بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمدلله ربّ العالمین والصّلاة والسّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و علی آله الاطیبین الاطهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین.
اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے عزیز، محنتی، پرعزم اور نیک نام برادران کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ یہ دن بھی حقیقتا اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کی نیک نامی کا دن ہے۔ فوجی ترانے کے گروہ کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے بہت ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مفہوم اور معنویت سے مالامال اشعار پیش کئے۔
ہم متعدد برسوں سے انیس بہمن سن تیرہ سو ستّاون (8 فروری انیس سو اناسی) کو پیش آنے والے اہم واقعے کے بارے میں نشست منعقد کرتے رہے ہیں اور بات چیت اور گفتگو کرتے رہے۔ لیکن حقیقتا اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس بارے میں بہت سی باتیں کی جا چکی ہیں لیکن اب بھی بہت سی باتیں باقی ہیں۔ بقول شاعر کہ "یک عمر می توان سخن از زلف یار گفت" ( ایک عمر زلف یار کی تعریف میں گزاری جا سکتی ہے)۔ انّیس بہمن سن تیرہ سو ستّاون کو پیش آنے والا واقعہ ایک فیصلہ کن واقعہ تھا۔ طاغوتی دور میں فضائیہ کو فوج کا وہ حصہ سمجھا جاتا تھا جو امریکی سیاسی نظام سے وابستہ طاغوتی حکومت سے انتہائی قریب ہے۔ اس دور میں طاغوتی حکومت کے لئے کی فوج کا کوئی بھی شعبہ، ایرفورس جتنا قابل بھروسہ اور اطمینان اور امید کا باعث نہیں تھا۔ تاہم ٹھیک اسی شعبے سے، طاغوت کی اس حکومت کو ایک کاری ضرب لگی۔ حقیقتا یہ ایک ضرب کاری تھی۔ یعنی فوج کو انتہائی منظم بنایا گیا تھا۔ ان کے درمیان ایک الگ ماحول تیار کیا گیا تھا۔ لیکن اچانک اسی فوج کے کارکنوں کے ایک گروہ نے، وہ بھی فضائیہ جیسے حسّاس شعبے سے جس پر انہیں بہت زیادہ بھروسہ تھا، آکر امامِ انقلاب، انقلاب کے رہبر سے بیعت کرلی۔ وہ بھی خفیہ طور پر نہیں (بلکہ) دن دہاڑے، کھلے عام طریقے سے اور اپنے شناختی کاغذات ہاتھ پر اٹھا کر! میں وہیں تھا۔ خیابان ایران میں کہ جب یہ لوگ اس اسکول کی جانب آرہے تھے جہاں امام (خمینی) کا قیام تھا۔ جوق در جوق، فوجی دستوں کی شکل میں۔ ایک کے پیچھے ایک آرہے تھے۔ نعرے لگا رہے تھے اور شناختی کارڈ ہاتھ میں اٹھائے ہوئے تھے۔ انتہائی عجیب واقعہ تھا۔ قرآن کی اس آیت کی ترجمانی نظر آرہی تھی کہ فاتاهُمُ اللهُ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا؛ یہ ان کے حساب کتاب میں شامل نہیں تھا، اسی لئے انہیں ضرب لگی۔ ہر چیز کا امکان اپنے حساب کتاب میں رکھا ہوگا تاہم اس کا نہیں۔ اور وہی واقعہ پیش آیا جس کا امکان بہت ہی بعید تھا۔ یعنی اس دور کی فوج کی فضائیہ، جس کا کمانڈر ان چیف بھی غلامانہ ذہنیت کا تھا، (وہ سب) گوناگوں قسم کی غلامانہ ذہنیتون (حتی کہ) فوجی وسائل، ٹریننگ وغیرہ میں بھی پورے طور پر (مغرب کے) تابع فرمان تھے، وہ اچانک عوام کے ساتھ ہوگئے اور امام و رہبر انقلاب سے بیعت کرلی۔ یہ ایک عجیب جھٹکا تھا۔ انہیں اس کی توقع نہیں تھی۔ ہمیں بھی نہیں تھی۔ یعنی اس صف کے انقلابی اور مومن افراد کو بھی ایسی توقع نہیں تھی۔ حقیقتا رزق لایحتسب تھا۔: وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجًا ٭ وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب؛ بعض اوقات کوئی مدد، کوئی امداد، ایک نئی زندگی مل جاتی ہے، نیا خون انسان کو مل جاتا ہے، وہاں سے جہاں سے اسے توقع بھی نہ ہو اور اس کا حساب کتاب بھی نہ کیا ہو۔ اس محاذ کو بھی رزق لایحتسب فراہم ہوا۔ ہم نے اس کا حساب نہیں کیا تھا۔ یعنی کسی کے ذہن میں بھی نہ تھا۔ ملت ایران، مبارز اور انقلابی افراد، (حتی کہ) امام خمینی (رح) نے بھی اس بات کا اشارہ نہیں کیا تھا کہ فوج کے اندر سے کوئی بھی اس جانب قدم بڑھائے گا۔ البتّہ، اس سے قبل میری فوج کے انتہائی محدود کارکنوں سے قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے اور مجھے معلوم تھا کہ یہ بھی ہمارے ہم فکر ہیں۔ تہران میں بھی فوج کے اندر ایسے لوگ تھے جن کے ہمارے دوستوں سے تعلقات تھے۔ اسی حد تک۔ لیکن یہ کہ اچانک اتنا بڑا اجتماع اور وہ بھی نمایاں طریقے سے اٹھ کر (اس جانب) آجائے، یقینا رزق لایحتسب تھا۔ اس کا اندازہ کرنا ناممکن تھا۔
تو یہیں پر ایک درس سیکھنے کو ملا: رزق لایحتسب کواجمالی طور پر ہمیشہ اپنے اندازوں میں شامل کریں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ عقلانی اور دنیاوی اندازے موثر ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں (بلکہ) ضروری بھی ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے کوئی بھی ہمیں یہ نہیں سکھاتی کہ عقلانی طور پر حساب کتاب نہ کرو۔ ذہنی اور مادّی اندازے نہ لگاؤ۔ نہیں، اسے ضرور شامل کرنا چاہئے۔ لیکن ان اندازوں کے لئے بھی جگہ چھوڑ دیجئے جو مادّی مسائل سے بڑھ کر ہوتے ہیں اور ہم تک آتے بھی ہیں۔ ہمارے تمام قیاسات میں یہی ہوتا ہے۔ ایمانی محاذ کے تمام امور میں اس کا خیال رکھنا چاہئے، نظر میں رکھنا چاہئے اور اس کی توقع کرنا چاہئے۔ دعاؤں میں شامل ہے کہ:
یا مَن اِذا تَضایَقَتِ الاُمورَ فَتَحَ لَها باباً لَم تَذهَب اِلَیهِ الاَوهام؛
جب سارے امور الجھ جاتے ہیں۔ جب ظاہری طور پر راستے بند ہوجاتے ہیں، بعض اوقات اللہ تعالی اسی بند راستے کے ایک گوشے سے ایک ایسا راستہ کھول دیتا ہے کہ لم تذہب الیہ الاوہام۔ انسان کا ذہن اور اس کی فکر اس حد تک پہنچی ہی نہ تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ (ایران پر) مسلط کردہ جنگ اس کا ایک نمونہ ہے۔
جنگ ہم پر اس حالت میں مسلط کی گئی جب حملہ آور طاقت یعنی صدام کی بعثی حکومت سے، (فوجی) ساز و سامان، افرادی قوت کی تعداد اور نظم و ضبط اور ڈھانچے کے لحاظ سے ہم بہت پیچھے تھے۔ وہ تیار تھا۔ اس کے وسائل منظم تھے۔ ڈھانچہ مستحکم تھا۔ اس کے پاس بے انتہا فوجی ڈویژن تھے۔ اس کی فضائی اور برّی افواج تیار تھیں۔ ایئر ڈیفینس، لاجسٹکس، انجنیئرنگ۔ اس کے مختلف شعبے متنوع اور مکمل طور پر تیار تھے۔ (لیکن) ہمیں ان تمام شعبوں میں مسائل کا سامنا تھا۔ ساز و سامان میں بھی، افرادی قوت کے لحاظ سے بھی، (فوجی) انجنیئرنگ کے شعبے میں اور لاجسٹکس اور وسائل اور فوجی ڈھانچے میں بھی ہمیں مسائل درپیش تھے۔ میں اس سے قبل، اسی دن کی نشست یعنی انیس بہمن کی نشست میں بتا چکا ہوں کہ اس دن(جب جنگ مسلط کی گئی)، ایرفورس کے کمانڈر ان چیف نے فوجی طیاروں کی فہرست لاکر مجھے دی۔ انہوں نے کہا کہ یقینا آئندہ سترہ اٹھارہ دن میں، فوج کے سارے ہوائی جہازوں کی پروازیں منقطع اور بند ہوجائیں گی۔ کیوں کہ اسپئرپارٹ کی ضرورت ہوتی رہتی ہے۔ آخری جہاز سی- ایک سو تیس طیارہ تھا۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے دن ہی، ایف پانچ، ایف چار اور ایف چودہ لڑاکا طیارے اور اس جیسے دوسرے جہاز آہستہ آہستہ کرکے گراؤنڈ ہوتےجا رہے تھے۔ اور پندرہ یا بیس دن کے بعد، سی- ایک سو تیس جہاز (کی باری تھی)۔ یہ ٹرانسپورٹ جہاز تھے۔ کچھ تعداد ہمارے پاس تھی۔ اس وقت ہمارا تصور یہ تھا۔ لیکن ((فَتَحَ باباً))، ہماری ایرفورس، جنگ کے آخر تک سرگرم عمل رہی، کوششیں جاری رکھیں اور سرگرمی بھی۔ «فتَحَ لَها باباً لَم تَذهَب اِلَیهِ الاَوهام» یہ ہے رزق لا یحتسب، اسے اپنے اندازوں میں ہمیشہ شامل کریں۔ اگر باایمان رہیں، اگر خدا پر توکل اور اس سے امید کی عنایت کے ذیل میں عقلانیت کو بروئے کار لائیں، تو اس وقت یہ دروازہ ہمارے لئے کھل جائے گا۔ عقلانیت کو ختم نہیں کرنا چاہئے۔ دنیاوی اندازوں کو کنارے ہٹانا نہیں چاہئے۔ نہیں۔ یہ سب ضروری ہے اور ہم نے بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، الہی امداد کے لئے بھی جگہ چھوڑ دیں۔ چنانچہ ہم خدا پر توکل اور بھروسہ کرنے کے عادی ہوں، خدا سے امیدیں وابستہ کرنے کے عادی ہوں۔ انقلاب کے سینتیس، اڑتیس سال گزر چکے ہیں۔ انقلاب کے تمام مسائل میں یہی رہا ہے اور ہم نے ہمیشہ خدائی مدد کا مشاہدہ کیا ہے۔ اب میں ایران کی فضائی فورس کے بارے دو تین جملے آپ کی خدمت میں عرض کرکے اسی گفتگو کی جانب پلٹوں گا۔
ایرفورس اس واقعے کے بعد بھی، مختلف امتحانوں میں کامیاب رہی۔ جب میں ماضی کی جانب نگاہ ڈالتا ہوں۔ ایک فوجی بغاوت کی جانب جس کی تیاری مسلط کردہ جنگ سے پہلے کی گئی تھی، اس واقعے میں فضائی اور برّی افواج کے بعض عناصر حتی کہ سِوِل عناصر و غیرہ بھی شامل تھے۔ جو شخص پہلی بار باعث بنا کہ یہ فوجی بغاوت ناکامی سے دوچار ہوجائے، وہ فضائیہ کا ایک افسر تھا۔ ایک پائیلٹ! وہ آیا اور مجھ سے پورا قصہ بتایا۔ پھر تمام اداروں کو خبر ہوئی اور (مقابلے کی) تیاری مکمل ہوگئی۔ ہمدان کے شہید نوژہ ایربیس سے اس بڑی کارروائی کو شروع ہونا تھا جو تہران اور دوسری جگہوں تک آن پہنچتی۔ فضائیہ کے ایک افسر نے اسے بے اثر کردیا۔ میں اسے بھول نہیں سکتا۔ پورا (اسلامی) نظام اس محبت کو، اس مدد کو، اس خدمت کو فراموش نہیں کرے گا۔
فوج میں وہ پہلی جگہ، جہاں پرزہ بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا، وہ فضائیہ تھی۔ ارادہ کیا اور بنانا شروع کردیا ۔ اس سے قبل، فضائیہ میں تعمیر کا کوئی بھی سلسلہ نہیں تھا۔ ہماری فنّی ٹیم کو مرکب اور پیچیدہ پرزوں کو پہنچاننے تک کی اجازت نہیں تھی۔ فضائی افواج میں پرزہ بنانے کی تحریک اور جہاد کو اسی عنوان یعنی جہاد مرکز کے تحت شروع کردیا گیا۔ فضائیہ پہلی جگہ تھی۔ البتہ اس کے بعد، فوج کے دوسرے شعبوں میں بھی یہ کام شروع ہوگیا تاہم اس کام کی ابتدا ایرفورس سے کی گئی۔
مسلط کردہ جنگ کے پہلے دن سے ہی، یہ فضائیہ کی کارروائیاں تھیں جس نے قوم کی ہمت بڑھائی۔ میں اس وقت پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ میں پارلیمنٹ میں گیا اور ایرفورس کی کارروائیوں کی تعداد کے بارے رپورٹ دی۔ سب کا منہ کھلے کے کھلا رہ گیا۔ اتنی عظیم کاوش اور اس عظمت کے ساتھ، خبر میں بھی شامل کی گئی اور ملک کے تمام باشندوں نے اسے محسوس کیا۔ ہر دور میں یہی کیفیت رہی۔ فوج اور سپاہ کی مختلف کارروائیوں کے دوران، بالخصوص، "والفجر آٹھ" اور "کربلا پانچ" و غیرہ (نام کے حملے) کہ جن مین انتہائی اہم اور بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں، ان میں بھی فوج کی فضائی فورس کا فیصلہ کن کردار رہا۔ خدا رحمتیں نازل کرے شہید ستّاری پر کہ جو اس وقت ایرڈیفینس کے افسر تھے۔ انہوں نے اتنی تیز رفتاری اور سنجیدگی سے "والفجر آٹھ" کارروائی کے ایرڈیفینس کا کام انجام دیا کہ سب کے سب حیرت میں مبتلا ہوگئے تھے۔ دشمن بھی حیرت زدہ ہوگیا۔ (دشمن کے ) متعدد جہازوں کو تباہ کردیا گیا۔ ایرفورس ایک باعزت فورس ہے۔ اس کے بعد آج تک آپ کی سرگرمیاں جاری ہیں اور یہ سرگرمی جاری رکھو، اے عزیز نوجوانو! کوششیں جاری رکھو، سوچو، عمل کرو اور اقدام کرو۔ کمزوریوں کو دور کرو، انتظامی امور کو مضبوط کرو۔ فضائیہ میں تعمیری کاوشوں میں اضافہ کرو۔ میں آپ لوگوں کی مشکلات کو جانتا ہوں۔ آپ کی مشکلات، ملک کی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات اور ان کمزوریوں کو اپنے بلند انسانی ارادوں سے، اپنے علم سے، اپنی پرہیزگاری سے اور خدا پر توکل اور امید سے ختم کرو۔ اسی طرح جیے آج تک اس میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
جی ہاں، اسی طرح اللہ تعالی پر امید اور بھروسے سے رزق لایحتسب حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ کب ہوتا ہے؟ جب انسان خدا پر بھروسے اور امید کے ذیل میں، عقل و فکر کو بروئے کار لائے۔ اگر الٹا ہوگیا، تو کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ اگر عقل کو شیطانوں پر بھروسے کے سائے تلے استعمال کریں گے، تو اس کا نتیجہ بالکل الگ ہوگا۔ قرآن کریم کے سورہ نور کی آيت ہے کہ «اَعمالُهُم کَسَرابٍ بِقیعَةٍ یَحسَبُهُ الظَّمئانُ مآءً» سراب کی مانند، پیاسے انسان کو خشک زمین پانی کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ جب قریب ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ «لَم یَجِدهُ شَیئًا وَ وَجَدَ اللهَ عِندَه» دیکھتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ شیطانوں سے امیدیں وابستہ کرنے کا نتیجہ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ دنیاوی اور شیطانی طاقتوں سے امیدیں وابستہ کرنے کا بھی یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ عقل، تدبیر اور عقلانیت پر مبنی کارکردگی کو مختلف مسائل من جملہ سفارتکاری، ریاستی مسائل، اندرون ملک کے مسائل، وسائل، سائنس، صنعت و غیرہ میں بروئے کار لانا ضروری ہے۔ لیکن شیطانوں پر بھروسہ کرنا، اس پر بھروسہ کرنے کے مترادف ہے جو آپ کے وجود کا ہی مخالف ہو۔ یہ ایک انتہائی بڑی غلطی ہوگی۔ اس طاقت پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا جو اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلام کے طاقتور ہونے کو برداشت نہ کرسکتا ہو۔ اس سے امیدیں وابستہ نہیں کی جا سکتیں۔ کسَرابٍ بِقیعَةٍ یَحسَبُهُ الظَّمئانُ ماءً۔ یہ وہی سراب ہے۔ اگر خدا پر توکل کیا، تو رزق لایحتسب حاصل ہوگا۔ اگر شیطان پر بھروسہ کیا تو کسَرابٍ بِقیعَةٍ یَحسَبُهُ الظَّمئانُ ماءً۔ یہ وہی بات ہے کہ ہر ایک کو، مجھے اور آپ کو ہمیشہ ذہن نشین کرلینی چاہئے۔ ملت ایران کے ہر فرد کو ذہن نشین کرلینی چاہئے۔ کوشش کریں۔ سرگرمی جاری رکھیں۔ نئے انداز اپنائیں۔ خدا کی جانب سے عطا شدہ حقیقی طاقت کا بھرپور استعمال کریں۔ خدا پر توکل کریں اور الہی امداد کی جانب سے پرامید رہیں، تب جاکر خدا مدد کرے گا۔ لیکن اگر بیٹھ کر شیطان وہ بھی شیطان اکبر کی مدد سے امیدیں وابستہ کرلیں تو اس وقت "کسَرابٍ بِقیعَةٍ یَحسَبُهُ الظَّمئانُ ماءً" ہوگا۔ اس سے ہمیں کوئی نیکی پہنچنے والی نہیں ہے۔
اب یہ صاحب جو حال میں ہی امریکہ میں (برسر اقتدار) آئے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ آپ کو امریکہ کا شکر گزار ہونا چاہئے، اوبامہ کی حکومت کا شکرگزار ہونا چاہئے! شکرگزار کیوں ہوں؟ ہم کسی بھی صورت میں ان کے شکرگزار نہیں ہیں؛ یہ وہی مجموعہ ہے کہ جس نے ایران پر بھاری پابندیاں مسلط کیں وہ بھی اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی عوام کو مفلوج کرنے کی غرض سے۔ انہیں امید تھی کہ مفلوج کر ہی دیں گے۔ البتہ وہ کامیاب نہیں ہوئے اور کبھی بھی نہیں ہوں گے اور کوئی بھی دشمن طاقت ایران کو مفلوج نہیں کر سکتی۔ کہہ رہے ہیں کہ شکرگزار رہیں۔ نہیں، ہرگز شکرگزار نہیں ہوں گے۔ کس لئے شکرگزار ہوں؟ پابندیوں کی خاطر؟ داعش کو وجود میں لانے کی خاطر؟ علاقے کو نذر آتش کرنے کی خاطر؟ شام کو نذر آتش کردیا۔ عراق میں آگ لگادی۔ کس لئے شکرگزار ہوں؟ سن دو ہزار نو کے انتخابات میں فتنہ بپا کرنے کے لئے؟ ایک طرف مجھے خط لکھ کر مجھ سے اظہار عقیدت اور تعاون کی بات کی، تو دوسری طرف، کھلے عام فتنہ بپا کرنے والوں کی حمایت۔ انہیں یقین دلایا کہ ہم آپ کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ملک میں فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ یہی ہے نفاق کا حقیقی چہرہ۔ وہی مخمل کا دستانہ جو لوہے کے پنچوں پر چڑھایا گیا تھا۔ ہمیں ان کے اقدامات کا پوری طرح سے علم ہے۔ ان کی حرکتوں کی مکمل شناخت حاصل ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کا شکریہ ادا کریں اور مجھ سے ڈریں! نہیں، آپ سے بھی نہیں ڈرتے۔ بائیس بہمن (یوم آزادی) کو ایرانی عوام سڑکوں پر نکل کر ان دھمکیوں اور(فضول) باتوں کا جواب دیں گی۔ دھمکی کے مقابلے میں ایرانی عوام کا جواب کیا ہے، یہ دکھا دیں گی۔ جی نہیں، کسی کی بھی دھمکی سے ہم خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہاں، ہم ان صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو ابھی (برسراقتدار) آئے ہیں۔ اس کی خاطر شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہماری زحمت کم کرکے امریکہ کا حقیقی چہرہ دکھا دیا۔ سیاسی بدعنوانیوں، معاشی بدعنوانیوں، اخلاقی بدعنوانیوں اور سماجی بدعنوانیوں کے بارے میں جس کے بارے میں تیس سال سے زیادہ سے ہم بتا رہے تھے، ان صاحب نے آکر (امریکی) انتخابات اور اس کے بعد بھی سب کچھ طشت از بام کردیا۔ اور اس وقت بھی اپنی حرکتوں سے امریکہ کی حقیقت کا پردہ فاش کررہے ہیں۔ انھوں نے امریکی انسانی حقوق کا (اصلی) مطلب بتا دیا ہے کہ وہاں پانچ سالہ بچے کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے! یہ ہے ان کا انسانی حقوق۔
ایرانی عوام نے اپنا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ ملت ایران اس راستے کو، عقل و منطق و خدا پر توکل کے ساتھ پوری قوت اور تیزرفتاری اور خوداعتمادی سے طے کر رہی ہے۔ ہمارے نوجوان خود اعتمادی سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے اعلی تعلیمی ادارے، ہماری یونیورسٹیاں سائنس کے شعبے میں فکر اور ایجاد سے مالامال اور بھرپور کام انجام دے رہی ہیں۔ تعمیرات کے شعبے کی کیفیت بھی اسی طرح ہے۔ دوسرے مختلف شعبوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ملک میں عقلانیت کا بول بالا ہے۔ لیکن خدا پر توکل کے ساتھ ساتھ۔ اللہ تعالی پر بھروسے کے ساتھ ۔ ہمیں یقین ہے کہ ملت ایران اس راستے کو طے کرنے میں کامیاب رہے گی اور اپنے مطلوبہ نتیجے تک ضرور پہنچے گی اور اپنے اقدار کو ضرور حاصل کرے گی۔
رحمت خدا ہو امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ پر جنہوں نے انقلاب کے بعد اپنی دس سال کی زندگی میں ان مسائل کے بارے میں حقیقت کو عوام کے لئے واضح کردیا۔ امام نے دوست کی شناخت حاصل کی اور دشمن کو بھی پہچانا۔ ملت ایران کو بھی پہچانا اور اہداف کو بھی۔ امام خمینی (رح) نے دشمن کی شناخت حاصل کرلی تھی اسی لئے، مکرر طور پر بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ شیطان پر بھروسہ نہ کرو، دشمن پر بھروسہ نہ کرو، ہمیں دشمن کی جانب سے ہوشیار رہنے کی آگہی دی۔ البتہ ہم اس کی بات ہمیشہ کرتے تھے۔ لیکن اب یہ باتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ سب ہی اسے دیکھ رہے ہیں۔ ان صاحب کی حرکتیں امریکہ کی حقیقت اور اس کے انداز فکر کی عکاسی کر رہی ہیں اور یہ کہ انسانی حقوق اور انسانوں سے محبت جیسے نعروں کے پس پردہ ان کا مطلب کیا ہے۔ یہ وہ نکات ہیں جس تک پہنچنا امام خمینی (رح) کے ارشادات کے ذریعے ممکن ہے۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم آپ سب کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ جو بڑی ذمہ داری آپ نوجوانوں کے حوالے کی گئی ہے، انشاء اللہ اسے مکمل کرنے کے لئے پرعزم رہئے۔ آپ کو انتہائی بڑی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ گذشتہ نسل نے بھی انتہائی اہم سرگرمیاں انجام تک پہنچائیں اور بہت سے دوسرے اہم کام باقی ہیں جنہیں آپ کو پورا کرنا ہوگا۔ انشاء اللہ خدا پر توکل کے ساتھ آمادہ رہئے اور اس امانت کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیجئے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ