17 نومبر 2021 کو رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی ملک کے ممتاز علمی اور نمایاں استعداد کے حامل طلباء سے ملاقات میں دیئے گئے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ الحمد للہ یہ ملاقات اس سال منعقد ہو رہی ہے۔ یقیناً پچھلے سالوں میں، ہم ہر سال ممتاز طلباء سے ملتے تھے، لیکن پچھلے سال ہمیں یہ توفیق نہیں حاصل ہوسکی۔ آج کی ملاقات میرے لیے مفید تھی۔ ہمارے دوستوں اور عزیزوں - لڑکوں اور لڑکیاں دونوں- نے یہاں جو کہا ہے اس سے مجھے واقعی فائدہ ہوا ہے۔ اب اگلا مرحلہ بیانات کی درستگی، گہرائی اور دقت کا فیصلہ کرنا ہے۔ آپ کی باتوں پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن مجموعی طور پر جو کچھ میں نے یہاں سنا ہے وہ میرے لیے مفید تھا اور میں نے اس ملاقات سے مستفید ہوا ہوں۔ میں ان دوستوں کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے یہاں بات کرنے کی زحمت اٹھائی۔
میں پہلے کلی طور علمی طور سے ممتاز اور نمایاں استعداد رکھنے کے بارے میں چند نکات کا ذکر کروں گا۔ اگر آخر میں وقت باقی بچا تو میں علم محور مراکز کے بارے میں بھی چند نکات کا ذکر کروں گا۔
نمایاں استعداد ہونا ایک الہی نعمت ہے جس کے لیے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
پہلا نکتہ، میرے عزیزو، یہ ہے کہ ممتاز ہونا ایک خدائی نعمت اور تحفہ ہے جس کے لیے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلی چیز جس کے بارے میں آپ کو سوچنا چاہیے وہ اس نعمت کے لیے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے، «وَ اشکُروا نِعمَتَ اللهِ اِن کُنتُم اِیّاهُ تَعبُدون »یہ سورہ "نحل" میں ہے۔ آیت «وَ اشکُروا نِعمَتَ الله» قرآن پاک میں دوسری جگہوں پر بھی موجود ہے۔ یہ ایک دائمی فرض ہے۔ بعد میں میں خدا کا شکر ادا کرنے کی روش پر بھی گفتگو کروں گا۔ لیکن پہلا نکتہ یہ ہے کہ ممتاز ہونے کی نعمت اور تحفہ کے لئے خدا کا شکر ادا کرنے کے بارے میں غور و فکر کریں اور شکر ادا کریں۔
صلاحیتوں سے استفادہ ممتاز ہونے کی شرط ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جو چیز غیر معمولی استعداد کے حامل لوگوں کو نمایاں بناتی ہے وہ محض استعداد اور ذہنی صلاحیت نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن میں استعداد اور ذہنی صلاحیت ہے لیکن یہ ان میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ان میں یہ صلاحیتیں کبھی دریافت نہیں ہوتیں یا ان کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا۔ اس طرح، وہ ممتاز لوگوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے ہیں. جو چیز ممتاز افراد کو ممتاز بناتی ہے وہ اس استعداد اور ذہنی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اس حقیقت اور اس نعمت کی قدر کرنا ہے۔ اس نعمت کی قدردانی ہونی چاہیے اور اس نعمت کی قدر کرنے کی وجہ سے محنت کرنی چاہیے۔ اگر ایک باصلاحیت، استعداد سے مالا مال شخص اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتا اور سستی، بے توجہی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ یقیناً ایک ممتاز فرد نہیں بن سکتا۔ ایک ممتاز فرد وہ ہوتا ہے جو اپنی صلاحیتوں کی قدر کرتا ہے، اس کا استعمال کرتا ہے اور محنت اور سختی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک ممتاز شخص بناتا ہے۔ یہ شخص خود وہ ہے جسے بنیادی طور پر اپنے اندر موجود اس استعداد کی سراہنا چاہیے اور دوسرے مرحلے پر اس کا ماحول اس کے اندر موجود اس استعداد کو سراہنے کا ذمہ دار ہے۔ ماحول کا مطلب ہے حکومت، ملک کے حکام، ایک عمر کے خاص حصے میں والدین اور عمر کے دوسرے حصے میں اساتذہ یا یونیورسٹی کے پروفیسر۔ ان لوگوں کو اس کی استعداد کو سراہنا چاہیے، لیکن کسی کی صلاحیتوں کے سراہے جانے میں ایک بڑا کردار خود اس ممتاز شخص پر منحصر ہے۔
استعمار کی طرف سے قوموں کی استعداد کے خلاف لڑی جانے والی نرم جنگ
خیر، یہ ممتاز افراد کے حوالے سے کلی نکات تھے۔ تاہم، اس کا اطلاق پورے ملک پر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کی اوسط ذہانت عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہماری قوم کے لوگوں میں ممتاز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ آج کے دور اور ہر دور میں استعمار کی جانب سے رچائی جانے والی نرم جنگ کا ایک اہم حصہ ایرانی قوم یا کسی بھی باصلاحیت قوم کو ان کی صلاحیتوں سے غافل کرنے، اس کے بارے میں لاتعلق ہونے یا اس استعداد سے انکار پر مجبور کرنا ہے۔ وہ دہراتے رہتے ہیں، "آپ نہیں کر سکتے۔ آپ نہیں کر سکتے۔ آپ نہیں کر سکتے" جب تک یہ قومیں یقین نہ کرلیں کہ "ہم نہیں کر سکتے۔" اور جب تک خود نہ کہدیں. استعمار کی طرف سے یہ ایک عام رواج رہا ہے۔نہرو اپنی یادداشت "glimpses of world history" میں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے، یہ ملک اپنی داخلی صنعتوں کے لحاظ سے، اس وقت کی، انیسویں صدی کی، انیسویں صدی کے اوائل کی صنعتوں کے لحاظ سے ایک خود کفیل ملک تھا، جب انگریز وہاں پہنچے، پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی حکومت، تو انھوں نے وہ حالت کر دی کہ ہندوستانیوں کو محسوس ہونے لگا کہ برطانوی اور غیر ملکی مصنوعات کے بغیر زندگي بسر کرنا ممکن ہی نہیں ہے، یعنی ایک قوم کا خود اپنی صلاحیتوں سے انکار۔
ہمارے اپنے ملک میں بھی ایسا ہی تھا۔ ہم بھی انقلاب کی کامیابی سے پہلے دو سو سال تک اسی حالت سے دوچار رہے۔ جیسا کہ آپ نے سنا ہے، جب تیل کو قومیانے کا مسئلہ اٹھایا گیا اور جب کہا گیا کہ ایرانی اپنے تیل کا انتظام خود کر سکتے ہیں، تو ظالم حکومت کے وزیر اعظم [حاج علی رضمارہ] نے اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "ایرانی جاکر (وہی) مٹی سے پانی کے کوزے [لولاہنگ] بنائیں۔ آپ نے اس طرح کا پانی والا کوزہ نہیں دیکھا ہوگا۔ لولاہنگ ایک پانی کا کوزہ ہے جو ٹن سے نہیں بنتا، بلکہ مٹی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان دنوں ہمارے بچپن میں اور جب ہم نوجوان تھے، مٹی کے پانی کے برتن اسوقت بھی عام تھے۔ یہ مٹی کا بنا ہوا پانی کا کوزہ ہوتا تھا۔ اُس نے کہا، ’’ایرانیوں کو جاکر مٹی سے پانی کے کوزے بنانے چاہیے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں انہوں نے قوم کو اس قدر نچلی سطح پر پہنچا دیا تھا۔
غفلت قوموں کی لوٹ مار کا مقدمہ ہے۔
جب کسی قوم میں اپنی صلاحیتوں سے غفلت برتی جائے تو اس قوم کو لوٹنا آسان ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں کہ غفلت اور لوٹ مار ایک دوسرے کو بڑھاتے ہیں۔ غفلت لوٹ مار کا مقدمہ ہے، اور لوٹ مار غفلت کو بڑھاتی ہے۔ غفلت اور لوٹ مار ایک ساتھ آتے ہیں۔ یہ بات ان ممالک کے بارے میں بھی درست ہے جو براہ راست مستعمرہ تھے اور ہمارے جیسے ممالک کے بارے میں بھی جو براہ راست مستعمرہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ہم غافل ہوجائیں۔ قرآن میں غفلت کی بحث ایک دلچسپ بحث ہے۔ وہاں اس کی بالکل صراحت سے وضاحت کی گئی ہے۔ نمازِ خوف کے سلسلے میں، خدا فرماتا ہے، «وَدَّ الَّذینَ کَفَروا لَو تَغفُلونَ عَن اَسلِحَتِکُم وَ اَمتِعَتِکُم فَیَمیلونَ عَلَیکُم مَیلَةً واحِدَة»؛ [قرآن پاک، 4:102]۔ دشمن چاہتا ہے کہ آپ اپنے ہتھیاروں اور اپنے اثاثوں سے غفلت برتیں۔ غور کریں کہ وہ کس طرح ہمارے ڈرونز، میزائلوں اور اس طرح کے مسئلے کو ایک بنیادی مسئلہ کے طور پر اٹھاتے ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ آپ ان صلاحیتوں کو نظر انداز کر دیں تاکہ وہ آپ پر آسانی سے حملہ کر سکے۔ یہ میزائلوں کا مسئلہ تھا۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ یہ مسئلہ ہماری توجہ ممتاز افراد کے مسائل سے دور کردے۔
ممتاز علمی طبقہ ملکی معاملات میں ذمہ داری کا احساس کرے۔
ممتاز علمی طبقہ اور نمایاں افراد کے بارے میں اگلا نکتہ ان کے احساس ذمہ داری کا ہے۔ بلاشبہ، ملک کے حکومتی اداروں کی ممتاز علمی حلقوں کی نسبت اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ ملک کے حکام، میں اور دیگر اس ذمہ داری کو بہترین طریقے سے نبھا سکیں گے۔ لیکن ممتاز نوجوانوں کو بھی ملک کے تئیں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ بعض اوقات، ممتاز جوان کے لیے موجودہ مشکلات سے نمٹنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب سے اہم اخلاقی نکات میں سے ایک ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ یہ تصور کہ ممتاز علمی حلقوں کے کام کرنے کے قابل ہونے کے لیے ہر چیز تیار اور جگہ پر ہونی چاہیے درست نقطہ نظر نہیں ہے۔ کبھی کبھی آپ کو رکاوٹوں سے لڑنا پڑ سکتا ہے، جس پر کچھ دوستوں نے یہاں بات بھی کی۔ یقیناً، کچھ غیر منصفانہ رویہ بھی موجود ہے۔ ملک کے مختلف انتظامی اور اجرائی اداروں میں ممتاز افراد کے ساتھ بعض اوقات ناروا سلوک اختیار کیا جاتا ہے۔ میں اس سے پوری طرح واقف ہوں، لیکن ان چیزوں کی وجہ سے ممتاز لوگوں کو اپنے راستے اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے سے باز نہیں آنا چاہیے، اور ان کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، "ہم فلاں دفتر یا یونیورسٹی گئے اور انہوں نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی۔" ان چیزوں سے ممتاز افراد کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے، سخت محنت کرنی چاہیے اور اپنے پروگراموں کو جاری رکھنا چاہیے۔
یہ شکر کی وہ قسم ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔ ممتاز ہونے کی نعمت کے لیے خُدا کا شکر گزار ہونے میں یہ اقدام بھی شامل ہے۔ انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور عملی طور پر شکر گزار ہونے میں سخت محنت بھی شامل ہے۔ بلاشبہ، شکر گزار ہونے کا ایک اور حصہ یہ ہے کہ وہ اس عظیم نعمت کا استعمال کریں جو انہیں خدائے بزرگ و برتر نے عطا کی ہے۔ اور ہر اچھا نتیجہ جو علمی حلقوں کو حاصل ہو، خدا کی مرضی اور اردے کے مطابق استعمال کیا جائے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ ممتاز لوگوں کی حرکت کو جہت دیتا ہے۔
ملک کو علم کی عالمی صف اول تک پہنچنے میں مدد کرنے میں ممتاز لوگوں کا کردار
ممتاز علمی افراد سے متعلق ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ممتاز علمی شخصیات - جیسا کہ ہماری بحث ممتاز علمی شخصیات سے متعلق ہے - کو ملک میں علم کے لیے تیار شدہ مستقبل اور افق کی طرف نگاہ رکھنی چاہیے اور اس پر توجہ دینا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں اس طرح آگے بڑھنا چاہیے کہ مناسب وقت میں - چند سال پہلے میں نے 50 سال کی بات کی تھی - ایران دنیا میں علم و سائنس کا مرکز بن سکے۔ دوسرے لفظوں میں اگر لوگ تازہ ترین علمی نتائج کے بارے میں جاننا چاہیں تو انہیں فارسی سیکھنی پڑے۔ مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ آپ کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایک وقت ایسا ہی تھا۔ تاریخ کے ایک موڑ پر ہمارے سائنسدان دنیا میں علم کے عروج پر تھے۔ ان کی کتابوں پر توجہ دی جاتی تھی اور دنیا کی تمام یونیورسٹیوں، مغرب اور مشرق کی یونیورسٹیوں یعنی ہندوستان، چین اور اس طرح کی یونیورسٹیوں میں ان کا حوالہ دیا جاتا تھا، جو اس وقت علم کے مراکز بھی تھے۔ ہمیں اس افق کی طرف دیکھنا چاہیے۔
دنیا میں علم کے عروج تک پہنچنے کے مراحل کی تصویرکشی
یقیناً اس کے لیے کچھ مراحل درکار ہیں۔ پہلا مرحلہ علم کے حوالے سے ہمارے اور دنیا کے درمیان خلیج کو پر کرنا ہے۔ لیے ایک بڑا خلا موجود ہے۔ بلاشبہ، ہم اس علمی ترقی کو سراہتے ہیں جو ہم نے کی ہے جیسا کہ ہمارے اعدادوشمار، جو عالمی اعدادوشمار پر مبنی ہیں، ثابت کرتے ہیں۔ یہ علمی پیش رفت قابل ستائش ہے اور ہم نے حقیقی معنوں میں ترقی کی ہے۔ تاہم ہم دنیا میں علم کی صف اول پر آنے سے بہت دور ہیں، ہمیں دو سو سال پیچھے رکھا گیا ہے۔ انقلاب کی فتح کے بعد ایک تحریک چلی۔ اور تقریباً دو دہائیاں قبل ایک تیز تر تحریک شروع ہوئی۔ ہم نے اچھی ترقی کی ہے، لیکن ہم ابھی بہت دور ہیں۔ پہلا قدم اس خلا کو پر کرنا ہے۔
دوسرا مرحلہ علم کی عالمی سرحدوں اور صفواں کو عبور کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمیں دنیا کو نئی علمی امداد اور نئی علمی دریافتیں پیش کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ میں اس کو بعد میں تفصیل دوں گا۔ اور اس کے بعد اگلا قدم ایک نئی اسلامی تہذیب کو تشکیل دینا ہے۔ یقیناً، کسی بھی تہذیب کی سب سے اہم بنیادوں میں سے ایک علم ہے – مفید و نافع علم - اور جب ہم "ایک نئی اسلامی تہذیب" کے لفظ کو دہراتے رہتے ہیں تو اس تہذیب کی بنیادوں میں سے ایک علمی ترقی ہے۔ ہمیں اس کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ اگر آپ کی نظریں ممتاز فرد کے عنوان سے اس افق پر جمی ہوئی ہیں، تو آپ کی علمی تحریک قدرتی طور پر درست سمت میں آگے بڑھے گی۔ اور جو مسائل کبھی کبھی سامنے آتے ہیں - جیسے علمی مضامین کا مسئلہ جیسا کہ اس نشست میں دوستوں نے ذکر کیا ہے - حل ہو جائیں گے۔ یعنی درست سمت واضح ہوگی اور درست پیش رفت ہوگی۔
علمی اختراعات اور انکشافات میں ممتاز علمی حلقوں کا کردار
اب وہ نکتہ جس کیلئے میں نے کہا تھا کہ میں اس کو تفصیل سے بیان کروں گا، اس کا تعلق علمی دریافت اور انکشاف سے ہے۔ یہ اہم ہے. آج ملک میں بہت سی علمی سرگرمیاں ہو رہی ہیں، لیکن یہ سرگرمیاں اکثر دوسروں کی سائنسی تخلیق کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کسی نے ایٹمی توانائی دریافت کی اور آج ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے اور جس کی پیروی کی جانی چاہیے وہ ہے علم کی تخلیق۔ آپ کو تخلیقی ہونا پڑے گا۔ آپ کو علم ایجاد کرنا ہوگا، اور یہ اکثر فطرت میں کسی خاص قوت کو دریافت کرنے کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ یعنی سائنس میں اختراع ایک ایسے قیمتی قانون کی دریافت سے ہوتی ہے جو فطرت میں موجود ہے اور جو آج تک دریافت نہیں ہو سکا۔ اس قانون کی بنیاد پر سائنس پیدا ہوتی ہے اور بہت سی ٹیکنالوجیز تخلیق کی جاتی ہیں۔ ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ ہمارے ممتاز علمی نوجوانوں کو سائنس میں تخلیقی صلاحیتوں کو اپنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، کشش ثقل- یہ عام، پرانی مثالیں ہیں جو ہم ایک طویل عرصے سے دے رہے ہیں - کسی نے یہ دریافت کی اور سائنس اس کی بنیاد پر بنائی گئی۔ فطرت میں بجلی کی طاقت موجود تھی لیکن کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔ کسی نے اسے دریافت کیا اور اس دریافت کی بنیاد پر سائنس اور ٹیکنالوجی کا یہ وسیع میدان وجود میں آیا۔ نینو ٹیکنالوجی، سٹیم سیل اور نیوکلیئر انرجی جیسے نئے علوم کا بھی یہی حال ہے۔ الہی فطرت و خلقت میں کسی حقیقت کی دریافت، کسی عنصر، ایک قیمتی قانون یا فطرت میں کسی عنصر کی دریافت آپ کو ایک علمی و سائنسی نقطہ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ پھر وہ نقطہ علم و سائنس بن جائے گا۔ معلومات کو مرتب کیا جائے گا، اس میں وسعت لائی جائے گی اور ٹیکنالوجی اور اس طرح دوسری چیزیں وجود میں آئینگی۔
مسئلہ محور ہونے کی ضرورت
ممتاز علمی حلقوں کے بارے میں ایک اور نکتہ جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ملک کی علمی برادری کا ایک مقصد - نہ صرف ممتاز افراد بلکہ تمام علمی حلقوں کا یقیناً ممتاز علمی افراد کے معاملے میں یہ اور بھی ضروری ہے- ملک کے موجودہ مسائل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اور مسئلہ محور روش اپنانی چاہیے۔ مسئلہ محور ہونا لازمی ہے۔ ملک کے کچھ بنیادی مسائل ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ان کو علمی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ابھی ہمارے دوستوں نے ان میں سے چند مسائل کو اٹھایا ہے اور ان کا حل تجویز کیا ہے۔ البتہ میں نے کہا کہ ان حلوں کو پرکھنے کے لیے غور و فکر اور دقت کی ضرورت ہے، لیکن ملک کے تمام مسائل کا علمی حل تلاش کرنا ممکن ہے۔ لہذا اعتماد کے ساتھ ان مسائل کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مثال کے طور پر ہمارے موجودہ مسائل میں سے ایک ملک میں پانی کا مسئلہ ہے۔ یہ مسائل میں سے ایک ہے۔ ملک میں ایک مسئلہ پانی کی قلت ہے، اور یہ مستقبل قریب میں دنیا کا ایک اور اہم مسئلہ بن جائے گا۔ اسکا ایک علمی حل تجویز کیا جانا چاہئے. ماحولیاتی مسائل اور یہاں تک کہ ٹریفک کے مسئلے کا بھی یہی حال ہے۔ یہ زندگی کے مسائل ہیں۔ جب آپ تہران کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر کرتے ہیں تو آپ کو ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ گاڑی میں بیٹھنا پڑتا ہے ان مصروفیات کے ساتھ! اس کا ایک حل موجود ہے. اس کا حل علم و سائنس کے ذریعے تلاش کرنا چاہیے۔ سماجی مسائل جیسے نشے، طلاق، پسماندگی، دیہات سے شہر کی جانب نقل مکانی اور دیہات ختم ہونے کے مسائل کے حل بھی موجود ہیں۔ بعض اوقات ایک انتظامی عہدیدار ہمدرد نہیں ہوتا ہے اور وہ ان مسائل کو بالکل نہیں دیکھنا چاہتا ہے، ابھی یہ بحث کا موضوع نہیں ہے۔ لیکن جب فرض کرلیا جائے کہ عہدیدار مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو علمی حل تلاش کرنا چاہیے، اور حل ضرور موجود ہے۔ انتظام کے دیگر شعبہ جات، بینکنگ سے متعلق مسائل، مالیاتی اور ٹیکس نظام اور پیداوار کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں بھی یہی حال ہے۔ اس سال کا نعرہ بھی ہے "رکاوٹوں کو ختم کرنا۔" علمی حل موجود ہیں۔ ان حلوں کا تعین علمی طور پر کیا جانا چاہیے۔ بعد میں، میں اس کی مزید وضاحت کروں گا۔ دسیوں دوسرے معاملات ہیں جن کے بارے میں آپ کو بھی سوچنا چاہیے۔
مجھے ایک رپورٹ دی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے کچھ ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹیاں اکثر غیر سرکاری اور پرائیویٹ ہوتی ہیں، لیکن ان غیر سرکاری یونیورسٹیوں کو حکومتوں سے بہت زیادہ بجٹ ملتا ہے۔ کیسے؟ اس طرح نہیں کہ بے تحاشا پیسا دیا جائے۔ نہیں، وہ یونیورسٹیوں کے ساتھ کچھ مسائل پر بات کرتے ہیں اور ان سے جوابات تلاش کرنے کو کہتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کے تناسب سے حکومت سے فنڈز ملتے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے. یہ علمی و سائنسی شعبوں اور ممتاز علمی افراد کے بارے میں مسئلہ محور نقطہ نظر ہے، اور یہ ایک اہم، ضروری معاملہ ہے۔
ملک کو مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ترقی کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنے نکات میں مصنوعی ذہانت کا موضوع "مسائل محور نقطہ نظر" کے عنوان کے تحت لکھا ہے اور میٹنگ میں ایک دوست نے اس موضوع کو بھی اٹھایا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ان مسائل میں سے ایک ہونا چاہیے جس کو ہماری سنجیدہ توجہ حاصل ہونی چاہیے، کیونکہ یہ دنیا کے مستقبل پر حکمرانی میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ہمیں اس موضوع پر صدر مملکت کے معاون برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے یا یونیورسٹیوں میں اس طرح کام کرنا چاہیے۔ کہ ہم مصنوعی ذہانت کے لحاظ سے کم از کم دنیا کے دس صف اول کے ممالک میں شامل ہوسکیں، لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔ آج مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سرفہرست ممالک میں - امریکہ اور چین اور ان جیسے ممالک کے علاوہ جو سرفہرست ہیں - کچھ ایشیائی اور یورپی ممالک بھی ہیں، لیکن ہم ان میں شامل نہیں ہیں۔ ظاہری طور پر ایشیائی ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔ 10 سرفہرست ممالک میں ایشیائی ممالک کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمیں اس شعبے میں کم از کم دنیا کے دس صف اول کے ممالک میں شامل ہونے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
ممتاز علمی حلقوں کی حوصلہ شکنی کرنا اور انہیں دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دینا ملک کے ساتھ غداری ہے۔
ممتاز علمی حلقوں سے متعلق اور نکتہ ہجرت کا مسئلہ ہے جس پر آج ایک دوست نے بھی بات کی۔ کبھی کوئی طالب علم اپنی علمی ضروریات یا خاندانی وجوہات کی بنا پر کسی ملک میں تعلیم حاصل کرنے جانا چاہتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے۔ میں نے کئی بار کہا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کے مقروض ہیں اور انہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس لوٹنا چاہیے۔ لیکن جس چیز میں حرج ہے وہ انکو ملک چھوڑنے پر اکسانا ہے؟ مجھے بتایا گیا ہے - یقیناً آج سے نہیں، یہ معاملہ ایک طویل عرصے سے موجود ہے - کہ کچھ یونیورسٹیوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ممتاز طلباء کو ملک چھوڑنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ غداری ہے۔ یہ ملک سے دشمنی ہے نوجوانوں سے دوستی نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک میں نمایاں استعداد کے حامل نوجوان ترقی کر سکتے ہیں۔ ایک خاص وقت، وہ دوسرے ملک جا کر واپس بھی آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی نوجوان کو ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کرتے ہیں، اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اسے ہجرت کرنے کی ترغیب دینے کیلئے مستقبل کی تاریک تصویر پیش کرتے ہیں، تو میں واقعی میں اسے غداری سمجھتا ہوں اور اس کو ہمیں سنجیدہ لینا چاہیے۔
ثقافتی رکاوٹیں پیداوار کے راستے میں سب سے اہم رکاوٹیں ہیں۔
اگلا مسئلہ "رکاوٹوں کو ختم کرنا" ہے، جس کیلئے میں نے کہا تھا کہ وضاحت کروں گا اور جو سال کا نعرہ بھی ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ ثقافتی رکاوٹیں پیداوار کے راستے میں اجرائی اور مادی رکاوٹوں سے زیادہ اہم رکاوٹیں ہیں۔ یعنی احساس ناامیدی، نااہلی، مایوسی، کمزور ارادہ، نقصان دہ تفریح اور یہ احساس کہ کوئی مستقبل نہیں ہے وہ چیزیں ہیں جو واقعی پیداوار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، ایک نوجوان جو علم محور مرکز قائم کر سکتا ہے، اور کاموں کام کا ایک اہم حصہ انجام دے سکتا ہے، اور ایسا کر کے اپنے لیے آمدنی پیدا کر سکتا ہے اور اور ملک کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے، محنت کرنے کے بجائے نقصان دہ مشاغل میں مشغول ہوجاتا ہے۔ بہت سے لوگ کمپیوٹر وغیرہ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے صبح سے رات، یا رات سے صبح، بغیر کسی مقصد کے، بغیر کسی ہدف کے، اور اس کام سے کچھ حاصل کیے بغیر نیٹ سرفنگ کرتے ہیں۔ سستی، عزم کا فقدان اور خطرات مول لینے کی جرئت کا فقدان پیداوار کو روکنے میں بنیادی رکاوٹیں ہیں۔
علم و تحقیقاتی مراکز کے معاملے میں ضوابط کی ضرورت۔
ان علمی و تحقیقی مراکز سے متعلق، خوش قسمتی سے اچھی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر، میرے ذہن میں تھا کہ تقریباً 6000 ہیں۔ لیکن آج ڈاکٹر ستاری [وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی] نے بتایا کہ 7,000 ہیں۔ الحمد للہ یہ ایک اہم کامیابی ہے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہونا چاہیے۔ لیکن ان کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ پہلے اسی نشست میں میں نے کہا تھا کہ علم مرکز قرار پانے کے لیے قوانین میں سخت ضابطے قائم ہونے چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم معیار پر توجہ دیے بغیر آسانی سے ان کی صرف تعداد بڑھا دیں۔ علم و تحقیقی مرکز ہونے کے لیے کچھ ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعمیل کی جانی چاہیے۔
ملک میں ہماری بڑی صنعتیں علم محور نہیں ہیں اور یہ ایک بہت بڑا عیب ہے۔ ماہرین نے مجھے بتایا ہے کہ یہ چھوٹے علم محور مراکز کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ ملک کی بڑی صنعتوں جیسے کہ آٹوموبائل صنعت اور اس جیسی صنعتوں کو بھی علم محور صنعت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہے تو یہ حتما انجام دینا چاہیے.
علم محور پیداواری مراکز کو مضبوط کرنے کی شرائط: ان کی مصنوعات کو فروغ دینا اور ان کے غیر ملکی متبادل کی درآمد پر پابندی لگانا
علمی و تحقیقی پیداواری مراکز کو مضبوط کرنے کے لیے ایک ضروری امر یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر انکی مصنوعات کو فروغ دیں - بعد میں، میں برآمدات کے مسئلے کی بھی وضاحت کروں گا۔ ان کی مصنوعات کو خود ملک کے اندر استعمال کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی مصنوعات جو وہ خود بناتے ہیں انکی درآمد پر پابندی لگا دی جائے۔ کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر ہنگامہ نہیں کرنا چاہیے، جیسے گھریلو سامان کے معاملے میں کہی گیا: "آپ نے یہ کیوں کہا کہ فلاں ملک کے گھریلو وسائل درآمد نہیں کرنے چاہیے؟" مقامی مراکز کو بہتر اور مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انکو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں ان کی مدد کی جائے اور ان کے لیے ملک کے اندر ایک مارکیٹ ایجاد کی جائے۔ مقامی مارکیٹ چھوٹی مارکٹ نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ مقامی صنعتکاروں کو مہیا کی جانی چاہئے، خاص طور پر حکومت اور بڑے قومی ادارے، جو ان کے سب سے بڑے ممکنہ صارف ہیں۔ حکومت جو کہ اس قسم کی مصنوعات اور صنعتی اشیا کی سب سے بڑی صارف ہے، کو چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں مقامی علم محور پیداواری مراکز سے خریدے تاکہ درآمدات ان کی کمر نہ توڑیں۔ یقیناً، جب ہم کہتے ہیں کہ درآمدات پر پابندی ہونی چاہیے، تو یہ گھریلو کارخانوں اور پروڈیوسروں کی مدد کے لیے ہے۔ تاہم، گھریلو پروڈیوسرز کے بھی کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور معیار کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ ورنہ ہماری تاکید مکمل طور پر بے فائدہ ہو جائے گا.
برآمدات کی اہمیت اور ان کو بڑھانے میں مختلف اداروں کا کردار
لہذا، ایک مسئلہ مقامی مارکیٹ سے متعلق ہے اور دوسرا برآمدات کا مسئلہ ہے۔ اگر برآمدات نہیں ہوں گی تو وہ پیش رفت نہیں ہوگی جو ہونی چاہیے۔ علمی مراکز خود اس سلسلے میں سرگرم ہو سکتے ہیں اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو اس کام کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔ وزارت خارجہ اور صنعت کی وزارت غیر ملکی منڈیوں کو تلاش کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ قومی ٹیلیویژن بھی مدد کر سکتا ہے۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جن میں ایران کا اچھا تاثر ہے لیکن اگر ان سے دو ایرانی مصنوعات کے نام پوچھے جائیں تو وہ بیان نہیں کر سکتے۔ راڈیو ٹیلیویژن کے محکمہ کے غیر ملکی شعبے کو ان مصنوعات کو فروغ دینا چاہیے۔ تو، یہ ایک اور مسئلہ ہے.
جی ڈی پی میں علم محور پیداواری مراکز کا حصہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ستاری سے منقول جو مجھے بتایا گیا ہے اس کے مطابق جی ڈی پی میں علم محور کمپنیوں کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ بہت کم ہے. ملکی پیداوار کا یہ حصہ ضرور بڑھنا چاہیے۔ اسے تین سے چار سال کے دوران کم از کم پانچ فیصد تک پہنچنا چاہیے۔ ان کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے، انشاء اللہ۔ مجھے امید ہے کہ خدا آپ سب کی مدد کرے گا۔ اذان کا وقت قریب ہے اور میں اپنا خطاب یہاں ختم کروں گا۔
ممتاز علمی حلقوں کو انتظامی کردار دیا جانا چاہئے۔
مجھے امید ہے کہ اللہ آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے گا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ مستقبل آپ کا ہے۔ ہمارا ملک آپ کا ہے۔ آپ ہی ہیں جو اس ملک کا مستقبل بنائیں گے، اور آپ ہی ملک کے مستقبل کے منتظم ہیں۔ آپ کو خود کو بھی تیار کرنا چاہیے اور ملک کو بھی تیار کرنا چاہیے۔ آپ یہ کر سکتے ہیں۔ البتہ میری تاکید ہے کہ ملک میں افسران اور وزراء نوجوانوں سے استفادہ کریں۔ میں نے پچھلی انتظامیہ کو بھی اکثر و بیشتر یہ تاکید کی تھی، جو کچھ جگہ، موثر واقع بھی ہوا۔ میں موجودہ انتظامیہ کو بھی یہی تاکید کرتا ہوں۔ انہیں مختلف انتظامی عہدوں پر نوجوانوں کو ملازمت دینی چاہئے – بشمول درمیانی اور نچلی انتظامی عہدوں پر جو کہ ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں - جیسا کہ نشست میں ایک دوست نے بیان کیا ہے۔ وہ انہیں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بھی ملازمت دے سکتے ہیں۔ میں انتظامیہ کو یہ تاکید اس امید پر کرتا ہوں کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔ تاہم، آپ کو بھی اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے اور اپنا مقام خود حاصل کرنا چاہئے۔ ملک کی ترقی میں آپ کو اپنا مقام اور جو کردار ادا کرنا چاہتے ہیں وہ آپ خود تلاش کریں۔ آپ کو اپنی ذہانت کو یہاں بھی دکھانا چاہیے۔ آپ کو اپنے مقام کا تعین کرنا چاہیے اور پھر اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچا کر، جدوجہد اور محنت کرنی چاہیے۔
مجھے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا، انشاء اللہ۔ آپ ملک و قوم کی آنکھوں کا نور ہیں۔ آپ قوم کے عزیز فرزند ہیں۔ انشاء اللہ، اللہ آپ کو ملک کے لیے محفوظ رکھے۔ انشاء اللہ ہمارے شہداء کی پاکیزہ روحیں اور ہمارے عظیم امام کی پاکیزہ روح ہم سے راضی ہو اور مجھے امید ہے کہ ہم سب امام وقت (ارواحنا فداه) کی دعاؤں میں شامل رہیں گے۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته