بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.
السّلام علیک یا سیّدتی یا فاطمة المعصومة یا بنت موسی بن جعفر و رحمة الله و برکاته.
قم کے پرجوش اجتماع سے ملاقات اس حقیر کے لیے ہمیشہ سے ایک قابل استفادہ موقع رہا ہے؛ ہم دو سال سے اس سے محروم تھے، آج ہمیں ایک بار پھر اس اجتماع سے ملاقات کا موقع ملا ہے اور ہم قم کے تمام عزیزوں کو اپنا سلام پنچاتے ہیں اور ان سے اظہارِ عقیدت کرتے ہیں۔
آج ہم 19 دی (9 جنوری 1978) کے ایک اہم اور تاریخی واقعے کے بارے میں بات کریں گے۔ کچھ تاریخی واقعات جو گہرے عنوانات پر مشتمل ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لوگوں کو بلند پیغامات دیتے ہیں، انہیں زندہ رکھنا چاہیے۔ ان پر بات ہونی چاہیے، گفتگو ہونی چاہیے۔ ہمیں ان عظیم واقعات پر فراموشی کے سپرد نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ایسا ہی واقعہ 19 دی کا ہے۔
بلاشبہ جب ہم 19 دی کے واقعے پر بات کرتے ہیں تو درحقیقت یہ واقعہ اور اس واقعے کے اثرات - [کیونکہ] یہ واقعہ انقلاب کی فتح کا باعث بننے والی تحریکوں کا سلسلہ آغاز تھا؛ لہذا، اس واقعے پر ہماری نگاہ صرف ایک یا دو دنوں میں محدود واقعہ جیسی نہیں ہے۔ اس واقعے کو ایک عظیم تبدیلی کے منبع کے طور پر دیکھنا لوگوں کے مذہبی عقیدے کی گہرائی کی علامت ہے۔ ہم اس نکتے پر تاکید کرتے ہیں، زور دیتے ہیں؛ [یہ] انقلاب کی واضحات میں سے ایک ہے، لیکن ان لوگوں کا پروپیگنڈہ، جن کے دلوں میں انقلاب کی نفرت اب بھی موجود ہے، رفتہ رفتہ انقلاب کے واضحات پر بھی سوالیہ نشان لگنے کا سبب بنتا ہے۔ میں اس بات پر تاکید کرتا ہوں کہ قم میں 19 دی کا واقعہ اور اس کے بعد کا واقعہ لوگوں کے مذہبی اعتقاد کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس واقعہ کا تعلق ایک دینی رہنما سے، مرجع تقلید سے، جن کے محور پر یہ واقعہ رونما ہوا۔ یعنی اگر اس واقعہ کا محور امام راحل رضوان اللہ کی شخصیت بطور مرجع تقلید، روحانی پیشوا اور مجاہد عالم نہ ہوتی تو یہ واقعہ رونما نہ ہوتا اور کچھ ایسا واقع نہیں ہوتا۔ کوئی دوسرا شخص، کوئی دوسرا رجحان، کچھ نہیں کر سکتا تھا اور ایسی صورت حال پیدا نہیں کرسکتا تھا کہ ایک شہر، پھر دوسرا شہر، پھر بہت سے دوسرے شہر، اور آخر میں ایک قوم اس طرح اس راستے پر چل پڑے۔
آپ جانتے ہیں کہ آمرانہ دور حکومت میں مختلف بائیں، دائیں، مارکسسٹ اور دیگر سیاسی دھاروں کے سینکڑوں نمایاں افراد اور شخصیات کو، جن میں سے کچھ یا زیادہ تر جدوجہد میں مصروف بھی تھے، کو دھمکیاں دی گئیں اور انکی توہین کی گئی، لیکن ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا؛ یعنی یہ چیزیں لوگوں کے سماجی ماحول پر کوئی اثر نہیں ڈال سکی تھیں، لیکن عظیم امام خمینی رح کے بارے میں اخبار میں چار سطریں لکھی گئیں، نتیجے میں یہ عظیم واقعہ قم میں پیش آیا؛ مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کا تعلق مرجع تقلید، روحانی عالم، دین اور دینی مسائل سے ہے۔
اور میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے ملک میں پچھلے 150 سالوں میں جو اہم واقعات پیش آئے ہیں ان میں سے زیادہ تر میں اسی طرح ہے۔ تقریباً تمام تاریخی واقعات، سماجی واقعات، ایسے واقعات جن میں لوگ میدان میں اترے اور کچھ حاصل کرنے اور پورا کرنے میں کامیاب رہے - یعنی جہاں تک مجھے یاد ہے - ایک مذہبی پیشوا، ایک عالم دین اور ایک شجاع، مجاہد اور سیاست شناس عالم کا کردار کلیدی کردار ہے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ تمباکو کے معاملے میں مرزا شیرازی ہیں۔ تحریک مشروطہ میں نجف کے مراجع، تہران، تبریز، اصفہان اور دیگر مقامات کے عظیم علماء ہیں۔ مسجد گوہرشاد کے اہم واقعہ مرحوم حاج آقا حسین قمی (رضوان اللہ علیہ) اور مشہد کے علماء کرام ہیں؛ 30 تیر کے واقعہ میں مرحوم آیت اللہ کاشانی ہیں؛ سال 1342 میں خرداد کی 15 تاریخ میں عظیم امام خمینی رح اور کچھ دوسرے بزرگ اور علماء موجود ہیں۔ ان تمام واقعات میں ایک بہادر، مجاہد اور سیاسی عالم موجود ہے اور اس کی موجودگی ہی عوامی تحریک کا ذریعہ ہے۔ ہاں، مثال کے طور پر، ایک شخص، ایک بااثر شخص، بہت سے لوگوں کو ایک جگہ تحرک میں لاسکتا ہے، لیکن لوگوں کی عظیم تحریک، اس عظیم سمندر کو ہلانا اور اس میں موجیں ایجاد کرنا، صرف عالم دین کا کام ہے۔ ایک روحانی پیشوا کا کام ہے؛ اور یہیں سے عالم دین سے، سیاسی علماء سے، سیاسی دین سے، سیاسی فقہ سے، سیاسی عالم سے دنیا کی استکباری طاقتوں کی دشمنی کا راز سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں دشمن ہیں؟ کیونکہ ان کی موجودگی استکبار مخالف اور استعمار دشمنی کی علامت ہے اور انھوں نے یہ عظیم تحریکیں ایجاد کی ہیں۔ وہ جانتے ہیں، اس لیے وہ سیاسی عالم کے خلاف ہیں، وہ سیاسی مرجع کے خلاف ہیں، وہ سیاسی فقہ کے خلاف ہیں، وہ واضح طور پر کہتے ہیں کہ سیاسی مذہب اور سیاسی اسلام کے خلاف ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے ساتھ امریکہ کی گہری دشمنی اور نفرت کو یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا نظام عوام کے مذہبی عقیدے کا مظہر ہے اور دنیا اور ملک کے موجودہ مسائل پر دین سے پیدا ہونے والے انقلابی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے؛ اسی وجہ سے استکبار کا سرغنہ جو کہ امریکہ ہے اسلامی جمہوریہ کا مخالف ہے۔ اب کچھ لوگوں کا یہ کہنا سادگی ہے کہ آپ امریکہ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں، آپ کیوں کہتے ہیں "امریکہ مردہ باد،" یہ ہمارے خیال میں یہ سادگی ہے، صرف ظاہری نگاہ سے دیکھنا ہے۔ مسئلہ کی گہرائی یہ ہے کہ استکبار کی نوعیت فطری طور پر اسلامی جمہوریہ جیسے رجحان کے خلاف ہے، جس کی ہر چیز مذہب سے ہے، علماء کی تشریح اور مذہبی تحریک سے متعلق ہے۔ فطری طور سے مخالف ہے۔ یہ 19دی کے بارے میں ایک مطلب اور ایک نکتہ ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اس معاملے میں لوگوں کی مذہبی غیرت اور جوش و جذبہ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ میری اس پر تاکید کرنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان پروپیگنڈہ ہوتے دیکھ رہا ہے، اور درحقیقت دینی غیرت سے ماخوذ چیزوں پر غیر معقولیت اور غیر معقول شدت پسندی کا الزام لگانے کی ایک وسیع ثقافتی تحریک چلائی جارہی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دینی غیرت، جہاں بھی ظاہر اور با اثر ہے، عقلیت کے ساتھ ہے۔ اور دینی غیرت بنیادی طور پر بصیرت کی وجہ سے ہے جو عقلیت کی ایک شاخ ہے اور مذہبیت کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے اور اکثر صورتوں میں یہ دینی غیرت جب آپ مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کا تعلق عقلیت سے ہے۔ وہ شخصیات جو سب سے زیادہ دینی غیرت رکھتے ہیں، یہ اکثر انتہائی عقلی ہوتی ہیں۔ اس کی مثال عظیم امام کی ذات ہے؛ جو مذہبی غیرت اور جوش و جذبہ کی چوٹی تھی، ہم نے واقعتاً کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا اور نہ ہی جانتے ہیں جو مذہب اور مذہبی ثقافت اور مذہبی زندگی اور مذہبی طرز زندگی اور قواعد و ضوابط کے لحاظ سے امام جیسا غیرتمند ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عقلیت کے عروج پر تھے؛ نہایت عاقل، دانا اور دانشور۔ اور اس موقع پر ہمارے ہی ہم عصر فقیہ اور فلسفی مرحوم آیت اللہ مصباح یزدی کا تذکرہ کرنا میرے لیے خوش آئند ہے جو کہ اسی طرح تھے۔ وہ امام کے لائق شاگرد بھی تھے اور دینی غیرت کے عروج پر بھی تھے اور عقلیت کے اعتبار سے وہ حقیقی معنوں میں ایک فلسفی تھے۔ 19 دی کا قیام جوش اور عقلیت کا شاندار امتزاج ہے۔
اب میں اس کی مختصر وضاحت کروں گا تاکہ یہ ظاہر ہو سکے کہ یہ قیام عقلیت کے لحاظ سے کتنا کامیاب رہا ہے۔ طاغوت کا مقصد یہ تھا - یعنی [اطلاعات] اخبار میں اس مضمون کو لکھنے کا فیصلہ کوئی یکدم اور اچانک سے نہیں تھا۔ اس عمل کے پیچھے ایک بڑا ہدف تھا - امام کے تقدس کو توڑنا؛ اس عظمت کو توڑنا اور تباہ کرنا جو لوگوں کی نگاہ میں امام کی تھی اور وہ ان کے حکم سے آگے بڑھتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے افکار، لوگوں کے ذہنوں میں امام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھا۔ انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا؛ وہ لوگوں میں امام کے مقام کو پست کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہ کام شروع کر دیا۔ اگر 19دی کو اہل قم کا مضبوط مُکّہ طاغوت کے سینے پر پیوست نہ ہوتا تو یہ سلسلہ جاری رہتا۔ یہ صرف ایک مضمون نہیں تھا۔ بے شمار مضامین، کتابیں، کہانیاں لکھی گئیں، فلمیں وغیرہ بنائی گئیں، تاکہ لوگوں کی نظروں میں امام خمینی رح اور ان کے مقام کو نیچا دکھایا جاسکے، اور درحقیقت تحریک کی مرکزیت کو ختم کیا جا سکے۔ کیونکہ امام ہی لوگوں کی اس عظیم تحریک کا محور تھے جو روز بروز پھیلتی جا رہی تھی اور حفاظتی اداروں نے اس حقیقت کو دیکھا اور سمجھا اس لیے ایسا کرنے سے وہ تحریک کے اس محور اور اس تحریک کے بااختیار مرکز کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔
طاغوت کو بھی پیچھے امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ یعنی اسے اطمینان تھا کہ اگر اس نے اس سلسلے میں جو بھی اقدام اٹھایا اور مثال کے طور پر، اس کے پٹھو امام خمینی رح پر کسی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا الزام لگائیں، اور یہ طے کرلیں کہ جو بھی اس عظیم شخص کی حمایت کرے گا، اس پر دباؤ ڈالیں گے، اور چونکہ امریکہ ان کے پیچھے موجود ہے اور اس کے نتیجہ میں کوئی عالمی ردعمل نہیں آئے گا، کوئی بین الاقوامی ردعمل نہیں ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ آپ جانتے ہیں، ان دنوں، اسی سال جنوری میں کارٹر تہران میں تھا، اور اس نے اپنا نئے سال کا جشن تہران میں شاہ کے ساتھ منایا؛ اس نے وہاں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایران - پہلوی ایران - مستحکم جزیرہ ہے۔ ایک غلطی اس نے کی، اور یہ واضح ہو گیا کہ ان کا حساب کتاب کتنا غلط تھا - امریکیوں کا حساب کتاب ابھی بھی غلط ہے - اس کی ایک بات یہ تھی کہ اس نے کہا کہ ایران استحکام کا جزیرہ ہے۔ لہٰذا، طاغوت محمد رضا نے محسوس کیا کہ صورتحال عظیم امام کو بدنام کرکے تحریک کو [بجھانے] کے لیے کافی موزوں ہے۔ اب ان کا جسم ان کی دسترس سے باہر تھا، [کیونکہ] امام خمینی رح نجف میں تھے، لیکن وہ امام کی یاد، امام کے نام، امام کی حرمت کو داغدار، معیوب اور اسکو پامال کرسکتے تھے۔ انہوں نے موقع دیکھا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے، اور انہوں نے شروعات کی۔ تو یہ کام ایک حساب و کتاب سے تھا، یعنی انہوں نے معاملے کا حساب لگایا تھا اور بیٹھ کر نقشہ کھینچا تھا۔
قم کے لوگوں نے اس حساب میں خلل ڈالا اور سارا الٹ پلٹ کردیا۔ درحقیقت اہل قم کے اس عمل نے دشمن کے حساب کتاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ فَالَّذِينَ كَفَرَوَا هُمُ المَکيدون انہوں نے سازش کی لیکن یہ سازش ان کے خلاف ختم ہو گئی۔ یعنی وہ امام خمینی رح کو توڑنا چاہتے تھے، [لیکن] امام کو منظر پر زیادہ مضبوط، زیادہ روشن ظاہر کرنے کا سبب بنے۔ وہ چاہتے تھے کہ امام کے ساتھ لوگوں کا تعلق کمزور ہو لیکن یہ تعلق اور مضبوط ہوگیا۔ وہ تحریک کو کمزور کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ اور مضبوط ہوگئی۔ درحقیقت یہ عوامی تحریک اس طرح کے حساب کتاب پر مشتمل تھی۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ سڑکوں پر آنے والے ہر ایک نے یہ حساب کتاب کیا تھا، لیکن اس اجتماعی تحریک کے پیچھے، جو دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے عوام کے لیے الہام تھی، ایک اہم حساب کتاب تھا جس نے دشمن کے حساب کتاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ دشمن کی منصوبہ بندی؛ یعنی وہی شخص جس نے آج کے دن یعنی 1 جنوری 1978 کو ایران کو استحکام کا جزیرہ قرار دیا تھا، یعنی خود یہ کارٹر، اگلے سال ہیزر کو تہران بھیجنے پر مجبور ہوا تاکہ اس تحریک کو دبا سکے۔ اور اس نے اسے دبانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی - فسادات کے ذریعے، قتل کرکے، لوگوں کا قتل عام کرکے- جو کہ الحمدللہ یقیناً وہ کرنے میں ناکام رہا، اور وہ انقلاب کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکے۔
یہ امریکی غلط حساب کتاب آج بھی ان کے محاسباتی نظام میں جاری ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے؛ اس وقت بھی وہ مختلف مسائل کے بارے میں حساب کتاب کرتے ہیں، [لیکن ناکام رہتے ہیں؛] اس کی ایک مثال ہمارے پیارے شہید، شہید سلیمانی کی شہادت کا باقی رہنا ہے۔ انہوں نے کیا سوچا تھا، کیا ہوا! ان کا خیال تھا کہ شہید سلیمانی کو راستے سے ہٹانے سے، وہ عظیم تحریک اور نہضت جس کی وہ نمائندگی کرتے تھے، اس کی علامت اور استعارہ تھے، وہ ختم ہو جائے گی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سال شہید سلیمانی کی شہادت کی دوسری برسی پر یہ عظیم فعالیت کس نے کی؟ اس میں کس کا ہاتھ تھا؟ کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں نے یہ کیا اور ہم نے کیا؟ یہ خدائی طاقت کا کام اور الہی طاقت کے ہاتھ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ایران میں، ایران سے باہر، دشمن اس عظیم تحریک، شہید سلیمانی کے تئیں عوامی عقیدت اور خلوص کے اس اظہار کا حساب و کتاب نہیں لگا سکتا تھا اور نہ ہی لگا سکتا ہے۔ دشمن کا محاسباتی نظام واقعی اور کافی حد تک غافل اور ناقص ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں حقائق کو جیسا کہ حقیقت میں ہے نہیں سمجھ سکتے۔ جب موجودہ صورت کا حساب و کتاب غلط ہو، فیصلے بھی غلط ہوں گے۔ غلط فیصلہ ان کی ناکامی کا سبب بھی بنتا ہے جس پر وہ اب تک پریشان ہیں اور انشاء اللہ اس کے بعد بھی ناکام ہوں گے۔
میرے عزیزو! وہ دن ختم ہو گئے۔ 19 دی کو بھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ آج بھی زندہ ہے، اس کے بعد بھی اسے بھلایا نہیں جائے گا۔ 19دی قم کے واقعہ کے بعد تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ خدا نے قوم کی تحریک کو برکت دی، یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی، انقلاب کا باعث بنی، انقلاب کے عظیم ایام کا باعث بنی، عظیم امام خمینی رح فاتح بن کر واپس آئے، انقلاب کامیاب ہوگیا اور اسلامی جمہوریہ جو کہ ایک مذہبی جمہوریت ہے، قائم ہوئی۔
اس دن کو 43 سال بیت چکے ہیں اور یہ 43 سال جہاد، اتار چڑھاؤ، ہر قسم کی تحریکوں کے ساتھ جڑے رہے۔ یہ ہمارے ماضی کے واقعات ہیں جن سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے، لیکن ایک زندہ قوم صرف ماضی پر نظر نہیں ڈالتی۔ ایک زندہ قوم اپنی تاریخ کے ہر موڑ پر اپنے وقت کے تقاضوں اور اس کام کو دیکھتی ہے جو اس وقت اس پر فرض ہے، اور اگلے مرحلے پر - اسے آگے کیا کرنا ہے - اور ویژن کی طرف بھی ساتھ ساتھ نگاہ رکھتی ہے۔ ہمیں لمحہ موجود میں فریضہ کو پہچاننا چاہیے، ہمیں مستقبل کے لیے اپنے اقدامات کا تعین کرنا چاہیے، ہمیں وژن کو روشن رکھنا چاہیے، ہمیں اس افق کی طرف دیکھنا چاہیے، اور ہمیں اپنی پوری طاقت اور صلاحیت کے ساتھ اس کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اس طرح یہ تحریک حقیقی معنوں میں کامیاب ہوگی، یہ حتمی فتح حاصل کرے گی، جو کہ سب سے پہلے ایرانی قوم کی حیات طیبہ ہے، -اب دوسرے بھی یہ پیغام لے چکے ہیں، یہ اور بات ہے۔ انقلاب نمونہ عمل بن گیا، یہ اور بات ہے - سعادت اور اسلامی زندگی کا حصول حیات طیبہ سے عبارت ہے اور جس میں دنیا بھی ہے، دین بھی ہے، فلاح بھی ہے، جسم بھی ہے، روح بھی ہے اور ان سب کی ضروریات موجود ہیں۔ انشاءاللہ کہ ہم اس تک پہنچ سکیں. ابھی ہم آدھے راستے میں ہیں۔ یقیناً اب تک کافی راہ طے ہوئی ہے، ایرانی قوم نے کام کیا ہے، کوشش کی ہے اور ہم کچھ آگے آئے ہیں، لیکن ہمیں اپنے آج اور اپنے کل کے فریضہ اور اپنے وژن کو جاننا چاہیے۔
اب کبھی کبھی انسان دیکھتا ہے، مثال کے طور پر، فرض کریں کہ لوگوں کے موقف کے بارے میں رائے شماری کے نتائج بتائے جاتے ہیں، [لیکن] یہ ایرانی قوم کی حقیقت کو ظاہر نہیں کرتے؛ ایرانی قوم کی حقیقت شہید سلیمانی کے جنازے سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ایرانی قوم کے مزاج کو ظاہر کرتی ہیں، وہ کیا سوچ رکھتے ہیں، ان کے احساسات کیا ہیں، ان کے اندرونی حالات کیا ہیں۔ یعنی ایران اور ملت ایران کی عظمت و وسعت کو ایک زمینہ کی ضرورت ہے تاکہ اس قوم اور اس ملت کے اندرونی حالات کی حقیقت کو ظاہر ہوسکے۔ یہ رائے شماری، جو بعض اوقات بدنیتی یا بغیر بدنیتی رکھنے والے لوگ انجام دیتے ہیں، معیار نہیں بن سکتی۔
خوش قسمتی سے، آج ملک میں باایمان حزب اللہی نوجوان کے ذہن کھلے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے آج ہم ایک انقلابی اور باایمان تفکر کے حامل ہیں، ایک نتیجہ خیز فکر، ایک ترقی پسند سوچ کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ اس لیے اس بنیاد پر میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ بے شک، بہت سی نصیحتیں ہیں، [لیکن] اس جلسے کا تقاضا نہیں ہے کہ کوئی طولانی گفتگو کی جائے۔ [اس لیے] میں کچھ نصیحتیں کروں گا۔
پہلی نصیحت یہ ہے: میرے عزیزو، اس حقیر بندے سے یہ بات سننے والو! دینی غیرت کو باقی رکھیں؛ مذہبی جوش و جذبہ برقرار رکھیں۔ مختلف لمحات میں ملک کو بچانے کا عنصر ایرانی قوم کی دینی غیرت اور مذہبی جوش تھا۔ یہ مذہبی جوش ہے جو خطرات کو مواقع میں بدل دیتا ہے۔ اس کی ایک مثال مسلط کردہ جنگ اور آٹھ سالہ دفاع تھا جو کہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا، [لیکن] لوگوں کا مذہبی جوش، نوجوانوں کا مذہبی جوش، باپ، ماؤں اور زوجات کی دینی غیرت باعث بنی کہ نوجوان محاذ پر اور حقیقت میں اس بین الاقوامی جنگ میں جانے کے لیے آمادہ ہوسکیں۔جسے اس وقت کے امریکہ، اس وقت کے رووس، اس وقت کے نیٹو، اس دور میں خطے کے مرتجعین، سب نے مل کر ایران کو شکست دینے، امام خمینی رح کو گھٹنے ٹکانے کے لیے اور تحریک کو تباہ کرنے کیلئے شروع کیا۔ اس (ایران ) نے ان سب کو شکست دی اور وہ فتحیاب ہونے میں کامیاب رہا۔ اس کا ذریعہ دینی غیرت تھی۔ یہ مقدس دفاع تھا، اگلے سالوں میں بھی مختلف واقعات رونما ہوئے۔
اس موجودہ زمانے میں ہمارے پیارے شہید شہید سلیمانی کی شہادت۔ شہید سلیمانی کی شہادت واقعی ایک تاریخی اور عجیب واقعہ بن گئی۔ نہ کسی نے سوچا تھا اور نہ دوستوں نے بھی سوچا تھا کہ یہ واقعہ اتنا عظیم ہوگا اور خداتعالیٰ اس واقعہ کو ایسی برکت عطا فرمائے گا کہ وہ لوگوں کے دینی اور انقلابی تشخص کو سب کے سامنے ظاہر کرے گا اور سب اس کا نظارہ کریں گے۔ ایرانی قوم نے شہید سلیمانی کے تابوت کے سائے میں حقیقی طور پر اپنی شناخت ظاہر کی، اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ تہران میں جنازہ، کرمان میں جنازہ، تبریز میں جنازہ، مشہد میں جنازہ، مختلف شہروں میں جنازہ، عراق میں ایک بہت بڑا جنازہ؛ مثال کے طور پر اگر اس شہید کا یہ جسد خاکی شام اور لبنان لے جایا ہوتا تو وہاں بھی یہی صورتحال پیش آتی۔ اگر اس کو پاکستان لے جاتے تو وہاں بھی یہی منظر ہوتا۔ یعنی اس واقعہ نے مسلم قوم کی عظیم تحریک کو ظاہر کیا۔ یہ واقعہ، ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں شہید سلیمانی جیسی عظیم ہستی کی شہادت کو دشمن اور ہر کوئی، خطرہ سمجھتا تھا لیکن امت مسلمہ، ایرانی قوم کی غیرت نے اس خطرے کو موقع میں بدل دیا۔
ہماری ماضی کی تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں؛ 9 دی ( 29 دسمبر 2009) کو بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک بڑا خطرہ تھا، یہ کئی ماہ تک جاری رہا، لیکن عوام کی غیرت 9 دی کو کھل کر سامنے آئی اور اس خطرے کو ختم کر دیا، بلکہ اسکے منفی اثرات کو بھی تباہ کر دیا، اس خطرے کو موقع میں بدل دیا۔ یہ ایک نکتہ ہے کہ ان فتوحات، ان کامیابیوں، ان خطرات کو مواقع میں بدلنے کا اصل سبب لوگوں کی دینی غیرت تھی۔ اس کو باقی رکھا جانا چاہیے۔ مقررین، ادیبوں، عوامی ذہنی و فکری جگہوں پر موجود بااثر افراد کو اس نکتے پر توجہ دینی چاہیے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اس سلسلے میں مخالفین اور دشمن اپنا کام کر رہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں میری باتوں پر بھی اعتراض کریں گے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس دینی غیرت کو لوگوں میں برقرار رکھنا ضروری ہے، اور یہ الہی مدد سے محفوظ رہے گی۔
دوسری نصیحت جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے: یاد رکھیں کہ آج انقلاب کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے منصوبوں میں جن چیزوں پر بہت زیادہ بحث کی جا رہی ہے ان میں سے ایک انقلاب کے اصولوں، بنیادوں اور جڑوں کی نسبت عدم حساسیت ایجاد کرنا ہے۔ لوگ حساس ہیں۔ عوام انقلاب کے بنیادی مسائل کے تئیں حساس ہیں۔ اگر کوئی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے گا تو لوگ اس کے مقابل موقف لیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اس حساسیت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی دوبارہ ایک بڑے پیمانے پر پروپیگنڈے کی وجہ سے ہے جو ان دنوں سائبر اسپیس میں، مختلف قسم کے غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات کچھ مختلف لوگوں کے بیانات، ایسے لوگ جو زیادہ قیمت بھی نہیں رکھتے - نہ ان کی باتیں، نہ ان کے افکار - انکو نمایاں اور بڑا کرکے دکھایا جاتا ہے۔ ایسے بے وقعت اور دعووں سے بھرپور افراد جو انقلاب کی بنیادوں، انقلاب کے اصولوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
پہلے درجے پر انقلاب کے اصول، جیسے دین کی حکمرانی۔ بنیادی طور پر اسلامی جمہوریہ، اسلامی انقلاب خدا کے دین کی حکمرانی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر اس لئے ہے تاکہ معاشرہ دینی شکل و صورت کے تحت منظم کیا جاسکے۔ حکومت مذہبی ڈھانچے کے تحت قائم کی جائے اور آگے بڑھے اور عمل کرے۔ یہ انقلاب کے واضحات میں سے تھا۔ لوگوہ نے جانیں دی، انہوں نے اپنے خون کی قربانی دی، انہوں نے اسے انجام دینے کے لیے قربانیاں دیں۔ یہ انقلاب کے اصولوں میں سے ایک ہے؛ اس کو کمزور کرتے ہیں۔ یا، مثال کے طور پر، ایک متکبر دشمن کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا؛ یہ انقلاب کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو ہار نہیں ماننی چاہیے۔ دشمن کے جبر کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہم اگر کسی موقع پر دشمن کے ساتھ گفت و شنید، بات چیت اور لیں دین کرتے ہیں، تو یہ ایک اور معاملہ ہے۔ انقلاب ہمیں بتاتا ہے کہ جبر اور دشمن کی زور و زبردستی کے سامنے تسلیم نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے اب تک خدائی امداد سے دشمن کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ اصولوں میں سے ایک ہے۔ وہ اس کو کمزور کرتے ہیں، [وہ کہتے ہیں]، مثال کے طور پر، "جناب، کیوں، کیا رکاوٹ ہے، کیا مسئلہ ہے؟" اس کا مطلب ہے ایسے نمایاں اصول کو کمزور کرنا۔ یا ملک کی آزادی، یا بدعنوانی کے خلاف جنگ، ناانصافی کے خلاف جنگ وغیرہ۔ یہ انقلاب کے اصول ہیں۔
یہ دشمن کی ایک وسیع اور متنوع نرم جنگ کا حصہ ہے جس کا وہ پیچھا کرتا ہے۔ اسے دھیان میں رکھنا چاہیے اور اس حساسیت ختم کرنے کی سازش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اہل فکر، اہل تحریر، اظہار خیال کرنے والے لوگ، مختلف سماجی سرگرمیوں میں فعال افراد، سائبر اسپیس میں سرگرم لوگ، وہ لوگ جن کے پاس اختیار ہے اور اس میدان میں ذمہ دار ہیں، وہ دشمنوں کو اس حساسیت اور عوامی حمایت کو بتدریج کمزور کرنے میں کامیاب نہ ہونے دیں۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تصور کرنا کہ یہ اصول عوام کے لیے، ملک کے لیے اور مستقبل کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں، ایک انتہائی غلط اور باطل تصور ہے۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ ہمارے ملک میں ان 43 سالوں میں جہاں بھی ہم نے ترقی کی ہے، کوئی کامیاب حاصل کی ہے، اور کچھ ہمارے ہاتھ آیا ہے تو وہاں پر آیا ہے جہاں لوگ انقلابی جذبے کے ساتھ، جدوجہد کے ساتھ متحرک ہوئے ہیں، میدان میں اترے ہیں، کام کیا ہے، وہاں ترقی ملی ہے. ہم سائنسی ترقی، صنعتی ترقی، تکنیکی ترقی، سیاسی پیشرفت، مختلف شعبوں میں وہاں ترقی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جہاں باایمان، جانکار، اہل اور انقلابی لوگ میدان میں اترے؛ [لیکن] جہاں بھی کام ادھورا رہ گیا ہے، انسان جب دیکھتا ہے تو وہاں موقع پرستی، بدعنوانی، اشرافیہ اور غیر انقلابی نظریات، غیر انقلابی اقدامات کو ملوث پاتا ہے۔ یہ چیزیں ہیں جو کاموں کے ادھورا رہ جانے اور جمود کا باعث ہیں۔ لہٰذا انقلاب کے اصولوں پر کاربند رہنا یقیناً ملک کی ترقی اور قوم کی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ اور ہتھیار ہے۔ یہ ایک نصیحت ہے تاکہ آپ اس پر توجہ دیں۔
اگلی نصیحت، جو میرے خیال میں بہت اہم ہے، ملک میں اتحاد و وحدت کو برقرار رکھنے کا مسئلہ ہے۔ ہمیں تقسیم کرنے والے عوامل کو جتنا ہو سکے کم کرنا چاہیے۔ البتہ ذوق کا اختلاف ہے، رائے کا اختلاف ہے، طریقوں اور روش کا اختلاف ہے۔ یہ ہیں، لیکن ہمیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ تصادم کا باعث نہیں بننے دینا چاہیے۔ ان چیزوں کے ساتھ عوام کی عمومی ہم آہنگی کو تباہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ان اختلافات کو بڑھنے نہیں دینا چاہیے۔
بلاشبہ، فطری طور پر کچھ ایسے ہیں جو انقلاب کے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں، اور انقلاب کے پاس ان کے خلاف کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لیکن اگر اختلاف رائے، ذوق کے اختلاف، اختلاف نظر کی بات ہو، [اگر] یہ اختلافات معاشرے میں موجود ہوں تو اس سے قومی ہم آہنگی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ یعنی ملک کے دفاع کے لیے، ملک کی ترقی کے لیے، ملک میں نوجوانوں کو امید دلانے کیلئے مجموعی ارادہ، اور اسی طرح کی چیزیں باقی رہنی چاہیے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دنیا میں ہمارے دشمن محاذ میں ایسے دشمن بھی ہیں جن کا خاصہ تفرقہ پیدا کرنا ہے۔ ان کی خصوصیت "تقسیم کرو اور حکومت کرو یا حکمرانی کرو" ہے۔ یہ پرانی چیزوں میں سے ایک ہے جس کا ان میں سے کچھ سے تعلق ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کیسے کرنا ہے؛ اور انسان دیکھتا ہے کہ جہاں بھی وہ کچھ کر سکنے کے قابل ہوئے، انہوں نے اس کام کو کیا۔ بشمول مذہبی اختلافات، شیعہ اور سنی اختلافات؛ ہمیں ان چیزوں کو ملک میں رنگ یا شدت پکڑنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ملک میں شیعہ اور سنی صدیوں سے اکٹھے رہتے رہے ہیں، برسوں سے رہتے ہیں، انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں بعض اوقات قوموں کے درمیان اختلافات، مختلف لسانی گروہوں، مختلف نسلوں کے درمیان جھگڑے ہوئے ہیں [لیکن] ہمارے یہاں شیعہ اور سنی کے درمیان تنازعات اور اختلافات کبھی نہیں ہوئے ہیں۔ اب اس کیلئے کوئی بہانہ نہیں دیا جانا چاہیے، ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں، جو خوش قسمتی سے نہیں ہوئیں، اللہ کا شکر ہے، لیکن ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے، ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی غلط بات کہہ دے، پھر کوئی اس کے مقابل میں اپنا فریضہ سمجھ کر آجائے، اسے نہ کھینچا جائے، جاری نہ رکھا جائے۔ اس لیے ہر ایک کو اس ہم آہنگی کو برقرار رکھنا چاہیے۔
آپ نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت ایک اسلامی حکومت ہے اور اس کا پرچم شیعیت کا پرچم ہے، لیکن آج اسلامی ممالک میں جہاں سنی رہتے ہیں، بعض اوقات لوگ اسلامی جمہوریہ میں اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی جانب سے محبت، غیرت، تعاون اور حمایت اور پشتیبانی دیکھنے میں آتی ہے۔ مشرقی ایشیا سے مغربی افریقہ تک بہت سے ممالک میں اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ایسا تعلق رکھنے والے موجود ہیں، جبکہ وہ شیعہ بھی نہیں ہیں۔ لہٰذا عالم اسلام میں آج اسلامی جمہوریہ اسلام کا مظہر، امت اسلامیہ کا مظہر، امت اسلامیہ کی حاکمیت کا مظہر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے دیکھا کہ شہید سلیمانی کی اسی برسی پر، مختلف ممالک میں، جن میں سے اکثر سنی بھی ہیں، انہوں نے وہ بڑے اجتماعات کئے اور اس طرح کے اقدام اٹھائے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ آج ہم قومی ہم آہنگی کے اس مسئلے کو بے توجہی کا شکار کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ، اور بھی نصیحتیں ہیں جو کئی بار کی جاچکی ہیں: مستقبل کے لیے امید اور وژن کو مضبوط کرنا؛ یہ آج ہمارے لیے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو نوجوانوں کی امیدوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نوجوانوں کو مستقبل کے بارے میں ناامید اور بداعتمادی سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کے سامنے کوئی وژن نہ رہے۔ اس امید کو اپنے دلوں میں مضبوط کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ امید صرف باتیں کرنے سے مضبوط نہیں ہوگی۔ کوشش کے ساتھ، حرکت کرنے سے [ہوگی]۔ اور ملک کے حکام، ملک کے حکمران، جو اللہ کا شکر ہے، مصروف اور فعال ہیں، اس بات کی طرف توجہ دیں کہ ان کے بہت سے مثبت کام نوجوانوں کے دلوں کو امید سے بھر سکتے ہیں، انہیں امید سے لبریز کر سکتے ہیں اور انہیں پر امید بنا سکتے ہیں. نوجوان جب امید باندھتا ہے تو مختلف شعبوں میں اچھا کام کرتا ہے، اچھی کوشش کرتا ہے، اچھا مطالعہ کرتا ہے، اچھی تحقیق کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اجازت نہ دیں کہ بعض افراد سائبر اسپیس اور غیر سائبر اسپیس میں اپنے فتنوں کے ساتھ نوجوانوں کے امیدوار ہونے کی مخالف سمت میں آگے بڑھ سکیں۔
ایک اور نکتہ اور نصیحت یہ ہے کہ ہمیں اسلامی جمہوریہ کی کامیابی کو پوشیدہ نہیں رہنے دینا چاہیے۔ یہ واقعی اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ ٹھیک ہے، آج ہمارے معاشی مسائل ہیں۔ فرض کریں کہ مہنگائی کا مسئلہ، کچھ اشیاء کی قیمتوں کا مسئلہ، لوگوں کی روزی روٹی کا مسئلہ، خاص طور پر غریبوں کا مسئلہ، بینکوں کے مسائل، ٹیکسوں کے مسائل وغیرہ۔ ٹھیک ہے، یہ ہمارے مسائل ہیں. بعض ان مسائل کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے اسلامی جمہوریہ میں کچھ اچھا ہوا ہی نہیں اور انہیں چھپاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی مختلف شعبوں میں درجنوں کامیابیاں ہیں جن میں سے بعض کا ذکر میں نے "دوسرے قدم" کے بیانیہ میں کیا ہے۔ ہمیں اسلامی جمہوریہ کی ان عظیم کامیابیوں کو بتانا چاہیے اور عوام اور غفلت برتنے والوں کو یاد دہانی کرانی چاہیے۔ تو یہ بھی ایک نکتہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور نکتہ عوامی ہونے کا مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج جو حکومت برسر اقتدار ہے اس کا عوام سے اچھا رابطہ ہیں۔ لوگوں کے درمیان جاتے ہیں، لوگوں میں موجود رہتے ہیں۔ ایک عوامی تحریک کا رجحان محسوس کیا جارہا ہے جس کی تکمیل ضروری ہے۔ سب سے پہلے، اسے جاری رکھیں. اب کچھ لوگ اسی کو زیر سوال لا رہے ہیں جس کو نظرانداز کیا جانا چاہیے۔ لوگوں کے درمیان موجود رہنا واقعی تھکاوٹ کا باعث ہے، یہاں تک کہ سیاستدانوں کے لیے بھی - یہ مشکل کام ہے، یہ آسان نہیں ہے - لیکن یہ بہت کارآمد ہے، یہ بہت مفید ہے اور یہ جاری رہنا چاہیے۔ دوسرا، عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا۔ یہ وعدے وقت پر پورے ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ سنجیدہ ہیں۔ چنانچہ کسی وعدے کو پورا کرنا ممکن نہ ہو - ایسے معاملات پیش آتے ہیں کہ وعدہ کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر وسائل فراہم نہیں ہو پاتے ہیں - اسے وہاں جا کر انہی لوگوں کو سمجھائیں جن سے یہ وعدہ کیا گیا ہے، صاف، شفاف، واضح طور پر، ایسا کیوں ہوا؟ ہم یہ نہیں کر سکے اور انشاء اللہ ہم کریں گے، مثال کے طور پر کچھ اس طرح۔ یہ وعدوں پر عمل کے بارے میں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات وہ ماہرین اور متخصص افراد جو عوام کا حصہ ہوتے ہیں، حکومت کو مختلف شعبوں میں کام کرنے کے لیے تجاویز، روشیں بتاسکتے ہیں، [افسران] کو ایک ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے تاکہ ان آراء سے استفادہ کیا جاسکے اور اس کے ذریعے درحقیقت لوگوں کو ملک کے ذمہ دار اداروں کے فیصلوں میں شریک کیا جاسکے؛ یہ ایک. اور اس کے علاوہ لوگوں کی صلاحیتوں کو عملی طور سے بروئے کار لانے کے لیے ایک طریقہ کار تشکیل دینا چاہیے تاکہ عوام عملی اقدامات میں بھی شریک ہوسکے۔ بہت سے لوگ ہیں جو کچھ چیزوں میں حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے طریقہ کا تعین کیا جانا چاہیے کہ اس عوامی شراکت کو اس شعبے سے مربوط کرنے کا طریقہ یہ ہے؛ ان چیزوں کو بیٹھ کر سوچیں۔ ان چیزوں کو غور و فکر، مطالعہ اور اس طرح کی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور عمومی نگرانی کے لیے عوامی استعداد کا استعمال کریں۔ ملک کے مختلف کونوں میں بدعنوانی پائی جاسکتی ہے، جو ممکن ہے کہ متعلقہ حکام کی نظروں سے اوجھل ہوجائے۔ اسے عوام دیکھتے ہیں، وہ نظر رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کی استعداد کو بھی استعمال کریں۔ لہٰذا، عوامی ہونا بنیادی چیزوں میں سے ایک ہے، اور حکومت کو اس کی تکمیل اسی طرح کرنی چاہیے جس کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
اور عمومی طور پر ان نصیحتوں کے پیش نظر جو ہم اپنے عزیزوں کو کرتے ہیں، ملک کے معزز حکام کو بھی اپنے آپ کو پوری قوت سے عمل کرنے کا پابند سمجھنا چاہیے۔ بے شک، آج میں جو دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ، خدا کا شکر ہے، معزز حکام - اوپر سے نیچے تک - کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں اور محنت کر رہے ہیں؛ جہاں تک ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں، وہ کوشش کر رہے ہیں، وہ واقعی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ان زحمتوں میں خدائی برکت شامل حال رہے، ان شاء اللہ۔ اس جدوجہد کو جاری رکھیں، لوگوں کے لیے کام کریں، اپنی نیتوں کو خدا کے لیے خالص رکھیں، جس کے باعث یہ عمل اس وقت بہت بڑی عبادت بھی بن جائے گا۔ میں اپنی باتوں کو یہاں پر ختم کروں گا۔
میں خدا سے دعا گو ہوں کہ وہ ایرانی قوم کو تمام میدانوں اور شعبوں میں کامیاب کرے۔ اپنے دشمنوں پر فاتح قرار دے؛ عظیم امام خمینی رح کی پاکیزہ روح پر اپنی برکتیں نازل فرما اور انکو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر، اور انکو ہم سے راضی اور خوشنود رکھ، تاکہ ہم اپنے عظیم امام خمینی رح سے شرمندہ نہ ہوں؛ شہداء کی پاک ارواح کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور ان کے سامنے ہمیں شرمندہ نہ کر۔
قم کے عزیز لوگوں اور آپ یعنی اس اجلاس کے معزز حاضرین کو ایک بار پھر مخلصانہ سلام عرض کرتا ہوں اور دعا ہے کہ انشاء اللہ آپ سب پر خدائے متعال اپنا فضل، رحمت اور برکتیں نازل فرمائے۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته