بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.
میرے عزیزوں خوش آمدید؛یہ جلسہ میرے لئے بہت ہی خوشگوار اور پسندیدہ جلسہ ہے؛ جوش و جذبہ اور نشاط وشادابی کے ساتھ ان جوانوں کی شرکت اور ان اچھی باتوں اورشیرین کلام نے اس جلسے کو واقعی چار چاند لگا دئے ہیں۔اورانشا اللہ آج کا دن انشاء اللہ ایک یادگار دن رہے گا۔
سب سے پہلے ماہ رجب کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ہر انسان کے اندر ایک معنوی اورلطیف پہلو موجود ہوتا ہے۔اور انسان مختلف پہلؤوں کا مجموعہ ہے اس کے اندر فطری خواہشات،رجحانات اور ضرورتیں پائی جاتی ہیں ۔اور انسان کا ایک پہلو معنویت ہے اور یہ بہت ہی لطیف پہلو ہوتا ہےاور یہ پہلو ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔اور جوانی کے ایام میں اس کی لطافت زیادہ صاف اور شفاف ہوتی ہے۔اگر ہم انسان اپنے اندر اس پہلو کو قوی اورمضبوط کرلیں تو یہ خود ہی دوسرے پہلووں کی ھدایت کردیگا۔ ایسا نہیں ہے یہ کہ معنویت،ہماری فطری خواہشات، ضرورتوں،سوچنے اور تعقل و تفکر سے روک دیتی ہے۔یہ تمام چیزیں اپنی جگہ محفوظ رہتی ہیں۔اگر یہ ہمارے اندر باقی رہے اور ہم اس کی تقویت کرتے رہے تو انسانیت کا یہ معنوی پہلو دوسرے پہلوؤں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
دنیا میں جتنے خبیث صفت افراد کا آپ مشاہدہ کرتے ہین وہ یا ظالم و سفاک افراد ہیں،دنیا پرست ہیں یا پیسے کے لالچی ہیں، شہوت پرست ہیں،یا شکم پرست ہیں۔ ان سب پر مادیات کا غلبہ ہے۔ان لوگوں نے اپنے اندر معنویت کی تقویت نہیں کی اور اس کے رشد کے اسباب فراہم نہیں کئے۔(جس کےنتیجے میں)معنویت تدریجی طور پر انکے اندر کمزور ہوتی گئی اور آخر میں بالکل ختم ہوگئی۔ میں آپ تمام جوانوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ماہ رجب کے موقع سے فائدہ حاصل کیجئے اوراپنے اندر کے اس معنوی پہلو کی تقویت کیجئے۔
ماہ رجب کے بعد ماہ شعبان اور اس کے بعد ماہ رمضان بھی ہے۔ معنویت کی بہارہے۔اور آپ حضرات،ابھی جیسا کہ حاج علی اکبرمحمودی صاحب نے فرمایا، آپ بہار انسانیت کا مظہر ہیں؛ چونکہ آپ عمرکی بہارمیں ہیں پس اس بہار معنویت سے جس قدر ہوسکے فائدہ حاصل کرلیں۔ یہ مہینہ ہم سب کے لئے بہترین موقع ہے لھٰذا خاص طور پر آپ جوان حضرات اس سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں،اس مہینے میں یاد خدا،ذکر خدا،اس مہینے کی مخصوص دعائیں اور ان کے معنیٰ پر غور و فکر کریں، قرآن کی تلاوت کریں، اوّل وقت نماز پڑھیں، گناہوں سے پرہیز کریں اوراپنے اندر بہترین اخلاق پیدا کریں؛ اس مہینے سے اسی طرح فائدہ حاصل کریں جیسے مادی مواقع سے کرتے ہیں۔ مثلا ایک میدان فرض کیجئے کہ اس کے آخر میں کوئی شے رکھی ہوئی ہے، وہاں کوئی چیز رکھی ہے اور ہم سے کہا جائے آپ لوگ جاکر اسے اٹھالیں جو جلدی پہنچے گا وہ چیز اس کی ہوگی۔ تو پہلے کون وہاں تک پہنچے گا؟ واضح ہے کہ آپ پہنچیں گے کیوں کہ آپ جوان ہیں،آپ میں طاقت ہے،آپکے اندر نشاط اور شادابی ہے۔ میں جب تک وہاں جانے کے لئے اٹھوں گا، آپ پہنچ چکے ہوں گے اور اس کو اٹھالیں گے۔ معنویت بھی بالکل ایسے ہی ہے،آپ حضرات معنویت تک بھی تیز رفتاری کےساتھ بغیر مشکل کے پہنچ سکتے ہیں. وہ نورانی ہستیاں جنہیں آپ نے بھی دیکھا ہے،جو ہمارے زمانے میں موجود تھیں۔ مثلا آیۃ اللہ بہجت رہ،جو ایک نوارنی شخصت تھے؛ سن رسیدہ لیکن بہت نورانی؛ انہوں نے جوانی سے ہی یعنی آپ ہی کی عمر سے،اپنی خودسازی میں مشغول تھے۔ جو لوگ دیر میں اس بات کی جانب متوجہ ہوتے ہیں، ان کی توفیقات کم ہوتی ہیں۔اور جنہیں سرے سے یہ فکر ہی نہیں ہوتی وہ اس نوارنیت اور پاکیزگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔اور دنیا کے دوسرے افراد کے مانند رہ جاتےہیں؛ یہ میری پہلی بات تھی۔
مجھے آپ جوانوں سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔(اگرچہ آپ اپنے کو نوجوان کہتے ہیں لیکن میں آپکو جوان کہکر خطاب کررہا ہوں) مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، مخلتف مسائل کے سلسلے میں مختلف باتیں ہیں۔ بہر حال ایک لحاظ سے آپ سب مجھ حقیر کے بھائی اور بہنیں ہیں،اور ایک لحاظ سے میرے بچے ہیں؛ اورایک لحاظ سے میرے پوتے، پوتیاں، نواسے نواسیاں شمار ہوتے ہیں۔ آپ سب میرے لئے عزیز ہیں۔اس زمرے میں،آُپ حضرات جو یہاں تشریف رکھتےہیں وہ بھی شامل ہیں اور وہ کئی ہزار طلاب بھی شامل ہیں جو آپکے پیچھے ہیں اور طلاب کی انجمنوں سے وابستہ ہیں۔ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بارہ ملین طلاب ہیں۔ آپ سب شامل ہیں۔آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔آج میں یہاں ایک اہم بات کہنا چاہتا ہوں جو کہ تمام انجمنوں اور انجمنوں کی تنظیموں سے میرا ایک مطالبہ ہے۔ مقدمے کے طور پر پہلے عرض کردوں کہ:ہم سب استعماری دشمنوں اور ان کے پٹھووں کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں،یہ بات سب جانتے ہیں۔
اس دشمنی کا مرکز و محور امریکہ اور اسرائیل ہیں،اور انکے ساتھی اور پٹھو بعض یہ چھوٹی بڑی طاقتیں ہیں، جنکا آپ مشاہدہ کررہےہیں۔ ہم ان کے ساتھ برسرپیکار ہیں اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران اس محاذ سے برسرپیکار ہے۔ یہ لڑائی کس لئےہے؟ یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ استعماری طاقتوں کے ساتھ ہماری یہ لڑائی کن مسائل اور میدانوں میں ہے؟ اگر میں ان مسائل کو شمار کرنا اور گنوانا شروع کروں تو شاید میں اس وقت (کم سے کم)دس موارد گنوا کروا سکتا ہوں۔ اگر بیٹھ کر سوچیں،غور کریں اورتحقیق کریں تو اس سے زیادہ بھی ہوسکتےہیں، استعمارکےساتھ ہماری لڑائی کے موارد بیس، تیس یا اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔
اب مثلا فرض کریں کہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ ملک کے استقلال اورآزادی کا ہے، اقتصادی آزادی، سیاسی آزادی، ثقافتی آزادی وغیرہ۔۔ استعمار سے ہماری ایک لڑائی اس مسئلے میں ہے۔ دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنا استعماری طاقتوں کی فطرت میں ہے۔ دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں؛یہ لوگ، چاہے، اٹھارہویں اورانیسویں صدی سےلیکر بیسوی تک کے قدیمی استعمارسے تعلق رکھتے ہوں یا جدید استعمار سے متعلق ہوں جو بعد میں ان لوگوں نے خود تشکیل دیا ہے۔ اور اب اسے روزانہ نئے نئے طریقوں سے میدان میں لے کر آرہے ہیں۔انکا مقصد مداخلت ہے؛قوموں اور ملکوں کی بہتری اور انکے مفاد کی راہ میں مداخلت کرنا ان پرمسلط ہونا اوران میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا ہی استعمار کا مقصد ہے۔ پس اگر کوئی ملک چاہتا ہے کہ ان کے اس مقصد کی مخالفت کرے اور اس سے مقابلہ کرے اور اپنے استقلال اور آزادی کا،چاہے وہ ثقافتی، سیاسی یا اقتصادی آزادی ہو، دفاع کرنا چاہے تو یہ فطری بات ہے کہ یہ لڑائی ہوگی؛
استعمار سے ہماری ایک لڑائی تو اس مسئلے میں ہے۔
ان کے ساتھ ہماری لڑائی کا ایک دوسرا مسئلہ (ہماری) پیشرفت و ترقی ہے۔ ملک ایران، اگر بڑی طاقتوں کی طرف توجہ نہیں کی، ان سے بے اعتنائی برتی، ان پر تکیہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے محتاج بنا، اور آگے بڑھتا رہے اور ترقی کرتا رہے تو یہ مثالی ترقی ہو گی، وہ دوسرے ممالک اور قوموں کے لئے نمونہ بن جائے گا۔ اور یہی ترقی ہمارے اور استعمار کے درمیان لڑائی کا ایک سبب ہے؛ ہم یہ ترقی اورکامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہم ترقی کریں۔
جوہری توانائی کے سلسلے میں جس چیز نے استعماری طاقتوں کو ہمارے مقابلہ میں صف آرائی پر مجبور کردیا تھا وہ بنیادی مسئلہ یہی تھا؛اس کے لئے مختلف بہانے بنارہے تھے۔اگرچہ اس کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات تھیں۔ ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہی تھی کہ ایک ملک نے امریکہ اور برطانیہ یا دوسری طاقتوں کی محتاجی کے بغیر جوہری توانائی جیسے انتہائی غیر معمولی علمی مسئلے کو حل کرلیا اور اس تک پہنچ گیا ۔یہ بات انکے لئے بہت اہم تھی۔ان کے لئے خطرہ تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے یہ کامیابی ہمیں مل جائے۔اور میں پورے اطمینان کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ اگر ہم انکی طرف ذرا بھی توجہ کریں گے تو یہ فضائیات و حیاتی ٹیکنالوجی نینو ٹیکنالوجی سے مربوط مسائل اور مختلف علمی مسائل میں بھی مداخلت کرنے لگیں گے اور اس پر بھی اعتراض شروع کردیںگے۔ علمی ،اقتصادی اورتہذیبی و ثقافتی ترقی ان مسائل کا حصہ ہیں جنکے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران، کے استعمار کے ساتھ اختلافات اور لڑائی ہے۔
انکے ساتھ اختلاف کی ایک وجہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور قدرت کے ساتھ موجودگی ہے۔ ایران کی یہ طاقت و قدرت استعمار کی سازشوں کو ناکام بنا دیتی ہے۔ امریکہ نے مغربی ایشیا کے سلسلے میں کچھ پروگرام تیار کئےہوئے ہیں۔ وہ لوگ مغربی ایشیا کو ’’خاورمیانہ‘‘مشرق وسطیٰ کہتے ہیں میں زیادہ تر کوشش کرتا ہوں اپنی زبان سے یہ نام نہیں لوں اوراس کی وجوہات بھی میں بتا چکا ہوں، میں نے ایک بار ذ کر کیاتھا۔ یہ ایک پورا منصوبہ ہے، اپنے دیکھا ہے کہ ادھر گذشتہ دس بارہ سالوں میں یہ لوگ ’’بزرگ مشرق وسطیٰ‘‘ اور ’’جدید مشرق وسطٰیٰ‘‘ جیسی تعبیریں باربار استعمال کرتے رہے ہیں۔یہ ایک پروگرام کےتحت ہے۔
اسی پروگرام کے تحت انہوں نے کچھ کام شروع کئے ہیں لیکن علاقے میں اسلامی جمہوری ایران کی طاقت اور اس کا اثر و رسوخ انکی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ان سے اختلاف اور لڑائی کی ایک وجہ یہ ہے۔
ان سے مخالفت کی ایک وجہ فلسطین کا مسئلہ ہے،ان میدانوں میں سے ایک میدان یہی مزاحمت ہے؛ ایک مسئلہ مغربی ثقافت اور طرز زندگی کا رواج ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک چاہتے ہیں انکی ثقافت ایک ملک میں رائج ہوجائے تاکہ اس ملک اور معاشرے کے برجستہ افراد امریکی،مغربی اور انکے جیسے دیگر ممالک کی سیاست سے مقابلے کے بجائے ان کے پالتو جانوروں میں تبدیل ہوجایئں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو۔اور اسلامی جمہوریہ ایران ایسا ہونے نہیں دیتا۔
بہرحال،میں نے اس محاذ اور لڑائی کے چند نمونے آپکی خدمت میں پیش کئے اور میں نے عرض کیا تھا کہ اگر ایسے ہی زبانی گنوائوں تو شاید دس موارد گنوا پائوں گا لیکن اگر بیٹھیں،غور وفکر کریں اور آپ بھی سوچیں، ہم سب سوچیں تو اس میں، دس،بیس،تیس یا اس زیادہ موارد کا بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
خوب اب میں اپنے مورد نظر اصل مسائل پر آتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی استعمار کے ساتھ لڑائی کی ایک وجہ جوانوں کا مسئلہ ہے۔ جوانوں کے مسئلے کو لیکر اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ ،اسرائیل اورانکے ساتھیوں کے درمیان وسیع پیمانہ پر ایک سافٹ وار اورخفیہ جنگ چل رہی ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے جوان طالبعلموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:’’ آپ لوگ سافٹ وار کے افسر ہیں‘‘(۳)آپ بھی ہیں،آپ سب اس سافٹ وارکے افسر ہیں۔ جب جوان کے اندر جوش وجذبہ ہو، خود اعتمادی ہو، سوچنے اور وہ سوچنے سمجھنےکی صلاحیت رکھتا ہو اور اس میں شجاعت ہو تو افسر ہے، ایک سافٹ وار کا افسر، ایک نرم جنگ کا افسر، یہ جوان کی خصوصیت ہے۔
اب ذرا فرض کریں کہ ایسی شناخت کا حامل افسر جو اسلامی جمہوریہ ایران کے کام آسکے وہ کیسا ہونا چاہئے اور ایسی شناخت کا حامل افسرجو اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے کام کا ہو وہ کیسا ہونا چاہئے؟
ان دونوں کا آپس میں موازنہ کیجئے دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ بہرحال ہماری گفتگو کا موضوع سافٹ وار ہے،اور یہ ظاہری جنگ سے بہت زیادہ خطرناک ہے۔ بعض اوقات ہمیں ظاہری جنگ میں بمباری اور حملوں اور اس جیسی دوسری چیزوں کی دھمکی دے سکتے ہیں لیکن وہ بہت بڑی غلطی کریں گے اور س سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔لیکن وہ اس طرح کی غلطی نہیں کریں گےکیوں کہ ان کے پاس نہ حملہ کرنے کا موقع اور نہ ہی اتنی جرأت ہے اور اگر ایسا کریں گے بھی، تو انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔
لیکن سافٹ وار میں، ہاں کیوں نہیں؛یہ جنگ اب چل رہی ہے اور دشمن اپنے حملوں میں مشغول ہے؛ اورہم بھی اپنی طرف سے مشغول ہیں۔ اب یہ ایک اور موضوع ہے کہ ہم حملہ کر رہے ہیں یا دفاع کر رہے ہیں اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن میرا اپنا خیال یہ ہے کہ ہمیں بھی دفاع کے بجائے صرف حملہ کرنا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دفاعی مراکز کو خود کی بھی حفاظت کرتے رہنا چاہئے۔ بہرحال ایک جنگ چل رہی ہے۔ لیکن آپ اس سافٹ وار کو وہی ظاہری جنگ اور محاذ جنگ سمجھئے۔وہی حالات تصور کیجئے جو اسوقت شام، عراق، یمن یا دوسری جگہوں کے ہیں؛ وہی حالات تصور کیجئے جو ان جنگوں میں نظر آرہے ہیں یا جو مقدس دفاع کے آٹھ سالوں میں تھے۔اس افسر کا تصور کیجئے جو ہیڈکوارٹر یا مورچہ پر موجود ہے؛افسردو قسم کے ہوتے ہیں؛ یا ان افسران کی تعریف دو طرح سے کی جاتی ہے:ایک مرتبہ کسی فوج یا گروہ کا افسر ایک ہوشیار،مصمم،جوشیلا،پر امید،کام کرنے والا،غورو فکر کرنے والا،بہادر اور فداکار شخص ہے۔اگر افسر ایسا ہے تو پھر اس جنگ کے نتائج کے سلسلہ میں کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خوب، کیونکہ یہ افسر بہادرہے،شجاع ہے،مومن ہے،پرجوش ہے،پر امید ہے،محنتی ہے اور مستحکم ارادہ رکھنے والا ہے ؛یہ افسر کی ایک قسم ہوگئی۔اسی افسر کی ایک دوسری شکل وصورت اور ایک دوسری شناخت بھی تصور کرسکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک نا امید شخص ہے اور اس کی نظر میں جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہتا ہے یہاں کھڑے ہو یہاں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ہرصورت می نا امید ہے۔ یا ایسا شخص ہے جو ہر صورت میں ہتھیار ڈال دینے کو تیارہے۔اس میں استقامت اور مقابلے کی ہمت اور حوصلہ ہی نہیں ہے۔ ممکن ہےکچھ دیر تو مقابلہ کرے لیکن جیسے ہی دباؤ زیادہ ہو فورا ہتھیار ڈال دے۔اس کا جذبہ اور حوصلہ اتنا ہی ہے؛یہ مثلا فریب خوردہ شخص ہے جو دشمن کے تبسم کے فریب میں آجائے یا اس پر اعتماد کر بیٹھے یا اصلا اس کے فریب کو سمجھ ہی نہ پائے۔ خوب، جنگ دھوکے اورفریب سے پر ہوتی ہے۔ تمام جنگیں ایسی ہی ہوتی ہیں:’’الحرب خدعۃ‘‘(۴)انہیں ظاہری جنگوں میں ایک مقتدر اور مضبوط کمانڈر کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ کسی عمل یا آپریشن کے ذریعہ دشمن کو فریب دیتا ہے؛ دشمن سوچتا ہے کہ اس طرف سے حرکت کرے گا، اور اس کی توجہ یہاں سے ہٹ جاتی ہے تو اسکے بعد وہ پیچھے سےحملہ کردیتا ہے۔اب فرض کیجئے کہ یہ افسر اور کمانڈر ایک فریب خوردہ شخص ہے ۔اس میں دشمن کے فریب کو سمجھنے اور اس کو تشخیص دینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یا مثلا ایک بے حال اور تھکا ہوا آدمی ہے جس کا دل چاہتا ہے کہ صرف آرام کرے،جائےجاکر سوجائے۔ یا مثلا نشے کا عادی ہے،منشیات کا استعمال کرتاہے،جنسیات کا عادی ہے، یا حال ہی میں ایجاد ہونےوالے کمپیوٹر گیم کا عادی ہے،میں نے سنا ہے کہ بعض لوگوں کو کمپیوٹر گیم کا نشہ ہے، اپنے آپ سے بے فکر اور اپنے اور ان افرا کےانجام سے جن کی امیدیں اس سے وابستہ ہیں لاپرواہ ہے۔ یا شہوات میں ڈوبا ہوا ہے۔مثلا یہی افسرمورچے میں ہے لیکن اپنی مادی اور حیوانی خواہشات کی فکر میں ہے؛ عیش ونوش میں سرگرم ہے۔ پس ایک افسر اس شکل اور اس حالت میں بھی تصور کیا جاسکتا ہے تو اس صورت میں جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ یہ تو واضح ہے۔ پس اس طرح اس نرم جنگ کے افسران بھی دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔
یہ چیز بھی ہمارے اور دشمن کے درمیان کے سخت اختلافی موارد میں سے ایک ہے۔
اس نرم جنگ کے افسر جو کہ جوان ہیں، دشمن انہیں اپنے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اپنے طور پر دیکھنا پسند کرتی ہے۔ یہ کہ جمہوری اسلامی کی بنیادیں تدیّن،پاکدامنی ،پارسائی اور افراطی خواہشات سے پرہیز پر استوار ہیں۔ اسے وہ تعصب، اور بقول خود انکے تحجر اور اس طرح کا نام نہ دیں، نہیں، یہ تربیت کا انداز ہے، یہ نرم جنگ کے افسر اور لیڈر کی تعریف سے اخذ کردہ بات ہے۔ امریکہ کے ساتھ لڑائی کا ایک مورد یہ ہے۔امریکی یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے جوانوں میں وہ امید،جوش وولولہ اور جسمانی و فکری قوّت نہ ہو۔وہ دشمن سے حسن ظن رکھیں اوراپنے کمانڈر اور فوج سے بد ظن ہوجائیں؛دشمن ہمارے جوانوں کو اس طرح دیکھنا چاہتا ہے۔ان کے ریڈیو،ٹیلویژن،انٹرنیٹ ،ویب سائیٹس اور دیگر اس قسم کے ذرائع ابلاغ کے پروگرام ہمارے جوانوں کے لئے ہیں اور ان کا مقصد یہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایرانی نوجوان کو ایسا بنادیں کہ ان میں نا ایسا ایمان ہواور نہ ہی امید، نہ ایسا جذبہ ہو اورنہ ایسی شجاعت۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوانوں کو ایک سرگرم اور مؤثر عنصر کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔
اب آپ اے میرے عزیزو اور فرزندوں؛ آپ سے میرا مطالبہ یہ ہےکہ: آپ اپنے ہم سن اور ہم عمر افراد کے درمیان اپنا کردار نبھائیں،ان افراد کے درمیان جو اسکول سے آپ کے ساتھ ہیں، افسر کی اس تعریف کے پیش نظر انہیں بھی ویسا ہی بننے میں انکی مدد کیجئے۔ اسلامی انجمنوں کی ذمہ داری یہی ہے اور یہ اس صورت میں ممکن ہوگا جب آپ خود کو سنواریں گے اور خودسازی کریں گے۔
الحمد للہ ،جیسا کہ علی اکبرآبادی صاحب نے ابھی بتایا۔ میں ،اس رپورٹ کوسن کر واقعی بہت خوشی محسوس کررہا ہوں اگرچہ مجھے پہلے سے اطلاع تھی لیکن انہوں نے بہت واضح طور پر رپورٹ پیش کی، بہرحال ایک بڑی تعداد ایسی ہے۔ خود سازی کیجئے اور دوسروں کی بھی اصلاح کیجئے۔ اسلامی انجمنیں صرف آپ ہی سے مخصوص نہیں ہیں۔آپ طلبہ کی انجمن ہیں اور طلاب کی انجمن کی ذمہ داری بھی یہی ہے۔ اگر کسی اسلامی انجمن نے چاہے وہ اسکول یا یونیورسٹی،کہیں کے طلاب کی انجمن ہو،اگر اس نے ایرانی جوان کی تربیت اور مذکورہ صورت کے برعکس عمل انجام دیا یا اس سلسلے میں کوتاہی سے کام لیا تو گویا اس نے اپنی ذمہ داری اور فرض کے برخلاف کام کیا ہے؛ خدا جو چاہتا ہے اس کے برخلاف کام انجام دیا ہے۔ دعائے مکارم الاخلاق میں انسان خدا سے سیکڑوں چیزیں مانگتا ہے ان میں سے ایک: واستعملنی لما تسألنی غداً عنہ؛(۵)مجھے اس کام میں استعمال کرلے جس کے بارے میں کل قیامت کے دن مجھ سے سوال کریگا۔ ہم سب سے سوال کیا جائےگا؛ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ آپ جوان ہیں اور ہم بوڑھے؛ لیکن ہم سب سے سوال کیا جائےگا۔ جوان بھی بوڑھوں کی طرح ذمہ دار ہیں۔ بوڑھے اورجوان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ابھی آپ کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جتنا زیادہ ہوسکے اپنے جوان مخاطبین کی تعداد میں اضافہ کیجئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انجمنوں کی تعداد بڑھایئے بلکہ جوانوں پرانجمنوں کی تبلیغ اور اس کے اثرات کو بڑھانے کی کوشش کیجئے۔ ممکن ہے کہ آپ کے مخاطبین آپ کی انجمن کے رکن نہ ہوں اور بعد میں بھی رکن نہ بنیں، لیکن اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن انجمنیں اس انداز میں اپنا کام کرتی رہیں اور مخاطبین کی تعداد بڑھاتی رہیں اور ان میں اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اور وہ اثر وہی چیز ہے جسے میں نے ابھی عرض کیا یعنی ان کو اسلامی جوان اورشخصیت بنانا۔ جیسا اسلامی جمہوریہ ایران چاہتا ہے،اس تعریف کے مطابق جو اسلامی جمہوریہ نے بیان کی ہے؛ نہ کہ اس تعریف کے مطابق جو امریکہ اور اسرائیلی سرمایہ دار کرتے ہیں۔ اگرچہ انجمنوں کے پروگرام سے میں باخبر ہوں مجھے اس کی رپورٹ دکھائی گئی ہے۔ میں نے اسکا مطالعہ کیا ہے۔ رپورٹ اچھی تھی؛ پروگرام بہت اچھے ہیں لیکن انہیں روزبروز مزید مظبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ تعداد اور کیفیت دونوں ہی لحاظ سے مستحکم بنانےکی ضرورت ہے۔
ملک کو آپ کی ضرورت ہے؛ آج ملک کو ان لاکھوں جوان طلاب کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں اور اس ملک کو مؤمن ، باوفا، پرامید، پر نشاط، سرگرم اور ذہین جوانوں کی ضرورت ہے، ملک کے مستقبل کو ان کی ضرورت ہے۔ کیوںکہ اس جمہوری اسلامی حکومت کو ۳۷ سال ہوچکے ہیں لیکن ان ۳۷ سالوں میں دشمن اپنی انتھک کوششوں کے باوجود ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پایا ہے؛ اگرچہ یہ بات صحیح ہے لیکن ’’دشمن کو کمزور اورخستہ حال نہ سمجھئے‘‘(۶)ان کے پروگرام بہت طویل عرصے کے لئے ہوتے ہیں۔یہ جو میں کہتا ہوں کہ پچاس سال بعد کے لئے،مثلا چار پانچ سال پہلے کہا تھا(۷)کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے پروگرام پچاس سال بعد تک کے لئے ہونے چاہئیں،اس کا مطلب یہ ہےکہ ہمیں پچاس سال بعد تک کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ دشمن بھی ہمارے پچاس سال بعد کے بارے میں سوچ رہاہے، اور وہ اسی تاک میں ہے۔ وہ اس فکر میں ہے کہ ایران اس تحریک کو روک دے، کیونکہ یہ تحریک صرف ایران ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس نے استمرار پیدا کیا ہےاورمختلف شکلوں میں دوسرے ممالک تک پہنچ چکی ہے۔ ہمیں اسے چھوڑنا نہیں چاپئے، کسے یہ کام کرنا چاہئے؟ آپ جوانوں کو، کل آپ کا ہے، آپ حقیقی معنی میں اپنی خودسازی کریں،اور ساتھ ساتھ ثابت قدم بھی رہیں۔ کل جب آپ یونیورسٹی جائیں گے تو وہاں بھی آپ کی موجودگی آپ کی مذہبی اور انقلابی پہچان اورشبیہ کومزید مستحکم بنائے گی۔ نہ یہ کہ اسے چھوڑ دیں اور کمزور کردیں۔ بعض افراد ایسے ہی ہیں کہ یونیوسٹی جانے سے پہلے انکی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور وہاں پہنچتے ہی کچھ اور ہوجاتے ہیں؛ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے، اس پہچان اور شناخت کو مزید مستحکم ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی بھی اسلامی ہے اور اس کا تعلق اسلام سے ہے؛ اسکا تعلق انقلاب سے ہے، اس انقلابی قوم سے ہے۔ بہر حال اس تحریک کو آگے بڑھاتے رہنا چاہئے؛ ثابت قدم رہئیے۔ یہ ثبات قدمی بہت اہم ہے۔
آپ کے باہمی تعلقات ختم نہیں چاہئیں، آج انجمنیں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اس رابطہ اور تعلق میں جدائی نہیں ہونی چاہئے۔ اس تعلق کو محفوظ کرنے کی کوشش کیجئے۔ اس زنجیر کی مبارک کڑیوں کوجوڑے رکھیں، اس رابطے کو برقرار رکھیں، اسکول سے فارغ ہونے کے بعد یونیورسٹی جانے تک اور اسکے بعد جہاں بھی رہیں اس رابطے کو محفوظ رکھیں؛«وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر» (۸)کا مصداق بننے کی کوشش کریں؛ایک دوسرے کی حفاظت کریں۔ مثلا جو لوگ کوہ پیمائی کرتے وہ ایک دوسرے کی کمر میں رسی باندھ دیتے ہیں اگر ان میں سے کسی ایک کا پیر پھسلتا ہے تو وہ نیچے نہیں گرتا ۔کیوں کہ دوسرے اس کو بچالیتے ہیں اور اوپر کھینچ لیتے ہیں؛ یہ رابطہ اور اتصال اسی طرح ہوتا ہے۔؛«وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر»؛یعنی ایک دوسرے کو راہ حق پر چلنے کی تاکید کرتے ہیں اور صبر کرنےکو بھی کہتے ہیں،صبر یعنی استقامت،ثبات قدمی،ڈٹے رہنا، تلخ حوادث کے مقابلہ میں پھسلنا اور لرزنا نہیں، تردید کا شکار نہ ہونا۔ یہ آُپ کی خدمت میں میری گذارش تھی۔
خوب، البتہ حکام کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ خوش قسمتی سے تعلیم و تربیت کے شعبہ کی باگ ڈور اس وقت متدین شخص کے ہاتھوں میں؛ یہ ایک بہت اچھا موقع ہے۔ اوراس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر کسی مرکز یا شعبہ کا سب سے اعلیٰ عہدے دار متدین اور مذہبی ہو تو کام بہت ہی خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے۔ ان بچوں نے، میرے ان دو عزیز فرزندوں نے، اس بچے اور بچی نے بہت ہی اچھی باتیں کہیں، یعنی وہ نکات جنکی طرف انہوں نے اشارہ کیا واقعی بہت اہم تھے، میں اپنے دفتر کے اراکین سے تاکید کرتا ہوں کو ان نکات کو محفوظ کریں اور تعلیم و تربیت کے ذمہ داران کو بھی تاکید کرتا ہوں کے ان کو محفوظ کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ اب جومیں عرض کرنا چاہتاہوں وہ یہ باتیں ہیں : پہلی بات تو یہ کہ نہ صرف یونیورسٹی کے طلاب بلکہ سبھی طالبعلموں کو، انقلابی سرگرمیاں انجام دینےکا موقع دیا جائے۔ تعلیم و تربیت خصوصا تعلیم کا طریقہ ایسا ہونا چاہئےکہ ہمارے جوان طالبعلم اپنی ساری جسمانی، ذھنی، روحی اور فکری طاقت کو صرف انہیں کتابوں کے اوراق پر صرف نہ کردیں، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہےیہ طالب علم دیکھتا ہےکہ نہ اس کے پاس تفریح کا موقع ہے اور نہ ہی ورزش اور انقلابی کاموں کا وقت ہے۔ اس کام میں اشکال ہے۔ ایسا کام کریں کہ ہمارے طلاب کو موقع اور فرصت ملے۔ اگرچہ یہ کام ایک دو دن میں ہونے والا نہیں ہے اس کے لئے لائحہ عمل تیار کرنےکی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ آج کل میں یہ کام نہ ہوپائے لیکن بہر حال اس کے لئے پروگرام بنائیے۔ بچوں کو انقلابی بنائیے؛ ان کے لئے انقلابی کام انجام دینے کا موقع فراہم کیجئے۔ ان میں انقلابی فکر پیدا ہونے کا موقع دیجئے۔ یہ پہلی بات تھی۔
دوسری بات یہ کہ طالبعلموں کی امانت دار اور متدین انجمون کو کام کرنے کا موقع اور میدان فراہم کریں ،مثلا یہی طالبعلموں کی انجمن جو امین بھی ہے اور متدین بھی، بسیج طالبعلموں کی انجمن جو امانت دار بھی ہے اور مذھبی بھی ان کے لئے سرگرمیوں کے مواقع فراہم کریں ،انہیں فرصت دیجئے انکے لئے وسائل مہیا کیجئے۔ جیسا کہ ابھی ان جوانوں نے کہا ہےکہ انکے لئے مادی اور معنوی دونوں قسم کے امکانات مہیہ کیئے جایئں، اور انہیں موقع دیا جائے۔ انکی قدر جانئے۔ اگر ہم چاہیں کے دولت اور طاقت کے سہارے وہ جذبہ پیدا کریں جو آپ میں پایا جاتا ہے تو نہیں کرسکتے یہ کام ممکن ہی نہیں ہے۔ لَو اَنفَقتَ ما فِی الاَرضِ جَمیعًا مآ اَلَّفتَ بَینَ قُلوبِهِم.(۹)اس مقام پر بھی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم تمام ثروت خرچ بھی کردیتے تب بھی یہ جوش و جذبہ پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ یہ چشمہ انسان کے اندر سے پھوٹتاہے، یہ خدا نے کیا ہے کیوں کہ دل خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے آپکے سب کے دل خدا کے اختیار میں ہیں۔اس کی قدر کیجئے۔یہ اب میدان میں اترچکے ہیں، ہمارے یہ بچے ،یہ جوان چاہے اسلامی انجمنوں کی تنطیم سے وابستہ ہوں ، یا بسیج یا انکے مثل دوسرے مرکز سے، انکو میدان دینےکی ضرورت ہے انکی مادی اور معنوی مدد کی ضرورت ہے۔
تیسری بات،جیسا کہ ایک۔ دو طالبعلموں نے ابھی بتایا؛ مجھے بھی اطلاع تھی، میں نے بھی سنا تھا، کہ بعض مدارس میں انقلابی کاموں کی مخالفت ہورہی ہے۔ فرض کریں کہ بچے مثلا ۲۲ بہمن کےلئے کوئی پروگرام بناتے ہیں اور اس کی تیاری کرتے ہیں؛ لیکن مدرسہ کے ذمہ داران بجائے ان کی مدد کرنے کے ان کے لئے رکاوٹ پیدا کردیتے ہیں، یا کبھی رسمی طور پر ان کی مخالفت کرتے ہیں؛ ایسا نہیں ہونا چاہئے اس قسم کی حرکتوں کا شدید رد عمل ہونا چاہئے۔ بچوں کو پڑھائی پر توجہ دینی چاہئے اور خوب پڑھائی کرنی چاہئے، آپ جان لیں کہ میں تعلیم حاصل کرنے کا طرفدار ہوں؛ لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ انقلابی سرگرمیاں بھی ہونی چاہئے۔
میرے عزیزو؛ہمارے ملک کے جوان امید بخش ہیں، ہمارےملک کے جوان پر امید ہیں۔ ایسا نہیں ہےکہ مجھے نہیں معلوم ہے کہ ہمارے ملک کے کچھ نوجوان غلط راہ پر چل پڑے ہیں،مجھے خوب اندازہ ہے لیکن جب مجموعی طور پر جوانوں کے حالات کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ دشمن کی طرف سے جوانوں کو بہکانے کی اتنی کوششوں، ان پر دشمن کی توجہ ہونے کے باوجود ہمارے ملک کے جوانوں کی بڑی تعداد مؤمن، متدین، انقلابی، (اہلبیت ؑسے)توسل کرنے والی اور معونیت کا شوق اور جذبہ رکھنے والی ہے۔ یہ کم نہیں ہے اس کو کم نہ سمجھئے، یہ بہت بڑی چیز ہے۔ان میں سے کچھ اہل قرآن ہیں تو کچھ اہل اعتکاف۔کچھ اربعین (حسینی ؑ) پیدل جانے والے ہیں تو کچھ انقلابی میدانوں میں ثابت قدم رہنے والے اور انقلاب کا مظہر ہیں۔ اس عمل کی بہت عظمت ہے۔ اس کی بہت اہمیت ہے؛ دشمن انہیں چیزوں کا مخالف ہے۔
اور یہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن کو ابتک شکست ہی دیکھنی پڑی ہے۔ اس کو اب تک ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بات کو میں متعدد بار کہہ چکا ہوں۔ اس کی دلیل بھی ہماری آنکھوں کے سامنے؛ واضح اور روشن ہے۔ یہ کوئی مبہم اور نا قابل فھم اور پیچیدہ استدلال نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جس دن سے انقلاب کامیاب ہوا اور اسلامی نظام تشکیل پایا، اسی روز سے دشمن اس نے نظام کو برباد اور اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کر لیا تھا؛ یا کم سے کم اس کی یہ کوشش تھی کہ اس نظام کو ترقی نہ کرنے دے۔۳۷ سال ہوچکے ہیں۔ یہ نظام روز بہ روز ترقی کررہا ہے،روز بروز مستحکم ہوتا جارہا ہے،ایک تناور درخت کی صورت میں تبدیل ہوچکا ہے اور اسمیں برگ و گل نمایاں ہوچکے ہیں، لیکن دشمن اس کا اب تک کچھ نہیں بگاڑ پایا پے۔
وہ اب تک کچھ بھی نہیں کرسکا ہے؛ صرف یہی نہیں بلکہ دنیائے اسلام پر نظر ڈالئے لبنان اور فلسطین کےمؤمن اور مجاھد جوانوں کا وہ کیا بگاڑ پایا ہے؟ لبنان کے حزب اللہ کے خلاف کس قدر پروپگنڈے کئے، عملی طور پر انکے خلاف سرگرمیاں انجام دیں، انہیں دھمکیاں دیں،ان دھمکیوں کو عملی طور پر انجام دیا۔ لیکن اس مقابلے میں حزب اللہ نے دنیا والوں کے سامنے اپنی شجاعت کو ثابت کردیا۔ اب اگر کوئی کہے کہ فلاں فاسد عناصر سے وابستہ کھوکھلی حکومت نے، اپنے پیٹرو ڈالروں کے بل پر، فلاں بیانیّہ میں حزب اللہ کو دہشت گرد گروہ قرار دے دیا ہے تو ایسی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ جبکہ حزب اللہ اس وقت خورشید کے مانند چمک رہا ہے۔ اس وقت حزب اللہ اہل اسلام کے لئے فخر کا سبب ہے۔ حزب اللہی جوان اسوقت لبنان میں دنیائے اسلام کے لئے فخر و مباہات کا سبب ہیں۔ ان جوانوں نے وہ کار نامہ انجام دیا ہے جو دو جنگوں میں، تین ممالک کی فوجیں ملکر بھی نہیں کرسکیں تھیں۔ ان جوانوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ انکے اسرائیل کو شکست دینے سے پہلے، دو جنگیں ہوئیں، پہلی جنگ میں تو سارے ممالک شریک نہیں تھے لیکن دوسری جنگ میں مصر، اردن اورشام کی فوجوں نے ملکر اسرائیل پر حملہ کیا تھا لیکن ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تین ممالک کی فوجیں وہ بھی مصر اور شام جیسی مضبوط فوجیں اور اردن کی فوج، ان سب کو صیہونیوں کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد سے وہی اسرائیل جو مزید مضبوط ہوچکا تھا، حزب اللہ نے اسے ۳۳ روز کے اندر دھول چٹا دی۔ کیا یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟ کیا یہ کوئی چھوٹی چیز ہے؟ اگر ہم انہیں عالم اسلام کے لئے مائہ افتخار قرار دیں تو کیا یہ غلط ہے؟ اب آکر کچھ پھٹے ہوئے صفحے ان کی مذمت کریں تو اس کی کیا اہمیت ہوگی، خوب کرتا رہے، اسکی کیا اہمیت؟ حق و حقیقت منزل کمال کی طرٖف گامزن ہے، حق کا مرتبہ بلند ہے، ممکن ہے حق وحقیقت کو راستے میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے لیکن آخر میں جیت اور کامیابی حق ہی کی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذهَبُ جُفآء؛ پانی کے اوپر کا جھاگ ظاہراً بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ آب دریا اور نہروں کے پانی کو دیکھیں جب یہ آپس میں ملتے تو ان میں جھاگ نکلتا ہے۔ لیکن اس جھاگ میں بقا نہیں ہوتی؛ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذهَبُ جُفآء؛ یہ جھاگ پانی پر آتا ہے پھر ختم ہوجاتاہے۔ وَ اَمّا مایَنفَعُ النّاسَ فَیمکُثُ فِی الاَرض؛(۱۰)لیکن وہ چیز جو نفع بخش ہے اور لوگوں کی زندگی اس سے وابستہ ہے۔ یعنی وہ صاف اور رواں پانی، وہ باقی رہتا ہے۔ حق وحقیقت اس طرح ہے، حق کامیاب و کامران ہے، حق اپنے مقصد تک پہنچنے والا ہے۔ جی ہاں،اس راہ میں مشکلات ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان مشکلات کے مقابلے میں ہار نہ مانے، سرباز حقیقت، افسر حقیقت، رہرو حقیقت ان مشکلات کے سامنے ہار نہ مانے، اگر ہار نہ مانے، استقامت سے کام لے اور مشکلات کو برداشت کر لیا جائے تو اپنے نتیجے تک پہنچائے گا۔ جیسا کہ آپ لوگ اپنے نتیجے تک پہنچ گئے ہیں۔ چاہے صدر اسلام کا زمانہ ہو یا کوئی اور زمانہ، جہاں بھی استقامت تھی، چاہے وہ ہمارا ہی زمانہ جہاں مادیت کا غلبہ ہے(اسقامت کی وجہ سے کامیابی حاصل ہوئی ہے)۔
حقیقت،آپ کا سرمایہ ہے،آپ حقیقت کی راہ پر چل رہے ہیں۔مستقبل آپ کا ہے۔ان شاء اللہ آپ کی اسی استقامت کی برکت سے ایک دن آئے گا جب یہ مشکلات کم سے کمتر ہوجائیں گی اور دھیرے دھیرے بالکل ہی ختم ہوجایئں گی اور ان شاء اللہ آپ لوگ بھی بلندیوں پر فائز ہوجائیں گے۔
جو بچے یہاں نہیں آپائے ہیں انکو میرا سلام پہنچا دیجئے گا۔ یہ جو کہا گیا ہےکہ یہ جلسہ ہر سال ہونا چاہئے، گرچہ میں اس کی تاریخ اور وقت نہیں بتا سکتا، لیکن مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں جتنا زیادہ آپ لوگوں سے ملاقات کروں گا یہ ہم سب کے لئے بہتر ہوگا۔
۱۔حجت الاسلام حاج علی اکبری (طلاب کی اسلامی انجموں کی تنظیم میں ولی فقیہ کے نمائندے)نے اس جلسہ کی ابتدا میں رپورٹ پیش کی تھی۔
۲۔(۱۳۹۴/۵/۲۶)کو مجمع جہانی اہل بیت ؑ اور ریڈیو اور ٹیلویژن کی انجمن کے اراکین سے ملاقات کے وقت کے بیانات۔
۳۔(۱۳۹۱/۵/۱۶)کو یونیورسٹی کے طلاب کے ساتھ ملاقات کے بیانات۔
۴۔کافی ج۴،ص ۴۶۰
۵۔صحیفہ سجادیہ ،بیسویں دعا،تھوڑے سے فرق کے ساتھ۔
۶۔گلستان سعدی،باب اول۔
۷۔برجستہ جوانوں کی ساتویں کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کے بعض افراد کےساتھ ملاقات کے بیانات۔(۱۳۹۲/۷/۱۷)
۸۔سورہ عصر،آیت ۳۔ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر کی وصیت کرو۔
۹۔ سورهی انفال، آیت ۶۳؛ اگر وہ تمام چیزیں جو روی زمین پر ہے خرچ کردیتے تو بھی،تب بھی ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے۔
۱۰۔سورہ رعد آیت۱۷۔