بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ ربّ العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیّدنا محمّد و على آلہ الطیبین الطاہرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فى الارضین. اللھم صلّ على علی بن موسی الرضا المرتضی ولیک عدد ما فی علمک صلاۃ دائمۃ بدوام ملکک و سلطانک.
میں اپنی عزیز قوم کو عشرۂ کرامت اور حضرت امام رضا علیہ السلام کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح اس عظیم ہستی کی زیارت کے مشتاق افراد کو، افسوس کہ ایک عرصے سے ہم اس عظیم فیض (زیارت) سے محروم ہیں۔ امید ہے پروردگار عالم امامؑ کی دعا اور شفاعت کی برکت سے اس قوم پر اپنی رحمت و عنایات میں روز بروز اضافہ کرے گا اور ان کی قبر مطہر سے ایرانی قوم کی قربت کی برکات روز بروز بڑھتی رہیں گی۔
انتخابات کی بنسبت عوام کی ذمہ داری: انتخابات میں شرکت اور اس کی نوعیت
آج میرا موضوع سخن فقط الیکشن ہے۔ اب سے اڑتالیس گھنٹے سے بھی قلیل وقت میں ملک میں ایک تاریخی موقع آنے والا ہے جو صدارتی انتخابات اور شہری و دیہی کونسلوں کے الیکشن ہیں۔ یقینی طور پر ایک خاص مدت کیلئے تمام میدانوں میں ملک کا مستقبل، معیشت کے میدان میں، ثقافتی، سیکورٹی اور صحت عامہ وغیرہ کے مسائل میں اس عمل سے وابستہ ہے جو آپ ایران کی عوام ان شاء اللہ جمعے کے روز انجام دیں گے؛ یعنی آپ اپنی مشارکت کے ذریعے، اپنے ووٹ کے ذریعے در حقیقت تمام اہم مسائل میں ملک کے مستقبل کو معین کریں گے۔
جمعے کے روز عوام کا بڑا اہم کام سب سے پہلے تو الیکشن میں شرکت اور پھر اس شرکت کی نوعیت اور انتخاب کی نوعیت کا ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ خداوند عالم ہم سب کے دلوں کی، ایرانی قوم کے دلوں کی ہدایت کرے گا کہ ہم بہترین طریقے سے اس میدان میں حصہ لے سکیں۔
الیکشن میں عوام کی شرکت کے ثمرات اور اس سے دشمنوں کی عداوت کی وجہ
میں نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں (2) ایرانی قوم سے عرض کیا تھا کہ اسلامی جمہوری نظام میں عوام کی شمولیت، صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستحکم اصول اور ایک ٹھوس فکری بنیاد پر استوار ہے۔ البتہ عوامی شمولیت کے سیاسی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں لیکن ان کے علاوہ اور ان سے زیادہ اہم، اسلامی جمہوری نظام میں عوامی شمولیت کا فلسفہ ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ میں ایک حصہ 'جمہوری' اور ایک حصہ 'اسلامی' ہے اور اگر جمہور (عوام) موجود نہ ہوں گے تو اسلامی جمہوریہ عملی شکل اختیار نہیں کرے گی۔ البتہ سیاسی پہلوؤں اور سیاسی اثرات کے لحاظ سے بھی اس کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں بعد میں اشارہ کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں شیطانی طاقتوں کے تمام مراکز، وہ لوگ جو اسلامی جمہوریہ سے دشمنی رکھتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں، الیکشن کی بھی خصوصی طور پر مخالفت کرتے ہیں۔ ان دسیوں برس میں ہمارے تمام انتخابات میں ایسا ہی رہا ہے کہ ان کے تشہیراتی حربے، سیاسی ہتھکنڈے، الیکشن کے سلسلے میں عوام کے ذہن میں بیزاری پیدا کرنے اور اگر ممکن ہو تو الیکشن میں مداخلت کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں تاکہ ایرانی انتخابات قوم کی وہ شان و شوکت ظاہر نہ ہوسکے۔ البتہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان تمام برسوں میں تمام انتخابات بروقت منعقد ہوئے، نہ تو انھیں منسوخ کیا گیا اور نہ ہی ایک دن کی بھی تاخیر ہوئی۔ عوام ووٹنگ کے مراکز تک پہنچے اور انھوں نے ووٹ دیا۔ شاید دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہ مل پائے جس کے انتخابات پر دشمنوں کے اتنے زیادہ حملے ہوئے ہوں۔ پرسوں یعنی جمعے کو ہونے والے اسی الیکشن میں کئی مہینے سے امریکی میڈیا، برطانوی میڈیا اور ان ملکوں اور ان کے میڈیا کے پرچم تلے کام کرنے والے زرخرید افراد کئی مہینے سے کام کر رہے ہیں، خود کو ہلاک کئے جا رہے ہیں کہ شاید، اس الیکشن پر سوالیہ نشان لگا سکیں، عوامی شرکت کو کم کر سکیں اور صدارتی الیکشن کو کسی طرح مشکوک بنا سکیں، اس سلسلے میں وہ ہر طرح کی بات کر رہے ہیں۔
نظام سے عوام کی دوری، ایرانی انتخابات کے سلسلے میں دشمنوں کا اصل ہدف
ان کا ہدف یہ ہے کہ یہ انتخابات ویسے منعقد نہ ہوں جیسے اسلامی جمہوریہ کو مطلوب ہیں، کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ عوام، نظام سے دور ہو جائیں، کیونکہ الیکشن میں عوام کی عدم شرکت، اسلامی جمہوری نظام سے عوام کی دوری کی غماز ہوگی۔ یہ ان کا ہدف ہے۔ البتہ لوگوں نے کبھی ان کی بات نہیں سنی۔ ہم کچھ خاص گروہوں کی بات نہیں کر رہے ہیں جو آج کل میڈیا میں یا سوشل میڈیا میں انھی باتوں کو دوہرا رہے ہیں۔ تجربے نے یہ ثابت کیا ہے، عوام نے یہ دکھایا ہے کہ جو کچھ دشمن نے چاہا ہے، انھوں نے اس کے برخلاف عمل کیا ہے۔ انتخابات کے بارے میں بھی، جلوسوں اور ریلیوں کے بارے میں بھی اور مختلف دیگر مسائل کے بارے میں بھی۔ اس بار بھی خداوند عالم کی توفیق سے ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ ان شاء اللہ عوام، بھرپور طریقے سے شرکت کریں گے اور اسلامی جمہوری نظام کی عزت بڑھائیں گے۔
میں یہیں پر یہ بات بھی عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کی دنیا میں، اسلامی جمہوری نظام کی پالیسیوں، ملک کی پالیسیوں اور اسی طرح سیاسی معاملات میں، کچھ ایسے امور ہیں جنھیں سیاسی اختلاف رائے اور تنازعات سے بالا تر ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسے فرض کیجیے کہ ہمارے عزیز و عظیم شہید قاسم سلیمانی کا جلوس جنازہ، ایک بڑا واقعہ تھا، اب یہاں سیاسی افکار اور سیاسی ذوق کی کوئی بات نہیں تھی، سبھی نے اس میں شرکت کی۔ الیکشن بھی ایسا ہی ہے۔ الیکشن میں سیاسی افکار کی بحث نہیں ہے، سبھی کو ووٹ دینا چاہیے، سبھی کو شرکت کرنی چاہیے کیونکہ ملک کے سماجی نظام کو اس موجودگی کی ضرورت ہے اور یہ موجودگی بہت موثر ہے۔ اس کے بعض اثرات کی طرف میں اشارہ کروں گا۔
انتخابات میں حصہ لینا، عمل صالح کا مصداق
میں کچھ باتیں، عوام کی شرکت کی اہمیت کے بارے میں عرض کروں گا لیکن اس سے پہلے میں سورۂ برائت کی آیت نمبر ایک سو بیس کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جس کے ایک حصے میں کہا گیا ہے: وَلایَطَئونَ مَوطِئًا یَغیظُ الکُفّارَ وَ لا یَنالونَ مِن عَدُوٍّ نَیلًا اِلّا کُتِبَ لَهُم بِهٖ عَمَلٌ صٰلِح. (3) آیت کے اس ٹکڑے کے جن دو فقروں کو میں نے پڑھا، اجمالی طور پر ان کا مضمون یہ ہے کہ آپ کا ہر وہ عمل اور اقدام جو دشمنوں کو ناراض کر دے، خداوند عالم کے نزدیک، ایک صالح عمل ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دین کے دشمن، اسلام کے دشمن، ایران کے دشمن، آپ کے الیکشن کے شدید مخالف ہیں، بنابریں انتخابات میں شرکت ایک عمل صالح ہے۔ وہ تمام لوگ جوعمل صالح کرنا چاہتے ہیں، اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحٰت. (4) عمل صالح انجام دینا چاہتے ہیں، انھیں جان لینا چاہیے کہ انتخابات میں شرکت، ان کی طرف سے ایک عمل صالح ہے۔
عوامی شمولیت کا نظام اور ملک کی طاقت و قوت میں اضافے پر ایک خاص اثر
اب وہ باتیں جو میرے پیش نظر ہیں اور میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ الیکشن، میدان میں عوام کی موجودگی کا عکاس ہے۔ میدان میں عوام کی موجودگی کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کو عوامی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ چیز اسلامی جمہوریہ ایران اور ملک کی قوت پر غیرمعمولی اثر ڈالتی ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی بھی چیز، طاقت کا کوئی بھی وسیلہ اور ذریعہ، عوامی شمولیت جتنا، ملک کے لیے قوت افزا نہیں ہے۔ جی ہاں! ہم فوجی وسائل، سیاسی وسائل، معاشی وسائل کو قوت افزا اور طاقت پیدا کرنے والا سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی، عوامی شمولیت جیسا نہیں ہے۔ عوامی شمولیت، اسلامی جمہوری نظام کو حقیقی معنی میں طاقتور بناتی ہے۔ اب جو لوگ الیکشن کے بارے میں بہکانے والی باتیں کر رہے ہیں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کچھ لوگ اخبارات سے اپنی گفتگو کے دوران اور سوشل میڈیا میں جس طرح کے بیان دے رہے ہیں اور انتخابات کے بارے میں طرح طرح سے بہکانے والی باتیں کر رہے ہیں، تاکہ عوام کو الیکشن کی طرف سے مایوس کر سکیں، دراصل یہ لوگ اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ جبکہ بیرونی اور غیر ملکی دشمن تو کھل کر ہی انتخابات کے مقابلے پر ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نظام کو کمزور بنا دیں، یہ جانتے ہیں کہ اگر عوامی شمولیت کو کمزور بنا دیا گیا اور ملک کمزور ہو گیا تو پھر یہ ملک کو بدامنی میں مبتلا کر سکتے ہیں، دہشت گردی میں جھونک سکتے ہیں، ملک کو دہشت گردوں کا اڈا بنا سکتے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب ملک کمزور ہو جائے اور ملک میں عوامی شمولیت اور پشت پناہی کا رنگ پھیکا پڑ جائے۔ البتہ وہ اسے کھل کر تو نہیں کہتے لیکن ان کی باتوں سے واضح طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ یہی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوامی موجودگی نہ ہو تاکہ نظام کمزور پڑ جائے، تاکہ وہ ملک میں افراتفری پھیلا سکیں، تاکہ نفوز کر سکیں، تاکہ ملک کو اپنے پٹھوؤں کا مرکز بنا سکیں؛ یہ چیزیں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
عوام کی بھرپور شرکت اور دشمن کے دباؤ کا آپسی رابطہ
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر عوام کی شرکت کم ہو تو دوسری جانب سے دشمن کے دباؤ میں شدت آجائے گی۔ یعنی ایک اعتبار سے یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر ملک کے اندر عوام کی بھرپور شرکت میں کمی ہوئی تو دوسری جانب دشمنوں کے دباؤ میں بہت زیادہ شدت پیدا ہو جائے گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دشمن کا دباؤ، جیسے اقتصادی دباؤ، پابندیاں وغیرہ ختم ہوں یا کم ہوں تو اس کا راستہ یہی ہے کہ ملک کے اندر عوامی شمولیت بڑھے، عوامی حمایت کو دشمنوں کے سامنے ظاہر کیا جائے۔
عوام کی بھرپور شرکت اور واضح اکثریت سے منتخب ہونے والے صدر کی طاقت
ایک اہم نکتہ اور بھی ہے کہ جمعے کو جو صدر منتخب ہوگا، اگر بھرپور اکثریت سے منتخب ہوتا ہے تو اسے وسیع حمایت حاصل ہوگی اور وہ مضبوط اور طاقتور صدر ہوگا۔ بڑے بڑے کام کر سکے گا۔ ملک کے اندر بحمد اللہ مستعد صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ میں آخر میں اس بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ ملک کے اندر توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ ملک میں وسائل اور مواقع کی فراوانی ہے۔ ان مواقع کو استعمال کرنے کے لئے مضبوط، فعال، محنت کش، انتھک اور طاقتور افراد کی ضرورت ہے۔ یہ مضبوطی صدر کو ذاتی خصوصیتوں سے ہٹ کر زیادہ تر عوامی پشتپناہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر عوامی شراکت کی شرح اچھی رہی اور صدر کثیر ووٹوں سے ان شاء اللہ منتخب ہوتا ہے تو اسے طاقت ملے گی اور وہ ان استعدادوں اور وسائل کو استعمال میں لاسکے گا۔
گزشتہ متعدد ادوار میں انتخابات آزادانہ اور صحیح و سالم رہے
ایک نکتہ انتخابات کے صحیح و سالم اور آزادانہ انعقاد سے متعلق ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے اور اس وقت اعادہ کرتا چلوں کہ خوش قسمتی سے برسوں سے ہمارے انتخابات ہمیشہ آزاد اور شفاف رہے ہیں۔ یہ جو کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ گوشہ و کنار میں کہیں کسی حصے میں کچھ مشکل پیش آئی ہو لیکن مجموعی طور سے انتخابات صحیح و سالم اور بہت مستحکم رہے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت اور پختہ دلیل یہ ہے کہ ان دسیوں سال کے دوران صدارتی انتخابات میں ایسے صدور منتخب ہوکر آئے جن کا فکری رجحان ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔ مختلف سیاسی سوچ والے افراد تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات صحیح و سالم تھے۔ یعنی ایسا نہیں رہا کہ انتخابات پر ہمیشہ ایک خاص سیاسی سوچ اور خاص سیاسی رجحان حاوی رہا ہو۔ کبھی کسی سیاسی فکر کا صدر منتخب ہوا اور کبھی اس سے بالکل الگ سیاسی سوچ رکھنے والا صدر اقتدار میں آیا۔ بنابریں انتخابات ہمیشہ شفاف اور آزادانہ متعقد ہوئے۔
امیدواروں کے درمیان انتخاباتی بحثوں میں رقابت اور مقابلہ آرائی
یہ جو کہا جاتا ہے کہ کوئی مقابلہ ہی نہیں رہا ہے۔ تو الحمد اللہ مقابلہ ہو رہا ہے۔ آپ نے انتخاباتی بحثوں میں دیکھا، البتہ ان بحثوں کے حوالے سے مجھے کچھ نکات بیان کرنے ہیں، اگر زندگی رہی تو انتخابات کے بعد عرض کروں گا۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ انتخاباتی بحثوں میں محترم امیدواروں نے ثابت کر دیا کہ زبردست آپس میں مقابلہ آرائی کر رہے ہیں۔ یعنی امیدواروں کے درمیان فکری تضاد اور زبانی ٹکراؤ موجود رہا۔ ہر کسی کے اپنے حامی ہیں۔ یہ بھی ہمارے انتخابات کے مسلمہ حقائق میں سے ایک ہے۔
البتہ دشمن ہمیشہ، انقلاب کے شروع سے اب تک، اسی دن سے جب اسلامی جمہوریہ پر ریفرنڈم ہوا اور 98 فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے آج تک، ہمیشہ عوام کے ووٹوں پر سوال اٹھاتے آ رہے ہیں۔ ہر الیکشن پر انھوں نے سوالیہ نشان لگایا۔ البتہ دشمن سے انسان کوئی توقع بھی نہیں رکھتا کہ انتخابات کے صحیح و سالم ہونے کا اعتراف کرے گا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بعض ممالک ہیں جن کا نظام اکیسویں صدی کے اندر بھی قبائلی طرز پر چل رہا ہے۔ یعنی ایک قبیلے کی حکومت کے تحت ان کا انتظام و انصرام چل رہا ہے، ان ملکوں میں ابھی تک انتخابات کا کوئی نام و نشان تک نہیں۔ ان ممالک کے عوام کو معلوم ہی نہیں کہ بیلٹ باکس ہوتا کیا ہے۔
بیلٹ باکس اور پھلوں کی پیٹیوں کا فرق تک انھیں معلوم نہیں۔ انھیں کوئی واقفیت نہیں کہ بیلٹ باکس کیا چیز ہے۔ وہ بھی چوبیس گھنٹے کی ٹیلی ویزن نشریات شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے انتخابات پر تبصرے کریں، تاکہ کہہ سکیں کہ ایران کے انتخابات ڈیموکریٹک نہیں ہیں! یہ بھی ہمارے اس زمانے کا طرفہ تماشا ہے۔
معاشرے کے محروم طبقات کی بجا شکایات اور انتخابات میں عدم شرکت کا نامناسب فیصلہ
ایک اور نکتہ بھی ہے جو میری نظر میں قابل غور ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ بعض افراد جو انتخابات میں شرکت کے تعلق سے شک و تردد کا اظہار کر رہے ہیں۔ یعنی پس و پیش میں ہیں یا دل برداشتہ ہیں۔ یہ معاشرے کے کمزور طبقات ہیں، معاشرے کے محروم طبقات ہیں۔ اس کی مجھے اطلاعات ہیں۔ سروے وغیرہ سے مجھے اس کا علم ہے۔ معاشرے کے کچھ محروم طبقات ہیں جن کی بجا امیدیں ہیں اور انھیں اس بات کی شکایت ہے کہ ان کی توقعات پوری نہیں کی گئیں۔ معیشت کا مسئلہ، مکان کا مسئلہ، روزگار کا مسئلہ، واقعی ملک کے حکام کو یہ مسائل حل کرنے چاہئے۔ ان کی شکایات ہیں۔ اس لئے ان کے دل و دماغ انتخابات کی جانب مائل نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم شریک بھی ہو گئے تو اس کا فائدہ کیا ہے؟! میری نظر میں ان کی شکایت بجا ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ درست نہیں ہے۔ بے شک ان کا گلہ اور شکوہ بالکل درست ہے۔ ان کی شکایات پر توجہ دی جانی چاہئے تھی۔ آئندہ حکومت کے لئے لازمی ہے کہ ان طبقات کے مسائل کے حل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ووٹنگ کے لئے نہ جانا، بیلٹ باکس سے منہ موڑلینا تو مسائل کا حل نہیں۔ یہ مشکلات اگر حل ہوں گی تو اسی طریقے سے حل ہوں گی کہ بڑی تعداد میں لوگ جائیں، سب کے سب جائیں پولنگ میں شرکت کریں، ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جس کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات کو حل کر سکے گا۔ اس طرح مشکل حل ہوگی۔ ورنہ یہ کہ اگر ہمیں شکوہ ہے تو ہم ووٹ ہی نہ ڈالیں، یہ میری نظر میں درست نہیں ہے۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ بنابریں میں گلے اور شکوے سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں لیکن ان شکوؤں کی وجہ سے عدم شرکت کے فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتا۔ لازمی طور پر آئندہ حکومت اس میدان میں اپنے اقدامات انجام دے۔
عوام کو انتخابات میں شرکت کی ترغیب دلانے کے لئے جوانوں کی شراکت اور فعالیت کی ضرورت
ایک نکتہ نوجوانوں سے مربوط ہے۔ مجھے نوجوانوں کی صلاحیتوں پر بڑا بھروسہ ہے اور میرا نظریہ یہ ہے کہ نوجوان ملک کے تمام امور میں پیش پیش ہوتے ہیں اور آگے لے جانے والے انجن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ معاملات میں خود بھی آگے آگے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ انتخابات کی بھی یہی صورت حال ہے۔ نوجوانوں سے، ملک کے عزیز نوجوانوں سے میری یہ توقع ہے کہ رائے دہندگی میں شمولیت کے لئے، عوام کو ووٹنگ میں شرکت کے لئے جہاں تک ممکن ہو ترغیب دلائیں اور اس سلسلے میں سرگرمیاں انجام دیں۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو اس سال ووٹنگ کی قانونی عمر کو پہنچے ہیں۔ اس سال ایسے نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ صدارتی انتخابات کے ہر دور میں ایسے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ان کے لئے ووٹنگ میں شرکت سیاسی بلوغ کے جشن کی مانند ہوتی ہے۔ در حقیقت یہ اس ذمہ داری کا جشن ہے جس کے میدان میں وہ قدم رکھ رہے ہیں۔
ملت کے اندر بے پناہ توانائیاں موجود ہونے کے باوجود معاشرے میں مایوسی کا احساس پھیلانے سے اجتناب
آخری چیز جو عرض کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد اپنے معروضات ختم کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ لوگ غلط تجزئے کی بنیاد پر عوام کے اندر مایوسی اور نا امیدی پھیلانا چاہتے ہیں، عوام کو مایوسی میں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں۔ دشمن سے تو کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی، لیکن افسوس کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ بدگمانی کی بنیاد پر، ناقص تجزیوں کی بنیاد پر، واقعی بڑی خیالاتی تحلیلوں کی بنیاد پر ایسی باتیں کرتے ہیں جن کے ذریعے عوام میں مایوسی پھیلائیں، لوگوں کو مایوس کریں۔ یا شاید ان کا یہ مقصد تو نہیں ہے لیکن عملی طور پر وہ عوام الناس کو مایوس ہی کر رہے ہیں۔ میری نظر میں یہ غلط بات ہے۔ ہمارے ملک میں مایوسی اور نا امیدی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری قوم ایک مضبوط قوم ہے، مضبوط ارادے کی مالک قوم ہے۔ ہمارے ملک کی بنیادیں بہت مستحکم ہیں۔ ہمارا ملک ایک طاقتور ملک ہے۔ میں نے 'دوسرا قدم' سے موسوم دستاویز میں وضاحت کی ہے، اسی طرح مختلف تقاریر میں بھی اس پر روشنی ڈالی ہے۔ ہماری قوم بہت عظیم ہے۔ ہمارا ملک بہت طاقتور ہے، ہمارے پاس بڑی صلاحیتیں ہیں اور یہ صلاحیتیں دشمن کی نگاہ سے پوشیدہ بھی نہیں ہیں۔ سب جانتے ہیں۔
ایرانی ملت اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کے چند نمونے
مختلف شعبوں میں جہاں بھی ہماری قوم نے بلند ہمتی سے کام لیا بڑے کارنامے انجام دینے میں کامیاب ہوئی۔ خود انقلاب بھی اسی زمرے میں شامل ہے، اسلامی جمہوری نظام بھی اسی زمرے میں آتا ہے، مسلط کردہ جنگ کی کامیابیاں بھی اسی میں شامل ہیں۔ حالیہ مثال اور تازہ ترین مسئلہ کورونا وائرس کی ویکسین کا ہے۔ ہمارے نوجوان اس انتظار میں نہیں بیٹھے کہ غیر ممالک کے کنجوس عناصر ہمیں ویکسین فروخت کریں۔ چنانچہ آپ نے دیکھا کہ حکام نے بتایا ہے کہ ایک عالمی مرکز سے انھوں نے ویکسین خریدی، اس کے پیسے بھی دے دئے پھر بھی وہ ویکسین دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ دنیا کی یہ حالت ہے۔ ہمارے نوجوان انتظار میں نہیں بیٹھے۔ ابتدائی ایام سے ہی محنت شروع کر دی، کام کا آغاز کر دیا۔ ویکسین سے متعلق بڑی اہم روشوں پر کام کیا یہاں تک کہ ویکسین بنا لی۔ کل پرسوں اعلان ہو گیا، مجھے بھی تحریری رپورٹ ملی کہ ملکی ویکسین بن چکی ہے اور ہم دنیا کے ان پانچ چھے ملکوں میں سے ایک بن گئے جو کورونا وائرس کی ویکسین بنا رہے ہیں۔ بہت اچھا بنیادی ڈھانجہ بھی موجود ہے۔ مجھے بتایا کہ ہر مہینے میرے خیال میں پچاس ملین، تیس ملین، ایسی مقدار میں، مجھے اس وقت ٹھیک سے یاد نہیں ہے، وہ ویکسین تولید کر سکتے ہیں (5) اور عوام کے درمیان تقسیم کر سکتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد اس ایک ویکسین کی ہے جو ان دنوں بنا لی گئی ہے۔ دوسری ویکسین بھی دیگر متعدد مراکز بنا رہے ہیں۔ وہ بھی ان شاء اللہ پے در پے بناتے جائیں گے۔ اس سے ملت ایران کی توانائی ظاہر ہوتی ہے۔
چند سال پہلے بھی یہی ہوا۔ کچھ سال پہلے ہمیں اپنی ریڈیوفرماسی کے لئے بیس فیصدی افزودہ یورینیم کی ضرورت پڑی۔ وعدے پر وعدے کئے جا ر ہے ہیں کہ دیں گے، نہیں دیں گے، یہی کرتے رہے اور آخرکار نہیں دیا۔ تو بہت مختصر عرصے میں، چند مہینوں کے اندر ہمارے نوجوانوں نے ہمت دکھائی اور ان (غیر ملکیوں) سے کوئی بھی مدد لئے بغیر بیس فیصدی افزودہ یورینیم تیار کر لیا۔ اب وہ لوگ چیخ پکار کر رہے ہیں کہ آپ نے بیس فیصد کیوں افزودہ کر لیا۔ اس وقت ساٹھ فیصدی افزودہ یورینیم پر امن مقاصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ سب غیر فوجی مقاصد کے لئے ہے۔
دفاعی وسائل کے میدان میں بھی یہی ہوا۔ ہمیں دفاعی ساز و سامان کی ضرورت تھی اور وہ ہمیں فروخت کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ میں بارہا اس کا ذکر کر چکا ہوں۔ ہمارے نوجوانوں نے خود کام شروع کر دیا اور آج اس سے کہیں زیادہ اچھا، بہتر اور موثر ساز و سامان ہم بنا رہے ہیں اور ملک کے پاس موجود ہیں جو ہم ان سے خریدنا چاہتے تھے۔ ایسی توانائیاں، ایسی بلند ہمتی اور ایسی مضبوط بنیادیں رکھنے والی قوم کو مایوس نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عبث کوششیں کر رہے ہیں۔ میری نظر میں جو لوگ بے بنیاد تجزئے پیش کر رہے ہیں جن کا نتیجہ مایوسی پیدا کرنا ہے، وہ غلط کر رہے ہیں۔ اس ملت کی توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔
انتخابات کے عہدیداران کو کچھ ہدایات
1: رائے دہندگان کی صحت و سلامتی کے لئے ضروری تدابیر
انتخابات کے بارے میں میرے معروضات تقریبا ختم ہوئے۔ اب میں صرف انتخابات کے عہدیداران کی زحمتوں کی قدردانی کرتے ہوئے انھیں یہ تاکید کرنا چاہوں گا کہ سب سے پہلے تو ووٹنگ کے لئے مراکز پر جانے والے عوام کی صحت و سلامتی کے لئے ضروری تدابیر اپنائیں، حالات کی درست پیش بینی کریں۔ عوام شرکت کرنا چاہتے ہیں تو یہ عمل اس انداز سے انجام پانا چاہئے کہ اس شرکت سے اور پولنگ مراکز پر عوام کے جانے سے معاشرے کی صحت و سلامتی کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اس کے لئے انتظامات ضروری ہیں۔ البتہ عہدیداران نے اعلان کیا کہ وہ اس کے لئے کام کر رہے ہیں۔ میں تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ اس کے لئے ضرور محنت کریں۔
2: ملک کے تمام علاقوں میں بیلٹ پیپر کی کافی مقدار کی فراہمی
دوسری چیز بیلٹ پیپر کی کمی کا مسئلہ ہے۔ انتخابات میں ہمیں ایک مشکل جو بار بار پیش آتی رہی ہے اور ہمیشہ ہمیں اس کی شکایات ملتی تھیں یہ ہے کہ کبھی کبھی کسی جگہ سے خبر آتی ہے کہ بیلٹ پیپر نہیں ہیں۔ یا مثلا صبح آٹھ یا سات بجے انتخابات شروع ہو گئے لیکن بیلٹ پیپر پہنچے ہی نہیں۔ اس مشکل کو رفع کریں۔ کسی بھی جگہ بیلٹ پیپر کی کمی نہ ہو، پہنچنے میں تاخیر نہ ہو، ختم نہ ہونے پائیں۔ یہ دوسرا نکتہ ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
3: بیرون ملک سے مربوط رپورٹوں سے مجھے اطلاع ملی کہ بعض ممالک میں شاید بہت سے ممالک میں مناسب تیاریاں نہیں کی گئی ہیں۔ ایسا کہا جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے میں تاکید کے ساتھ کہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس معاملے کو دیکھیں کیونکہ اب وقت زیادہ باقی نہیں بچا ہے۔ ان ملکوں میں جو ایرانی ووٹنگ میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ان کا وقت ضائع نہ ہو۔ یہ ایک اور نکتہ ہے۔
4: خلاف ورزیوں کا سد باب
چوتھی چیز یہ کہ ہر خلاف ورزی کے سلسلے میں کارروائی کریں۔ تو یہ ہمارے معروضات تھے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے دلوں کی ہدایت فرمائے۔ پالنے والے! دل تو تیرے اختیار میں اور تیرے ہاتھ میں ہیں دلوں کی اس سمت میں موڑ دے جس میں اس ملک کی اور اس ملت کی بھلائی ہے۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
(1) حضرت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت سے لے کر حضرت امام رضا علیہ السلام کے یوم ولادت تک کے درمیانی ایام کو ایران میں عشرہ کرامت کہا جاتا ہے۔
(2) چار جون سنہ 2021 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی بتیسویں برسی کی مناسبت سے ٹیلی ویژن پر کی گئی تقریر۔
(3) اور نہ وہ کّفار کا دل دکھانے والا کوئی قدم اٹھاتے ہیں نہ کسی بھی دشمن سے کچھ حاصل کرتے ہیں مگر یہ کہ ان کے عمل نیک کو لکھ لیا جاتا ہے کہ خدا کسی بھی نیک عمل کرنے والے کے اجر و ثواب کو ضائع نہیں کرتا۔
(4) سورۂ شعراء کی آیت نمبر 227 کا ایک حصہ، علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال انجام دیے۔
(5) فرمان امام اجرائی کمیشن ادارے کے سربراہ محمد مخبر نے ایک خط تحریر کرکے رہبر انقلاب کو مطلع کیا کہ اس ادارے نے کوو ایران برکت نامی ویکسین کے پروڈشن کی اجازت حاصل کرکے اور اس ویکسین کے پروڈکشن کی لائن شروع کرکے ماہانہ پچیس ملین ڈوز اور شہریور (ایرانی کیلنڈر کا چھٹا مہینہ) کے اختتام تک ماہانہ 5 کروڑ ڈوز کا پروکشن کرنے میں کامیاب ہوگا۔