بسماللهالرّحمنالرّحیم (۱)
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّةالله فی الارضین.
میرے عزیزو میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں؛میں دعا کرتا ہوں کہ یوم استاد اور اس دن کی یاد میرے سارے بچوں، بھائیوں اور بہنوں کے لئے ابدی خوشی، سعادت اور فخر کا سبب قرار پائے۔
اس دن کی مبارک باد پیش کرنے کے بعد سب سے پہلے شہدا کو یاد کرلیا جائے؛ چاہے وہ شہدا اساتید ہوں کہ (اسکولوں کے) تقریبا چار ہزار اساتید شہید ہوئے تھے، اور یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے، یا وہ شہدا دینی مدارس کے طالبعلم ہوں کیوںکہ ۳۶ ہزار سے زیادہ طالبعلم اس مقدس دفاع کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے۔ اگر یہ اساتید نہ ہوتے تو کسی بھی حالت میں طالبعلموں کا محاذ پر جانا معلوم نہ ہوتا، اس کا سہرا اساتید کو جاتا ہے۔
اس کے بعد میں ملک کے آپ تمام اساتید طبقے کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛ کیوں کہ استادوں کا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس نے تھوڑے سی مادی اجرت پر ہی ایک سنگین ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے۔ استاد جوانوں اور نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری اپنےشانوں پر اٹھاتا ہے؛ ایک استاد سے سب کی توقع یہی ہوتی ہے کہ جب ان کے نونہال، جوان اور بچے مدرسے جائیں تو اسی معلم کے سائہ تربیت میں پروان چڑھیں اور جب گھر واپس آئیں تو پھولوں کی طرح گھر کو معطر کردیں؛ انسان کا دل یہ چاہتا ہے؛ سب کی معلم سے یہی توقع ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ ایک استاد کی آمدنی کا موازنہ اگر ایک دولت مند یا تاجر سے کریں تو یہ بہت کم ہے، استاد ان سب کو دیکھتا اور جانتا ہے؛ وہ لوگ جو تدریس اور تعلیم کی وادی میں قدم میں رکھتے ہیں شاید ان میں سے اکثر دوسرے راستے پر چل کر زیادہ دولت کما سکتے تھے؛ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ استاد کو جو چیز حوصلہ دیتی ہے وہ اس کا عشق اور محبت ہے، احساس ذمہ داری ہے۔ وہ قناعت کے ذریعے مستقبل سنوارتا ہے، شرافت و نجابت اور صبر سکون کے ساتھ جوانوں اور نوجوانوں کی تربیت کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ میں ایک مجموعی حکم تو نہیں لگا سکتا؛ ممکن ہے معاشرے اور سماج میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نہ نبھارہے ہوں،(میں ان لوگوں کی بات نہیں کررہا) لیکن مدرسوں اور معلموں کے اس معاشرے کی خصوصیت یہی ہے جو میں عرض کررہا ہوں۔ ہم نے بھی انہیں اساتید کے سائے میں تعلیم حاصل کی ہے ان کی باتیں سنیں، ان سے سیکھا ہے؛ ہم جانتے ہیں کہ معلم کیا ہوتا ہے۔
معلم کی ایک خصوصیت کہ جس کی طرف اساتید بھی توجہ کریں تو بہتر ہوگا وہ یہ ہے کہ کم اجرت اور سنگین ذمہ داری کی وجہ سے اس کے یہاں اخلاص کا امکان زیادہ ہوجاتا ہے۔ یہ بہت اہم امر ہے۔ کیونکہ ابدی زندگی میں انسان کی نجات اسی اخلاص کے ذریعے ہی ہونی ہے؛ خدا کے لئے، حق کے لئے اور مخلصانہ عمل انجام دینا نجات کا سبب ہوتا ہے؛ اکثر مقامات پر یہ اخلاص نظر ہی نہیں آتا۔ بہت سے اعمال میں انسان خیال کرتا ہے کہ خدا کے لئے انجام دے رہا ہے لیکن ذرا توجہ اور انصاف سے دیکھے تو معلوم ہوگا کہ درحقیقت بہت سی چیزوں میں ملاوٹ ہے۔ وَ اَستَغفِرُکَ مِمّا اَرَدتُ بِه وَجهَکَ فَخالَطَنی ما لَیسَ لَک؛(۲)،یہ دعا نافلہ صبح اور فریضہ صبح کے درمیان پڑھی جاتی ہے جس میں کہتے ہیں’’خدایا میں استغفار کرتا ہوں اس عمل سے کہ جسے میں تیرے لئے انجام دینا چاہتا تھا لیکن اس کے بیچ میں غیر خدائی نیت شامل ہوگئی‘‘«فَخالَطَنی ما لَیسَ لَک»؛ہمارے بہت سے کام اس قسم کے ہیں، میں خود کو کہہ رہا ہوں۔ وہ موارد جہاں انسان کے لئے مخلصانہ عمل کرنے کا امکان ہے ان میں سے ایک یہی تدریس اور تعلیم ہے۔ یہاں اخلاص کے ساتھ کام کرسکتا ہے؛ اگر مخلصانہ عمل انجام دیا تو خدا کام میں برکت عطا کرے گا۔
اس کا واضح نمونہ شہید مطہری کی ذات ہے۔آیۃ اللہ مطہری اخلاص کے ساتھ آگے بڑھتے تھے انکے کام خدا کے لئے ہوتے تھے؛ہم ان کے نزیک رہا کرتے تھے؛ان کی نیت کو سمجھتے تھے۔وہ ایک وقت شناس شخصیت تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کس چیز کی ضرورت ہے۔وہ راہ خدا میں ان ضرورتوں اور خلاء کو پورا کرنے کے لئے کام کرتے، وہ اخلاص کے ساتھ کام کرتے، فکر کرتے، گفتگو کرتے، لکھتے، کوشش کرتے، سب خدا کے لئے۔ان کے اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے کام اب تک ثابت اور پائیدار ہیں۔ ان کی شہادت کو سالوں گذر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی کتابیں سعدی کے قول کے مطابق کہ«چون کاغذ زر میبرند»؛(۳)ہیں، اہل فکر و صاحبان فہم افراد اور جولوگ سمجنھے اور جاننے کی فراق میں ہوتے ہیں وہ ان کی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔یہ اخلاص ہے۔
اگر آپ کے کام میں اخلاص ہوگا تو یہ جوان اورنواجوان جنکی آپ تربیت کررہے ہیں یہ ملک کا مستقبل ایسا سنوار سکتے ہیں جو آپ کی ابدی سعادت کا سبب بن جائے گی کیوں کہ آپ ان کے استاد ہیں؛اگرچہ کوئی آپ کو نہ پہچانے۔امام خمینی رہ کے اساتید کو جنہوں نے بچپن میں ان کی تربیت تھی،کوئی نہیں پہچانتا لیکن امام کے آثار ان سب کے نامہ اعمال میں لکھے جارہے ہیں کیونکہ انہوں نے اس مرد کی تربیت کی اور اسے اس طرح پروان چڑھایا۔
یہ اخلاص کی بات تھی؛ یہ خطاب آپ سے تھا؛ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ چونکہ مدرسین اور اساتید قناعت کے ساتھ کم آمدنی پر زندگی گزارتے ہیں تو حکومتی اہلکار اورذمہ داران بھی ان کے مادی مسائل سے غافل ہوجایئں؛ نہیں ایسا نہ ہو، یہ بات میں متعدد بار کہہ چکا ہوں اور کہتا رہوں گا؛ذمہ دارن یہ جان لیں کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں جو خرچ کررہے ہیں وہ صرف خرچ نہیں ہے بلکہ ایک قسم کی سرمایہ کاری ہے۔ وہ رقم جو وہاں خرچ کررہے ہیں گویا سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ تعلیم وتربیت کو اس نگاہ سے دیکھئے۔ اس شعبے کے لئے بجٹ دیں، اس کے لئے معیشتی وسائل فراہم کریں۔ بعض بد خواہ اور بد اندیش ایسے ہیں جو مدرسین اور اساتید کی معیشتی مشکلات سے غلط فایدہ اٹھاتے ہیں؛ میں نے سنا ہے کہ خود تعلیم و تربیت کے شعبے میں ہی کچھ لوگ یہ غلط فائدے اٹھارہے ہیں؛ مدرسین کی معیشتی مشکلات کی وجہ سے بعض لوگ یہ غلط فائدے اٹھارہے ہیں۔ خدا کی توفیق سے اب تک معلم اور اساتید نے اپنی پاکیزگی اور طہارت کو محفوظ رکھا ہے، لیکن کچھ لوگ اس پاکیزہ حرکت کو بھی خدشہ دار کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اب میں اپنی اصلی بات پر آتا ہوں۔ میرے عزیزو؛آپ ایک نسل کی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آپ کے ملک اور آپ کے مستقبل کو کس قسم کی نسل کی ضرورت ہے؟ یہ جاننا بہت اہم ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ایک خالی میدان میں کام کررہے ہیں؛ نہ ہرگز نہیں۔ فرض کیجئے ایک جوڈو کراٹے کا استاد یا شمشیر چلانے کا ماہر شخص خالی میدان میں ہاتھ اور شمشیر چلاتا رہے اور اس کے مدمقابل کوئی نہ ہو تو اس کو کوئی پریشانی نہیں ہے، لیکن اگر اس کے مقابلے میں کوئی حریف ہو جو اس کے حملوں کو ناکام کرے بار بار اس پر حملہ کرے اس کے حملہ کو بے اثر کردے تو اس کے لئے کام سخت ہوگا، آج ہمارے سامنے اس قسم کا حریف موجود ہے۔ یہ حریف کون ہے؟بین الاقوامی سامراجی نظام۔ ممکن ہے بعض لوگوں کو تعجب ہو کہ ہمارے شعبہ تعلیم و تربیت کے سامنے سامراجی نظام کا خطرہ ہے، جی ہاں؛ بین الاقوامی سامراجی نظام جس کا سب سے واضح مصداق امریکی حکومت، بڑے صیہونی سرمایہ دار اور بعض استعماری حکومتیں ہیں۔ یہ بین الاقوامی سامراجی نظام کے نمائندے اور اس کی علامت ہیں۔ یہ سامراجی نظام کیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں اس سلسلے میں عام گفتگؤوں میں بیان کرچکا ہوں، اس سامراجی نظام کے پاس ہر قوم کے لئے نہ صرف ہماری ایرانی قوم کے لئے،بلکہ ہر قوم کےلئے کچھ منصوبے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک اور دیگر ممالک میں جوان نسل کی تربیت اس طرح ہو جو ان کے لئے مفید اور فایدہ مند ہو؛ ممالک میں ایسی نسل کی تربیت ہو جو انکی فکر کے مطابق ہو، ان کی ثقافت اور بین الاقوامی مسائل میں ان کے نظریے کے مطابق ہو۔ نسل کی تربیت اس قسم کی ہو۔ اگرچہ تعلیم یافتہ تو ہونگے،محققین ہونگے، سیاست دان ہونگے، مختلف ممالک کے ذمہ دار بھی بنیں گے۔(لیکن ان کے مطابق۔)اب ایک سامراجی نظام کے لئے اس سے اچھی بات کیا ہوگی کہ ایک ملک اور اس کےمفکرین،صاحبان نظر اور حکام انہیں کے ہم فکر اور ہم نظر ہوجائیں اور انہیں کی طرح کام کریں؟ان کا کام آسان ہوجائےگا۔ استعماری طاقتوں کا ثقافت کے بارے میں منصوبہ یہ ہے۔ اگرچہ یہ آج کا پروگرام نہیں ہے ممکن ہے دس سال تک اس منصوبے پر کام کرتے رہیں۔
مغرب کے سیاسی مفکرین متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اب انیسویں صدی کے استعمار کی طرح ملک پر قبضہ کرنے،وہاں پر فوجی حکومت قائم کرنے،دولت خرچ کرنے،اسلحے بھیجنے اور جنگ کرنے سے بہتر،آسان اور کم خرچ والا کام یہ ہے کہ اس ملک کے برجستہ اور منتخب افراد کو اپنے یہاں لائیں اور ان کے ذہنوں میں اپنی فکر ڈالیں اور انہیں دوبارہ ان کے ملک بھیج دیں،وہ وہاں ہمارے ایسے سپاہی ہوں گے جو بغیر تنخواہ اور اسکے اخراجات بھی خود ہی اٹھائیں گے۔
جو وہ چاہیں گے کریں گے۔کیا آج آپ ایسی حکومتوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں ؟ہمارے علاقے میں اس قسم کی حکومتیں کیا کم ہیں؟جو وہی بات کرتی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے، وہی کام کرتے ہیں جو امریکہ چاہتا ہے؛اس کے اخراجات بھی وہی حکومتیں برداشت کرتی ہیں اور کام بھی انہیں کا کرتی ہیں۔ یعنی اس سے کوئی حق بھی نہیں لیتے بلکہ الٹا اسے ہی دیتے ہیں۔اس کے بدلے میں امریکہ بس اتنا کرتا ہے کہ مخالفین کے ہاتھوں ان کی حکومت کو گرنے سے بچائے رکھتاہے۔ ہماری نسل کے لئے انکا ایک پروگرام یہ ہے؛ یہی طالبعلم جو آپ کے زیر تربیت ہیں ان کے لئے انکے لئے دشمنوں کا یہی منصوبے ہیں، اب کس قدر کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے ہیں،یہ ایک دوسری بحث ہے،لیکن بہر حال پروگرام یہ ہے۔اوراسی لئے اپنی فکر، ثقافت اور زبان کی ترویج کررہے ہیں۔
میں نے کبھی اسی جگہ تعلیم و تربیت کے ذمہ داروں سے یہ بات کہی تھی، شاید موجودہ ذمہ داران سے نہ کہی ہو لیکن پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں؛ملک میں انگریزی زبان کی ترویج پر اس قدر اصرار درست کام نہیں ہے۔ صحیح ہے کہ دوسرے ممالک کی زبانیں سیھکنی چاہئیں لیکن وہ صرف انگریزی تک محدود نہیں ہے،علم کی زبان صرف انگریزی نہیں ہے، کیوں مدارس میں کسی دوسری زبان کو زبان کے درس کے عنوان سے معین نہیں کرتے؟ کیوں اتنا اصرار ہے؟ یہ طاغوتی اور پہلوی دور کی میراث ہے۔ مثلا ہسپانیائی زبان؛آج ہسپانیائی بولنے والے انگریزی بولنے والوں سے کم نہیں ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک لاطینی امریکہ اور افریقہ میں یہ زبان زیادہ بولی جاتی ہے۔اگرچہ میں ہسپانیائی زبان کا مروج نہیں ہوں بلکہ بطور مثال یہ عرض کررہا ہوں،کیوں فرانسیسی یا جرمن زبان نہیں سکھائی جاتی؟ مشرقی ترقی یافتہ ممالک کی زبانیں کوئی بیکار تو نہیں ہیں،یہ بھی علم کی زبانیں ہیں۔ جناب؛دیگر ممالک میں اس مسئلہ پر توجہ دی جاتی ہے اور اجنبی زبان کے نفوذ، اس کی مداخلت اور اس کی توسیع کو روکا جاتاہے۔ آج ہم کیتھولک پاپ سے زیادہ کیتھولک ہوگئے ہیں کہ سب کے لئے راستے کھول دیئے ہیں۔ نہ صرف مدارس میں غیر ملکی زبان کو انگریزی تک محدود کردیا ہے بلکہ اس کو نچلے طبقے یعنی پرائمری اسکولوں اور نرسری تک لے آئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ہمیں فارسی زبان کی ترویج کرنی چاہئے اس کے سلسلے میں زحمت کرنی چاہئے۔ اگر کہیں زبانی نشستوں کو روکا جاتا ہے تو ڈپلومیٹ پوچھیں کہ کیوں یہ نشستیں بند کی گئی ہیں، کیوں ہمیں طالبعلموں کو لانے کی اجازت نہیں دیتے کیوں ہمیں یہ حق نہیں دیتے کہ ہم کہیں فارسی زبان کی ترویج کریں؛ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ خود اپنی دولت ، زحمت اور خرچ سے ان کی زبان کی ترویج کررہے ہیں۔ کیا یہ معقول بات ہے؟میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ میں نے یہ بات اہم بنا کر اس لئے کہی تاکہ سب سمجھ سکیں اور سب متوجہ ہوجائیں ۔اب میں یہ نہیں کہتا کل ہی جاکر مدارس سے انگریزی زبان کی تعلیم ہی بند کردیں؛یہ جان لیں کہ دشمن کس طرح کی نسل ہمارے ملک میں تربیت کرنا چاہتا ہے،کن خصوصیات کے ساتھ۔
بہرحال بین الاقوامی سامراجی نظام ایسی نسل چاہتا ہے۔ لیکن ہم کیا چاہتےہیں؟ کس قسم کی نسل چاہتے ہیں؟ یہ حلف نامہ بہت اچھا ہے، میرے یہاں آنے سے پہلے مجھے یہ دکھایا گیا میں نے اسے دیکھا ہے؛اور غور سے سنا ہے۔ ضمنا میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے قسم کھالی تو آپ پر وہ عمل لازم ہوجاتا ہے، نیت کے ساتھ انسان جو قسم اٹھاتا ہے وہ اس پر واجب الادا ہوجاتی ہے،اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے،اس قسم کا مضمون بہت اچھا ہے، بہت اچھا حلف نامہ تیار کیا ہے۔
ہمیں سب سے پہلے اپنے طلاب میں جو چیز پیدا کرنی چاہئے وہ مستقل قومی اور مذہبی شناخت اور شخصیت ہے؛یہ پہلی چیز ہے؛مستقل اور باعزت شخصیت۔جوانوں کو ایسا بنائیں کہ وہ مستقل سیاست، مستقل معیشت اور مستقل ثقافت چاہیں،دوسروں کی محتاجی،ان کی طرف رجحان اوردوسروں پر بھروسہ کی فکر ان میں پیدا نہ ہو۔اس طرح ہمیں نقصان ہوگا؛ میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ جیسے ہی ایک فرنگی لفظ ملک میں داخل ہوتا ہے سب چھوٹے،بڑے،عمامے اورغیر عمامے والے سب اس کو استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں،کیوں؟ ہم فرنگی تعبیرات کو استعمال کرنے کے لئے اتنا بے چین کیوں رہتے ہیں؟یہی وہ چیز ہے جسے ہمارے لئے میراث میں چھوڑا گیا ہے،یہ وہی طاغوتی زمانہ کی حالت ہے۔مجھے یاد ہے؛میں خود اس وقت جوان تھا گویا ہم نے زیادہ سے زیادہ فرنگی الفاظ کے استعمال کا مقابلہ شروع کیا ہوا تھا۔اس وقت جو اس قسم کی تعبیرات کو استعمال کرتا تھا اس کو روشنفکر اور تعلیم یافتہ شمار کیا جاتا تھا۔ یہ غلط ہے۔سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے جوانوں اور نوجوانوں میں مستقل شناخت اور شخصیت کی تربیت کریں اور اس کو ترقی دیں۔اس کے بعد استقامتی معیشت معنی پیدا کرے گی۔ایسا نہیں ہےکہ جب ہم استقامتی معیشت کا ارادہ کریں تو اہلکار بیٹھ کرمسلسل کئی اجلاس بلائیں،پروگرام بنائیں،قانون بنائیں اور اس کے بعد باوجود جو کام ہونا چاہئے وہ نہ ہوسکے۔اگرچہ ابھی بھی استقامتی معیشت کے لئے کوششیں جاری ہیں لیکن اگر انسان میں استقلال،استقامت اور مقابلے کا جذبہ نہ ہوتو کام بہت ہی مشکل ہوجائےگا۔ اگر ہماری عادت یہ ہوجائے کہ اپنے ذخیرہ شدہ مال یعنی تیل کو بغیر قیمت میں اضافہ کئے نکال نکال کر بیچتے رہیں تو یہ بات مناسب نہیں،ہاں اگر اس کی قیمت بڑھتی ہے تو یہ مناسب بات ہے،کیونکہ ہر عاقل اور سمجھدار انسان کچھ چیزیں ذخیرہ کرتا ہے،اور ہمارے پاس بھی خداداد ذخیرہ یعنی تیل موجود ہے۔بعض ممالک کے حکام آتے ہیں اور ہم سے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ آپ کا تجاری رابطہ مساوی نہیں ہے،آپ ہم کو زیادہ بیچتےہیں اور ہم سے کم خریدتے ہیں، میں نے ان میں سے کئی افراد سے یہ کہا کہ آپ جو ہم سے خریدتے ہیں بہترین تیل ہے یعنی بہترین دولت، یعنی سونا، ہم اپنا تیل بغیر اس کی قیمت بڑھائے ہوئے دیتے ہیں، اپنی ثروت کو زمین سے نکال کرآپ کو دیتے ہیں۔ اس کو تجارتی برابری کے درجہ میں نہیں رکھنا چاہئے۔ یہ اہم ہے۔ جب مستقل شناخت ہوگی تو اس وقت زندگی اس طرح کی نہیں ہوگی،اس وقت استقامتی معیشت تیل پر انحصار کے بغیر معنی دار ہوجائیگی، مستقل ثقافت معنی دار ہوجائےگی۔
ہمیں اپنے ممتاز اور برجستہ اصولوں کو طالبعلموں میں زندہ کرنا چاہئے؛ جی ہاں؛ جیسا کہ اس حلف نامہ میں بھی لکھا ہے کہ ہماری ذمہ دارای ہے کہ طلبہ کے اندر خداداد اورفطری صلاحیتوں کو سرگرم کریں؛ یہ کام ہونا چاہئے؛ پروردگار نے ہم میں اور آُپ میں، ہم سب میں کچھ صلاحتیں رکھیں جنہیں بڑھایا جاسکتا ہے، ان کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ا س کو ان بچوں میں سرگرم کریں تاکہ وہ ترقی کرسکیں۔
یہ اصول ہیں؛ ان میں محرک اور کام کرنے والی فکر پیدا کریں، انہیں زندہ کریں، ان میں ایمان، فکر کرنے اور سیکھنے کی صلاحیت پیدا کریں؛ معاشرت اور اجتماعی ترقی سے قریب اور معاشرہ کو خراب کرنے والے عناصر سے دور کریں۔ ایک دوسرے کا نگراں رہنا یہ بہت اہم اسلامی صفت ہے۔
اب درست استعمال کی پالیسی کی بات؛ میں اس سلسلے میں متعدد مرتبہ گفتگو کرچکا ہوں، سال کی ابتدا میں، اہلکاروں کے ساتھ ،خصوصی گفتگو میں، عام جلسات وغیرہ میں، لیکن درست استعمال کی ہماری پالیسی ابھی تک ٹھیک نہیں ہوپائی ہے؛ ہم غلط طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ یہ بیرونی مصنوعات کا معاملہ جس کے سلسلے میں ابھی چند روز قبل (۵)میں نے گفتگو کی تھی، اسی قسم کا ہے۔ دسیوں بلکہ سیکڑوں بلین کا یہ اسمگلنگ کا سامان بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ یہ نئے دولت مند گھرانوں کے جوان امپورٹڈ گاڑیوں میں سڑکوں پر پھرتے رہتے ہیں، پوز مارتے پھرتے ہیں، اپنی دولت کا اظہار کرتے ہیں، یہ سب اسی وجہ سے ہے؛چیزوں کو درست استعمال،یہ بہت اہم چیز ہے اس چیز کو بچپن سے بچوں کو سکھانا چاہئے۔
مخالف کو برداشت کرنا اور رواداری بھی بہت اہم؛ اگر کسی سے ہمیں ذرا سا دھکا لگ جائے اور ہم فورا اس کو گھونسہ جڑ دیں تو یہ عدم برداشت اور عدم رواداری ہے۔ اسلام ہم سے یہ نہیں چاہتا، اسلام ہم سے اس کا برعکس چاہتا ہے۔ وہ ’’ رُحَمآءُ بَینَهُم ‘‘(۶) چاہتا ہے۔
(ایک اور اصول) باادب اور مؤدب ہونا ہے۔ عام طور سے آپ سب انٹرنیٹ سے آشنائی رکھتے ہیں،ا ٓپ انصاف سے بتائیے کہ کیا انٹرنٹ پر ادب کی رعایت ہوتی ہے؟ شرم وحیا کا لحاظ رکھا جاتا ہے؟ ہرگز نہیں ہوتا ؛ یا اکثر موارد پر نہیں ہوتا ہے۔ ان باتوں سے جوانوں اور نوجوانوں کو آگاہ کیجئے۔
دینداری اپنانا اور اشرافیہ زندگی سے دوری؛ انہیں اشرافیہ زندگی سے دور کریں، اگر میں لھکنا شروع کروں تو ایک لمبی فہرست ہوجائے گی ان مسائل کی، بہرحال اصول میں نے بیان کردیئے۔
آپ انہیں انجام دیجئے،یہ آپ کا کام ہے،یہ مقدس کام ہے۔آپ اس نسل کی تربیت کررہے ہیں،آپ بہترین معاشرہ بنا رہے ہیں،اگر آپ جوانوں کے ذھنوں کو اس فکر کی طرف حرکت دینے میں کامیاب ہوگئے تو واقعی آپ نے ملک کے مستقبل کے لئے ایک بہت بڑی خدمت انجام دی۔ خوش قسمتی سے استاد کی خصوصیت یہ ہے؛ کیونکہ وہ تعلیم دیتا ہے،سکھاتا ہے،طالب علم کی زندگی پر فطری طور پر اسکا ایک روحانی اور ثقافتی اثر ہوتا ہے۔اگرچہ کلاسوں میں کچھ بد اخلاق طالبعلم بھی ہوتے ہیں، مجھے ان سے کوئی مطلب نہیں؛ میں نے ایک عام بات کہی ہے کہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے؛ حوزہ علمیہ میں ایک طالب علم استاد کے سامنے ایک فرمانبردارغلام کی مانند ہوتا ہے؛ اگرچہ جدید ثقافت میں اس طرح کا رابطہ نہیں ہے لیکن پھر بھی استاد کا شاگرد پر ایک اثر ہوتا ہے۔ آپ اس اثر کو استعمال کرسکتے ہیں۔
اس راہ میں مختلف ادارے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں ایسا کام کرسکتے ہیں جس کے سبب معلم اور اساتید کا کام آسان ہوجائے اور وہ اپنے اس مذکورہ حلف کے مضمون کے پابند رہ سکیں۔
ان اداروں میں سے ایک تعلیم وتربیت کی معاونت کا ادارہ ہے،خوش قسمتی سے اس ادارہ نے کام شروع کردیا ہے لیکن ابھی یہ کافی نہیں ہے،اس ادارے کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔کوشش سے لبریز،بامقصد، ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ محفوظ سرگرمیاں اس طرح انجام دینا کہ اعتقاد، سیاست اور اخلاق سب محفوظ رہ سکیں۔ اگر اخلاق، عقاید اورسیاست میں سے کسی ایک میں بھی غلط راہ اختیار کرتے ہیں تو تعلیم و تربیت اور اس نسل کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
اس میدان میں ایک ذمہ داری نشریاتی ادارے کی ہے؛ نشریاتی ادارہ بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میں نے گذشتہ برس بھی یہ بات کہی تھی(۷) لیکن اس پر عمل نہیں ہوا، یعنی جس طرح سے ہونا چاہئے تھا عمل نہیں ہوا۔ نشریاتی ادارے کا ایک پروگرام تعلیم و تربیت سے مخصوص ہونا چاہئے۔ اہل فکر افراد بیٹھیں اور اس سلسلے میں پروگرام تیار کریں۔
ابھی چند روز قبل، شاید پچلھے ہفتے ہی اسی امام بارگاہ میں کچھ جوان اور نوجوان طلاب تھے ان سے گفتگو ہورہی تھی۔(۸)ان میں سے ایک طالب علم نے مجھے ایک خط دیا اس میں بہت مناسب بات لکھی تھی کہ نشریاتی اداراے کے پاس بچوں اور بزرگوں کے لئے تو پروگرام ہیں لیکن ہم ہائی اسکول کے نوجوانوں کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ میں نے غور کیا تو دیکھا وہ صحیح کہہ رہا ہے اس کی بات صحیح ہے۔ان نوجوانوں کے لئے کون سا ایسا پروگرام ہے جس سے وہ اپنے دینی ،فکری،روحی اور علمی امور میں استفادہ کرسکیں۔ اگرچہ بعض چینلوں پر علمی پروگرام نشر ہوتے ہیں لیکن ایک منظم پروگرام کے تحت نہیں ہیں،انہیں با ضابطہ طور پر شروع ہونا چاہئے۔ یہ ایک ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے۔
ایک دوسرا شعبہ مواصلاتی ادارہ اور اس کی وزارت ہے،آج انٹرنیٹ کا دائرہ ہماری زندگی کے حقیقی دائرے سےکہیں زیادہ بڑا ہوچکا ہے۔ کچھ لوگ تو جیتے ہی انٹرنیٹ میں ہیں، انکی سانسیں ہی اس میں چلتی ہیں، جوانوں کا سروکار بھی بہت زیادہ انٹرنیٹ سے ہوگیا ہے، انواع واقسام کے کام، علمی کام ، سوشل نیٹ ورکنگ، مذہبی سرگرمیاں وغیرہ؛ لیکن بہرحال یہ لغزش کی جگہ ہے۔ یہاں کوئی روکنے والا نہیں ہے، اگر آپ کو کہیں راستہ بنانے کی ضرورت ہے تو بنائیے لیکن احتیاط رہے ایسی جگہ سے راستہ ہرگزنہ نکالئے جہاں پر پہاڑ گرنے یا پتھر گرنے کا امکان ہوں۔ مجھے اپنے مواصلاتی ادارے اور اس کی وزیر محترم اور نیٹ ورکنگ کونسل سے یہی شکایت ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ اس کو بند کردیں،یہ تو نامعقول بات ہوگی،کچھ لوگ بیٹھے انہوں نے غور و فکر کے بعد انٹرنیٹ یا خود ان کے بقول سایبر کا راستہ کھولا ؛ یہ اچھی بات ہے لیکن اس کا استعمال صحیح ہونا چاہئے؛ دوسرے اس کا صحیح استعمال کررہے ہیں۔ بعض ممالک نے اپنی ثقافت کے مطابق اس پر قبضہ کررکھا ہے؟ تو ہم اپنی ثقافت کے مطابق اس کا استعمال کیوں نہ کریں؟ ہمیں اس کا خیال کیوں نہیں ہے۔ ہم اس کو بے لگام اور بغیر نظم و ضبط کیوں چھوڑے ہوئے ہیں۔اس کے کچھ ذمہ دار ہیں اور ایک ذمہ داری مواصلاتی ادارے کی وزارت ہے۔
ان سب کو ادارہ تعلیم و تربیت کی مدد کرنی چاہئے؛ یہ شعبہ اکیلے سارے کام انجام نہیں دے سکتا ہے؛ سب اس کی مدد کریں۔ یہ جو میں کہتا رہتا ہوں کی ادارے ملکر تعلیم و تربیت کی مدد کریں وہ مدد یہی ہے؛ سب کے ذہن مالی اور مادی مدد کی طرف ہی نہ جائیں؛اس طرح کی مدد بھی کریں تاکہ ادارہ تعلیم و تربیت اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے اور اپنے کام کو انجام دے سکے۔
ایک کام جو تعلیم وتربیت کے میدان میں ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ مدرس اور معلم کے اندر شادابی اور نشاط کا جذبہ پیدا کرنا ہے؛ مدرس کو بوڑھا اور فرسودہ نہ ہونے دیجئے۔ میری مراد عمر کے لحاظ سے بوڑھا ہونا نہیں ہے؛بعض لوگ عمر سے تو جوان ہیں لیکن جذبے کے اعتبار سے بوڑھے ہیں، بعض کا جذبہ جوان ہے لیکن عمر کے لحاظ سے بوڑھے ہیں۔ جوان ہیں اگرچہ ان کی عمر زیادہ ہے۔ میں ایسے مدرس کو بھی جانتا ہوں کہ اس کی عمر ستر سال ہوچکی ہے لیکن اب بھی تدریس کررہا ہے اور اس کام سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ اسے کام کی قیمت اور اہمیت ہے۔ تعلیم و تربیت کے میدان میں یہ جذبہ زندہ کیجئے۔
ہمارا تعلیمی نظام قدیمی اور فرسودہ ہوچکا ہے، یہ فکر ہم نے اہل مغرب سے لی ہے کہ ایک چیز مقدس بناکر میوزیم میں رکھ دی جائے کہ کوئی اس کو ہاتھ نہ لگائے۔بس کبھی کبھی اس کو ایک جگہ سے اٹھا کردوسری جگہ رکھ دیاجاتا ہے۔ یہ قدیمی باتیں ہیں،ہمیں اس نظام میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ابھی وزیر محترم نے تبدیلی کے پروگرام کی طرف اشارہ کیا ہے یہ اس راہ میں اچھا قدم ہے؛لیکن اس سلسلے میں ایک بات کہہ دوں کے تجدید کے عمل میں دوسروں کی طرف نگاہ نہ کریں کہ مثلا یورپ والوں نے ایسا کیا ہےتو ہم بھی ایسا ہی کردیں، اگرچہ تجربات سے مدد لی جاسکتی ہے لیکن اہل فکر و نظر بیٹھیں خود پروگرام تیار کریں، نیا نظام تیار کریں۔ ابھی جو یہ تبدیلی کا پروگرام تیارکیا گیا ہے ظاہرا ایک اچھا قدم اٹھایا گیا ہے؛ اسی کو سنجیدگی اور تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے اور عملی کیا جائے؛ دیکھیں،غور کریں کہ کہاں مشکل ہے ۔بہرحال ہر غیر خدائی اور بشری تحریر میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی ضرور رہ جاتی ہے؛ دیکھیں وہ کمی کیا ہے۔ ان کمیوں کی شناسائی کریں، کہاں پر نقص ہے اسے تلاش کریں،اس کو ختم کریں اور پروگرام کو منظم کریں۔
تعلیم و تربیت میں ایک چیز جو بہت اہم ہے وہ یہی ’’فرھنگیان یونیورسٹی‘‘ہے جہاں اساتذہ کی ٹریننگ ہوتی ہے، یعنی ہمارے جوان طلاب وہاں جاتے ہیں اور ٹریننگ لیتے ہیں،یہ بہت اہم بات ہے،اس گروہ کی توسیع کے لئے جس قدر ہوسکتا ہے،سرمایہ کاری کریں؛ان تمام معیارات کے ساتھ جو ایک استاد کے لئے ضروری ہیں۔میں نے ابھی عرض کیا کہ یہ قسم جو آپ نے اٹھائی ہے اس کا مضمون اچھا تھا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس پر عمل کریں،اس کے پابند رہیں،اگرچہ کم مدت کے تعلیمی کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں لیکن یہ بہت زیادہ فائدہ مند نہیں ہیں۔
تعلیم و تربیت میں ایک مسئلہ جو بہت اہم ہے وہ ٹیکنکل اور پیشہ ورانہ ہونے کا مسئلہ ہے ،اس بات کومیں کئی بار تکرار کرچکا ہوں،ہمارا بچہ بارہ سال سے جوانی تک پڑھتا رہتا ہے تاکہ یونیورسٹی جاسکے،کیا معاشرے میں کوئی اور کام نہیں ہے،ضروری ہے کہ وہ یونیورسٹی تک کا راستہ طے کرے؟جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ نوھزار قسم کے کام موجود ہیں،کیا ان نو ھزار قسم کے کاموں میں سے سب کے لئے یونیورسٹی جانا ضروری ہے؟یا نہیں بلکہ مقصد مہارت میں اضافہ کرنا ہے، مختلف کاموں کے لئے ماہرین تیار کرنا مقصد ہے،مختلف صلاحتیں تلاش کرنا ہے؛ لوگ فنی کاموں کے ماہر ہیں اگر انہیں کوئی صنعتی چیز دے دی جائے تو وہ نہیں کرپائیں گے،بعض اس کے برعکس ہیں،وہ صنعتی کاموں میں ماہر ہیں؛ایک شخص فسلفی اور فکری علوم کی صلاحیت رکھتا ہے،کوئی اجتماعی کام کرنے میں ماہر ہے تو کوئی خدماتی کام کرنا چاہتا ہے، دیکھئے کس میں کیا صلاحیت ہے اسکی شناسائی کیجئے پھر جس میں جو صلاحیت ہے اس کو اور نکھارئے تاکہ وہ بہتر طور پر کام کرسکے،اس میں ایجاد اور تخلیق کی صلاحیت پیدا ہوجائے،ہم سب ایجادات پر تکیہ کرتے ہیں تو ایجادات اور اختراعات کون کرسکتا ہے؟ ہر عام آدمی تو ایجادات نہیں کرسکتا ہے،اس کام کے لئے ایسا شخص چاہئے جو ماہر ہو تاکہ اخترعات کے کام کو انجام دے سکے۔
ایک مسئلہ زمانہ طاغوت کے ناموں کے استعمال کا ہے کہ بعض لوگ اس پر بہت زور دیتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں طاغوتی زمانے کی اصطلاحات کو ہی استعمال کریں؟اس زمانے کی اصطلاحات کے پیچھے کچھ خاص معنی ہوا کرتے تھے۔ جس طرح اسلامی جمہوریہ کچھ تعیبرات استعمال کرتی ہے جس کے پیچھے کچھ معنی ہیں جیسے استعمار، مستضعفین، سامراجی نظام؛ یہ وہ تعبیریں ہیں جنہیں دوسرے ممالک کے سیاسی ماہرین اور سرگرم افراد نے ہم سے لیا ہے۔ کیا ضرورت ہے اس زمانے کی اصطلاحات کو استعمال کرنے کی؟ مثلا ہمارے جو اسکاؤٹ ہیں،یہ جو طلاب ہیں،یہ جو ’’گروههای پیشتاز دانشآموزی‘‘ یعنی طلاب اسکاؤٹ گروپ یا طلاب کی اسلامی انجمن ہے،یہ سب جمہوری اسلامی کی تعبیرات ہیں۔انہیں استعمال کریں،کیا ضرورت ہے کہ ہم قدیمی اصطلاحات کے پیچھے بھاگیں؟
ایک بات میں موجودہ مدارس کے بارے میں بھی عرض کردوں۔ بنیادی قانون کے مطابق جیسا کے سب کو معلوم ہے کہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے اس کا سارا بوجھ حکومت ہی اٹھائے۔ اگرچہ تعلیم و تربیت کے مسئلہ میں حکومت کا سب سے اہم کردار ہے۔ یہ جو مسلسل سرکاری کو پرائیویٹ کیا جارہا ہے مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی مستحکم کام ہوگا؛ اگرچہ اس کا نام ’’پرائیویٹ ‘‘اسکول رکھا گیا ہے یعنی کوئی فائدہ نہیں،جبکہ یہ اسکول مکمل طور پر ’’انتفاعی‘‘یعنی مفاد حاصل کرنے والے ہیں؛ میں نے سنا ہے بعض اسکولوں میں بہت زیادہ فیسیں لیتے ہیں۔ ہم اپنے اسکولوں کی سطح کو اوپر لائیں لوگ خود بخود ان اسکولوں کی طرف رغبت پیدا کریں گے۔
وقت زیادہ ہوگیا ہے،ہماری گفتگو طولانی ہوگئی، میرے عزیزو؛ا ٓپ سے ہماری گزارش ہے کہ ملک کی تعمیر کیجئے،آپ کو ملک کی تعمیر کرنی ہے،کیجئے۔وہ عناصر جو ملک بناسکتے ہیں ان میں سے ایک آپ مدرسین اور اساتذہ ہیں؛اس فرصت سے فائدہ اٹھائیے؛ اپنی توانائیوں کو استعمال کیجئے۔خوش قسمتی سے وزیر محترم کے بارے میں ،میں نے سنا ہےکہ الحمد للہ فکر و عمل کے لحاظ سے بہترین انسان ہیں،اور مورد قبول ہیں؛اس فرصت سے فائدہ حاصل کیجئے۔اگرچہ وزیر محترم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے معاون افراد بھی فکر وعمل کےلحاظ سے ایسے ہونے چاہئے کہ جن پر اس عظیم کام کے سلسلے میں اعتماد کیا جاسکے۔آپ ملک کو بنائیں،اس کو طاقتور بنائیں،طاقت صرف اسلحہ سے نہیں آتی؛سب سے بڑی طاقت اور طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ علم اور قومی شناخت اورشخصیت ہے۔ شخصیت، استقامت، شناخت، انقلابی شناخت؛ یہ ایسے عناصر ہیں جو طاقتور بناتے ہیں۔ایمان اور انقلاب نے ہماری قوم کو طاقت عطا کی ہے۔اگر آپ کے پاس طاقت ہوگی تو دشمن کو خود بخود پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اگر دشمن کے پیش نظر ہماری طاقت نہیں ہوگی اور ہم اپنی طاقت کی بنیادوں کو سامنے لانے سے پرہیز کریں گے، ڈریں گے تو اس میں جرات پیدا ہوجائے گی۔ آج دشمن جو بڑی بڑٰی باتیں کررہا ہے ایرانی قوم ان سب کا جواب دے سکتی ہے۔وہ بیٹھتے ہیں پروگرام تیار کرتے ہیں کہ ایران خلیج فارس میں فوجی مشقیں نہ کرسکے؛کتنی عجیب وغریب بات ہے کہ وہ دنیا کے اس طرف سے آتا ہے اور یہاں آکر فوجی مشقیں کرتا ہے؛تم یہاں کیا کررہے ہو؟جاؤ وہیں خنزیروں کے خلیج میں جاکر جو مشق کرنی ہے کرو۔خلیج فارس میں تم کیا کررہے ہو؟خلیج ہمارا گھر ہے۔ خلیج فارس عظیم ایرانی قوم کی جگہ ہے؛خلیج فارس ساحل بشمول دریای عمان کے بہت سے سواحل کا تعلق ایرانی قوم سے ہے؛ایرانی قوم کو یہاں ہونا چاہئے،مشقیں کرنی چاہئے،اظہار قدرت کرنا چاہئے۔ ہم ایک تاریخی اور طاقتور قوم ہیں؛اگرچہ کچھ سیاہ چہرے والے بادشاہ آئے اور انہوں نے اس ملک کو پیچھے کردیا اور اس کے چہرے پر خاک ڈالنے کی کوشش کی۔خیر وہ اپنی قبروں میں گم ہوگئے۔بہرحال یہ ایک عظیم اور بیدار قوم ہے،کیا یہ دوسروں کو اجازت دے گی؟بہرحال ان مداخلت کرنے والوں،خود خواہ اور اجارہ دار طاقتوں سے مقابلے کی ضرورت ہے، میں کہ چکا ہوں کہ وہ ہم سے شکست کھاچکے ہیں؛ان کی شکست کی دلیل یہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ جمہوری اسلامی باقی نہ رہے،جبکہ جمہوری اسلامی نہ تنہا باقی بلکہ اس طاقت پہلے سے دس گنا زیادہ ہوگئی ہے۔یہ بات ہمیں قرآن نے سکھائی ہے: تُرهِبونَ بِه عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم ؛(۸) خود کو اس طرح آمادہ کیجئے کہ دشمنان خدا اور آپکے دشمن،آپ سے خوفزدہ رہیں۔ میری مراد پڑوسی ممالک نہیں ہیں، رقیب نہیں ہیں، وہ ممالک نہیں ہیں جو ہم سے دشمنی نہیں کرتے؛ دشمن یعنی وہ جو دشمنی کرتا ہے اور اس کو سب پہچانتے ہیں۔
پروردگار سے دعا گو ہوں کہ ہم سب کو اپنی مرضی اور رضا کے راستہ پر چلنے اور اس کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،کل انشا اللہ یہ ملک آپ کی فعالیت اور نورانی جوان کی برکت سے ایک ایسا ملک ہوگا جو ہم سب کی سعادت کا سب قرار پائیگا۔
والسّلام علیکم و رحمةالله وبرکاته
۱۔اس ملاقات کی ابتدا میں ’’فرھنگیان یونیورسٹی‘‘کے طالبعلموں نے تدریس اور اس کے فرائض کی قسم کھائی اور رہبر انقلاب کے سامنے حلف اٹھایا۔
۲۔ اقبالالاعمال، ج ۱، ص ۱۲۳ تھوڑے فرق سے۔
۳۔ گلستان، مقدّمه
۴۔ ۱۳۹۵/۲/۸ کو مزدور طبقہ سے خطاب
۵۔سورہ فتح آیہ ۲۹ کا ایک حصہ،’’ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہیں۔۔۔‘‘
۶۔۱۳۹۴/۷/۲۰ کو نشریاتی ادارے کے ذمہداران سے خطاب
۷۔ ۱۳۹۵/۲/۱ کو ملک بھر کے طلاب کی اسلام انجمون کے اراکین سے خطاب
۸۔ سورهی انفال، آیهی ۶۰ ویں کا کچھ حصہ۔