بسماللهالرّحمنالرّحیم (۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.
آپ تمام حضرات اور برادران عزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں؛ سب سے پہلے برادران کی خدمت میں جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام کی تعزیت پیش کرتا ہوں کہ آپ سب اسی مکتب کے شاگرد ہیں۔اس سلسلے میں، میں ایک بات عرض کردوں: اس پر توجہ دیں کہ ایام فاطمیہ کی مناسبت سے ان حضرت کے فضائل و مناقب اور مصائب بیان کرتے ہوئے اس قسم کی کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو اختلافات کا سبب ہو۔ اس وقت بین الاقوامی شیاطین، اہل سنت اور شیعوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کی بھیانک سازش رچ رہے ہیں۔ اس وقت علاقے میں جنگیں چھڑٰی ہوئی ہیں؛ لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان میں سے کوئی جنگ بھی اعتقادی نہیں ہے۔ یہ تمام جنگیں سیاسی ہیں اور ان کے مختلف سیاسی اور قومی مقاصد ہیں،ان میں سے کسی کا تعلق بھی مذہب سے نہیں ہے۔ لیکن دشمن یعنی امریکہ،اسرائیل اور برطانیہ اس بات کی کوششیں کر رہے ہیں کہ ان جھگڑوں اور اختلافات کو مذہبی رنگ دے دیا جائے؛ کیوںکہ آپ جانتے ہیں کہ مذہبی اختلافات آسانی اور جلدی سے حل نہیں ہوتے۔ ہمیں ان کے مقصد میں انکی مدد نہیں کرنی چاہئے۔ آج ہمارے ساتھ ایسے سنی بھائی بھی ہیں جو ہمارے ساتھ اہلبیت علیہم السلام کے مقدس مزارات کا دفاع کرتے ہوئے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں، شہید ہورہے ہیں۔ مقدس مزارات کا دفاع کرنے والے شہدا کے کچھ خاندان میرے پاس آئے تھے ان کے درمیان کچھ سنی شہدا کے گھر والے بھی تھے۔ حضرت زینب، حضرت امیر المؤمنین یا حضرت امام حسین علیہم السلام کے مقدس مزارات کا دفاع کرنے لئے اپنے جوانوں کو محاذ پر بھیجنے والے یہ خاندان میرے پاس آتے ہیں اور بجائے اس کے کہ غم و غصہ کا اظہارکریں، شکایت کریں، افسوس کریں، فخر کرتےہیں کہ میرا بچہ اس راہ میں شہید ہوا ہے۔ تو کیا اس کے باوجود ہمیں انکو غم دینا چاہئے؟ ان سب باتوں کے باوجود ان کو اپنے سے دور کرنا چاہئے؟ یہ بہت ہی اہم اور بنیادی مسائل ہیں۔ آج علمائے دین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل جس کام کو کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں، ان کے لئے آسانی فراہم نہ کریں۔ اس مسئلے پر غور کریں۔ سیستان اور بلوچستان میں علمائے اہل سنت نے عوام کو انتخابات میں شرکت کرنے کی ترغیب اور تشویق دلائی تو تکفیری گروہوں نے انہیں دھمکی دینی شروع کردی ہے کہ کیوں تم نے انتخابات میں شرکت کے لئے مدد کی کیوںکہ انہوں نے عوام کو ترغیب دلائی تھی۔ تکفیری گروہ صرف شیعوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ اسلامی نظام کے دشمن ہیں، ہراس شخص کے دشمن ہیں جو اس اسلامی ںظام کی مدد کرتا ہے؛ اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ میں اس بات کی بھی متعدد بار تاکید کرچکا ہوں کہ تاریخی (حقائق) باتوں کو ادب اور مصلحت کے دائرے میں رہتے ہوئے کے تمام پہلووں کو نظر میں رکھتے ہوئے خوش اسلوبی سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اختلافات، دشمنی و نفرت وہ چیزیں ہیں کہ جن پر آج بہت زیادہ توجہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔
آپ کا یہ آج کا اجلاس، مجلس خبرگان کا آخری اور سب سے طولانی اجلاس ہے؛ ان چند سالوں میں، جیسا کہ یزدی صاحب نے بتایا کہ نو سالوں، میں اس مجلس نے متعدد اجلاس منعقد کیئے، کام انجام دیئے،بہت اہم باتیں کیں اور ان کے (مثبت) نتائج بھی سامنے آئے۔ اس دوران کچھ لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے اس دروان، مجلس خبرگان کے ۱۷ اراکین اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ اگرچہ یہ نیا دور جو شروع ہوا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے؛ دنیا ایسی ہی ہے؛ کچھ لوگ آخری صف میں ہیں۔ انسانوں کی عالم بقا کی طرف حرکت ایک دائمی سفر ہے؛ یہ خدائی قدرت اور اس کی تقدیر ہے۔ ہمیں ان مرحومین کے لئے جنہوں نے ان تمام سالوں کے دوران زحمتیں اٹھائی ہیں اور خدمات انجام دی ہیں، دعائے مغفرت کرنی چاہئے۔
میں خاص طور پر مرحوم طبسی صاحب اور مرحوم خزعلی صاحب کو یاد کرتا ہوں کہ میرے وہ دو بھائی ہیں کہ جنہوں نے حقیقی معنی میں مجلس خبرگان کے اس مقام کی حفاظت کی اور واقعی بہت بہترین طریقے سے اس امتحان میں سرخرو ہوئے۔ مرحوم طبسی صاحب کی مشکلات اور مسائل سے بھرے ہوئے دور کی استقامت اور اس کے بعد آستان قدس رضوی(امام رضا ؑ کے روضہ کی متولی کی ذمہ داری) کی خدمات اور مجموعی طور پر انقلابی مسائل میں ان کی خدمات آپ میں سے اکثر افراد کے لئے واضح اور روشن ہیں۔ لیکن ان کی کچھ نمایاں خاصیتیں بھی تھیں جن سے قطع نظر نہیں کیا جاسکتا؛ ہمارے اس برادر عزیز اور مرد بزرگ پر خدا کی رحمت ہو۔ انہوں نے حساس ترین موارد میں بھی اپنے انقلابی ہونے کا اظہار کیا، اس انقلابی حیثیت کو محفوظ رکھا اور ہر موقع پر اس کی تاکید اور وضاحت بھی کرتے رہے۔ ۱۳۸۸ کے فتنے کے وقت طبسی صاحب مرحوم نے تمام مصلحتوں کو پس پشت ڈال دیا، اور دوستی اور رواداری کا خیال کئے بغیر میدان میں اتر گئے، اورمیں ان کے اس موقف کا مشاہدہ مختلف موارد میں کرچکا ہوں۔ وہ ایک مؤمن، شفاف اور فیصلہ کن کردار کے حامل انسان تھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو افراد کی شخصیت کو تاریخ میں محفوظ رکھتی ہیں؛ اورخدا کے نزدیک بھی اس کا اجر ہوتا ہے۔ اس ذمہ داری کے پورے عرصے میں اس مرد مومن کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی؛ وہ اسی گھر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے جہاں وہ انقلاب سے پہلے رہا کرتے تھے، اور میں وہاں متعدد بار جاچکا ہوں؛اسی گھر میں اور زندگی کے انہیں وسائل کے ساتھ رہے۔ جس وقت ہمیں صوفے پر بیٹھنا بھی نہیں آتا تھا اس وقت ان کے گھر میں صوفہ تھا اوراب ۴۰ ۔۴۵ سال گذر جانے کے بعد بھی ان کے یہاں وہی صوفہ ہے۔اور وہ اسی کا استعمال کرتے تھے۔اپنی ذاتی زندگی میں کوئی وسعت پیدا نہیں کی اور امیروں جیسی زندگی کا طرز نہیں اپنایا۔ بہر حال یہ باتیں عوام پر اثر انداز ہوتی ہیں؛اگرچہ ان کے خلاف بہت زیادہ پروپگنڈا کیا گیا لیکن آپ نے دیکھا کہ مشھد کے عوام نے ان کو کس طرح رخصت کیا۔ مشہد میں مرحوم طبسی صاحب کی تشیع جنازہ اور ان پر نماز کے وقت ایسا مجمع تھا جیسا بڑے بڑے مظاہروں میں ہم دیکھتے ہیں۔اتنے عظیم اور بڑے صحن میں صرف مشہد کی عوام تھی، زائرین نہیں تھے کیوں کہ وہ وقت زائرین کے آنے کا نہیں تھا کہ ہم کہہ سکیں کہ اتنی کثیر تعداد زائرین کی تھی، نہیں بلکہ وہ مشھد کے عوام تھے جو ان کی قدردانی کے لئے آئے تھے۔ اس فقید عزیز پر خدا کی رحمت ہو۔
مرحوم خزعلی صاحب بھی ایک دوسرے قسم کے بہت ہی سخت امتحان سے گذرے تھے؛وہ اپنی بات پر قائم رہے اور انقلاب پر ثابت قدم رہے۔ جہاں تک ان کے قرابت داروں اور ان سے منسوب لوگوں کی بات تھی وہ پوری صراحت اور شجاعت کے ساتھ اپنی بات پر قائم رہے۔ بہرحال مجھ سے بار بار کچھ باتیں کہی گئیں جو میرے سینے اور تحریروں میں محفوظ ہیں،علی الاعلان بھی کچھ باتیں کہیں گئیں جو آپ سب نے سنی ہیں، لیکن یہ مرد بزرگ مقابلہ کرتا رہا۔ یہی ایسے امور ہیں جو انسان کو اہمیت عطا کرتے ہیں، انسانوں کی انقلابی تحریک کو با معنی بناتے ہیں۔ ان پر خدا کی رحمت ہو۔امید کرتا ہوں کہ خدائے متعال اپنے رضوان اور رحمت کے ساتھ ان کا استقبال کرے؛ کَاَنّی بِنَفسی واقِفَةٌ بَینَ یَدیک فَقَد اَظَلَّها حُسنُ تَوَکُّلی عَلَیکَ فَقُلتَ ما اَنتَ اَهلُهُ وَ تَغَمَّدتَنی بِعَفوِک. امید کرتا ہوں کہ پروردگار مناجات شعبانیہ کہ ان جملوں کو ان مرحومین کے شامل حال کرے۔(۲)
اس سال کے انتخابات بہت ہی معنا دار اور اہمیت کے حامل تھے۔ انتخابات کے خلاف ان تمام کوششوں، سرگرمیوں، اس کی حقیقت پر انگلی اٹھانے اور اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوششوں کے باوجود ۳۴ میلین عوام نے ان دو انتخابات میں شرکت کی۔ یعنی در حقیقت عوام کی طرف سے تقریبا ستر ملین ووٹ صندوقوں میں ڈالے گئے، یہ بہت بڑی بات ہے اس کی بہت اہمیت ہے؛ عوام نے اپنی حقیقت کی چمک دکھائی ہے۔۶۲ فیصد رائے دھندگان نے ووٹ دیئے۔ اگر اکثر ممالک سے، نہیں بعض ممالک سے بلکہ اکثر سے موازنہ کیا جائے تو یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ خود امریکہ میں اب تک کے مختلف انتخابات میں چاہے وہ صدارتی انتخابات ہوں یا پارلیمنٹ کے انتخابات کبھی چالیس فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے۔ ہمارے ملک میں عوام کی اتنی بڑی تعداد کی شرکت بہت ہی اہم بات ہے۔ عوام نے نظام اسلامی پر اپنے حقیقی اعتماد کو ثابت کردیا ہے ۔یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے۔
خوب، البتہ انتخابات میں بعض لوگ جیت جاتے ہیں اور بعض لوگوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے مختلف اسباب ہیں۔ میں ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو نو سالوں کے دورانیہ میں یہاں رہے اور اپنی خدمات انجام دیں اوراب نئے دور میں موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ بعض بزرگان ایسے ہیں کہ انتخابات میں جیتنے یا نہ جیتنے سے ان کی شخصیت متاثر نہیں ہوتی ہے۔ کچھ ہستیاں وہ ہیں جن کی موجودگی سے مجلس خبرگان فیضیاب ہوتی ہے نہ کہ وہ مجلس خبرگان سے بہرہ ورہوتے ہیں۔ یزدی صاحب یا مصباح صاحب ایسی ہی شخصیات ہیں جن کے وجود سے مجلس خبرگان کی اہمیت اور بڑھ جاتی۔ لیکن مجلس کا رکن نہ ہونے سے ان کی شخصیت کو نقصان نہیں ہوا ہے۔ ہاں ان کا مجلس میں نہ ہونا مجلس خبرگان کے لئے نقصان دہ ہے۔ افراد کی شخصیت کا اصلی سرمایہ ان کا معنوی پہلو اور ان میں روحانیت کا پایا جانا ہے۔ میں خداوند عالم سے اس مجلس اور ان تمام لوگوں کی توفیقات اور کامیابی کے لئے دعا کرتا ہو جو پہلے مجلس میں نہیں تھے اور اب س کے رکن ہیں اوردعا گو ہوں کہ پوری مجلس خبرگان کو خدا کامیاب فرمائے۔
ہمارے ملک میں انتخابات من جملہ ان انتخابات کی چند خصوصیات ہیں ان میں سے جو میری نظر میں اہم ہیں،بیان کررہا ہوں۔ ایک یہ ہے کہ ہمارے ان انتخابات اور دیگر انتخابات میں عوام آزاد ہے۔ جب کہ بعض ممالک میں انتخابات میں شرکت کرنے کے لئے عوام کو زبردستی مجبور کیا جاتا ہے؛ یہاں تک کہ مغرب کے یورپی اور غیر یورپی ممالک میں بھی مجبور کیا جاتا ہے؛ یعنی عوام کو انتخابات میں شرکت نہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے؛ جب کہ ہمارے ملک میں انتخابات میں شرکت نہ کرنے پر کوئی سزا نہیں ہے؛ لوگ آزادی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں، جذبے اور شوق کے ساتھ آتے ہیں، انہیں اس کی فکر ہوتی ہے اور وہ اسی سوچ کے ساتھ آتے ہیں۔ یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے۔
اکثر انتخابات بالخصوص ان انتخابات میں جو چیز واضح طور پر نظر آئی وہ انتخابات میں شدید رقابت ہے، اپنی نشانیوں، ناموں، نعروں، پارٹیوں کے ساتھ مختلف افراد سامنے آئے انہوں نے شرکت کی اور اپنا موقف سامنے رکھا؛ قومی نشریاتی ادارے کی نشریات میں مجلس خبرگان کے امیدواروں کو جگہ دی گئی۔’’مجلس شورائے اسلامی‘‘کے امیدواراں نے مختلف شہروں میں اپنی کمپین چلائی، اورجو کرسکتے تھے انہوں نے انجام دیا۔ چنانچہ یہ انتخابات مکمل طور پر رقابت سے پر تھا اور آج یہ سب اسی مکمل رقابت کا نتیجہ ہے۔
ایک اور اہم و قابل توجہ خصوصیت جس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے، انتخابی ماحول کا پرامن و پر سکون ہونا ہے؛ یہاں تک کہ وہ مقامات جہاں پر اختلافات بھڑک سکتے تھے وہاں بھی امن تھا؛ مثلا قومی اختلافات، یا دوشہروں کے درمیان اختلاف یا رقابت؛اس قسم کے اختلافات پورے ملک میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ملک کے کسی کونے میں کوئی بھی تلخ حادثہ رونما نہیں ہوا۔ ایسا حادثہ جو انتخاباتی فضا کو تلخ کردے یا خدا نخواستہ عوام کی جان کو نقصان پہنچائے،رونما نہیں ہوا۔ اس وقت آپ اپنے ملک کے اطراف کا مشاہدہ کریں، ملک کے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں واقع تمام ممالک ناامنی اور افرا تفری کا شکار ہیں۔ یہ ممالک نہ صرف پرسکونانتخابات منعقد کروانے پر قادر نہیں ہیں بلکہ وہاں کی عوام کو بھی امن و امان میسر نہیں ہے۔اگر کوئی شخص گھر سے باہر نکلتا ہے تو نہیں معلوم واپس آئے گا بھی یا نہیں؛ ہمارے پڑوسی ممالک میں ناامنی کی تقریبا یہی صورت حال ہے۔ الحمد للہ ہمارے ملک میں اس شان و شوکت کے ساتھ وسیع پیمانہ پر انتخابات ہوتے ہیں؛ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ تہران میں صبح آٹھ بجے سے رات دوبجے تک لوگ آتے رہے اور ووٹ ڈالتے رہے۔ بہت اطمئنان،آرام اور سکون کے ساتھ ۔ یہ بہت اہم چیز ہے،یہ چیز ایک ملک کے لئے خدا کی بہت بڑی نعمت ہے؛ہمیں اس کی قدر کرنی چاہئے۔ جولوگ اس امن و سکون کو برقرار کرنے کا انتطام کرتے ہیں،وزیر مملکت سے لیکر فوج، سپاہ، بسیج یا وہ تمام افراد جن کا اس میں کردار ہے، ہمیں واقعی ان سب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
دوسرے انتخابات کی طرح ان انتخابات کی ایک خصوصیت امانتداری ہے؛یعنی یہ انتخابات صحیح و سالم طور پر منعقد ہوئے؛اور یہ امر دشمنوں کی سازشوں کے برخلاف ثابت ہوا جس کی وہ سالوں سے کوششیں اور پروپیگنڈا کررہے ہیں؛انتخابات کے دنوں میں یہ پروپیگنڈا شدید ہوجاتا ہے کہ ’’جناب،خیانت کرتے ہیں،فلاں شخص کا نام فلاں شخص کی جگہ رکھ دیتے ہیں، فلاں کے ووٹ کو فلاں کے ووٹ میں جوڑ دیتے ہیں‘‘یہ باتیں تو آپ نے سن رکھی ہیں۔ کچھ لوگ باہر سے اس قسم کی بات کرتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ اسی بات کو مسلسل ملک کے اندر پھیلاتے ہیں۔ اور ملک کے اندر اسی بات کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود انتخابات صحیح و سالم رہے اور ہمیشہ سے صحیح وسالم رہے ہیں۔ یہ امر ان لوگوں کی باتوں کے غیر معتبر،بے اہمیت اور بے وقعت ہونے کی دلیل ہے جنہوں نے ۱۳۸۸ کے انتخابات کو غیر معتبر شمار کیا تھا اور ملک میں اس شدید نقصانات اور فتنہ انگیزی کا سبب قرار پائے تھے؛تاکہ ملک پر یہ الزام لگاسکیں کہ یہاں پر انتخابات صحیح طور پر منعقد نہیں ہوئے ہیں۔ انتخابات آج بھی صحیح اورسالم تھا،پہلے بھی تھا اور ۱۳۸۸ میں بھی صحیح اور سالم منعقد ہوا تھا۔ہر انتخابات میں سلامتی اور امانتداری تھی۔ کبھی بھی خیانت نہیں ہوئی،ہاں ممکن ہے ملک کے کسی گوشہ و کنار میں کسی صندوق میں غفلت کی وجہ سے دس بیس ووٹ ادھر ادھر ہوجائیں۔لیکن کسی پلاننگ کے تحت یہ کام کیاجائے جس سے انتخابات کے نتائج متاثر ہوجائیں تو اس قسم کی خیانت ہمارے ملک میں نہیں ہوتی۔ مجھے امید ہے کہ انشا اللہ اس کے بعد بھی نہیں ہوگی۔
ایک اور نکتہ جو ان انتخابات میں بہت ہی واضح طور پر سامنے آیا ہے وہ ان لوگوں کا بہت ہی شرافت مندانہ رویہ اور کردار ہے جو انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اگر وہ لوگ اعتراض، جھگڑے، گلہ شکوہ کرنے لگتے تو ملک کی یہ پرامن اور پر سکون حالت نہ ہوتی، اور فطری سی بات اس وقت ملک میں افرا تفری کا ماحول ہوتا۔ خود جناب یزدی صاحب نے اسی اجلاس کی ابتدا میں یہ بات کہی، پہلے بھی کہی تھی انہوں نے خوشحالی اور رضایت کا اظہار بھی کیا؛ جو لوگ کامیاب ہوئے ان کو مبارک دی، یہ بہت ہی اہمیت اور عظمت کی بات ہے؛ اس عظمت کی قدر جانئے؛انہوں نے۱۳۸۸کے انتخابات میں غیر شرافتمندانہ عمل انجام دینے والے افراد کے برخلاف عمل انجام دیا۔ چوںکہ ہار گئے لہذا جھگڑا شروع کردیا، عوام کو سڑکوں پر لے آئے، توڑ پھوڑ شروع کردی، ملک کو نقصان پہنچایا، دشمن کو جری کردیا، دشمن کی لالچ کو اور بڑھا دیا؛ اس قسم کے کاموں کو انجام دیا۔ خدا نے اس فتنہ کو ختم کیا ورنہ یہ فتنہ بہت بڑا تھا ۔بہر حال یہ ایک اور خصوصیت تھی۔
وہ لوگ جنہوں نے انتخابات کو امن و امان کے ساتھ منعقد کروانے میں سرگرم کردار ادا کیا ان میں سے ایک انٹلیجنس کا عملہ تھا میں نے ان کا نام نہیں لیا تھا اس لئے معذرت چاہتا ہوں۔ یعنی امن و سکون کی فراہمی میں واقعی انکا کردار بہت اہم تھا کہ بعض ایسے حادثات جن کے رونما ہونے کا امکان تھا انہوں نے ان کا سدباب کیا۔
اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان انتخابات میں عوام نے اسلامی نظام پر اپنے اعتماد اور اس کی اطاعت کو ثابت کردیا اور یہ بھی ثابت کردیا کہ وہ اسلامی نظام کے تابع ہیں اور اسلامی جمہوریہ کو قبول کرتے ہیں اور اس کے قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ یہ بات بہت اہم ہے؛ یہ امر دشمنوں کی آرزؤوں کے بالکل برخلاف ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ دوگروہ بنادیئے جائیں کہ حکومت اور نظام ایک طرف اور عوام دوسری طرف ہوجائے؛ لیکن عوام نے بجائے اس کے کہ زبان سے کچھ کہتی، میدان میں آکر یہ ثابت کردیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے ۲۲ بھمن کے مظاہرے میں بھی عوام نے جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کرکے اس بات کی نشاندہی کردی تھی۔ واقعی ہماری عوام ایسی ہی ہے۔ چنانچہ انتخابات کو غیر معتبر بنانے کی دشمن کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں اور یہ انتخابات بھی بھرپور اعتماد اور اعتبار کے ساتھ منعقد ہوئے۔
میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ نا دانستہ اور ناخواستہ طور پر دشمن کی اتباع کرتے ہوئے شورائے نگہبان پر اعراض کرتے ہیں؛مجھے واقعی ان لوگوں سے شکایت ہے۔ شورائے نگہبان نے اپنی ذمہ داری بہت سنجیدگی، زحمات اور بھرپور کوششوں کے ساتھ انجام دی ہیں۔ اگر آپ شورائے نگہبان کی جگہ پر ہوتے تو آپ بھی یہی کام کرتے۔ جیسا کہ شاہرودی صاحب نے ابھی رپورٹ میں اشارہ کیا کہ شورائے نگہبان کو بیس دنوں کے اندر بارہ ہزار فائیلیں دیکھنی ہوتی ہیں، یہ قانون کی مشکل ہے اگر قانون کی یہ مشکل برطرف ہوجائے تو اس کے نتیجے میں آںے والی وہ مشکل بھی ختم ہوجائے گی۔ ہم اس قانونی مشکل کو شورائے نگہبان کے سر پر کیوں ڈال رہے ہیں؟ بعض افراد اہل ہونے اور اہل نہ ہونے پر انگلی اٹھاتے ہیں؛ مجھے ایسے افراد پر تعجب ہوتا ہے۔ آُپ اہل علم و فضل ہیں آپ بتائیے؛ کیا بغیر اہلیت کے کسی شخص کو کوئی ذمہ داری دی جاسکتی ہے، کیا بغیر شرائط کے کسی شخص کی تصدیق کی جاسکتی ہے؟ خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ آپ بھی اگر شورائے نگہبان کی جگہ پر ہونگے تو آپ بھی ایسا نہیں کرسکتے۔اگر شورائے نگھبان کے لئے شرائط آشکار نہیں ہوئے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اس امیدوار میں مطلوبہ شرائط نہیں ہیں اور جب اس میں مطلوبہ شرائط نہیں مل پائیں تو اس شخص کا نام رد کردیا گیا۔ شورائے نگہبان پر آپ یہ اعتراض نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر چاہتے ہیں کہ شورائے نگہبان کو شرائط کو تولنے کا اور وقت ملے تو قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے، قانون میں اصلاح کیجئے، میں یہ بات متعدد بار کہہ چکا ہوں، افراد اس بات پر غور کررہے ہیں، انشااللہ اسے انجام دے سکیں گے؛ اگرچہ میں نے مجموعی سیاست کا خاکہ تیار کرکے تشخیص نظام کونسل کو بھیج دیا ہے؛ انہوں نے بھی اس کا تجزیہ کیا ہے؛ اب اگر ان کی طرف سے ایک مناسب اقدام عمل میں آتا ہے تو اچھی بات ہے، لیکن اس وقت جو قانون ہے اس کے لحاظ سے صورت حال یہی ہے؛اس کے علاوہ شورائے نگہبان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ اس شخص کی تائید کر ہی نہیں سکتی جس میں شرائط موجود نہ ہوں،اس کے لئے شرائط کا آشکار ہونا لازمی ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ قانون میں یہ چار(۴) ماخذ ذکر کئے گئے ہیں؛ اچھی بات ہے، اسی بات میں بحث ہے، فرض کیجئے کہ اطلاعات کے لئے یہ چار ماخذ ذکر کئے گئے ہیں اور آپ ذمہ دار ہیں اور(ان ماخذ کے علاوہ) آپ کو کسی طرح سے علم ہوجائے کہ فلاں شخص اہل نہیں ہے تو کیا آپ اس کی تائید کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں کرسکتے، خدا کے سامنے آپ جواب نہیں دے پائیں گے۔ تو پھر شورای نگھبان پر اتنے حملے کیوں ہورہے ہیں۔
اگرچہ بعض افراد جب شرائط کے فقدان کی بنا پر رد کردیئے جاتے ہیں تو ناراض ہوجاتے ہیں یہ بات قابل فہم ہے اور قابل قبول بھی ،مجھ سے بھی اگر کوئی کہے کہ آپ کو ’’رد کیا جاتا ہے‘‘ تو میں ناراضگی کا اظہار کروں گا؛ لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وبال کھڑا کردوں؟ اگرانسان راضی نہیں ہے تو اگر قانونی راستہ موجود ہے تو اس راستے سے آئے۔ مجھے ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ رد ہونے کے بعد شورائے نگہبان کے خلاف، اخبارات میں اور ادھر ادھر یہ لکھتے اور کہتے پھرتے ہیں کہ کیوں ہمیں رد کردیا، مجھ میں اہلیت تھی وغیرہ۔ ٹھیک ہے آپ اہل ہیں اور شورائے نگہبان سے اگر غلطی ہوگئی ہے تو آپ آئیں اور شکایت کریں۔ وہ بھی قانون کے مطابق عمل انجام دیں گے،جو ان کی ذمہ داری ہے اس کے مطابق عمل انجام دیں،اگر پھر بھی نہ ہوا، تو بھی آپ شورائے نگہبان پر اعتراض نہیں کرسکتے۔ اس بات پر غور کیجئےکہ شورائے نگہبان ان مراکز میں سے ایک ہے جس کی تخریب کےلئے استعمار ابتدائے انقلاب سے کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ یہ ان اہم مراکز میں سے ایک ہے جس کو خراب کر نے کے لئے صیہونی حکومت، امریکہ اور استعمار انقلاب کی ابتدا سے کوشاں ہیں۔ ہمیں رد ہوجانے کی وجہ سے شورائے نگہبان کی تخریب نہیں کرنی چاہئے اس طرح دشمنوں کی مدد ہوگی۔ ہاں،اگر کوئی مشکل درپیش ہے، شکایت ہوسکتی ہے۔ تو اسے کہئے، شکایت کیجئے نہ یہ کہ شورائے نگہبان پر الزام لگانا شروع کردیں۔ اس بنیادی قانونی مرکز کی تخریب نہیں کرنی چاہئے۔ شورائے نگھبان پر کیچڑ اچھالنا ایک غیراسلامی،غیرشرعی اور غیر انقلابی عمل ہے۔
بہرحال عوام نے اپنے کو ثابت کردیا ان سے جو توقع تھی اس پر کھرے اترے، اب ہماری باری ہے؛ مجلس خبرگان کی باری ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کریں اور مجلس شورائے اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ اپنے کاموں کو درست انجام دیں اور محترم حکومت کی ذمہ داری ہےکہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیں۔ یہ سب ہماری ذمہ داری ہے عوام میدان میں آئی اور اپنے نمائیندوں کو منتخب کرلیا۔ میری نظر میں سب سے زیادہ اپنے مقام اور فرائض پر مجلس خبرگان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میں اگر ایک جملہ میں عرض کرنا چاہوں تو یوں کہوں گا کہ مجلس خبرگان کو انقلابی ہونا چاہئے؛اسے انقلابی ہوکر سوچنا چاہیے اور انقلابی ہوکر عمل کرنا چاہئے۔ یہ خلاصہ کلام ہے۔اس بات کی وضاحت میں بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مستقبل کے رہبر کے انتخاب کے لئے خدا کی طرف توجہ کریں،ممکن ہے کہ اس نئے مرحلہ میں مجلس خبرگان کو اس آزمایش سے گذرنا پڑے،اس کا امکان ہے۔ جس وقت رہبر کا انتخاب کرنا ہے اسوقت اختلافات اور مصلحتوں کو دور رکھ کر اور خدا کو نگاہ میں رکھیں، فرایض کو مدنظر رکھیں،ملک کی ضرورتوں پر غور کریں، اس بنیاد پر رہبر کا انتخاب کریں؛ سب سے اہم ذمہ داری میری نگاہ میں یہی ہے؛ اس کا بات خیال رکھیں۔ اگر اس عظیم ذمہ داری کو انجام دینے میں کوتاہی سے کام لیا تو بنیادی مشکل پیدا ہوجائے گی؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے اس پر ضرور توجہ کریں۔
اس کے علاوہ بھی خبرگان کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں؛جیسا کہ ابھی دوستوں نے اشارہ کیا کہ مجلس خبرگان متعدد صوبوں کے علما اور بزرگوں سے ملکر تشکیل پائی ہے تو ان افراد کو چاہئے کہ اپنے علاقے کی عوام کی باتوں کو سنیں اور اسے یہاں بیان کریں؛ مجلس خبرگان کو عوام اور حکومتی اور عدالتی ذمہ داران کے درمیان ایک واسطہ ہونا چاہئے۔ یا خبرگان میں اپنے مقام کے پیش نظر حقائق اور اہم مطالب کو عوام کے سامنے واضح کریں۔ نماز جمعہ یا دیگر جگہوں پر۔ یزدی صاحب نے اپنے بیان کے آخر میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا تھا، یہ بات واضح ہے؛ ہماری اصلی ذمہ داری وضاحت کرنا ہے؛ ہمیں وضاحت کرنی چاہئے۔ ممکن ہے یہ وضاحت مختلف پیرائے میں انجام پائے؛ وہ صورت جہاں فتنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو ایسی صورت میں بیان نہ کیا جائے بلکہ وہ صورت جس کے ذریعہ عوام آگاہ ہوجائے اور ذمہ داران کے سامنے مشکلات کے لئے کوئی راہ حل مل رہا ہو وہ صورت بہت مناسب ہے اور اسمیں کوئی مشکل بھی نہیں ہے۔ آپ اپنے قانونی مقام کو محفوظ کیجئے۔ اپنے موقف کو بیان کرنا اچھی بات ہے لیکن میں نے عرض کیا کہ موقف کی وضاحت دو طرح سے کی جاسکتی ہے۔ اس طرح نہ ہو کہ فساد پیدا کرے بلکہ حقائق کا بیان اس طرح ہو کہ عوام اور ذمہ دران کو آگاہ کرسکے اورذمہ داران شکریہ ادا کریں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شخص تنقید ایسے انداز میں کرتا ہے کہ ذمہ داران آکر شکریہ ادا کرتے ہیں؛ اکثر میرے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ذمہ داران میرے پاس آئے ہیں اور کہا کہ جناب آپ کی اس بات کے ذریعے ہمارا کام آسان ہوگیا اب ہم اپنا کام آسانی سے انجام دے سکتے ہیں؛ممکن ہے کہ آکر آپ کا شکریہ ادا کریں۔ یہ ایک بات۔ لہذا مجلس خبرگان کی خدمت میں میری عرض یہ ہے کہ ذاتی مفاد اور مصلحتوں سے قطع نظر کیا جائے؛ آپسی جھگڑوں کو نظرانداز کیا جائے؛ حقائق کی تلخیاں اور فرائض جن کی وجہ سے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا ہے،ان پر نگاہ ہونی چاہئے۔ خدا ہم سے کیا سوال کریگا یہ بات ہماری نگاہ میں ہونی چاہئے۔
مجلس شورائے اسلامی کے سلسلے میں بھی میں نے یہی باتیں عرض کی ہیں۔ میں نے گذشتہ چند سالوں میں پارلیمنٹ کے مختلف ادوار اور حکومتوں کے دوران ہمیشہ پارلیمنٹ کوحکومت کی مدد اور تعاون کی ترغیب دی ہے۔؛اور اب بھی میرا نظریہ یہی ہے کہ پارلیمنٹ کو حکومت سے تعاون کرنا چاہئے تاکہ اجرا اورنفاذ کی راہیں آسان ہوسکیں۔ کیونکہ نفاذ کا کام آسان نہیں ہے یہ بہت سخت کام ہے۔ اگرچہ قانون سازی بھی اہم کام ہے لیکن اس کا نفاذ یعنی سنگلاخ وادیوں سے رکاوٹوں کو دور کرکے راہ ہموار کرنا ہے؛ یہ آسان کام نہیں ہے ۔سب کو حکومت سے تعاون کرنا چاہئے۔ خلاصہ کلام یہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مجلس اپنی قانونی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرنے لگے۔ قانونی ذمہ دارایوں کی مکمل رعایت کی جانی چاہئے۔ وہ چیزیں جو قانون میں واضح ہیں۔ وہ چیزیں جو قانون کے لحاظ سے پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہیں، بنیادی قانون ہوں یا عام قانون،سب واضح اور مشخص ہے؛اس کی مکمل رعایت ہونی چاہئے، اس سے چشم پوشی نہ کی جائے،بہر حال مقصد یہ ہے کہ پارلیمنٹ حکومت کی مدد کرے،اوران میں آپس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔
حکومت کے لئے بھی ایک یاددہانی ہے۔ خوش قسمتی سے محترم صدر مملکت بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں؛اگرچہ میں خصوصی جلسات اور ملاقاتوں میں حکومت سے متعلق میری نظر میں جو ضروری باتیں ہوتی ہیں ان سے کہتا رہتا ہوں ،یہاں بھی اچھا موقع ہے۔ حکومت کی نگاہ ملک کی ابتدائی ضرورتوں اور ترجیحات پر ہونی چاہئے؛ ہماری کچھ ترجیحات ہیں۔ اگرچہ ملک کی ضرورتیں بہت زیادہ ہیں، شاید ان کو شمار بھی نہ کیا جاسکے۔ لیکن عقلی قانون کے مطابق ان ضرورتوں کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے جنہیں فورا انجام دینا ضروری ہے اور جو بنیادی کام ہیں۔ میری نگاہ میں تین مسائل ایسے ہیں جو بنیادی ہیں اور انہیں دیگر مسائل سے پہلے حل کرنا چاہئے؛ پہلا مسئلہ استقامتی معیشت کا ہے۔ ملک استقامتی معیشت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کے بغیر ملک کی اقتصادی مشکلات برطرف ہوسکتی ہیں۔ اگر ہم استقامتی معیشت پر عمل نہیں کریں گے تو مشکلات اور گرفتاریاں روزبروز بڑھتی ہی جائیں گی۔ میں نے حکومتی عہدیداروں سے درخواست کی ہے کہ استقامتی معیشت کے لئے ایک مرکز بنائیں؛اس کی کمان ایک شخص کو سونپیں۔ یہ جنگ ہے، اقتصادی جنگ؛ اگرچہ اس میں توپ، ٹینک اور بندوقیں تو نہیں ہیں لیکن اس میں ان سے بھی زیادہ خطرناک چیزیں موجود ہیں۔ یہ ایک جنگ ہے اس کے لئے ہیڈکوارٹر کی ضرورت ہے۔ میں نے یہ تجویز پیش کی تھی اسے قبول بھی کرلیا گیا اور اس میدان میں کام بھی شروع ہوگیا ہے؛لیکن اس کام کے نتائج سامنے آنے چاہئیں۔ نظر آنا چاہئے کہ کام ہورہا ہے۔ اگر کوئی حکومتی سرگرم ہوتی ہے مثلا کوئی معاملہ کسی جگہ پر ہوتا ہے تو یہ معین ہونا چاہئے کہ استقامتی معیشت کے کس درجہ میں قرار پارہا ہے۔ میں اس بات کی یاددہانی حکومت کے محترم ذمہ داران کو کرا چکا ہوں کہ مثلا آپ کو فلاں مقام پر فلاں چیز خریدنی ہے یا فلاں معاملہ کرنا ہے تو یہ بتائیں کہ استقامتی معیشت کے پروگرام میں اسے کس مقام پر رکھا گیا۔ یہ معین ہونا چاہئے۔ یعنی ہمارے تمام اقتصادی کاموں اور سرگرمیوں کا معیار استقامتی معیشت ہونی چاہئے۔ استقامتی معیشت کے سلسلے میں صرف میں نے ہی نہیں کہا بلکہ یہ ایک اجتماعی پروگرام اور اجتماعی عقل کے تحت تیار کیا گیا ہے اور اس کے بعد موافقین اور مخالفین سب نے اس کی تائید کی اور کہا کہ ملک کی نجات کا تنہا راستہ استقامتی معیشت ہے۔ تین ترجیحوں میں سے پہلی ترجیح یہ ہے۔
دوسری ترجیح علمی ترقی ہے۔علمی پیشرفت رکنی نہیں چاہئے۔ملک اگر علم میں آگے بڑھے گا اوراس میں ترقی کرے گا تو حاوی ہوجائےگا اور ’’العلم سلطان‘‘(۵)اپنے واقعی معنوں میں محقق ہوجائےگا۔ اگر ہم عزت وقدرت چاہتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ تمام ممالک ہماری طرف رجوع کریں نہ یہ کہ ہم دوسروں کی طرف رجوع کریں تو ہمیں علمی ترقی کرنی ہوگی؛اور یہ امر ممکن ہے اور ہوسکتا ہے۔ میں نے تقریبا چودہ، پندرہ سال پہلے موجودہ علم کی حدود سے آگے بڑھنے اور علمی کارنامے انجام دینے کے مسئلے کو بیان کیا تھا؛ اس وقت کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا، ٹیلی ویژن پر آکر کہا تھا کہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن آج آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ یہ ہوگیا ؛سب اعتراف کررہے ہیں کہ ہوگیا۔ ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار دنیا کی علمی ترقی کی درمیانی رفتار سے کہیں زیادہ رہی ہے؛چونکہ ہم بہت پیچھے ہیں لہذا اس رفتار کو سالوں جاری رہنا چاہئے تاکہ ہم سب سے پیشرفت کر سکیں اور آگے نکل سکیں۔ اگرچہ ہماری رفتار تیز تھی لیکن اس وقت دھیمی پڑ گئی ہے۔ اس دھیمی رفتار پر بھی میں نے خبردار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض بھی کیا تھا۔ آج یا کل کی خبر میں میں نے دیکھا تھا کہ اس میں وزارت علوم نے کہا تھا کہ ہماری علمی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے؛ٖغور کریں کہ میں نے یہ بات تقریبا چھ سات ماہ پہلے کہی تھی،کچھ لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور اعتراض کرنے لگے لیکن آج خود وزارت علوم نے یہ بات کہہ دی کہ علمی ترقی کی رفتار کم ہوگئی ہے؛ علمی ترقی کے سلسلے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے علمی ترقی پر توجہ دی تو اس وقت علم اقتصاد کی لگام ہمارے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس میں سرمایہ تو کم لگتا ہے لیکن اس کے نتائج اور فوائد بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
تیسری ترجیح ثقافت کی حفاظت ہے۔ میں ثقافت کو محفوظ کرنے کے سلسلے میں تھوڑٰی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ بعد میں تفصیل سے بیان کروں گا؛ گفتگو تھوڑی طولانی ہوجائے گی ذرا تحمل کرلیجئے گا۔ پہلے اس مقصد کو قبول کریں پھر اس پر یقین کریں اور یقین کرنے کے بعد اس کے لئے پروگرام تیار کریں۔ یہ کام یک بارگی نہیں ہوگا؛ یا چند تقریریں کرنے اور کتاب لکھنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا؛ بلکہ ثقافت کی حفاظت کے لئے کام اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اگر یہ کام انجام پاگیا تو اس کا نتیجہ ملکی ترقی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اگر پہلے مرحلے میں ملک ان تین مسائل کو ترجیح دے اور اس پرغورو فکر کرے تو ترقی سے ہم کنا ر ہوجائےگا۔ اگرچہ اس کے بعد اور بھی بہت سے مسائل ہیں جنہیں انجام دینا ہے۔ ترقی سے میری مراد ظاہری ترقی نہیں بلکہ حقیقی ترقی ہے۔ ظاہری ترقی یعنی اقتصاد کو ظاہری رونق دے دیں، کچھ چیزی ہم باہر سے خرید لیں اور انکو چمکا کر پیش کردیں، یہ ظاہری ترقی ہے اس کا کوئی فایدہ نہیں ہے۔ ہنگامی صورت میں ممکن ہے یہ کام عوام کو خوش کردے لیکن اس کے نتیجے میں ملک کو نقصان پہنچےگا۔ ترقی حقیقی ہونی چاہئے ،گہری ہونی چاہئے اس کی بنیاد مضبوط اور ملک کے اندر ہونی چاہئے؛ تو وہ ترقی کہلائے گی؛حقیقی ترقی یہ ہے۔ میں نے سپاہ کے محترم کمانڈر کا بیان ٹیلیویژن پر سنا، وہ میزائیلوں کے سلسلے میں کہ رہے تھے کہ اگر ہمارے ملک کو چاروں طرف سے اس طرح گھیر لیں کہ نہ کچھ اندر آسکے نہ کچھ باہر جاسکے تو بھی ہم ایسے میزائیل بنالیں گے؛ اس کو ترقی کہتے ہیں۔ آپ اس طرح آگے بڑھئے کہ چاہے جتنی پابندیاں لگتی رہیں، دباؤ بڑھتے رہیں، آپ کی ترقی رکنی نہیں چاہئے۔ دشمن کو ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑجائے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہماری قومی عزت اور حقیقت محفوظ ہوجائے گی۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم دنیا کے اقتصادی اور ثقافتی طلسم میں گم نہ ہوجائیں، تب کہیں جاکرمسائل کا حل نکلے گا۔
میں نے انتخابات سے پہلے اثر و رسوخ کے مسئلے کو بیان کیا تھا؛ حضرات یہ اثر و رسوخ بہت اہم مسئلہ ہے۔ میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا ہوں کہ (دشمن کے)رسوخ کا خدشہ ہے، نہیں بلکہ ہم بہت سی چیزوں سے باخبر ہیں؛ ہمیں بہت سے ایسے حوادث کی بھی خبر ہے جو ملک میں رونما ہوتے ہیں اور عوام بلکہ بہت سے خواص کو بھی اس کی خبر نہیں ہوتی۔ میں اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ ملک میں اثر ورسوخ پیدا کرنے کے لئے استعمار نے ایک سنجیدہ پروگرام تیار کیا ہے۔امریکہ کا سنجیدہ پروگرام ہے؛وہ اثر و رسوخ پیدا کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔ہم غلطی نہ کریں۔ وہ اس لئے اثر و رسوخ نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت کا تختہ پلٹ کردیں۔ ایسا نہیں ہے انہیں معلوم ہے ایران میں جمہوری اسلامی ایسی بنیادوں پر استوار ہے جہاں تختہ پلٹ کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ان کے اثر و رسوخ کی کوشش اس لئے نہیں ہے کہ مثلا فوج میں اثر و رسوخ پیدا کرکے تختہ پلٹ دیں اور کسی اور کو اس کی جگہ لے آئیں۔ نہیں انکا مقصد تختہ پلٹنا نہیں ہے بلکہ اس اثر و رسوخ کے دو مقاصد ہیں: اس اثر و رسوخ کا ایک نشانہ ذمہ داران ہیں اور دوسرا نشانہ عوام ہیں۔ ذمہ داران کیوں نشانہ پر ہیں؟اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد یہ ہےکہ ذمہ داران معیار تبدیل کردیں۔ یعنی سلامی جمہوریہ کے ذمہ داران اپنے نفع و نقصان کے تحت کاموں کو انجام دیں۔ اس وقت ذمہ داران کی سوچ اور ارادہ دشمن کی مٹھی میں ہونگے ۔کس سے تعلق رکھنا ہے کس سے نہیں رکھنا، یہ دشمن کے ہاتھ میں ہوگا؛یہ نتیجہ ہوگا ۔اس وقت یہ ضروری نہ ہوگا کہ دشمن براہ راست آکر مداخلت کرے؛کیونکہ اس وقت ملک کے ذمہ داران وہی فیصلہ کریں گے جو دشمن چاہتا ہے،اگر ہمارے معیارات اور کسوٹیاں تبدیل ہوگئیں تو ہم وہی کام جو دشمن چاہتا ہے مفت میں انجام دیں گے،اور کبھی کبھی ہم یہ کام نادانستہ طور پر انجام دیتے ہیں۔ تو ان کی کوشش ہےکہ ذمہ داران کے معیار تبدیل ہوجائیں۔ پس پہلا نشانہ ذمہ داران ہیں۔
دوسرا نشانہ عوام ہیں۔انکے یقین کو متزلزل کردیا جائے،اسلام پر سے،انقلاب پر اسے ان کے یقین کو اٹھا لیا جائے۔ سیاسی اسلام سے یقین کو اٹھالیا جائے اس بات پر سے یقین اٹھا لیا جائے کہ اسلام ذاتی فرائض کے علاوہ عمومی ذمہ داریاں بھی رکھتا ہے،حکومت ،معاشرہ سازی تہذیب و تمدن پیدا کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔اس کے برخلاف اعتقاد اس کی جگہ آجائیں،عوام کے ذہنوں سے اسلام کی یہ تصویر مٹ جائے اور اس کی برعکس تصویر ان کے ذہنوں میں آجائے۔
وہ استقلال کے یقین کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ بے سلیقگی سے کام لیتے ہیں۔ آپ اخباروں میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں کہ کچھ لوگ استقلال کو ایک قدیمی اور دقیانوسی امر تصور کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ آج کے زمانے میں ممالک کے مستقل ہونے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ کیامطلب؟ مطلب یہ کہ دنیا کے نقشے میں صرف ایک طاقت ہے اور فیصلے اور سارے حکم دینے کا حق صرف اسی کو ہے۔ جیسے مرکزی حرارت ہوتی ہے کہ ایک جگہ سے ایک چیز بنتی ہے اور سب وہیں سے لیکر استعمال کرتے ہیں۔اس بات کو رائج کیا جارہا ہے؛اثر و رسوخ کا مطلب یہ ہے۔ اگرچہ یہ کام انجام دیا جارہا ہے۔
عوام کے یقین میں اثر و رسوخ کا ایک مقصد یہ ہے کہ وہ مغرب کی خیانتوں کو بھول جائیں۔ دوستوں، مغرب نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اور بعض افراد، خصوصا میرا نام لیتے ہیں کہ، کیوں یہ لوگ مغرب کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہم بھولنا نہیں چاہئے کہ مغرب نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ میں مغرب سے قطع تعلق کا قائل نہیں ہوں یہ جان لیں،اس بات کو بھی ذکر کروں گا۔ میں آٹھ سال صدر مملکت رہ چکا ہوں انہیں ممالک کے صدور مملکت کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا رہا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہے؛ اب بھی صدر مملکت کے بعض مہمانوں کے ساتھ میری ملاقاتوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں۔ گفتگو کے دوران ایک دوسرے کو لعنت ملامت بھی نہیں کرتے؛ باتیں کرتے ہیں ایک دوسرے کی باتوں سمجھتے ہیں۔ تو میں مغرب کے ساتھ رابطوں کا مخالف نہیں ہوں،مسئلہ یہ ہے کہ یہ جان لیں کہ کس کے ساتھ ملکر کام کرنا اور کون ہمارا مخالف ہے۔
مغربی ممالک نے قاجاری حکومت کے درمیانی دور سے ہمارے ملک کے خلاف سرگرمیاں شروع کی تھیں؛ قاجاری سلاطین کی کمزوری سے انہوں نے فایدہ اٹھایا اور مسلسل دباؤ ڈالتے رہے اورہماری زندگی کا دائرہ تنگ کرتے گئے، ہماری ترقی کو روک دیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنے ہی ایک آدمی کو تخت پر بٹھا دیا، رضا خان انہیں کا آدمی تھا۔ اگرچہ کچھ لوگ اس بات میں شک پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رضا خان کو برطانیہ نہیں لایا تھا۔ اتنی واضح بات جس کا خود برطانیہ متعدد بار اقرار کرچکا ہے۔ طاغوتی حکومت کے افراد نے کئی بار یہ بات کہی اور یہ لوگ ہیں اس کا انکار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رضاخان کو لائے، دیکھا کہ انکی مرضی کے مطابق کام نہیں کررہا تو اس کو ہٹاکر اس کی جگہ اس کے بیٹے کو بٹھا دیا اور اس کے بعد جب دیکھا کہ خود ملک میں قومی تحریک کے عنوان سے ایک تحریک شروع ہوگئی، تو اس کو بھی کچل ڈالا اور ۲۸ مرداد وجود میں آگیا۔ اس کے بعد جہنمی کمیٹی ساواک بنائی۔ یہ سب انہیں مغربیوں نے کیا تھا اسی برطانیہ نے کیا تھا؛ برطانیہ کے بعد امریکہ کی باری آتی ہے۔ ملک کی زراعت کو برباد کردیا، ترقی کو روک دیا،ہمارے برجستہ افراد کو یا چرا لےگئے یا انہیں بھی روک دیا۔ جوانوں کو برائیوں اور شراب نوشی کی طرف کھینچ لے گئے۔ یہ سارے کام مغرب نے کئے تھے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بے قصور ہیں لیکن لگام انہیں کے ہاتھوں میں تھی وہی کنٹرول کرتے تھے۔ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم اس کے علاج کے لئے کھڑے نہیں ہوئے۔ ہم نےمقابلہ نہیں کیا۔اگر آج ہم نے مزاحمت نہیں کی تو جان لیں کہ دشمن وہی ہے اورنتیجہ بھی وہی ہوگا۔
اس کے بعد انقلاب آیا؛ جس دن سے انقلاب کامیاب ہوا ہے اسی دن سے مغرب نے ہماری مخالفت شروع کردی۔ نہ صرف مخالفت بلکہ ہمارے خلاف جنگ بھی چھیڑ دی۔ انہوں نے صدام کی مدد کی، سرحدی علاقوں میں انقلاب مخالف عناصر کی مدد کی۔ ان کی مالی مدد کی، انہیں اسلحے دیئے، سیاسی اور فکری ہرقسم کی مدد کی۔ انقلاب،امام خمینی رہ اور انقلابی ذمہ داران کے خلاف انہیں لوگوں نے افواہیں پھیلائی تھیں۔ ہم پر کیچڑ اچھالے اور دشمنی کی۔ جتنی ہوسکتی تھی صدام کی مدد کی؛ ہمارے شہروں پر ظاہرا تو صدام نے بمباری کی تھی لیکن اس کو پشت پناہی مغرب کی حاصل تھی، یہ لوگ صدام کی مدد نہ کرتے تو وہ یہ کام نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے صدام کو کیمیائی ہتھیار دیئے۔ میزائیل دیئے۔ صدام کے لئے جنگی پروگرام ترتیب دیئے، ان جنگی مناظر کو انہوں نے صدام کے لئے تیار کیا تھا، ہمارے ساتھ انہوں نے یہ سلوک روا رکھا۔ مغربی ممالک ہی تھے جنہوں نے جنگ کے بعد ہم پر پابندیاں عائد کیں۔ ہم نے ان کی مخالفت اور دشمنی نہیں کی تھی؛ ہم نے ایک اصول بنایا اور اس پر پابند رہے؛جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے اپنے اصول ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں آزاد ہیں، انکے تابع نہیں ہیں، تو انہوں نے دشمنی شروع کردی۔ تو پھر اس میں ہم کیا کریں؟
بعض برادران کا کہنا ہے کہ ہم کو دنیا سے تعلقات برقرار کرنے چاہئیں۔ یہ اچھی بات ہے پوری دنیا کے ساتھ تعلقات رکھیں سوائے امریکہ اور اسرائیل کے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ پہلی بات یہ کہ ساری دنیا صرف یورپ اورمغرب تک محدود نہیں ہے؛ کیا ابھی تقریبا چار سال پہلے اسی تہران میں کانفرنس نہیں ہوئی تھی جس میں دنیا کہ ۱۳۰ یا ۱۴۰ ممالک نے شرکت کی تھی؟ تقریبا چالیس یا اس سے زیادہ ممالک کے صدور یا وزرائے اعظم نے شرکت کی تھی؛ ہر جگہ سے افراد آئے تھے اور بغیر کسی قید وشرط کے اس اجلاس میں انہوں نے شرکت کی تھی۔(۹)ہمیں ان سے کوئی مشکل نہیں؛ دنیا صرف یورپ تک محدود نہیں۔ دنیا بہت وسیع ہے۔ آج طاقتیں دنیا بھر میں تقسیم ہوچکی ہیں؛مشرقی دنیا یعنی یہی ایشیا آج طاقت کا ایک عظیم مرکز ہے۔ ان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں؛ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہمیں یوروپی ممالک کے ساتھ بھی کوئی مشکل نہیں ہے۔ انہوں نے خود یہ مشکلات پیدا کی ہیں۔ میں نے ابھی حال ہی میں یورپی ممالک میں سے ایک ملک کے صدر کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ یورپ کو اپنی سیاست میں امریکہ کی پیروی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ یورپی ممالک نے سیاست میں امریکہ کی پیروی کی، اس نے ہم پر پابندیاں لگائیں،اس کی پیروی کرتے ہوئے یورپ نے بھی ہم پر پابندیاں لگادیں۔ اس نے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا انہوں بھی اس کی اتباع کی۔ تو اب ہم اس صورت میں کیا کریں؟ مختلف مسائل میں یورپی ممالک نے دشمنی کی ابتدا کی تھی۔ اسی قہوہ خانہ میکونوس والے معاملے میں اس وقت کے ہمارے صدر مملکت کو مورد الزام قرار دیا اور انہیں عدالت میں گھسیٹنے کی کوشش کی، عدالت میں ان کا نام ایک ملزم کے عنوان سے لیاگیا۔ تو اب ہم ان کے ساتھ کیا کریں؟ جائیں جاکر ان سے التماس کریں؟ انسے کہیں کہ ہم سے اس سے اچھا برتاؤ کریں؟ ہم نے تو ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا انہوں نے ہمارے ساتھ دشمنی کی تھی۔ اگر ہم اپنے دشمنوں کی دشمنیوں کے مقابلے میں شجاعت اور بہادری کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے تو یہ ہمیں کھاجائیں گے۔ہمیں نگل جائیں گے۔ یہ جو ’’ہم‘‘ کہہ رہا ہوں، یعنی ہمارا ملک، ہماری قوم؛ وگرنہ میری اور مجھ سے افراد کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے؛ یہ لوگ ملک کو نگل جایئں گے؛ ہم ملک کے ذمہ دار ہیں، تاریخ کے ذمہ دار ہیں۔ ہمیں انکو اجازت نہیں دینی چاہئے؛ بہرحال اس لئے ہمارے ساتھ انکا سلوک ایسا ہے۔
اب ملک میں اثر و رسوخ پیدا کرنے کے پروگرام تیار کئےہیں،ملک میں اثر و رسوخ کے مختلف طریقے نکالیں ہیں اور ان پر عمل کررہے ہیں، میں نے تقریبا دس اہم منصوبوں کا اندازاہ لگایا ہے۔ ان میں سے ایک علمی راستہ ہے؛ یونیورسٹیوں، اساتید، سائنس دانوں اور طالب علموں کے ساتھ تعلقات برقرار کرنا مثلا بظاہر علمی کانفرنس ہے لیکن باطن میں یہ اثر و رسوخ پیدا کرنے کا راستہ ہے، اپنے خفیہ ایجنٹوں کو کو یہاں بھیجتے ہیں؛ یہ ایک راستہ ہے۔ دوسرا راستہ فن اور ثقافت ہے، فرض کریں کے فن موسیقی کے ماہر کے عنوان سے خفیہ ادارے یا فوج کے حاضر سروس افراد کو بھیجتے ہیں کیوں کہ اس قسم کے افراد سو فیصد سیاسی اور انٹلیجنس کے افراد ہوتے ہیں۔ اس فن کے ماہر ہونےکے عنوان سے یہاں بھیجتے ہیں۔ کیوں بھیجتے ہیں ؟ اثر و رسوخ کا ایک اور راستہ اقتصاد ہے۔ اثر و رسوخ کے مختلف طریقے اپناتے ہیں لہٰذا ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے،متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔
بہرحال صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم خود کو اندر سے مضبوط اور بے نیاز بنائیں۔ دنیا اسی ملک کا احترام کرتی ہے جو مستغنی اور قوی ہو۔ دنیا اس کا احترام کرنے پر مجبور ہے۔ اگر یہ اسلامی ایران مستغنی اور قوی ہوجائے تو وہی لوگ جو آج اس کو آنکھیں دکھا رہے ہیں کل ہمارے ہی دروازے پر آکر کھڑے ہونگے اور منتیں کریں گے۔ اگرچہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے؛ یہ رفت وآمد جو اب تک ہوئی ہے ہمارے لئے اس کا کوئی مثبت اثر سامنے نہیں آیا ہے، آیندہ ممکن ہے کہ ہو نہیں معلوم۔ لیکن ابتک اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا ہے۔ ابھی حال میں کئی ممالک کے صدور یہاں آچکے ہیں ڈاکٹر روحانی صاحب بھی موجود تھے میں نے کہا تھا ان سب کا اثر عملا ظاہر ہونا چاہئے کاغذ پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بیٹھ کر گفتگو کریں،کسی مسئلے پر سمجھوتہ کریں اور اس کے بعد وہ محقق نہ ہو،یا اس کو مشروط کردیں تو ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عملی میدان میں نظر آناچاہئے کہ کیا ہورہا ہے ۔ یہ معلوم ہونا چاہئے۔جو اب تک نہیں ہوا ہے۔اگرچہ مجھے امید ہے کہ دوستوں کی کوششیں انشا اللہ رنگ لائیں گی۔۳۷ سالہ اسلامی جمہوریہ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو فکری، سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے قوی کریں۔ جب قوی ہوجائیں گے تو فطری طور پر عزت ملے گی ،آج دنیا میں ایک قوم کی عزت انہیں چیزوں کے ذریعہ ہے۔
مجھے امید ہے کہ خدا ہم سب کو توفیق عنایت کریگا،میں ملک کے ذمہ دار افراد کا شکر گزار ہوں وہ بہت کوششیں کررہے ہیں؛میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ مختلف شعبے اور مراکز زحمتیں اورکوششیں کررہے ہیں۔ انشا اللہ صحیح راہ، صراط مستقیم پر چلیں گے اور مناسب کاموں کو بہت ہی سنجیدگی سے انجام دیں گے اور خدا ان کاموں میں انکی مدد کرےگا۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱۔یہ ملاقات مجلس خبرگان کے چوتھے دور کے انیسویں اجلاس کے خاتمہ پر انجام پائی،اس ملاقات کی ابتدا مین آیۃ اللہ محمد یزدی(مجلس خبرگان کے سربراہ)اور آیۃ اللہ ھاشمی شاہرودی(نائب سربراہ)نے رپورٹ پیش کی۔
۲۔مفاتیح الجنان مناجات شعبانیہ’’اے معبود میں تیری رحمت کا اس طرح امیدوار ہوں کہ گویا تیرے سامنے کھڑا ہوں،تجھ پر ہی بھروسہ ہے اور تیری رحمت وسیع ہے؛تونےجو مناسب حکم تھا دیا مجھے اپنی عفو و گذشت کے سائے میں چھپا لیا ہے‘‘۔
۳۔رہبر نے ان جملات کو گریہ کے ساتھ بیان کیا۔
۴۔وزارت اطلاعات، عدلیہ، فوج اور پولیس کی شناخت کی کمیٹٰی، رجسٹریشن آفس۔
۵۔ شرح نهجالبلاغهی ابنابیالحدید، ج ۲۰، ص ۳۱۹
۶۔سردار امیر علی حاجی زادہ ،سپاہ میں ائیرفورس کے کمانڈر
۷۔غیروابستہ تحریک کی ۱۶ ویں نشست جو ۵ سے ۱۰ شہریور ۱۳۹۱ کو تہران میں منعقد ہوئی تھی۔