بسماللهالرّحمنالرّحیم(۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّدٍ و آله الطّاهرین.
آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، خاص طور پر معزز شہیدوں کے اہل خانہ کو، علمائے کرام کو، اعلی حکام، آپ تمام افراد اور عزیز نوجوانوں کو کہ آپ نے اتنا لمبا سفر طے کیا اور آج اس امام بارگاہ کی فضا کو اپنے ایمان، جوش اور ولولے کی خوشبو سے معطر کر دیا کہ جو آپ لوگوں کا ہی خاصہ ہے، یہ سلام در حقیقت تبریز اور آزربائیجان کے تمام شہریوں کے لئے ہے۔
درحقیقت ۲۹ بہمن کا دن ہر سال ہمارے لئے یعنی اس حقیر کے لئے ایک شیریں اور مطلوب دن ہے اور ہم بہت نزدیک سے اپنی یادوں کی تجدید کرتے ہیں وہ چیزیں کہ جنہیں آزربائیجان اور تبریز کے عوام کے ساتھ ہم نے دیکھا ہے، محسوس کیا ہے اور اس سے آگاہ ہیں، یعنی وہی جوش و ولولہ، ایمان و بیداری اور نشاط۔ افراد کے مجموعے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آگاہ رہیں، بیدار رہیں، ثابت قدم رہیں اور اپنی سرگرمیوں میں خلاقیت پیدا کریں، اپنے راستے کو پہچانیں، راستے کی مشکلات سے وہم کا شکار نہ ہوں اور آگے بڑھتے رہیں، اور یہ تمام خوبیاں آپ آزربائیجان اور تبریز کے عوام میں موجود ہیں، اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور متعدد مرتبہ اس کا تجربہ کیا گیا ہے، خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ درحقیقت جب میں جوش و ولولے، احساس اور ایمان راسخ پر مشتمل، پر جوش گفتگو اور بیانات کا مشاہدہ کرتا ہوں تو خدا کا شکر بجا لاتا ہوں، یہ خدا کی نصرت کی علامتیں ہیں۔ خداوند متعال قرآن کریم میں پیغمبر اکرم ص کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے: هُوَ الَّذی اَیَّدَکَ بِنَصرِه وَ بِالمُؤمِنین؛(۲) خداوند آپ کی اپنی نصرت اور مومنین کے قوی ارادوں اور مضبوط ہاتھوں اور مومنین کے ثبات قدم کے زریعے مدد کرے گا، مومنین کا کردار یہ ہے۔ آپ نوجونوں کا کردار، آپ عزیز اور حوصلہ مند ہم وطنوں کا اتنا عظیم کردارہے کہ جسے خدا نے قرآن میں بیان کیا ہے۔
۲۹ بہمن کا دن ایک ناقابل فراموش دن ہے، البتہ آزربائیجان اور تبریز کے عوام بہت سارے ناقابل فراموش دنوں کے حامل ہیں اور یہ بات صرف ۲۹ بہمن سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ہماری ہم عصر تاریخ میں، ہم سے نزدیک تاریخی ایام میں اور مشروطیت کے دور میں اور مشروطیت کے دور سے پہلے اور مشروطیت کے دور کے بعد ایسے ایام ہیں کہ جن کو بیان کیا جانا چاہئے، جنکے وصف بیان کئے جانے چاہئیں، یہ کسی بھی قوم کے لئے باعث افتخار ہیں، یہ آپ کے ایام ہیں، یہ تبریز اور آذربائیجان کے عوام کے ایام ہیں، البتہ ہمیں نے تساہلی سے کام لیا، اس عظیم عوامی تحریک کو مختلف ہنری، تبلیغی انداز میں بیان کیا جانا چاہئے، انکے بارے میں گفتگو کی جانی چاہئے، انکی تکرار کی جانی چاہئے، ہم نے اس سلسلے میں حقیقت میں تساہلی کی ہے۔ لیکن ۲۹ بہمن کی تاریخ اتنی زیادہ زندہ و جاوید ہے کہ اس سلسلے میں جتنا بھی کم کام کیا گیا ہو اس کے جلوے ماند پڑنے والے نہیں ہیں، اگر ہم نہیں کہیں گے تب بھی اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ تبریز کے عوام نے ۲۹ بہمن کو ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا کہ جس کے نقوش ملت ایران کی بیداری اور ملت ایران کی عظیم تحریک میں ایک استثنائی کردار کے حامل ہیں۔
خوب، الحمد اللہ آذربائیجان کے عوام بھی نہیں رکے ہیں، اس کئی سالوں پر مبنی عرصے میں یعنی سن ۵۶ سے لے کر آج تک کہ اس دن سے لے کر آج تک تقریبا ۳۸، ۳۹ سال کا عرصہ گذر چکا ہے اس پوری مدت میں یہ افراد جہاد، جدوجہد، استقامت اور سرگرمیوں کی فرنٹ لائن پر موجود رہے ہیں، یہ بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ وہی چیز ہے جس کی ایک ملت کو ضرورت ہے، یہ وہی چیز ہے کہ جس سے ایک ملک کے مستقبل وابستہ ہے۔ ۲۹ بہمن کے حوالے سے بھی، یہی بات صادق آتی ہے، ۲۹ بہمن کو ہر دن، ہر سال مزید زندہ، روشن اور برجستہ ہونا چاہئے، یہ ہمارے ملک کی ضرورت ہے۔
اور میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایران کی عظیم ملت کا اس سال ۲۲ بہمن کے موقع پرتہہ دل سے شکریہ ادا کروں۔ مختلف مراکز کہ جنہوں نے ریلیوں میں موجود افراد کا تخمینہ لگایا ہے، حقیقت سے نزدیک تخمینہ، اس سال مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ اس سال ان ریلیوں میں عوام کی تعداد ، تقریبا تمام شہروں میں ہی گذشتہ سال کی نسبت اس سال اس تعداد میں قابل توجہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔آپ کے شہر تبریز میں گذشتہ سال کے مقابلے میں کئی فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، بعض دیگر شہروں میں بھی اسی طرح، یہ مختلف اداروں اور مراکز نے تخمینہ لگایا ہے اور مجھے رپورٹ پیش کی ہے۔ یہ بہت اہم ہے، یہ بہت قابل قدر ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عوام نے اپنے عزم راسخ کے زریعے اس میں زرہ برابر بھی خلل واقع نہیں ہونے دیا، وہ بھی ایسے موقع پر کہ جب عالمی تسلط پسند طاقتوں نے، دنیا کی مستکبر اور ظالم طاقتوں نے کہ جنہیں اسلامی ایران کا بخوبی اندازہ ہے، انہوں نے اپنی بھرپور کوشش کی ہے کہ انقلاب کو لوگوں کے ذہنوں سے فراموش کروا دیا جائے، یا مکمل طور پر اسے فراموشی کے سپرد کردیا جائے یا پھر اس عوام کے ذہنوں میں ضعیف اور کم رنگ کر دیا جائے۔ یہ وہ کوشش ہے کہ جو آج عالمی طاقتوں کی جانب سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کی جارہی ہے اور ملت ایران اس طرح کی شرائط میں اس کے بالکل برخلاف عمل کر رہی ہے کہ جو ان طاقتوں کی خواہش ہے اور ہر سال مزید جوش و ولولے کے ساتھ ان تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔
خوب، انقلاب کا جشن آپ لوگوں کو مبارک ہو اور الحمد اللہ یہ مبارک ہے، ۲۲ بہمن کو پورے ملک میں ایک عمومی جشن تھا۔ میں نے ۲۲ بہمن سے پہلے یہ عرض کیا تھا کہ ہماری دو عیدیں نزدیک ہیں، ایک عید انقلاب کی عید ہے کہ جو ۲۲ بہمن کو منعقد ہوگی اور دوسری انتخابات کی عید ہے، انتخابات بھی ہمارے ملک کے لئے ایک بڑی عید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم نے انتخابات کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے، نہ صرف اگلے ہفتے منعقد ہونے والے انتخابات کے بارے میں بلکہ پورے ملک میں مجموعی طور پر منعقد ہونے والے انتخابات کے بارے میں، اس پوری مدت میں جو کچھ ضروری تھا میں نے عرض کیا اور مزید بھی عرض کروں گا اور مزید گفتگو کروں گا۔ میں حقیقت بیان کرنے سے تھکتا اور رنجیدہ نہیں ہوتا اور انشاء اللہ وہ کچھ کہوں گا کہ جو عوام کے لئے ضروری ہے۔
اسلامی انقلاب نے ملت ایران کی حقارت کے دور کو ختم کردیا، اس سے پہلے ملت ایران کی اغیار اور بڑی طاقتوں کے ہاتھوں تذلیل ہوتی تھی، علمی سطح پر اسے حقارت کا سامنا تھا، سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے بھی حقارت کا سامنا تھا۔ تسلط پسند طاقتیں اور خاص طور پر امریکہ ان گذشتہ سالوں کے دوران جن چیزوں کی جانب مائل تھے وہ پہلوی حکومت کے سرکردہ افراد کو ڈکٹیشن دیتے تھے اور وہ لوگ بھی ان کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے، امریکہ سے پہلے برطانیہ اس ملک میں یہی کردار ادا کر رہا تھا، اسلامی انقلاب آیا اور اس نے اس غیر قابل تحمل حقارت کو برطرف کر دیا اور اس ملک کو، اس ملت کو، عزت بخشی، آزادی بخشی اور اسکی انسانیت کو بیان کیا۔ جب ایک ملت نے اپنی شناخت کا احساس کیا، اس وقت اسکی صلاحیتیں شکوفا ہوتی ہیں اور ہوئیں، ملک نے ترقی کی۔ آج یہ ملک دنیا کے معزز ترین ممالک کی صف میں کھڑا ہے، ملت ایران اپنے دستوں کو تو چھوڑیں، اپنے دشمن کی نظروں میں بھی دنیا کے آبرو مند ترین ممالک میں سے ایک ہے، اور یہ بات دشمنوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ کبھی یہ ملک امریکہ کی تفریح گاہ تھا اور غاصب صیہونی حکومت کے لئے کہ کبھی یہ ملک اس کے آرام و سکون کا مقام تھا اور وہ لوگ یہاں آتے تھے آرام کرتے تھے، اب یہ انکے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ملت ایران کے دشمنوں کے لئے یہ بات کہ ایک ملت اٹھ کھڑی ہو اور بغیر کسی تعارف کے استکبار کے خلاف بہت واضح اور صراحت کے ساتھ اپنی نظر بیان کرے اور دوسری ملتوں کو بھی ہمت اور حوصلہ دے، ناقابل برداشت ہے، لہذا وہ اس سلسلے میں بھرپور کوششوں میں مشغول ہیں۔ دشمن کی یہ کوششیں کب تک جاری رہیں گی؟ اس وقت جب ملت ایران اس قدرت کو حاصل کر لے گی کہ وہ انہیں مایوس کرنے کے قابل ہوجائے گی، دشمن کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ وہ ملت ایران کو اس قدرت کے حصول سے روک سکے۔ یہ جو ایٹمی مسئلے کے بارے میں جتنا بھی فساد کھڑا کیا جس کا آپ نے مشاہدہ کیا، انسانی حقوق کے بارے میں جو بات کرتے ہیں، جتنی بھی دھمکیاں دیتے ہیں، جتنی بھی پابندیاں لگائی ہیں اور اب بھی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے، یہ سب صرف اس لئے ہے کہ اس ملت کو اس راستے سے کہ جس پر وہ تیزی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، اسکی تیزی کو سستی میں بدل دیں اور اس سلسلے کو روک دیں، البتہ ملت ایران کا جوش و جذبہ ایسا جوش و جذبہ ہے کہ جو ان چیزوں سے کم نہیں ہوگا، کم رنگ نہیں ہوگا۔
خوب، انتخابات کے دن قریب آچکے ہیں، میں جو چیزیں دیکھ رہا ہوں، جن چیزوں کو محسوس کر رہا ہوں، انہیں میں اپنی عزیز ملت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ بعض باتیں حکام بالا سے کی جانی ضروری ہیں اور میں کروں گا، اور بعض باتیں ایسی ہیں کہ جن کی جانب ملت کی رائے عامہ کو متوجہ ہونا چاہئے اور میں اپنا وظیفہ سمجھتا ہوں کہ وہ باتیں اپنی ملت کے سامنے بیان کروں۔ دشمن اس بات کی کوشش میں مصروف ہے کہ اپنی پلید فکر کے زریعے رائے عامہ کو اسکے اہداف سے دور کردے، جو پروگرام وہ بناتے ہیں، اسکے لئے مختلف جگہوں سے پرزے جمع کرتے ہیں تاکہ ان پرزوں کو آپس میں جوڑیں اور پھر انکی اصل سازش محقق ہوجائے، ہمیں ان کا راستہ روکنا چاہئے۔ ان کا راستہ کون روکے گا؟ ملت، یہ ملک ہمارا ہے، یہ ملک آپکا ہے، اس ملک کی اصل مالک ہماری عزیز ملت ہے، اسے چاہئے کہ انکا راستہ روکے، لیکن میں اور میرے جیسے افراد کا وظیفہ بھی ہے کہ ہم اپنی عزیز ملت کو آگاہ کریں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے سلسلے میں دشمن کوششوں میں مصروف ہیں، چاہتے ہیں کہ انتخابات اس طرح منعقد ہوں جیسا وہ چاہتے ہیں۔ البتہ دل سے تو وہ یہ چاہتے ہی نہیں کہ انتخابات منعقد ہوں، آج سے چند سالوں پہلے بھی انتخابات کے موقع پر انہوں نے یہ کوشش کی تھی کہ انتخابات منعقد ہی نہ ہوں، خدواند متعال نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا، وہ اس بات سے مایوس ہیں اور جانتے ہیں کہ انکی اس ملک میں انتخابات کا راستہ روکنے کی کوششیں نقش بر آب ہوں گی لہذا چاہتے ہیں کہ انتخابات میں مداخلت کریں اور جس طرح بھی ممکن ہو انتخابات کو خراب کریں، عوام کو آگاہ رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسکے برخلاف عمل کرنا چاہئے۔
آجکل ایک کام جسے وہ بہت سنجیدگی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں وہ شورائے نگہبان کا چہرہ خراب کرنے کی کوشش ہے۔ بھائیوں اور بہنوں دیکھیں۔ شورائے نگہبان کا چہرہ خراب کرنا معنی رکھتا ہے۔ امریکی، انقلاب کے اوائل سے ہی اس ملک اور اسلامی جمہوری نظام کے چند بنیادی نقاط کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے اور ان میں سے ایک شورائے نگہبان بھی ہے۔ کوشش کرتے رہے، سعی کرتے رہے اور ملک کے اندر موجود بعض غافل اور بے توجہ افراد سے سوء استفادہ کرتے رہے، تاکہ شورائے نگہبان کو تحلیل کر سکیں، یقیننا وہ نہیں کرپائے اور نہیں کر سکتے۔ اب شورائے نگہبان کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں، اس کام کے کیا معنی ہیں؟ ہمارے عزیز نوجوان اس مسئلے کی جانب صحیح انداز میں توجہ کریں، جب شورائے نگہبان کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ غیر قانونی ہے، اسکے کیا معنیٰ ہیں؟ اس کے معنیٰ یہ ہیں جو انتخابات ہونے والے ہیں وہ غیر قانونی ہیں، جب انتخابات غیر قانونی ہوگئے، قانون کے خلاف ہوگئے، اسکا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ جو پارلیمنٹ ان انتخابات کے نتیجے میں بنے گی وہ غیر قانونی ہوگی، اور پارلیمنٹ کے غیر قانونی ہونے کا معنی یہ ہے کہ چار سالوں کے دوران پارلیمنٹ میں جو قانون بھی پیش کیا جائے گا، اسکی کوئی حیثیت نہیں اور کوئی اعتبار نہیں، یعنی ملک کو چار سال تک بغیر پارلیمنٹ اور بغیر قانون کے چھوڑ دیا گیا، شورائے نگہبان کو خراب کرنے کا یہ معنی ہے اور دشمن یہ چاہتا ہے۔ البتہ وہ لوگ کہ جو ملک کے اندر دشمنوں کے ہم آواز ہیں، ان میں سے اکثر کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ میں کسی پر بھی خیانت کا الزام نہیں لگاتا، انہیں معلوم ہی نہیں ہے وہ متوجہ ہی نہیں ہیں لیکن حقیقت یہی ہے۔ شورائے نگہبان کو خراب کیا جانا، یہ کہ شورائے نگہبان پر ہم انگلیاں اٹھائیں اور یہ کہیں کہ انکے فیصلے قانون کے خلاف تھے، یہ شورائے نگہبان کو خراب کرنا نہیں بلکہ انتخابات کو خراب کرنا ہے، پارلیمنٹ کو خراب کرنا ہے، پارلیمنٹ میں چار سالوں کے دوران قوانین پاس کئے جانے کے مسئلے کو زیر سوال لانا ہے، وہ اس کے درپے ہیں۔
دیکھیں کتنی ظرافت سے پلاننگ کرتے ہیں۔ یہ بات مجھے رائے عامہ کے لئے کہنی چاہئے، رائے عامہ کو یہ بات جان لینی چاہئے، وہ لوگ کہ جو شورائے نگہبان کے خلاف بات کرتے ہیں، انہیں خود اس بات کا علم نہیں اور انکی اس بات کی طرف توجہ نہیں ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن یہ کام ہو رہا ہے۔ دشمن اپنی تمام تر کوششوں میں مصروف ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو مذہبی مردم سالاری سے، اس بے نظیر عمل سے، اس شاندار عمل سے، اس دلچسپ عمل سے اسلامی ملتوں کو دور کر دے، وہ اس کام کے درپے ہیں۔ اگر وہ کر پاتے تو انتخابی عمل کو روک دیتے لیکن وہ نہیں روک پائے اور آئندہ بھی نہیں روک پائیں گے۔ اگر وہ کر پاتے تو شورائے نگہبان کو نابود کر دیتے یا اسکی نظارت کو بے اثر کر دیتے لیکن وہ یہ کام بھی نہیں کر پائے۔ اب جب وہ نہیں کر پائے تو اس طریقے سے منسلک ہوگئے، اس راستے سے داخل ہونا چاہتے ہیں، ہمیں اس طرف متوجہ رہنا چاہئے۔
پارلیمنٹ بہت اہم ہے، مجلس شورائے اسلامی کا مقام بہت بلند ہے۔ کیوں؟ کیونکہ پارلیمنٹ حکومت کے اقدمات کے لئے پٹری بچھانے کا کام کرتی ہے۔ حکومتوں کو نظر میں رکھیں، انہیں ایک ٹرین کی مانند پٹری پر چلنا ہوتا ہے، یہ پٹری پارلیمنٹ اپنے قوانین کے زریعے بچھاتی ہے۔ البتہ قانون سازی کے عمل میں پارلیمنٹ اور حکومت ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، حکومت بل پیش کرتی ہے، پارلیمنٹ اس بل میں کمی بیشی کرتی ہے، اس میں اصلاحات انجام دیتی ہے اور اسے منظور کرتی ہے۔ یہ پٹری بچھائی جانی چاہئے اور حکومت کو اس پٹری پر حرکت کرنی چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ عوام کے رفاہ، اجتماعی عدل و انصاف، اقتصادی لحاظ سے توسیع، علمی پیشرفت و ترقی، سائنسی ترقی اور قومی عزت اور ملی آزادی کے درپے ہو تو وہ پٹری ان اہداف کی سمت بچھائے گی۔لیکن اگر پارلیمنٹ مغرب زدہ ہو، امریکہ سے مرعوب ہو، اشرافی گری کی حاکمیت کے درپے ہو، تو وہ اپنی پٹری انہی اہداف کے سمت بچھائے گی، ملک کو برباد کر دیں گے۔ پارلیمنٹ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے، یہ کوئی عام بات ہے؟ پارلیمنٹ کی اہمیت جس طرح امام راحل نے فرمایا کہ یہ تمام امور میں افضل ہے۔ تمام امور میں افضل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کا مجریہ کے سلسلہ مراتب میں کوئی کردار ہے یا پارلیمنٹ کے اراکین کا کوئی کردار ہے، نہیں پارلیمنٹ کا مجریہ کے سلسلہ مراتب میں کوئی کردار نہیں، یہ حکومت ہی ہے کہ جو قوانین کا اجرا کرتی ہے، لیکن پارلیمنٹ راستے کا تعین کرتی ہے، راستے کو معین کرتی ہے، حکومتیں اسکی بات کی پابند اور مجبور ہوتی ہیں کہ قانون کے مطابق اس راستے پر حرکت کریں، اس پٹری پر حرکت کریں۔ خوب اس پٹری کو کون بچھائے گا؟ کون اس پٹری بچھانے کے عمل کو انجام دے گا؟ کس سمت یہ پٹری بچھائی جائے گی؟ یہ بات پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمنٹ کی اہمیت کو دو چنداں کرتی ہیں۔ خوب، البتہ دشمن ہر طرح کے کاموں میں مشغول ہے۔ یہ گفتگو پارلیمنٹ سے مربوط تھی۔
مجلس خبرگان اپنی اصولی، اساسی اور بنیادی اہمیت کے لحاظ سے پارلیمنٹ سے بھی زیادہ اہم اہمیت کی حامل ہے۔ مجلس خبرگان کا ملک میں جاری مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسکا کام رہبر کا تعین کرنا ہے۔ کون لوگ ہیں کہ جو رہبر کا تعین کریں گے، کون لوگ ہیں کہ جو ملک کے اصلی فیصلے کرنے والے اور سیاست گذار افراد ہوں؟ یہ مربوط ہے اس بات سے کہ مجلس خبرگان میں کوں لوگ موجود ہیں۔ مجلس خبرگان ایک ایسا ادارہ ہے کہ جو وقت پڑنے پر رہبر کا تعین کرتا ہے، اگر ایسے افراد ہوں کہ جو انقلاب سے وابستہ، ملت کے گرویدہ، دشمنوں کی سازشوں سے آگاہ، دشمن کے مد مقابل استقامت اور پائیداری کے حامل تو وہ ایک خاص انداز سے۶ عمل کریں گے، لیکن اگر خدا نخواستہ یہ خصوصیات نہ پائی جاتی ہوں تو وہ دوسری طرح عمل کریں گے۔ لہذا آج دشمن مجلس خبرگان کے سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہے۔
انگش ریڈیو تہران کے عوام کو ہدایات دے رہا ہے کہ فلاں کو ووٹ دیں، فلاں کو ووٹ نہ دیں، اسکے کیا معنی ہیں ؟ برطانوی حکام کا دل چاہ رہا ہے کہ وہ دوبارہ ایران میں مداخلت کریں۔ ایک دن تھا کہ جب ملک کا بادشاہ کوئی اہم فیصلہ کرنا چاہتا تھا تو برطانیہ کے سفیر کو بلواتا تھا اور اس سے پوچھتا تھا کہ یہ کام کروں یا نہ کروں۔ برطانوی حکام ایک دن تھا کہ ءجب اس انداز سے مداخلت کرتے تھے، انکے بعد امریکی، ایک زمانے میں یہ دونوں، آج انکی مداخلت کا راستہ بند ہوگیا ہے، آج انقلاب کی برکت سے ان مداخلتوں کا راستہ روک دیا گیا ہے، پریشان ہیں، اب ریڈیو کے زریعے لوگوں کو ہدایات دے رہے ہیں کہ فلاں کو ووٹ دیں اور فلاں کو ووٹ نہ دیں۔ یہ جو میں نے عرض کیا کہ انتخابات میں، بابصیرت عوام، اپنی آگاہی اور دانائی کے ساتھ شرکت کریں، یہ اسی وجہ سے کہا تھا، جان لیں کہ دشمن کیا چاہتا ہے، جب آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ دشمن کیا چاہ رہا ہے تو واضح ہے کہ اس کے برعکس عمل کریں گے۔ ان انتخابات کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ انتخابات بھی چند دنوں قبل منعقد ہونے والی بائیس بہمن کی ریلیوں
کی طرح ملکی استقلال کے دفاع کا مظہر ہیں، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کے دفاع کا مظہر ہیں، عوامی بیداری کا مظہر ہیں، قومی عزت کے دفاع کا مظہر ہیں۔ یہ جو میں پوری ملت ایران سے عرض کرتا ہوں کہ حاضر ہوں، شرکت کریں، اپنی آراء دیں یہ اسی لئے کہتا ہوں کیونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے دشمن بے پرواہ دشمن ہیں، اور ان میں سب سے اوپر انسانیت سے دور صیہونی ہیں کہ جو مغربی طاقتوں اور حکومتوں پر مسلط ہیں، خاص طور پر امریکیوں پر مسلط ہیں۔
صیہونی لابی، نہ کہ غاصب صیہونی حکومت کیونکہ وہ خود امریکی استکبار کا حصہ ہے کہ جن میں تاجر ہیں، دنیا کے مالدار ترین افراد ہیں، عالمی پروپیگنڈا انکے ہاتھوں میں ہے، دنیا کے بڑے بینکنگ کے سسٹم انکے ہاتھوں میں ہیں، افسوس کے یہ بہت سارے ممالک پر مسلط ہیں، امریکی حکومت پر مسلط ہیں، امریکہ کی سایست پر مسلط ہیں، یورپی ممالک کی سیاست پر مسلط ہیں، انکے مقابلے میں بیدار رہنا چاہئے۔ امریکی انکے فیصلوں کے مطابق عمل کرتے ہیں، انکی خواہشات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
اب اسی ایٹمی مسئلے پر اور ایٹمی مذاکرات کے مسئلے پر کہ خوب اس سلسلے میں گفتگو کی گئی ہے، مطالب بیان کئے گئے ہیں اور اتنے لمبے عرصے کے بعد یہ انجام پائے ہیں۔ ابھی دو روز پہلے ہی ایکبار پھر ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ ہم وہ کام کریں گے کہ دنیا بھر کے بڑے سرمایہ دار اس بات کی جرائت بھی نہیں کریں گے کہ ایران جاکر سرمایہ کاری کریں۔انکی دشمنی کو دیکھیں۔ یہ ہے امریکہ۔ جو لوگ مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے اور انہوں نے حقیقت میں بہت جدوجہد کی، اپنا پسینہ بہایا، حقیقت میں اپنا وقت صرف کیا، انکا ایک ہدف اقتصادی رکاوٹوں کو دور کرنا اور بیرونی سرمایہ کاری ایران میں لانا تھا۔ لیکن آج امریکی اسی چیز کا راستہ روک رہے ہیں۔ اب تک کئی مرتبہ بول چکے ہیں اور کل پرسوں بھی، اور اس سے دو تین روز پہلے بھی، ان میں سے ایک اور نے یہ بات کہی تھی کہ ہم وہ کام کریں گے کہ سرمایہ کار ایران جانے کی جرات بھی نہ کریں۔یہ جو میں نے دسیوں مرتبہ کہا ہے کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اس کے یہی معنی ہیں، یہ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ غیر قابل اعتماد ہیں، اس کے یہی معنی ہیں۔
امریکی سیاستدان یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایران میں ریلیوں اور اجتماعات کے دوران عوام مردہ بار امریکہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ خوب جب آپ اس طرح عمل کریں گے تو لوگوں سے کیا توقع رکھیں گے کہ لوگ کیا کہیں؟ یہ آپ کا ماضی ہے، یہ آپ کا آج کا کردار ہے۔ آپ کی دشمنی بغیر کسی پردہ پوشی کے ہے۔ جی ہاں، خصوصی ملاقاتوں میں مسکراتے ہیں، ہاتھ ملاتے ہیں، چرب زبان استعمال کرتے ہیں، کام کے لئے بناوٹی لہجہ اپناتے ہیں، لیکن یہ صرف خصوصی ملاقاتوں کی ڈپلومیسی سے مربوط ہے، اسکی کوئی اہمیت نہیں، کوئی ارزش نہیں، اسکی حقیقت میں کوئی تاثیر نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدہ کرتے ہیں، مذاکرات کرتے ہیں، دو سال ٹال مٹول کرتے ہیں، اسکے بعد جب معاملہ ختم ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نہیں کرنے دیں گے، اور دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم نئی پابندیاں لگانا چاہتے ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ دار ڈر جائے، اسے شک ہو اور وہ نزدیک ہی نہ آئے، یہ کام صراحت کے ساتھ انجام دیتے ہیں، امریکہ یہ ہے، اس دشمن کے مقابلے میں انسان اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتا، انسان اسکی باتوں کو سچا تسور نہیں کرسکتا۔ یہ انکے اپنے عہد کی وفا کرنے اور انکے قابل اعتماد ہونے کے بارے میں میں نے عرض کیا۔ اے عزیز ہموطنو۔۔۔۔ آپ کے مقابلے میں ایک ایسا عنصر موجود ہے۔ بیدار رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہم اپنے لئے بلاوجہ درد سر کھڑا نہیں کرنا چاہتے، بعض افراد یہ نہ کہیں کہ آپ ہمیشہ امریکہ پر الزام لگاتے ہیں اور لوگوں کو بھڑکاتے ہیں، نہیں۔۔۔۔ امریکہ کے خلاف بھڑکانے کی ضرورت نہیں امریکہ دشمن ہے۔ امریکہ ایک زمانے میں ایران کا مالک تھا، انقلاب آیا اور یہ ملک اسکے ہاتھوں سے باہر نکل گیا، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گا جبتک دوبارہ اس ملک پر مسلط نہ ہوجائے۔ امریکہ اسکو کہتے ہیں۔
ملک کے مسائل کا علاج عوام کی بیداری میں مضمر ہے، عوام کے جذبہ ایمانی کی حفاظت، مومن اور جوش و جذبے سے سرشار نوجوانوں سے استفادہ، اور ملک کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہی تنہا راستہ ہے۔ ملت ایران کو اندرونی طور پر مضبوط ہونا چاہئے، انکا اقتصاد مضبوط ہو، انکا علم قوی ہو، حکومتی ادارے مضبوط ہوں اور سب سے زیادہ انکا ایمان روز بروز قوی اور مضبوط ہونا چاہئے۔ یہی مسائل کا حل ہے۔ یہ وہی راستہ ہے کہ جس پر آج تک ملت ایران گامزن ہے و اس کے دشمن چاہتے تھے کہ اس انقلاب کو اسی دن جس دن اسکی کونپلیں پھوٹی تھیں زمین کھود کر نابود کر دیں لیکن نہیں کر پائے، آج یہ کمزور کونپلیں ایک تناور درکت میں تبدیل ہوچکی ہیں۔کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّمآءِ * تُؤتی اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّها۔۔۔۔ آج انقلاب ایسا ہے۔ آج دشمن کی غلط فہمی ہے کہ وہ انقلاب کو اکھاڑ پھینکے گا۔ عوام اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، اپنی وحدت کی حفاظت کریں، حکومتی عہدیدار کہ جو اس ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں وہ اپنے کاموں کو خدا کی خاطر خدا کی رضا کی خاطر اور عوام کے لئے انجام دیں، اپنی داخلی افرادی قوت پر اعتماد اور ان پر تکیہ کریں۔
البتہ ہم نے کہا ہے کہ مزاحمت خود کفیل اور خود نگر ہے۔ میں نے کبھی بھی یہ نہیں کہا ملک کے چاروں طرف حصار کھینچ دیں، لیکن خود کفیل ہونے کو فراموش نہ کریں، اگر قومی معیشت اندرونی طور پر طاقتور نہ ہو اور اندر سے وجود میں نہ آئے تو وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گی۔ ہاں دنیا کے ساتھ اقتصادی معاملات میں تعاون بہت اچھی بات ہے لیکن یہ تعاون ہوشمندانہ ہو اور ایسا تعاون ہو کہ جو اقتصاد کو خود کفیل میں مدد کرے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ملت اٹھ کھڑی ہو اور آگاہانہ اور ہوشیاری کے ساتھ حرکت کرے۔ عزیز نوجوانوں، خداوند متعال کی توفیقات اور فضل سے آپ وہ دن بھی دیکھیں گے کہ امریکہ اور اسکے تمام تر اتحادی ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائیں گے۔
بارالہیٰ۔۔۔۔ ایران کی عزیز ملت پر اپنی رحمتیں اور لطف و عنایات نازل فرما۔ پروردگارا۔۔۔ ان جوش وجذبوں کو، ایمانوں کو اور معنویت کو اس ملک میں دن دوگنی ترقی عطا فرما۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کو سلام پیش کرتا ہوں۔ مَندَنده سلام یِئتیرون.