ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

پیغمبر اسلامﷺ کی بعثت کے موقع پر اسلامی ممالک کے سفیروں سے خطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌۱
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی‌ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّةالله فی الارضین.


آپ تمام حاضرین،عزیز بھائیوں اور بہنوں، ملک کے محترم ذمہ داران اور اسلامی ممالک کے سفیر حضرات جو یہاں تشریف فرما ہیں،تمام ایرانی  قوم اور تمام امت مسلمہ اور پوری بشریت کی خدمت میں روز بعثت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہےکہ آج بشریت کو بعثت اور اس کی حقیقت کو سمجھنےکی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
قرآن کریم نے اس آیہ کریمہ میں «لَقَد جآءَکُم رَسولٌ مِن اَنفُسِکُم عِزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم»  پوری بشریت سے خطاب کیا ہے اور اس کے آخر میں ایک جملہ«بِالمُؤمِنینَ رَءوفٌ رَحیم»(۲) آیا ہے۔ کہ بشریت کے رنج وغم، انسانیت کی تکلیفیں اور مشکلات پیغبر اسلام  ﷺکے قلب مبارک پر بہت گراں گزرتی ہیں۔ حریص علیکم ؛یہ پیغبر ان کی ھدایت اور سعادت کا مشتاق ہے۔ پیغبراکرم ﷺ  تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔اسی آیت کے آخر میں قرآن  پیغمبراکرم ﷺکی دلجوئی کرتا ہے جو واقعی بہت دلچسپ ہے۔ فَاِن تَوَلَّوا فَقُل حَسبِیَ اللهُ لآ اِلهَ اِلّا هُوَ عَلَیهِ تَوَکَّلتُ وَ هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظیم؛(۳) کہ انسانیت کو خطاب کرتے ہوئے اس کی خیر و صلاح کے راہ میں قدم آگے بڑھاتے رہئے اور خدائے واحد و احد پر توکل کیجئے؛تمام چیزیں اسی کے ہاتھوں میں ہیں اور سنت الٰہی اسی حرکت میں نہاں ہے۔آج ہمیں بعثت کے معنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے، بشریت خصوصا امت مسلمہ کو اس کی ضرورت ہے۔
اس عید بعثت کا مطلب بشریت کے رنج وغم کو ختم کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقی عید ہے۔ بشریت، پوری تاریخ میں رنج وغم سے دچار رہی ہے اوراب بھی  مختلف قسم کے رنج و غم سے دچار ہے۔غیر خدا کی بندگی، ظلم اور ناانصافی کا رواج، عوام کے درمیان طبقاتی فرق، تہی دست افراد کے مصائب اور دھونس جمانے والے افراد کی زبردستی؛ یہ انسانیت کے ہمیشہ کےغم ہیں۔ اور طاقتور،فاسد اور مفسد افراد کی طرف سے یہ تمام چیزیں ہمیشہ بشریت پر مسلط کی گئی ہیں؛ بعثت پیغبر اکرم ﷺ انہی رنج و غم کو ختم کرنے کے لئے ہوئی ہے۔ روز بعثت درحقیقت فطرت الٰھی کی طرف پلٹنے کا دن ہے؛ کیونکہ یہ تمام رنج ودرد اور مشکلات جنہیں فطرت الٰھی کے ساتھ آمیختہ کردیا گیا ہے درحقیقت فطرت میں مردود اور باطل قرار دی گئی ہیں۔ انسان کے لئے الٰہی فطرت حق کی طرفداری، عدل کی حمایت اور مظلومین کا دفاع ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضہ ہے۔
نہج البلاغہ میں بعثت سے متعلق جناب امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ایک جملہ ہے جس میں واقعی بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے؛آپ فرماتے ہیں: لِیَستَأدُوهُم میثاقَ فِطرَتِه؛پیغبروں کو اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ انسانوں کو ان کے فطری وعدوں اور میثاق پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں،اور وعدوں اورمیثاق کا اعتراف کریں؛خدا نے انسان سے چاہا ہےکہ آزاد رہے، عدل و انصاف کے ساتھ زندگی گذارے، خیر وصلاح کے ساتھ زندگی گزارے، غیر خدا کی بندگی نہ کرے۔
لِیَستَأدُوهُم میثاقَ فِطرَتِهِ وَ یُذَکِّروهُم مَنسِیَّ نِعمَتِه ؛پیغمبران انسانوں کی فراموش کردہ نعمتیں یاد دلانے آئے ہیں؛یہ الٰہی نعمتیں۔ نعمت وجود،صحت و سلامتی کی نعمت،عقل و فہم کی نعمت اور اس نیک اخلاق کی نعمت جسے خدا نے ہمارے اندر ودیعت فرمایا ہے،ہم ان تمام نعمتوں سے غافل ہیں۔انسان بھول جاتا ہے؛پیغمبران اسے یاد دلاتے ہیں۔
وَ یُذَکِّروهُم مَنسِیََّ نِعمَتِه وَ یَحتَجّوا عَلَیهِم بِالتَّبلیغ؛وہ آئے ہیں تاکہ لوگوں پر حجت تمام کردیں،صدائے حق کو انکے کانوں تک پہنچادیں،حقیقت کو ان کے لئے آشکار کردیں؛ بیان کرنا،وضاحت کرنا پیغبروں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔ نبیوں کے دشمن جہالتوں اور کتمان حق کا استعمال کرتے ہیں،نفاق کے پردہ کا استعمال کرتے  ہیں؛انبیا الہی اسی جہالت اور نفاق کے پردہ کو چیر دیتے ہیں۔ وَ یُثیرُوا لَهُم دَفائِنَ العُقول ؛وہ آئے ہیں تاکہ انسانیت کے لئے عقل وخرد کے دفینوں کو باہر نکالیں۔ انبیا انسانوں کو تعقل اور سوچنے پر مجبور کرنے آئے ہیں۔ انہیں سوچنے کی ترغیب دلانے آئے ہیں؛ غور کریں کہ کس قدر اہم اور بزرگ اھداف و مقاصد ہیں۔ بعثت(کا مقصد)یہ ہے۔ آج انسانوں کو اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ اب جب انسان کے عقل کے خزینہ باہر آگئے تو وَ یُرُوهُم ءایاتِ المَقدِرَة(۴)؛ عقل انسانی کو توحید، آیات الھی کی طرف ھدایت کرتے ہیں اور پروردگار کی قدرت کی نشانیوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ وہ عقل جو ہدایت یافتہ نہیں ہے، پیغبروں کی ہدایت کے بغیر حقائق کو درک نہیں کرسکتیں۔ انبیا،انسانی عقل کا ہاتھ پکڑ کر اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔اور وہ اس توانائی اور قدرت کے سہارے جو خدا نے ان کے اندر قرار دیا ہے،اپنی زندگی کی دشوار راہوں کو طے کرتا ہے۔ وہ انسان کے لئے حقائق عالم کو آشکار کرتے ہیں۔تفکر کی قوت اور تعقل کی صلاحیت انسان کے لئے بہت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ خدائی ھدایت ضروری ہے،خدا کا ساتھ ضروری ،یہ بعثت ہے۔
بعثت کے مقابلے میں جاہلیت کا محاذ ہے، زمانہ جاہلیت صرف تاریخ کے ایک خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ نہیں تصور نہیں کرنا چاہئے کہ پیغبر اکرم ﷺ کا سامنا اس وقت جاہلیت سے تھا اب وہ زمانہ گذر گیا تو جاہلیت بھی ختم ہوگئی، زمانہ جاہلیت اسی وقت سے مخصوص نہیں ہے، جس طرح بعثت جاری و ساری ہے اسی طرح جاہلیت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔
رگ رگ است این آب شیرین و آب شور
بر خلایق میرود تا نفخ صور (۵)

انسانیت میں یہ دو محاذ پائے جاتے ہیں؛یہ جاہلیت جو بعثت کے مقابلے میں ہے اس کا مطلب لاعلمی اور علم کا فقدان نہیں ہے؛ یہ جہل علم کے مقابلے میں نہیں ہے؛ کیوں کہ کبھی کبھی علم جاہلیت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے جیسا کہ آج ہے۔ آج دنیا میں انسانی علوم ترقی توکررہے ہیں لیکن پھر بھی اسی جاہلیت کی خدمت کررہے ہیں جس کو ختم کرنے کے لئے پیغبراکرم ﷺ مبعوث ہوئے تھے۔
یہ جاہلیت اس عقل کے مقابلے میں ہے جو توحید و نبوت کے سائے میں منازل ہدایت طے کرتی ہے۔اگر انسانی زندگی پر وہ عقل کار فرما ہوجائے جو انبیا کرام کے زیر سایہ اور حمایت میں پروان چڑھتی ہے تو انسانی زندگی سعادتمندانہ ہوجائے گی؛ ہمیں اس کے حصول کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو،عقل کی کارفرمائی نہ ہو تو انسانی زندگی پر شہوت و غضب کا غلبہ ہوجائے گا؛ نفسانی خواہشیں انسان پر حکومت کرنے لگیں گی۔ اس وقت انسانیت بد بختی کے دہکتے ہوئے تنور میں جلنے لگے گی؛ جیسا کہ تاریخ میں ہم نے اس بات کا مشاہدہ کیا اورآج بھی دیکھ رہے ہیں۔
جب انسانی اعمال وکرادر پر شہوت اور غضب حاکم ہوجاتا ہے تو اس وقت آپ دو دو عالمی جنگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جس میں لاکھوں بے گناہ افراد خاک و خون میں غلطاں ہوجاتے ہیں، انسانی جانوں کی قدر نہیں ہوتی، حرمت انسانی پامال ہوجاتی ہے۔ اس شہوت و غضب کی حکومت ہمیشہ انبیا الٰھی کی رہنمائی میں پروان چڑھنے والی عقل کی حکومت کے مقابلے میں ہے، یہ ہر طبقے اور سطح پر ہے؛انفرادی سطح پر،معاشرتی سطح پر،بین الاقوامی سطح پر ہر جگہ موجود ہے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر اور بین الاقوامی طاقتیں اس خدائی عقل سے بہرمند ہوجائیں تو دنیا کی صورت کچھ اور ہوگی؛ اگر نفسانی خواہشات ان پر حاکم ہو اور قدرت طلبی ان پر حکومت کرے تو ایسی صورت میں پھر دنیا کی حالت کچھ اور ہوگی۔ انسانیت ان مشکلات میں گرفتار ہے۔ بعثت کا مقابلہ اسی جاہلیت سے جس کا ہر زمانہ میں موجود ہونا ممکن ہے۔اس سے مقابلہ کرنا پوری بشریت کا فریضہ ہے۔
قوموں کی تذلیل، انکے اموال کو برباد کرنا، قوموں کے انسانی وسائل کو نابود کرنا اسی جاہلیت کی حکومت کا نتیجہ ہے۔ آپ خود مشاہدہ کررہے ہیں کہ جب سے یہ جاہلیت حاکم ہے دنیا کہ بہت سی قومیں استعمار کے قدموں تلے روندی جارہی ہیں۔ انکے وسائل اور اموال غارت کئے جارہے ہیں،ان کی تحقیر اور تذلیل کی جارہی ہے وہ قومیں سالوں پیچھے رہ گئی ہیں۔ استعمار سے زخمی ہوئی کچھ قومیں دس سال پیچھے چلی گئی ہیں تو کچھ صدیوں پیچھے چلی گئی ہیں۔
(جواہر لال)نہرو (۶)اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں کے قبضے سے پہلے ہندوستان اس زمانے کا ایک ترقی یافتہ متمدن ملک تھا۔ انگریز آئے اس وسیع و عریض ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی اس کو سالوں پیچھے دھکیل دیا، تاکہ خود ترقی کرسکیں۔ دور دراز کی انگریزوں کی ایک چھوٹی سی حکومت نے ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وسائل اور اموال کو برباد کرکے اس پر قبضہ کرلیا؛ اس ملک کو مٹی میں ملا دیا۔ استعمار ایسا ہے، یہی شہوت اور غضب کی حکومت ہے۔
جیسا کہ کہا اورلکھا جاتا ہے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد دسیوں علاقائی جنگیں ہوئی اور سب کی سب طاقتور حکومتوں کے ہاتھوں رونما ہوئیں۔ آج آپ غور کریں، دیکھیں کہ اسی مغربی ایشیا کی  کیا حالت ہوگئی ہے، شمالی افریقہ کا کیا حال ہے۔ کس نے ان جنگوں کو شروع کیا؟ ان مفسد اور شریر لوگوں کو کون اسلحہ فراہم کررہا ہے، وسائل دے رہا، ان کی کون حوصلہ افزائی کررہا ہے کہ جاؤ ان ممالک کو فتنوں میں مبتلا کردو۔ ان ممالک کی بنیادوں کو خراب کردو ان کو ویران کردو؟ شیطان کا مطلب یہ ہے۔ وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِ‌ّ نَبِیٍ‌ّ عَدُوًّا شیٰطینَ الاِنسِ وَ الجِنِ‌ّ یُوحی بَعضُهُم اِلی‌ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا.(۷)شیطان ایسا ہے؛جب شیاطین ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں تو ایک سسٹم وجود میں آتا ہے؛جس وقت دنیاوی حالات پر ان کا غلبہ ہوتا ہے اس وقت بشریت کی صورت حال وہی ہوجاتی ہے جس کا آپ مشاہدہ فرمارہے ہیں۔
سچے مومنوں اور جمہوری اسلامی کی صیہونزم سے دشمنی انہیں حقائق کی بنا پر ہے؛ ہماری کسی سے نسلی جنگ نہیں ہے۔ جب صیہونزم اور صیہونیوں کا وسیع سرمایہ دار نیٹ ورک کسی حکومت پر غلبہ پیدا کرتا ہے تو دنیا کی حالت ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسا کہ آپ مشاہدہ کررہے ہیں۔ جس طرح اس نے متحدہ امریکہ جیسی حکومت پر غلبہ کیا ہوا ہے تو اس وقت ہر کسی کی ترقی، ہر جماعت اور شخص کی کامیابی انہیں کی حمایت سے وابستہ ہے۔ اس عظیم اسلامی قوم، ایرانی قوم کی اسلامی بیداری کی جڑٰیں یہاں ہیں۔ اور(صیہونزم اور اس کے ساتھی)اس کو ختم کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کو بدنام کریں،ایران کو بدنام کریں،شیعوں کو بدنام کریں۔
اس وقت (دنیا کو)اسلام سے دور کرنا،ایران سے دور کرنا امریکہ اور اسکی حمایتی حکومتوں کی سیاست حصہ ہے۔وہ اس طرح کے اقدامات کررہے ہیں کہ جس کے ذریعے دنیا والے اسلام اور شیعہ سے دورہوجائیں۔ یہ انکی حتمی سیاست ہے۔ جب  تک قومیں غافل ہیں انکی(امریکیوں) ترقی اور آگے بڑھنے کی راہیں ہموار ہیں، اگر قومیں بیدار ہوجائیں تو ان کے لئے مسئلہ اور رکاوٹ  بن جائیں گی؛ انہیں غصہ آئے گا ان کی صدائیں بلند ہونے لگیں گی کہ تم کیوں مغربی ایشیا میں موجود ہو،تم کیوں نہیں جارہے، ہمیں کیوں نہیں چھوڑ رہے  تاکہ  ہم اپنا کام خود کرسکیں؟ کل یا پرسوں امریکہ  کے اسپیکر نے یہ اعلان کیا ہے کہ مغربی ایشیا (جس کو یہ لوگ مشرق وسطیٰ کہتے ہیں) میں ایران کی طرف سے امریکی سیاست کی مخالفت کی وجہ سے ہم اس پر پابندی لگاتے ہیں یا اس سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟یعنی ایرانی قوم تم تو ہوشیار ہو، تم بصیر ہو، تم تو سمجھتے ہو کہ علاقے کے حالات کیا ہیں، تم پیچھے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اپنا کام انجام دیتے رہیں، جو چاہیں کریں؛ یعنی شیطنت کو جاری رکھیں، یہ جاہلیت کی حالت ہے اور یہ جاہلیت آج بھی موجود ہے۔
جب جاہلیت پیدا ہوتی ہے،شیطان کا غلبہ ہوتا ہے تو طغیان وجود میں آتا ہے؛ طاغوت یعنی یہی۔ اَلَّذینَ ءَامَنُوا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللهِ وَ الَّذینَ کَفَروا یُقاتِلونَ فی سَبیلِ الطّاغُوت.(۸) یہ معیار ہے۔اگر کوئی ایک قدم بھی طاغوت کی تقویت کی خاطر اٹھاتا ہے تو اس کا شمار طاغوتیوں میں ہوتا ہے۔
طاغوت کے کام یہ ہیں: فساد کروانا، فساد کرنا۔ وَ اِذا تَوَلّی‌ٰ سَعی‌ٰ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَالنَّسلَ وَ اللهُ لا یُحِبُّ الفَسادَ؛(۹)  خدا انسانیت کی خیر و صلاح چاہتا ہے۔ طاغوت انسان کے لئے برائی اور فساد چاہتا ہے۔ ایک بم کے ذریعہ ایک یا دوشہروں کے لاکھوں افراد کو مارڈالتے ہیں اور سالوں گذر جانے کے بعد بھی معذرت کرنے اور معافی مانگنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ ہیروشیما کے واقعے کے لئے معافی مانگو تو کہتے ہیں نہیں ہم معافی نہیں مانگیں گے،یعنی معافی مانگنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔افغانستان،عراق اور اس کے مثل بقیہ ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو انہوں نے یا ان کے ساتھوں نے  تباہ و برباد کردیا پھر بھی شرمندہ نہیں ہیں اور اپنے اس کام کو جاری رکھا ہوا ہے؛یہ یہی،اِذا تَوَلّی‌ٰ سَعی‌ٰ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ وَالنَّسل، ہے۔ یہ کام اور یہ محاذ جاہلیت کا محاذ اورکام ہے، آج کی جاہلیت اپنے روح اور معنی کے اعتبار سے وہی پیغبر اسلام ﷺکے زمانے کی جاہلیت ہے؛ لیکن نئے آلات اور وسائل، نئی شکل اور پلاننگ  کے ساتھ ۔ اب یہ حالت تمام مسلمانوں اور اسلامی امتوں پرایک فریضہ اور ذمہ داری عائد کرتی ہے اور وہ فریضہ اس سے مقابلہ کرنا ہے۔
اپنی ابتدا ہی سے جمہوری اسلامی نےکسی ملک کے خلاف کوئی جنگ شروع نہیں کی، کسی ملک کے خلاف کوئی فوجی کاروائی نہیں کی لیکن اپنی بات اور اپنے نعروں کا اعلان بہ ببانگ دھل کیا ہے۔ ہمارے عظیم امام رہ نے امریکی اور دقیانوسی اسلام کو ایک ہی زمرہ میں رکھا ہے؛ یہ دونوں خالص اسلام کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ وہ خالص اسلام سے خوف زدہ ہیں۔
یہ فاسد اور مفسد  گروہ جو اسلامی ممالک میں فساد پھیلائے ہوئے ہیں، اسلام کو بدنام کررہے ہیں، اسلام کے نام پر انسان کشی کررہے ہیں لوگوں کے جگر کو ان کے سینہ سے باہر نکال کر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چاقو سے ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں، اسلام  ہی کے نام پر زندہ انسانوں کو کیمرے اور کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے زندہ جلا رہے ہیں؛ اور اس کے ساتھ مغرب کی خفیہ طاقتوں سے پشت پناہی،حمایت اور تائید بھی حاصل کررہے ہیں۔ بظاہر تو داعش کے خلاف اتحاد تشکیل دیا گیا ہے لیکن صحیح اطلاعات اور خبروں کے مطابق یہ حقیقی اتحاد نہیں ہے، یہ مزاحمت حقیقی مزاحمت نہیں ہے۔ بلکہ یہ صرف ایک ظاہری شکل ہے۔جب اپنی تشہیرات میں اس فاسد گروہ کے بارے میں باتیں کرتے ہیں تواسے’’دولت اسلامی‘‘ سے تعبیر کرتے  ہیں؛یہ گروہ جو عوام کے ساتھ اس طرح پیش آتا ہے اور بچوں کو نابود کردیتا ہے،بچوں کو دھوکہ دیکر خود کش حملہ کرنے کے لئے میدانوں میں بھیجتا ہے، اس کو یہ لوگ ’’دولت اسلامی‘‘یعنی اسلامی حکومت کہتے ہیں؛ اسلام سے دور کرنا یعنی یہ کام کرتے ہیں۔
آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ بعثت کی حقیقت سے آشنا ہوں اور دنیا والوں کو بھی اس سے آشنا کریں۔
بعثت یعنی بشریت اور انسانیت کی نجات کی خاطر اٹھ کھڑے ہونا؛بعثت یعنی بشریت کی خیر خواہی؛ ہم پوری بشریت کے خیر خواہ ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے طاغوتوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو ہدایت دے دے؛ یا ان کی ھدایت کردے کہ راہ راست پر آ جائیں یا ان کی عمر کو کم کردے تاکہ زیادہ فساد نہ کرسکیں۔ جس کی وجہ سے غضب الٰہی کے زیادہ مستحق قرار نہ پائیں؛ یہ بھی در حقیقت دعائے خیر ہے۔ اسلام پوری بشریت کے لئے خیر چاہتا ہے، پیغمر ﷺخیر چاہتے ہیں۔ اسلامی امت کی یہ حرکت جو جمہوری اسلامی کے نظام کے ذریعے دنیا میں شروع ہوئی ہے۔ جس کو مٹانے کے لئے دشمن نے بہت کوششیں کیں اور نہ مٹا سکا اور یہ حرکت روز بروز مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے، یقینا کامیاب ہوگی؛دشمنوں کی دشمنیاں اس عظیم حرکت کو ختم نہیں کرسکتی ہیں۔
اس مقام پر ہمیں قرآن کے اس حکم اور نصیحت پر عمل کرنا جس کی میں نے تلاوت کی تھی: فَقُل حَسبِیَ الله ؛ اگر دیکھو کہ تمہاری مخالفت کررہے ہیں،اگر دیکھو کہ روگردانی کررہے ہیں،اگر دیکھو کہ مختلف وسائل اور اطراف سے تمہیں گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں توکہو فَقُل حَسبِیَ اللهُ لآ اِلهَ اِلّا هُوَ عَلَیهِ تَوَکَّلتُ وَ هُوَ رَبُّ العَرشِ العَظیم ۔یہ ہمارے عظیم امام کا توکل تھا کہ انہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھلایا،ہمیں یہاں تک پہنچایا۔ اورانشا اللہ ایرانی قوم اس راہ کو جاری رکھے گی اور اسلامی امت روز بروز اسلامی بیداری کے ساتھ ان حقایق کو تجسم بخشے گی۔
بالآخر اسلام اورمسلمین کی مدد یقینی ہے،بہرحال ہمارے فریضے ہیں۔ عوام کی بھی ذمہ دارایاں ہیں، گروہوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، ملک کے سیاسی برجستہ افراد کے بھی کچھ فرائض ہیں، اور اسلامی حکومتوں کے رہنماؤں کے بھی کچھ فرائض ہیں؛ سب نے اپنی  ذمہ درایوں پر عمل کیا ۔انشا اللہ خدا ام کو اجرعطا کرے گا ،اگرعمل نہ بھی کیا ہوتو بھی «فَسَوفَ یَأتِی اللهُ بِقَومٍ یُحِبُّهُم وَ یُحِبُّونَه»،(۱۱) خدائی کام رکنےوالا نہیں ہے۔یہ کام آگے بڑھے گا۔
امید ہے کہ انشا اللہ ہمارا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوگا کہ جو اس امانت کو زمین پر رکھ دیتے ہیں۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

 

۱۔جلسے کی ابتدا میں صدر محترم حجۃ الاسلام والمسلمین حسن روحانی نے کچھ باتیں پیش کی تھیں۔
۲۔سورہ توبہ آیہ۱۲۸’’ اور جب کوئی سورہ نازل ہوتا ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے اور پھر پلٹ جاتے ہیں تو خدا نے بھی ان کے قلوب کو پلٹ دیاہے کہ یہ سمجھنے والی قوم نہیں ہے ‘‘
۳۔سورہ توبہ آیہ ۱۲۹’’ یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے ‘‘
۴۔نھج البلاغہ ،خطبہ ۱
۵۔مولوی، مثنوی معنوی: دفتر اول
۶۔جواہر لعل نہرو؛انگریزی اسعتعمار سے آزادی کے بعد ھندوستان کے پہلے وزیر اعظم
۷۔سورہ انعام،آیہ ۱۱۲ کا کچھ حصہ’’ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جنات و انسان کے شیاطین کو ان کا دشمن قرار دے دیا ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دھوکہ دینے کے لئے مہمل باتوں کے اشارے کرتے ہیں ‘‘
۸ ۔سورہ نساء،آیہ ۷۶ کا کچھ حصہ ’’ ایمان والے ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ‘‘
۹۔سورہ بقرہ،آیہ ۲۰۵’’ اور جب آپ کے پاس سے منہ پھیرتے ہیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ہیں جب کہ خدا فساد کو پسند نہیں کرتا ہے ‘‘
۱۰۔سورہ مائدہ،آیہ ۵۶ کا کچھ حصہ ’’ اور جو بھی اللہ ,رسول اور صاحبانِ ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے‘‘