بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله رب العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
خدا ہمارے پیارے شہید پر اپنی رحمت و رضوان نازل فرمائے، جس کی شہادت ایک قومی بلکہ بین الاقوامی سانحہ بن گئی۔ اور اس طرح یہ دوسری برسی ہے، اور لوگ یہ چیزیں [ان کے اعزاز میں] انجام دے رہے ہیں، اور میں بعد میں لوگوں کے مسئلے کی طرف واپس آونگا۔ ہم درحقیقت لوگوں کی پیروی کررہے ہیں، اور ہماری یہ ملاقات اور ہماری یہ گفتگو، اور اس طرح کی چیزیں درحقیقت عوام کے اس ہنرمندانہ تحریک کی پیروی ہے، جو پورے ملک میں انجام پارہی ہے۔
ہم نے ایک جملہ کہا تھا، ہم نے کہا ’’مکتبِ سلیمانی‘‘ شہید سلیمانی ایک مکتب بن گیا یا ایک مکتب تھا، اور اس مکتب کے بارے میں میں نے اب دیکھا کہ کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں۔ اگر ہم ایک یا دو جملوں میں اس مکتب کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جسے ہم "مکتبِ سلیمانی " کہتے ہیں تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ مکتب "صداقت" اور "اخلاص" سے عبارت ہے۔ یہ دونوں الفاظ درحقیقت سلیمانی مکتب کا عنوان، علامت اور اشاریہ ہیں۔ "صداقت" کا مطلب وہی چیز ہے جو اس آیت شریفہ میں ہے«مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه» جسے میں اب مختصراً بیان کروں گا۔ "اخلاص" وہی ہے جو قرآن کی متعدد آیات میں ہے، جس میں یہ آیت بھی شامل ہے «قُل اِنّی اُمِرتُ اَن اَعبُدَ اللهَ مُخلِصًا لَهُ الدّین»، یہ دو قرآنی عنوانات شہید سلیمانی کی تحریک کو تشکیل دینے والے ارکان ہیں۔
یہ مبارک تحریک جس نے اس مرد کی زندگی اور اس کی شہادت دونوں کو بابرکت بنایا - ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت میں کہتے ہیں: وَ قَبَضَکَ اِلَیهِ بِاختیارِه وَ اَلزَمَ اَعداءَکَ الحُجَّة؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی، روح قبض کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس روح کے قبض ہونے سے آپ کے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں پر حجت تمام ہو گئی۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ جانیں خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ سب کو دنیا سے جانا ہے اور ہر کوئی کسی نہ کسی طرح دنیا سے جاتا ہے۔ شہید بھی دنیا سے گئے - اور ان کی شہادت کی کیفیت نے دشمن اور تمام مشاہدہ کرنے والوں پر حجت تمام کردی۔
تو، اب اس کا کیا مطلب ہے کہ«صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه»؟ یعنی مقصد کے ساتھ، عہد الٰہی کے ساتھ، نظریات کے ساتھ صدقِ دل سے پیش آنا۔ ہماری مشکل یہ ہے؛ بہت سے معاملات میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری تحریک اور اسلام و انقلاب کے نظریات کے ساتھ ہمارے تعامل میں کوئی صداقت نہیں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک ہم نے اس مرد کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور جانا ہے، اس مرد نے واقعی طور پر صداقت سے کام کیا چاہے مقدس دفاع میں ہو، یا مقدس دفاع کے بعد قدس فورس کی ذمہ داری سنبھالنے تک، یا قدس فورس میں کام کرتے ہوئے ۔ نظریات کی راہ میں مجاہدت کی مشکلات کو اپنے لئے آسان بنانا۔ اس کا مطلب ہے "صداقت"۔
اسلام اور انقلاب سے وفاداری؛ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلام اور انقلاب کے ساتھ وفادار رہے۔ وہ اس عہد سے وفادار رہے جو انہوں نے خدا اور امام خمینی رح کے ساتھ کیا تھا۔ وہ ایران کی عوام اور امت مسلمہ کی نسبت اپنے فریضہ کے تئیں، عمل میں بڑی احتیاط اور اپنے تمام وجود کے ساتھ وفادار رہے۔ ایرانی قوم کی نسبت فریضہ میں بھی اور امت اسلامیہ کی نسبت فریضہ میں بھی۔
کچھ قوم و ملت کے درمیان دوئیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کام کی جڑ دشمن ہے اور وہ یہ سازش کر رہے ہیں۔ یقینا، کچھ لوگ غلطی بھی کرتے ہیں اور نادانستہ طور پر اسی منصوبے کی پیروی کرتے ہیں۔ ملک کے اندر بھی، ہم بعض اوقات دیکھتے ہیں کہ اسلامی امت کے لیے کام کرنے والا ضروری نہیں سمجھتا کہ ایرانی قوم کی طرف بھی دیکھے۔ یا اس کے برعکس. ہمارے پیارے شہید، شہید سلیمانی نے ثابت کر دیا کہ ملک کی سب سے قومی شخصیت اور ملک کی سب سے امتی شخصیت دونوں بنا جاسکتا ہے ۔ بیک وقت سب سے زیادہ قومی اور سب سے زیادہ امتی تھے۔
سب سے زیادہ قومی شخصیت تھے؛ کیسے معلوم ہوا؟ ان کے جنازے سے! انقلاب کے ان کئی سالوں میں - جو عظیم اجتماعات کا دور ہے - ہمارے پاس شہید سلیمانی کے جنازے کی طرح کون سا لاکھوں کا اجتماع ہے؟ یہ کون تھے؟ قوم یہ ہے۔ قوم کو ہمیشہ وہم کے آئینہ سے نہیں دکھایا جا سکتا۔ قوم ایک موجود حقیقت ہے۔ اس مرد کو اس کی شہادت کے بعد لاکھوں کڑوڑوں نے دفنایا۔ تو یہ سب سے زیادہ قومی شخصیت ہے۔ یہ سب سے زیادہ امتی بھی ہے کیونکہ ان دو سالوں میں ان کی روز بروز بڑھتی نام اور یاد عالم اسلام میں زیادہ سے زیادہ اثر پذیر ہو رہی ہے۔ شہید سلیمانی کا نام اور شہید سلیمانی کی یاد اسلامی دنیا میں مسلسل دہرائی جا رہی ہے، اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انسان اس کا مشاہدہ کر رہا ہے اور دیکھ رہا ہے۔ وہ واقعی صداقت کا مظہر تھے: صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه.
جس طرح سے ہم نے ان کے کام کو قریب سے دیکھا وہ واقعی جدوجہد کے مظہر تھے۔ انتھک کام؛ انتھک! مثال کے طور پر کبھی کبھی جب وہ کسی ملک میں جاتے تو واپس آ کر ہمیں رپورٹ بھیجتے اور جب میں اس رپورٹ کو پڑھتا تو اس میں مثلاً چند دن میں ہونے والے کثیر اور متعدد عظیم کام پر حیران رہ جاتا. میں نے ان میں سے کچھ رپورٹس کا ایک ایک نسخہ اپنے پاس رکھنے کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ میں نے اس پر یہ بھی لکھا ہے کہ میں یہ اس لیے رکھ رہا ہوں تاکہ مستقبل میں دیکھا جا سکے کہ یہ مرد کتنا کام کرتا تھا۔ ابھی میرے پاس اس قسم کی دو یا تین رپورٹس کی کاپیاں ہیں۔ انتھک کام اور محنت!
بہادری کے ساتھ؛ یعنی وہ کام جو عام کام نہیں ہے اور اس میں بہادری کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔ عقلیت پر انحصار کرتے ہوئے۔ بہادری اور عقلیت دونوں؛ دونوں قابل تعریف حد تک۔ تدبیر کے ساتھ۔ وہ دشمن اور دشمن کے وسائل دونوں کو صحیح طور پر جانتے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ شہید سلیمانی کو معلوم نہیں تھا کہ دشمن کی وہ کون سی صلاحیتیں ہیں جنہیں وہ استعمال کر کے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہیں دشمن کے وسائل کا بخوبی علم تھا لیکن ساتھ ہی وہ پوری شجاعت اور طاقت کے ساتھ میدان میں اترتے تھے۔ وہ دشمن سے خوفزدہ نہیں تھے اور عقلمندی سے کام کا راستہ چنتے تھے۔
میں نے کئی بار ملک کے کچھ اعلیٰ عہدے داروں کی موجودگی میں کہا، وہاں خود شہید بھی موجود تھے - ان کی موجودگی میں اور ان کی غیر موجودگی میں - کہ وہ اپنا کام دانشمندی سے انجام دیتے تھے۔ ان کی شجاعت ایسی ہے کہ ان کے دلیرانہ کاموں کے واقعات اب زبانوں پر ہیں۔ وہ کام جو وہ پوری تدبیر سے انجام دیتے تھے، احتیاط کے ساتھ! یہ "صداقت" ہے؛ «صَدَقوا ما عاهَدُوا الله» کے معنی یہ ہیں۔
لیکن ان کا اخلاص؛ صداقت اور اخلاص۔ اگر اخلاص نہ ہو تو کام میں برکت نہیں ہو گی۔ یہ اخلاص کی وجہ سے ہے کہ کام میں برکت ہوتی ہے۔ ان کا خلوص کہاں دیکھا جا سکتا ہے؟ چونکہ وہ بالکل بھی نظر آنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ ذرہ برابر بھی نظر آنے سے بھاگتے تھے۔ وہ نظر آنے سے بھاگتے تھے، اب گویا ساری دنیا انہیں دیکھ رہی ہے۔ ساری دنیا ان کا نظارہ کر رہی ہے۔ وہ اپنا کام خدا کے لیے کرتے تھے، دکھاوا کرنے والے نہیں تھے، گھمنڈ کرنے والے نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو جو پہلا دنیاوی انعام انہیں دیا وہ لاکھوں لوگوں پر مشتمل جنازہ تھا۔ یہ جنازہ ان کے اخلاص کی دنیا میں پہلی جزا تھی، آخرت کی جزا اپنی جگہ محفوظ ہے۔ شہید سلیمانی کے نام کا اس طرح پھیلنا اور ان کی شخصیت، ان کی یاد اور ان کا نام دنیا میں پھیلانا ان کے لیے دنیاوی جزا تھی۔ ان دو سالوں میں ہزاروں بار لوگ شہید سلیمانی کا نام لے چکے ہیں، اپنے قلم کے ذریعے لکھ چکے ہیں۔ اس سال بھی لوگ از خود انکی یاد منا رہے ہیں - جس کے بارے میں میں نے کہا تھا کہ میں اس پر واپس آؤں گا - یہ اس عزیز کے خلوص کی وجہ سے ہے۔
شہید سلیمانی نمونہ عمل بن گئے۔ ایک سب سے نمایاں حقیقت یہ ہے کہ شہید سلیمانی ایک نمونہ عمل کے طور پر ابھرے۔ آج، اسلامی دنیا میں بہت سے نوجوان - خاص طور پر اس خطے میں، جو میں اس خطے کے بارے میں جانتا ہوں - شہید سلیمانی جیسے ہیرو کے پیاسے ہیں؛ وہ آج پیاسے ہیں۔ سلیمانی کی یاد جتنی زیادہ پھیلتی ہے، اتنی ہی ان کی دلچسپی، اپنے اپنے ملکوں میں ایسے ہیرو کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ آج، شہید سلیمانی ہمارے خطے میں امید اور خود اعتمادی کی علامت ہیں، شجاعت کی علامت، مزاحمت اور فتح کا استعارہ ہیں۔ یہ کام خدا کرتا ہے۔ یہ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ کسی بھی حکمت عملی کے تحت اس طرح کی چیزیں انجام دینا ہمارے بس میں نہیں۔ یہ کام، خدا کے کام ہیں۔
کسی نے کہا تھا کہ شہید سلیمانی اپنے دشمنوں کے لیے سردار سلیمانی سے زیادہ خطرناک تھے۔ اس نے صحیح سمجھا۔ واقعی طور پر ایسا ہی ہے۔ دو سال پہلے شہید سلیمانی اور شہید ابو مہدی عزیز اور ان کے دیگر ساتھیوں کو شہید کرنے والوں کا خیال تھا کہ اب قصہ ختم ہو گیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم نے ان کو مارا اور یہ معاملہ اب ختم ہو گیا، انہیں چھٹکارا مل گیا۔ آج ان کی حالت دیکھیں اور مشاہدہ کریں کہ ان کا کیا حال ہے اور کس حالت میں ہیں۔ امریکہ کا حال دیکھیں! وہ کس طرح افغانستان سے فرار ہوتا ہے، اور عراق میں وہ مجبور ہے کہ نکلنے کا دکھاوا کرے- یقیناً عراقی بھائیوں کو اس معاملے پر پوری ہوشیاری سے توجہ رکھنی چاہیے- وہ مجبور ہے کہ کہے کہ اس کے بعد مشیر کا کردار ادا کرے گا۔ یعنی یہ تسلیم کرلینا کہ وہ وہاں عسکری موجودگی نہیں رکھنا چاہتا اور نہ ہی رکھ سکتا ہے۔ یمن کا مسئلہ دیکھیں، لبنان کا مسئلہ دیکھیں۔
خطے میں موجودہ استکبار مخالف تحریک، خطے میں مقاومت کا دھارا، آج سے دو سال پہلے سے زیادہ مضبوط، زیادہ تروتازہ اور زیادہ پر امید طور سے آگے بڑھ رہا ہے اور کام کر رہا ہے۔ شام میں بھی انہوں نے ٹھوکر کھائی اور شام میں ان کو مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ یہ اس عزیز اور مظلومانہ خون کی برکتیں ہیں۔
شہید نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ جو شہیدانہ زندگی گذارتا ہے وہی شہید ہوتا ہے۔ اور انہوں نے اسی طرح زندگی گزاری۔ واقعی طور سے شہیدانہ زندگی گزاری؛ انھوں نے ویسی ہی زندگی گزاری۔ شہید کی بعض اخلاقی خصوصیات بھی [اہم] ہیں۔ میں آج کل شہید کی اخلاقی خصوصیات اور زندگی کے اسی موضوع پر ایک کتاب پڑھ رہا ہوں - "وہ سلیمانی جسے میں جانتا ہوں" میرے خیال میں اس طرح کا کوئی عنوان ہے - جو کہ دلچسپ مطالب کی حامل کتاب ہے۔ اس میں ان کے ایک پرانے دوست کے مطابق لکھا ہے کہ انکے ایک شہید دوست کے پوتے کی سرجری کرنا چاہتے تھے، وہ ہسپتال گئے اور آپریشن ختم ہونے تک کھڑے رہے۔ بچے کی ماں نے کہا: "آغا جان، آپریشن ختم ہو گیا ہے، آپ جائیں اور اپنے کاموں کو دیکھیں" انھوں نے کہا نہیں، تمہارے والد یعنی بچے کے دادا میری جگہ شہید ہوئے اور میں اب ان کی جگہ پر کھڑا رہوں گا۔ وہ اس وقت تک وہاں کھڑے رہے جب تک کہ بچہ ہوش میں نہیں آگیا، جب وہ مطمئن ہوگئے، پھر چلے گئے۔ شہداء کے گھرانے کے ساتھ انکا یہ سلوک، دوسری طرف شرپسندوں اور مفسدین کے ساتھ ویسا سلوک۔ بیرون ملک ایک طرح کا برتاو، ملک کے اندر ایک برتاو، کرمان کے جنوب میں اور جیرفت کے علاقہ میں وہ کام جو انھوں نے کئی سالوں تک انجام دئیے، ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے جس طاقت کا مظاہرہ کیا اور جو فیصلہ کن اور زوردار کاروائی انھوں نے انجام دی وہ ایسی تھی کہ جب وہ کسی علاقے میں داخل ہوتے تھے اور دشمن کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ آچکے ہیں تو صرف ان کا داخل ہونا ہی دشمن کے حوصلے کو تباہ کر دیتا تھا، ختم کردیتا تھا۔
آج بھی مستکبرین ان کے نام سے ڈرتے ہیں، ان کی یاد سے ڈرتے ہیں۔ سائبر اسپیس میں دیکھیں - آپ شاید مجھ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ وہ ان کے نام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ یہ ایک اور تنبیہ ہے، یہ ہمارے لیے اور ملک کے سائبر اسپیس حکام کے لیے زیادہ توجہ دینے کا مقام ہے کہ وہ سمجھ سکیں کہ انھیں کیا کرنا ہے، تاکہ دشمن جس طرح چاہے، جہاں چاہے، خودسرانہ رویہ اختیار نہ کر سکے۔ خیر، دنیا کی موجودہ سائبر اسپیس مستکبروں کے اختیار میں ہے؛ وہ ان کے نام سے بھی ڈرتے ہیں اور ان کی تکثیر سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ نمونہ عمل یعنی یہ، وہ ڈرتے ہیں کہ ان جیسے اور پیدا نہ ہوجائیں۔
بہرحال شہید سلیمانی لازوال ہیں، وہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ جن لوگوں نے انہیں شہید کیا - ٹرمپ اور اس جیسے - انکا مقام تاریخ کے کوڑے دان میں ہے اور تاریخ کے فراموش شدہ لوگوں میں سے ہوں گے، لیکن وہ ہمیشہ زندہ ہیں۔ شہید ایسا ہوتا ہے اور ان کے دشمن مر کھپ جائینگے۔ البتہ، ان شاء اللہ، وہ اپنے عمل کی دنیاوی قیمت چکانے کے بعد ہی مریں کھپیں گے۔
آپ، ان کا معزز گھرانہ، ان کے دوست اور ساتھی، اور جناب سردار قاانی، جو الحمدللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، آپ سب، ان شاء اللہ، اس راہ کی پیروی کریں، آگے بڑھیں۔ اور خدا تعالیٰ نے ہم سے فتح کا وعدہ کیا ہے: اِنَّ اللهَ یُدافِعُ عَنِ الَّذِینَ آمَنُوا؛ اس نے دفاع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ہم رضائے الٰہی اور الہی مقاصد کی سمت بڑھ رہے ہیں، اور قوم اسلام کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ دفاع، اور پھر نصرت: لَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه؛ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم؛
ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ آپ سب کامیاب اور مورد تائید واقع ہوں گے۔ ان خاتون نے جن چیزوں کا ذکر کیا وہ بھی اچھی چیزیں ہیں۔ انشاء اللہ یہ سب کچھ بہترین انداز میں جاری رکھا جائے۔
والسّلامعلیکمورحمةاللهوبرکاته