بسماللهالرّحمنالرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین. اللّهمّ صلّ علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها صلواتک و صلوات ملائکتک و اولیائک علیهم.
آپ تمام افراد کو عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنے ان بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس محفل کا انعقاد کیا اور در حقیقت ہم نے استفادہ کیا، لطف اندوز ہوئے۔ پروگرام کے آخر میں پیش کیا جانے والا ترانہ ہر سال کی طرح حسن اختتام ہے کیونکہ جناب آقائے سازگار جو ہر سال ترانہ لکھتے ہیں، اس سال بھی بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا، مضامین بہت اچھے تھے، مفاہیم بہت اچھے تھے، درس، تعلیم، تذکر تھا۔
اس محفل میں کہ جہاں اس وقت آپ برادران موجود ہیں۔ البتہ ہماری معزز بہنیں بھی موجود ہیں، میری گفتگو زیادہ تر آپ برادران سے رہے گی کہ جنہیں سید الشہداء سلام اللہ علیہ اور اہل بیت علیہم السلام کی مدح خوانی اور ذاکری کا افتخار حاصل ہے۔ الحمد اللہ مدح خواں حضرت کی تعداد، خاص طور پر جوان مدح خوانوں کی اس زمانے میں تعداد بہت مطلوب، زیادہ اور اچھی ہے۔ کیفیت بھی بعض جگہوں پر حقیقت میں بہت اچھی ہے۔ ہمارے ملک میں مدح خوانی ایسی چیز ہے کہ جس کی شبیہہ کہیں اور نہیں ملتی۔ البتہ شیعہ معاشرے کی خاص چیزیں اور وہ خاص چیزیں کہ جو تمام اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں موجود نہیں، وہ متعدد ہیں، مثلا خود عزاداری یا اہل بیت علیہم السلام کا مقتل پڑھا جانا کہ جو معمولا وعظ ونصیحت اور معارف اور روز مرہ کے گوناگوں مسائل اور ہر وہ چیز جو موجودہ دور کی ضرورت ہے اس کے ہمراہ ہوتی ہے، یہ شیعہ معاشرے کی خاص چیزوں کا حصہ ہے اور ائمہ علیہم السلام کے زمانے سے آج تک اس کا سلسلہ جاری ہے، یہ دوسری کسی جگہ نہیں اور اس خلاء کو وہاں محسوس کیا جاتا ہے۔ اسکے خلاء کو دوسری جگہ محسوس کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی دوسرے طریقے سے اس خلاء کو پر کیا جاسکے لیکن یہ ہو نہیں سکتا۔ یہ مدح خوانی اور منقبت خوانی، مصیبت، مرثیہ اور ذکر اور ان جیسی دوسری چیزوں کے باب میں خود اہمیت کا حامل ہے، یہ کسی اور جگہ نہیں اور اس شکل میں کہیں بھی موجود نہیں، اتنی عمومیت اور وسعت کے ساتھ، چاہے کیفیت کے لحاظ سے وسعت ہو یا کمیت کے لحاظ سے، چاہے معانی ومفاہیم کے لحاظ سے، کہیں موجود نہیں۔ یہ تحقیقات کے لئے اچھا موضوع ہے، یعنی اس شعبے میں حقیقت میں گنجائش موجود ہے کہ ہمارے طالبعلم، ہمارے اساتذۃ، ہمارے محققین بیٹھیں اور اس شعبے میں غور و فکر کریں، کام کریں، تفسیر و تحلیل کریں، اور اس کی علمی توسیع کے لئے ہمیں راستے دکھائیں اور ہمیں سکھائیں۔ ہم نے در اصل اس شعبے کو غیر اہم سمجھا، یہ ایک اہم شعبہ ہے۔ خوب الحمد اللہ ہمیں یہ توفیق نصیب ہوئی، یہ موقع ملا کہ ان پینتیس سالوں کے دوران آج کے دن کی طرح۔ ہر سال اپنے مدح خواں بھائیوں کے ساتھ یہ محفل سجائیں۔ شاید اس محفل میں آپ لوگوں کے درمیان، ایسے بھی افراد ہوں کہ جنکی عمریں اس محفل کی عمر سے کم ہو۔ تقریبا تیس سال سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے کہ یہ محفل منعقد ہوتی ہے۔ پس یہ ایک اچھا موقع ہے کہ اس شعبے کے بارے میں کچھ گفتگو کی جائے۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں۔ یہ نہ اس عنوان سے کہ انسان اپنی روز مرہ کی گفتگو کی طرح، اسے بھی زبان پر لے کر آئے، الحق والانصاف ہم قصوروار ہیں، اس سے کہیں زیادہ حقیر ہیں کہ اس باعظمت مقام کے بارے میں گفتگو کریں، ان بزرگوں اور ان جیسے بزرگوں مثلا ائمہ علیہم السلام کی نوری حقیقت، ہماری زبان، ہماری گفتگو، ہمارا ادراک اس سے بہت چھوٹا ہے کہ ہم اس سلسلے میں گفتگو کریں۔ خَلَقَکُمُ اللهُ اَنواراً فَجَعَلَکُم بِعَرشِهِ مُحدِقین ، ائمہ علیہم السلام کے نور کا معاملہ یہ ہے، اب ہم اب اور کیا کہنا چاہتے ہیں، لیکن ان بزرگوں کی سیرت، انکی رفتار و کردار، اور ایک انسان ہونے کے ناطے انکا اسوہ، اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی جا سکتی ہے۔ بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے، آج ہمارے بہت سے بھائیوں نے اپنے شعروں میں بھی تذکرہ کیا ہے۔ گفتگو کرنے کے لئے بھی پورا میدان موجود ہے۔ اس سلسلے میں چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ہم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو اس دوسرے زاویے یعنی اسوہ اور مثالی ہونے کے زاویے سے دیکھیں۔ خداوند متعال نے قرآن میں دو خواتین کو مومنین کے لئے اسوہ اور دو خواتین کو کافروں کے لئے اسوہ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ ءامَنُوا امرَاَتَ فِرعَون اور اس کے بعد ایک آیت وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمرن کے زریعے مومنین کے لئے مثال پیش کی ہے، صرف مومن خواتین کے لئے نہیں، مرد و عورت ، دونوں کے لئے دو مثالیں پیش کی ہیں۔ اس زاویے سے ان بزرگ ہستیوں کو دیکھا جا سکتا ہے، ایک اسوہ کے طور پر اور اس سے درس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خوب حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ کبریٰ ہیں تمام صدیقین اور صدیقات کے درمیان، کبری یعنی بزرگ ترین صدیقہ ہیں یہ بزرگوار۔
اب ہم ان سے درس حاصل کرنا چاہتے ہیں، خواتین بھی ان سے درس حاصل کریں، مرد حضرات بھی درس لیں، تمام عالم و جاہل درس حاصل کریں۔ دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوار کے لئے ائمہ علیہم السلام کے کلمات میں جو کچھ ان کی مدح میں ذکر کیا گیا ہے وہ کیا ہیں۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کی زیارت میں جب صلوات کی نوبت حضرت زہرا تک پہنچتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ۔ وہ زیارت کہ جو اول سے آخر تک صلوات ہے۔ آپ کہتے ہیں، اَللّهُمَّ صَلِ عَلی فاطِمَةَ بِنتِ نَبیِّک، یہ ایک خصوصیت ہے، خوب یہ ایک بہت اہم خصوصیت ہے، البتہ اس کی تاسی نہیں کی جا سکتی، سب پیغمبر کی دختر نہیں بن سکتیں، لیکن پیغمبر سے منسوب ہونا انکی صاحبزادی کے عنوان سے، یہ انکے والا مقام کی علامت ہے۔ وَ زَوجَةِ وَلِیِّک یہ دوسری ہے، البتہ اس مقام تک بھی نہیں پہنچا جا سکتا اور سب خواتین ولی خدا کی زوجہ نہیں ہو سکتیں، لیکن یہ والا مقام، ان بزرگوار کے عظیم مقام، شان اور جاہ و جلال کا ثبوت ہے۔ وَ اُمَّ السِّبطَینِ الحَسَنِ وَ الحُسَینِ سَیِّدَی شَبابِ اَهلِ الجَنَّة؛ یہ صفت ان پچھلی دو صفتوں کے مقابلے میں زیادہ عملی صفت ہے، سبطین کی عملی تربیت کی صفت، وہ سبطین کہ جو سَیِّدَی شَبابِ اَهلِ الجَنَّة ہیں، ان کی مادر گرامی بزرگوار ہیں، یہ اس ماں کا پاکیزہ دامن ہے کہ جس نے انکی تربیت کی ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جو ایک مثال کے طور پر ایک اسوہ کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔
اسکے بعد اَلطُّهرَةِ الطّاهِرَةِ المُطَهَّرَةِ التَّقیَّةِ النَّقیَّةِ الرَّضیَّةِ الزَّکیَّة کہ یہ تمام چیزیں عملی ہیں، طہارت کو تین مختلف کلمات سے بیان کیا گیا اور یہ تین کلمات «طهر»، «طاهر» و «مطهّر» معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ البتہ یہ تینوں کلمات انکی طہارت اور پاکیزگی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ روح کی طہارت، دل کی طہارت، دماغ کی طہارت، دامان کی طہارت، پوری زندگی کی طہارت۔ خوب یہ عملی ہے، یہ ہمارے لئے درس ہے، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو پاکیزہ کریں، ہمیں اپنی طہارت کرنی چاہئے، باطنی طہارت کے بغیر اعلی مقامات تک نہیں پہنچا جا سکتا، ان بزرگوں کی ولایت کے حریم میں بھی داخل نہیں ہوا جاسکتا، باطنی طہارت لازم ہے۔ باطن کی طہارت، تقوا کے زریعے ہے، ورع کے زریعے ہے، ملاحظہ کے زریعے ہے، دائمی ملاحظہ اور دائمی مراقبت طہارت کے نتیجے میں ہی وجود میں آتی ہے۔ خوب البتہ انسان جائز الخطا ہے اور ممکن ہے کہ ہمارے اوپر سیاہی عارض ہو جائے لیکن اس سیاہی کو پاک کرنے کا راستہ بھی ہمیں خدا نے ہمیں دکھایا ہے، ہمیں سکھایا ہے، توبہ، استغفار۔ استغفار کریں، استغفار یعنی معافی مانگنا، استغفراللہ یعنی اے خدا میں معافی مانگتا ہوں، معذرت چاہتا ہوں۔ حقیقت میں ہمیں دل کی گہرائیوں سے کدا سے معافی مانگانی چاہئے، یہ استغفار ہے، یہ پاک کرتا ہے اس سیاہی کو اس داغ کو۔ خوب اَلطُّهرَةِ الطّاهِرَةِ المُطَهَّرَة۔ التقیہ وہی تقوی، النقیہ وہ نقاوت، قلبی اور باطنی پاکیزگی، یہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی خصوصیات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انہیں مثال کے طور پر، اسوہ کے طور پر سامنے رکھیں اور ان چیزوں سے نزدیکی اختیار کریں۔
خوب اب آُپ ایک مداح کے عنوان سے جب یہ چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ س کے بارے میں بات کریں، تو آپ کو چاہئے کہ ان مطالب کو اپنی گفتگو میں شامل کریں، اپنے شعروں میں شامل کریں، اپنی مدح و ثنا میں شامل کریں، جی ہاں، ائمہ علیہم اسلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے معنوی مقامات کی جب بات کی جاتی ہے، سننے والے کا دل روشن ہوجاتا ہے، جب انکے معنوی مقامات کا ذکر کرتے ہیں، انسان کا دل شاد ہوجاتا ہے، حضوری حالت پیدا کر لیتا ہے، خضوع کی کیفیت پیدا کر لیتا ہے، یہ بہت اچھا ہے، یہ اپنی جگہ محفوظ اور ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ اب جبکہ حضور کی کیفیت پیدا ہوگئی، اب جبکہ دل روشن ہوگئے، ہمیں چاہئے کہ درس حاصل کریں، درس ان عملی جملوں میں ہے، یعنی یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ رہ منبر سے، چاہے ایام فاطمیہ ہوں یا عاشورا کے ایام یا چاہے کوئی اور ایام ہوں، ائمہ علیہم السلام سے درس حاصل کیا جائے، انسان بننے کا درس، کامل ہونے کا درس، قربت الی اللہ کا درس حاصل کیا جائے۔ ہمیں درس حاصل کرنا چاہئے، ہمیں سیکھنا چاہئے۔ صرف محبت کافی نہیں ہے۔ البتہ محبت کارساز ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ ولایت ضروری ہے۔ ولایت یعنی تولی کرنا، اقتدا کرنا، انکے دامن گیر ہونا، جس راستے پر یہ چلے ہیں اس راستے پر انسان چلے، یہ ضروری ہے۔
یہ ایک نکتہ ہےکہ جو میری نظر میں مداحی میں، خاص طور پر مداح حضرات، کہ جو شعراء ہیں شعر لکھتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اس نکتے کی جانب توجہ دیں۔بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جو کسی روایت میں موجود نہیں ہیں اور اس فضیلت کے بارے میں معصومین علیہم السلام کی جانب سے بھی کوئی جملہ صادر نہیں ہوا ہے اور درحقیقت فضیلت بھی نہیں ہے۔
کہا: آنکہ بسنجید رخت را بہ ماہ ز اشتباہ۔۔۔۔ جس نے تیرے چہرے کو چاند سے تشبیہ دی اس نے غلطی کی، درحقیقت اس نے تیری قدر وقیمت میں کمی کردی، چاند سے تشبیہ دینا یا سورج سے تشبیہ دینا وہ چیزیں نہیں ہیں کو جو مشبہ یا جس سے تشبیہ دی جاری ہے اسکی اہمیت میں اضافہ کردے، وہ بھی ایسی بزرگ شخصیات کے لئے کہ جنکے معنوی مقامات ، الہی مقامات ایسے ہیں کہ جو اہل معنی کی آنکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں، اور پھر ہم لوگ کہ جن کے پاس وہ آنکھیں ہی نہیں ہیں کہ ہم انہیں سمجھ سکیں۔ بعض اوقات ایسی کلیات بیان کی جاتی ہیں کہ جن سے کوئی چیز سمجھی نہیں جا سکتی اور سننے والے کے لئے قابل استفادہ بھی نہیں ہوتیں۔ پس میرا آپ عزیزوں سے سب سے پہلا کلام یہ ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کی مدح میں چاہے حضرت زہرا سلالم اللہ علیہا ہوں یا دوسرے ائمہ ہدیٰ، ہمیں چاہئے کہ انکی عملی سیرت سے بھرپور استفادہ کریں۔
ایک دوسرا نکتہ کہ جو آج کے دور میں خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے میں مداحوں کے درمیان رائج ہے، وہ موجودہ دور کے مسائل کی جانب توجہ کیا جانا ہے کہ خوب آج یہاں بھی ہم نے مختلف مواقع پر مدافعان حرم اور دوسرے مسائل کے سلسلے میں سنا، یہ بہت اہم مسائل ہیں، یہ بنیادی مسائل ہیں، ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہمارے مذہبی دائرے سے خارج ہے۔خوب آپ دیکھیں کہ پیغمبر اکرم ص کہ جو سید خلق عالم ہیں اور خداوند متعال نے دنیا میں ان سے برتر کوئی دوسرا وجود خلق نہیں کیا اور اسی دین اور اسلام کے لانے والے ہیں کہ جس کے ہم آج مدعی ہیں، اپنے ملک میں جاری سیاسی مسائل کے سلسلے میں، وہی ملک کہ جو اس زمانے میں موجود تھا اور ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ اس عظیم شخصیت نے کتنی کوششیں کیں، کتنی زحمتیں اٹھائی تھیں، پیغمبر اکرم ص لوگوں کو صرف نماز کے احکام، روزہ، توجہ، عبادت، اور نماز شب کی تعلیم نہیں دیا کرتے تھے، نہیں، اسی مسجد میں لوگوں کا جمع کیا کرتے تھے، انہیں جہاد کی دعوت دیا کرتے تھے، انہیں وحدت کی دعوت دیا کرتے تھے، انہیں بعض اوقات دشمن سے مقابلے کی دعوت دیا کرتے تھے، یہی باتیں جو آج آپ کے اور ہمارے سامنے مطرح ہیں۔ روز مرہ کے درپیش مسائل وہ مسائل نہیں ہیں کہ جن سے صرف نظر کیا جائے۔
دیکھیں دنیا میں ایک نظام موجود ہے، استکبار کا نطام، دھونس و دھمکی کا نظام، ظلم کا نظام، البتہ زمانہ قدیم سے اس طرح کے نظام موجود تھے، لیکن آج یہ ماڈرن ہو چکے ہیں، نئے ہتھیاروں سے لیس ہیں، بڑی طاقتیں دوسری قوموں کو دھونس و دھمکی دیتی ہیں، آج کے زمانے میں بولنے کی بھی کوئی حد اور پیمانہ نہیں ہے، اگر مال و اموال موجود ہوں تو وہ چھین لیتے ہیں، اگر با صلاحیت افرادی قوت ہوتی ہے تو انہیں چرا لے جاتے ہیں، اگر ان میں صلاحیت ہوتی ہے تو انہیں دھمکیاں دیتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں رقیب کھڑا کر دیتے ہیں، اس کی صلاحیتوں کو دبا دیتے ہیں، دھونس اور دھمکیوں کی بھی کئی انواع و اقسام ہیں۔ آج یہ دھونس اور دھمکیاں کہ جو اس دنیا میں موجود ہیں بین الاقوامی عالمی نظام کہ جس کا نام رکھا گیا ہے اقوام متحدہ، یعنی دھونس اور دھمکی کا نظام، و الا اقوام متحدہ سے مراد دنیا کی حکومتیں اور ملتیں تو نہیں ہیں، دنیا کی حکومتیں اور ملتیں بے زار ہیں ان چند بڑی طاقتوں کی شکلوں سے کہ جو خود کو اقوام متحدہ کہتے ہیں، اقوام متحدہ یعنی یہی، وہ افراد کہ جن کے کام کا مبنا تمام ملتوں پر ، تمام ممالک پر دھونس و دھمکی پر مشتمل ہے۔ اور ہم کہ جو جمہوری اسلامی ہیں، ہم نے اسلامی جمہوری نظام سے پہلے بھی طاغوتی حکومت کے دور میں اس کا ایک دوسری طرح سے مشاہدہ کیا تھا، اور اسلامی جمہوری نظام کے قیام میں آنے کے بعد دوسری طرح مشاہدہ کیا، دنیا میں آج ایک نظام اس طرح کا بھی موجود ہے۔ اس نظام سے بہت سارے لوگ ناراض بھی ہیں، بہت ساری ملتیں ناراض ہیں، لیکن ان حکومتوں کے بس میں کچھ بھی نہیں، ملتوں کی آوازیں کوئی نہیں سنتا، نہ ان کے پاس اس طرح کا میڈیا موجود ہے، نہ ان کی بات کو کہیں پر اہمیت دی جاتی ہے، اب اگر یہ فرض کریں کہ مثلا دس ہزار افراد ایک سوشل سائیٹ پر جمع ہو گئے ہیں، مثلا کسی الیکٹرونک میڈیا یا اس جیسی کسی جگہ پر جمع ہو گئے ہیں اور کوئی بات کرتے ہیں، یا جمع ہو کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، تو وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ عراق پر امریکا کے حملے کے معاملے پر تقریبا پندرہ سولہ سال پہلے سب سے پہلے پیرس اور بعض دوسرے یورپی ممالک میں امریکا کی مخالفت میں مظاہرے کئے گئے، اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ قومیں اپنے آپ تو کوئی کام انجام نہیں دے سکتیں، یہ حکومتیں ہوتی ہیں کہ جنکو اگر اپنی قوموں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے تو وہ آواز بلند کرتی ہیں اور یہ آواز عالمی سطح پر مطرح کی جاتی ہے، اس طرح کی حکومتیں دنیا میں موجود نہیں ہیں، ایسی حکومتیں ہیں کہ جو ڈرتی ہیں، ناراض ہیں لیکن ڈرتی ہیں، مجھے یاد ہے کہ میں نے سال کے آغاز پر اپنی گفتگو میں یہ بات کی تھی کہ طاغوتی حکومتوں کے سربراہان بھی بعض اوقات امریکہ کے کاموں سے ناراض ہوتے ہیں، انکی باقی ماندہ یادداشتوں کا جب انسان مشاہدہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ بعض موقعوں پر وہ بہت زیادہ ناراض تھے اور تنہائی میں انکے لئے بدزبانی بھی کرتے ہیں لیکن جرات نہیں ہے کہ مخالفت کریں، ایک حکومت کے عنوان سے، ایک سیاسی مرکز اور معاشرے کے مدیریت کرنے والے ادارے کے عنوان سے جرات نہیں کرتے۔ آج دنیا اس طرح کی ہے، بہت سارے لوگ ناراض ہیں لیکن ان میں مخالفت کرنے کی جرات نہیں ہے۔
اس دنیا میں، اس آشفتگی میں، اس درھم برہم اور ظلم و جور سے بھرے جنگل میں، ایک نظام وجود میں آیا ہے کہ جس کی ایک بنیاد ہے اور یہ بنیادیں ان چیزوں کے مد مقابل استوار ہیں کہ جن پر آج کی دنیا کا نظام استوار ہے۔اس کے مدمقابل ظلم ہے، اس کے مد مقابل استثمار ہے، اس کے مد مقابل جنگ طلبی ہے، اس کے مد مقابل فساد ہے، اور وہ نظام اسلامی جمہوریہ کا نظام ہے۔ یہ نظام اسلام کی بنیاد پر، دین کی بنیاد پر، اسلام ناب کے نظریات کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور ایک جماعت اس کی ابتدا سے ہی اسکے اوپر موجود ہے اور انکی فطرت یہ ہے کہ یہ بڑی طاقتوں سے نہیں ڈرتے اور یہ لوگ علماء ہیں۔ یہ بات آج خود مغربی ممالک کے جامعہ شناس اور تجزئیہ نگار کہتے ہیں۔ انقلاب کے اوائل سے ہی کہتے آئے ہیں، کہتے تھے کہ یہ علماء ہم سے نہیں ڈرتے۔ البتہ ان میں سے مممکن ہے کہ وابستہ بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن شیعہ معاشرے میں علماء کی فطرت اس طرح کی فطرت ہے۔ اب اتفاق سے یہ اس نظام کے اوپر موجود ہیں۔ عوام بھی انکا ساتھ دیتے ہیں۔ عوام سب سے پہلے تو با صلاحیت ہیں اور دوسرے یہ کہ ان میں جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انقلاب کے آغاز میں ہماری آبادی ۳۵ میلین تھی جو اب ۸۰ میلین تک جا پہنچی ہے، یعنی آبادی میں ناگہان اضافہ ہو گیا ہے، گرچہ اس کے خلاف بھی سازشیں کر رہے ہیں، صلاحیتیں زیادہ ہیں، لوگ شجاع بھی ہیں، نڈر بھی ہیں۔ خوب جب ایک ملک ایسا ہے کہ جہاں کے عوام اس انداز میں سوچتے ہیں، سربراہان مملکت بھی عالمی غلبے سے نہیں ڈرتے۔ یہ استکبار کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے، ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ لہذا اس کے خلاف محاذ بنایا جاتا ہے، جس طرح آج اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف محاذ بنایا گیا ہے۔ آج نہیں بلکہ انقلاب کے پہلے دن سے ہی اس کے خلاف محاذ تشکیل دیا گیا، ایک دشمن محاذ کو وجود میں لایا گیا۔ اس زمانے میں شوروی تھے اور امریکی کے ایک دوسرے کے مد مقابل بھی تھے اور اگر کسی مسئلے کی کمی یا زیادتی پر ایک دوسرے سے اختلافات رکھتے تھے لیکن اسلامی جمہوریہ کے مسئلے پر اور اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں ایک دوسرے کے ہم خیال اور ہم دست تھے۔ یعنی استکبار کی فطرت یہ ہے کہ اس طرح کے نظام سے دشمنی رکھے۔
پس ایک محاذ تشکیل دیا کہ وہ محاذ آج بھی موجود ہے اور انواع و اقسام کے طریقوں سے استفادہ کر رہا ہے، بالکل اسی طرح کہ فرض کریں کہ بیس سال پہلے انٹرنیٹ نہیں تھا لیکن آج ہے، آلات دن بدن ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان پیشرفتہ آلات کا اور تیز رفتار اور وسیع پیمانے پر موجود آلات کا سب سے زیادہ استعمال اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہو رہا ہے، اسلامی جمہوریہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو تیار کرے اور ان تمام آلات سے استفادہ کرے۔ دشمن ڈپلومیسی کا اظہار کر کے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ ڈپلومیسی سیاسی ڈائیلاگ، سیاسی مذاکرات، سیاسی تبادلہ خیال بھی انہی آلات کا حصہ ہے، یہ لوگ ان آلات سے استفادہ کرتے ہیں۔ میں سیاسی ڈائیلاگ کا مخالف نہیں ہوں، البتہ سب کے ساتھ نہیں، یہ استثناء موجود ہے، میں عالمی مسائل پر سیاسی ڈائیلاگ کے حق میں ہوں، میں ان مسائل کے بارے میں اپنی صدارت کے زمانے سے ہی بات کرتا چلا آرہا ہوں ، اس طرح دکھانے کی کوشش نہ کریں کہ شاید میں گفتگو یا اس طرح کی چیزوں کا مخالف ہوں، نہیں، ہم ان سے کہیں زیادہ کامیاب ہیں اور بعض جگہوں پر ان سے زیادہ تجربہ کار ہیں، جانتے ہیں کہ کس طرح عمل کرنا چاہئے۔ دشمن سیاسی دائیلاگ سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔
پس، مذاکرات سے استفادہ کرتا ہے، اقتصادی مبادلات سے استفادہ کرتا ہے، اقتصادی پابندیوں سے استفادہ کرتا ہے، جنگ اور اسلحے کے استعمال کی دھمکیوں سے استفادہ کرتا ہے، ان تمام چیزوں کے مقابلے میں دفاعی طاقت کا حامل ہونا ضروری ہے۔
یہ جو بعض افراد کہتے ہیں آئندہ دنیا مذاکرات کی دنیا ہے، آئندہ دنیا میزائیلوں کی دنیا نہیں ہے، اگر یہ بات انجانے میں کہی گئی ہے تو خوب یہ نا آگاہی ہے، لیکن اگر جان بوجھ کر کہی گئی ہے تو یہ خیانت ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ اگر اسلامی جمہوریہ ایران علم کی پیچھے جائے، ٹیکنالوجی کے پیچھے جائے، سیاسی ڈائیلاگ کے پیچھے جائے، مختلف تجارتی اور اقتصادی معاملات کے پیچھے جائے، کہ یہ تمام چیزین ضروری ہیں، لیکن دفاعی طاقت کا حامل نہ ہو، دفاع کرنے کی توانائِ نہ رکھتا ہو، ہر ایری غیری نام نہاد جھوٹی حکومت اسے دھمکیاں دے گی کہ اگر فلاں کام انجام نہیں دیا تو ہم میزائیل برسا دیں گے، خوب اگر آپ کے پاس دفاع کرنے کے امکانات نہ ہوں تو آپ عقب نشینی پر مجبور ہو جائیں گے۔
دنیا کی بڑی طاقتوں کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ بھاری آواز میں بات کرتے ہیں، دھونس جماتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں، برے الفاظ ادا کرتے ہیں اور دبائو ڈالتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر ان اسلحوں کی دھونس جماتے ہیں کہ جو ان کے پاس ہیں اور ایسے عالم میں ہم ان کے مقابلے میں نہتے ہو جائیں؟ سپاہ نے اپنے میزائیلی توانائی کو ثابت کر دیا ہے، یہ نہ صرف ایرانیوں کے لئے فخر ومباہات کا سبب ہے بلکہ جب سپاہ کے ان میزائیلوں کا اتنی دقت اور اتنے خوبصورت انداز میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے، ہمارے آس پاس موجود بہت ساری حکومتیں کہ جن کے دل امریکہ اور صیہونی حکومت کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے ہیں، وہ خوشحال ہو جاتے ہیں۔ جب ایسےکام انجام دیئے جا رہے ہوں تو ہم آئیں اور انہیں ہدف تنقید بنائیں اور کہیں کہ جناب اب میزائیلوں کا زمانہ گذر گیا۔۔۔۔۔ نہیں میزائیلوں کا زمانہ نہیں گذرا، دشمن ہر لمحہ اپنے آپ کو جدت دے رہا اور اپنے آپ کو آمادہ کر رہا ہے، اور ہم سادہ لوحی کی وجہ سے اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیں اور اسکا انکار کریں۔ انقلاب کے اوائل میں کہ جب یہی ہمارے ایف چودہ طیاروں کو بیچنا چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ واپس کردیں لیکن میں نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ مجھے خبر ملی کہ اس وقت کی عبوری حکومت میں موجود ایک شخص نے کہا ہے کہ یہ جو صیہونی حکومت سے ایف چودہ طیارے خریدے جا رہے ہیں یہ ہمارے کام کے نہیں ہیں، ہمیں ان ایف چودہ طیاروں کا کیا کرنا؟ پس انہیں یہ طیارے واپس کر دیتے ہیں۔ اس وقت ہم اٹھ کھڑے ہوئے، ہم نے اعترضات کئے، گفتگو کی اور مقابلہ کیا، انکی جرات نہیں ہوئی کہ یہ کام کریں، چاہتے تھے کہ وہ طیارے واپس لوٹا دیں۔ چند دنوں بعد ہی ایران اور عراق کی جنگ شروع ہوگئی اور انہوں نے حملہ کردیا اور اس کے بعد پتہ چلا کہ ہمیں ان طیاروں کی کہ جو ہمارے پاس ہیں کتنی ضرورت تھی، یہی ایف چودہ، ایف چار اور اس طرح کے طیارے۔ آج بھی بعض افراد نے وہی انداز اپنایا ہے کہ میزائیل کیا ہے، میزائیل کا ہم کیا کریں گے، زمانہ میزائیلوں کا زمانہ نہیں ہے، اگر میزائیل کا زمانہ نہیں ہے تو جناب کس چیز کا زمانہ ہے جناب؟
آج کا زمانہ تمام چیزوں کا زمانہ ہے۔ مذاکرات کا بھی زمانہ ہے ، مذاکرات میں ہمیں مضبوط ہونا چاہئے اور اس طرح مذاکرات کرنے چاہئیں کہ بعد میں ہم دھوکہ نہ کھائیں۔ یہ کہ ہم مذاکرات کریں، اسے کاغذ پر لے کر آئیں، لکھیں، دستخط کریں، اس کے بعد وہ کوئی ایسا کام انجام دیں کہ بالآخر پابندیاں اٹھائی نہ جائیں اور تجارت کا سلسلہ شروع نہ ہو، صاف ظاہر ہے کہ اس میں کہیں مشکل ہے، اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس طرح کی مشکلات پیدا ہوں اور وہاں پر بھی اپنے آپ کو مضبوط کریں۔ ملک کی داخلی معیشت میں بھی اسی طرح، ہم نے کہا اقدام اور عمل۔ کہا گیا بس کریں، " دو سد گفتہ چون نیم کردار نیست"، جب ہم نے بہت زیادہ تکرار کی اور مسلسل کہا کے استقامتی معیشت، جب بار بار منہ سے نکلے، یعنی جب تکرار ہو تو، ایک تھکا دینے والی چیز بن جاتی ہے، ۔۔۔۔۔۔ عمل کریں۔ ہماری اس سے غرض یہ ہے کہ ملک کو اس کی ضرورت ہے۔
یہ مسئلے کا ایک پہلو ہے، عوام کے نظریات میں تبدیلی لانے کے لئے دشمن جو کام انجام دے رہا ہے وہ مسئلے کا دوسرا پہلو ہے۔ ایسے موقع پر آپ اپنا کردار ادا کرتے ہیں، کردار نبھاتے ہیں، کردار پیدا کرتے ہیں، اہم کردار۔ آپ جو مدافعان حرم کی حمایت کرتے ہیں یہ بھی بہت اہم کام ہے۔ جو اشعار بھی یہاں پڑھے گئے، جتنی بھی یہاں باتیں کی گئیں، یہ سب بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، کیونکہ مقدس دفاع کے زمانے میں بھی جو اشعار پڑھے گئے، جو ترانے پڑھے گئے، وہ بہت موثر ثابت ہوئے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی یہ بہت موثر ہیں۔ لیکن ان کاموں کے ساتھ ساتھ ایک کام اور ہے کہ اگر اسکی اہمیت زیادہ نہ ہوتو کمتر بھی نہیں، اور وہ نوجوانوں کے عقائد کو تقویت پہچانا ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ نوجوانوں کے عقائد و نظریات کو تبدیل کردے، اسلام کے بارے میں انکے نظریات کو، اسلامی نظام کے کارآمد ہونے کے بارے میں انکے نظریات کو، کارآمد ہونے کے بارے میں انکے نظریات کو، اسلامی نظام کے جاری رہنے کے بارے میں انکے نظریات کو۔ بدیہی چیزوں کے برخلاف دشمن کام کررہا ہے اور تشہیرات انجام دے رہا ہے۔ بعض اوقات ایک واضح چیز کے بارے میں بھی اقدامات کرتا ہے اور فریب دیتا ہے، خدشات وارد کرتا ہے اور آنکھیں بند کرنا چاہتا ہے۔ اسلامی نظام جس دن سے وجود میں آیا ہے مستقل بنیادوں پر سنگین حملوں کی زد میں ہے، سنگین فوجی، تشہیراتی حملے، پابندیاں اور اس طرح کی دوسری چیزوں اور اسی حالت میں اسلامی نظام نے ان ۳۷ سالوں میں ترقی کی ہے، یعنی ایک دن بھی ایسا انہیں تھا اس میں وقفہ آیا ہو، تمام زاویوں سے اس نے ترقی کی ہے، اور تمام زاویوں سے قدرت اور عظمت حاصل کی ہے۔ دشمن آج دیکھتا ہے کہ اور اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ انقلاب کے اوائل میں جو باریک اور کمزور پودا تھا، آج ایک تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے کہ «تُؤتی اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّها»، اس کو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ خوب یہ نظام کہ جو زندہ رہنے کی اتنی زیادہ استعداد رکھتا ہو، پھلنے پھولنے کی استعداد اس کے اندر موجود ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی طرح قدرت مند ہوتا چلا جائے گا، روز بروز طاقت ور ہوتا چلا جائے گا۔ وہ چیز کہ جسے ہم نے اپنے مستقبل کا نقطہ نظر بنایا ہوا ہے وہ خیالات پر مشتمل نہیں ہے، وہ ایک حقیقت ہے۔ میں نے چار سال پہلے طالبعلموں اور اہل علم حضرات سے کہا تھا کہ آپ کو ایسا کام کرنا چاہئے کہ پچاس سال بعد اگر کوئی علمی ترقی اور پیشرفت تک دسترسی حاصل کرنا چاہتا ہو تو وہ فارسی زبان سیکھنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ ہو سکتا ہے، یہ ممکن ہے، سچ تو یہ ہے کہ ان دس پندرہ سالوں میں، علمی ترقی اور سائنسی پیشرفت اسی طرح سامنے آئی جیسا ہم نے کہا تھا۔ جب جوان ہمت کریں، جب صاحبان ہمت و اراد ہمت کریں، تمام دشوار کام آسان ہو جایا کرتے ہیں، ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور ایسے عالم میں دشمن ہمارے جوانوں کے نظریات اور عقائد پر اثر انداز ہو رہا ہے: جناب کیا فائدہ، نہیں ہو سکتا، اسکا فائدہ نہیں، یہ وہ نفسیاتی حربے ہیں کہ دشمن ان حربوں کے زریعے نفسیاتی جنگ لر رہا ہے اور آپ مداح کے عنوان سے اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، آپ جوانوں کو انکی فکری بنیادوں کے لحاظ سے مظبوط کر سکتے ہیں۔
یہ جو میں بعض اوقات عرض کرتا ہوں کہ بعض مداحیاں کہ مثلا فرض کریں عشرہ محرم کی عزاداری میں جب انسان دیکھتا ہے، کہ بعض اوقات ویڈیوز لے آتے ہیں، اور آجکل تو یہ وسائل زیادہ ہو گئے ہیں، البتہ میرے پاس نہیں ہیں، لیکن بعض اوقات لاتے ہیں مجھے دکھاتے ہیں یہ ویڈیوز اور اس طرح کی دوسری چیزیں، دیکھیں مثلا ایک جگہ تمام شرکاء اچھل کود کر رہے ہیں، خوب اسکا کیا فائدہ ہے؟ اس کی کیا تاثیر ہے؟ یہ کہاں کی عزاداری ہے؟ یہ جو میں اعتراض کرتا ہوں، میں جوانوں کے جوش و جذبے سے ناراض نہیں ہوں، خوب جوان جوش و جذبے کا حامل ہوتا ہے، جوان توانائی کا منبع ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ چاہتا ہے کہ اپنی توانائی کہیں صرف کرے۔ میں اس لحاظ سے بات کرتا ہوں کہ یہ عظیم وظیفہ ادھورا نہ رہ جائے۔ جب ایک گروہ میں دس ہزار یا پانچ ہزار جوان جمع ہوتے ہوں اور انہوں نے اپنا دل آپ کے سپرد کر دیا ہو تو آپ بہت بہترین، ہنرمندانہ اور پر مغز انداز اپنا کر انہیں ایک کارآمد انسان میں تبدیل کر سکتے ہیں کہ جو اپنے عزم و ارداے سے اپنا کام انجام دے سکتا ہو، اور انہیں ایک لا ابالی، بے فکر، نا امید اور روحانیت کے لحاظ سے تہی دست انسان میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں، یہ کام بھی کیا جا سکتا ہے۔ آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اس پہلی شق کا انتخاب کریں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔
مداحی کائنات کی بہترین خلقتوں میں سے ایک ہے۔ اور مدح کا موضوع بھی کائنات کی بہترین خلقتیں یعنی اہل بیت علیہم السلام ہیں، لہذا اسکی شان اور مقام و منزلت بہت عظیم ہے۔ فطری طور پر اسے مداحی کہتے ہیں، لیکن اگر آپ مشاہدہ کریں مثلا دعبل خزاعی جیسا شاعر اپنے قصیدے " مدارس آیات" میں کیا کہتا ہے، کہتا ہے، " مدارس آیات" وہ قصیدہ ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اسے سراہا اور اسے کسوہ دیا اور انعام عطا کیا، یہ وہ قصیدہ ہے کہ جس نے بنی عباس کی بساط کو ، بنی عباس کے وجود کے فلسفے کو سوال کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا، اور اسکا محاکمہ کیا، یعنی محض سیاسی قصیدہ ہے، فقط یہ نہ ہو کہ محض قصیدہ خوانی ہو یا محض مرثیہ خوانی ہو، نہیں مرثیہ خوانی ضروری ہے لیکن وہی کام جو مرثیہ خوانی کے ساتھ ساتھ انجام دیا گیا ائمہ علیہم السلام کی توجہ کا باعث بنا۔ دعبل کا قصیدہ، کمیت کا قصیدہ، اس زمانے کے شعراء کے قصیدے، دوسرے افراد بھی پڑھتے تھے یعنی آپ کی طرح کے لحن کے ساتھ پڑھتے ، چاہے خود شاعر ہوں، یا دوسرے افراد کہ جو ان اشعار کو عوام کے لئے لحن میں پڑھتے تھے، تشہیراتی وسائل اس زمانے میں ان چیزوں سے عبارت تھے۔ آج آپ بھی ان ہی چیزوں سے استفادہ کر رہے ہیں، اجتماعی تشہیراتی وسائل سے بہرمند ہورہے ہیں اور عوام کی ہدایت کر رہے ہیں، میری نگاہ میں یہ ایک بنیادی کام ہے۔
مشہور ہے کہ ہر علم کا شرف اس علم کے موضوع سے وابستہ ہے، ہر وہ علم کہ جس کے موضوع میں زیادہ شرافت پائی جاتی ہو، وہ علم بھی زیادہ شرافت کا حامل ہو گا۔ اب اگر اس علم کو مشاغل پر تسری دیں، آپ کے مشغلہ کا موضوع، آپ کا کام، اور آپ کی ہمتیں، اہل بیت علیہم السلام کی مدح، بصیرت افزائی اور سننے والوں کو بیدار کرنے سے عبارت ہیں، یہ عظیم ترین چیزیں ہیں، بہت گراں قدر چیزیں ہیں، ان گراں قدر چیزوں سے استفادہ کریں۔ الحمداللہ مداحوں کی جمعیت بھی زیادہ ہے، یہ جماعت جو آج یہاں تشریف لائی ہے کہ جن کی تعداد بھی قابل توجہ ہے لیکن پورے ملک میں مداحوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے، ہر جگہ الحمد اللہ انکی تعداد بہت زیادہ ہے، ایسے افراد موجود ہیں کہ جو شوق رکھتے ہیں اور اس کام کو انجام دیتے ہیں، بہر حال یہ ایک اہم رسالت ہے، اسے اہمیت دی جانی چاہئے۔ البتہ اہم کردار شعرائے کرام انجام دیتے ہیں، شعراء شعر تخلیق کرتے ہیں اور اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن شعر کی تاثیر اسکے اچھے انداز میں نہ پڑھے جانے کی وجہ سے کم ہو جاتی ہے اور آپ کہ جو اتنے بہترین اور اتنے اچھے انداز میں پڑھتے ہیں آپ موثر واقع ہوتے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ خداوند متعال آپ لوگوں کو یہ توفیق عنایت کرے، ہمیں یہ توفیق عنایت کرے اور سب سے پہلے جو ہمارا وظیفہ ہے اسکی تشخیص دیں اسے سمجھیں اور اسکے بعد انشاء اللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ