بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللّه ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّةالله فی الارضین و لعنةالله علی اعدائهم اجمعین.
عزیز بھائیو اور بہنو، بہت بہت خوش آمدید! انتیس بہمن (18 فروری) کو پیش آنے والے واقعے کو ہر سال آپ لوگوں کی خاطر پرشکوہ انداز میں اس حسینیہ میں منایا جاتا ہے۔ مجھے بھی تبریز اور (صوبہ) آذربائیجان کے عزیز عوام سے ملنے کا اشتیاق رہتا ہے۔ حالانکہ اس خطے کے تمام عزیز لوگوں سے ملنے کا موقع نہیں مل پاتا تاہم یہ ایک موقع ہے کہ جب اس علاقے کے نوجوانوں، عہدے داروں، علمائے کرام اور معاشرے کے مختلف حصوں کے نمائندوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ بہت بہت خوش آمدید! تبریز اور (صوبہ) آذربائیجان کے باقی تمام عزیز عوام کو ہمارا سلام پہنچا دیجئے گا۔ "مندن سلام یتیرون سایر همشهری لَره"۔ 1
انتیس بہمن کا واقعہ صرف ایک معمولی تاریخی واقعہ نہیں ہے؛ ایک سبق ہے، ایک سرفہرست واقعہ ہے۔ میں یہ بات آپ نوجوانوں کو بتا رہا ہوں: آذربائیجان کے عوام اور تبریز کے رہنے والوں نے نہ صرف انقلاب اور انتیس بہمن کے دن کو گویا ایک انجن کے طور پر استعمال کیا، اور یہ انتیس بہمن کا واقعہ پیش خیمہ بن گیا اگلے سال کے بائیس بہمن کے انقلاب کی کامیابی کا؛ اسے انجن یا موٹر کے طور پر اس لئے استعمال کیا گیا تاکہ کام اتمام تک پہنچے، آگے بڑھ سکے، بلکہ (آذر بائیجان کے عوام نے) تقریبا 120 برس، 130 برس پہلے ہی سے ملک کے تمام اہم سماجی اور سیاسی واقعات اور مزاحمت اور جد و جہد (کی تحریکوں) میں، مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس بارے میں ہمارے عزیزنوجوانوں کو علم ہونا چاہئے؛ کہ آذربائیجان کی شناخت یہ ہے۔(تحریک) تنباکو اور مرحوم حاج مرزا جواد مجتہد تبریزی کے واقعے میں، (اسی طرح) (قانون) مشروطہ کے واقعات میں بھی آذربائیجان کے مرکزی کردار کے بارے میں ہر ایک جانتا ہے، تیل کو برطانیہ کے چنگل سے نکالنے کی قومی تحریک میں بھی آذربائیجان نے انتہائی اہم کردار ادا کیا؛ ایران کے اسلامی انقلاب (کی کامیابی)، مسلط کردہ (ایران عراق) جنگ کے دوران، جنگ شروع ہونے سے قبل کے واقعات میں بھی، تبریز اور (صوبہ) آذربائیجان کے عوام نے قابل ذکرکردار ادا کیا۔
انقلاب کے ابتدائی دنوں میں بعض عناصر نے انقلاب کی مخالفت کا راستہ اپنایا۔ ( وہ چاہتے تھے کہ) ایران کے انقلابی عوام کے درمیان اختلافات کے بیج بوئیں اور شق عصا (2) کریں۔ وہ سمجھے تبریز ان کے ناپاک عزائم کے لئے مناسب ہوگا۔ یہ دراصل برطانیہ اور ایران مخالف عناصر کی پرانی پالیسی رہی ہے۔ گئے اور وہاں ہنگامہ مچانے کی کوشش کی۔ ہم اس وقت انقلابی کمیٹی کے رکن تھے؛ تہران میں (اس بارے میں) گفتگو ہوتی تھی۔ بعض لوگ پریشان تھے، (لیکن) امام (خمینی رح) نے کہا کہ پریشانی کی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ تبریز کے رہنے والے ہی ان افراد کا جواب دے دیں گے؛ اور ہوا بھی اسی طرح؛ کسی اور کی ضرورت ہی نہیں پڑی؛ یہ آذربائیجان کے عوام کی خصوصیت ہے۔ جنگ کے ایام میں، عاشورا ڈویژن بھی ان ڈویژنوں میں تھا جو ہمیشہ محاذ کی اگلی صفوں میں ہوتا تھا۔ ہر فرد میدان جنگ میں ہوتا تھا؛ یہ ہے آذربائیجان کی تاریخ۔ (صوبہ) آذربائیجان، ان تمام لوگوں کے سامنے اکیلے دم سے ڈٹ جاتا ہے جو ملک میں نسلی تفریق سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں؛ اور آج بھی یہی کیفیت ہے۔
جی ہاں، ہمارے ملک میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، مختلف اقوام پر مشتمل ہے(ہمارا ملک)؛ ترکی، فارسی، عربی، بلوچی، لری، کردی۔ یہ ایک تنوع ہے اور یہ تنوع ایک اچھا موقع ہے۔ (لیکن) دشمن ہمیشہ اسے اختلاف پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ تاہم ایران کی بڑی قومیں اور سب سے بڑھ کر آذربائیجان کے عوام، دشمنوں کی اس خباثت آلود پالیسیوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹے ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے عزیز نوجوان اس بات پر توجہ دیں کہ دشمن نظریں جمائے ہوئے ہے ان تمام شگافوں پر جن سے زلزلہ پیدا کیا جا سکتا ہو اور ملک کے استقلال اور انقلاب کی بنیادوں کو تباہ کرنے کے لئے اس کا استعمال کیا جا سکتا ہو؛ (دشمن) تمام ممکنہ وسائل کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اپنے زعم میں ان شگافوں کو ڈھونڈ رہا ہے؛ حالانکہ کوئی شگاف وجود ہی نہیں رکھتا؛ ایرانی عوام یک دل و جان ہیں، عوام متحد ہیں۔
جی، آپ تو خود تبریز کے رہنے والے ہیں، آذربائیجان کے رہنے والے ہیں۔ اپنے احساسات کو پہچانتے ہیں۔ یہ جو شعر آپ لوگوں نے پڑھا کہ " بیعتده وفاداروخ، بیز آنداولا قرآنا"(3) ہم اسے جانتے ہیں، یہ ایک ثابت شدہ چیز ہے۔ آذربائیجان کے عوام نے نہ فقط زبان سے بلکہ اپنے عمل سے ثابت کردیا ہے، دکھا دیا ہے کہ وسوسہ اور تفرقہ پیدا کرنے والے دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ عزیز بھائیو اور بہنو! خوش قسمتی سے باقی ایران میں بھی یہی کیفیت پائی جاتی ہے۔ خراسان کے رہنے والوں میں بھی۔ حالانکہ وہاں پر بھی مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں۔ اسی طرح کرد قوم۔ بلوچ بھی اسی طرح۔ بلوچ علما میں ایسے افراد تھے جو انقلاب کے ابتدائی دنوں مین انقلاب کے دشمنوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ میں کافی عرصے تک وہاں رہ چکا ہوں۔ وہاں کے علما کو پہچانتا ہوں۔ ان کا نام لیں گے تا کہ لوگ انہیں پہچان سکیں۔: مرحوم مولوی عبدالعزیز ساداتی، جو سراوان کے رہنے والے تھے؛ سن رسیدہ، نحیف سے، لیکن انقلاب کے مخالفین اور نکتہ چینوں اور انقلاب کے خلاف بہانہ ڈھونڈنے والوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ انقلاب کا دفاع کیا۔ آپ سنّی بلوچ تھے۔ صوبہ کردستان میں مرحوم شیخ الاسلام؛ جنہوں نے سنندج میں ڈٹ کر پر زور تقریریں کیں؛ اہل سنّت میں آپ کا شمار تھا۔ کرد، شافعی مذہب ہوتے ہیں۔ لیکن انقلاب کا دفاع کیا۔ کیونکہ یہ دیکھا کہ اسلام کا پرچم بلند کیا گيا ہے۔ انقلاب مخالف عناصر نے انہیں اسی تقریر کی خاطر شہید کردیا۔ صوبہ خوزستان میں عرب نوجوانوں نے صدّام کے حملے کے سامنے ڈٹ کر مزاحمت کی۔ وہ بھی عرب تھے اور یہ بھی لیکن اس عرب نے مزاحمت کی۔ وہ بھی عربی زبان بولتا تھا اور یہ بھی عرب زبان تھے۔ شہید علی ہاشمی، ایک خوزستانی عرب نوجوان کمانڈر؛ اہواز کے رہنے والے تھے۔ ان کا نام بھلایا نہیں جا سکتا؛ ان لوگوں نے استقامت کی۔ وہ بھی عربی بولتے تھے اور یہ بھی۔ لیکن اس نے حقیقت کو سمجھا۔ دشمن کی سازشوں کو سمجھا اور ڈٹ گیا۔ اسی طرح باقی ایرانی اقوام۔ لیکن آذربائیجان کے عوام پیش پیش ہیں۔ اب (دشمن) بیٹھ کر سازشیں رچیں، بیٹھ کر باتیں کریں، پیسے نچھاور کریں، اس دور کے قارونوں کے پٹرو ڈالر نکال کر ملک میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ ناکام رہیں گے۔
یہ قوم متحد ہے۔ یہ ملت اکٹھی ہے۔ میں آج اس بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، بائیس بہمن کے واقعے کے بارے میں بھی بات کروں گا۔ اعلی عہدے داروں اور ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی بات کروں گا؛ ان سب کو ساتھ ساتھ دیکھنا ہوگا۔ ایرانی عوام متحد ہیں، اکھٹا ہیں۔ اب کچھ لوگوں کی زبان پر "قومی آشتی، قومی آشتی"، چڑھی ہوئی ہے؛ میری نظر میں یہ باتیں بے معنی ہیں؛ عوام اکٹھا ہیں، متحد ہیں۔ جب اسلام کا مسئلہ درپیش ہو۔ ایران کی بات ہو، استقلال کو خطرہ ہو، دشمن کے سامنے استقامت درپیش ہو، ایرانی قوم پوری طرح سے ڈٹی رہتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ فلاں سیاسی مسئلے میں دو لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آشتی کی بات کیوں کرتے ہیں؟ کیا ایک دوسرے سے خفا ہیں جو آشتی کی بات ہو رہی ہے؟ ان عبارتوں کو (بعض) اخبارات اچھال رہے ہیں۔ انہیں پتہ بھی نہیں ہے کہ اس سے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ جب آپ آشتی کی بات کرتے ہیں، تو لگتا ہے کہ کوئی خفگی ہے؛ (حالانکہ) کوئی خفگی نہیں ہے۔ جی ہاں، عوام ان لوگوں سے جو یوم عاشور کو بے ادبی کا ارتکاب کرتے ہیں خفا ہیں۔ یہ قوم ان لوگوں سے خفا ہے جنہوں نے عاشور کے دن سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ بسیج فورس کے ایک نوجوان کو برہنہ کیا اور اس کو زد و کوب کیا۔ ان کے ساتھ آشتی ہو بھی نہیں سکتی۔ ان کے ساتھ جو اصل انقلاب کے مخالف ہیں۔ ان کے ساتھ جو کہتے ہیں کہ انقلاب (کا خاتمہ) ہمارا ہدف ہے اور انتخابات بہانہ تھا۔ البتّہ ان کی تعداد قلیل ہے۔ بہت کم ہے؛ ایرانی عوام کے بحر اعظم کے مقابلے میں وہ ایک قطرے کی مانند ہیں؛ کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ بحر اعظم منسجم اور متحد ہے۔؛ اتحاد موجود ہے اور موجود رہنا بھی چاہئے اور اس میں روزبروز اضافہ بھی ہونا چاہئے۔
الحمد للہ، آذربائیجان کے ذہین افراد اس جانب ہمیشہ متوجہ رہے ہیں۔ آذربائیجان کے غیرتمند نوجوان اور مختلف شعبوں سے وابستہ آذربائیجان کے عوام نے ہمیشہ اس مسئلہ پر توجہ دی ہے اور دشمن کی سازشوں، ان کے وسوسوں اور سرگرمیوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں؛ قومی اتحاد کا دفاع کیا ہے اور اس راہ میں جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے ہیں۔ سب سے پہلے آپ خود، ہم اور تمام منتظمین اور پوری قوم کو ملت آذربائیجان کی قدر پہچاننا چاہئے۔ آذربائیجان، انقلاب اور اسلامی نظام کے لئے باعث قوّت ہے۔ یہ تھی پہلی بات۔
اور اب بائیس بہمن (یوم آزادی) (کا موضوع)۔ سب سے پہلے میں تمام ملّت ایران کا دل کی گہرائیوں سے شکرگزار ہوں۔ اس سال کے بائیس بہمن نے، انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی ایران کی آبرو و عزّت کو دوبالا کردیا۔ ملک کے منتظمین اور وہ افراد جو سڑکوں پر عوام کی تعداد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں، سب اس بات پر متفق تھے کہ بڑے شہروں ، ستّر فیصد شہروں میں، بعض میں عوام کی تعداد گذشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ تھی اور بعض میں بہت زیادہ تھی۔ بعض جگہوں پر تو دگنی تھی۔ اس بات کی تصدیق ہمارے تجزیہ کاروں نے کی ہے۔ صرف ان لوگوں نے ہی نہیں، بلکہ غیرملکیوں نے بھی اس کی تصدیق کی؛ انقلاب کے دشمنوں نے بھی کہا؛ وہی لوگ جو ہر سال بائیس بہمن کی تحقیر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ صرف چند ہزار لوگ ریلیوں میں شریک ہوئے۔ اس سال انہیں لوگوں نے دسیوں لاکھ کی عبارت کا استعمال کیا۔ جی ہاں، بالکل صحیح ہے۔ دسیوں لاکھ انسان پورے ملک میں سڑکوں پر آئے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں کوئی ہوتا بھی نہیں جو آپ کا شکریہ ادا کروں؛ (یہ انقلاب) عوام کا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اس نے عوام کے دلوں کو اس جانب موڑ دیا۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ برسوں سے سی آئی اے، موساد اور برطانیہ کے جاسوسی اور خفیہ اداروں اور پٹروڈالر سے مالامال خزانوں کے منہ، سیکڑوں انقلاب مخالف ذرائع ابلاغ کے لئے کھول دئے گئے ہیں۔ یہ (ٹی وی) چینل سال بھر صبح شام چلتے رہتے ہیں؛ ایران سے مفرور، ناکام سیاست زدہ افراد کو ڈھونڈ کر، انہیں کچھ معاوضہ دیکر، انقلاب اور نظام کے خلاف تجزیے اور خبریں تیار اور تقریر کرنے پر لگا دیتے ہیں۔ امام (خمینی) اور ایرانی عوام کے خلاف، انقلاب کی مختلف سرگرمیوں کے خلاف اور اس کی تحقیر کے لئے۔ میں ابھی اس کی جانب اشارہ کروں گا۔ ان کی کوشش ہے کہ انقلاب پر الزامات عائد کریں۔ (اسلامی) نظام پر الزامات لگائیں اور اسے کمزور کریں۔ ایک سال تک کوششیں کرتے ہیں۔ لیکن بائیس بہمن کے دوسرے دن، عوامی ریلیاں، بارش کی مانند، خدائی رحمت کی طرح برس کر اس غبارآلود موسم کو صاف کردیتی ہیں۔ ایک مبارک تحریک کی مانند سڑکوں پر آکر، لوگوں کے ذہنوں کو صاف بنادیتی ہیں اور آلودگیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ہے بائیس بہمن (کا کمال)۔
بائیس بہمن ہو، یوم القدس ہو، ہر ایک کا اپنا ایک مطلب ہوتا ہے۔ ایک ہدف ہوتا ہے۔ لوگوں کو اس کا مطلب بہت اچھی طرح معلوم ہے۔ اور اس کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس میدان میں اتر آتے ہیں۔ اب میدان میں کون لوگ ہیں؟ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ آپ تبریز شہر یا دوسرے شہروں یا حتی تہران پر نظر ڈالئے۔ اس عظیم اجتماع پر جو چلتا جا رہا ہے، ان کو دیکھئے۔ ان کی اکثریت کی عمر سینتیس سال بھی نہیں ہے۔ (حالانکہ) انقلاب کی عمر سینتیس سال، اڑتیس سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے انقلاب کو نہیں دیکھا ہے۔ امام (خمینی) کو نہیں دیکھا ہے، دفاع مقدس کو نہیں دیکھا ہے۔ شاہ کے دور، طاغوت کے دور کی سیاہیوں، گھٹن اور تلخیوں کو نہیں دیکھا ہے۔ پھر بھی آرہے ہیں۔ اسی جوش و جذبے کے ساتھ، اسی احساس کے ساتھ، اسی شناخت کے ساتھ، اسی روشن خیالی اور وسعت نظر کے ساتھ۔ سڑکوں پر آکر ہاتھ اٹھا کر نعرے لگاتے ہیں؛ اس کا کیا مفہوم ہے؟ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انقلاب زندہ ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب فروغ پارہا ہے، اس میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ہیں انقلاب کے کھلتے ہوئے نئے شگوفے۔ یہ انقلاب کی تیسری اور چوتھی نسل ہے جو آرہی ہے اور دشمن کے مقابلے میں ڈٹ کر اپنا موقف پیش کر رہی ہے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے۔
دشمن کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم یہ کوشش بے اثر رہے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ انقلاب کو ناکام دکھائیں۔ ٹھیک ہے، بد نظمی پیش آتی ہے؛ دنیا کا کون سا حصہ اور کون سا ملک ہے جس کے تمامتر مسائل ٹھیک اور درست ہوچکے ہوں؟ یہ بدنظمی ہر جگہ ہوتی ہے۔ یہاں پر بھی ہے۔ میں اس کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک بدانتظامی ہے، لیکن دشمن کی کوشش ہے کہ انقلاب کی پیشرفتوں کو بدانتظامیوں کے سائے میں لے آئے۔ انقلاب اور اسلامی نظام نے گذشتہ اڑتیس سال کے دوران انتہائی بڑے کام کئے ہیں۔ میں نے ان عناوین کی فہرست تیار کی ہے کہ جس کے تحت انقلاب کے گذشتہ اڑتیس سال کے دوران مختلف سرگرمیاں انجام دی جا چکی ہیں۔ کتنی کوششیں کی گئی ہیں۔ بہت سی طاقتور اور سرگرم عمل حکومتوں نے بھی اتنی ترقی حاصل نہیں کی ہے۔
انقلاب کے گذشتہ برسوں سے قیاس کرئے؛ بنیادی امور میں، کہ جو ملک کے مستقبل اور ترقی کے لئے انتہائی اہم ہے۔ حتی بعض شعبوں میں ہزار فیصد ترقی حاصل ہوئی ہے۔ یعنی دس گنا زیادہ؛ بعض موضوعات میں تو دو ہزار فیصد اور چھے ہزار فیصد۔ یعنی ساٹھ گنا زیادہ۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا، سائنسی ترقی، بنیادی سرگرمیاں، فراواں بڑے ثقافتی موضوعات اور قومی عزت و آبرو کا قیاس کیجئے انقلاب سے قبل کے دور سے، طاغوت کے دور سے، امریکی تسلّط کے دور سے۔ اس وقت سے، جب صیہونی عناصر جب بھی تھک جاتے تھے تو یہاں تہران آکر شیان باغ میں عیش و آرام کر کے، سات دن، آٹھ دن، دس دن گزار کر چلے جاتے تھے۔ آج کے دور سے قیاس کیجئے اس دور کو۔ ملک نے ترقی کی ہے۔ آگے بڑھا ہے۔ ایک جست لگی ہے۔ اس دور میں ملک کا انتظام ایک بزدل اور ذلیل حکومت کے ہاتھ میں تھا۔ طاغوت کی حکومت ایک ڈرپوک اور ذلیل حکومت تھی۔ امریکا سے دبی ہوئی، برطانیہ اور بڑی حکومتوں سے دبی ہوئی؛ قوم کو بھی ذلیل کردیا تھا، خوار کردیا تھا۔ ملک کی صلاحیتوں کو بالکل ناکارہ کردیا تھا۔ بعض صلاحیتوں کو تو دشمنوں کے حوالے کردیا تھا۔ انقلاب نے آکر بہت سی صلاحیتوں کو ایک بار پھر بحال کردیا۔ آج یہ ملک عزیز ہے۔ آج، اگر ایران نہ چاہے، اور اگر سامنے نہ آئے اور عزم ظاہر نہ کرے تو، تو علاقے کے تقریبا تمام مسائل آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ایرانی قوم نے ثابت کردیا ہے کہ ایک با استقامت قوم ہے۔ ان سب باتوں کی جانب ہمارے دشمنوں نے بھی اپنے تجزیوں میں ذکر کیا ہے۔ کہہ چکے ہیں کہ ملّت ایران کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک با استقامت قوم ہے، ڈٹ جاتی ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہتھیار نہیں ڈالتی؛ اسے کہتے ہیں عزت و آبرو۔ اس عزت و آبرو کا قیاس کرتے ہیں اس دور سے کہ جب ذلت کو ان لوگوں نے اس قوم پر مسلط کر دیا تھا۔ جی ہاں، واضح سی بات ہے۔ یہ نوجوانوں کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہے اور اسی لئے میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ ہے بائیس بہمن۔ بائیس بہمن ایک خدائی نعمت ہے۔ خدا کی جانب سے فراہم کردہ ایک موقع ہے تا کہ قوم اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے۔ اپنے عزم کا بلند آواز میں اعلان کرے۔ بائیس بہمن کو پورے ملک میں مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس (جذبے) کا جو اس ملت کے وجود میں ہے۔ ہم ترقی کے خواہاں ہیں۔ اسلام کے خواہاں ہیں۔ اس اسلامی نظام کے خواہاں ہیں جو عوامی مطالبے پر مبنی ہو۔ جو عوام کی مشکلات کو حل کرسکتی ہو۔ یہ ہر سال بائیس بہمن کا نعرہ ہے۔ اور یہ قوم بھی (اپنے اس موقف پر) ڈٹی ہوئی ہے۔ اور جو بھی اعلی عہدے دار ملّت سے الگ رہنا چاہے اور استقامت نہ کرے، قوم بغیر کسی رعایت کے اسے کنارے لگادے گی۔ یہ تھا، بائیس بہمن کا موضوع۔
ایک اور موضوع ملک کے اعلی عہدے داروں کو مخاطب ہو کر بتاتا ہوں۔ ملک کے منتظمین کو (جان لینا چاہئے کہ) بائیس بہمن (یوم آزادی) کی ریلیوں میں عوام کی شرکت سے یہ مت سمجھئے کہ انہیں ہماری کارکردگی کی جانب سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ لوگوں کو گلہ ہے؛ ملک میں ہونے والی بہت سی چیزوں سے انہیں گلہ ہے۔ عوام کو ناانصافی برداشت نہیں ہوتی۔ جہاں بھی ناانصافی دیکھتے ہیں، پریشان ہوجاتے ہیں اور دکھ محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح جب کہیں عدم کارکردگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مشکلات پر عدم توجہ سے بھی ناراض ہوتے ہیں۔ جہاں بھی سرگرمیوں کو رکا ہوا دیکھتے ہیں انہیں گلہ ہوتا ہے۔ بائیس بہمن کا حساب الگ ہے۔ بائیس بہمن، ایران کے دشمنوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ ہے جو ایران کو نگلنے کی تاک میں لگا ہوا ہے، تاہم ہم ذمہ داروں سے ان کی توقعات کا مسئلہ الگ ہے۔
ہم نے اس سال کو "استقامتی معیشت؛ اقدام اور عمل" کا سال قرار دیا تھا۔ اب سال ختم ہو رہا ہے؛ بہمن مہینے کے آخری دن چل رہے ہیں۔ اقدام اور عمل کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ میں نے سال کی ابتدا میں ملک کے اعلی عہدے داروں، حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے عہدے داروں سے، سب سے کہا تھا کہ ان کا فرض ہے کہ سال کے آخر میں، اقدام اور عمل کے نعرے کے تحت اپنی کارکردگی کے بارے میں بتائیں۔ یہ نہ کہیں کہ اس طرح ہونا چاہئے بلکہ یہ بتائیں کہ اس طرح ہو چکا؛ اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔
آج ہمیں مشکلات درپیش ہیں۔ عوام کی مشکلات اور ان کے گلوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عہدے داروں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ بے روزگاری کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ مندی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ مہنگائی کا مسئلہ انتہائی اہم ہے۔ یہ تمام مسائل درپیش ہیں۔ البتّہ منتظمین کوششوں میں مصروف ہیں جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہماری صلاحیتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں مناسب وقت پر انشاء اللہ بتاؤں گا کہ ملک کے سامنے راستے بند نہیں ہیں۔ معاشی مسائل میں راستے بند نہیں ہیں۔ مشکلات موجود ہیں، دونوں طرف، تینوں طرف، چاروں طرف مشکلات ہیں۔ لیکن مشکلات سے باہر نکلنے کا راستہ بھی واضح ہے۔ کس طرح سے ان مشکلات سے نکلا جا سکتا ہے؟ (راہ حل) اعلی عہدے داروں کی کوشش پر منحصر ہے۔
ہم نے چار، پانچ یا چھ سال پہلے، سال کی ابتدا میں ہونے والی تقریر کے دوران کہا تھا کہ آج ملت ایران کے دشمنوں نے معیشت پر نظر گاڑ رکھی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ملک پر معاشی دباؤ ڈالا جائے۔ ملک پر معاشی دباؤ کو اتنا بڑھایا جائے کہ عوام مشکلات میں پھنس جائیں۔ جب عوام مشکلات میں گھر جائیں گی تو ان کا جی اچٹ جائے گا، ناامیدی کا شکار ہوجائیں گی؛ دشمن یہی چاہتا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ عوام اپنے انقلاب، اپنے نظام، اپنی حکومت اور اپنے ملک کی جانب سے ناامیدی میں مبتلا ہوجائیں۔ ان کا جی اچٹ جائے؛ اسی لئے معاشی مسائل پر دباؤ ڈال رہے ہیں؛ اور ڈالتے رہے ہیں۔ ہمارے اعلی عہدے داروں کو اس نکتے پر خاص توجہ دینا ہوگی۔
البتہ معیشت کا مسئلہ، ہمارا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ سب کو اس بات کا علم ہے۔ میں ثقافت اور فرہنگ کے مسئلے پر بہت زیادہ حسّاس ہوں۔ سائنس کے مسئلے پر بھی بہت حساس ہوں۔ لیکن جب محدود وقت میں مختلف موضوعات پر نظر ڈالتے ہیں تو معیشت کے مسئلے کو ترجیح دینے کی ضرورت محسوس ہوجاتی ہے۔ کیونکہ دشمن کی توجہ اس جانب ہے۔ آج بھی وہی سب حرکتیں کر رہے ہیں۔ سب کو اس بات پر توجہ دینا ہوگی۔ امریکہ کی گذشتہ حکومت کے دوران بھی یہی تھا، اور موجود حکومت میں بھی اس طرح ہے۔ دشمن کا ایک حربہ، فوجی حملے کے ذریعے دھمکانے کی کوشش ہے۔ اور یہ کہ فوجی آپشن میز پر ہے اور اسی طرح کے دھمکی آمیز بیانات۔ ایک یورپی اعلی عہدے دار نے بھی ہمارے عہدے داروں سے کہا تھا کہ اگر ایٹمی معاہدہ نہ ہوتا تو ایران پر حملہ کردیا جاتا اور ضرور کیا جاتا۔ یہ ایک کھلا جھوٹ ہے! لیکن جنگ کا مسئلہ کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ اس لئے کہ ہمارا ذہن (فوجی) حملے کی جانب چلا جائے، (حالانکہ) حقیقی جنگ کسی اور میدان میں کی جا رہی ہے۔ حقیقی جنگ معاشی جنگ ہے، حقیقی جنگ پابندیاں ہیں، حقیقی جنگ روزگار، سرگرمی اور ٹیکنالوجی کے مواقع کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ہے حقیقی جنگ۔ ہماری توجہ فوجی کارروائی کی جانب مبذول کراکے، اس جنگ کی جانب سے غافل کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقی جنگ ثقافتی جنگ ہے۔ مختلف قسم کے ٹیلی ویژن چینل اور متعدد انٹرنیٹ نیٹ ورک کے ذریعے ہمارے نوجوانوں کے دل و دماغ کو دین، مقدسات اور شرم و حیا وغیرہ سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں اور اس کے لئے (بھاری) رقومات خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ہے حقیقی جنگ۔
ہمارے اعلی عہدے داروں کو ہوشیار رہنا ہوگا۔ میں نے محترم صدر جمہوریہ سے کہا کہ اپنے منتظمین سے مطالبہ کریں کہ ان کی انتظامیہ کی سرگرمی شفاف ہونی چاہئے۔ انتظام کے ساتھ جانچ پڑتال بھی ضروری ہے۔ منتظمین کو نظر بھی رکھنا چاہئے۔ کام جاری رہنے پر نظر رکھنی چاہئے۔ اگر ہم نے کہہ دیا کہ فلاں کام ہو جانا چاہئے اور سامنے والا بھی کہہ دے کہ سرآنکھوں پر، اس طرح تو کام پورا نہیں ہوگا۔ کام کو انجام دینا چاہئے اور یہ کام نظر آنا چاہئے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے اور اس پر توجہ دینا ہوگی۔
قرآن کی آيت ہے کہ "و اعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ" (4)۔ زیادہ امکان اس کا دیا جاتا ہے کہ "قوۃ" سے مراد صرف فوجی قوت اور طاقت نہیں ہے۔ فوجی طاقت بھی ہے، لیکن صرف فوجی طاقت نہیں۔ و اعدو لہم ما استطعتم من قوۃ، جتنا ممکن ہو، اندر سے خود کو مضبوط بناؤ۔ اس کا مفہوم، اندرونی پیداوار میں استحکام بھی ہے جس کے بارے میں مکرر طور پر کہتا ہوں۔ سائنسی لحاظ سے اپنی تقویت کرو۔ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے خود کو مضبوط بناؤ۔ اندرونی پیداوار کے لحاظ سے قوی بنو، غیرملکی مارکیٹوں میں داخل ہونے کے لحاظ سے مستحکم بنو۔ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لحاظ سے مستحکم بنو جو اس ملک میں موجود ہیں اور ان کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ طاقتور بنو اور ان صلاحیتوں سے استفادہ کرو۔ جب ہم نے اصول کا اعلان کیا کہ ملک کو آٹھ فیصد معاشی ترقی کی شرح حاصل کرنا ہوگی تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے! اس کے بعد ماہرین اور تجزیہ کاروں نے آکر کہا کہ اگر ہم صلاحیتوں پر نظر ڈالیں، تو آٹھ فیصد سے زیادہ ترقی بھی حاصل کرنا ممکن ہے! اس کا مطلب خام تیل کی فروخت نہیں ہے، البتہ مفید ثابت ہوگا لیکن ہمارا مقصود یہ نہیں ہے۔ اس کا مفہوم اس اندرونی پیداوار میں اضافہ ہے، ملک کا معاشی استحکام ہمارا ہدف ہے۔ یعنی وہی استقامتی معیشت جس کی جانب ہم نے بارہا زور دیا ہے اور دہرایا ہے۔ ادھر کچھ لوگ آکر مشکلات کو ابھارنا شروع کردیتے ہیں، مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں، مشکلات کو بڑھا کر دکھاتے ہیں۔ ہونے والی ترقی کا ذکر ہی نہیں کرتے، اور (مشکلات) کی راہ حل بھی پیش نہیں کرتے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایران پر پابندی عائد کرنے کا دشمن کو سگنل بھیجا ہے۔ پابندیوں کا سگنل ان لوگوں نے ہی بھیجا تھا۔ یہی لوگ ہیں جو (ملک کی) کمزوریوں کو اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اندرون ملک کم اور غیرملکیوں کے سامنے زیادہ۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو، آذربائیجان کے جوانو، تم نے مشکلات کے میدانوں میں اپنی صلاحیتیں ثابت کردی ہیں۔ میں آپ سے عرض کرتا ہوں،: جان لیں کہ اگر ہم اسی طریقے سے اور اسی انداز میں آگے بڑھے، تو یقینا کامیابیاں ملت ایران کے قدم چومیں گی۔ سب کو غور و فکر کرنا چاہئے، سبھی کو کوشش کرنی چاہئے، بلند عزم کا مظاہرہ کرنا چاہئے، مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے، اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے ان بڑے اہداف کی جانب گامزن رہیں۔ اس مقدّس امید کو اپنے دلوں میں اجاگر رکھیں۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس امید کو ہمارے دلوں مین زندہ رکھا جس کی مدد سے ہم ایک لمحے بھی ملک کے مستقبل کی جانب سے ناامیدی کا شکار نہ ہوئے اور الحمد للہ جن چیزوں کی امید ہمارے دلوں میں تھی، اس سے بہتر حاصل کیا۔ لیکن ہماری آرزو اس حد تک محدود نہیں ہے۔ ہماری خواہشیں یہاں تک محدود نہیں ہیں۔ ہم سے خدا کے مطالبات بھی اس حد تک محدود نہیں ہیں۔ ہم نے ایک مختصر سا قدم اٹھایا ہے۔ وہ بڑے قدم ہمیں اٹھانا باقی ہیں اور ان اہداف کی جانب آگے بڑھنا ہے جس کا وعدہ اسلامی نظام نے ہمیں دیا ہے۔ ایک ترقی پسند، مستحکم، باانصاف اسلامی معاشرہ جو آبرو و عزت اور طاقت سے مالامال ہو۔ انشاء اللہ اس ہدف تک پہنچیں گے اور یقینا پہنچیں گے۔ انشاءاللہ و باذن اللہ تعالی۔ اللہ تعالی آپ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، انشاءاللہ، خدا آپ سب کی حفاظت کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
- میرا سلام سارے وطن کے تمام ساتھیوں تک پہنچا دیں
- ایک گروہ نے جس بات پر اتفاق رائے حاصل کرلیا ہو، اس کی مخالفت کرنا
- قرآن کی قسم ہم اپنی بیعت کے پابند ہیں۔
- سورہ انفال، آیت نمبر 60 کا ایک حصہ؛ (اور جتنی تمھاری طاقت ہو، اسے اکٹھا کرو)