں! استغفار کی قومی میدانوں میں، بڑے سماجی میدانوں میں بڑی تاثیر ہے، اثر ہے اور یہ ہمیں بڑی بڑی توفیقات سے ہمکنار کرتا ہے۔
استغفار کی دلیلیں: ظاہری گناہ، باطنی گناہ اور ترک واجباب
اب سوال یہ ہے کہ کس چیز پر مغفرت طلب کریں؟ کچھ غلط باتیں ہیں جو ہم نے انجام دی ہیں، کچھ گناہ ہیں، جیسے جھوٹ، غیبت، حرام نظر، حرام لمس، غصب وغیرہ، ایک حصہ یہ ہیں۔ ایک حصہ باطنی گناہوں کا ہے: وَ ذَروا ظاھِرَ الاِثمِ وَ باطِنَہُ اِنَّ الَّذينَ يَكسِبونَ الاِثمَ سَيُجزَونَ بِما كانوا يَقتَرِفون (9) وہ باطنی گناہ ہیں اور ان کی ایک الگ بحث ہے۔ کچھ گناہ ایسے ہیں جو ترک واجب کے معنی میں ہیں، خود فعل نہیں بلکہ ترک فعل ہیں۔ ایک کام ہمیں کرنا چاہیے تھا لیکن ہم نے نہیں کیا۔ میرے عزیزو! ہم میں سے بہت سے لوگ، اس آخری والے گناہ میں مبتلا ہیں۔ بہت سے کام ہمیں کرنے چاہیے تھے، کوئي بات کہنی چاہیے تھی، کوئي قدم اٹھانا چاہیے تھا، کوئي دستخط کرنے چاہیے تھے، کہیں پر کوئي کام کرنا چاہیے تھا لیکن ہم نے نہیں کیا۔ تساہلی کی وجہ سے، کاہلی کی وجہ سے، اہمیت نہ دینے کی وجہ سے انجام نہیں دیا۔ یہ گناہ ہے۔ اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اسی لیے دعائے مکارم الاخلاق میں آيا ہے: وَ استَعمِلنِی بِما تَساَلُنی غَداً عَنہ (10) مجھے وہاں استعمال کر، جہاں کل تو مجھ سے اس کے بارے میں سوال کرے گا۔
حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کی عبرتیں
ایک چیز جس پر میں نے بارہا توجہ دي ہے، کبھی کبھی اسے بیان بھی کیا ہے اور جو قرآن کی ہلا دینے والی باتوں میں سے ایک ہے، وہ عظیم پیغمبر الہی حضرت یونس علیہ الصلاۃ و السلام کا واقعہ ہے: وَ ذَا النّونِ اِذ ذَھَبَ مُغاضِبا. وہ غصے میں کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان کی قوم کے لوگ کافر تھے، وہ جو بھی کہتے تھے وہ لوگ نہیں مانتے تھے، حضرت یونس نے برسوں تک – مجھے نہیں پتہ کہ کتنے سال تک – اس قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی لیکن کوئي اثر نہیں ہوا، وہ بھی طیش میں آ گئے، ناراض ہو گئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ ہم لوگ جو واجبات ترک کرتے ہیں اگر ان سے موازنہ کیا جائے تو یہ کسی بھی اعتبار سے کوئي بڑا کام نظر نہیں آتا لیکن خداوند عالم نے اسی کام پر ان کا مؤاخذہ کیا: فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَيہ (11) انھوں نے سوچا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟! سختی کریں گے! ان کے سلسلے میں سختی یہ تھی کہ وہ محبوس ہو گئے۔ اس کے بعد قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر کہا گیا ہے: فَلَو لا اَنَّہُ كانَ مِنَ المُسَبِّحين. لَلَبِثَ فی بَطنِہِ اِلىٰ يَومِ يُبعَثون (12) کیا بات ہے؟! ترک فعل کے باعث۔ اگر یہ تسبیح اور یہ گڑگڑانا اور یہ ذکر سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمين، کہ جس کے بارے میں ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ قیامت تک مقید رہتے، محبوس رہتے۔ البتہ اس آيت کے بعد ایک خوش خبری بھی ہے: فَنادى فِی الظُّلُماتِ اَن لا اِلہَ اِلّا اَنتَ سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمينَ* فَاستَجَبنا لَہُ وَ نَجَّيناہُ مِنَ الغَمِّ وَ كَذٰلِكَ نُنجِی المُؤمِنين (13) یہ "و کذلک ننجی المومنین" میرے اور آپ کے لیے خوش خبری ہے، مطلب یہ کہ ہم بھی اللہ کی تسبیح کر کے، اس کی حمد کر کے، استغفار کر کے، اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اور پروردگار عالم سے معذرت طلب کر کے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ بنابریں استغفار، ممنوعہ اور حرام کام کے ارتکاب پر بھی ہے اور صحیح کام نہ کرنے، بے عملی اور غلط کام کرنے پر بھی ہے۔ ان دونوں کے لیے استغفار ضروری ہے۔
اللہ کی طرف سے مواخذے اور بارگاہ خدا میں موجود ہونے کے احساس کی اہمیت، عوام کے احتساب سے زیادہ
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہم اسلامی جمہوری نظام میں کارکنوں کو "مسئول" (ذمہ دار، عہدیدار) کہتے ہیں۔ مسئول کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ ہم سے سوال کیا جائے گا۔ کس چیز کا؟ ہمارے کردہ اور ناکردہ کاموں کا سوال کیا جائے گا۔
البتہ عام طور پر اور دنیا کی سیاسی اصطلاحات میں اس سوال کو عوام کا احتساب کہا جاتا ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر اور اس سے زیادہ اہم، اللہ کا احتساب ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ میں زیادہ اہم ہے۔ البتہ لوگوں کا سوال بھی اہم اور مذہبی جمہوریت کے ارکان میں سے ایک ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم، اللہ کے سامنے جوابدہی ہے۔ اِلٰہی ارحَمنى اِذَا انقَطَعَت حُجَّتى وَ كَلَّ عَن جَوابِكَ لِسانی وَ طاشَ عِندَ سُؤالِكَ اِيّاىَ لُبّى (14) قیامت میں ایسا ہے: سوال کیا جائے گا، ہمارے پاس جواب نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنے طور پر کچھ دلیلیں اور جواز تیار کر رکھیں ہیں جنھیں پیش کریں گے، انھیں مسترد کر دیا جائے گا، وہاں ہماری سمجھ میں آئے گا کہ یہ دلیل صحیح نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر پوچھیں گے کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ کیوں نہیں کیا؟ ہمارے پاس ایک وجہ ہے جسے ہم وہاں پیش کریں گے لیکن کوئي جواب نہیں ملے گا۔ انقَطَعَت حُجَّتى وَ كَلَّ عَن جَوابِكَ لِسانی وَ طاشَ عِندَ سُؤالِكَ اِيّاىَ لُبّى – دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہے – ایسا ہی تو ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئي مسئول (عہدیدار) عوام کے سوال کی رسائي اور عوامی نگرانی سے دور ہے، تب بھی وہاں خدا موجود ہے۔ جیسا کہ اگر آپ کوئي کام کرتے ہیں، کوئی خدمت کرتے ہیں، تب بھی ایسا ہی ہے۔ میں نے ملک کا انتظام چلانے والے مختلف خدمت گزار اداروں سے، جن سے میری ملاقات ہوئي ہے، بارہا کہا ہے کہ آدھے گھنٹے کا اضافی وقت، جس میں آپ اپنی ڈیوٹی کے وقت سے زیادہ کام کرتے ہیں، اسے کوئي بھی جان نہیں پاتا، یہاں تک کہ افسران بالا بھی مطلع نہیں ہوتے اور آپ کے لیے شکریے کا ایک لفظ زبانی بھی ادا نہیں کرتے، لیکن وہ خدا کی نگاہ میں ہے۔ نہ کیے ہوئے کام بھی ایسے ہی ہیں، غلط کام بھی ایسے ہی ہیں۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ کہ "دنیا، محضر خدا است(15)" یعنی دنیا، خدا کی بارگاہ ہے، بہت اہم ہے! خداوند عالم معرفت سے سرشار اس قلب کے درجات کو بلند فرمائے۔ دنیا، خدا کی بارگاہ ہے، خدا کے حاضر ہونے کی جگہ ہے۔ محضر یعنی خدا کے حاضر ہونے کی جگہ۔ ہر جگہ خدا ہے، ہم جہاں بھی ہیں، اکیلے ہیں، لوگوں کے ساتھ ہیں، ہمارے دل میں، ہمارے تصور میں، ہمارے تخیل میں، ہماری نیتوں میں جو کچھ ہے، سب کچھ خدا کے سامنے ہے۔ عہدے اور ذمہ داری کی بنیاد یہ ہے: اللہ کے حضور۔ سماجی ذمہ داری اور سیاسی ذمہ داری کی بنیاد یہ ہے۔ جان لیجیے کہ جو فیصلہ آپ کرتے ہیں، دستخط جو کرتے ہیں، دستخط جو نہیں کرتے، کام جو کرتے ہیں، کام جو نہیں کرتے، سب، اللہ کی آنکھوں کے سامنے ہے: وَ کُنتَ اَنتَ الرَّقیبَ عَلَىَّ مِن وَرائِھِم وَ الشّاھِدَ لِما خَفِىَ عَنھُم (16)
عہدے اور منصب پر پہنچنے کے بعد اپنی نگرانی بڑھانے کی ضرورت
ایک نکتہ جو اس اچھی اور دوستانہ نشست میں عرض کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ میں اور آپ، جن کے پاس اسلامی جمہوری نظام میں کوئي منصب اور عہدہ ہے، اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ ہم اپنی انفرادی زندگي میں بھی ایسے ہی ہیں – بہت سے لوگ، زیادہ پابند نہیں ہوتے – جب ہم عہدیداروں کی صف میں شامل ہو جاتے ہیں تو ہماری نگرانی بھی بڑھ جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ نماز شب، نافلۂ شب اور سحر خیزی کو اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اب جبکہ آپ صاحب منصب ہو گئے ہیں تو اہمیت دیجیے۔ جو چیز آپ کو خدا سے جوڑتی ہے، اسے اپنے عہدے کے وقت میں بڑھائيے۔ مجھے اور آپ کو اپنے فعل اور ترک فعل میں خداوند عالم کی موجودگي کو زیادہ محسوس کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر خدا کی برکتیں نازل ہوں گي۔ سورہ ھود کی وہی آیت جس کے مطابق آسمانی برکتیں ہم پر نازل ہوں گي۔ آسمانی برکتیں صرف بارش نہیں ہے۔ ساری چیزیں، منجملہ رحمت الہی: خَیرُکَ اِلَینا نازِل (17) اور میری اور آپ کی یہ توجہ، عوام کے لیے بھی، اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے لیے بھی اور خود ہمارے لیے بھی مفید ہے، یہ خود ہمارے دل کو بھی معنویت کے قریب کرتی ہے، الہی حیات طیبہ کے قریب کرتا ہے۔ تو یہ کچھ انتباہات تھے اور میں نے عرض کیا کہ آپ سے زیادہ خود مجھے ان انتباہات کی ضرورت ہے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ توفیق عطا کرے، مدد کرے کہ یہ انتباہات خود ہمارے دل پر اثر کریں۔
حکومتی کارکنان کو کچھ نصیحتیں
جہاں تک نصیحتوں کی بات ہے تو حکومتی میدان میں اترنے والے آپ عزیز بھائي بہنوں کے لئے میری کچھ نصیحتیں ہیں – چاہے وہ پارلیمنٹ میں ہوں، حکومت میں ہوں یا پھر دیگر اداروں میں ہوں، کہ ایک تازہ دم گروہ میدان میں آیا ہے، خاص کر جوان – بحمد اللہ نظام کے مختلف شعبوں میں جوانوں کی ایک بڑی تعداد داخل ہوئي ہے اور یہ بڑی مسرت اور خوشی کی بات ہے، اگر یہ اس نگرانی کے ساتھ ہو۔
(1) غرور کے برے نتائج اور اس کی وجوہات کی نگرانی
وہ نصیحت جو میں آج کرنا چاہتا ہوں وہ دو برے نتائج پر توجہ سے متعلق ہے: ایک برا نتیجہ، غرور کا نتیجہ ہے۔ جبکہ دوسرا برا نتیجہ بے عملي کا نتیجہ ہے۔ یہ دو نقصانات اور برے نتائج ہیں جن کا آپ کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
غرور، شیطان کا ہتھکنڈہ ہے۔ غرور، گھمنڈ، شیطان کا حربہ ہے۔ اس کی مختلف وجہیں ہیں۔ ویسے اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ کیا ہے: کبھی اس کی وجہ یہی عہدہ اور منصب ہے جو آپ کو حاصل ہوا ہے۔ مان لیجیے کہ آپ کہیں دور دراز مقام پر کام کر رہے تھے، اب آپ کو مینجمینٹ کا ایک اونچا عہدہ حاصل ہو گيا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ میں، یا حکومت میں، یا انقلابی اداروں میں یا مسلح فورسز میں۔ یہ چیز انسان کو مغرور بناتی ہے کہ اسے کوئي مقام و منصب حاصل ہو گيا ہے۔ غرور کا ایک سبب یہ ہے۔ غرور کا ایک سبب، کامیابی ہے۔ آپ کو توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو کام آپ انجام دیتے ہیں اس میں پیشرفت ہوتی ہے۔ یہاں انسان کو اپنے اوپر غرور ہوتا کہ میں یہ کام انجام دینے میں کامیاب رہا۔ غرور کا ایک سبب، لطف خدا اور اس کی برکتوں پر مغرور ہونا ہے۔ جس کے بارے میں دعاؤں میں بہت زیادہ اور قرآن مجید تک میں آيا ہے: وَ لا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الغَرور (18) غَرور کہ جو شیطان ہے، تمھیں خدا کے سلسلے میں مغرور نہ کر دے۔ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، خدا کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو جائے اور پھر اسے کسی چیز کی کوئي پروا نہ رہے۔ مثال کے طور پر وہ کہے کہ ہم تو اہلبیت کے دوستوں میں سے ہیں، خدا ہمیں کچھ نہیں کہے گا! یہ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونا ہے۔ وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك (19) صحیفۂ سجادیہ کی دعا ہے– میرے خیال سے چھالیسویں دعا – جمعے کے دن کی دعا ہے: وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك۔ اے پروردگار! جو تیرے سلسلے میں مغرور ہو جائے اس کی بدبختی سب سے زیادہ ہے۔ یہ گھمنڈ کرنا ہے۔ مغرور ہونا یہ ہے۔
غرور کے برے اثرات اور نتائج:
(الف) انسان کے زوال کا پیش خیمہ اور اس کی سماجی پوزیشن کا انحطاط
مغرور مت بنیے، غرور نہ کیجیے۔ اگر یہ غرور آ گيا تو یہ شکست کا پیش خیمہ ہے، زوال کا مقدمہ ہے۔ یہ غرور، ان تمام اسباب میں سے جو ہم نے بیان کیے، کسی بھی جہت سے آ جائے تو وہ انسان کے زوال کا آغاز ہے۔ انسان میں جب اس طرح کا غرور آ جائے تو اس کا اپنے اندر سے بھی زوال شروع ہو جاتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سماجی پوزیشن جو اس کے اطراف میں قائم ہوئی ہے وہ بھی ختم اور زائل ہو جاتی ہے۔ یہ آیت مبارکہ "لَقَد نَصَرَكُمُ اللہُ في مَواطِنَ كَـثيرَۃٍ وَ يَومَ حُنَينٍ اِذ اَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغنِ عَنكُم شَيئًا وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت" اسی بارے میں ہے۔ جنگ حنین، فتح مکہ کے بعد وہ پہلی جنگ تھی جس میں پیغمبر شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ جنگ بدر کے برخلاف، جس میں تین سو تیرہ لوگ تھے، یہاں کئي ہزار نو مسلم، اور مہاجر و انصار تھے جو فتح مکہ وغیرہ میں کامیاب ہوئے تھے، یہ لوگ طائف کی طرف جنگ حنین کے لیے گئے۔ جب انھوں نے خود پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ تعداد بہت زیادہ ہے، مغرور ہو گئے! خداوند متعال نے انھیں اس غرور کی وجہ سے بکھیر دیا۔ وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت، زمین اپنی تمام تر وسعت کے ساتھ تم پر تنگ ہو گئي۔ ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبِرين (20) تم بھاگ نکلے۔ ان مواقع سے ایک، جہاں پیغمبر کے اطراف والے بھاگ کھڑے ہوئے اور صرف امیرالمومنین اور گنتی کے چند افراد ان کے پاس رہے، یہی جنگ حنین تھی۔ جنگ احد کی طرح۔ مغرور ہونے کا نتیجہ یہی تو ہے۔ البتہ اس کے بعد خداوند عالم نے ان کی مدد کی اور وہ فتحیاب ہوئے لیکن اپنے آپ پر گھمنڈ اور غرور کا نتیجہ یہ ہے۔ یعنی انسان کو زوال کی راہ پر ڈال دیتا ہے، ہمیں بھی پستیوں میں ڈال دیتا ہے اور جو ادارہ یا اکائي ہمارے محور پر آگے بڑھ رہا ہے اسے بھی زوال پذیر کرکے تباہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دعائے کمیل میں ایک چیز جو آپ پڑھتے ہیں اور خداوند عالم سے التجا کرتے ہیں، یہ ہے کہ: اَن تَجعَلَنی بِقِسمِكَ رَاضِياً قانِعاً وَ فی جَميعِ الاَحوالِ مُتَواضِعا(21) مغرور نہ ہوں، ہر حال میں متواضع رہیں۔ تواضع یعنی انکساری، فروتنی، یہ غرور کی ضد ہے۔ یہ چیز انسان خداوند عالم سے دعائے کمیل میں مانگتا ہے۔
(ب) لوگوں سے دوری
اگر ہمارے اندر غرور پیدا ہو جائے تو اس کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ اپنے اوپر غرور اور مغرور ہونا، ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری نظروں میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور نتیجتا ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
(ج) اپنی غلطیوں کو چھوٹا سمجھنا اور ان کی اصلاح نہ کرنا
گھمنڈ ہمیں اپنے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں، جو ہم ہیں۔ غرور کا برا نتیجہ یہ ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو، جو کچھ ہم ہیں، اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں تو ہماری غلطیاں، ہماری نظروں میں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ ہم سب سے خطائيں ہوتی ہیں، ہم سب اپنے دل میں اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم خطاکار ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمیں پوری طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں معاملے، فلاں معاملے اور فلاں معاملے میں ہم نے غلطی کی ہے لیکن یہ غلطیاں ہماری نظروں میں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اگر یہیں خطائیں دوسروں میں ہوں تو ہماری نظروں میں بڑی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ہماری اپنی غلطیاں، ہماری نظروں میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ جب غلطیاں چھوٹی ہو گئيں تو ہم انھیں سدھارنے کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ خطاؤں کی اصلاح نہیں کرتے، انھیں غلطیوں کو جاری رکھتے ہیں اور ویسے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ سب مغرور ہونے کے برے نتائج ہیں۔ ان میں کتنی برائی ہے!
(د) خیراندیشانہ تنقید نہ سننا
گھمنڈ ہمیں خیر خواہانہ تنقید سننے سے محروم کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دشمنی میں، عناد میں ہم سے کچھ کہتا ہے، ممکن ہے ہم اس کی بات کو برداشت نہ کر پائيں اور غصے میں آ جائيں۔ لیکن کبھی کوئي ہمدردی میں اور خیر خواہانہ انداز میں ہم پر تنقید کرتا ہے لیکن ہم میں اسے بھی سننے کا طاقت نہیں ہوتی۔ تو یہ، مغرور ہونے کا پہلا برا نتیجہ ہے۔
(2) بے عملی اور اس کے برے نتائج کی نگرانی
دوسرا برا نتیجہ کیا تھا؟ بے عملی۔ یہ چیز، غرور کے مقابلے میں ہے اور یہ بھی ایک بیماری ہے، یہ بھی ایک نقص ہے، یہ بھی انسان کو مصیبت میں ڈالنے والی چیز ہے۔ بے عملی کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کمزور قوت ارادی، خود کو کمزور اور ناتواں سمجھنا، یہ محسوس کرنا کہ اب ہم سے کچھ نہیں ہو سکے گا۔ امور میں تعطل کا احساس، کامیابی کے عدم امکان کا احساس، بے عملی ہے۔ رحمت الہی سے مایوسی، اس بے عملی کے اثرات میں سے ایک ہے جو گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ لَا تَیاَسوا مِن رَوحِ اللّہ (22) گناہان کبیرہ میں جن گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک رحمت الہی سے مایوسی ہے۔ یہ بے عملی کا نتیجہ ہے کہ انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ بند گلی میں پہنچ گيا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مہلک زہر ہے۔ کسی ادارے کے سربراہ کے لیے، کسی ادارے کے عہدیدار کے لیے واقعی یہ چیز زہر ہے کہ وہ بند گلی میں پہنچ جانے کا احساس کرے۔ دشمن یہی بات ذہنوں میں بٹھانے کی بہت زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سب کے ذہنوں میں، الگ الگ شکلوں میں، الگ الگ طریقوں سے، ملاقات کے ذریعے، بات چيت کے ذریعے، نعرے کے ذریعے، انٹرویو کے ذریعے، خبر کے ذریعے، اپنی بعض کارروائيوں کے ذریعے اپنے فریق مقابل میں، اب وہ چاہے جو بھی ہو، مایوسی، بے عملی اور اسی طرح کی چیزیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک برا نتیجہ ہے۔
صبر و تقوی بے عملی سے نجات کا طریقہ
البتہ برے نتیجے کی اس دوسری حالت یعنی بے عملی کے سلسلے میں ہمارے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ یعنی بحمد اللہ اسلامی جمہوری نظام میں اس بے عملی سے مقابلے کی راہ موجود ہے۔ اول تو اللہ کے وعدے ہیں، قرآن مجید کی آیتیں کہ اللہ کے وعدوں میں کسی طرح کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ سورۂ آل عمران میں ہمارے مقابلے میں اور ہمارے سلسلے میں دشمن کے احساسات کو بیان کرنے کے بعد کہا گيا ہے: اِن تَمسَسكُم حَسَنَۃٌ تَسُؤھُم وَ اِن تُصِبکُم سَيِّئَۃٌ يَفرَحوا بِھا. اس کے بعد کہا گيا ہے: وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا لا يَضُرُّكُم كَيدُھُم شَيئًا (23) قرآن نے دشمن سے مقابلے کی راہ ہمیں دکھائي ہے: صبر اور تقوی۔ میں تقوی کے بارے میں عرض کروں گا کہ اس طرح کے مقامات پر اس سے مراد کیا ہے؟ بنابریں ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ قرآن کے وعدے، سچے وعدے ہیں۔ یعنی اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہہ نہیں ہے۔ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا لا يَضُرُّكُم كَيدُھُم شَيئًا. یعنی ان کے مکر و حیلے تم پر بالکل بھی اثر انداز نہیں ہوں گے اور تمھیں پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔
صبر کے معنی استقامت اور نہ تھکنا
سب سے پہلے تو یہ کہ وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا میں صبر کا کیا مطلب ہے؟ صبر یعنی نہ تھکنا۔ بہت سے ترجموں میں صبر کے معنی استقامت بیان کیے گئے ہیں۔ یہ صحیح ہے۔ یعنی نہ تھکنا۔ اگر بردباری کہا جائے تو اس کے معنی بھی یہی نہ تھکنے کے ہیں۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ تھکیے، عبادت میں صبر بھی اسی طرح ہے، گناہ کے مقابلے میں صبر بھی اسی طرح ہے – ایک گناہ ہے جو انسان کے لیے پرکشش ہے، مسلسل اسے اپنی طرف کھینچتا ہے، انسان لگاتار استقامت کرتا ہے۔ یہ استقامت انسان کو تھکا دیتی ہے اور پھر وہ نفسانی خواہش کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ صبر کا مطلب ہے نہ تھکنا – مصیبت کے مقابلے میں بھی ایسا ہی ہے، دشمن کے مقابلے میں بھی ایسا ہی ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے۔ میدان سے نہ نکلنا اور باہر نہ جانا صبر ہے۔
تقوی یعنی مکمل نگرانی
تقوی کا مطلب کیا ہے؟ یعنی مکمل پہرے داری، خیال رکھنا اور نگرانی۔ تقوی کے معنی ہر جگہ یہی ہیں۔ فَاِنَّ خَيرَ الزّادِ التَّقوىٰ (24) قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی تقوی ہے، اس کے معنی ہیں مکمل دیکھ بھال اور نگرانی، اس شخص کی طرح دیکھ بھال جو ایک لمبے لباس کے ساتھ، ہمارے جیسے لمبے لباس کے ساتھ، کانٹوں سے بھرے میدان میں چل رہا ہے۔ تو وہ اس بات کا بہت خیال رکھے گا کہ اس کا دامن کسی کانٹے میں نہ پھنس جائے، ہر قدم پر خیال رکھنا، قدم بہ قدم۔ اپنے پیروں کے نیچے بھی دیکھے اور یہ بھی دیکھے کہ اس جگہ پر کانٹے کہاں کم ہیں تو اسی طرف بڑھے۔ اپنے پیروں کے نیچے بھی نظر رکھے اور آگے کی طرف بھی دیکھتا رہے۔ یہی تقوی ہے۔ یہ جو 'تقوی اللہ' ہے یہ بھی اسی معنی میں ہے جس کے معنی عام طور پر یہ بتائے جاتے ہیں کہ انسان، اللہ سے ڈرے۔ اللہ سے ڈر یعنی یہی۔ یعنی پوری توجہ سے اس بات کا خیال رکھے کہ اللہ کے حکم کے خلاف، اللہ کے اوامر و نواہی کے خلاف عمل نہ ہو۔ یہ تقوی ہے۔ ایسے مواقع پر کہ جہاں قرآن مجید کہتا ہے، اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا، ایک خصوصیت پائی جاتی ہے: یہ تقوی، دشمن کے مقابلے میں ہے۔ یعنی چوکنا رہنا، دشمن کی طرف سے چوکنا رہنا، اس کی حرکت پر نظر رکھنا، اس کے مقابلے میں اپنے ہر قدم کا خیال رکھنا، اس کی کارروائيوں پر توجہ رکھنا، آپ کی جانب سے کیے جانے والے کام کی نگرانی کرنا کہ ممکن ہے وہ کام آپ کی غفلت کی عکاسی کر رہا ہو۔ تقوی کا مطلب یہ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے امیر المومنین فرما رہے ہیں: : اِنَّ اَخَا الحَربِ الاَرِقُ وَ مَن نامَ لَم یُنَم عَنہ (25) یعنی بیدار ہونا، چوکنا ہونا۔ یہاں پر تقوی یہ ہے۔ وہی تقوی کے عمومی معنی، لیکن یہاں اس کی شکل اس طرح ہے: دشمن پر نظر رکھو۔ ہر میدان میں یہی ہے۔ سفارتکاری میں تقوی ضروری ہے، معاشی مسائل میں بھی تقوی ضروری ہے، سیکورٹی کے میدان میں تقوی ضروری ہے، ان سب میں تقوی ضروری ہے، مختلف مسائل میں اور ہر ایک میں اس مسئلے کے تناسب سے تقوی ہونا چاہیے۔ اللہ کی مدد سے، خداوند عالم سے مدد مانگنا اور گہرائي سے نگرانی کرنا۔ تو یہ اللہ کا حکم تھا۔
ہمارا تجربہ بھی یہی دکھاتا ہے۔ کبھی ہم ان آیتوں کو پڑھتے تھے، اس کا تجربہ تاریخ میں تھا اور ہم اسلام کے ابتدائي دور کو تجربے کے طور پر بیان کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج ہم خود ان کا تجربہ کر چکے ہیں، ہم نے خود مختلف میدانوں میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ اگر ہمارے پاس صبر ہو، تقوی ہو تو ہم کامیاب ہو جائيں گے۔ جس دن جنگ شروع ہوئي – میں مقدس دفاع کی بات کر رہا ہوں – تو ہم لوگ سوچ رہے تھے کہ جنگ مثال کے طور پر ایک ہفتے، دس دن، بیس دن جاری رہے گي۔ لیکن وہ آٹھ سال تک چلتی رہی! آٹھ سال تک جنگ چلتی رہی۔ پہلے دن سے امام خمینی مطمئن تھے۔ یہی نہیں کہ وہ کھلے الفاظ میں کہیں کہ ہم جیت جائيں گے۔ نہیں، لیکن ہمیں ان کے اندر کسی طرح کی تشویش دکھائي نہیں دیتی تھی۔ وہ سوال کرتے تھے، وضاحت چاہتے تھے۔ دیگر شعبوں کے سربراہوں کے ساتھ ہماری ان کے سامنے جو میٹنگ ہوتی تھی، اس میں وہ تفصیلات پوچھتے تھے، سوال کرتے تھے کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ اس طرح کے کام تو ہوتے تھے لیکن ان کے چہرے پر، ان کے رویے میں اور ان کی باتوں میں کسی طرح کا اضطراب دکھائي نہیں دیتا تھا۔ یعنی ان کا دل پوری طرح مطمئن تھا کہ انجام اچھا ہی ہوگا۔ وہ ڈٹے رہے۔ مختلف موقعوں پر ڈٹ گئے۔
کچھ لوگ اس وقت بھی اعتراض کرتے تھے کہ فلاں موقع پر یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا گيا؟ کیونکہ وہ لوگ موجود نہیں ہوتے تھے، نہیں جانتے تھے، امور سے پوری طرح مطلع نہیں تھے۔ اس موقع پر جو کام انجام پائے، میں عمومی کاموں کی بات کر رہا ہوں، تفصیلات بیان نہیں کرنا چاہتا، ممکن ہے تفصیلات میں کچھ غلطیاں بھی ہوئي ہوں لیکن کل ملا کر مجموعی طور پر جو کام ہوا، وہ صبر و تقوی کے ساتھ ہوا اور آخر میں بحمد اللہ فتح ہمیں ہی حاصل ہوئي۔ مختلف معاملات کے بارے میں یہی چیز صادق آتی ہے۔
طاقت و پیشرفت کے کچھ اشاریے اور نشانیاں
مختلف شعبوں میں ہمارا جو اتنا کامیاب تجربہ ہے اس کے پیش نظر اگر کوئي آج عوام میں مایوسی پھیلانا چاہے، ان کے اندر تعطل کا احساس پیدا کرنا چاہے اور عوام کے جذبے اور عہدیداروں کے عزم کو کمزور کرنا چاہے تو واقعی یہ عوام پر بھی ظلم ہے، ملک پر بھی ظلم ہے اور انقلاب پر بھی ظلم ہے۔
(1) معیشت
یقینا بعض معاملات میں ہمارے اشاریے منفی ہیں۔ معیشت کے میدان میں ہمارے انڈیکیٹرز، اچھے نہیں ہیں۔ اسے ہم سب تسلیم کرتے ہیں۔ اگلے اور پچھلے عہدیداران اور سبھی جانتے ہیں کہ یہ اشاریے، اچھے اشاریے نہیں ہیں جو کافی برسوں سے اب تک چلے آ رہے ہیں۔ البتہ یہ سارے کے سارے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ یہ سارے معاشی مسائل یقینی طور پر دور ہو سکتے ہیں، ان شاء اللہ اور یقینا دور ہوں گے۔ لیکن ملک میں صرف معیشت کا ہی مسئلہ تو طاقت و پیشرفت کا پیمانہ نہیں ہے، دوسرے انڈیکیٹر بھی ہیں، انھیں بھی دیکھنا چاہیے۔ حتی کہ اسی معیشت کے میدان میں بھی، مختلف شعبوں میں کامیابی کی نشانیاں موجود ہیں جن میں سے کچھ کے بارے میں، میں عرض کروں گا۔
(2) معیشت کی مضبوطی اور دیوالیہ نہ ہونا
پہلی بات تو یہ کہ ہمارے ملک کے خلاف جو یہ پابندی لگائي گئي ہے – ہمارے خلاف جو پابندی لگائي گئي اور اب بھی لگي ہوئي ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ خود ان لوگوں نے کہا ہے کہ تاريخ میں کسی بھی ملک کے خلاف اس طرح کی پابندی نہیں لگائي گئی ہے – اس پابندی کے باوجود غیر ملکیوں کے اندازوں اور پیش گوئیوں کے برخلاف ہماری معیشت کو شکست نہیں ہوئي، وہ کہہ رہے تھے کہ ایران دیوالیہ ہو جائے گا۔ جی نہیں، معیشت اپنے پیروں پر کھڑی رہی۔ معیشت کی اتنی مضبوطی ایک بڑی کامیابی ہے۔
(3) پابندی سے استفادہ اور خود انحصاری تک رسائي
اس کے علاوہ ہم نے خود پابندیوں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ ہماری قوم، ہمارے عہدیداروں، ہمارے ذمہ داروں نے خود پابندیوں سے فائدہ اٹھایا ہے، کافی میدانوں میں ہم خود کفالت تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر ہم پر پابندی عائد نہ ہوتی، مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ جب کورونا کی وبا آئي تو ہم جا کر دنیا کی مختلف جگہوں سے ویکسین درآمد کرتے اور ویکسین بنانے کے بارے میں نہ سوچتے۔ آج پانچ چھے سینٹرز میں – جیسا کہ صدر مملکت نے بھی بتایا – ویکسین بنائي جا رہی ہے۔ یہ ایرانی قوم کے لیے ایک افتخار ہے، ملت ایران کے لیے ایک شرف ہے۔ جی ہاں، ہم نے دوسروں کی ویکسین بھی استعمال کی، کرنا ہی تھا، اس میں کوئي مضائقہ بھی نہیں تھا لیکن یہ ایک کامیابی ہے کہ ہم خود آگے بڑھے۔ بہت سارے شعبوں میں ہم خود انحصاری اور جدت طرازی تک پہنچ چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن میں ایسی بہت سی چیزیں دکھاتے ہیں کہ چار پانچ نوجوان اکٹھا ہوئے اور انھوں نے کوئي چیز تیار کی، ایک ایسی چیز جس کے لیے بہت زیادہ زر مبادلہ باہر بھیجنا پڑتا تھا، انھوں نے ملک کے اندر ہی تیار کر لی۔ اس کی کوالٹی بھی باہر والوں سے بہتر ہے، یہ ٹی وی پر دکھاتے ہیں، سب کی نظروں کے سامنے ہے، ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک قوم کی کامیابیاں ہیں، یہ ایک قوم کی پیشرفت ہے۔ یہی چیز معیشت کے بارے میں بھی ہے۔
(4) مقروض نہ ہونا
اسی معیشت کے میدان میں، ہمارا ملک پابندیوں کے باوجود، بڑے سخت حالات کے باوجود، مقروض نہ ہوا۔ بہت سے ملکوں پر آپ نظر ڈالیے، ہمارے پڑوسی ممالک بھی اور دوسرے بھی، حالانکہ ان پر پابندیاں نہیں تھیں اور نہ ہی اتنی دشمنی تھی، اس کے باوجود وہ تین سو ارب، چار سو ارب ڈالرعالمی بینک، آئي ایم ایف یا کسی ملک کے مقروض ہو گئے۔ ہمارا قرض تقریبا صفر ہے – صفر نہیں ہے لیکن صفر کے قریب ہے – یہ معمولی کامیابی نہیں ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یعنی اسی معیشت کے شعبے میں بھی، جس میں بہت سے منفی انڈیکیٹر ہیں، ایسے اشاریے بھی موجود ہیں۔
سائنسی و صنعتی پیشرفت
ہماری ایک اور کامیابی جو اپنے آپ میں ایک انڈیکیٹر ہے اور اس پر توجہ دی جانی چاہیے، ہماری سائنسی و صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔ مختلف عالمی دباؤ کے دوران، مختلف زمانوں میں ہم نے سائنس اور صنعت کے مختلف شعبوں میں پیشرفت کی ہے۔ یہ کوئي معمولی چیز نہیں ہے، بہت اہم چیز ہے۔ بہت سے عوامی اداروں – یعنی عوامی سرمایہ کاری کے اداروں نے – بڑے نمایاں کام انجام دیے ہیں اور ابھی کچھ ہفتے پہلے اسی امام بارگاہ میں ایک نشست تھی (26) جسے ٹی وی پر بھی نشر کیا گيا اور آپ نے دیکھا ہوگا۔ معاشی شعبے میں سرگرم افراد آئے، انھوں نے رپورٹ دی، رپورٹیں زبانی نہیں تھیں، یہاں اس کی تصویریں بھی دکھائي جا رہی تھیں، رپورٹوں میں بتایا گيا کہ بڑے بڑے کام ہوئے ہیں۔ پیداواری اور غیر پیداواری شعبوں میں سرگرم کمپنیوں نے کافی کام کیا ہے۔
ملکی مینجمینٹ کا عوامی عمل
ایک اور انڈیکیٹر، جس پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں، یہ ہے کہ ملکی نظم و نسق کا جمہوری عمل بڑی آسانی اور روانی سے آگے بڑھ گيا۔ آپ بعض دوسرے ممالک پر نظر ڈالیے کہ انھیں اپنے انتظامی امور میں اور انتخابات میں کتنی مشکلات در پیش ہیں: قبل از وقت انتخابات، انتخابات کی منسوخی و اسی طرح کی چیزیں۔ لیکن یہاں نہیں، یہاں تمام تر دشمنیوں کے باوجود، سارے کام قانونی طور پر صحیح طریقے سے آگے بڑھے اور نتیجے تک پہنچے۔ یہ ملکی امور کے لیے اہم اشاریے ہیں۔ ان کا بعض دوسرے ملکوں سے موازنہ کیجیے، پھر پتہ چلے گا کہ یہ کتنے اہم ہیں۔
میں واضح الفاظ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کامیابیاں اور دوسرے بہت سے امور جو موجود ہیں، جیسے اسٹریٹیجک گہرائي اور دوسرے ملکوں میں معنوی اثر و رسوخ وغیرہ، انھوں نے اسلامی جمہوریہ کو ایک پرکشش آئيڈیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ قطعی طور پر آج اسلامی جمہوریہ، بہت سی اقوام کے لیے ایک پرکشش نمونہ ہے۔ البتہ ہمارا پروپیگنڈہ محدود ہے جبکہ دوسرے ہمارے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ یعنی اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو پروپیگنڈہ ہوتا ہے، وہ خود ہمارے پروپیگنڈے سے کئي گنا زیادہ ہے۔ بنابریں بہت سی اقوام اور ملکوں کو اطلاع ہی نہیں ہے۔ بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ ان کے لیے جو رابطے میں ہیں، مطلع ہیں، جانتے ہیں، ایک پرکشش نمونہ ہے۔
بنابریں ان اشاریوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے، یعنی جو لوگ ملک کی صورتحال کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہیں، ان کی نظر صرف معیشت کے مسئلے پر نہ ہو۔ معیشت ایک انڈیکیٹر ہے۔ لیکن ساتھ ہی سیکورٹی کا انڈیکیٹر بھی ہے، سائنسی پیشرفت کا انڈیکیٹر بھی ہے، جدت عمل کے لیے پابندیوں سے فائدہ اٹھانے کا انڈیکیٹر بھی ہے، سفارتکاری کا انڈیکیٹر بھی ہے۔ یہ سب اشاریے ہیں۔ ان کو دیکھیے۔ ایک ملک کی طاقت، مختلف عوامل کے مجموعے کے ایک نظام پر استوار ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ طاقت اور اعتبار کے نظام کی اس شکل کو نہ دیکھنا اور نہ سمجھنا باعث ہوتا ہے کہ انسان غلط نتیجہ اخذ کرے۔ بنابریں پورے سسٹم کو دیکھنا چاہیے۔ جب انسان سسٹم کو دیکھتا ہے تو اس کی حالت مسرت بخش ہے۔
البتہ دشمن کی حرص زیادہ ہے، وہ بے بنیاد اور مایوس کن باتیں بھی کرتا ہے۔ پہلے بھی کرتے تھے، اب بھی کر رہے ہیں۔ انقلاب کی شروعات میں صدام حسین نے جب ایران پر حملہ کیا تو اس نے ہماری سرحدوں کے قریب، ایلام کے قریب ایک انٹرویو دیا، اس نے کہا کہ اگلا انٹرویو، اگلے ہفتے تہران میں ہوگا! یہ کہا تھا۔ اس نے اپنے آپ سے اور اپنے سننے والوں سے وعدہ کیا کہ اگلے ہفتے وہ تہران آئے گا، تہران کو فتح کرے گا اور اگلا انٹرویو دے گا۔ آپ نے دیکھا کہ جنگ میں اور جنگ کے بعد کیا انجام ہوا؟ جنگ میں ایک آپریشن کے دوران صدام کی صورتحال یہ ہو گئي تھی کہ وہ سپاہ پاسداران کے جانبازوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے قریب تھا۔ فتح المبین آپریشن میں اگر ہمارے سپاہی آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جاتے تو صدام کو گرفتار کر لیتے۔ وہ بھاگ گيا، قسمت اچھی تھی۔ آخرکار اس بدبختی اور حقارت کے ساتھ اور ایران کی شرطیں مان کر اور پھر ایران سے پناہ مانگ کر، اپنے طیاروں کو بغیر اجازت یکے بعد دیگرے اس نے یہاں بھیج کر رکھوایا، اس کا انجام ایسا ہوا۔ حال ہی میں، غالبا پچھلے سال، ایک امریکی جوکر نے کہا کہ کرسمس کا جشن تہران میں منائے گا۔ (27) اس طرح کی باتیں ہیں، کہتے ہیں لیکن حقیقت اس سے کوسوں دور ہے جو وہ چاہتے ہیں، جس کے وہ خواہاں ہیں۔
تو یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ امریکی کھل کر یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو ذلت آمیز شکست ہوئي ہے، یہ بہت بڑی بات ہے، بہت اہم بات ہے۔ یہ جو متکبر امریکا، گھمنڈی امریکا، مغرور امریکا اعتراف کر رہا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی میں اسے ذلت آمیز شکست ہوئي ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ بنابریں میرے عزیزو! نہ تو ہمیں مغرور ہونا چاہیے اور نہ ہی بے عملی کا شکار ہونا چاہیے۔ نہ تو اپنی اسپرٹ کھونی چاہیے اور نہ اپنے آپ پر گھمنڈ کرنا چاہیے۔ یہ دو نصیحتیں تھی جو میں نے عرض کیں۔
پروڈکشن کو نالج بیسڈ بنانے کے ساتھ ہی روزگار پیدا کرنے والا بنانا ممکن
کچھ کام سے متعلق سفارشات بھی ہیں۔ اگر بات بہت طولانی نہ ہو گئی تو عرض کروں گا۔ ایک تو اس سال کے نعرے کا مسئلہ ہے۔ ہم نے کہا کہ پروڈکشن دو خصوصیات کے ساتھ ہو: ایک خصوصیت یہ کہ نالج پر استوار ہے، نالج بیسڈ ہو اور دوسری خصوصیت ہے روزگار پیدا کرنے والا ہو۔ ہمارے اوپر ایک اعتراض ہوا، کہا گیا کہ یہ دونوں خصوصیات آپس میں ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اعتراض صحیح ہے۔ بعض مواقع پر ایسا ہی ہے۔ یعنی جیسے جیسے ٹیکنالوجی ڈیولپ ہوتی جاتی ہے، افرادی قوت کی ضرورت کم ہوتی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں نے پیغام دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے پاس اس کا جواب ہے۔ یقینا بعض مقامات پر ایسا ہی ہے لیکن ہمارے معاملے میں یہ صورت حال نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے یہاں ایسی کمپنیاں اور کارخانے بہت زیادہ ہیں جو بند پڑے ہیں یا اپنی گنجائش کا پچاس فیصدی کام کر رہے ہیں۔ نچلی سطح پر تو ان کی کافی تعداد ہے۔ لہذا نالج بیسڈ بنانے کا عمل ان کمپنیوں کے سلسلے میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ روزگار کے مواقع کئی گنا زیادہ ہو جائیں۔ یہ صورت حال ہے۔ لہذا ہم روزگار بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود نئی ٹیکنالوجی میں فطری طور پر توسیع کی خصوصیت ہوتی ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی کے میدان میں انسان جتنا آگے بڑھتا جاتا ہے، اس کے سامنے نئے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ لہذا روزگار پیدا کرنے کا عمل ہرگز اس سے متاثر نہیں ہوگا۔ یہ ممکن ہے کہ نالج بیسڈ پروڈکشن کو اپنا مطمح نظر بنایا جائے اور ساتھ ہی روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے رہیں۔
ہیومن ریسورس کی کوالٹی کا ارتقا
نالج بیسڈ پروڈکشن کے سلسلے میں اور اس اعتراض کے جواب میں ایک بات یہ بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر ہم نے اپنا پروڈکشن نالج بیسڈ بنا دیا تو گویا اس میدان میں کام کرنے والی اپنی ورک فورس کی کوالٹی کو بھی بہتر کر دیا ہے۔ یعنی نالج بیسڈ کمپنی میں کون سے افراد کام کریں گے؟ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان۔ آج یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہمارے بہت سارے نوجوان جن کی تعداد کا فیصد کافی زیادہ ہے، مجھے اعداد و شمار دئے گئے ہیں لیکن چونکہ میں نے خود چیک نہیں کیا ہے اس لئے بیان نہیں کر سکتا، تاہم اعداد و شمار کافی زیادہ ہیں۔ یہ لوگ ایسے شعبوں میں کام کر رہے ہیں جن کا ان کے سبجیکٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صورت حال ہے۔ یہ بہت بڑی مشکل ہے۔ یہ ایک طرح کی بے روزگاری ہے۔ محنت کی، تعلیم حاصل کی، پیسہ خرچ کیا، وقت صرف کیا لیکن اسے استعمال نہیں کر پا رہا ہے۔ یہ ایک طرح کی بے روزگاری ہے۔ جب ہم نالج بیسڈ کمپنیوں کی توسیع میں کامیاب ہو جائیں گے تو ان سارے نوجوانوں کو کام ملے گا اور ہماری مشینوں پر کام کرنے والے افراد کی مہارت و لیاقت کافی زیادہ ہوگی، اس میں ارتقاء پیدا ہوگا۔ ہمارے جینیئس افراد آکر کام کریں گے۔ جینیئس افراد غیر اہم کام انجام دینے پر مجبور نہیں ہوں گے۔
نالج بیسڈ کمپنیوں کے لئے کوالٹی کے ضوابط طے کرنے کی ضرورت
نالج بیسڈ کمپنیوں اور نالج بیسڈ پروڈکشن کے بارے میں ایک انتباہ دے دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ، البتہ پہلے انتباہ دیا جا چکا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی عرض کر دوں، نالج بیسڈ کمپنیوں کے لئے کوالٹی سے متعلق ضوابط رکھے جانے چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی کمپنی مثال کے طور پر چالیس سال پرانی ٹیکنالوجی کے مطابق کام کر رہی ہے، وہ بھی آکر نالج بیسڈ کمپنیوں کی فہرست میں اپنا نام درج کروا لے اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے لئے رکھی جانے والی سہولیات اور وسائل سے استفادہ کرے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ نالج بیسڈ کمپنی میں حقیقی معنی میں کوئی جدت عملی ہونی چاہئے۔ ہم بعض دیگر خصوصیات کا بھی ذکر کریں گے۔ یا کوئی کمپنی جو اسمبلنگ کا کام کرتی ہے، پارٹس لاکر اسمبل کرتی ہے، اسمبلنگ کا کام بھی در حقیقت بے لگام درآمدات کا حصہ ہے بس شکل بدلی ہوئی ہے، یہ پروڈکشن نہیں ہے، یہ پروڈکٹ بنانے کا عمل نہیں بلکہ ایک طرح کی امپورٹ ہے۔ اب یہی کمپنی آکر نالج بیسڈ کمپنی کے طور پر خود کو متعارف کرا دے! ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ لہذا ضروری ہے کہ صحیح پیمانے اور کوالٹی انڈیکیٹر معین کئے جائیں اور اس کا سنجیدگی سے خیال رکھا جائے، میری نظر میں یہ کام وائس پریزیڈنسی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یا دیگر ادارے کریں جن کے ذمے ان کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے کا کام ہے۔
نالج بیسڈ کمپنیوں کے لازمی معیارات
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہ پتہ لگانے کے لئے کہ ملکی پیداوار نالج بیسڈ ہوئی یا نہیں صرف نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد بڑھنا کافی نہیں ہے۔ آغاز سال کی اپنی گفتگو (28) میں میں نے تعداد پر زور دیا تھا۔ مثال کے طور پر عہدیداروں نے کہا تھا کہ اس تعداد میں، تو ہم نے کہا کہ نہیں اس سے زیادہ ہونا چاہئے، انھوں نے کہا کہ تیس فیصدی کا اضافہ ممکن ہے، ہم نے کہا کہ نہیں، کم سے کم پچاس فیصدی ورنہ سو فیصدی اضافہ ہونا چاہئے۔ یہ تعداد کی بات ہے۔ ایک اشاریہ یہ ہے، لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جو کمپنیاں وجود میں آئیں ان میں کچھ خصوصیات ہوں، یہ خصوصیات بہت اہم ہیں۔
(1) اختراعی سرگرمیاں
ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی اختراعی چیز ہو۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ زر مبادلہ باہر جانے سے روکے۔ اس وقت ہمیں بعض جگہوں پر کسی چیز کو امپورٹ کرنے کے لئے کافی مقدار میں زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اگر نالج بیسڈ کمپنی اس چیز کا پروڈکشن شروع کر دے یا اس کے پروڈکشن کے قریب پہنچ جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ زر مبادلہ ملک سے کم مقدار میں باہر جائے یا بالکل باہر نہ جائے۔ یہ بھی ایک معیار ہے۔
(2) روزگار پیدا کرنے والا اور ایکسپورٹ میں مددگار
روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی خصوصیت۔ یہ ایک پیمانہ ہے کہ کمپنیاں حقیقی معنی میں روزگار کے مواقع پیدا کریں، ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اپنی مصنوعات کو ایکسپورٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ یعنی عالمی اور بین الاقوامی سطح کی مصنوعات سے کمپٹیشن کرنے کے قابل ہوں۔ اس طرح کے معیارات وضع کئے جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے۔
(3) با مقصد ہو
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کی توسیع کے عمل میں کچھ ترجیحات کو مد نظر رکھا جائے۔ ایک ترجیح جو بہت اہم ہے یہ ہے کہ یہ کمپنیاں کسی مشکل کو حل کرنے والی ہوں۔ ملک میں ہماری کچھ مشخص اقتصادی مشکلات ہیں۔ یہ کمپنیاں کسی نہ کسی مشکل پر توجہ مرکوز کریں، کوئی مشکل حل کریں، ضرورت کے مطابق انھیں بنایا جائے۔ یعنی ان کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے ضرورت کا جائزہ لیا جائے۔ کچھ چیزیں ہیں جن پر اقتصادی گیرنٹی کا دارومدار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زراعت کا شعبہ ہے، اتفاق سے میں نے آغاز سال کی تقریر میں بھی کہا کہ بیرون ملک اور امپورٹ پر کافی حد تک انحصار کرنے والا ایک شعبہ زراعت کا شعبہ ہے۔ جبکہ زراعت کا شعبہ ہماری فوڈ سیکورٹی سے مربوط ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
نالج بیسڈ کمپنیوں میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ ملک کی اقتصادی سیکورٹی میں ان کا کلیدی رول ہو یا ماہر افرادی قوت کی ایک اچھی خاصی تعداد جو کہیں مصروف کار نہیں ہے، ان کمپنیوں میں لی جائے۔ یا وہ شعبے جن میں کمپنیاں خام مال جیسے معدنیات ایکسپورٹ کر رہی ہیں، بد قسمتی سے ملک میں معدنیات کے شعبے میں ہمیں گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے، ایک مشکل یہی خام مال کی فروخت ہے۔ تیل تو اپنی جگہ تیل کے شعبے میں واقعی ہماری کوئی ایڈڈ ویلیو نہیں ہے۔ گیس کے شعبے میں کسی حد تک ہے۔ جبکہ ماہرین کہتے ہیں کہ تیل کے شعبے میں کافی ایڈڈ ویلیو پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم تیل کی ذیلی صنعتوں کے بارے میں سوچیں، اسی طرح گیس کے شعبے میں اور معدنیات کے شعبے میں اسی انداز سے کام کریں۔ ہماری دھاتیں، پتھر، ملک میں قیمتی پتھر ہیں، ہمارے ملک میں گراں بہا پتھروں کی کتنی کانیں ہیں؟! ان چیزوں کو ایڈڈ ویلیو حاصل کئے بغیر، کوئی کام کئے بغیر یونہی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ بہت اچھا ہوگا کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کو ہم ان شعبوں پر لگائیں۔
حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف سے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت
نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں ایک نکتہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ ہم صحیح معنی میں نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کریں۔ حکومتی ادارے حمایت کریں۔ ملک کے اندر مصنوعات کی سب سے بڑی کنزیومر (صارف) حکومت ہے۔ حکومت نالج بیسڈ کمپنیوں کی مصنوعات کو استعمال کر سکتی ہے۔ یہ جو ہم نے بے لگام درآمدات پر روک لگانے کی بات بارہا کہی ہے اس کا ایک واضح مصداق یہی چیز ہے۔ ان کمپنیوں اور ان کی مصنوعات کی حمایت کی جائے۔
خام مال نہیں مصنوعات ایکسپورٹ کرنے پر توجہ
ایک اہم اقتصادی مسئلہ یہی 'خام فروشی' ہے جو ہم نے عرض کیا۔ ہم خام مال بہت سستی قیمتوں پر ایکسپورٹ کر دیتے ہیں، پھر اسی سے تیار ہونے والی مصنوعات کو مہنگی قیمتوں پر بیرون ملک سے امپورٹ کرتے ہیں۔ ان دونوں قیمتوں کا فرق بھی مجھے لکھ کر بھیجا گیا، ان امور کے ماہرین نے بتایا بھی ہے۔ یہ فرق بہت زیادہ ہے۔ ہم خام مال سستے داموں فروخت کر دیتے ہیں اور اس کی مصنوعات کو مہنگے داموں پر امپورٹ کرتے ہیں۔ جبکہ ہمیں چاہئے کہ اس سے خود مصنوعات تیار کرکے انھیں ایکسپورٹ کریں۔ ملکی ایکسپورٹ اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ پروڈکشن کو اس سمت میں لے جانا چاہئے۔ نالج بیسڈ پروڈکشن اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے کہ ہم گوناگوں شعبوں میں مصنوعات کو برآمد کریں۔
کلی پالیسیوں کی بنیاد پر ساتویں ترقیاتی پروگرام کی تدوین
ملک کا ایک اہم مسئلہ جس کے بارے میں متعلقہ عہدیداروں سے بات کر چکا ہوں، اس وقت یہاں حکومت کے بھی اور پارلیمنٹ کے بھی عہدیداران تشریف رکھتے ہیں، یہ ساتویں ترقیاتی پروگرام کا موضوع ہے۔ یہ پروگرام سال گزشتہ منظور ہو جانا چاہئے تھا اور اس سال سنہ 1401 ہجری شمسی کے سالانہ پروگرام کی بنیاد قرار پانا چاہئے تھا۔ بہرحال سال گزشتہ تو نہیں ہو پایا تو اس سال اسے ان شاء اللہ کسی منزل تک پہنچا دیجئے۔ ہمت دکھائیے کہ کلی پالیسیوں کی بنیاد پر یہ پروگرام تیار ہو اور حکومت میں اور پارلیمنٹ میں یہ کام نمٹا لیا جائے۔
عہدیداران کا عوامی ہونا اور عوامی باقی رہنا
ایک اہم چیز ہے عوامی ہونا جس کی طرف صدر محترم نے اشارہ کیا اور یہ بالکل درست ہے۔ یہ عوام کے درمیان جانا اور یہ صوبائی دورے بہت اہم چیز ہے، بہت اچھا کام ہے، مشکلات کی گرہیں کھولنے والا کام ہے۔ کچھ چیزیں ہوتی ہیں کہ انسان اگر خود نہ دیکھے، یا اس میدان میں موجود افراد کی زبان سے نہ سنے یا وہاں جاکر دیکھنے اور آکر صورت حال کو بتانے والے معتمد افراد سے نہ سنے، جب تک یہ طریقہ نہ ہو، حقائق کو سمجھا نہیں جا سکتا اور حقائق کی بنیاد پر منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ عوامی ہونا بہت اہم ہے لیکن عوامی ہونے کا ایک سب سے اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ عوامی ہی بنے رہئے۔ عوامی بنے رہئے اور اس سے ہرگز نہ تھکئے۔ صبر کی جو میں نے بات کی تو اس کا ایک مصداق یہ بھی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ شروع میں تو ہم عوامی رہیں پھر بتدریج تھک جائیں! نہیں۔ واقعی عوامی ہی بنے رہئے۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ صوبائی دورے ٹرم پورا ہونے تک جاری رہیں۔ نہیں۔ ممکن ہے کہ کبھی انھیں روک دیا جائے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن عوامی ہونے کا مطلب صرف یہ صوبائی دورے نہیں ہیں۔ عوام سے رابطہ رکھنا، عوام کی زبان سے ان کی باتیں سننا، ان کے نکات سننا۔ کبھی کبھی عام شہریوں کی زبان سے ایسی باتیں سننے کو مل جاتی ہیں جو ماہر مشیران جو عہدیدار کے قریب ہوتے ہیں وہ بھی نہیں بتا پاتے۔ وہ باتیں انسان کے لئے زیادہ مفید واقع ہو سکتی ہیں۔ عوام سے رابطہ اور عوام کی طرف سے آنے والی رپورٹوں میں یہ حسن ہوتا ہے۔
آرٹیکل 44 کی پالیسیوں کا مکمل نفاذ ضروری
ایک نکتہ اور بھی جس پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں، یہ آرٹیکل 44 کی پالیسیوں کا مسئلہ ہے۔ چند سال قبل ان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گيا۔ سب نے خوب تعریف و تحسین کی کہ کتنی اچھی پالیسیاں ہیں؟! لیکن عمل نہیں ہوا۔ واقعی مختلف حکومتوں سے ہمیشہ اس سلسلے میں تاکید کی گئی اور انھوں نے کہا بھی کہ ہم ان پر عمل کرنا چاہتے ہیں، لیکن آرٹیکل 44 کی پالیسیوں پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہوا۔ حقیقی معنی میں ملکی معیشت کی ذمہ داری عوام کے کاندھوں پر ڈالی جانی چاہئے۔ حکومت صرف اپنا مخصوص حکومتی کردار ادا کرے، خود اپنے ہاتھ میں نہ لے۔ یہ بہت اہم ہے۔ کبھی آپ کوئی بوجھ اپنے دوش پر اٹھاتے ہیں اور پیدل تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ایک شہر سے دوسرے شہر اسے ڈھونا چاہتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ اسے بخوبی کام کرنے والی گاڑی پر لاد دیتے ہیں اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ دوسری روش صحیح ہے۔ اچھا کام کرنے والی گاڑی ملک کے اقتصادی شعبے کے افراد ہیں۔ آپ انھیں سرگرم کیجئے۔ البتہ ان کی کارکردگی پر نظر رکھئے۔ اس کے لئے پالیسیاں بنائيے، نگرانی کیجئے، کوئی غلطی نہ ہونے پائے، کوئی بھول نہ ہونے پائے۔ لیکن آپ انھیں کو کام کرنے دیجئے۔ اس سے وہ بھی نفع کمائیں گے، عوام کو بھی فائدہ پہنچے گا، حکومتی عہدیداران کی حیثیت سے آپ کو بھی فائدہ ملے گا۔ تو ایک موضوع یہ بھی تھا۔
تیل پر غیر منحصر معیشت کی سمت پیش قدمی کی ضرورت
ایک موضوع اور بھی ہے اور یہ بھی بہت اہم ہے، البتہ یہ دراز مدتی کام ہے، یہ غیر پیٹرولیم اقتصاد کے فروغ کا موضوع ہے۔ ان ملکوں کی طرح جن کے پاس تیل نہیں ہے مگر اقتصادی نمو حاصل کر رہے ہیں، اقتصادی پیشرفت حاصل کر رہے ہیں، ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ تیل کے اس 'نشیلے مادے' نے پچھلے سو سال سے ہمیں نشے کا عادی بنا رکھا ہے۔ واقعی بڑا گہرا نشہ ہے۔ البتہ یہ کام کوتاہ مدت میں نہیں ہو سکتا، دراز مدت میں ایسا کرنا ممکن ہے۔ یہ آج کل میں ہونے والا کام نہیں ہے اور صرف ایک حکومت کے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ اگر مسلسل کئی حکومتیں بلند ہمتی کا مظاہرہ کریں تب ممکن ہے کہ دو حکومتوں کے آٹھ آٹھ سالہ ٹرم میں اس ہدف کو پورا کیا جائے۔ البتہ میں نے یہ موضوع سالہا قبل اٹھایا تھا۔(29) اگر اس وقت سے اس پر کام ہوا ہوتا تو یقینا آج ملک کی حالت کچھ اور ہی ہوتی۔ مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔
زر مبادلہ کی آمدنی کو انفراسٹرکچر کی توسیع پر خرچ کرنے کی ضرورت
ایک اور اہم موضوع زر مبادلہ کے ذخیرے سے متعلق ہے کہ ہم اسے کہاں خرچ کریں اور کس طرح خرچ کریں؟ ضروری ہے کہ ہم خیال رکھیں کہ اگر کہیں سے زر مبادلہ کے سلسلے میں ایک راستہ کھل رہا ہے تو اس رقم کو بے لگام امپورٹ پر صرف نہ کریں، ملک کے انفراسٹرکچر سے متعلق کاموں پر صرف کریں۔ ملک کو ساختیاتی پروجیکٹوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نقل و حمل کا میدان، ریل ٹرانسپورٹ، نالج بیسڈ کمپنیوں سے متعلق بہت سے امور، ہمسایہ ممالک سے جوڑنے والے راستے۔ یہ انفراسٹرکچر کے شعبے کے کام ہیں جنہیں انجام دینا ضروری ہے۔ ملک کو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ صنعتوں کی جدیدکاری، ہماری بہت سی پرانی صنعتیں قدیم طرز کی ہیں، ان کی جدیدکاری کے لئے زر مبادلہ کی ضرورت ہے۔ ان چیزوں پر خرچ ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ جیسے ہی ہمیں کوئی پیسہ ملے مثال کے طور پر پھر لگژری اشیاء کی درآمدات کا راستہ کھول دیا جائے! کہا جاتا ہے کہ بہت سی چیزیں اسمگلنگ کے راستے آتی ہیں۔ لیکن اسمگلنگ پر بھی روک لگانا چاہئے۔ واقعی یہ بڑے اور بہت اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ کتے کا چارہ بیرون ملک سے امپورٹ کیا جائے، میک اپ کا سامان بے تحاشا مہنگی قیمتوں پر امپورٹ کیا جائے! ان چیزوں پر ایک ریال بھی خرچ نہیں کرنا چاہئے۔ بڑی مقدار میں پیسے کے خرچ کی تو بات ہی چھوڑئے! مختصر یہ کہ ہمیں بہت سے ساختیاتی پروجیکٹ پورے کرنے ہیں۔ ملک میں یہی پانی کا مسئلہ، پانی کی مشکل بھی انفراسٹرکچر سے متعلق مسئلہ ہے اور اس کی راہ حل بھی موجود ہے، بس پیسے کی ضرورت ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمیں معلوم ہوا، اطلاع ملی ہے کہ یہ حکومت اس میدان میں بہت اچھا کام کر رہی ہے، کام انجام پا رہا ہے۔ یہ کام ہونا چاہئے۔ پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
ملکی مسائل کے حل کے لئے عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کی کوآرڈینیشن کمیٹی کی توانائیوں سے استفادہ
ملکی عہدیداران کے پاس بہت اہم ذریعہ یہی تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) کے سربراہوں کی کو آرڈینیشن کمیٹی ہے جسے گزشتہ حکومت کے زمانے میں منظوری ملی اور اس نے کام شروع کیا، بہت بڑے کام انجام دئے۔ بے شک اس کمیٹی کی بنیادی اور ابتدائي ذمہ داریوں میں تین چار بنیادی کام ہی تھے، جس میں ایک کام بجٹ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح کرنا تھا۔ ایک بینکوں کا مسئلہ تھا۔ یہ کام بدستور انجام دئے جائیں۔ بجٹ کی اصلاح کا عمل جاری رہے، بجٹ کے ڈھانچے میں مشکلات ہیں۔ شروع ہی سے اس ٹیم کی ایک ذمہ داری پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کو مینیج کرنا معین کیا گيا تھا۔ اس کی توانائیوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے۔ تینوں شعبوں کے سربراہان بھرپور تعاون اور مکمل یکجہتی کے ساتھ، بحمد اللہ ان کے درمیان یکجہتی موجود بھی ہے، اس کام کو انجام دیں۔ تو یہ اقتصادی مسائل کی بات تھی، اس نے ہمارا کافی وقت لے لیا، گفتگو بھی طولانی ہو گئی۔
ثقافت کے مسئلے میں دانشمندی سے جدوجہد کی ضرورت
ثقافت کا انتہائی حیاتی مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علم و ثقافت کے میدان میں ایک دانشمندانہ جدوجہد کی ضرورت ہے جو بالکل صحیح سمت میں ہو۔ ذمہ دار سرکاری ادارے جیسے وزارت ارشاد، ادارہ تبلیغات، دفتر تبلیغات، جیسے قومی نشریاتی ادارہ، جیسے سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب پہلے نمبر پر اس درخواست میں پیش نظر ہیں۔ دوسرے نمبر پر ، ویسے دوسرے نمبر پر نہیں کہنا چاہئے، ملکی سطح پر پھیلے ہوئے ثقافتی کارکنان ہیں، جن کی تعداد الحمد للہ کم نہیں ہے، کافی زیادہ ہے۔ واقعی سب اس کلیدی مسئلے پر توجہ دیں، اسے اہمیت دیں۔ البتہ یہ کام دائمی اور شب و روز کی جدوجہد کی صورت میں انجام دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دانشمندانہ انداز میں ہو، آنکھ بند کرکے کورانہ انداز میں نہ کیا جائے۔ درست سمت میں آگے بڑھیں۔ تو ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔
ملک کی ڈپلومیسی میں ایٹمی مذاکرات کی خاطر وقفہ نہ آئے
ایک اور مسئلہ ڈپلومیسی کا مسئلہ ہے۔ بحمد اللہ ملک کی سفارت کاری اچھی سمت میں آگے جا رہی ہے۔ سفارت کاری کے شعبے میں جو مسئلہ مورد توجہ ہے وہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ یقینا آپ ایٹمی مسئلے سے متعلق خبروں پر نظر رکھتے ہوں گے، متعلقہ مسائل سے آگاہ ہوں گے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، حکومتی عہدیداران بھی کہہ چکے ہیں، جناب صدر مملکت بھی بار بار تاکید کر چکے ہیں کہ آپ اپنے پروگرام ترتیب دینے کے سلسلے میں ہرگز ایٹمی مذاکرات کا انتظار نہ کیجئے۔ ہرگز! آپ اپنا کام کیجئے۔ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھئے اور موجودہ حالات کے مد نظر منصوبہ بندی کیجئے۔ ممکن ہے کہ ایٹمی مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچ جائیں، مثبت نتیجے پر، پچاس فیصد مثبت نتیجے پر، یا منفی نتیجے پر۔ جو بھی ہو آپ اپنا کام کرتے رہئے۔ اپنے کاموں کو ان چیزوں پر منحصر نہ کیجئے۔ خوش قسمتی سے محترم وزیر خارجہ اور مذاکراتی ٹیم کے افراد اپنی دقیق رپورٹیں صدر مملکت کو دیتے ہیں، اعلی قومی سلامتی کونسل کو پیش کرتے ہیں، سب حالات سے آگاہ ہوتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں، غور کرتے ہیں، مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
عہدیداران پر تنقید کے شرایط: حسن ظن پر مبنی ہو، انھیں کمزور کرنے کا سبب نہ بنے، عوام میں مایوسی پیدا کرنے والی نہ ہو
البتہ ان عہدیداران کی کارکردگی پر تنقید کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اظہار خیال میں کئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خیال رکھئے کہ یہ اظہار خیال اور یہ تنقید بدگمانی پر مبنی نہ ہو۔ البتہ میں ہمیشہ عہدیداران سے کہتا رہا ہوں، ساری حکومتوں میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ جو افراد میدان میں ہیں اور فرنٹ لائن پر مصروف عمل ہیں ان کے بارے میں بدگمانی اور سوء ظن نہیں رکھنا چاہئے۔ مومن افراد، انقلابی افراد، محنتی افراد، لگن سے کام کرنے والے افراد مصروف عمل ہیں، اس میدان میں کام کر رہے ہیں۔ اگر ان پر کوئی تنقید کی جائے تو وہ خیر خواہانہ ہونا چاہئے، بدگمانی پر مبنی نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرے ان افراد کی حوصلہ شکنی کرنے والی نہ ہو جو اس میدان میں کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں۔ اس سے عوام میں ناامیدی نہ پھیلے۔ یعنی اس انداز سے بات نہ کی جائے کہ وہ مایوس ہوں۔
ملکی حالات میں ڈیڈ اینڈ کی کیفیت نہیں
ہماری مذاکراتی ٹیم نے بحمد اللہ فریق مقابل کے بے جا مطالبات اور منہ زوری کی مزاحمت کی ہے اور بے شک توفیق خداوندی سے آئندہ بھی مزاحمت کرے گی۔ وعدہ شکنی فریق مقابل نے کی ہے۔ اب خود ہی اپنی اس عہد شکنی میں الجھ کر رہ گئے ہیں، پھنس گئے ہیں۔ یعنی فریق مقابل جس نے وعدہ خلافی کی اور بقول خود اس معاہدے کو پھاڑا، آج خود ہی اس میں پھنس گئے ہیں اور انھیں بند گلی میں پہنچ جانے کا زیادہ احساس ہے۔ بحمد اللہ ہم خود کو بند گلی میں نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم ان سختیوں کو برداشت کرنے اور انھیں عبور کرنے میں کامیاب رہے۔ بہت ساری مشکلات سے عبور کر چکے ہیں اور دیگر مشکلات سے بھی توفیق الہی سے گزر جائیں گے۔
فلسطینی نوجوان اور زندہ مسئلہ فلسطین
ایک اور موضوع فلسطین کا ہے، ایک بات اس بارے میں بھی عرض کر دوں۔ فلسطین ثابت کر رہا ہے کہ بحمد اللہ زندہ ہے۔ فلسطین زندہ ہے۔ امریکی پالیسیوں اور امریکہ کے پٹھوؤں کی پالیسیوں کے برخلاف جو چاہتے تھے کہ مسئلہ فلسطین بھلا دیا جائے، یہ مسئلہ فراموش کر دیا جائے، لوگوں کو یاد ہی نہ رہے کہ فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملت فلسطین نام کی کوئی قوم تھی، ان کی خواہش کے برخلاف مسئلہ فلسطین روز بروز زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ آج فلسطینی نوجوان 1948 کے مقبوضہ علاقوں کے اندر، دور دراز کے علاقوں میں نہیں، خود مقبوضہ فلسطین کے قلب میں بیدار ہو چکے ہیں، حرکت میں آ گئے ہیں، محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یقینا جاری رہے گا اور توفیق خداوندی سے، وعدہ الہی کے مطابق فتح و کامرانی فلسطین کے عوام کا مقدر بنے گی۔
سعودی حکام کو جنگ یمن بند کرنے کی نصیحت
مسئلہ یمن کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یمن کے مسئلے میں میں ان سعودی حضرات سے ایک نصیحت کی بات کہنا چاہتا ہوں، واقعی یہ بات خیر خواہانہ نصیحت کے طور پر کہہ رہا ہوں: آپ اس جنگ کو کیوں طول دے رہے ہیں جس کے بارے میں یقین ہے کہ فتح نہیں مل سکتی؟ کیا جنگ یمن میں سعودی عرب کی فتح کا کوئی امکان ہے؟ کوئی امکان نہیں ہے۔ یمن کے عوام جس ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ان کے رہنما جس شجاعت کا ثبوت دے رہے ہیں، مختلف میدانوں میں وہ جس طرح کی جدت عملی پیش کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر (سعودی اتحاد کی) فتح کا امکان نہیں ہے۔ تو پھر اس جنگ کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں فتح کا امکان نہیں ہے؟ کوئی راستہ نکالئے اور خود کو اس جنگ سے نجات دلائیے۔ حالیہ دنوں مذاکرات ہوئے اور کاغذ پر ہی سہی یا زبانی حد تک ہی سہی دو مہینے کی جنگ بندی کا اعلان کیا ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ اگر واقعی صحیح معنی میں جنگ بندی ہو خواہ دو مہینے کی ہی ہو تو بھی غنیمت ہے، بہت اچھی بات ہے، اسی کو جاری رکھنا چاہئے۔ یمن کے عوام بھی بڑے صبر والے ہیں اور اس قضیئےمیں مظلوم واقع ہوئے ہیں۔ اللہ مظلوموں کی مدد کرتا ہے۔ یمن کے ثابت قدم عوام اور فلسطین کے مزاحمت کار عوام پر ان شاء اللہ لطف خداوندی ہوگا۔
اسلامی نظام کے کارگزاروں کو سفارش: منصب پر رہتے ہوئے اس موقع کو غنیمت جانئے، خلوص سے خدمت کیجئے
میرے آخری چند معروضات یہ ہیں۔ عزیز بھائیو اور بہنو! منصب پر رہ کر کام کرنے کا وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے، بہت تیزی سے گزرتا ہے،ختم ہو جاتا ہے، اس موقع کو غنیمت جانئے اور اس کے ہر گھنٹے کا بخوبی استعمال کیجئے۔
دوسری سفارش: نمائش کے لئے کام نہ کیجئے۔ یہ ذہن میں نہ رہے کہ اس علاقے کے لوگوں کو جنہوں نے مجھے منتخب کیا ہے یا مثال کے طور پر جو لوگ ٹیلی ویژن پر مجھے دیکھ رہے ہیں، انھیں اچھا لگے۔ یہ چیز آپ کے عمل کی برکت کو ختم کر دے گی۔ یہ رجحان کہ آپ اس فکر میں رہیں کہ لوگوں کو آپ کا کام پسند آئے، رضائے پروردگار آپ کو مطلوب نہ ہو، آپ کے عمل کی برکت کو ختم کر دے گا اور بسا اوقات آپ کی محنت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی۔
تیسری چیز مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ پارلیمنٹ میں مفادات کے ٹکراؤ کا لفظ بار بار سنائی دیتا ہے۔ مفادات کا ٹکراؤ صرف اقتصادی امور میں نہیں ہوتا، دوسرے میدانوں میں بھی مفادات کے ٹکراؤ کا تصور ہے۔ اگر ہمیں اور آپ کو اس بات سے فائدہ پہنچنے والا ہے کہ عوام کی توجہ ہماری جانب مرکوز ہو، جبکہ دوسری طرف ملک کا عمومی فائدہ ہے تو ایسی صورت میں بھی مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ ہم کس مفاد کو فوقیت دیں گے؟ اگر ہم نے اپنی عزت اور اپنی مقبولیت کو ملکی مفاد پر ترجیح دی تو یہ مفادات کے ٹکراؤ کی صورت حال ہے۔ ہمیں اللہ کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے۔
حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان کاموں اور اختیارات کی لائنوں کو ملحوظ رکھنا
آئین میں پارلیمنٹ اور حکومت دونوں کے واضح اور مشخص فرائض ہیں۔ میں ایک اور ملاقات میں پہلے بھی یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ ان حدود کو ملحوظ رکھئے۔ ایسا ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھے تاکہ انسان حکومت سے اس کے بارے میں سوال کر سکے اور پارلیمنٹ سے بھی اس کی ذمہ داری والی چیزوں کے بارے میں سوال کیا جا سکے، پارلیمنٹ کے بارے میں بھی فیصلہ کر سکے، رائے قائم کر سکے۔ اگر امور اور معاملات ایک دوسرے میں مخلوط ہو جائیں گے تو فیصلہ کر پانا مشکل ہو جائے گا۔
پروردگار! محمد و آل محمد کا واسطہ ہماری نیتوں کو صادق بنا دے۔ ہم نے جو کہا اور جو کیا، جو کہیں گے اور جو کریں گے اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ پروردگار! ہمارے دلوں کو اپنی ذات کے لئے اخلاص عمل سے سرشار اور لبریز فرما۔ پروردگار! محمد و آل محمد کا واسطہ ہمارے بزرگوار امام خمینی کو جنہوں نے اس ملت کو یہ راستہ دکھایا، ہمیں اس وادی میں پہنچایا، اس راستے کی ہدایت کی، اپنے انبیاء کے ساتھ، اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ ان کی پاکیزہ روح کو ہم سے راضی کر، ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو ہم سے راضی کر، ان کے خاندانوں کو اجر و صبر اور لطف و رحمت عطا فرما۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ وبرکاتہ