ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی کا مشہد مقدس میں لاکھوں زائرین کے اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیین المعصومین سیّما بقیة الله فی الارضین.
اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت محمّد اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت رسولک و زوجة ولیّک الطّهرة الطّاهرة المطهّرة التّقیّة النّقیّة الزّکیّة سیّدة نساء اهل الجنّة اجمعین.
اللّهمّ صلّ علی ولیّک علیّ بن موسی‌ صلاةً دائمةً بِدَوام مُلکِکَ و سُلطانِک، اللّهمّ سَلِّم علی وَلیّک علیّ بن موسی‌ سلاماً دائماً بِدَوام مَجدِک و عظمتک و کبریائک.

 

پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں شمسی ہجری سال کے آغاز کے موقع پر آپ اہل مشہد اور زائرین محترم کی جو ملک کے گوشہ وکنار سے یہاں امام رضا علیہ السلام کی خدمت می تشریف لائے ہیں،زیارت کی توفیق عنایت فرمائی۔ سب سے پہلے میں آپ سب بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں ایک بار پھر سے نئے سال کی مبارک باد پیش کرتاہوں۔

اس سال کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ابتدا،قمری سال کے لحاظ سے،جناب صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کے مطابق ہے اور اس کے آخر میں بھی بانوئے دو عالم کی ولادت باسعادت کے ایام ہیں۔پروردگار سے دعا گو ہوں کہ اس سال کو جناب فاطمہ زہرا،بانوی دو عالم اور سیدۃ نساء عالمین سلام اللہ علیھا کے وجود مبارک کے صدقے اور طفیل میں، ایرانی قوم اور تمام مسلمانوں اور محبان اہلبیت ؑ کے لئے بابرکت سال قرار دے۔ اور ہم سب کو انکی ولادت باسعادت کی برکت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عنایت کرے۔ ان‌شاءاللہ

اس سال،اس سفر میں مجھے جس کمی اور خلا کا احساس ہورہا ہے وہ عالم مجاہد اور مخلص خدمت گزار جناب طبسی صاحب رہ (۱)کا اس بارگاہ مقدس میں نہ ہونا ہے۔ ان کا وجود بہت ہی مبارک تھا؛وہ انقلاب کی بزرگ شخصتیوں میں سے تھےاور جو لوگ انکو جانتے اور پہچانتے تھے،انکے لئے انکی جدائی حقیقی معنی میں ایک بڑا نقصان ہے۔ خداوند عالم سے دعاکرتاہوں کہ انکی روح مطہر کو جناب ابالحسن امام الرضا علیہ السلام کے سایہ محبت و شفقت میں قرار دے،اور اپنی رحمت ومغفرت کو ان پر نازل فرمائے۔ 

آج کی گفتگو کا آغاز اس سال کے شعار اور نعرے سے کرتا ہوں اور آگے انشا اللہ آپ بھائیوں اوربہنوں اور ان افراد کے کےلئے جو بعد میں اس گفتگو کو سنیں گے،کچھ باتوں کی وضاحت کروں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک متقن اور منطقی گفتگو ہو؛آج ہماری عوام کے ذھنوں میں شعاری گفتگو کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے عوام، ہمارے جوان، ہمارے معاشرے کے افراد فہیم اور سمجھدار ہیں۔ وہ مسائل کو منطق اور استدلال کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔جو کچھ میں عرض کررہا ہوں،میں اسے اپنے عزیز عوام کی خدمت میں  متقن اور منطقی طور پر بیان کرنا چاتا ہوں۔

میں نے ملک کے مجموعی مسائل اور اس کے تجزیہ کے پیش نظر اس سال کے نعرے کا انتخاب بھی اقتصاد کے عنوان سے ہی کیا ہے۔(۲)شاید بعض افراد یہ سوچ رہے ہوں کہ اس سال کا نعرہ کسی  اخلاقی یا ثقافتی موضوع سے متعلق ہوگا،لیکن ملک کے مسائل کے پیش نظر ایسا محسوس کیا کہ گذشتہ سالوں کی طرح اس سال کا نعرہ بھی اقتصادی مسئلے کے متعلق ہو تاکہ یہ عوام اور انکے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔ اس تجزیہ کو میں آپ کی خدمت  میں عرض کررہا ہوں اور میں چاہتا ہوں کہ ہمارے عزیز جوان اس کو سننے کے بعد خود بھی اس کا تجزیہ کریں اور اس سلسلہ میں غور وفکر کریں۔

عصر حاضر میں استعماری سیاست بالخصوص امریکی سیاست اس بات کے در پے ہے کہ ہماری قوم کے ذہنوں میں ایک خاص فکر پیدا کی جائے۔پہلے وہ فکر ملک کے برجستہ افراد کے درمیان پیدا کیجائے اور اس کے بعد رفتہ رفتہ عوام  کے اذھان کی  طرف منتقل کی جائے؛بہر حال عوام کے درمیان ایک خاص طرز فکر رائج کی جائے۔ ان کی سیاست یہ ہےکہ ایرانی عوام کو یقین دلایا جائے کہ وہ دوراہے پر کھڑی ہے اور اس کے پاس ان دو میں سے کسی ایک کو چننے کے علاوہ (تیسرا)کوئی راستہ  نہیں ہے۔ اور وہ دو راستے یہ ہیں کہ یا امریکہ کے ساتھ صلح کرلیں اور اس کے شرائط کو مان لیں یا پھر مسلسل امریکہ کی طرف سے دباؤ،پابندیوں اور مشکلات کو برداشت کرتے رہیں؛ایرانی قوم  ان دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ وہ لوگ یہ چاہتے ہیں۔

البتہ امریکہ سے صلح کا مطلب دوسرے کسی بھی ملک سے صلح و دوستی نہ کرنا ہے۔کیوںکہ امریکہ کے پاس دولت وثروت ہے،وسیع ذرائع ابلاغ ،خطرناک ہتھیار کا ذخیرہ اور تمام وسائل موجود ہیں۔اس سے صلح کرنے کا مطلب اس کی تمام شرائط اور باتوں کو زبردستی قبول کرنا ہے۔امریکہ کے ساتھ موافقت کی حقیقت یہ ہے۔ہر جگہ ایسا ہی ہے؛دوسرے ممالک بھی جو امریکہ کے ساتھ  کسی مسئلے میں بھی موافقت اور صلح  کرتے  ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ امریکہ کے فائدے کے لئے اپنے ملک کے مفاد سے دستبردار ہوجائیں۔لیکن امریکہ ان کے فائدہ کے لئے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ابھی حال ہی میں  جوہری توانائی سے متعلق ہمارا جو معاہدہ ہوا ہےاور میں نے اس کی تائید بھی کی ہے اور معاہدہ کرنے والوں کو بھی مورد قبول قرار دیا،لیکن یہاں بھی صورت حال وہی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ محترم نے بھی متعدد موارد کے سلسلہ میں  مجھے بتایا کہ مثلا اس مقام پر ہم اپنی ریڈ لائین کی حفاظت نہیں کرپائے۔ اس کا مطلب یہی ہے۔ جب مدمقابل امریکہ جیسا ثروتمند،وسیع ذرائع ابلاغ اور وسائل سے بہرہ مند اور سرگرم ڈیموکریسی والا ملک ہو،جس کے عناصر دنیا کے گوشہ و کنار میں پھیلے ہوئے ہوں تو وہ جس ملک پر بھی دباؤ ڈالے گا وہ اس کے زیر اثر آجائے گا۔ اس کے ساتھ صلح کرنے کا مطلب یہ ہےکہ انسان ان چیزوں سے قطع نظر کر لے جن کے لئے  اب تک شدید اصرار کرتا رہا ہے۔ یہ ایک دوراہا ہے جس کو امریکہ اپنی سیاست کے تحت ہماری عوام کے ذہنوں میں ڈالنا چاہتا ہے۔ ایک ایسا دوراہا جس سے بچا ہی نہیں جاسکتا:یاتو اکثر مسائل میں امریکہ اور اس کے مطالبات کو مان لیا جائے،یا پھر امریکہ کے دباؤ،اس کی دھمکیوں  اور اس کی مخالفت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نقصانات کو برداشت کیا جائے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس بات کو ایک موضوع کی صورت میں  پہلے ملک کے برجستہ افراد کے درمیان رائج کیا جائے اور اس کے بعد تدریجی طور پر عوام کے ذھنوں میں اس بات کو ڈالا جائے۔اور وہ لوگ ملک کے اندر اور باہر اس فکر کی ترویج کر رہے ہیں۔ اور مختلف صورتوں،مختلف بہانوں اور  ذرائع ابلاغ کے توسط سے اس کو دنیا میں پھیلا رہے ہیں؛کچھ لوگوں کو ہمارے قوم میں اس فکر کی ترویج کے لئے معین کیا گیا ہے۔ ملک کے اگر اندر کچھ لوگ ہیں،جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے جو اس فکر کو مانتےہیں اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسروں میں بھی یہ فکر رائج کردیں۔

غور فرمائیے جو میں عرض کررہا ہوں،پہلے مد مقابل کی بات کو نقل کرتا ہوں اور اس کے بعد حق کا تقاضا کیا ہے اسکو بیان کروں گا۔ مد مقابل یعنی یہی پروپیگنڈہ کرنے والا گروہ ،اسی فکر کو پیدا کرنے اور رائج کرنے والے افراد وغیرہ،ان کا کہنا یہ ہے کہ ایران کے پاس فراوان اقتصادی مواقع ہیں اور جوہری توانائی کے سلسلہ میں معاہدہ اسی لئے ہوا ہے تاکہ ان مواقع سے فائدہ حاصل کیا جاسکے۔؛یہ معاہدہ انجام تو پاگیا لیکن معاہدہ کافی نہیں ہے بلکہ کچھ اور مسائل ہیں جن کے سلسلہ میں ایرانی عوام،حکومت ایران اور ایرانی ذمہ داران کو فیصلہ کرنے اور اقدام  کرنے کی ضرورت ہے؛مثلا فرض کیجئےکہ یہی مغربی ایشیا کا علاقہ جس کو یہ لوگ ’’خاور میانہ‘‘ یا مشرق وسطیٰ کہتے ہیں،یہاں بہت زیادہ مسائل، مشکلات اور ناامنی کی صورت حال ہے اور یہ پورے علاقہ کے لئے مشکلات اور پریشانی کا باعث ہے۔اگر ہم اس مشکل سے نجات پانا چاہتے ہیں،تو ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔اب یہ کام کیسے ہوگا؟امریکہ کے ساتھ تعاون کریں،اس کے ھم فکر ہوجائیں،اسکے ساتھ مذاکرات کریں،اس کے ساتھ بیٹھیں،گفتگو کریں اور امریکہ کی خواہش کے مطابق عمل کریں،یا جیسا وہ بننے کے  لئے کہے ہوجائیں؛ایک چیز یہ بھی ہے۔

یا ہماری دوسری مشکلات بھی ہیں،بہت سے مسائل میں امریکہ کے ساتھ ہمارے اختلافات ہیں۔ان اختلافات کو ہم ختم کریں بلکہ ختم ہونے چاہئے؛اب آپ فرض کریں کہ اگر ان اختلافات کو حل کرنے کےلئے ایرانی عوام کو اپنے اصول سے قطع نظر کرنے پر مجبور ہونا پڑے تو ان اصول کو چھوڑ دیں،اپنی ریڈ لائین سے قطع نظر کرنا پڑے تو اس کو بھی چھوڑ دیں؛لیکن طرف مقابل اپنے اصول و اقدار سے نیچے نہیں آئے گا،ہاں اگر ضرورت پڑی  تو ان مشکلات کو ختم کرنے کے لئے ہمیں اپنے اقدار اور اصول کو چھوڑنا ہوگا؛تاکہ اس کے نتیجہ میں ہمارا ملک اپنی حیثیت اور قابلیت سے فائدہ حاصل کرسکے۔ مثلا ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوجائے جو اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہو۔وہ یہ بات کرتے ہیں۔ بنابرایں جوہری توانائی کے سلسلہ میں ایک معاہدہ انجام پاگیا اور ہم نے اس کا نام ’’برجام ‘‘رکھ دیا۔اس کے بعد خطے کے حالات کے سلسلہ میں اس کے علاوہ بھی بہت سے برجام وجود میں آئیں گے،ملک کے بنیادی قوانین میں بہت سے برجام کا اضافہ ہو گا، برجام ۲،۳،۴ ۔۔۔وغیرہ،تب جاکر ہم سکون کا سانس لے سکتے ہیں۔یہ انکی منطق ہے جسے وہ ہمارے برجستہ افراد کے درمیان رائج کرنا چاہتے ہیں اور ان کے ذریعہ معاشرے کے دیگر افراد میں منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی ان باتوں کا مطلب کیا ہوا؟ مطلب یہ ہوا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے بنیادی مسائل میں جن اسلامی احکام کی پابندی ہے، ان سے قطع نظر کرے: فلسطین کے مسئلے سے قطع نظر کرے،علاقہ میں مزاحمت کی حمایت نہ کرے، علاقہ کی مظلوم عوام مثلا فسلطین، غزہ، یمن اور بحرین کی عوام، کی پشت پناہی اور ان کی سیاسی حمایت نہ کرے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے،خود کو ان امور سے نزدیک کرنا ضروری ہے جو امریکہ چاہتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ آج علاقے کی کچھ حکومتیں اسلام کے صریح حکم اور اپنی عوام کی مرضی کے برخلاف اسرائیل کے ساتھ  صلح کربیٹھی ہیں،اور فلسطین کے  مسئلے کو دوسرے مسائل کے ضمن ڈال دیا گیا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران بھی اس طرح کے کام انجام دے؛اس کا مطلب یہ ہےکہ جس طرح بعض عرب ممالک نے کمال حقارت کے ساتھ اسرائیل کے سامنے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہوا ہے ،ایران بھی انہیں کی طرح اسرائیل سے دشمنی کو ختم کرکے اس سے صلح کرلے۔

اگرچہ یہ مسئلے یہیں پر ختم نہیں ہوتا؛ بلکہ جیسا کہ دشمن کے اس سیاسی تجزیے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر امریکہ چاہے گا تو اسلامی جمہوریہ ایران  کو اپنے دفاعی سسٹم سے بھی قطع نظر کرنا پڑ سکتا ہے۔  آپ نے دیکھا کہ میزائیل کے مسئلے پر امریکہ نے کس طرح وبال کھڑا کر دیا تھا ،کہ ایران کے پاس میزائیل کیوں ہے۔ کیوں اسکے پاس دور مار میزائیل ہیں۔ کیوں ایران کے میزائیل ٹھیک اپنے نشانے پر جاکر لگتے ہیں۔کیوں ایران نے میزائیل کی آزمایش اور تجربہ کیا، فوجی مشقیں کیوں کرتا ہے۔ کیوں ،کیوں اور کیوں۔یہ امریکی جن کا ملک خلیج فارس سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہر  کچھ دنوں کے بعد خلیج فارس کے ممالک میں سے کسی کے ساتھ ملکر فوجی مشق  کرتے رہتے ہیں۔جبکہ یہاں ان کا کوئی کام نہیں ہے۔لیکن اگر اسلامی جمہوریہ ایران  اپنے گھر میں،اپنی فضا میں اور اپنی زمین پر فوجی مشقیں کرتی ہے تو ان کی آوازیں  بلند ہونا شرورع ہوجاتی ہیں کہ کیوں مشق کررہے کیوں یہ کام کرہے ہو۔ کیوں تمہاری سمندری فوج یہ کررہی ہے اور ہوائی  فوج یہ کررہی ہے۔ دشمن کے تجزیہ کامطلب یہ ہے کہ ہم ان تمام چیزوں سے قطع نظر کرلیں۔مسئلے اس سے بھی بڑا ہے؛دھیرے دھیرے یہ کہنا شروع کردیں گے کیوں تم نے قدس ریجمنٹ بنائی ہے ،کیوں ہم نے سپاہ بنائی ہوئی ہے،کیوں ایران کی اندورنی سیاست اسلامی  قانون کے مطابق ہے۔مسئلے یہاں تک پہنچ جائے گا۔ابھی تو آپ دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئےلیکن جیسے ہی آپ اس سے پیچھے ہٹیں گے وہ آگے آجائے گا،دشمن رکے گا نہیں،اور مسئلے یہاں تک پہنچ جائے گا کہ وہ کہےگا کہ یہ جو تم لوگ کہتے ہو کہ اسلامی جمہوریہ،شورائے اسلامی یا (قوہ قضائی)عدلیہ (وغیرہ )اسلامی قانون اور شریعت کےمطابق ہونی چاہئے،یہ سب آزادی کے برخلاف ہے لیبرل ازم اس کو قبول نہیں کرتی؛رفتہ رفتہ مسئلے یہاں تک پہننچ جائے گا۔اگر آپ پیچھے ہٹے تو یہ پیچھے ہٹنا یہاں تک پہننچ جائےگا کہ (کہیں گے)شورائے نگہبان کا معاشرے میں کیا کردار ہے،شریعت سے مخالفت کی وجہ سے شورائے نگہبان کیوں قوانین کو لغو کردیتا ہے؟ یہ سب باتیں ہیں۔اس بات کو میں متعدد بار ذکر کرچکا ہوں کہ اس کا مطلب (انکو باتوں کو ماننا)اسلامی جمہوریہ ایران  کی حقیقت کو تبدیل کردیناہے۔ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران  کی ظاہری صورت تو باقی رہے لیکن اس کی حقیقی صورت مکمل طور پر ختم ہوجائے گی؛ دشمن یہی چاہتا ہے۔ چنانچہ دشمن اپنے اس تجزیہ کو ہمارے برجستہ افراد کے اذھان اور ان کے ذریعہ قوم کے  عام اذھان میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم،امریکہ کے شر سے نجات پانا چاہتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ کو اپنی حقیقت سے دست بردار ہونےپڑے گا،اسلام کا دامن چھوڑنا پڑے گا،اسلامی احکام کو چھوڑنا پڑے گا،اپنے امن و سکون سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔کئی ایسے عناصر ہیں جو اس تجزیے میں موجود نہیں ہے اور ان کی طرف توجہ بھی نہیں کی گئی ہے۔میں ان میں سے چند کی طرف اشارہ کروں گا۔جوہری توانائی کے سلسلہ میں امریکہ اور ’’پانچ جمع ایک‘‘ممالک کے ساتھ یہ جو معاہدہ انجام پایا ہے،اس میں امریکہ نے جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل نہیں کیا۔اور جو کرنا چاہئے تھا نہیں کیا۔جیسا کہ ہمارے وزیر خارجہ محترم نے بھی بتایا کہ انہوں نے کاغذ پر تو بہت سی باتیں لکھیں لیکن مختلف منحرف کرنے والے طریقوں سے،اسلامی جمہوریہ کے مفادات کو تحقق پانے سے روک دیا۔آپ غور کریں،اس وقت تمام مغربی ممالک کے ساتھ اور ان ممالک کے ساتھ کہ جو ان کے ماتحت ہیں،ہمارے ملک سے بینکوں کے ساتھ معاملات کی مشکل ویسے ہی برقرار ہے،انکے بینکوں سے ہمیں اپنی رقم نکالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ تمام تجارتی معاملات جن میں بینک کی ضرورت اور مداخلت ہوتی ہے ان میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جب ہم اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں،تحقیق کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ امریکیوں سے ڈرتے ہیں اور خوف زدہ ہیں۔امریکی کہتے ہیں کہ ہم پابندیاں اٹھارہے ہیں اور تحریری طور پر اٹھا بھی لی ہیں لیکن دوسری طرف سے ایسا کام کرتے ہیں کہ یہ پابندیاں ہٹنے ہی نہ پایئں۔ لھٰذا جو لوگ یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم امریکہ کے ساتھ بیٹھ کر فلاں فلاں مسئلے پر گفتگو کریں،کچھ چیزوں کی پابندی وہ کرے اور کچھ چیزوں کی ہم کریں،اور ایک نقطہ پر معاہدہ ہوجائے تو وہ بھول رہے ہیں کہ ہم تو اپنے تمام عہد و پیمان پر عمل کریں گے لیکن طرف مقابل مختلف راستوں، حیلوں، مکر و فریب اور چالوں کے ذریعہ اپنے وعدے سے مکر جائے گا اور اس پر عمل نہیں کرے گا۔ یہ وہ چیز ہے جس کا ہم آج خود اہنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔یعنی محض نقصان اور خسارہ۔

لیکن مسئلے اس سے بھی آگے کا ہے۔میرے جن جوانوں نے طاغوتی شاہی حکومت کو نہیں دیکھا ہے اور اس کے بارے میں نہیں جانتے کہ انقلاب کی کامیابی کے وقت اس ملک میں کیا واقعات رونما ہوئے تھے ،انکے لئے کچھ باتیں عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔ ذرا غور کریں؛یہ علاقہ یعنی مغربی ایشیا ،جہاں ہم زندگی بسر کررہے ہیں،ایران اس علاقہ کا تاج ہے۔ جغرافیائی اور فوجی اسٹریٹیجی کے لحاظ سے ایک بے نظیر ملک ہے؛تیل اور گیس کے مخزن کے لحاظ سے اس علاقے بلکہ پوری دنیا میں اس ملک کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے؛تیل اور گیس کے علاوہ بھی بہت سی دوسری چیزوں کا مخزن ہے۔یہ ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے جس کے عوام با صلاحیت اور ہوشیار ہیں۔ یہ علاقہ کا تاج ہے؛ایک زمانہ میں یہ تاج امریکیوں کے ہاتھوں میں تھا اور وہ اس ملک کے ساتھ اور اس کے اندر جو چاہتے تھے کرتے تھے،:یہاں غارت گری کرتے تھے،یہاں کی دولت اپنے ساتھ لے جاتے تھے،وہ تمام کام جو استعماری حکومتیں کسی کمزور ملک کے ساتھ کرتی ہی وہ اس ملک کےساتھ انجام دیتے تھے۔وہ اس ملک کو اپنے پنجہ اور قبضے میں کئے ہوئے تھے۔انقلاب آیا اور اس نے اس ملک کو ان کے پنجے سے چھڑا لیا،(یہی وجہ ہے کہ) انقلاب کی نسبت کینہ اور نفرت امریکہ کے سیاسی دل سے خارج نہیں ہوسکتی ہے۔یہ دشمنی اسی صورت میں ختم ہوگی جب امریکہ اس ملک پر اپنے تسلط اور قدرت کو دوبارہ حاصل کر لے۔اور وہ اسی مقصد کے در پے ہیں۔چونکہ وہ لوگ سیاسی ہیں،ڈپلومیٹ ہیں،سیاسی امور سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ ایک مقصد کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اور جانتے ہیں کہ اس کی طرف رفتہ رفتہ بڑھنا چاہئے اور اس میدان میں وارد ہونا چاہئے؛وہ اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنے اور ہوش وحواس میں رہنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ نے صرف ایران کو ان کے ہاتھوں سے باہر نکالا ہے بلکہ ایسی شجاعت اور دلیری دکھائی ہے،جس کے بارے میں بعد میں عرض کرونگا،جس کی وجہ سے دوسرے ممالک میں بھی شوق اور جذبہ پیدا ہوا۔ آج آپ مشاہدہ کررہے ہیں کہ اس خطے کے بہت سے ممالک میں،بلکہ اس خطے سے باہر بھی بہت سے ممالک میں’’امریکہ مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے جارہے ہیں اور امریکہ کے پرچم کو جلایا جارہاہے۔ایرانی قوم نے بتا دیا کہ مزاحمت کی جاسکتی ہے اور دوسری اقوام کو بھی سکھا دیا کہ کس طرح امریکہ (کے شر) چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اب معاملہ امریکہ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

امریکیوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس مغربی ایشیا کے قلب میں ایک بڑا مشرق وسطیٰ،کبھی کہتے ہیں جدید مشرق وسطیٰ،کبھی بڑا مشرق وسطیٰ،بنانا چاہتے ہیں۔ان کا مقصد یہ تھا کہ اس مغربی ایشیا کی سرزمین اور اسلامی ممالک کے قلب میں جعلی اسرائیلی حکومت کو اقتصادی،سیاسی اور ثقافتی امور پر مسلط کردے؛ انکا مقصد یہ تھا۔اب آپ دیکھیں کہ وہی لوگ جو بڑے مشرق وسطیٰ کا دعویٰ کرتے تھے شام کےمسئلے میں ناکام ہوگئے،یمن کے مسئلے میں ناکام ہوگئے،عراق کے مسئلے میں ناکام ہوگئے اور فلسطین کے مسئلے میں بھی ناکام ہو گئے ہیں۔وہ ان تمام چیزوں کو ایران اور اسلامی جمہوریہ کی اوجہ سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ انکی دشمنی اس قسم کی ہے؛اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ان کی دشمنی کسی ایک یا دو ذروں کے لئے نہیں ہے؛بلکہ یہ بنیادی مسئلے ہے؛وہ اس طرف اس لئے پیش قدمی کررہےہیں تاکہ اپنے قدیمی تسلّط کو دوبارہ حاصل کرسکیں۔

میرے عزیز جوانوں آپ نے طاغوتی حکومت کا دور نہیں دیکھا ہے؛میرے عزیز جوانو؛میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ ،پہلوی حکومت کے زمانہ میں اور اس سے تھوڑا پہلے سے،تقریبا ً پچاس یا ساٹھ سال تک ہمارے ملک کی زمام حکومت پہلے برطانیہ اور اس کے بعد امریکیوں کے ہاتھ میں تھی،وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے؛مثلا پہلوی حکومت کو برسر اقتدار لائے؛رضا خان کو حکومت دے دی اور جب اس سے دل بھر گیا تو اس کو برطرف کردیا اور اسکی جگہ محمد رضا کو لاکر بٹھا دیا؛یعنی اس عظیم اور اتنے بڑے ملک میں اس قوم کے لئے،حاکم کا انتخاب امریکہ اور برطانیہ اپنی مرضی کے مطابق اتنی آسانی سے کرتے تھے۔اپنے ہی افراد میں سےجس کو چاہتے ہٹھادیتے،جس کو چاہتے اس کی جگہ بٹھادیتے؛ایران میں ان کی یہ صورت حال تھی۔ بہرحال؛وہ کس طرح اس تسلط کو حاصل کرنےمیں کامیاب ہوئے تھے؟یہاں پر انہوں نے اپنے مورچے بنائے تھے،پہلے برطانیہ اور اس کے کئی دہائیوں کے بعد امریکہ اس مورچہ کو اپنے تسلط اور حکومت کے استمرار اور دوام کے لئے استعمال کرتے تھے۔انقلاب آیا اور اس نے اپنے جوانوں کے ہاتھوں سے ان مورچوں کو خراب کروادیا،انہین منھدم کروا دیا۔اور اس کی جگہ پر انقلاب نے اسلامی جمہوریہ اور قومی مفادات اور مصلحتوں کی حفاظت کے لئے نئے مورچے تیار کئے۔ اب وہ لوگ (امریکی) یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے خراب شدہ مورچوں کو دوبارہ سے تعمیر کریں اور انقلاب،انقلابیوں اور جوانوں کے بنائے ہوئے مورچوں کو خراب اور منہدم کردیں؛یہ انکا مقصد ہے۔

اب میں ان مورچوں کے چند نمونے آپکے سامنے گنتا ہوں۔ہمارے ملک میں استعماری حکومت،برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ،کا سب سے اہم مورچہ ان کی خود کی معین کردہ پہلوی حکومت تھی،پہلوی حکومت ان کا مورچہ تھی؛اس کے ذریعہ وہ ملک میں جو بھی چاہتے تھے کرتے تھے؛ہر قسم کی اقتصادی،سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دیتے تھے،کسی کو کہیں سے کہیں منتقل کرنا،کوئی فیصلہ کرنا،جیسا چاہتے تھے کرتے تھے،وہ لوگ اس ملک اور اس کی حکوت کو جدھر چاہتے تھے گھسیٹتے رہتے تھے؛یعنی طاغوتی حکومت امریکہ اور برطانیہ کا سب سے اہم مورچہ تھی۔یہ ایک مورچہ تھا۔ انقلاب آیا اس نے اس مورچہ کو نابود کردیا،ختم کردیا جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔شاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنےکے بعد اس کی جگہ کسی شخصی حکومت کے بجائے،جمہوری حکومت تشکیل دی۔ایک زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ جناب اس ملک کا ایک مالک ہے کون؟اعلیٰ حضرت؛یہ صورت حال تھی۔یہ بات بار بار کہی جاتی تھی کہ اس ملک کا مالک ہے۔ کون ہے؟ شاہ ملک کا مالک ہے۔یعنی ایک فاسد،نالائق،(دوسروں سے)وابستہ اور قومی غیرت سے عاری شخص اس ملک کا مالک تھا۔

اسلامی جمہوریہ نے آکر اس جھوٹے اور غاصب مالک سے حکومت کو چھین کر اس کے اصلی مالک یعنی اس قوم کے حوالے کردیا؛یہ ان کا پہلا مورچہ تھا جسے اسلامی جمہوریہ ایران  اور اسلامی انقلاب نے منہدم کردیا۔

لیکن صرف یہی چیز نہیں تھی بلکہ کچھ دوسرے مورچے بھی تھے؛کچھ نفسیاتی اور عینی عنصر بھی تھے۔کچھ ایسے مورچے تھے کہ میں ان میں سے چند کو یہاں پر گنوانا چاہتا ہوں۔ایک خوف تھا،خوف کا مورچہ؛ان طاقتوں سے خوف۔ان لوگوں نے اس ملک میں ایسے کام انجام دئے  تھے جنکی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں امریکہ کی طاقت اوراس کی قدرت کا خوف بیٹھ گیا تھا۔میں نے عرض کیا کہ آخر کی ان چند دہائیوں میں امریکہ اور اس سے پہلے برطانیہ،جب بھی کوئی حادثہ اس میں رونما ہوتا تو کہا جاتا تھا کہ یہ برطانیہ نے کیا ہے؛یعنی برطانیہ کو قدرت مطلق سمجھا جاتا تھا۔اور یہ خوف عوام سے ہی مخصوص نہیں تھا؛بلکہ خود حکومت کے بڑے افراد بھی امریکہ سےخوف کھاتے تھے۔وہ یادداشتیں جو اس حکومت کے افراد نے لکھیں تھیں جنہیں بعد میں شائع کیاگیا،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض موارد پر محمد رضا اور اس کے نزدیکی افراد امریکہ کی طرٖف سے اپنی تذلیل کئے جانے اور ان پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے کس قدر ناراض تھے،لیکن انکے پاس کوئی چارہ نہیں تھا وہ (امریکہ کے سامنے)جھکنے اور تسلیم ہوجانے پر مجبور تھے۔خوف کی وجہ سے اس کی اطاعت کرنے پر مجبور تھے۔اس ڈرتے تھے۔اسلامی انقلاب آٰیا اس خوف کے مورچہ کو گرا ڈالا۔آج آپ اسلامی جمہوریہ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں دکھا سکتے ہیں جو دینی اقدار سے باخبر ہونےکے باوجود امریکہ سے خوفزدہ ہو؛ہماری قوم نے خوف کو اٹھاکر دور پھینک دیا۔قوم نے نہ صرف امریکہ کے خوف کو بلکہ پوری استعماری دنیا کے خوف کو دور پھینک دیا ہے۔ آٹھ سال تک چلنے والی تحمیلی جنگ میں،افسوس کہ ہمارے بعض جوانوں نے اس سنہرے اور نورانی  زمانے کو نہیں دیکھا ہے،امریکہ صدام کی مدد کررہا تھا ،نیٹو صدام کی مدد کرتا تھا،روس اس وقت صدام کی مدد کررہا تھا۔عرب حکومتیں اپنی تمام کمزرور یوں اور نالائقی کے باوجود صدام کی مدد کررہی تھیں۔سب اس کی مدد کررہے تھے؛یعنی مشرق و مغرب سب صدام کی حمایت اور مدد اور اسلامی جمہوریہ ایران  کے خلاف ایک ہوگئے تھے۔اسلامی جمہوریہ ایران  نے ان کے آگے اپنی پلکیں تک نہ جھپکیں،استقامت دکھائی،مقابلہ کیا اور الحمد للہ خدا کی مدد اور اس کی توفیق سے ان سب پر غالب آگئی۔آٹھ سال تک جنگ کے باوجود،ایرانی سر زمین سے  ایک بالشت زمین بھی نہ لے سکے۔ خوف کو اس طرح ختم کیا تھا۔ جی ہاں؛میں نے ابھی  عرض کیا کہ آج خود اعتماد، بامعرفت اور اسلامی اقدار سے آگاہ افراد امریکہ سے خوف زدہ نہیں ہوتے ہیں۔ (لیکن) ممکن ہیں بعض لوگ ڈرتے ہوں، یہ بات منطقی نہیں ہے؛اگر محمد رضا کا امریکہ سے ڈرنا منطقی تھا تو ان کا ڈرنا غیرمنطقی ہے کیوں کہ اس (محمد رضا) کے پاس اس عوام جیسی پشتپناہی نہ تھی۔آج اسلامی جمہوریہ ایران  کو اس عظیم قوم کی پشتپناہی حاصل ہے۔

دشمن کا ہمارے ملک پر تسلط پیدا کرنے کا ایک مورچہ یہ تھا کہ ہمارے اندر بے اعتمادی پیدا کردیں،ہماری قومی خود اعتمادی کو ختم کردیں؛ہماری قوم مغربی ممالک کے زرق و برق کا مشاہدہ کرتی تھی،ان کی علمی ترقی کو دیکھتی تھی،ان کی ٹیکنالوجی کو دیکھتی تھی،ان کے مادی تمدن کی چکم دمک کو دیکھتی تھی۔اور خود ان کے ملک میں یہ چیزیں نہ تھیں،وہاں عقب ماندگی تھی،اس لئے خود میں اعتماد کی کمی کو محسوس کرتے تھے۔ان کو خود پر یقین نہیں تھا۔ پہلوی حکوت میں حکومت کے ایک رکن نے کہا تھا کہ ایرانیوں کو مٹی کے لوٹے بنانے چاہئیں،آپ نہیں جانتے ہیں کہ مٹی کے لوٹے کیسے ہوتے ہیں۔وہ اس دھات کے بنے ہوئے لوٹے کی طرح نہیں ہوتے۔پرانے زمانے میں لوگ مٹے کے لوٹے بناتے تھے؛تو ان لوگوں کا کہنا یہی تھا کہ ایرانی صرف مٹی کا لوٹا ہی بناسکتے ہیں۔ انکو ان جدید اختراعات سے کیا لینا دینا،ان دنوں یہ کہا جاتا تھا۔انہیں حکومت کی ایک برجستہ شخصیت کا کہنا تھاکہ اگر ایرانی ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے سر سے پیر تک مغربی اور یوروپی بننا پڑے گا۔ مکمل طور پر اپنے آپ کو ان کے طرح بنالے، تب جاکر کہیں ترقی کرسکتا ہے؛ یعنی انہیں خود پر یقین نہیں تھا۔ انقلاب آیا اور اس نے بے یقینی اور بے اعتمادی کو، قومی خود اعتمادی اور یقین میں تبدیل کردیا۔ آج ایرانی جوان کا کہتا ہے ’’ہم کرسکتے ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ دسترس میں تھا، اور جن میدانوں میں ترقی کر سکتے تھے، الحمد للہ بہت سی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیات میں ہمارے جوان بعض اوقات ایسی نئی نئی اختراعات پیش کرتے ہیں،کہ مراکز بھی انکو منسجم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔یہ ایرانی جوان کے اندر خود اعتمادی ہے۔جس وقت خود پر یقین نہیں تھا،ترقی نہیں تھی؛جب خود میں یقین پیدا ہوجاتا ہے۔’’ہم کرسکتے ہیں‘‘ کا نعرہ بلند ہونے لگتا ہے۔ تو توانائی بھی آجاتی ہے؛ملک مضبوط ہوجاتاہے،قوم مضبوط ہوجاتی ہے۔آج ہم انہیں چیزوں کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

پچاس سال پہلے، انقلاب سے پہلے،طاغوتی حکومت کے دور میں اسی ملک میں یونیورسٹیاں تھیں، بہترین استاد بھی تھے اور باصلاحیت طالب علم بھی۔ اگرچہ آج کہ بہ نسبت ان کی تعداد کم تھی لیکن تھے وہی طالبعلم، وہی ایرانی طالبعلم تھے،وہی با صلاحیت طالبعلم تھے۔لیکن اس کے باوجود ایک بھی علمی کارنامہ دیکھنے میں نہ آیا۔ ایک بھی نیا علمی کارنامہ اس پچاس سال  کے دوران سامنے نہیں آیا۔ کیوں؟ کیوں ان میں اس بات کا یقین ہی نہیں تھا کہ کچھ کرسکتے ہیں۔ خود پر اطمینان نہیں تھا، (امریکیوں نے)اسی بی یقینی اور بے اعمتادی کو ہماری قوم کے اذھان میں پیدا کیا تھا۔آج ہمارےملک میں ہر روز ایک نیا پن  ہے، علمی جدّت، جدید ٹیکنالوجی دیکھنے میں آتی ہے۔ دشمن جب اس جدّت کو دیکھتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے۔

آج ہمارا ملک ان تمام پابندیوں کے باوجود علم میں ترقی کے مختلف شعبوں میں، دنیا کے دس پہلے ممالک میں سے ایک ہے۔ اگرچہ جس چیز کو اس وقت آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں وہ وہی جنگی وسائل اور فوجی اسلحہ وغیرہ ہیں جو سپاہ اور فوج کے ہاتھوں میں ہیں۔ مختلف میدانوں میں جو ترقیاں کی ہیں جیسے نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں یا جوہری توانائی کے میدان میں یہ سب اسی خود اعتمادی کا نتیجہ ہیں۔ دشمن کا ایک مورچہ ہمارے اندر اور ہماری قوم میں بے یقینی اور بے اعتمادی پیدا کرنا تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران  کا مورچہ اس قوم میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور ’’ہم کرسکتے ہیں‘‘ کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ بہرحال دشمن کا ایک مورچہ یہ تھا۔

دشمن کا ایک دوسرا مورچہ،دین کو سیاست سے جدا کرنا تھا۔ سب کو یقین دلا دیا تھا کہ سیاست، زندگی اور معاشرتی  نظام میں دین کا کوئی دخل نہیں ہے۔ یہ بات سب کے ذہنوں میں ڈال دی تھی۔ جو لوگ دین سے دور تھے اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں تھا  انکی بات تو اور حتیٰ وہ لوگ جو متدین تھے بلکہ بعض علما بھی یہ ماننےکو تیار نہیں تھے کہ اسلام بھی سیاسی مسائل میں مداخلت کرسکتا ہے؛حالانکہ اسلام کی اصل اور بنیاد ہی سیاست کے ساتھ پڑی ہے۔ پیغبر اکرم ﷺ نے پہلا کام جو مدینہ میں انجام دیا تھا وہ حکومت تشکیل دینا تھا ۔

لیکن اس کے باوجود لوگون کے ذھنوں میں یہ بات بٹھا دی گئ تھی۔اور اسی مورچہ کے ذریعہ نظام، ملک اور عوام کے خلاف سرگرمیاں انجام دی جارہی تھیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران  نے آکر اس مورچہ کو بھی منھدم اور نابود کردیا۔ آج ہمارے جوان اور یونیورسٹی کے طالبعلم تک قرآن اور اسلامی  نقطہ نگاہ سے ملک کے مسائل (حل کرنے)کے سلسلہ میں کام اور کوششیں کررہے ہیں۔ چہ جائیکہ علما اور حوزہ علمیہ اور اس کے مثل۔

میں جب کہتا ہوں ’’دشمن‘‘ تو اس سے میری مراد ’’امریکہ‘‘ ہوتا ہے۔اور اس سلسلہ میں کسی تکلف اور ہچکچاہٹ سے بھی کام نہیں لیتا ہوں۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں،ہم تمہارے دوست ہیں۔ہماری عوام کو نوروز کی مبارک باد دی اور ہمارے جوانوں کے لئے اظہار ہمدردی کیا؛یا وہائٹ ہاؤس میں ’’ہفت سین کا دسترخوان‘‘ لگایا۔یہ سب باتیں بچوں کو دھوکا دینے جیسی ہیں۔کوئی ان سب باتوں پر یقین نہیں کرتاہے۔ اور دوسری طرف سے پابندیاں بھی برقرار کررکھیں ہیں، ادھر امریکہ کا وزیر خزانہ جس نے خود اقرار کیا ہے کہ ایسے راستے اختیار کئے ہیں جس کے نتیجے میں بڑی کمپنیاں،بینک اور انجنسیاں ہمارے نزدیک آنے کی جرأت بھی نہیں کررہی ہیں کہ آکر اسلامی جمہوریہ ایران  کے ساتھ معاملہ کریں۔ایک طرف تو یہ کام کررہے ہیں،پابندیاں لگارہے اور دھمکیاں دے رہے ہیں،جو کہ خالص دشمنی ہے اور دوسری طرف سے وہائٹ ہاؤس میں ہفت سین کا دسترخوان لگا رہے ہیں۔ یا عید نوروز کے پیغام میں کہہ رہے ہیں کہ ہم ایرانی جوانوں کے لئے روزگار کے مواقع تلاش کررہے ہیں۔کیا کوئی ان کی باتوں کا یقین کرے گا۔یہ لوگ اب تک ہماری قوم کو نہیں پہچان سکے ہیں، ایرانی قوم کو نہیں پہچان پائے ہیں۔ ایرانی قوم فھییم اور سمجھدار ہے۔ وہ اپنے دشمن کو خوب پہچانتی ہے،اور دشمنی کے طریقوں سے بھی بخوبی واقف ہے۔

ہاں؛ ہمیں امریکہ کی عوام سے کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ کسی قوم اور ملک کی عوام سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے؛ ہماری مشکل(ان کی ) سیاست اور سیاسی افراد سے ہے،وہ دشمن ہیں۔

میں اپنی بات کو سمیٹتا ہوں تاکہ اصل بات جو کہنی ہے وہ کہہ سکوں۔ بہت سی حقیقتیں ہیں:ایک حقیقت یہ ہےکہ ہمارے پاس بہت زیادہ قابلیت موجود ہے،فراوان سرمایہ موجود ہے، قدرتی سرمایہ بھی ہے اور انسانی سرمایہ بھی اور بین الاقوامی مواقع بھی ہیں۔اس وقت انہیں سرمایوں کی وجہ سے ہمارا ملک خود اپنے اندر ترقی کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران علاقائی سطح پر بلکہ بعض موارد میں عالمی سطح  پر ایک مؤثر طاقت کی صورت میں ابھر کر سامنے  آیا ہے؛ یہ ایک اور حقیقت ہے۔ ہم قدر جانیں،اپنی اہمیت پہچانیں اور اس قوم کی عظمت کو پہچانیں۔

دوسری بات یہ کہ امریکہ بہت واضح اور روشن ثبوتوں کے تحت ہمارا دشمن ہے؛جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ہماری مراد امریکی سیاستدان اور اس کی سیاست ہے۔ ’’برجام ‘‘(جوہری توانائی کی موافقت)کے سلسلے میں انہوں نے وعدہ خلافی کی،اور دیگر پابندیوں کی بھی دھمکیاں دیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ امریکہ کا وزیر خزانہ شب و روز اس کوشش میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران  اس موافقت کے فوائد سے بہرہ مند نہ ہو سکے۔ یہ دشمنی ہے،مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں، بار بار پابندیاں بڑھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، کچھ مہینوں، ساتھ آٹھ مہینوں، کے بعد امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، نو مہینوں کے بعد موجودہ حکومت تبدیل ہوجائے گی، اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت اسی تھوڑے بہت عھد وپیمان پر باقی ر ہےگی یا نہیں۔اس وقت تو امریکہ کے صدارتی امیدواروں کے درمیان اپنی تقریروں میں ایران کو برا بھلا کہنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ یہ ایک اور دشمنی ہے۔ دشمنی کی کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ امریکہ دشمن ہے تو بعض لوگ بھڑک اٹھتے ہیں کہ اسے دشمن کیوں کہہ رہے ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ توجہ کیجئے اور یہ بات فراموش نہ کیجئےکہ میں نے بارہا کہا کہ عوام اور حکومت ایک زبان اور ایک دل رہیں؛اس کو فراموش نہ کیجئے گا۔ سب کام کریں اور حکومت ان کی مدد کرے۔ اگر انکے پاس رہنمائی کا کوئی طریقہ ہے تو حکومت کی رہنمایئ کریں،اورحکومت ان کی مدد کرے۔

تیسری بات یہ ہے کہ بظاہر طاقتور نظر آنے والے اس دشمن،کے دشمنی کے طریقے لا محدود نہیں ہیں۔اس کے چند بنیادی طریقے ہیں جو سرگرم ہیں:ایک ایرانو فوبیا، ایک اپنا اثر و رسوخ بڑھانا،اور ایک پابندیاں عائد کرنا ہے۔ اثر و رسوخ کے سلسلے میں،میں گذشتہ چند مہینوں میں کئی بار عرض کر چکا،اب تکرار نہیں کرونگا؛ پروپیگنڈے کے بارے میں بھی بہت زیادہ باتیں ہیں۔ میں پابندیوں کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

دشمن کا ایک مؤثر طریقہ اور ہتھیار پابندیاں عائد کرنا ہے۔ دشمن  نے یہ سوچ رکھا ہےکہ ہماری قوم اور ملک کو پابندیوں سے نقصان پہنچے گا؛ اور افسوس یہ کہ اس کی اس سوچ کو ہم ہی نے مضبوط کیا ہے۔ ایک مقام پر اور ایک زمانے میں ہم نے ہی پابندیوں کو بڑا (مسئلے)بنایا ہے،یہ کہہ کر کہ پابندی ہے، پابندی ہے؛پابندیاں ہٹنی چاہئے۔ اگر پابندی ہوگی تو ہمارا یہ نقصان ہوگا، وغیرہ۔؛ اور دوسری جانب سے پابندی ختم ہونےکے مسئلے کو بھی بڑا بناکر پیش کیا کہ اگر پابندی ہٹ جایئگی تو یہ ہوگا اور وہ ہوگا کچھ نہیں ہوا اور اگر ایسا ہی رہا تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن دشمن  یہ سوچ رہا ہے کہ پابندیوں کے ذریعہ ہم ایرانی قوم پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔دشمن نے اس بات کو محسوس کیا ہے۔تو آج جو(مسئلے)ہمارے سامنے ہے وہ  یہی پابندیاں ہیں۔

ہمیں پابندی کی مشکل سے مقابلہ کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ گفتگو کے شروع میں، میں نے عرض کیا تھا کہ دشمن نے ہمیں دو راستے بتائیں ہیں؛کہ یا آؤ امریکہ کے آگے سر جھکا لو، جو وہ کہے اس کو مان لو؛ یا پھر یہ پابندیاں ایسےہی جاری رہیں گی؛یہ ایک دوراہا ہے جو میں نے عرض کیا کہ یہ غلط اور جھوٹ ہے۔،اگرچہ ایک اور دوراہا موجود:یا پابندیوں کو جھیلیں یا پھر اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوجائیں اور استقامتی معیشت اور مقابلے کی راہ اختیار کریں۔ (۲)بہر حال آپ آمادہ ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن استقامتی معیشت کے لئے صرف آمادگی ہی کافی نہیں ہے بلکہ میں نے عرض کیا کہ ’’اقدام و عمل‘‘بھی ضروری ہے۔اگرچہ محترم حکومت نے استقامتی معیشت کے سلسلے میں بہت سے کام انجام دیئے ہیں ؛میں نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں کسی ایک کی سپہ سالاری (تحت نظر) میں  ایک کمیٹی تشکیل دی جائے،اور وہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کا سربراہ صدر محترم کے مشیر اول کو بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کچھ کام انجام دیئے اس کی رپورٹ بھی مجھے دی جسے میں نے آج پہلے پیغام کے دوران اپنی عزیز قوم کے سامنے بیان کیا تھا؛ اگرچہ یہ سب ابتدائی کام ہیں۔ مجھے جو رپورٹیں دی گئیں اس میں کہا گیا،ان اقدامات کے نتیجے میں ہماری تجارتی سطح میں بہتری ہوئی اور تیل کے علاوہ امور کی درآمد، برآمد سے زیادہ ہوئی ہے؛ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ یہ فرض کیجئے کہ ہماری برآمد پچھلے سال کی بہ نسبت کم ہوئی ہے؛ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اور کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا ہے؛ بنیادی کام انجام دیئے جانے چاہئیں،میں نے یہاں چند کاموں کا تذکرہ کیا ہے ’’اقدام و عمل‘‘ کے میدان میں انہیں انجام دیا جانا چاہئے۔

پہلا؛حکومتی عہدیدار اقتصاد کے سلسلے میں میں جو سرگرمیاں انجام دینی ہیں ان میں سے جو امور اولویت رکھتے ہیں،انکی شناسائی کریں،اور انہیں پر توجہ مرکوز کریں؛ملک میں بعض ایسے کام ہیں جو اہم ہیں اور اولویت رکھتے ہیں،جن کی مثال  ایک ماں کی ہے اور اس سے اقتصاد کے متعدد باب کھلتے ہیں؛ان کی شناسائی کی جائے،ان کے سلسلے میں پروگرام تیار کئے جایئں اور ذمہ داریاں  معین کی جایئں۔

اس اقدام و عمل کے سلسلے میں دوسرا مسئلہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جس پر توجہ کی ضرورت ہے وہ اندرون ملک پیداوار اور صنعت کو زندہ کرناہے ۔جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہےکہ اس وقت ملک کے اندر ساٹھ فیصد صنعت بند پڑی ہے؛ بعض صلاحیت اور قابلیت سے کم کام کرتے ہیں اور بعض کام ہی نہیں کرتے؛ پس ہمیں اپنی پیداوار اور صنعت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صنعت کو زندہ کریں۔ اگرچہ اسکا راستہ ہے اور بہت سے ذمہ دار ماہر اقتصادیات اس راہ سے واقف ہیں۔ میں نے حکومت کے ذمہ دار افراد سے متعدد بار کہا ہے کہ ان ناقدین کو بلائیں ان  کی باتوں کو سنئے، ان کے پاس بہترین تجویزیں ہیں؛ جس  کے (نتیجہ میں)صنعت کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور ملک کو حرکت میں لایا جاسکتا ہے۔

تیسری بات یہ ہےکہ ہم دوسرے ممالک سے تجارت کرتے ہیں،ہمیں کچھ چیزوں کی ضرورت ہے کہ انہیں باہر سے منگائیں،ہم ان چیزوں کو خریدنے پر مجبور ہیں،اور اس میں کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔ لیکن ہاں یہ توجہ ہونی چاہئے کہ کہیں یہ خریداری، ہماری اندورونی صنعت اور پیداوار کو کمزور نہ کردے۔ فرض کریں کہ مثلا ہم ہوای جہاز باہر سے لاتے ہیں یا خریدتے ہیں۔ہم سے کہا جاتا ہے،خود حکومت کےذمہ داران حضرات کہتے ہیں،کہ اگر اس قیمت کااتنا فی صد سرمایہ ملک کے اندر ہوائی جہاز بنانے پر لگایئں تو باہر سے جتنا خریدتے ہیں اس سے زیادہ فائدہ بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اندرون ملک صنعت بھی ترقی کرےگی۔ اگر باہر سے چیزوں کو خرید کر لائیں اور اس کے نقصانات کی طرف نگاہ نہ کریں تو یہ بہت بڑی خطا ہے؛پس باہر سے خریداری کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں ہماری ملک کے اندر کی صنعت کمزور نہ پڑںے پائے۔

چوتھی بات یہ ہےکہ ہمارے ملک کی بہت سی رقم دوسرے ممالک میں ہے؛مثلا ہم نے تیل فروخت کیا لیکن اس کی قیمت ادا نہیں کی گئی۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ ساری رقم چکا دی جائے گی،جبکہ اسمیں سے اکثر کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے اور ادائیگی میں مشکلات آڑے آرہی ہیں،اس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے، اس بات کا انسان مشاہدہ کرسکتا ہے؛ اگرچہ دوسری وجوہات بھی ہیں لیکن امریکہ کی خباثت کی وجہ سے یہ رقم واپس نہیں آپا رہی ہے؛ بالآخر یہ رقم واپس آئے گی۔ بیرون ملک ہماری جو دولت ہے وہ اربوں میں ہے،جب واپس آجائے تو اسے ایسے کاموں میں صرف نہ کیجئےکہ یہ دولت برباد ہوجائے۔یہ رقم جو باہر سے آرہی ہےملک کو اس کی ضرورت ہے۔ مثلا پہلے ہی مرحلے میں صنعت ہے؛ خیال رہے کہ یہ رقم جو باہر سے آرہی ہے برباد نہ ہونے پائے۔خراب نہ ہونے پائے،بیجا خریداری اور بیجا مقامات پرخرچ نہ ہو، اسراف نہ ہو؛ یعنی وہ مال جو غیر ملکی بینکوں اور ممالک سے آرہا ہے اس کو صحیح طریقے سے خرچ کیا جائے۔

پانچواں مسئلہ؛ ہمارے اقتصاد کے بعض حصے ہیں جو بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مثلا تیل اور گیس کا حصہ یا وہ موٹریں بنانے کا شعبہ جن کو گاڑیاں،ہوایئ جہاز،کشتیاں اور ریل گاڑیاں بنانے کے کاموں میں استعمال کیاجاتاہے۔ یہ ایسے حساس اور اہم شعبے ہیں جو علم کی بنیاد ہوتے ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ علم کی بنیاد رکھنے والا محرک اقتصاد ہے تو وہ یہی ہے۔ آج ہمارے جوانوں اور سائنسدانوں نے یہ ثابت کردیا ہےکہ وہ جدید اختراعات کرسکتے ہیں، وہ موجودہ ٹیکنالوجی کی سطح کو اور اوپر لے جاسکتے ہیں۔کیا یہ کوئی چھوٹا کام ہےکہ ایک دور مار کرنے والے میزائیل کو اس طرح سیٹ کیا جائے جو تھوڑے سے فاصلہ کے ساتھ دوہزار کلو میٹر تک مار کر سکے؟ وہ دماغ جو یہ کام کرسکتا ہے وہ دیگر مختلف کام بھی کرسکتا ہے؛ مثلا فرض کیجئے کہ ایک گاڑی کی موٹر کو جدید طرز پر ایسا بنائیں کہ اس میں (ایندھن کا)مصرف کم ہوجائے۔یا مثلا ٹرین کے موٹر کو کسی اور صورت میں بہتر بنائیں؛ایسا کرسکتے ہیں۔ مثلا ابھی ہمارے ملک میں ایسی اقتصادی اور صنعتی ایجنسیاں موجود ہیں جو ایسے کام انجام دیتی ہیں،ایسی چیزیں بناتی ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں اور کمپنیوں سے بہتر ہیں یا انکے برابر ہیں۔ یہ موجود ہیں انکو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ پس ہماری داخلی معیشت کے علم کا بنیادی ہونا ایک اہم امر ہے۔ یہ ایسا کام ہے جو استقامتی معیشت کی شرط ہے اور اسے انجام دیا جانا چاہئے۔

چھٹی بات؛ہم نے ماضی میں کچھ چیزوں میں سرمایہ لگایا ہے ؛ان سے فائدہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ہم نے ملک میں بجلی کے میدان میں سرمایا لگایا ہے، پیٹرو کیمیکل کے میدان میں کافی سرمایہ لگایا ہے۔آج ملک کو الیکٹرک پلانٹ کی ضرورت ہے۔ہم جو سستی بجلی پیدا کررہے ہیں دوسرے ملک بھی ہم سے لینا چاہتےہیں۔ہمیں باہر سے جاکر بجلی کے پلانٹ نہیں لینے چاہئے۔یا ایسا نہ ہو کہ باہر سے آکر لوگ ہمارے لئے بجلی پلانٹ لگایئں۔جن حصوں میں ہم نے سرمایہ لگایا ہے،اس کے سلسلے میں محنت کی ہے۔تو ان کو دوبارہ زندہ کیا جاناچاہئے،ان سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔

ساتویں بات؛ وہ تمام معاملات جو ہم دیگر ممالک کے ساتھ کرتے ہیں ان میں ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے کی شرط لگائی جانی چاہئے۔اگرچہ حکومت کے افراد نے بتایا ہے کہ ہم یہ کام انجام دے چکے ہیں اور انجام دے رہے ہیں۔میں اس بات کی تاکید کررہا ہوں اور تکرار بھی کررہا ہوں کہ غفلت سے کام نہ لیجئے۔فرض کیجئے کہ اگر وہ ایک چیز کو ایک دوسری چیز کے مبادلے میں خریدنا چاہتے ہیں لیکن اس تیار شدہ چیز کو نہ خریدیں بلکہ اسکی جگہ کوئی دوسری ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ چیز تیار کرلیں اور وہ ہمیں دینا چاہیں۔تو معاہدوں کے دوران اس قسم کی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔

  آٹھواں مسئلہ؛ مالی خرابیوں(کرپشن)سے مقابلہ کیجئے،جو لوگ خود کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں ان سے  سختی سے برخورد کی جائے۔ چوری سے ملک میں مال لانے کو روکا جائے۔ یہ امور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچارہے ہیں اور اس کا نقصان ملک عوام کو ہور رہا ہے۔ فرض کیجئے کہ وہ لوگ جو اقتصادی مسائل میں امور کو خود سے مخصوص  کررہے ہیں اور اپنے امتیازات بڑھارہے اور مالی اور اقتصادی خرابیوں سے دچار ہیں،اگر ان کو چھوٹ دی جائے گی تو یقینا ملک کو بہت بڑا خسارہ ہوگا۔اس سلسلہ میں لاپرواہی نہیں ہونی چاہئے۔اگرچہ بیانات اور اخباروں اور مسائل بالخصوص  سیاسی مسائل کو جہت دینے میں بہت بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں،لیکن ان کا کوئی فایدہ نہیں ہے۔مثلا اگر ایک اقتصادی مجرم کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اخبارات اس کے بارے میں لکھتے ہیں اس کی تصویریں چھاپتے ہیں،اس قسم کے کام اپنے سیاسی مقاصد اور سیاسی پارٹی کے لئے انجام دیتے ہیں۔ان چیزوں کا کوئی فایدہ نہیں ہے؛ دو صد گفتہ چون نیم کردار نیست۔ پس وہ خرابیاں جو آج پیش آرہی ہیں ان کو ختم کریں اور ان کو بڑھنےسے روکیں۔اسمگلنگ سے سامان کو برآمد کرنا بھی ایسے ہی ہے،اس کو بھی روکئے؛ اسمگلنگ سے برآمد کرنے کے کام سے شدید مقابلے کی ضرورت ہے۔

ایک دوسرا مطلب توانائی کو استعمال کرنا ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے،اسی جگہ سال کی ابتدائی تقریر میں کہا تھا(۷)کہ یہ جو کہا جاتا ہےکہ اگر ہم توانائی کو بڑھا لیں اور خرچ میں توازن برقرار رکھیں تو سو بلین ڈالر بچا لیں گے؛یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے،بہت بڑٰی رقم ہے،اس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔یہ مختلف کام ہمارے ملک میں انجام پارہے ہیں۔بعض غیر ضروری ہیں،بعض مضر ہیں۔پس ہمیں اپنی توجہات کو ان حصوں میں مرکوز کریں۔یہ ہوگا ’’اقدام و عمل‘‘ اقدام یعنی یہ امور،اگرچہ میں نے سنا ہے کہ توانائی کےاستعمال کو طرقی دینے سلسلہ میں پارلیمنٹ میں بھی بل پاس ہوا ہے،’’شورائے اسلامی‘‘ میں یہ بل پاس ہوا ہے،واقعی اس بات کے تجزیہ کی ضرورت ہے،اس پر غور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

دسویں بات یہ ہے کہ چھوٹی اور درمیانی مصنوعات پر خاص توجہ  کی ضرورت ہے۔اس وقت ہزاروں درمیانی اور چھوٹے درجے کے کارخانے ملک میں موجود ہیں؛جیسا کہ مجھے تعداد کےبارے میں بتایا گیا ہے کہ ان کارخانوں میں سے ساٹھ فیصد بند پڑے ہیں اور بیکار ہیں۔انہیں ٹھیک ہونا چاہئے،یہ خسارہ ہے۔وہ چیزیں جو لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں،معاشرےمیں حرکت پیدا کرتی ہیں وہ یہی چھوٹی اور درمیانی درجہ کی مصنوعات ہیں ان کی تقویت کی جاائے اور انہیں آگے بھڑایا جائے۔

اگر اقدام وعمل کے کام کو آگے بڑھانا ہےتو ان دس نقاط پر عمل ہونا چاہئے۔

اگرچہ دوسرے کام بھی انجام دیئے جاسکتے ہیں،ذمہ دار افراد اس کو دیکھیں اور اس کا تجزیہ کریں۔میں نے اس طرح کے دس موارد پیش کئےہیں۔یہ چیزیں ملک میں انقلابی تحریک اور انقلابی حرکت ہوسکتی ہیں یہ اقتصادی مزاحمت ہے جس کے ذریعے ملک کو نجات ملے گی۔اگر ہم ان کاموں کو انجام دیں گے تو امریکہ کے سامنے استقامت بھی کرسکیں گے اور اس کی پابندیوں کو بے اثر کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے اقدار، اصول اور ریڈ لائین سے قطع نظر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس طرح امریکہ ہم پرپابندیاں نہ لگائے؛ہم استقامتی معیشت کی سیاست کو عمل میں لانا چاہتے ہیں تاکہ اس طرح ملک کو محٖفوظ کرسکیں،ملک کو حفاظت دی سکیں اس طرح  آئندہ پھر پابندیوں کے مقابلے میں ہمارا ملک تزلزل کا شکار نہ ہو کیوں کہ یہ لوگ پابندیاں تو لگائیں گے۔اگر استقامتی معیشت ہوگی تو پابندیاں لگتی رہیں ان کا کوئی خاص اثر نہ ہوگا۔ یہ ایک انقلابی اور ایمانی حرکت ہوگی۔ اگر ہم نے یہ کام انجام دےدیا تو پھر سال ۱۳۹۵ کے آخر میں حکومت کے ذمہ داران آکر مجھے رپورٹ دے سکیں گے کہ ہم نے مثلا اتنے ھزار کارخانے اور کھیت پھر سے آباد کئے ہیں اورجانور پالنے کے انتظام کئے ہیں۔وہ آکر یہ بتاسکیں گے،وہ عوام سےآکر یہ کہہ سکیں گے،عوام بھی دیکھے گی اور اس کو محسوس کریگی۔اور اس وقت اطمینان اور اعتماد پیدا ہوگا۔

البتتہ عوام کو بھی مدد کرنی چاہئے۔میں آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ عوام ،چاہے وہ سیاسی افراد ہوں یا اقتصادی افراد ہوں یا عام لوگ ہوں،سب کو حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔ملک کے ذمہ داران کی مدد کریں۔یہ کام صرف حکومت کا نہیں ہے بلکہ تینوں طاقتوں کو ایک دوسرےکی مدد کرنی چاہئے تاکہ کام آگے بڑھ سکے؛عوام کو بھی کو انکی مدد کرنی چاہئے؛یہ مدد بہت ضروری ہے۔ذمہ داران کا سنجیدہ ہونا خصوصا انتظامیہ کا سنجیدہ ہونا لازمی ہے۔اگر ہم اس کام کو انجام دینے میں کامیاب ہوگئے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ تحریک انقلابی ہے لھٰذا بہت تیز رفتار سے آگے بڑھے گی۔اور کامیاب ہوگی۔ہم نے جس جگہ بھی انقلابی کام کیا ہے وہاں یہی بات رہی ہے۔ دیکھیں؛جو کام جوہری توانائی کے شہدا نے کیا اس میں جوہری توانائی کے سلسلے میں ترقی ملی،شہید طہرانی مقدم کو ترقی ملی، اسٹم سیلز کے سلسلے میں شہید کاظمی ۸ نے جو کام کیا اسمیں ترقی ملی ۔یہ سب بہت بڑے کام ہیں۔ثقافتی کام جس میں شہید آوینی آگے آگے تھے اسمیں  ترقی ملی ۔اور اب اس کام میں سلحشور صاحب  آگے آگے ہیں اور انقلابی کام انجام دے رہے ہیں،ان تمام کاموں کی ترویج کی ضرورت ہے۔ان کے کاموں کو سراہنا چاہئے۔ عزت افزائی کرنی چاہئے۔ انقلابی کام یہ ہیں۔ یہ جو میں باربار کہتا رہتا ہوں کہ انقلابی فوج اور حزب اللہی فوج کی تکریم اور اس کی عزت افزائی کیجئے اور اس پر توجہ کیجئے اسی لئے ہے؛جب کسی کام میں  انقلابی جذبہ پیدا ہوجاتاہے تو اسمیں ترقی ہیدا ہوجاتی ہے۔

میں نے استقامتی معیشت کی بحث کو آپ کےسامنے پیش کیا؛صرف ایک جملہ ثقافتی مسائل کے بارے میں بھی عرض کردوں۔جان لیجئے کہ ثقافتی مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؛میں ثقافتی مسائل کو بہت زیادہ اہمیت دیتا اور آج جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہو وہ وہی بات ہےجو میرے خیال سے پچھلےسال یا اس سے پہلے والے سال میں اسی جلسہ میں عرض کرچکا ہوں۔۹

یہ عوام کی ثقافتی کمیٹیاں جو جوش و جذبے سے یہ کام انجام دے رہی ہیں، اور آج ملک بھر میں وہ خود اس کام کو انجام دے رہی ہیں خود فکر کرتے ہیں اور خود کوشش کرتے ہیں اور ثقافتی کام انجام دے رہےیہں۔ ان میں روز بروز ترقی پیدا ہورہی ہے؛حکومت کو ان کی مدد کرنی چاہئے۔ حکومت کے وہ افراد جو ثقافتی امور سے تعلق رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ ان افراد کی طرف جن کا تعلق نہ اسلام سے ہے ،نہ انقلاب سے اورنہ اسلامی نظام اور اسلامی اقدار سے،ہاتھ بڑھانے کے بجائے مسلمان بچوں،مومن جوانوں،انقلابی اور حزب اللہی جوانوں کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائیں؛یہ کام کرسکتے ہیں اورکام کررہے ہیں۔اہم ثقافتی کام انجام دیئے جارہے ہیں۔تمام میدانوں میں ہمارے انقلابی جوان کوشش اور کام کرسکتے ہیں۔ اے میرے جوانوں؛یہ ملک آپ کا ہے ،آنے والا کل آپ کا ہے،اور آج بھی آپ کا ہی ہے؛اگر آپکو اپنے پر یقین ہو تو امریکہ کیا اس سے بڑی طاقت بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔

خدایا؛جو کچھ میں نے کہا اور سنا ہے،اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے؛اپنے کرم کے صدقہ میں اسے قبول فرما۔پروردگار تجھے محمد و آل محمد علیھم السلام کا واسطہ ہے ہمارے عزیز شھدا کی ارواح کو ہم سے راضی فرما دے؛ہمارے بزرگ امام  رح کی روح کو ہم سے راضی فرما،پروردگارا؛اس قوم کی عزت،طاقت اور ہر میدان میں اس کی توانائی میں روز بروز اضافہ فرما۔پروردگار ؛اس قوم کی خدمت اور اسلام اور مسلمین کی خدمت کی توفیق کو ہم سے سلب نہ فرما۔ پروردگارا؛خدایا؛محمد و آل محمد علیھم السلام کے طفیل میں،جوچاہتے ہیں،جو کہا ہے اور جس چیز کے بارے میں تو جانتا ہے کہ ہمیں اس کی ضرورت ہے اور ہم نے اسے اپنی زبان سے نہیں کہا ہے،ان سب کو عنایت فرما۔پروردگار؛ہمارے برادر عزیز طبسی صاحب مرحوم (رضوان اللہ تعالی علیہ)کو  اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌