ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر مغظم کا نماز جمعہ کے دو خطبوں میں عوام سے اہم خطاب

تہران میں مصلی امام خمینی (رہ) میں نماز جمعہ کے خطبے:

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ‌ ربّ العالمین نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نتوکّل علیہ و نصلّى و نسلّم على حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فى خلقہ حافظ سرّہ و مبلّغ رسالاتہ بشیر نعمتہ و نذیر نقمتہ سیّدنا و نبیّنا ابى‌ القاسم المصطفی محمّد و على آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الہداۃ المھدیّین سیّما بقیّۃ اللہ ‌فى الارضین و صلّی اللہ على ائمّۃ المؤمنین و ھداۃ المستضعفین و حماۃ المؤمنین.

میں اپنے تمام عزیز بھائيوں ، بہنوں اور اپنے آپ کو تقوی اور پرہیزگاری  اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں۔ اگر ہم اللہ کی مدد چاہتے ہیں تواس کی مدد  تقوے سے حاصل ہوگي، الہی توفیقات چاہتے ہیں تو یہ تقوی سے حاصل ہوں گي، اگر ہم اپنے ذاتی اور سماجی مسائل و مشکلات  کا حل چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی تقوی ضروری ہے ، ہم سب کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ تقوائے الہی کو اپنے کاموں کا معیار اور ملاک قرار دیں۔ نماز جمعہ میں جو بات اہم ہے وہ تقوی کی سفارش اور نصیحت ہے۔ میں خود، آپ سے زیادہ اس نصیحت کا محتاج ہوں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ ہم میں سے ہر کوئي اپنی ہمت اور استطاعت کے حساب سے خداوند متعال کا تقوی اختیار کرے گا۔

قرآن مجید کی سورۂ ابراہیم میں، دیگر آیات کی طرح ایک انتہائي معنی خیز اور اعلی مضمون پر مشتمل آیت ہے۔ آج میں اسی آیت اور اس کے بعد کی آیتوں کے ذیل میں کچھ باتیں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آيت میں ارشاد ہوتا ہے۔ "و لقد ارسلنا موسی بآیاتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور و ذکرھم بایام اللہ."(1) آیت  میں حضرت موسی کو سفارش اور نصیحت کی جارہی ہے، آیت میں حکم ہورہا ہے کہ ذکّرھم بایام اللہ۔ اس کے معنی میں دو امکان پائے جاتے ہیں اور اس آیت سے ہمارا جو مقصود ہے، اس میں ان دونوں امکانات میں سے جو بھی ہوان  کوئي فرق نہیں پڑتا۔ ایک امکان یہ ہے کہ انھیں اللہ کے دنوں یا ایام اللہ کی یاد دلاؤ اور دوسرا امکان یہ ہے کہ آيت کا مقصود یہ ہے کہ ایام اللہ کے وسیلے سے انھیں خدا کی، دین کی اور قیامت کی یاد دلاؤ۔ یہاں پر ایام اللہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اللہ کے اولو العزم پیغمبر حضرت موسی علیہ السلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو ایام اللہ کی یاد دلائیں۔ اس کے بعد کہا گيا ہے۔ "انّ فی ذلک لایآت لکل صبّار شکور."(2) ایام اللہ، آيات ہیں، نشانیاں ہیں، راستے کا چراغ ہیں۔ کن لوگوں کے لیے؟ ان لوگوں کے لیے جن میں یہ دو صفتیں ہیں: جو صبّار یعنی بہت زیادہ صبر کرنے والے اور شکور یعنی اللہ تعالی کا بہت زیادہ شکر بجا لانے والے ہیں۔ صبّار کا مطلب ہے وہ شخص جو سر تا پا صبر و استقامت کا مظہر ہے، صبر و استقامت کا مجسمہ ہے، شکور کا مطلب ہے وہ شخص جو نعمت کو پہچانتا ہے اور شکر بجا لاتا ہے۔ اس شکر بجا لانے کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

اس کے بعد اگلی آيت میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت موسی نے اس حکم کی تعمیل کی۔"و اذ قال موسی لقومہ اذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ انجاکم من آل فرعون." (3) انھوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو فرعون اور فرعون کے لوگوں کے چنگل سے نجات کی یاد دلائي۔ یہ یاد دلایا کہ کس طرح اس نے تمھیں ظالم اور ستمگر طاقت سے بچایا۔ یہ ایام اللہ میں سے ہے۔ ایام اللہ کا ایک نمونہ یہ ہے؛ اذ انجاکم من آل فرعون۔ جب اللہ نے تمھیں آل فرعون سے نجات دی اور بچایا؛ تو یہ دن، ایام اللہ میں سے ایک ہو گيا، جب سماج ، انسان اور اقوام کو ظالم و جابرطاقتوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ اس کے آگے کی آيت میں پروردگار عالم کا عمومی خطاب ہے، خداوند عالم کی آواز ہے: و اذ تاذّن ربکم، تاذّن یعنی خداوند عالم بلند آواز سے سبھی سے یہ کہہ رہا ہے کہ "لئن شکرتم لازیدنّکم"، اگر تم شکر ادا کروگے، تو ہم نے تمھیں جو نعمت عطا کی ہے، اس میں روز بروز اضافہ کریں گے، اسے بڑھائیں گے؛ "و لئن کفرتم ان عذابی لشدید." (4) لیکن اگر تم کفر اور انکار اور شکر نہیں کروگے  اور شکر کی ذمہ داری ادا نہیں کرو گے تو پھر تمہیں اللہ کے شدید عذاب  کا سامنا کرنا پڑےگا ، بے شمار مشکلات ہیں جو تمھارے سامنے آئيں گي۔ اس کے بعد اگلی آيت میں ان تمام باتوں کا ایک مجموعی نتیجہ نکال کر کہا گيا ہے: "و قال موسی ان تکفروا انتم و من فی الارض جمیعا فان اللہ لغنی حمید."(5) یہ جو ہم کہتے ہیں کہ شکر بجا لائیے، یہ جو کہتے ہیں کہ خدا کی نعمتوں پر توجہ دیجیئے، خدا کی نعمت کو فراموش نہ کیجیے، یہ خود آپ کے لیے ہے ورنہ خداوند متعال تو غنی اور بے نیاز ہے۔

ان آیات کی روشنی میں  ایام اللہ کی بہت اہمیت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں ایام اللہ کے بارے میں کچھ  بیان کرنا چاہتا ہوں، کن لوگوں کے لیے؟ ان لوگوں کے لیے جو صبّار اور شکور ہیں۔ صبار ہیں یعنی پوری طرح سے صبر و استقامت کا مظہر ہیں۔ معمولی سی بات پر میدان سے خارج نہیں ہوتے، استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شکور ہیں، یعنی اول تو وہ نعمت کو پہچانتے ہیں، اور نعمت کے ظاہری و باطنی پہلوؤں کو دیکھتے ہیں؛ دوسرے یہ کہ نعمت کی قدر کرتے ہیں۔ یعنی اس نعمت کی قدر کو، اس کے وزن کو اور اس کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہیں؛ تیسرے یہ کہ اس کی بنیاد پر ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، خداوند عالم نے انھیں جو نعمت دی ہے اس کی بنیاد پر انھیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے؛ وہ قوم اور وہ سماج جس کے پاس  صبر نہیں ہے، جو غیر ذمہ دار ہے۔ یہ آیتیں، سورۂ ابراہیم کی ہیں جو مکّی سورہ ہے، یعنی یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئي ہیں جب مسلمان، کفر کے محاذ کے مقابلے میں اپنی جد و جہد اور استقامت و مزاحمت کے عروج پر تھے۔ اس وقت نازل ہونے والی ان آيتوں میں مسلمانوں کو خوشخبری اوربشارت دی گئي ہے، لوگوں سے کہا گیا ہے کہ جان لو کہ خداوند متعال کے ایام اللہ ہیں، وہ ان ایام اللہ کو تمھیں عطا کرے گا لیکن تمھیں ایام اللہ کا شکر ادا کرنا ہوگا۔ اگر تم نے صحیح طور پر شکر اداکیا تو اللہ تعالی نے تمھیں جو کچھ دیا ہے، مستقبل میں اس سے کہيں زیادہ کامیابیاں تمھیں عطا کرے گا۔ اس آیت شریفہ میں یہ جو چند نکات ہیں، وہی پہلے خطبے میں ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہیں۔

گذشتہ دو ہفتے بڑے غیر معمولی اور حوادث سے بھرے ہوئے تھے۔ ان دو ہفتوں میں ایرانی قوم کے لیے تلخ  و شیریں واقعات اور سبق آموز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ یوم اللہ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی وہ دن جب انسان، حوادث اور واقعات میں اللہ کے دست قدرت کا مشاہدہ کرے، جس دن کروڑوں لوگ ایران میں اور لاکھوں لوگ عراق اور بعض دیگر ممالک میں سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر کی شہادت کے احترام میں سڑکوں پر نکلے اور انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی الوداعی تقریب تشکیل دی، تو یہ ایام اللہ میں سے ایک ہے۔ جو کچھ  رونما ہوا، اس کے پیچھے  اللہ تعالی کے دست قدرت کے علاوہ کوئي نہیں ہو سکتا۔ اور جس دن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے میزائلوں نے امریکی فوجی اڈے کو تباہ کیا، وہ دن بھی ایام اللہ میں شامل ہے۔ ہم نے انہی گزشتہ کچھ دنوں میں اپنی آنکھوں کے سامنے ایام اللہ میں شامل ان دو دنوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ تاریخ کے اہم مراحل کے دن ہیں، یہ تاریخ ساز دن ہیں، یہ عام دن نہیں ہیں۔ یہ کہ ایک قوم میں یہ روحانی طاقت ہے کہ وہ دنیا کی ایک مغرور اور جابر طاقت کو اس طرح طمانچہ اور تھپڑ رسید کر سکتی ہے، تو اس سے اللہ کے دست قدرت کا مشاہدہ ہوتا ہے، لہذا یہ دن اللہ کا دن ہے۔ دن ختم ہو جاتے ہیں لیکن ان دنوں کے اثرات، قوموں کی زندگيوں میں باقی رہتے ہیں، یہ دن  قوموں کے جذبوں میں، قوموں کی روش میں، قوموں کی راہ میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں، یہ دن  باقی رہتے ہیں اور بعض تو دائمی ہو جاتے ہیں۔

ہماری نظر میں ایرانی سماج و  معاشرہ ایک صبّار اور شکور معاشرہ ہے۔ ہماری قوم، استقامت اور پائداری والی قوم ہے ، ہماری قوم شکر گزار قوم ہے۔ ان برسوں میں ایرانی قوم لگاتار الطاف الہی کی شکر گزار رہی ہے۔ ہماری صبار اور شکور قوم کو ان آیتوں سے سبق لینا چاہیے۔ ہم نے کہا کہ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کے مادی اور معنوی پہلوؤں کی شناخت کریں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اکتالیس برس بعد کون سی طاقت تھی جو اس بے نظیر اور بے مثال مجمع کو میدان میں لے آئي؟ یہ اشک، یہ محبت ، یہ عشق اوریہ جذبہ کس نے پیدا کیا؟ جو لوگ ان واقعات میں دست خدا نہیں دیکھ سکتے اور ان مسائل میں صرف مادی تجزیہ کرتے ہیں، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ دست خدا کو دیکھنا چاہیے۔ اس واقعہ کا معنوی اور انتہائي اہم پہلو یہی ہے کہ خداوند عالم یہ کام کر رہا ہے۔ جب خداوند متعال، قوم میں اس طرح کی کوئي حرکت اور تحریک پیدا کرتا ہے تو انسان کو محسوس کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی اس قوم کو کامیاب  کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہے کہ یہ قوم، اسی راستے پر آگے کی سمت گامزن رہے تاکہ کامیاب ہو جائے۔ اس سے اس قوم کے جذبات اور باطن کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ عشق، یہ وفاداری، یہ استقامت اور قوم کا امام خمینی (رہ)  کے ساتھ عظیم عہد  ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے میدان میں اپنی موجودگی کے ذریعہ ثابت کردیا کہ وہ  امام خمینی (رہ)  کے ساتھ کئے گئے عہد پر باقی ہیں اور باقی رہیں گے۔ اتنی عظیم بیعت  اور عظیم عہد اور وہ بھی امام خمینی (رہ) کی وفات کے تیس سے زائد سال بعد لوگوں نے ان سے بیعت کی، امام خمینی (رہ)  اس طرح زندہ ہیں۔ صیہونی اور سامراجی نیٹ ورک نے ہمارے اس ہر دلعزیزکمانڈرکو   دہشت گرد قراردینے کی تمام تبلیغاتی کوششوں  کے باوجود وہ اپنے منصوبے میں ناکام رہیں  اس واقعہ سے کچھ دن پہلے اور بعد میں صیہونی نییٹ ورک نے بڑی کوشش کی کہ ہمارے اس عزیز اور عظیم کمانڈر پر دہشت گردی کا الزام عائد کرے، خود امریکی صدر نے کہا، ان کے وزیر خارجہ نے کہا، پوری دنیا میں صیہونی ذرائع ابلاغ نے بار بار دہرایا، "دہشتگرد، دہشتگرد"، لیکن اللہ تعالی نے اس واقعہ اور اس حادثہ کو ان کی خواہش کے بالکل برعکس کردیا؟ صرف یہاں ایران میں ہی نہیں، دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگوں نے اس عظیم شہید کی روح پر درود و سلام بھیجا اور امریکہ اور صیہونیوں کے پرچم کو نذر آتش کیا۔ کیا اللہ تعالی کے دست قدرت کو واضح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا؟ کیا اس سے "لا تحزن ان اللہ معنا" (6) کا واضح طور پر پتہ نہیں چلتا جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتہائي مشکل اور سختی کے عالم میں، غار ثور میں تنہائي اور بے کسی کے عالم میں اپنے ساتھی سے کہا: "لا تحزن ان اللہ معنا" اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیا قوم بنی اسرائیل سے جو بہت ڈری ہوئي تھی اور کہہ رہی تھی کہ "انا لمدرکون" (7) ابھی فرعون کے سپاہی آکر ہمارا محاصرہ کر لیں گے اور ہمیں پوری طرح سے تباہ کر دیں گے، اس کے جواب میں حضرت موسی علیہ السلام کے اس قول کو انسان نہیں دیکھ سکتا کہ "کلا ان معی ربی سیھدین" (8) کیا انسان یہاں "ان معی ربی" کو نہیں دیکھ سکتا؟ کیا ایرانی قوم یہ محسوس نہیں کر سکتی کہ "ان اللہ معنا"، خدا ہمارے ساتھ ہے؟ خداوند عالم نے اپنے قوی اور طاقتور ہاتھ کو اس ملک میں، اس معاشرے اور اس قوم میں فعال کر دیا ہے۔ خود اس عظیم شہادت نے بھی، یہ بات تو جلوس جنازہ سے متعلق تھی لیکن خود یہ شہادت بھی اللہ کی طاقت کا مظہر ہے، امریکی حکومت کی عالمی سطح پر  رسوائي، ذلت ، توہین  اور دہشت گردی نمایاں ہوگئی۔ ان لوگوں نے اس شخص کوبزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے ميں قتل کیا، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے مشہور اور سب سے طاقتور کمانڈر تھا، شہید سلیمانی حقیقی معنی میں اس خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سب سے مضبوط کمانڈر تھے اور اسی حیثیت سے پہچانے بھی جاتے تھے، کونسا دوسرا کمانڈر تھا جس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ، وہ کام کرے جو انھوں نے انجام دیئے؟ ایک علاقہ جو دشمن کے تین سو ساٹھ ڈگری کے محاصرے میں ہے، شہید سلیمانی اس علاقے میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچتے ہیں، اس علاقے میں اچھے نوجوان دشمن کے مکمل محاصرے میں ہیں جو اکیلے ہیں، ان کا کوئي کمانڈر نہیں ہے، ان کی نظریں جنرل قاسم سلیمانی پر پڑتی ہیں اور ان میں نئي جان پڑ جاتی ہے، جذبہ پیدا ہو جاتا ہے، جو و ولولہ پیدا ہو جاتا ہے وہ محاصرہ توڑ دیتے ہیں اور دشمن کو بھاگنے اور فرار ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں، یہ کام کون کر سکتا ہے؟ ان لوگوں نے پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے والے کمانڈر، سب سے مضبوط اور سب سے مشہور کمانڈر کو قتل کر دیا۔ انھوں نے میدان میں اور آمنے سامنے ان کا مقابلہ نہیں کیا، امریکی حکومت نے پیچھے سے اور بزدلی کے ساتھ انھیں قتل کیا، ان لوگوں نے خود اعتراف بھی کیا کہ یہ کام امریکہ کی ذلت کا باعث بن گيا۔ اس خطے میں اس حادثے سے پہلے تک اس طرح کے کام صیہونی حکومت انجام دیتی تھی کہ صہیونی حکومت  لوگوں کو حملہ کرکے قتل کرتی تھی، اس نے حماس کے رہنما کو قتل کیا اور کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، جہاد اسلامی کے رہنما کو قتل کیا اور کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، صیہونی قتل کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے کیا ہے؛ امریکیوں نے بہت زیادہ قتل کیے ہیں، عراق میں، افغانستان اور دوسری جگہوں پر، وہ جتنے قتل کر سکتے تھے انھوں نے کیے ہیں لیکن وہ اعتراف نہیں کرتے تھے کہ ہم نے قتل کیا ہے؛ اس بار انھوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے قتل کیا ہے، اس بار امریکی صدر نے اپنی زبان سے اعتراف کیا، خداوند عالم ان لوگوں کو تباہ کرے جو خود بھی اعتراف کرتے ہیں، امریکیوں نے اعتراف کیا کہ ہم دہشت گرد ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم نے قتل کیا ہے، اس سے بڑی ذلت اور رسوائی کیا ہو سکتی ہے؟ سپاہ پاسداران کا دنداں شکن جواب بھی قابل غور ہے۔ شہید عزیز کی عظیم شہادت اور ان کی تشییع جنازہ کا یوم اللہ قرار پانا، معاملے کا ایک پہلو ہے، سپاہ کا طاقتور ردعمل، معاملے کا دوسرا پہلو ہے، یہ بھی قابل غور ہے، یہ امریکہ پر ایک ضرب تھی۔ البتہ فوجی ضرب تھی، مؤثر فوجی ضرب تھی لیکن فوجی ضرب سے بھی زیادہ اہم اور اعلی، اس کی حیثیت پر لگنے والی چوٹ تھی، امریکہ کی سپر پاور کی ہیبت پر لگنے والی چوٹ تھی۔ امریکہ برسوں سے شام میں، عراق میں، لبنان میں اور افغانستان میں چوٹ کھا رہا ہے، مزحمت کے مضبوط ہاتھوں سے چوٹ کھا رہا ہے لیکن یہ چوٹ ان سب سے اوپر تھی۔ یہ اس کی حیثیت پر چوٹ تھی، امریکہ کی ہیبت اور اس کے رعب و دبدبہ پر چوٹ تھی، اس چوٹ کا کسی بھی دوسری چیز سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اقتصادی  پابندی لگا دی ہے، پابندیوں میں اضافہ کر رہے ہیں لیکن اس سے امریکہ کی کھوئي ہوئي عزت واپس آنے والی نہیں ہے۔ اس مقتدرانہ اور دلیرانہ جواب کی ایسی خصوصیت تھی۔ یہ بھی الہی مدد کا ایک جلوہ ہے جو مخلصانہ جہاد کا صلہ ہے۔

میرے عزیز اور نمازی بھائيو اور بہنو! اخلاص میں بہت بڑی برکت ہے۔ جہاں بھی اخلاص ہوگا، اللہ تعالی اپنے مخلص بندوں کے اخلاص میں برکت عطا کرے گا، کام میں برکت ہوگي، وہ کام فروغ پائے گا، وہ ایسا کام ہو جائے گا جس کا اثر سب تک پہنچے گا، اس کی برکتیں لوگوں کے درمیان باقی رہیں گي۔ اُس اخلاص کا نتیجہ، لوگوں کا یہ والہانہ عشق، یہ وفاداری، یہ آہ و گریہ، یہ عوام کی موجودگي اور لوگوں کے انقلابی جذبات میں تازگي اور نئی لہر ہے۔ لیکن ہم ان واقعات کو کیلنڈر میں یاد رکھیں، ان کی قدر و قیمت طے کریں، ان کی قدر کریں اور یہ دیکھیں کہ ان کی حیثیت اور ان کی قیمت کیا ہے، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم شہید عزیز قاسم سلیمانی اور شہید عزیز ابو مہدی کو ایک فرد کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ انھیں ایک مکتب فکر کی حیثیت سے دیکھیں۔ ہم اپنے عزیز اور شہید کمانڈر کو ایک مکتب فکر، ایک راستہ اور ایک سبق آموز مدرسے کی نظر سے دیکھیں، اگر اس نظر سے دیکھیں گے تب اس معاملے کی اہمیت واضح ہوگي، اس واقعہ کی قدر و قیمت اجاگر ہوگي۔ ہم سپاہ قدس کو صرف ایک دفتری ادارے کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ایک انسانی اور عظیم و واضح کردار کے حامل ادارے کی حیثیت سے دیکھیں۔ اگر ایسا ہو گيا تو پھر اس عوامی اجتماع، اس عوامی خراج عقیدت اور خراج تحسین کے کچھ اور ہی معنی ہوں گے۔ البتہ فوج، سپاہ اور رضاکار فورس سمیت ہماری مسلح افواج کے تمام افراد کی فکری بنیاد، الہی اہداف پر مبنی ہے اور اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک کی صورتحال یہ ہے۔ ہماری مسلح افراد کے تمام فوجیوں کی فکری بنیاد یہی الہی اور بلند اہداف ہیں۔ سپاہ قدس ایک ایسی فورس ہے جو کشادہ دلی کے ساتھ ہر کسی کو اور ہر جگہ کو دیکھتی ہے۔ یہ بغیر سرحد کے مجاہد ہیں، بغیر سرحد کے مجاہد۔ یہ وہ مجاہد ہیں جو ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں، جہاں ضرورت ہوتی ہے؛ یہ مستضعف لوگوں کی عزت کی حفاظت کرتے ہیں، اپنے آپ کو مقدسات کی حفاظت میں نثار کر دیتے ہیں۔ سپاہ قدس کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے۔ یہی لوگ ہیں، جو اپنی جان کی بازی لگا کر، اپنی پوری توانائي کے ساتھ دوسری اقوام اور خطے کے اطراف کے کمزور لوگوں کی مدد کے لیے جاتے ہیں، یہی لوگ جنگ، دہشت گردانہ حملوں اور تخریب کاری کے سائے کو ہمارے ملک سے بھی دور کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے ملک کی سلامتی کا ایک اہم حصہ، انھی مومن نوجوانوں کے کام کا نتیجہ ہے جنھوں نے برسوں تک ہمارے عزیز اور شہید کمانڈر کی سرپرستی میں کام کیا ہے، سلامتی یہی لوگ لائے ہیں، ملک کے لیے سلامتی بھی یہی لاتے ہیں۔ ہاں، یہ فلسطین، غزہ اور دیگر خطوں میں جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے، جاتے ہیں لیکن ہمارے اپنے ملک کے لیے بھی سلامتی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ دشمن، جسے امریکہ نے لیس کر رکھا ہے، وہ صرف عراق اور شام کے لیے نہیں بلکہ آخر میں ایران کے لیے، پیارے ایران کے لیے بھی خطرہ ہے، ان لوگوں نے داعش کو تشکیل دیا، صرف اس لیے نہیں کہ وہ عراق پر مسلط ہو جائے بلکہ اصل اور حتمی ہدف ایران تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس راستے سے ہماری سلامتی کو، ہماری سرحدوں کو، ہمارے شہروں کو اور ہمارے گھروں کو بدامنی اور کشیدگی میں مبتلا کر دیں۔ انھیں، انھی مومن اور عزیز نوجوانوں کی مدد سے روکا گیا جنھوں نے وہاں پہنچ کربڑی کوشش دہشت گردی کا خاتمہ کیا ۔

کچھ  فریب خوردہ افراد نے ایک موقع پر نعرے لگائے تھے: "نہ غزہ نہ لبنان (جانم فدائے ایران)" وہ ایران پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تو ہرگز آمادہ نہیں ہوئے بلکہ وہ ملک کے لئے اپنی آسائش اور اپنے مفادات بھی قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ایران پر جن افراد نے اپنی جانیں قربان کیں وہ بھی یہی شہید سلیمانی جیسے افراد ہی ہیں۔ جب ملک کے دفاع کا وقت تھا تو یہی لوگ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں اترے اور ملک کی حفاظت کی، ایران کا دفاع کیا۔ انھیں افراد کو یہ دعوی کرنے کا حق ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کا دفاع کرتے ہیں۔ ان افراد کا جذبہ قربانی اور اخلاص ہر مرحلے اور ہر مقام  پر کارساز ثابت ہوا ہے۔ اس زاویہ نگاہ سے ہم ایرانی قوم کا، ایرانی قوم کے معنوی حقائق اور باطنی حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ جو لوگ سڑکوں پر نکلے۔ دسیوں لاکھ کی تعداد میں تہران میں، قم میں، کرمان میں، خوزستان میں اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر آئے، ان عزیزوں کی تشییع جنازہ کا حصہ بنے اور جن لوگوں نے دور سے دیکھا اور آنسو بہائے اور جن لوگوں نے مختلف شہروں میں دور سے ان کے لئے عزاداری کی۔ واقعی اس عظیم عمل میں کئي ملین کی تعداد میں ہمارے عوام نے شرکت کی۔ اس عمل کی حقیقت کو اور اس کے باطن کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسے امور میں سارے عوام خواہ وہ کسی بھی دھڑے، کسی بھی پارٹی، کسی بھی گروہ، کسی بھی قومیت، کسی بھی جغرافیائی خطے سے تعلق رکھتے ہوں یکساں ہیں، سب انقلاب کے طرفدار ہیں، اسلام کی حکمرانی کے حامی ہیں، ظلم کے مقابلے میں استقامت کے طرفدار ہیں، استکباری اور سامراجی حکومتوں کے مطالبات کو ٹھکرا دینے کے حامی ہیں۔

ایرانی قوم نے ثابت کر دیا کہ شجاعانہ جدوجہد کے محاذ کی حامی ہے۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ مزاحمت و استقامت کی علامت و مظہر قرار پانے والوں سے گہری محبت کرتی ہے۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ استقامت کی حامی ہے، ہتھیار ڈال دینے کی قائل نہیں ہے۔ جو لوگ ہماری عظیم قوم کے بارے میں عوام کو، بیرونی رائے عامہ کو یا ملک کے اندر رائے عامہ کو کوئی اور تصویر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ صداقت و سچائی سے کام نہیں کرتے۔ قوم یہ ہے، ملت استقامت کی طرفدار ہے، استقامت کی حامی ہے، دشمنوں کے جابرانہ رویہ کے مقابلے میں مزاحمت کی طرفدار ہے۔ یہ امریکی حکام بڑی بے غیرتی سے جھوٹ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ایران کے عوام کے ساتھ ہیں، انھیں چاہئے کہ آنکھ کھول کر دیکھ لیں کہ ایران عوام کون ہیں۔ وہ چند سو لوگ جہنوں نے ہمارے مایہ ناز شہید کمانڈر کی تصویر کی بے حرمتی کی وہ ایرانی عوام ہیں یا یہ کئي ملین لوگ جو سڑکوں پر موجود ہیں اور دنیا کو اپنے وجود سے آگاہ کرتے ہیں؟ (13) امریکہ کی شر پسند حکومت کی ترجمانی کرنے والے افراد بار بار کہتے ہیں کہ ہم ایران کے عوام کے ساتھ ہیں! آپ جھوٹ بول رہے ہیں! اگر آپ ایران کے عوام کے ساتھ ہوں بھی تو اس لئے ہوں گے کہ اپنا زہر آلود خنجر ایرانی عوام کے سینے میں پیوست کر دیں۔ البتہ اب تک تو آپ کو اس میں کامیابی نہیں ملی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ آپ کچھ نہیں کر پائیں گے (14)۔ اس معاملے میں ایرانی قوم نے اپنا کارنامہ رقم کیا، اپنی حقیقت کو نظروں کے سامنے پیش کیا،  ایرانی قوم نے اپنی فکری بنیادوں اور فکری طریقوں کا مظاہرہ کیا۔  ایرانی قوم نے اپنے سچے جذبات کا مظاہرہ کیا۔ ملک بھر میں انتقام کا جو مطالبہ عوام سے سنا گیا، یہ آواز در حقیقت ان میزائلوں کا ایندھن بنی جنہوں نے امریکی چھاونی کونشانہ بنا کر تہہ و بالا کر دیا (15)۔

یوم اللہ کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور نکتہ بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی حضرت موسی (ع)  سے فرماتا ہے کہ وَ ذَکِّرهُم بِاَیّامِ ‌الله (۱۶) یعنی ایام اللہ کا لوگوں کے اذہان میں باقی رہنا ضروری ہے۔ کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کے حساس یوم اللہ فراموش کر دیئے جائیں۔ یہ لوگ دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں تاکہ شاید اس عظیم الشان یوم اللہ کے ذکر کو حاشیہ اور ایک سائیڈ پر ڈال سکیں۔ ایک اسی طرح کا واقعہ ہوائی جہاز گرنے کا افسوسناک سانحہ تھا۔ اس نے حقیقی معنی میں ہمیں غمزدہ اور غمگین کر دیا۔ عزیز نوجوانوں کو، اپنے بہت اچھے لوگوں کو اسی طرح ان افراد کو جو دوسرے ملکوں کے تھے اور یہاں آئے تھے، کھو دینا بہت تلخ واقعہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن کچھ لوگ امریکی ٹی وی چینلوں اور برطانوی نشریات کی ایما پر اس واقعہ کو اس انداز سے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ان دو عظیم شہیدوں کی شہادت کے نتیجے میں یوم اللہ کا سارا قصہ فراموش کر دیا جائے۔ انھوں نے  اپنے خیال میں بڑی کوشش کی کہ لوگ اسے پوری طرح فراموش کر دیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جن کے اندر قومی مفادات اور ملکی مفادات کا کوئی بھی درد اور کوئی بھی لگاؤ نظر نہیں آتا۔ حقیقت میں بڑے تعجب کی بات ہے۔ کچھ لوگ تو نئی عمر کے ہیں، جذباتی ہیں، فریب کھا جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے نہیں ہیں، نوجوان نہیں ہیں، یہ افراد قومی مفادات کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں، ان کے فہم و ادراک کے لئے اور ان کی حفاظت کے لئے کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ان کی زبان سے بھی وہی باتیں نکلتی ہیں جو دشمن چاہتا ہے، ان کے عمل میں بھی وہی چیزیں نظر آتی ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہوائی جہاز گرنے سے جتنی تکلیف ہمیں پہنچی اور جتنا غم ہمیں ہوا، اس سانحے پر ہمارا دشمن اتنا ہی زیادہ خوش ہوا، ہمارے دشمن کو خوشی اور مسرت ہوئی۔ اس خیال سے کہ انھیں ایک بہانہ مل گیا ہے اور اس طرح وہ سپاہ پاسداران پر سوالیہ نشان لگا سکیں گے، مسلح فورسز پر سوالیہ نشان لگا سکیں گے، اسلامی جمہوری نظام پر سوالیہ نشان لگا سکیں گے۔ وہ یہی کرنا چاہتے تھے تاکہ شاید اس عظیم واقعے کو سائیڈ اور حاشیہ پر ڈال سکیں۔ لیکن ان سے غلطی ہوئی۔ وَ مَکَروا وَ مَکَرَ اللهُ وَ اللهُ خَیرُ الماکِرین (۱۷) انہوں نے شیطنت کی لیکن انھیں نہیں معلوم کہ اللہ تعالی کے دست قدرت کے سامنے ان کی عیاری ناکام  ہے، وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ شہید کی تشییع جنازہ کا دن یوم اللہ ہے اور امریکیوں کی فوجی چھاؤنی کو تباہ کرنے کا دن یوم اللہ ہے جو عوام کے ذہنوں سے کبھی نہیں مٹے گا، بلکہ روز بروز ان شاء اللہ اس کی یاد مزید نمایاں ہوتی جائے گی۔

میں یہیں پر ایک بار پھر اس سانحے سے متاثرہ افراد کے ساتھ دل کی گہرائی سے اظہار ہمدردی کرنا چاہتا ہوں، ہم ان کے غم میں برابر کےشریک ہیں۔ ان ماں باپ کا اور ان سوگواروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنا دل غم و اندوہ سے پر ہونے کے باوجود دشمن کی سازش اور فریب کا جواب دیا۔ دشمن کی مرضی اور خواہش کے برخلاف موقف اختیار کیا اور بیان دیا۔ اس ہوائی جہاز میں جو لوگ موجود تھے ان میں ایک کی والدہ نے مجھے خط لکھا اور کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ کی حمایت میں کھڑے ہیں، آپ کے اہداف و مقاصد کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ یہ کہنے کے لئے شجاعت کی ضرورت ہے، فہم و بصیرت کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں  ایسے افراد کے سامنے سر تعظیم سے جھکانے کا دل چاہتا ہے۔

میں یہ بھی بتاناچاہتا ہوں کہ ان عظیم واقعات پر پردہ ڈالنے کی غرض سے جو دوسرے اقدامات کئے گئے ان میں ایک اقدام یہی ہے جو تین یورپی حکومتوں نے انجام دیا،  برطانیہ کی خبیث حکومت، فرانسیسی حکومت، جرمن حکومت نے۔ ایران کو دھمکی دینا کہ ایٹمی مسئلے کو ہم دوبارہ سلامتی کونسل میں لے جائیں گے۔ البتہ خوشی کا مقام ہے کہ ایرانی حکام  نے منہ توڑ جواب دیا، انھیں ٹھوس جواب دیا۔ یہ تین ممالک وہی ہیں جو ہمارے اوپر مسلط کردہ جنگ کے دور میں جہاں تک ممکن تھا صدام حسین کی مدد کرتے تھے۔ جرمنی کی حکومت نے کیمیکل ہتھیاروں کے وسائل اور کیمیکل ہتھیار صدام حسین کو فراہم کئے تھے کہ وہ شہروں اور محاذوں پر کیمیکل حملے کرے۔ ہمارے مجاہدین میں آج تک ان حملوں کے اثرات موجود ہیں۔ فرانس کی حکومت نے ہمارے تیل ٹینکروں کو نشانہ بنانے کے لئے سپر اٹینڈرڈ ہیلی کاپٹر صدام حسین کو فروخت کئےتھے۔ یہ ان کا ماضی کا ریکارڈ ہے۔ برطانوی حکومت ہر اعتبار سے ہمارے دشمنوں کی خدمت میں لگی ہوئی تھی، صدام کی خدمت میں لگی ہوئی تھی۔ یہ ایسے لوگ ہیں۔ ان کا ماضی عداوت پر مبنی ہے۔ آج بھی وہ اس انداز سے کام کر رہے ہیں۔ ان کو اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ میں نے شروع سے کہا، ایٹمی ڈیل سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد جب یہ تینوں حکومتیں بار بار بیان دے رہی تھیں، مسلسل مہمل بیان دے رہی تھیں ، تو اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ ان پر ہمیں بالکل اعتماد نہیں ہے۔ یہ کوئی اقدام نہیں کریں گی۔ یہ امریکہ کا ساتھ دیں گی۔ آج بالکل واضح ہو چکا ہے۔ تقریبا ایک سال گزرنے کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ یہ حقیقی معنی میں امریکہ کے نوکر اورفرمانبردار ممالک ہیں، امریکہ کے اشارے پر رقص کرنے والے ممالک ہیں۔ اس کے باوجود ان حقیر حکومتوں کو یہ توقع ہے کہ وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لیں گی۔ امریکہ جو آپ کا آقا ہے، آپ کا رہنما ہے، آپ کا مالک ہے وہ تو ایرانی قوم کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، تو آپ کی کیا حیثیت ہے کہ آپ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے بارے میں سوچیں (18)۔ یہ ممالک مذاکرات بھی کرتے ہیں تو اس میں بھی فریب اور مکاری چھپی ہوتی ہے۔ جو افراد مذاکرات کی میز پر نظر آتے ہیں، مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والے جنٹلمین در حقیقت وہی بغداد ایئرپورٹ کے دہشت گرد ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بس لباس بدل لیتے ہیں۔ یہ وہی قاتلانہ پنجہ ہے جس پر مخمل کا غلاف جڑھا ہوا ہے، یہ غلاف وہ کبھی اتارکراپنی حقیقت دکھاتے ہیں۔ ان کا باطن وہی ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ناقابل اعتبار ہیں۔

ایرانی قوم اب اس واقعہ سے آشنا ہو چکی ہے۔ اس کی قدر و منزلت سے آگاہ ہو چکی ہے تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں مختصر طور پربیان کرنا چاہتا ہوں۔  ایران کی عزیز قوم کے اندر یہ جذبہ اور حوصلہ ہونا چاہیے کہ خود کو مضبوط اور مستحکم بنائے رکھیں (19)۔ ایرانی قوم کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ خود کو مضبوط اورمستحکم بنائے۔ ہمیں طاقتور بننے کی  کوشش کرنی چاہیے ۔ ہم اہل  مذاکرات ہیں۔ البتہ مذاکرات امریکہ سے نہیں، دوسروں سے۔ لیکن کمزور پوزیشن میں مذاکرات نہیں بلکہ مضبوط  اور مستحکم  پوزیشن میں مذاکرات۔ ملکی معیشت کو مضبوط بنانا چاہیے۔ تیل پر معیشت کا انحصار ختم ہونا چاہیے۔ معیشت کے تیل پر انحصار کی صورت حال سے ہمیں نجات حاصل کرنی چاہیے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں برق رفتار پیشرفت جاری رہنی چاہیے۔ ان تمام چیزوں کے لئے عوام کی مضبوط پشت پناہی اور میدان میں موجودگی ضروری ہے۔ ایرانی قوم اور ملک کے حکام کی ساری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ملک طاقتور بنے، قوم طاقتور بنے۔ اتحاد کے ذریعہ، میدان عمل میں موجودگی کے ذریعے، صبر و استقامت کے ذریعہ، محنت  کے ذریعے، سستی اور غفلت سے اجتناب کے ذریعہ، اگراللہ تعالی کی توفیق  اور اس کے فضل و کرم سے یہ ہو گیا تو وہ دن دور نہیں کہ ایرانی قوم اس مقام پر پہنچ جائے گی جہاں دشمن دھمکی دینا بند کردےگا ۔ اور اس کی دھمکی سلب ہوجائےگی ۔ (20)۔

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ * وَ العَـصرِ * اِنَّ ‌الاِنسانَ‌ لَفی‌ خُسرٍ * اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ‌‌ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبرِ.(۲۱)

خطبہ دوم

بسم الله الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله‌ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا و نبیّنا ابى ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و آله الطّاهرین سیّما علىّ امیرالمؤمنین و حبیبته الزّهراء المرضیّة و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة و علىّ ‌بن ‌الحسین زین العابدین و محمّد بن‌ علىّ الباقر و جعفر بن‌ محمّد الصّادق و موسىٰ ‌بن ‌جعفر الکاظم و علىّ ‌بن‌ موسىٰ الرّضا و محمّد بن ‌علىّ الجواد و علىّ ‌بن ‌محمّد الهادی و الحسن ‌بن ‌علىّ الزکیّ العسکری و الحجّة بن الحسن القائم المهدی صلوات‌ الله علیهم اجمعین. اوصیکم عباد الله‌ بتقوى الله‌.

میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو ایک بار پھر قول و فعل میں، رفتار میں، زندگی میں، اختلافات کی صورت میں ان تمام چیزوں میں تقوائے الہی کو مد نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ تمام امور میں اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کو مد نظر رکھیں۔ میں مختصر طور پر دو باتیں عرض کروں گا اس کے بعد اپنے عرب بھائیوں کی خدمت میں کچھ عرائض  پیش کروں گا۔ دو باتیں اختصار کے ساتھ، ایک تو ہوائی جہاز کے سانحے کے بارے میں، میں ایک بار پھر تعزیت پیش کرتا ہوں، اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔ اس سانحے میں کچھ ابہامات موجود ہیں۔ میں شکر گزار ہوں سپاہ پاسداران کے کمانڈروں کا جنہوں نے تفصیلات بیان کیں، عوام کے سامنے کچھ چیزوں کی تشریح کی، لیکن اس سانحے کی تحقیقات جاری رہنا چاہیے اور اس طرح کے واقعات کا پوری سنجیدگی کے ساتھ سد باب کیا جانا چاہیے۔ سانحے کے بارے میں مکمل اطلاعات کے حصول تک تحقیقات جاری رکھنا ضروری ہے لیکن اس بھی زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کی روک تھام اور سد باب کے لئے اقدامات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

دوسری بات انتخابات کے بارے میں ہے۔ میں انتخابات کے متعلق ان شاء اللہ بعد میں بھی بات کروں گا۔ البتہ آج یہ عرض کرنا ہے کہ میرے عزیز بھائیو اور بہنو! عزیز ملت ایران! ملت ایران کا میدان میں موجود رہنا طاقت کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے اور یہ موجودگی مختلف میدانوں میں ہے۔ ان میں ایک میدان انتخابات کا ہے۔ انتخابات میں ایرانی قوم کی شرکت ملک کی حفاظت کی بہترین ضمانت ہے جس کی وجہ سے دشمن پرمایوسی طاری ہوجاتی ہے۔ دشمنوں کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی ہے کہ گوناگوں حیلوں اور بہانوں کے ذریعہ انتخابات کے بارے میں عوام کا جوش و جذبہ ختم کر دیں۔ میں یہ عرض کروں گا کہ عوام پورے جوش و خروش کے ساتھ انتخابات میں شرکت کریں۔ انتخابات کے گوناگوں مسائل کے بارے میں کچھ انتباہات بھی ہیں، زندگی رہی تو آئندہ دنوں میں اس سلسلے میں کچھ عرض کروں گا۔ آج میں بس اس موضوع کا ذکر کرنا چاہتا تھا۔ بہت محتاط  رہنے کی ضرورت ہے ، دشمن اس میدان میں اپنی مرضی پوری کرنے یعنی انتخابات میں عوام کی شرکت کو کم رنگ بنانےمیں کامیاب نہ ہونے پائے!

عربی خطبہ

بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و صلّى الله على محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین.

 

أودّ فی هذه البرهة الحساسة من تاریخ هذه المنطقة أن یکون لی معکم أیها الإخوة العرب مختصَرٌ من الحدیث.

 

فی هذه الأیام استشهد قائدٌ إیرانی کبیرٌ و شجاعٌ و مجاهدٌ عراقی طافحٌ بروح التضحیة و الإخلاص بأذرعٍ عسکریة أمریکیة و بأمر الرّئیس الإرهابی الأمریکی. هذه الجریمة لم تُرتکب فی میدان المواجهة، بل جرت بصورة جبانة لئیمة.

القائد سلیمانی کان ذلک الرّجل الذّی یقتحم الخطوط الأمامیة و یقاتل بشجاعة نادرة فی أخطرِ المواقع، و کان العاملَ الفاعل فی دحر عناصر داعش الإرهابیة و نظائرها فی سوریة و العراق.

الأمریکیون لم یجرأوا أن یواجهوه فی ساحات القتال فعمدوا إلى الهجوم علیه بنذالة من الجوّ حین کان بدعوة من حکومة العراق فی مطار بغداد و أراقوا دَمَه الطاهر هو و رفاقه، و بذلک امتزج دم أبناء إیران و العراق مرةَ أخرى فی سبیل الله سبحانه و تعالى.

الحرس الإیرانی دَکّ بضربة مقابلة أوّلیة صاروخیة القاعدة الأمریکیة و سحق أُبّهة و غطرسة تلک الدولة الظالمة المتکبرة و یبقى جزاؤها الأساسی و هو خروجها من المنطقة.

الشعب الإیرانی فی مسیرات بعشرات الملایین شیّعوا الشهداء فی مختلف المدن بتودیع منقطع النظیر، والشعب العراقی فی مدن عدیدة شیّعوهم بفائق التکریم و الاحترام، کما أعربت شعوبٌ فی بلدان متعددة عن مواساتها فی اجتماعات صاخبة.

إنّ مساعی مغرضةً هائلة بُذلت لخلق نظرةٍ سلبیة بین الشعبین الإیرانی و العراقی. لقد أُنفقت أموال ضخمة و جُنّدَ أفرادٌ لا یشعرون بالمسؤولیة فی إیران ضدّ الشعب العراقی، والساحة العراقیةٌ شهِدَت ضخّاً إعلامیا شیطانیاً ضدّ الشعب الإیرانی، غیر أنّ هذه الشهادة الکبرى قد أحبَطَت کلّ هذه المساعی الشیطانیة والوساوس الخبیثة.

ما أرید أن أقوله لکم هو أنّ القدرة الإسلامیة، قدرتنا و قدرتَکم تستطیع أن تتغلّب على ما تحیط القوى المادیة نفسها به من هیبةٍ ظاهریة خادعة. القوى الغربیة بالاعتماد على العلم والتقانة، وبالسلاح العسکری، والإعلام الکاذب والأسالیب السیاسیة الماکرة استطاعت أن تهیمن على بلدان المنطقة، و متى ما اضطرّت إلى الجلاء من بلد على إثر نهضة شعبیة، فإنّها لا تکفّ قدر ما تستطیع عن التآمر و الاختراق التجسّسی والسیطرة السیاسیة والاقتصادیة، و زرعت الغدة السرطانیة الصهیونیة فی قلب بلدان غرب آسیا و عَمَدَت إلى وضع بلدان المنطقه فی تهدیدٍ مستمر.

بعد انتصار الثورة الإسلامیة فی إیران نزلت بالکیان الصهیونی ضرباتٌ شدیدة سیاسیة و عسکریة، و أعقب ذلک سلسلة من الهزائم للاستکبار و على رأسه أمریکا من العراق و سوریا و مروراً بغزّة و لبنان و حتّى الیمن و أفغانستان.

إعلام العدو یتّهم إیران بإثارة حروبٍ بالنیابة، و هذه فریةٌ کبرى، فشعوب المنطقة قد استیقظت، و قدرةُ إیران فی مقاومتها الطّویلة أمام خُبثِ أمریکا قد ترکت أثرها فی الجوّ العام للمنطقة و فی معنویات الشعوب. مصیر المنطقة یتوقّف على التّحرّرِ من الهیمنة الاسکباریة الأمریکیة وتحریر فلسطین من سیطرة الصهاینةِ الأجانب.

کلّ الشعوب تتحمّل مسؤولیة الوصولِ إلى تحقیق هذا الهدف. على العالم الإسلامی أن یزیل عوامل التفرقة. وحدة علماء الدّین قادرة على أن تکتشف أسلوبَ الحیاة الإسلامیة الجدیدة. و تعاون جامعاتنا من شأنه أن یرتقی بالعلم و التقانة، و بذلک تستطیع أن تضع أساس الحضارة الجدیدة. والتّنسیقُ بین وسائل إعلامنا بإمکانه أن یصلح جذورَ الثقافة العامّة. والتلاحم بین قُوانا العسکریة سیبعدُ المنطقة کلّها من الحروب والعدوان. والارتباطُ بین أسواقنا سیحرّر اقتصادَ بلداننا من سیطرة الشرکات الناهبة. و تبادل الزِیارات بین شعوبنا سیقرّبُ القلوبَ و الأفکار، و یخلقُ روحَ الوحدة و المودّة بینها. أعداؤنا و أعداؤکم یریدون أن یحققوا تقدمَهم الاقتصادی على حساب ثرواتِ بلدانِنا، وأن یبنوا عِزَّتَهم على حساب ذُلِّ شعوبنا، و یسجّلوا تفوُّقَهم بثمنِ تفرّقنا. یریدون إبادَتَنا على أیدینا. أمریکا تستهدفُ أن تجعلَ فلسطین دونما قدرةِ على الدفاع أمام الصهاینةِ الظالمین المجرمین، و أن تجعل سوریا و لبنان تحت سیطرة الحکومات التابعة لها و العمیلة، و تریدُ العراقَ و ثرواتهِ النفطیةَ بأجمعها مِلکاً لها. و لتحقیق هذا الهدفِ المشؤومِ لا تتوانى عن ارتکاب الظلمِ و العدوان. الامتحانُ العسیر الذین مرّت به سوریا والفِتنُ المتوالیةُ فی لبنان، والأعمالُ الاستفزازیةُ والتخریبیةُ المستمرةَ فی العراق نماذجُ لذلک.

الاغتیالُ الصریحُ لأبې مهدی القائدِ الشجاع للحشدِ الشعبی و قائد الحرس الکبیر سلیمانی نماذجُ نادرةٌ لهذه الفتن فی العراق. هؤلاء یریدون أن یحقّقوا أهدافهم الخبیثة فی العراق عن طریق إثارة الفتن والحروب الداخلیة و بالتالی تقسیم العراق و حذف القوى المؤمنة والمناضلة والمجاهدة الوطنیة.

وکنموذج لوقاحتهم فإنهم إذ یلوّحون بأنهم حماة الدیمقراطیة یصرّحون بکل وقاحة وصلافة، بعد أن صادق برلمان العراق على إخراجهم، أنّهم جاءوا إلى العراق لیبقوا فیه و لن یغادروه.

العالم الإسلامی لا بدّ أن یفتح صفحة جدیدة. الضمائر الیقظة والقلوب المؤمنة یجب أن تُحیی الثقة بالنفس فی الشعوب، و على الجمیع أن یعلموا أن طریق نجاة الشعوب هو فی التدبیر والاستقامة و عدم الرهبة من العدو.

أسأل الله سبحانه و تعالى أن یشملَ الشعوبَ المسلمة برحمته و نصرته إنه تعالى سمیع مجیب.

أقول قولی هذا و استغفر الله لی و لکم، و السّلام علیکم و رحمةالله.(22 )

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ * اِنّا اَعطَیناکَ الکَوثَرَ * فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انحَر * اِنَّ شانِئَکَ هُوَ الاَبتَرُ. (23)

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔  سورۂ ابراہیم، آيت نمبر پانچ کا ایک حصہ: اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا (اور کہا) کہ (اےموسٰی!) تم اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاؤ اور انہیں اﷲ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔

2 ۔   سورۂ ابراہیم، آيت نمبر پانچ کا ایک حصہ: اور بیشک اس (یاد دہانی) میں ہر صابر و شاکر (انسان) کے لیے نشانیاں ہیں۔

3 ۔  سورۂ ابراہیم، آيت نمبرچھے کا ایک حصہ: اور جب موسی نے اپنی قوم (کے لوگوں) سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمھیں آل فرعون سے نجات دي۔

4 ۔  سورۂ ابراہیم، آيت نمبر سات کا ایک حصہ

5 ۔ سورۂ ابراہیم، آيت نمبر آٹھ، اور موسٰی نے کہا کہ اگر تم اور وہ سب لوگ جو زمین میں (رہتے) ہیں کفر کرنے لگیں تو بے شک اللہ (ان سب سے) بے نیاز اور لائق حمد و ثنا ہے۔

6 ۔  سورۂ توبہ، آيت نمبر چالیس کا ایک حصہ، غمگین نہ ہو کہ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

7 ۔  سورۂ شعراء، آيت نمبر اکسٹھ کا ایک حصہ، یقینا ہم مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔

8 ۔   سورۂ شعراء، آيت نمبر باسٹھ کا ایک حصہ، ایسا نہیں ہے، بے شک میرے ساتھ میرا اللہ ہے (اور) وہ عنقریب مجھے راہ دکھائے گا۔

۹۔  سورہ شعراء، آیت نمبر ۶۱ کا ایک حصہ؛ «... ہم یقینا پکڑے جائیں گے۔ ...»

۱۰۔  سوره‌ شعراء، آیت نمبر ۶۲ کا ایک حصہ؛ «... ایسا نہیں ہے، کیونکہ میرا پروردگار میرے ساتھ ہے اور بہت جلد میری رہنمائی کرے گا۔»

۱۱۔  سوره‌ توبہ، آیت نمبر۴۰ کا ایک حصہ؛ «... اللہ ہمارے ساتھ ہے۔...»

۱۲۔  حاضرین کی طرف سے نعرہ تکبیر

۱۳۔  حاضرین کے نعرے

۱۴۔  حاضرین کے نعرے

۱۵۔  حاضرین کے نعرے

۱۶۔   سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۵ کا ایک حصہ؛ « ... انھیں اللہ کے دنوں کی یاددہانی کراؤ »

۱۷۔  سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۵۴؛ «اور دشمنوں نے مکر و فریب اختیار کیا، تو اللہ نے بھی اپنی خفیہ تدبیر کی اور بے شک اللہ ایسی خفیہ تدبیروں میں سب سے بڑھ کر ہے۔

۱۸۔  حاضرین کے نعرے

۱۹۔  حاضرین کے نعرے

۲۰۔  حاضرین کے نعرے

۲۱۔  سوره عصر؛ «اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

عصرکی قسم، یقینی طور پر انسان بڑے نقصان میں ہے،

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیتے رہے، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

22 ۔ بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمد لله ربّ العالمین و صلّی الله علی محمّد و آله الطّاهرین و صحبه المنتجبین.

میں خطے کی تاریخ کے اس حساس مرحلے پر عرب بھائیوں سے مختصر طور پر کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ ان دنوں ایران کے ایک عظیم شجاع کمانڈر اور عراق کے ایک مخلص و بے لوث مجاہد کو ضمیر فروش امریکی فوجیوں اور امریکہ کے دہشت گرد صدر کے حکم پر شہید کر دیا گیا۔ یہ مجرمانہ عمل میدان جنگ میں ہونے والے مقابلے میں نہیں بلکہ نہایت ہی بزدلانہ طریقہ میں انجام دیا گیا۔ شہید سلیمانی وہ شخص تھے جو نہایت ہی بہادری اور شجاعت کے ساتھ فرنٹ لائن پر اور خطرناک ترین جگہوں پر مظلوموں کی حمایت کے لئے پہنچ جاتے تھے اور شجاعت کے ساتھ لڑتے تھے۔ وہ شام اور عراق میں داعش کے دہشت گرد گروہ اور دیگر دہشت گردوں کی شکست کا سب سے مؤثر سبب تھے۔ امریکیوں نے میدان جنگ میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے بزدلی سے طیارے کے ذریعے اس وقت جب وہ عراقی حکومت کی سرکاری دعوت پر بغداد ایئرپورٹ پہنچے تھے ان پر حملہ کیا اور ان کا اور ان کے ساتھیوں کا پاکیزہ خون بہایا۔ ایک بار پھر ایران اور عراق کے فرزندوں کا خون آپس میں مل گیا اور یہ خون راہ خدا میں بہایا گیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ  پاسداران انقلاب اسلامی نے ابھی ایک معمولی جوابی کارروائی کی ہے اور امریکی ایئر بیس کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنایا اور تباہ کیا اور اس ظالم و متکبر حکومت کی ہیبت و آبرو کو خاک میں ملا دیا جبکہ اس کی اصلی سزا علاقے سے اس کی فوجی موجودگی کا مکمل خاتمہ بے ۔ ایرانی عوام نے کئی ملین کے اجتماع  میں جمع ہوکر ان دو عظیم مجاہدین کو بے مثال خراج عقیدت پیش کیا اور انھیں بڑی عزت اور احترام کے ساتھ الوداع کیا۔ عراق کے عوام نے بھی مختلف شہروں میں بڑے احترام و عقیدت سے ان کی تشییع جنازہ میں شرکت کی جبکہ کئی ملکوں میں عوام نے اپنے پرجوش اجتماعات میں اپنے جذبات اور محبت کا اظہار کیا۔

ایران اور عراق کے عوام کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے اور بد ظن کرنے کی خبیثانہ کوششیں تو بہت کی گئیں، درہم و دینار  پانی کی طرح بہائے گئے، غیر ذمہ دار قسم کے افراد کو استعمال کیا گیا، ایران میں عراقی قوم کے خلاف اور عراق میں ایرانی قوم کے خلاف شیطانی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اس عظیم شہادت نے ان تمام شیطانی کوششوں اور شیطانی وسوسوں پر پانی پھیر دیا اور غیر مؤثر بنادیا۔

آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی طاقت، ہماری اور آپ کی طاقت بدعنوان مادہ پرست طاقتوں کی ظاہری ہیبت کو مغلوب کر سکتی ہے۔ مغربی طاقتیں سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے، فوجی ہتھیاروں، جھوٹے پروپیگنڈے اور مکر و فریب پر مبنی سیاست کے ذریعہ اس علاقے کے ممالک پر مسلط ہو گئیں اور جب تک کسی ملک میں عوامی تحریک کی وجہ سے انھیں باہر نکلنے پر مجبور نہیں ہونا پڑا تب تک انھوں نے جہاں تک ممکن ہوا سازشوں، انٹیلیجنس اثر و رسوخ اور سیاسی و اقتصادی تسلط جاری رکھا، مہلک سرطان یعنی صیہونی حکومت کو مغربی ممالک کے قلب میں جاگزیں کر دیا اور اس علاقے کے ممالک کے لئے دائمی خطرہ پیدا کر دیا۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد غاصب حکومت پر سخت سیاسی و عسکری ضربیں پڑیں اور اس کے بعد تو استکباری قوتوں میں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی عراق اور شام سے لیکر غزہ و لبنان تک اور افغانستان سے لیکر یمن تک یکے بعد دیگرے ناکامیوں اور شکستوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگيا۔ دشمن کے ذرائع ابلاغ ایران پر نیابتی جنگ کا الزام لگاتے ہیں، یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ علاقے کی قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ علاقے کا مستقبل یہ ہے کہ اسے امریکہ کے استعماری تسلط سے نجات ملے گی اورمقبوضہ فلسطین میں  باہر سے آنے والے صہیونیوں کی حکمرانی کا خاتمہ ہوگا اور فلسطین کو آزادی ملے گی۔

قوموں کی ہمت اتنی بلند و بالا ہونی چاہیے تاکہ وہ اس منزل مقصود تک جلد از جلد پہنچ سکیں۔ عالم اسلام کو چاہیے کہ اختلافات کے علل و اسباب کو ختم کرے۔ علمائے دین کا اتحاد جدید اسلامی طرز زندگی کے لئے اسلامی راہ حل تلاش کر سکتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے باہمی تعاون سے سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ ملے گا اور جدید تمدن کی بنیادیں قائم ہوں گی۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کی ہم آہنگی سے ہماری عمومی ثقافت کی بنیادی طور پر اصلاح ہو سکے گی۔ ہماری مسلح فورسز کا باہمی رابطہ پورے علاقے کو جنگ اور جارحیت سے محوظ بنا سکتا ہے۔ ہمارے بازاروں کے رابطے ہماری معیشتوں کو بیرونی کمپنیوں کے تسلط سے آزاد کر سکتے ہیں۔ ہمارے عوام کی ایک دوسرے کے ملکوں میں آمد و رفت سے ہم آہنگی و ہم فکری اور وحدت و دوستی کا ماحول پیدا ہوگا۔ ہمارے اور آپ کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ اپنی معیشت کو ہمارے ملکوں کے وسائل و ذخائر سے، اپنے وقار کو ہماری قوموں کی ذلت و رسوائی کے ذریعے اور اپنی بالادستی کو ہمارے باہمی اختلاف اور تفرقہ سے یقینی بنائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اور آپ کو ایک دوسرے کے ذریعہ نابود اور برباد کردیں۔

امریکہ سفاک اور جرائم پیشہ صہیونیوں کے مقابلے میں فلسطینوں کو نہتا رکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ شام اور لبنان اس کے اشارے پر کام کرنے والی حکومتوں کے زیر اقتدار رہیں اور عراق اور اس ملک کی تیل کی دولت امریکہ کے اختیار میں رہے۔ امریکہ اپنے مکروہ اور منحوس اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بڑے سے بڑا ظلم اور فساد برپا کرنے پر آمادہ ہے۔ شام کا کئی سال پر محیط سخت امتحان، لبنان میں مسلسل فتنہ، عراق میں دائمی کشیدگی اور تخریبی کارروائیاں اس کی مثالیں ہیں۔

عراق کی رضاکار فورس " حشد الشعبی " کے شجاع کمانڈر شہید ابو مہدی اور سپاہ پاسداران کے عظیم کمانڈر شہید سلیمانی کو کھلے عام دہشت گردانہ کارروائی میں قتل کیا جانا، عراق میں جاری امریکی فتنہ پروری کا  ایک نمونہ ہے۔ وہ عراق میں اپنا منحوس منصوبہ فتنہ پیدا کرکے، خانہ جنگی شروع کرواکے، آخرکار عراق کو تقسیم کرکے اور مومن، مجاہد اور محب وطن فورسز کو ختم کرکے پورا کرنا چاہتا ہے ۔ ان کی بے شرمی کا نمونہ یہ ہے کہ عراق کی پارلیمنٹ میں امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا بل پاس ہونے کے بعد انھوں نے جو خود کو جمہوریت کا پشت پناہ ظاہر کرتے تھے، تمام تکلفات کو چھوڑ کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم عراق میں ٹھہرنے کے لئے آئے ہیں، یہاں سے نہیں جائیں گے۔

دنیائے اسلام کو اب ایک نئی تاریخ رقم کرنی چاہیے ۔ بیدار ضمیر مومنوں کو قوموں کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے اور سب یہ جان لینا چاہیے کہ قوموں کی نجات کا واحد راستہ حکمت عملی، تدبیر، استقامت اور دشمن سے خوفزدہ نہ ہونے میں ہے۔ اللہ تعالی مسلمانوں پراپنی رحمت نازل فرمائے اور ان کی مدد اورنصرت فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمةالله.

23۔ سوره‌ کوثر؛ " اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔ ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا۔ تو آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز ادا کیجئے اور قربانی دیجئے۔ آپ کا دشمن خود مقطوع النسل ہوگا۔"