ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا فضائيہ کے سربراہ اور کمانڈروں سے خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌ القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الطّیّبین الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

ایرانی فضائیہ کے عزیز برادران !  ایرانی فضائیہ کے اہلکار اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی حساس اور اہم فورس کا حصہ ہیں ۔ آپ کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں ! فضائیہ کے محترم سربراہ کی تقریر پر شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی طرح ترانہ پیش کرنے والے گروپ ، ان کے اشعار اور پروگرام پیش کرنے والے حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت اچھا اور عمدہ پروگرام تھا۔

یہ اجلاس کئی برسوں سے ناقابل فراموش اور حیرت انگیز واقعہ  کی یاد میں ہر سال اسی موقع پر منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ آپ نوجوانوں کی  تربیت  بحمد اللہ ایسے حالات میں ہوئی ہے کہ آپ کے لئے اس صورت حال کا تصور کرنا آسان نہیں ہے۔ پہلوی دور میں فضائیہ اقتدار، دربار اور امریکیوں کی بہت قریبی فورس تھی۔ ہمیں اس واقعہ  سے عبرت  حاصل کرنی چاہیے، یہ واقعہ  سبق آموز اور عبرت آموز ہے۔(1)

پہلا سبق جس پر توجہ رکھنا ہمارے لئے بہت  ہی ضروری  ہے یہ ہے کہ پہلوی طاغوتی حکومت کو وہاں سے چوٹ پہنچی اور ضرب وارد ہوئي، جہاں سے اس کے وہم و گمان میں بھی کوئی خدشہ اور خطرہ نہيں تھا۔ اسی طرح جیسے اللہ تعالی قرآن میں بنی نضیر کے یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ : " فَاَتیٰهُمُ اللهُ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا " (۲) اللہ تعالی نے اس جگہ سے ان پر حملہ کیا کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے۔ فضائیہ کے ایسے کمانڈر جو اغیار سے وابستہ تھے، اس دور میں فضائیہ کی جو خاص صورت حال تھی، یعنی امریکیوں، امریکی عہدیداروں اور امریکی تربیت گاہوں سے ان کا گہرا رابطہ تھا، اس کے باوجود اچانک فضائیہ بے حد حساس موڑ پر اسلامی انقلاب کے حق میں میدان میں اتر پڑی۔ اس کا آغاز 8 فروری کو ہوا،  جب فضائيہ کے حکام  آئے اور انھوں نے آکرحضرت  امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) سے ملاقات کی، آپ کی بیعت کی۔ اس کے بعد فوج کے باقی حصوں کا مقابلہ کیا جنہوں نے فضائیہ پر حملہ کیا تھا اور پھر ان دنوں وہ عجیب واقعات پیش آئے، مجھے نہیں معلوم کہ ان واقعات کی تفصیلات خود فضائیہ نے اپنے لئے کہیں درج کی ہیں یا نہیں، البتہ اگر انھیں کہيں درج نہیں کیا گيا ہے تو ان اطلاعات اور واقعات کو لکھا جانا چاہیے کہ تہران کی فوجی چھاؤنی میں کیا واقعات رونما ہوئے۔ کس طرح ان پر حملے ہوئے اور کس طرح عوام نے ان کا دفاع کیا۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ اللہ تعالی نے دشمن پر وہاں سے حملہ کیا جہاں سے حملے کا دشمن کو وہم و گمان بھی نہیں یہ مسئلہ کا ایک رخ ہے۔

دشمن کے برعکس مؤمنین کو ایسی جگہ سے مدد، قوت اور سہارا ملا کہ جس کے بارے میں انھوں نے کبھی  سوچا بھی نہیں تھا۔ اسلامی تعریف، اسلامی ثقافت کے مطابق اور ہماری دینی اصطلاح میں اس کا نام ہے؛ " رزق لایُحتَسَب " ۔ وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَه مَخرَجـًا * وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب (۳) جو لوگ تحریک میں سرگرم تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے انھیں اتنی عظیم کامیابی مل سکتی ہے کہ اس دور کی فوج سے وابستہ بے حد حساس مراکز میں سے ایک مرکز کے اہلکارآکر انقلاب اسلامی کی خدمت کرنا شروع کر دے اور حضرت امام خمینی (رہ) کی بیعت کرے۔

ہمیں آٹھ  فروری کے واقعہ  سے یہ اہم سبق ملا ہے۔ ہمیں اپنے آج کے اندازوں میں بھی اس چيز کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ یہ ذہن میں رکھئے کہ دشمن کو ایسی جگہ سے چوٹ پہنچ سکتی ہے جس کے بارے میں اس نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ جبکہ آپ جو اللہ کے بندے، اللہ پر ایمان رکھنے والے اور صراط مستقیم پر چلنے والے ہیں، ایسی جگہ سے اپنی مدد ہوتے دیکھیں گے کہ وہ آپ کے لئے  " رزق لایُحتَسَب " ہوگی، آپ کو اس کی توقع بھی نہیں رہی ہوگی۔ میرے خیال میں یہ بڑا اہم اور کلیدی نکتہ ہے کہ ہم اس بات پر توجہ رکھیں کہ دنیا کے سارے واقعات و اور دنیاوی تبدیلیوں اور مادی اندازوں کے مطابق ہی انجام نہیں پاتے۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کبھی کبھی اللہ تعالی کوئی نیا راستہ،مختصر راستہ پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح کی صورت حال بدل جاتی ہے۔

ایک اور مسئلہ،  اللہ تعالی کے وعدے پر یقین رکھنے کا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں کئی جگہوں پر بڑی وضاحت کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر کوئی راہ خدا میں اور دین خدا کی راہ میں  تلاش و کوشش کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَن یَنصُرُه (۴) اس بیان میں " لَیَنصُرَنَّ الله " تاکید کی کئی علامتیں ہیں۔ یعنی اللہ تعالی ضرور ان لوگوں کی مدد اور نصرت کرتا ہے جو اللہ تعالی کے دین کی مدد اور نصرت کرتے ہیں۔ یہ  اللہ تعالی کا وعدہ ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کے اس وعدے پر یقین رکھنا چاہیے۔ 8 فروری 1979 ء کے دن یہ واقعہ ہو جانے کے باوجود اور یہ دیکھ لینے کے باوجود کہ فوج کے ایک حصے نے آکر انقلاب اسلامی کی بیعت کر لی ہے، کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں یقین نہیں ہوا تھا، جو مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت بھی انھیں امید نہیں تھی کہ کامیابی ملے گی۔ لیکن حضرت امام (رہ) کو اللہ کے وعدے پر اعتماد تھا۔ حضرت امام (رہ)  اور وہ افراد جو امام (رہ) کے نقش قدم، امام کی فکر اور امام کے راستے پر چلنے والے تھے انھیں یقین تھا کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا، انہوں نے تحریک کی رفتار کم نہیں ہونے دی۔ جب لوگوں میں یقین ہو، مستقبل پر امید ہو تو وہ اپنے قدموں کی رفتار کم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بڑا اہم طرز فکر ہے کہ انسان یقین رکھے کہ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔ یہ بھی قرآن کی آیت ہے؛ وَ مَن ‌اَوفیٰ بِعَهدِه مِنَ الله (۵) اللہ سے بڑھ کر اپنا عہد اور وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے اور وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

یہ مسائل صرف ذاتی مسائل نہیں ہیں، یہ سماجی اور عمومی مسائل ہیں۔ جب سماج میں کوئی مؤمن ، اجتماع میں کوئی مؤمن ، فضائیہ میں کوئی مؤمن اس طرح کا یقین رکھتا ہو تووہ  پختہ عزم کے ساتھ خطرات کو فرصت میں تبدیل کر دے گا۔ ابھی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے اتنی تعداد میں جنگی طیاروں اور مسافر طیاروں کی مرمت کی، اوورہالنگ کی، خاصی تعداد میں طیارے بنا بھی لئے ہیں ۔ یہ کامیابیاں ہماری فضائیہ کے لئے کب ممکن ہو پائیں؟ اس وقت جب اس نے اغیار سے امید لگانا چھوڑ دیا۔ یعنی اغیار نے دھمکی دی۔ کہا کہ ہم آپ کو یہ چیزیں نہیں دیں گے، آپ کو نہیں فروخت کریں گے، آپ تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سال قبل انہوں نے ہم سے گودام کا کرایہ بھی طلب کیا۔ ہمارے وہ وسائل جن کی قیمت وہ وصول کر چکے ہیں اور وہ وسائل انھوں نے ہمیں نہیں دیئے ہیں، انھیں وسائل کو اپنے گوداموں میں رکھنے کا کرایہ بھی ہم سے مانگ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کو ایک مؤثر اور کارآمد فضائیہ اپنے پاس رکھنے کا موقع نہ دیا جائے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری فضائیہ جو ان دنوں کسی جنگی طیارے اور مسافر طیارے کے پرزے کی مرمت کرنے سے بھی عاجز تھی، جسے مرمت کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، آج وہی فضائیہ باقاعدہ طیارہ بنا رہی ہے۔ یعنی مشکلات کو فرصت میں تبدیل کر دیا گيا۔ خطرات کو مفادات میں بدل دیا گیا۔ مؤمن افراد کی یہ خصوصیت ہوتی ہے۔

آپ اگر مجموعی طور پر ملکی حالات کا مشاہدہ کریں تو آپ کویہی صورت حال ہر جگء نظر آئے گی۔ انقلاب کے آغاز سے ہم پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان حالیہ برسوں میں پابندیاں زیادہ شدت کے ساتھ عائد کی جاری رہیں۔ یعنی ان میں زیادہ شدت پیدا کر دی گئی۔ وہ فخریہ کہتے بھی ہیں کہ ہم نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف شدید ترین پابندیاں لگائی ہیں۔ یہ پابندیاں حقیقی معنی میں مجرمانہ اور ظالمانہ اقداما پر مبنی ہیں۔  یہ لوگ مجرمانہ عمل انجام دے رہے ہیں۔ یعنی ان کی دھمکیاں ایسی ہیں جن کی پوری دنیا  مذمت کرتی ہے۔ اس لئے کہ یہ صرف امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی طرف سے دوسروں سے جبرا ایران پر پابندیاں لگوانے کا معاملہ ہے۔ یعنی آپ اس طرح سمجھ لیجئے کہ امریکہ کے مختلف ادارے کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کی مختلف کمپنیوں، مختلف افراد اور حکومتوں سے دائمی رابطے میں رہیں اور ان سے کہتے رہیں کہ آپ ایران سے کوئی تجارت نہ کیجئے۔ یعنی ہمہ گير پابندیاں۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ یہ ان کے بس کی بات ہے یا نہیں؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن وہ یہ کام کر رہے ہیں جو حقیقت میں ایک ظالمانہ اور مجرمانہ اقدام ہے۔

دشمن کی یہی پابندیاں فرصت میں تبدیل ہو سکتی ہیں چنانچہ اب تک کافی حد تک ان کی وجہ سے ہمارے لئے فرصتیں پیدا ہوئی ہیں اور آئندہ بھی یہ پابندیاں ہمارے لئے بڑا موقع پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر ہم عہدیداران بھی سمجھداری سے کام کریں تو ملکی معیشت کو تیل پر انحصار کی صورت حال سے نجات دلا سکتے ہیں۔ تیل پر انحصار کی کیفیت سے معیشت کو نجات دلا سکتے ہیں، تیل پرانحصار کو ختم کر سکتے ہیں۔ ہماری اقتصادی مشکلات کی بنیادی اور اہم وجہ تیل پر انحصار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دولت پیدا کرنے کے لئے افرادی قوت، داخلی توانائیوں کو پروان چڑھانے، گوناگوں صلاحیتوں اور توانائیوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے نتیجے میں ہم مطمئن ہو گئے کہ ہم تیل فروخت کریں گے اور ملک کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ ملک کی مشکلات کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اب اگر ہم یہ ہدف پورا کرلیا تو گویا ہم نے دشمن کی طرف سے پیدا کی جانے والی مشکلات کو فرصت میں بدل دیا ہے۔

ان کی توجہ بھی اس طرف ہے۔ میں یہ بھی عرض کردوں۔ ان میں جو سمجھدار نہیں، جو بوکھلاہٹ کا شکار ہیں، جو متوجہ نہیں ہیں ان کو چھوڑیئے! لیکن ان میں جو لوگ سمجھدار ہیں ان کی توجہ اس نکتے پر ہے۔ کچھ رپورٹس میں میں نے دیکھا کہ وہ زور دے رہے ہیں کہ ایران کو اپنی معیشت کو تیل سے آزاد کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ وہ اپنے حلقوں میں یہ بات کرتے ہیں کہ تیل پر عدم انحصار کی صورت ایرانی معیشت کے لئے نہیں پیدا ہونی چاہیے۔ کوئی طریقہ تلاش کیجئے، اگر آپ پابندیاں نہیں ہٹاتے تو کوئی بات نہیں، لیکن کوئی راستہ تلاش کیجئے یا کوئی راستہ کھول دیجئے کہ ایران پوری طرح تیل سے آزاد  نہ ہونے پائے۔ کیونکہ اگر ایران نے تیل کی آمدنی سے رابطہ ختم کیا تو تیل پر عدم انحصار والی معیشت کی طرف جائے گا۔ اس پر ان کی توجہ ہے اور اس کے لئے وہ کام کر رہے ہیں۔ ہم عہدیداران کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ ملک کے حکام، بالخصوص اقتصادی شعبہ کے حکام کو بہت زیادہ توجہ رکھنی چاہیے۔ یہ 8 فروری کے واقعہ کا ایک اہم سبق ہے: اللہ کے وعدوں پر اعتماد، " رزق لایُحتَسَب "  کی امید رکھنا، میدان میں موجود رہنا اور مسلسل پیش قدمی  جاری رکھنے سے اللہ تعالی کی مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے ۔

8  فروری کے انھیں ایام میں اور اس سے چند روز قبل امریکہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لایا۔ ایک اعلی فوجی عہیدار اور اعلی فوجی افسر " ہائیزر" کو تہران بھیجا، اقتدار میں موجود اہم افراد سے رابطے کئے کہ شاید کچھ کر سکے۔ بغاوت وغیرہ کچھ کروا دے تاکہ انقلاب کی پیش قدمی رک جائے۔ انھوں نے بہت سے اقدامات کئے۔ اس سب کے باوجود ایرانی قوم فتح اور کامیابی سے ہمکنارہوئی اور انھیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ اللہ کے وعدے پر اعتماد اور اس پر توکل کا نتیجہ تھا۔ البتہ اب دشمن کے اقدامات اور اس کے وسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، آج دشمن زیادہ پیچیدہ اقدامات کر رہے ہیں، لیکن ہمارے اقدامات بھی کافی عمیق ، گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ الحمد للہ آج ملک کے سیاسی شعبہ میں، ملک کے فوجی شعبہ میں، ملک کے سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں، اسی طرح دوسرے گوناگوں شعبوں میں جو سرگرمیاں انجام پا رہی ہیں وہ بہت ہی منظم پروگرام اور منصوبہ بندی کے تحت ہیں وہ منطقی، پیچیدہ اور آگے بڑھنے والی ہیں۔ یہی گہری اور پیچیدہ صورت حال ملک کی اسٹراٹیجک گہرائی کی ضمانت ہے جس کے نتیجے میں دشمن دھول چاٹ رہا ہے۔

میں جو اہم بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ لوگ، خاص طور پر نوجوان ، اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے سلسلے میں جو بھی کام انجام دے سکتے ہیں وہ انجام دیں ، ایران کا مستقبل روشن اور تابناک ہے ہمارے جوان جذبہ امید و ایثار اور قربانی سے سرشار ہیں ،جو فرائض آپ کے دوش پر ہیں، فنی امور سے مربوط جو چیزیں ہیں، پروازوں سے متعلق جو چیزیں ہیں، ادارے سے منسلک  جو چیزیں ہیں، اس کے علاوہ جو باقی اہم کام ہیں، انھیں پوری توجہ سے انجام دیجئے۔ ہمارے لئے ملک کو ہر پہلو سے طاقتور بنانا ضروری ہے، ملک کی طاقت کا ایک اہم پہلوعسکری پہلو ہے۔ ہم کسی کے لئے خطرہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جو عسکری قوت اور دفاعی بالادستی پر تاکید کرتے ہیں، اس کی سفارش کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ کسی ملک یا کسی قوم کو ڈرانا اور خطرے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خطرہ پیدا کرنے کے لئے نہیں بلکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہے۔ ملکی سلامتی کی حفاظت کے لئے ہے۔ اگر آپ کمزور ہوں گے تو دشمن کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ آپ کو پریشان کرنے اور ستانے کی فکر میں رہے گا۔ لیکن اگر آپ طاقتور ہیں تو دشمن آپ کے قریب آنے کی ہمت بھی نہیں کرے گا۔ ہمیں طاقتور بننا چاہیے تاکہ جنگ کی پیشگی روک تھام ہو، ہمیں طاقتور بننا چاہیے تاکہ دشمن کے خطرات ختم ہو جائیں۔ آپ بھی، سپاہ پاسداران کا فضائی و خلائی شعبہ بھی اور وزارت دفاع کا صنعتی شعبہ بھی وسائل و آلات بنانے میں، افرادی قوت کی مدیریت میں، اسی طرح ان تمام کاموں کو انجام دینے بھرپور تلاش وکوشش کریں ، جو آپ جیسے ادارے کے دوش پر عائد ہوتے ہیں، تاکہ اللہ تعالی کی  توفیق  سے، الہی فضل و کرم سے اس مقام تک پہنچ جائیں جو ایک خود مختار، آزاد اور سربلند معاشرے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ مجھے اس کی پوری امید اور توقع ہے۔

انقلاب کے اوائل سے اب تک ہم فضائیہ سے ہمیشہ بہت مانوس رہے ہیں۔ ہم نے اس فورس کے کمانڈروں، اس کے اعلی افسروں کے ساتھ کام کیا۔ الحمد للہ  آج فضائیہ کافی پیشرفت کر چکی ہے۔ اس نے بڑے قدم اٹھائے ہیں، بڑے کام انجام دیئے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ کی فضائیہ میں، اسلامی جمہوریہ کی فوج کے فضائی شعبہ میں بہت قابل اور با صلاحیت افراد موجود ہیں۔ میں نے بعض نوجوانوں کو دیکھا جنہوں نے بہت بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ الحمد للہ یہ فورس پیشرفت کے لئے ضروری توانائی، استعداد اور صلاحیت سے آراستہ ہے۔ ان صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیجئے اور ان شاء اللہ روز بروز زیادہ طاقتور اور مضبوط و مستحکم بننے کی کوشش کیجئے۔ میں بھی دعا کروں گا کہ اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں روز بروز ا‌ضافہ فرمائے۔

آپ یقین کیجئے کہ شکست ایرانی قوم کے دشمنوں کا مقدر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  ایرانی قوم کے دشمن باطل راستے پر گامزن ہیں اور غلط  راستے پر چل رہے ہیں۔  گمراہ راستے پر چل رہے ہیں۔ اگر امریکہ کے گزشتہ صدور پردے کے پیچھے ریشہ دوانیاں کرتے تھے تو آج اعلانیہ، بے نقاب ہوکر اپنی بدعنوانیوں، اپنے انحراف، اپنی جنگ افروزی، اپنی فتنہ پروری، دوسروں کے مال و دولت اور ثروت پر اپنی حریصانہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ راستہ، باطل راستہ ہے، یہ راستہ شیطان کا راستہ ہے۔ شیطان کا یہ راستہ وہی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: اُولئکَ الَّذینَ لَعَنَهُمُ اللهُ وَمَن یَلعَنِ اللهُ فَلَن تَجِدَ لَه نَصیرًا (6) اللہ جس پر لعنت بھیجتا ہے اور جسے راندہ درگاہ کر دیتا ہے، اسے کوئی نصرت نہیں ملے گی، اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یہ حقیقی امر ہے۔ جبکہ آپ کا مددگار موجود ہے اور وہ مددگار خود خدا وند متعال اورعزیز و حکیم ہے۔ ان شاء اللہ وہ آپ کی مدد اور نصرت کرے گا اوروہ  آپ کو آپ کی منزل مقصود تک پہنچائےگا۔

ان شاء اللہ، اللہ تعالی آپ کو توفیقات عطا فرمائے، اللہ آپ کی مدد کرے، آپ کی پیشرفت روز بروز جاری رہے، آپ آگے کی سمت گامزن رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱)  اس ملاقات کے آغاز میں جو ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں کی طرف سے امام خمینی کی بیعت کے تاریخی واقعے کی سالگرہ پر انجام پائی اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل عزیز نصیر زادہ نے ایک رپورٹ پیش کی۔

۲)  سوره‌ حشر، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ

۳)  سوره‌ طلاق، آیت نمبر ۲ اور ۳ کا ایک حصہ؛ «...جو اللہ کا خوف رکھتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کے راستے کھول دیتا ہے اور ایسی جگہ سے جس کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا اسے رزق پہنچاتا ہے۔..»

۴)  سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۰ کا ایک حصہ

۵)  سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۱۱ کا ایک حصہ

6)  سوره‌ نساء، آیت نمبر ۵۲