ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

5ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس میں غیر ملکی شرکاء سے ملاقات میں خطاب

24 اکتوبر 2021 کو رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای کی جانب سے اسلامی جمہوریہ کے سرکاری حکام اور 35ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس میں غیر ملکی شرکاء سے ملاقات میں کئے گئے خطاب کا مکمل متن درج ذیل ہے۔ یہ اجلاس میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امام صادق علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر منعقد ہوا۔

 

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یوم الدّین.

میں آپ تمام معزز شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں، بالخصوص اسلامی اتحاد کانفرنس میں آنے والے معزز مہمانوں اور دیگر ممالک سے اس اجلاس میں آنے والے عزیز بھائیوں کو۔

میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور امام صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ جو کہ ہجری سال کے سن 83 میں اسی دن واقع ہوئی جس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت واقع ہوئی۔

حضور کی ولادت: انسانی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت درحقیقت انسانی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ یہ انسانیت کے لیے رضائے الٰہی اور الٰہی توفیقات کے ایک نئے دور کے آغاز کی بشارت تھی۔ اس لیے یہ ولادت بہت عظیم اور بہت بڑا واقعہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی عظمت کو عام الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ بعض لوگوں نے اسے فن اور شاعری کی زبان میں بیان کیا ہے اور کرتے ہیں جو اس واقعہ کی ایک تصویر کشی ہے۔ ایسی شاعری کی ایک مثال درج ذیل ہے۔

ولد الهدی فالکائنات ضیاء

ہدایت پیدا ہوئی تو دنیا روشن ہو گئی۔

و فم الزّمان تبسّمٌ و ثناء

اور وقت کے لبوں پر مسکراہٹ اور تعریف بس گئی۔

(مصری شاعر احمد شوقی کی ایک نظم سے)

فن کی زبان اس طرح بولتی ہے، ہدایت پیدا ہوئی؛ تمام  وجود پر نور کی بارش ہوئی۔ وقت کے لب مسکراہٹ اور تعریف سے کھل گئے۔ اس واقعہ کی عظمت کو اس طرح کی تعبیرات سے ایک حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ایک اہم واقعہ ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم مرتبہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے واقعہ کی عظمت ان کے مرتبے کی عظمت کے برابر ہے۔ نظامِ خلقت میں آپؐ کی عظیم حیثیت ایسی ہے کہ ابتداء سے لے کر آخر تک خدائے بزرگ و برتر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کوئی اور پیدا نہیں کی اور جو ذمہ داری خدا نے آپؐ کے کندھوں پر ڈالی ہے کہ اس عظیم ذمہ داری کی وجہ سے، خدا فرماتا ہے: لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُؤمِنینَ اِذ بَعَثَ فیهِم رَسولًا مِن اَنفُسِهِم؛ "اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا جب اس نے ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔" [قرآن، 3:164] خدا نے انسانیت پر احسان کیا۔ ایسی عظمت ہے حضور کی ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اس پوشیدہ کتاب کو نبی اکرمؐ کے قلب مقدس پر نازل کیا، اسے انکی پاکیزہ زبان سے بیان کیا، پوری انسانیت کی فلاح کا منصوبہ ان کے سپرد کیا اور اس منصوبے پر عمل کرنے اور اس کی تنلیغ کرنے پر مامور کیا اور ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں سے (اس پر عملدرآمد) تقاضا کرنے کا حکم دیا۔

ہر دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مومنین کے فرائض

خیر ہم حضور کے پیروکار ہیں۔ ہم اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑتے ہیں۔ ہمارا فریضہ کیا ہے؟ ہر دور میں اہل ایمان کا فریضہ ہے کہ وہ دیکھیں کہ وہ کس مقام پر ہیں، مذہب ان سے کیا تقاضا کرتا ہے، ان کے سپرد کیا فریضہ کیا گیا ہے، انہیں کن چیزوں کے بارے میں سوچنا چاہیے، اور کن چیزوں پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں ہر دور میں یہ سمجھنا چاہیے۔ خیر، علمائے کرام اور دانشوروں نے ان مسائل پر بڑی طوالت سے بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں چند نکات پر بات کروں گا۔ ایک نگاہ ملت اسلامیہ کے مسائل پر ڈالی جائے گی اور دوسری ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مسائل پر۔

موجودہ دور میں ملت اسلامیہ کا اولین فریضہ: اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنا

ملت اسلامیہ اور بالعموم مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے دو نکات ہماری توجہ کے طالب ہیں، میں ان پر مختصراً بات کروں گا۔ ایک مسئلہ اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنے کا ہے۔ اسلام ایک ہمہ گیر و جامع مذہب ہے اور ہمیں اس جامع حیثیت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ ایک اور مسئلہ مسلمانوں کے اتحاد کا ہے۔ یہ دونوں مسائل ہمارے دور کے اہم ترین مسائل میں سے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت بے شمار اہم مسائل ہیں اور یہ دو مسائل اہم ترین مسائل میں سے ہیں۔

دشمنوں کی اس سوچ کو فروغ دینے کی کوششیں کہ اسلام کو انفرادی مسائل کے علاوہ کسی بھی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

اسلام کی جامعیت کا حق ادا کرنے کے معاملے میں، بنیادی طور پر سیاسی اور مادی طاقتوں کی طرف سے، اسلام کو صرف فرد اور عقیدے سے متعلق معاملات تک محدود کرنے کیلئے بے حد کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوشش ایک عرصے سے جاری ہے۔ میں کوئی خاص تاریخ نہیں بتا سکتا کہ اس تاریخ سے ایسی کوششیں شروع ہوئیں۔ لیکن تقریباً سو یا سو سال اور کچھ سال پہلے سے یہ کوشش عالم اسلام میں آشکارا طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد یہ کوشش دوگنی ہوگئی ہے۔ وہ یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کوشش سیاسی نہیں ہیں اور اسے صرف ایک فکری و علمی کوشش کی طرح دکھائیں۔ مغربیوں کے بقول، انہوں نے اس کی "نظریہ سازی" کرنے کی کوشش کی ہے۔ مفکرین، ادیبوں، فعال کارکنوں اور ان جیسے لوگوں کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ اس بارے میں لکھیں اور یہ ثابت کریں کہ اسلام کا سماجی مسائل، زندگی سے متعلق معاملات اور انسانیت سے متعلق بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اسلام قلبی عقیدہ ہے، اور یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ خدا کے ساتھ تعلق اور اس تعلق کی بنیاد پر انفرادی اعمال کا ایک سلسلہ ہے۔ وہ اسے اسلام کے نام سے متعارف کراتے ہیں۔ وہ اپنے مخاطبین کے اذہان میں اس بات کو ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ اس باطنی سیاسی اور ظاہری طور پر فکری رجحان کے ذریعے سے، زندگی کے اہم شعبوں اور سماجی تعلقات کو اسلام کی مداخلت سے آزاد کیا جائے۔ معاشرے کو سنبھالنے اور تہذیب کی تعمیر میں وہ کہتے ہیں کہ انسانی تہذیب کی تعمیر و تشکیل میں اسلام کا کوئی کردار نہیں، اس کا کوئی فریضہ نہیں ہے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ معاشرے کے نظم و نسق میں اسلام کا کوئی کردار نہیں ہے۔ معاشرے میں طاقت اور دولت کی تقسیم میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ معاشرے کی معیشت اور دیگر سماجی مسائل کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جنگ و امن کا مسئلہ، ملکی و خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی مسائل میں بھی یہی صورتحال کبھی سننے کو ملتا ہے کہ کہا جاتا ہے:"سفارت کاری کو عقیدے میں مت بدلو۔ اسے عقیدے سے مت جوڑو۔" ان کا مطلب ہے کہ اسلام کو خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی مسائل پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا میں نیکی پھیلانے، انصاف کے قیام، برائی اور ظلم کا مقابلہ کرنے اور شریر قوتوں سے مقابلہ کرنے کے معاملات میں اسلام کارگر نہیں ہے۔ انسانی زندگی کے ان اہم شعبوں میں اسلام نہ تو کوئی فکری ماخذ ہے اور نہ ہی عملی رہنما۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر ان کا اصرار ہے۔

اب اس اصرار کی وجہ اور اس کا نقطہ آغاز وہ مسائل ہیں جن کا میری آج کی تقریر سے تعلق نہیں ہے۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہ حقیقی معنوں میں اسلام مخالف تحریک بنیادی طور پر دنیا کی بڑی سیاسی طاقتوں نے شروع کی ہے۔ وہی ہیں جو اس میدان میں سرگرم اور کام کر رہے ہیں۔ اور وہ دانشوروں کے ذریعے ہوئے اس نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام کی جامعیت کی طرف مسلمانوں کے فرائض: اسلام کے نقطہ نظر کو فروغ دینا

اسلامی نصوص واضح طور پر اس بات کو رد کرتی ہیں، اور ہم مسلمانوں کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں حق ادا کرنا چاہیے تو پہلے مرحلے پر بنیادی مطلب یہ ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ اسلام کے اپنے بارے میں نظریے کو کہ کن شعبوں میں رائے رکھتا ہے، عمل درآمد کرتا ہے فروغ دیں اور تشریح کریں. یہ پہلا قدم ہے۔ پھر، ہمیں ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دین انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

اسلام جو پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دین کی سرگرمیوں کا میدان انسانی زندگی کا تمام دائرہ ہے جس میں قلبی جذبات سے لے کر سماجی، سیاسی اور بین الاقوامی مسائل اور پوری انسانیت کے مسائل شامل ہیں۔ اس کی وضاحت قرآن پاک میں واضح طور پر کی گئی ہے۔ اگر کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو اس نے قرآن کے الفاظ کی طرف توجہ نہیں کی۔
قرآن میں ایک جگہ ہے کہ یـٰاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکرًا کَثیرًا، وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیـلًا [قرآن، 33:41-42] یہ انسان کے عقائد اور خیالات سے متعلق مسئلہ ہے۔ لیکن ایک اور جگہ ہے کہ اَلَّذینَ ءامَنوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغوتِ فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیط‌ـٰن [قرآن، 3:76] یہ ایک اور آیت ہے۔ لہٰذا، «اُذکُرُوا الله» سے «فَقاتِلوا اَولِیاءَ الشَّیط‌ـٰن» تک کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اس تمام وسیع دائرے کا احاطہ کرتا ہے۔

ایک آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ’’قُمِ الَّیلَ اِلّا قَلیلًا، نِصفَه اَوِ انقُص مِنهُ قَلیـلًا، اَو زِد عَلَیهِ وَ رَتِّلِ القُرءانَ تَرتیلً" ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: "فَقاتِل فى سَبیلِ اللهِ لا تُکَـلَّفُ اِلّا نَفسَکَ وَ حَرِّضِ المُـؤمِنین‌" [قرآن، 4:84] اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے یہ تمام شعبے جن میں رات کو کھڑے ہونے سے لے کر نماز ادا کرنے، دعا کرنے اور آنسو بہانے تک، اور جنگ کرنے اور میدان جنگ میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے تک وہ شعبے ہیں جہاں دین سرگرم ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے۔

مالی احکام کے بارے میں قرآن کہتا ہے، ’’وَ یُؤثِرونَ عَلیٰ اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خَصاصَة‘‘ [قرآن، 59:9] یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ دوسری جگہ یہ کہتا ہے: "کَی لا یَکونَ دولَةً بَینَ الاَغنِیاءِ مِنکُم" [قرآن، 59:7] یہ دولت کی صحیح تقسیم کے بارے میں ہے، جو کہ مکمل طور پر معاشرے سے متعلق معاملہ ہے۔ دوسری جگہ، یہ کہتا ہے:"لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط" [قرآن، 57:25] دراصل انبیاء اور خدا کے اولیاء آئے ہی عدل قائم کرنے ہیں۔ ایک آیت کہتی ہے کہ ’’وَلا تُؤتُوا السُّفَهـاءَ اَموالَکـُمُ الَّتی جَعَـلَ اللهُ لَکُـم قِیٰما‘‘ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’’خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیهِم بِها‘‘۔ [قرآن، 9:103] مالی معاملات کے تمام پہلوؤں کا ذکر عام اصولوں اور عمومی ہدایات کی صورت میں کیا گیا ہے اور بلاشبہ ان اصولوں پر عمل درآمد کے لیے منصوبہ بندی ہونی چاہیے، لیکن یہ وہ عمومی اصول اور رہنما اصول ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام نے ان تمام معاملات پر بات کی ہے۔

قرآن مجید میں معاشرے کی سلامتی اور امن و آمان کے بارے میں بھی آیات ہیں، " لَئِن لَم یَنتَهِ المُنٰفِقونَ وَ الَّذینَ فى قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَةِ لَنُغرِیَنَّکَ بِهِم" ایک اور آیت میں کہا گیا ہے کہ ’’وَ اِذا جاءَهُم اَمرٌ مِنَ الاَمنِ اَوِ الخَوفِ اَذاعوا بِه؛ وَلَو رَدّوهُ اِلَی الرَّسول‘‘ [قرآن، 4:83] ان آیات کا مطلب ہے کہ اسلام معاشرتی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں میں ایک رائے رکھتا ہے۔ میں نے جو آیات ذکر کی ہیں وہ ان آیات کی ایک چھوٹ سی مثال ہیں جو قرآن کریم میں موجود ہیں اور اس طرح کی سینکڑوں مثالیں قرآن میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

جو شخص اہل قرآن اور اس کے احکام سے آگہی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ یہی وہ اسلام ہے جس کا تعارف قرآن کرتا ہے۔ قرآن جس قسم کے اسلام کی تعریف اور تعارف پیش کرتا ہے وہ اسلام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل ہے اور اس کے خیالات، نقطہ نظر اور تقاضے ہیں۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے، اور ہمیں ان لوگوں کو جواب دینا چاہئے جو اس واضح حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

امام اور رہبر کا تقرر

دوسری طرف چونکہ اسلام میں معاشرہ اور تہذیب کی تعمیر و تشکیل جیسے سماجی مسائل اور اس سے متعلق ذمہ داریاں موجود ہیں لہذا اس لیے اسلام حکومت کے معاملے پر بھی توجہ دیتا ہے۔ ایسا فرض کرنا ممکن نہیں ہے کہ اسلام سماجی نظم و نسق کا مطالبہ کرے، لیکن ْحکمرانی اور دینی و دنیاوی امور کے لیے قیادت کے معاملے کو واضح نہ کرے۔ جب مذہب ایک نظام بن جائے، ایسا نظام جو فرد اور معاشرے سے متعلق ہو اور ایک ایسا مجموعہ بن جائے جس میں تمام انفرادی اور معاشرتی مسائل پر آراء اور مطالبات ہوں تو پھر یہ طے کرنا ضروری ہے کہ اس معاشرے کا سربراہ کون ہے اور اس سربراہ کی کیا خصوصیات ہیں اور امام کون ہے۔

اگر آپ قرآن کو دیکھیں تو کم از کم دو آیات ایسی ہیں جن میں انبیاء کو امام کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ "وَجَـعَلنٰهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا وَ اَوحَینا اِلَیهِم فِعلَ الخَیرٰتِ وَ اِقامَ الصَّلوٰة»،   ایک اور آیت جس میں خدا نے اماموں کو مقرر کرنے کا تذکرہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’«وَجَعَلنا مِنهُم اَئِمَّةً یَهدونَ بِاَمرِنا  لَمّـا صَبَروا" [قرآن، 32:24] اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبیؐ معاشرے میں امام، رہنما اور سردار ہوتا ہے۔

اسی لیے امام صادق علیہ السلام منیٰ میں جمع ہونے والے ہجوم کے درمیان کھڑے ہوئے اور آواز دی کہ اے لوگو خدا کے رسول واقعی امام تھے۔ لوگوں کو یہ سمجھانے کے لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح دینی حیثیت کیا ہے، آپؑ ہجوم کے درمیان کھڑے ہوئے اور آواز دی کہ اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی امام تھے۔ یہ ایک مسئلہ ہے. عالم اسلام میں مذہبی دانشوروں، مذہبی سکالرز، ادیبوں، محققین اور یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کا فرض ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں، کیونکہ دشمن مخالف نقطہ نظر کو فروغ دینے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرتا ہے۔

دین کے دائرے کی وسعت کی وضاحت کے لیے دانشوروں اور اہل علم کی بھاری ذمہ داری

یقیناً ایران میں ہماری ذمہ داری اس حوالے سے اور بھی بھاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس پر کام کرنے کے زیادہ وسائل ہیں۔ ملک کے حکام، خاص طور پر ثقافتی شعبوں کے حکام اور معاشرے کے بعض شعبوں میں اہم مقام رکھنے والے افراد کو اس کی تشریح کرنی چاہیے۔ ملک کے اندر ایسا نہیں ہے کہ اب جب کہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی نظام قائم ہو چکا ہے تو ہمیں اس مسئلے کی تشریح کی ضرورت نہیں۔ نہیں، ابھی ہمارے ملک میں اس حوالے سے تردید کو فروغ دیا جا رہا ہے اور کچھ باتیں کہی جا رہی ہیں، اور وہ اس میدان میں سرگرم ہیں۔ خیر یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا تعلق عالم اسلام سے ہے۔

عالم اسلام کا دوسرا فریضہ: اتحاد و یکجہتی

ایک اور موضوع جس کا تعلق عالم اسلام سے ہے وہ ہے اتحاد کا مسئلہ، مسلمانوں کی یکجہتی کا مسئلہ۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ بلاشبہ میں نے وحدت پر بہت بات کی ہے۔ خدا ہمارے عظیم امام (خمینیؒ) پر رحمت نازل فرمائے جنہوں نے ہفتہ وحدت کو قائم کیا، اور جنہوں نے مسلسل مسلمانوں کے اتحاد کی بات کی اور اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ میں نے بھی اس مسئلے پر بہت بات کی ہے، لیکن ہمیں اس پر مزید بات کرنی چاہیے۔

مسلمانوں کے اتحاد کے شعبے میں بااثر علماء کی قدردانی

اس سے پہلے کہ میں مسلمانوں میں اتحاد کے بارے میں چند باتیں کہوں، میں چند ممتاز، زحمتکش ہستیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اسلامی اتحاد کے مسئلہ پر سرگرم عمل تھے جن میں مرحوم جناب تسخیری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ وہ اس شعبے میں کام کرنے والے ہمارے انتہائی محنتی لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کئی سالوں تک سخت محنت کی، یہاں تک کہ جب وہ بیمار بھی تھے۔ ان سے پہلے مرحوم شیخ محمد واعظ زادہ رحمۃ اللہ علیہ تھے جو ایک عظیم عالم، فاضل اور اسلامی علوم کے ماہر تھے۔ انہوں نے بھی کئی سال اس شعبے میں کام کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایران سے تھے۔

شام سے عظیم شہید شیخ محمد رمضان البوطی تھے۔ وہ ایک ممتاز شہید تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں محنت کی۔ عالم اسلام کے ان عظیم علماء میں سے ایک جنہوں نے اتحاد کے میدان میں کام کیا مرحوم شیخ محمد رمضان البوطی (خدا ان سے راضی ہو) تھے۔ شہید سید محمد باقر الحکیم بھی ان اہم لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اتحاد امت کے لیے کام کیا۔ جن لوگوں نے مجھے اسلامی اتحاد کانفرنس قائم کرنے کی ترغیب دی ان میں سے ایک شہید سید محمد باقر الحکیم تھے۔

لبنان میں بھی، مرحوم شیخ احمد الزین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا، اتحاد کے میدان میں کام کرنے والے علماء میں سے تھے۔ وہ ہمارے انتہائی قریب اور ہمارے دوستوں میں سے ایک تھے۔ ان سے پہلے لبنان کے شیخ سعید شعبان مرحوم تھے جو ہمارے اچھے دوستوں میں سے تھے۔

خدا ان لوگوں پر رحمت نازل فرمائے جو واقعی مسلمانوں کے اتحاد پر یقین رکھتے تھے اور مسلمانوں کے یلجہتی کے قائل تھے۔ مجھے امید ہے کہ خدائے بزرگ و برتر ان تمام پاکیزہ روحوں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے گا جن کا ہم نے نام لیا ہے اور جن کا نام نہیں لیا ہے۔ ان سے پہلے بھی بہت سے ایسے لوگ تھے جن میں عراق، ایران، مصر اور دیگر جگہوں کے لوگ شامل تھے۔ بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اس میدان میں جدوجہد کی ہے، لیکن ان سب کے نام لینا ممکن نہیں۔ خدا ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

وحدت کے حوالے سے وہ اہم نکات اور تقاضے جو توجہ طلب ہیں:

- مسلمانوں کا اتحاد ایک حتمی فریضہ ہے، محض اخلاقی معاملہ نہیں۔

میں مسلمانوں کے اتحاد کے بارے میں چند نکات اٹھانا چاہتا ہوں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد ایک یقینی قرآنی فریضہ ہے نہ کوئی رضاکارانہ معاملہ۔ ہمیں اسے ایک فریضے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ ’’وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا‘‘۔ [قرآن، 3:103] اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی رسی کو پکڑنے سے لیکر اس کی اطاعت کرتے وقت بھی ہمیں یہ اجتماعی طور پر کرنا چاہئے۔ ’’وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا‘‘ یہ ایک حکم ہے، ہم اس حکم کو اخلاقی معاملے میں کیوں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یہ ایک حکم اور امر ہے جس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید میں اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جیسے کہ ’’وَ لا تَنازَعوا فَتَفشَلوا وَ تَذهَبَ ریحُکُم‘‘ [قرآن، 8:46] پس ایک نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے۔

-مسلمانوں کا اتحاد و یکجہتی ایک اصولی معاملہ

دوسرا نکتہ یہ کہ مسلمانوں کا اتحاد و یکجہتی اس راستے میں کوئی حکمت عملی نہیں ہے جیسا کہ اب بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعض حالات کی وجہ سے ہمیں متحد ہونا چاہیے۔ نہیں، یہ اصول کی بات ہے۔ مسلمانوں کا تعاون ضروری ہے۔ مسلمان متحد ہوں گے تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور سب مضبوط ہوں گے۔ جب یہ تعاون موجود ہو گا تو وہ لوگ بھی جو غیر مسلموں کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتے ہیں، جو کہ ٹھیک ہے، پورے اعتماد سے اس بات چیت میں شامل ہوں گے۔ تو اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ ایک اصولی معاملہ ہے، حکمت عملی نہیں۔

-وسیع خلیج، مسلمانوں کے اتحاد پر زور دینے کی وجہ

تیسرا نکتہ یہ کہ انقلاب اسلامی میں جس وجہ سے ہم مسلمانوں کے اتحاد پر بہت زور دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک وسیع خلیج ہے۔ آج، مسلمانوں کے فرقوں اور شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی مسلسل، سنجیدہ، پہلے سے سوچی سمجھی کوشش کی جا رہی ہے۔ آج امریکی سیاسی گفتگو میں "شیعہ" اور "سنی" کے الفاظ داخل ہو چکے ہیں! امریکیوں کا شیعہ اور سنی سے کیا تعلق؟ اب کئی سالوں سے امریکی سیاسی گفتگو میں سنی یا شیعہ کا مسئلہ پیش کیا جا رہا ہے۔جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ کے نصب کردہ کٹھ پتلیاں جہاں بھی ہو سکے عالم اسلام میں انتشار پیدا کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے قریب ترین مثال افغانستان میں ان آخری دو جمعہ کو ہونے والے المناک، پریشان کن واقعات ہیں جہاں انہوں نے مسلمانوں کی ایک مسجد کو اس وقت اڑا دیا جب لوگ نماز ادا کر رہے تھے۔ ان مساجد کو کس نے (دھماکے سے) اڑا دیا؟ داعش کون ہیں؟ داعش وہی گروہ ہے جس کے بارے میں امریکیوں - ریاستہائے متحدہ میں ڈیموکریٹس - نے واضح طور پر کہا، "ہم نے اسے بنایا ہے۔" یقیناً وہ اب یہ نہیں کہتے۔ وہ اس کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ کیا ہے اور انہوں نے واضح طور پر اس کا اعتراف کیا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس معاملے کو دیکھنا ضروری ہے۔

- باہمی گفتگو اور ایسے اجلاس ہمارے کام کا صرف آغاز ہیں، اختتام نہیں!

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جب ہم ہر سال ہفتۂ وحدت کے دوران اکٹھے ہوتے ہیں، خطاب کرتے ہیں، گفتگو کرتے ہیں اور بات کرتے ہیں، خواہ وہ دنیا کے مختلف حصوں میں ایک یا دو اجلاس ہی ہوں، ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا. نہیں صرف یہ سب کرنے سے ہمارا فریضہ ادا نہیں ہوتا۔ ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی جگہ اور جہاں بھی ہوں، اتحاد کا اہم مسئلہ محور ہونا چاہیے۔ اس پر بحث، وضاحت، حوصلہ افزائی، منصوبہ بندی اور تقسیمِ کار کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو فرض اور ضروری ہے، اور اسے کرنا چاہیے۔

جب میں کہتا ہوں کہ ہمیں منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر، افغانستان کے معاملے میں ایسے واقعات کو روکنے کیلئے ایک طریقہ یہ ہے کہ موجودہ معزز افغان حکام خود مساجد میں جائیں اور وہاں نمازوں میں شرکت کریں یا اس کام کیلئے سنی بھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ ان مراکز میں جائیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں منصوبہ بندی کرنی چاہیے تو یہ وہ کام ہیں جو عالم اسلام میں کیے جا سکتے ہیں۔

- ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل تمام مسلمانوں کے تعاون پر منحصر ہے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے مقاصد میں سے ایک جو ہم نے معین کیا ہے وہ ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل ہے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ اور اسلامی انقلاب کے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ آج کی صورتحال، آج کے حقائق اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کی جائے۔ یہ شیعوں اور سنیوں کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ یہ کام صرف ایک ملک یا ایک فرقہ نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ اگلا نکتہ ہے۔ تو یہ ایک اور ضروری معاملہ ہے۔

- مسئلہ فلسطین، مسلمانوں کے اتحاد کا ایک اہم پیمانہ ہے۔

ایک اور نکتہ - چھٹا نکتہ - یہ ہے کہ مسلمانوں کے اتحاد کا اہم پیمانہ مسئلہ فلسطین ہے۔ مسئلہ فلسطین اس کا معیار ہے۔ اگر مسلمانوں کا اتحاد ہو جائے تو یقینی طور پر مسئلہ فلسطین بہترین طریقے سے حل ہو جائے گا۔ ہم فلسطین کے مسئلے پر جتنے سنجیدہ ہوں گے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے کام کریں گے، ہم مسلمانوں کے اتحاد کے اتنے ہی قریب آییں گے۔ (اسرائیل سے) تعلقات کو معمول پر لانے کے اس حالیہ معاملے میں - جہاں بدقسمتی سے کچھ حکومتوں نے غلطی کی ہے - انہوں نے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر گناہ کیا۔ یہ اقدام اسلامی اتحاد و یکجہتی کے خلاف ہے۔ وہ اس راستے سے لوٹ آئیں اور اس سنگین غلطی کی تلافی کریں۔ خیر یہ نکات اسلامی اتحاد کے بارے میں تھے۔ یہی وہ دو نکات تھے جن پر میں اسلامی معاشرے اور بین الاقوامی اسلامی برادری کے مختلف پہلوؤں پر بات کرنا چاہتا تھا۔

ایرانی عوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیرو

جہاں تک ہمارے اپنے ملک سے متعلق مسائل ہیں، اگرچہ ہمارے مخالفین، مذہب کے دشمن اور امریکہ کے پیروکاروں نے ہمارے ملک پر برسوں حکومت کی، لیکن عوام ہمیشہ سے با ایمان رہے ہیں۔ الحمد للہ ایرانی قوم عرصہ دراز سے ایسی ہی ہے۔ آج پہلے سے زیادہ ہم اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار سمجھتے ہیں۔

اب، یہ پیروی کیسے کی جاتی ہے؟ براہ کرم لفظ "پیروی" پر توجہ دیں۔ اس کا مطلب ہے کسی کی رہنمائی لینا اور اس کے پیچھے چلنا۔ ہمیں کیسے حرکت کرنی چاہئے؟ قرآن نے اس کی تصریح کی ہے، ’’لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن کانَ یَرجُوا اللهَ وَ الیَومَ الأخِر‘‘ [قرآن، 33:21] عربی میں لفظ "اسوہ" کا مطلب ہے نمونۂ عمل (رول ماڈل)، ہمیں اس نمونۂ عمل کی پیروی کرنا چاہئے اور وہ صفات جو انہوں نے اپنے عمل سے ظاہر کیں ہم بھی ظاہر کریں۔ ہمیں اخلاقیات اور اخلاقیات میں اس نمونے کی پیروی کرنی چاہئے۔ یقیناً، اس کی اخلاقیات کے وسیع دائرہ کار کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہم اس سے کہیں زیادہ ناچیز ہیں کہ اسی وسعت کے ساتھ حرکت کریں۔ اس کے باوجود ہمیں اس سلسلے میں سخت محنت کرنی چاہیے۔

ویسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قابل تعریف صفات ایک یا دو تک محدود نہیں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سے آپ کے رویے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مجسم قرآن تھے۔ کان خلقه قرآن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجسم قرآن تھے۔ خیر یہ خود ایک وسیع باب ہے۔

میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اوصاف و خصوصیات کے بارے میں تین نکات منتخب کیے ہیں اور یہ تین نقطے ایسے ہی ہیں جیسے انسان نور کی ایک کہکشاں سے تین ستارے منتخب کر لے، ہم ایرانی قوم کو اسلامی جمہوریہ میں ان تین نقطوں کو مد نظر رکھنا چاہیے، انھیں اہمیت دینی چاہیے اور ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ یہ تین نقطے، صبر، انصاف اور اخلاق ہیں۔

مصائب و مشکلات میں صبر و استقامت کے ذریعے حضور کی پیروی کرنا

صبر ایک نمایاں چیز ہے جسے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ یقیناً صبر کے بارے میں دسیوں آیات ہیں۔ صبر کا تصور اور صبر بطور انسان کے فرض کو قرآن کے مختلف حصوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ صبر جو حضور کی خصوصیت ہے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دس سے زیادہ صورتوں میں - شاید بیس کے قریب - پیغمبر کو صبر سے متعلق مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ بعثت کے آغاز سے ہی خدا نے نبیؐ کو صبر کا حکم دیا۔

سورۂ مدثر میں: وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر، سورۂ مزّمّل میں: وَاصبِر عَلیٰ ما یَقولون، یہ دونوں سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی اولیں سورتوں میں سے ہیں۔ پہلے ہی قدم پر خداوند متعال پیغمبر سے کہتا کہ صبر سے کام لیں۔ میں نے اپنے نکات میں لکھا ہے کہ بیس آیات میں خدا نے حضور کو مخاطب کر کے صبر کا حکم دیا ہے۔ مثال کے طور پر: فَاصبِر لِحُکمِ رَبِّک؛صبر کا مطلب کیا ہے؟ صبر کا مطلب ہے استقامت، گناہ کی خواہش کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ بہت سی روایات ایسی ہیں جن میں صبر کو گناہوں کے مقابلے پر صبر، اطاعت پر صبر اور مختلف مسائل کے پیش نظر صبر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تو، صبر کا مطلب ہے استقامت۔

ہمیں گناہوں کی آزمائشوں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے فرض کی انجام دہی کے سلسلے میں بھی استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور سستی اور کاہلی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دشمن کا سامنا کرتے وقت ہمیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمیں مختلف آفات کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنی خواہش پر قابو رکھنا چاہیے۔ صبر کا یہی مطلب ہے۔ صبر کا مطلب ہے استقامت۔ آج ہمیں پہلے سے زیادہ صبر کی ضرورت ہے۔

آپ حکام جو یہاں موجود ہیں اور مختلف عہدوں پر فائز ہیں، آپ کے لیے سب سے اہم چیز صبر ہے۔ آپ کو ثابت قدمی، استقامت کے ساتھ، دباؤ کو برداشت کرنا، مشکلات کو برداشت کرنا، اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ آپ کو نہیں رکنا چاہئے۔ صبر و استقامت کا تقاضا ہم سے جو اس ملک کے ذمہ دار ہیں یہ ہے! اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تھکیں نہیں۔ تحریک نہیں رکنی چاہیے؛ یہ جاری رہنی چاہئے. یہ صبر ہے۔ ’’ لَقَد کانَ لَکُم فی رَسولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَة‘‘ اس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر چل سکتے ہیں۔

عدل و انصاف میں حضورؐ کی پیروی کرنا

دوسرا نکتہ عدل و انصاف کا ہے۔ انبیاء کی بعثت کا سب سے اہم - شاید سب سے اہم درمیانی اہدف - عدل و انصاف کا قیام تھا، "لَقَد اَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَیِّنٰتِ وَ اَنزَلنا مَعَهُمُ الکـِتٰبَ وَ المیزانَ لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط" [قرآن، 57:25] پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کو بھیجنے کا مقصد عدل کو قائم کرنا اور معاشرے کو انصاف کے لیے کام کرنے کی ترغیب دینا تھا۔

قرآن مجید میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ’’وَ اُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم [قرآن، 42:15] یہ بھی خدا کا حکم ہے کہ عدل و انصاف قائم ہو۔ دنیا کے تمام اہل عقل و دانش اسے قبول کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کے سب سے زیادہ جابر، بدنیت لوگ بھی انصاف کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتے۔ بعض تو ظالم ہونے کے باوجود پوری بے شرمی کے ساتھ عادل و منصف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ دشمن کے معاملے میں بھی انصاف کیا جائے۔ ہمیں کسی دشمن کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں کرنی چاہیے، ''وَ لا یَجرِمَنَّکُم شَنَئانُ قَومٍ عَلیٰ اَلّا تَعدِلُوا اِعدِلوا هُوَ اَقرَبُ لِلتَّقویٰ۔ [قرآن، 5:8] حتی دشمن کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے۔ تو یہ ایک اور کام ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہم حکام ہی مخاطب ہیں ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اور جو بھی ضابطہ بناتے ہیں، خواہ اسلامی مشاورتی اسمبلی میں جہاں آپ قوانین پاس کرتے ہیں یا حکومت میں، یا پورے ملک میں انتظامیہ کے مختلف عہدوں پر، سب سے اہم چیز جس کو آپ مدنظر رکھتے ہیں، عدل و انصاف ان میں سے ایک مسئلہ ہونا چاہیے۔ آپ سوچیں کہ آیا یہ انصاف کے مطابق ہے یا نہیں؟ بعض اوقات اس ضابطے کے لیے انصاف سے متعلق ایک منسلکہ تیار کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ ضابطہ اور قانون انصاف کے مطابق نافذ ہو رہا ہے۔

تاہم دوسرا نکتہ کہ اگر ہم انصاف کی مراعات کرنا چاہیں تو یہ جان لیں کہ انصاف صرف مال ودولت کی تقسیم سے متعلق نہیں ہے۔ ہر چیز میں عدل و انصاف اور منصفانہ سلوک ہونا چاہئے۔ آج سائبر اسپیس میں، انسان کبھی ناانصافی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ جھوٹ بولتے ہیں، بہتان لگاتے ہیں، غلط بیانی کرتے ہیں، بغیر حقیقت جانے وعدہ کرتے ہیں۔ یہ نا انصافی ہے اور یہ کام نہیں ہونے چاہیے۔

انٹرنیٹ پر کام کرنے والے شخص کو خود پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، اور جو لوگ انٹرنیٹ کے شعبے کو دیکھتے ہیں انہیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ ایسی چیزیں واقع نہ ہوں۔ ہمیں سیکھنا چاہیے اور لوگوں کے ساتھ عادلانہ سلوک کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب آپ گفتگو کرتے ہیں، اگر آپ کے کسی کے ساتھ تعلقات مناسب نہیں ہیں اور آپ ان کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، تو یہ ٹھیک ہے، یہ آپ کی رائے ہے۔ یہ صحیح رائے ہو سکتی ہے، لیکن اسے غیبت، جھوٹ، توہین وغیرہ سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان چیزوں سے کسی کے نقطہ نظر کو آلودہ کرنا بہت بری بات ہے۔ یہ نکات عدل و انصاف کے بارے میں تھے۔

اسلامی اخلاق میں حضور کی پیروی کرنا

آخر میں جہاں تک حسن سلوک اور اخلاقیات کا تعلق ہے تو ہمیں اخلاقیات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا، ’’وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ‌ عَظیم‘‘ [قرآن، 68:4] وہ چیز جس کو عظیم خالق عظیم کہے، وہ چیز یقینا عظمت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے، "وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ‌ عَظیم"۔ ایسی اخلاقیات کو ہمیشہ ہماری توجہ حاصل رہنی چاہیے اور ہمارے لیے رہنما اصول بننا چاہیے۔ ہمیں اسلامی اخلاق سے پیش آنا چاہیے اور عاجزی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ یہ اسلامی اخلاقیات کی مثالیں ہیں۔ ہمیں ذاتی معاملات میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ البتہ عوامی معاملات اور حقوق العباد کے معاملے میں رواداری جائز نہیں ہے۔ لیکن ذاتی معاملات میں ہمیں تحمل سے کام لینا چاہیئے۔ ہمیں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک سے کام لینا چاہئے اور مومنین کے بارے میں جھوٹ، توہین اور شکوک و شبہات سے بچنا چاہئے، اسی طرح مومنین سے درگزر کرنا ہے۔ صحیفہ سجادیہ میں دعاؤں میں سے ایک دعا کا خلاصہ کچھ یوں ہے: "اے اللہ، میں ہر اس شخص کو معاف کرتا ہوں جس نے میرے ساتھ ناانصافی کی ہو، جس نے میرے بارے میں جھوٹی بات کی ہو اور جس کی گردن پر میرے لئے کوئی ظلم باقی ہو" یہ صحیفہ سجادیہ میں امام سجاد کی دعا ہے۔ یہ اسلامی اخلاقیات کی مثالیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔

پیارے بھائیو، پیاری بہنو، (ہم نے) لازمی طور عمل کرنا ہے اور قدم اٹھانا ہے۔ مسائل صرف دعووں سے حل نہیں ہوتے۔ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے ہمیں حقیقی معنوں میں اسلامی ہونا چاہیے۔ ہمیں حضورؐ کی پیروی کرنی چاہیے۔ ان کی ولادت کا یہ عظیم، بابرکت جشن اس مسئلے پر غور و فکر کرنے، اس کا مطالعہ کرنے اور اس راستے پر اپنے حقیقی عزم کو ظاہر کرنے کا موقع ہے۔

میں آپ سب کو پھر سے مبارکباد دیتا ہوں۔ میں عزیز ایرانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور ملت اسلامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں دنیا کے تمام بیدار ضمیر لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان پاکیزہ ارواح کو سلام پیش کرتا ہوں جو اسلام کی راہ اور مکتبِ رسول کی راہ میں شہید ہوئے۔

میں سلام پیش کرتا ہوں ہمارے عظیم امام (خمینیؒ) کی پاکیزہ روح کو جنہوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا اور جنہوں نے اس عظیم جدوجہد کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان سب کو اپنی جنت اور اپنی رحمت سے نوازے۔ اور میں اس سے دعا گو ہوں کہ وہ ایران کی عوام کو بالخصوص آپ حکام کو، اسی طرح آپ عزیز مہمانوں کو اور ہمیں اپنی توفیقات سے نوازے۔

 

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته