بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
یا مقلّب القلوب والأبصار یا مدبّر اللّیل و النّهار یا محوّل الحول و الاحوال حوِّل حالنا إلی أحسنِ الحال
اس سال نوروز اور نئے سال کا آغاز حضرت امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کی شہادت کے دن کے ہمراہ ہوا ہے، لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اپنی گفتگو کا آغاز میں حضرت امام موسی بن جعفر (ع) کی مخصوص صلوات سے کروں۔ " اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرارِ، وَ إِمامِ الْأَخْيارِ، وَعَيْبَةِ الْأَنْوارِ، حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ، وَالدُمُوعِ الْغَزِيرَةِ، وَالْمُناجاةِ الْكَثِيرَةِ، اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَیهِ و عَلیءابائِهِ و أبنائِه الطّیبین الطّاهرین المَعصومین و رَحمةُ اللّه و برکاته " ۔
میں عید سعید بعثت اور خوشی و شادابی سے معمور عید نوروز کی مناسبت سے ایرانی قوم، خاص طور پر شہیدوں کے محترم و معزز خاندانوں، جانبازوں و جسمانی طور پر معذور مجاہدین ان کے صابر اور محنت کش اہل خانہ اور طبی شعبے کے مجاہد خدمت گزاروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جنہوں نے ان چند ہفتوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ان تمام خدمت گزاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ان دشوار حالات میں اس بڑی ذمہ داری کا کوئی نہ کوئی گوشہ اپنے دوش پر اٹھایا اور اخلاص، ہمدردی اور جوش و جذبے کے ساتھ شہر کے اندر، گاؤں میں، سڑکوں پر، سرحدوں پر، ملک بھر میں جگہ جگہ مصروف خدمت ہیں۔ آپ سب کو عید مبارک! حضرت امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ) کی روح مطہر اور شہیدوں کی ارواح مطہرات پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
سنہ 1398 ہجری شمسی کے شہیدوں، چاہے وہ مدافع حرم شہداء ہوں، یا سرحدوں کے محافظ شہید ہوں اور ان میں سر فہرست ہمارے عزیز اور عظیم شہید میجر جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں، شہید ابو مہدی مہندس اور ان کے ساتھیوں، اسی طرح کرمان کے حادثے کے شہیدوں، ہوائی جہاز کے حادثے کے شہیدوں، طبی شعبے سے تعلق رکھنے والے شہیدوں، وہ افراد جو بیماروں کی تیمارداری کرتے ہوئے راہ خدا میں موت سے ہمکنار اور راہ خدا میں شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے میں ان سب کی تعزیت اور مبارک باد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ، ہم ان سب کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح عید کی اور ان کے فرزندوں کو حاصل ہونے والے بلند مرتبے کی مبارکباد دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام حوادث ان شاء اللہ سرانجام ایرانی قوم کے لئے مفید واقع ہوں گے، اس بارے میں بھی میں کچھ عرض کروں گا۔
سنہ 1398 ہجری شمسی ایرانی قوم کے لئے ایک پر تلاطم اور حوادث پر مبنی سال تھا۔ ایسا سال تھا جس کا آغاز سیلاب سے ہوا اور اختتام کورونا پر ہوا۔ اس پورے سال کے دوران بھی ملک کے لئے اور ملک کے بعض افراد کے لئے گوناگوں حوادث پیش آئے۔ زلزلے اوردشمن کی اقتصادی پابندیوں وغیرہ جیسے حوادث۔ ان حوادث کا نقطۂ اوج ایران و اسلام کے مایہ ناز اور نامور شہید سلیمانی کی امریکہ کے دہشت گردانہ حملے میں شہادت تھی ۔ اس سال کے دوران عوام کی مشکلات کچھ کم نہیں تھیں۔ یہ سال دشوار اور سخت سال تھا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان سختیوں کے ساتھ ہی اس سال میں کچھ افتخارات بھی حاصل ہوئے جن میں بعض بے مثال تھے۔ ایرانی قوم نے حقیقت میں شاندار کارنامے انجام دئے۔ سال کی ابتدا میں سیلاب کے دوران مؤمن اور بلند ہمت عوام، سیلاب زدہ شہروں اور دیہی بستیوں کی جانب لوگوں کی مدد کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہمارے عزیز عوام نے بڑے دلچسپ اور پرکشش مناظر رقم کئے۔ پیر و جواں سب سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچ گئے۔ مٹی اور کیچڑ سے بھرے ہوئے گھروں کو پانی سے صاف کیا ، دھویا، متاثرین کا سامان، قالین سب کچھ دھویا، متاثرین کو سیلاب سے ہونے والی مشکلات کو کم کیا۔
ہمارے عزیز شہید میجر جنرل قاسم سلیمانی کی عظیم شہادت کے سانحے کے بعد بھی عوام نے بڑا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ دسیوں ملین کی تعداد میں اپنی شرکت سے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ تہران میں جو اجتماع ہوا یا قم، اہواز، اصفہان، مشہد، تبریز اور کرمان میں جو اجتماعات منعقد ہوئے یہ ایسے اجتماعات تھے جو عام طور پر دنیا کے کسی بھی علاقے میں اس پیمانے پر، اس شدت اور اس جوش و جذبے کے ساتھ دکھائی نہیں دیتے۔ ہماری تاریخ میں بھی ان کی مثال نہیں ملتی۔ عوام کی شرکت، عوامی جوش وولولہ، عوام کا یہ اظہار کہ ان چیزوں سے وہ وابستگی رکھتے ہیں، یہ چیزیں ملک کی آبرو اور ایرانی قوم کی عزت و عظمت اور وقار کے لئے بڑی اہمیت کی حامل تھیں۔
اس حالیہ بیماری " کورونا " کے معاملے میں بھی ایرانی قوم کا جذبہ ایثار و فداکاری اتنا نمایاں تھا کہ بیرون ملک رہنے والے افراد بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پہلے نمبر پر طبی ٹیمیں، ڈاکٹر، نرسیں، پیرا میڈیکل عملہ اور اسپتالوں کے عہدیداران اور اہلکار، ان کے ساتھ ساتھ عوامی رضاکار ٹیمیں، یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے طلبہ اور دوسرے گوناگوں افراد جو ان بیماروں کی تیمارداری اور علاج کے سلسلے میں خدمات میں مصروف ہوگئے، یہ سب امورایرانی قوم کے لئےعزت اور عظمت کا باعث ہیں۔ یہ لوگ ڈاکٹروں کا تعاون کرنے کے لئے میدان میں حاضر ہوئے۔ امداد بہم پہنچانے والی ٹیمیں، وہ افراد جنہوں نے اپنے کارخانوں کو، یہاں تک کہ اپنے گھروں کو بیماروں یا عام لوگوں کی ضرورت کی اشیاء جیسے دستانے، یا ماسک وغیرہ تیار کرنے کے لئے مختص کر دیا۔ عمومی خدمات میں مصروف ٹیمیں، جیسے وہ افراد جو سڑکوں اور ان جگہوں پر جہاں عوام کی آمد و رفت ہے سینیٹائزر چھڑکنے اور اسپرے کے کام میں مشغول ہو گئے۔ یا کچھ اور ٹیمیں جیسے وہ نوجوان جو بزرگ اور ضعیف افراد کی مدد کے لئے کمربستہ ہو گئے، ان کے گھروں میں گئے اور ان کی ضرورت کی چیزوں کی خریداری کی۔ یا وہ لوگ جنہوں نے عوام کی ضرورت کی چیزیں مفت میں فراہم کیں ۔ مفت دستانے اور مفت ماسک فراہم کئے۔ بعض نے مشکل میں پڑ جانے والے دکانداروں کی مدد کی۔ دکانوں کا کرایہ نہیں لیا، اپنا قرض مؤخر کر دیا، اس طرح کی دوسری بہت سی خدمات جو انجام پائیں۔ یہ سب اچھے اعمال اور اچھی باتیں ہیں جو سخت اور دشوار حالات میں نظر آتی ہیں۔ ایرانی قوم نے ان گروہوں کی شکل میں اپنی خصوصیات کا مظاہرہ کیا۔ان کاموں کے ذریعے جن میں سے محض چند کا میں نے ذکر کیا میں ان تمام افراد کا تہہ دل شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا میں نے ذکر کیا اور نام لیا اور یہ بشارت دیتا ہوں کہ اجر الہی ان کے انتظار میں ہے، خواہ وہ دنیوی اجر ہو یا آخرت میں ملنے والا اجر۔ یہ ایک سخت امتحان تھا۔
گذشتہ سال کے امتحانات بہت سخت تھے، تاہم اس جذبے کے ساتھ دشواریوں پر غلبہ پانا اور انھیں عبور کرنا کسی بھی قوم کے طاقتور بننے کا سبب بھی ہے۔ کوئی بھی قوم آرام اور آسائش کے ذریعہ کہیں نہیں پہنچ سکتی۔ مشکلات کا مقابلہ کرنے، مشکلات کا سامنا ہونے پر اپنا جذبہ قائم رکھنے اور مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کی صورت میں ہی طاقتور بن سکتی ہے، اور ان شاء اللہ ایرانی قوم نے یہ غلبہ حاصل کیا ہے اور آئندہ بھی حاصل کرتی رہے گی۔ مشکلات کا مقابلہ کرنے سے قوموں کو قدرت اور اعتبار حاصل ہوتا ہے۔
حوادث چاہے ،سیلاب اور زلزلے وغیرہ جیسے قدرتی حوادث ہوں یا اغیار کے مسلط کردہ حوادث جیسے پابندیاں وغیرہ ہوں، وہ انسان کو اس کی کمزوریوں کی طرف متوجہ کرا دیتے ہیں، خواہ وہ ہماری فطری کمزوریاں ہوں، یعنی انسان کو احساس ہو جائے کہ غرور میں مبتلا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم سب میں کمزوریاں ہیں، ہم غیر محفوظ ہیں، یا پھر وہ کمزوریاں ہوں جو حوادث کا سامنا ہونے پر انسان کے اندر خودبخود پیدا ہو جاتی ہیں۔ ہم اپنی کمزوریوں کو پہچانیں۔ انسان غرور اور غفلت سے باہر نکلے، اللہ کی جانب متوجہ ہو، اللہ سے مدد مانگے۔ " خَابَ الْوَافِدُونَ عَلَى غَيْرِكَ وَ خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إِلاَّ لَكَ وَ ضَاعَ الْمُلِمُّونَ إِلاَّ بِكَ " یہ ماہ رجب کی دعائیں ہیں۔ صرف اللہ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔ کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو مایوسی کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اگر غیر خدا کی طرف ہاتھ پھیلائيں گے تو ہمیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا۔ دنیا کے تمام وسائل اللہ کے اختیار میں ہیں، وہ وسیلہ اور سبب کا خالق ہے۔ ہمیں بے شک ان اسباب کی مدد سے کام کرنا چاہیے، ان اسباب کو کام میں لانا چاہیے لیکن نتیجے اور اثر کی دعا اللہ سے مانگنا چاہیے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
سنہ 1399 ہجری شمسی جو اب شروع ہو رہا ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے ہماری پہلی دعا یہ ہونا چاہیے کہ اسے بڑی کامیابیوں کا سال قرار دے اور حضرت امام زمانہ (عج) جو اس کشتی کے ناخدا ہیں، ہم ان کی بارگاہ میں یہ عرض کریں گے کہ وہ اپنے ملک کو ساحل نجات تک پہنچائیں، ایران کے مؤمن عوام کی مدد اور پشت پناہی کریں، نصرت کریں ۔ ایرانی قوم سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح مختلف اور گوناگوں واقعات کا سامنا ہونے کی صورت میں جس شجاعت کا مظاہرہ کیا ، صرف گذشتہ سال کے واقعات نہیں بلکہ گذشتہ تمام برسوں کے دوران تمام واقعات کے مقابلے میں ایرانی قوم نےجس جوش و جذبے سے ان کا مقابلہ کیا آئندہ بھی اسی جذبے اور امید سے تمام واقعات کا مقابلہ کرے اور یقین رکھے کہ سختیاں گزر جائیں گی۔ اور " إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا" ۔ یقینا گشائش ایرانی قوم کے انتظار میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ میں اس چیز کی حمایت نہیں کرتا کہ بعض لوگ سوچیں کہ ملک کے نظام میں کسی ایک جگہ پر کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ ہم بہت قریب سے مشاہدہ کر رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، سب مصروف عمل ہیں، سب کام اور محنت میں مصروف ہیں، ہر کوئی اپنی توانائی کے مطابق خدمت میں مصروف ہے۔ علمی و تحقیقاتی ٹیمیں الگ انداز سے، سماجی کارکن اپنے انداز سے، حکومتی عہدیداران اور عدلیہ کے حکام اپنے انداز سے خدمت کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ خداوند متعال ان تمام کوششوں میں برکت عطا فرمائے گا اور ایرانی قوم اس مرحلے سےخیر و عافیت اور سربلندی کے ساتھ عبور کر جائے گی ۔ ان شاء اللہ ۔
ہم نے اس سال کا نعرہ پیدوار میں برق رفتار توسیع قراردیا ہے؛ ہم نے گذشتہ سال کو پیداوار کے فروغ کا سال قرار دیا تھا۔ میں ایرانی قوم کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عملی طور پر اس نعرے کو مقبولیت ملی۔ شروع میں اس نعرے کا ماہرین نے خیر مقدم کیا اور کہا کہ پیداوار ہی سب سے بنیادی مسئلہ ہے، عملی طور پر بھی اس کو پذیرائی ملی۔ مصدقہ رپورٹوں کے مطابق جو اس حقیر کے پاس ہیں ملک کے پیداواری شعبے میں سرگرمی آئي۔ بعض کارخانے جو سست رفتاری کا شکار تھے یا بند پڑے تھے، کام کرنے لگے۔ بعض کارخانے جن کی پیداوار گنجائش سے کم تھی ان کی پیداوار کی مقدار بہتر ہو گئی۔ نالج بیسڈ کمپنیاں میدان میں آئیں۔ مختلف اداروں نے محنت کی، کام کیا تو پیداوار میں پیشرفت آئي۔ ایک اہم کام انجام پایا۔ ریسرچ کا کام جو پیداوار کا سرچشمہ اور بنیاد ہے، ملک کے اندر اس سال بڑی سنجیدگي سے آگے بڑھا اور ہم نے اس کے نمونے دیکھے۔ ملک میں یہ سارے کام ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کام نہیں ہوا۔ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو کام انجام دیا گیا ہے وہ ملک کی ضرورت کا شاید دسواں حصہ بھی نہ ہو۔ البتہ میں دسواں حصہ جو کہہ رہا ہوں تو یہ دقیق اعداد و شمار کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میرا اندازہ ہے کہ یہ دسواں حصہ ہے۔ یعنی شاید ابھی دس گنا کام ہونا باقی ہے۔ خواہ وہ تحقیقی کام ہو، خواہ پیداواری کام ہو یا اسی طرح کے دوسرے مختلف اور گوناگوں کام ہوں جن کے نتیجے میں پیداوار کے فروغ کا اثر عوام کی زندگی میں نظر آئے گا۔
گذشتہ برس میں پیداوار کے شعبہ میں جوش وخروش پیدا ہوا، یہ شعبہ متحرک ہوا اور کسی حد تک آگے بڑھا، لیکن عوام کی زندگی میں اس کا اثر محسوس نہیں ہوا۔ ہمیں پیداوار کو اس مقام پر پہنچانا ہے کہ عوام کی زندگی میں اس کا اثر نمایاں طور پر نظر آئے۔ البتہ ملک کو متعدد اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ بینکوں کی اصلاحات کا مسئلہ، مالیات کی اصلاحات کا مسئلہ، تجارتی سرگرمیوں کے ماحول کو بہتر بنانے کا مسئلہ۔ مگر پیداوار کا کردار، منفرد اور بے مثال ہے۔ اگر ہم ملک کے اندر وسیع بازار کو مد نظر رکھتے ہوئے پیداواری شعبہ کو ترقی اور توسیع دے سکیں اور اگے لے جا سکیں، اگرچہ پیداواری شعبے کو فروخت اور غیر ملکی بازاروں کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم بیرونی بازاروں سے رابطہ رکھنے کے ساتھ ہی ہمارا اصلی بازار ملک کے اندر آٹھ کروڑ کی آبادی کے مد نظر داخلی بازار ہے۔ اگر پیداواری شعبے کو فعال کرنا ہے اور ان شاء اللہ ہمارے لئے ممکن ہو جائے اور ہم اسے آگے لے جا سکیں تو اقتصادی مشکلات یقینی طور پر حل ہو جائیں گی۔ اور یہ پابندیاں جو عائد کی گئی ہیں ہمارے فائدے میں ہوں گی۔ بے شک ابھی تو ان سے نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کے ساتھ ہی جو فائدے حاصل ہوئے ہیں، یعنی ہم جو اپنے داخلی وسائل کی فکر میں لگ جانے پر مجبور ہوگئے ہیں، زندگی کی ضروری اشیاء اور ملک کی ضرورت کی اشیاء اندرونی وسائل کی مدد سے تیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ان پابندیوں میں ہمارے لئے فائدہ ہے۔ ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
ہمیں ابھی پیداوار کی مزید ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے" پیداوار کے فروغ " کے نام سے موسوم کیا اور اس سال کو میں " پیداوار کی برق رفتار پیشرفت " کے نام سے موسوم کرتا ہوں ۔ اس سال کا نعرہ یہی ہے۔ جو متعلقہ افراد ہیں وہ اس انداز سے عمل کریں کہ ان شاء اللہ پیداوار کو برق رفتار پیشرفت حاصل ہو اور ان شاء اللہ عوام کی زندگی میں اس کے باقاعدہ اثرات نمایاں ہوں ۔ البتہ اس کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پلاننگ کا ادارہ الگ انداز سے، پارلیمنٹ اپنے انداز سے، اس کے تحقیقاتی مراکز اپنے انداز سے، عدلیہ الگ انداز سے اس پر عمل کرنے میں مصرف ہوجائیں، عدلیہ کا بھی اس میں کردار ہے، دانش اور علم محور کمپنیاں الگ انداز سے، نوجوان اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والے گروہ الگ انداز سے اس میں اپنا حصہ ڈالیں الحمد للہ ملک میں مخترع گروہوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، گذشتہ برس یعنی سن 1398 ہجری شمسی کے دوران اور اس سے پہلے والے سال میں ایسی کچھ گروہوں کے ساتھ میری بہت اچھی اور مفید ملاقاتیں بھی ہوئیں، انھیں میں نے قریب سے دیکھا، ان کی باتوں کو قریب سے سنا، کام سے دلچسپی رکھنے والے نوجوان، کام کرنے والے نوجوان، پرامید، انرجی سے بھر پور، جوش و جذبے، استعداد اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک نوجوان، الحمد للہ یہ سب موجود ہیں۔ ان شاء اللہ یہ تمام گروہ منصوبہ بندی میں شریک ہوں اور یہ کام منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ سال آپ سب کے لئے بابرکت ہوگا۔ عید سعید بعثت آپ سب کو مبارک ہو۔ ان شاء اللہ ، خداوند متعال کا فضل و کرم اور اس کی عنایات آپ سب پر نازل ہوں اور ایرانی قوم کی اللہ پر توجہ میں اضافہ ہو ، اور اس سے توسل کرنے اور اپنی معنویت میں روز افزوں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
والسلام علیکم و رحمة اللّه و برکاته