نماز عید فطر کے خطبے، یکم شوال ۱۴۳۶ (۲۷/ ۴/ ۱۳۹۴)
بسماللهالرّحمنالرّحیم
السّلام علیکم و رحمةالله. الحمدلله ربّالعالمین، الحمدلله الّذی خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون. نحمده و نسبّحه و نتوب الیه و نصلّی و نسلّم علی حبیبه و نجیبه و خیرته فی خلقه سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الارضین۔
آپ تمام بھائیوں ،بہنوں ، ملت عزیز ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو [اس] عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور آپ تمام نمازیوں اور اپنے آپ کو تقویٰ، پرہیزگاری،نفس کی حفاظت اور گناہوں سے دوری کی نصیحت کرتا ہوں۔
اس سال رمضان کا مبارک مہینہ اپنے معنی کے اعتبار سے واقعاً ایک بہترین مہینہ تھا؛ اس قوم پر خدا کی برکتیں نازل ہوئیں اور اس کی مثالیں مختلف جگہوں پر دیکھی گئیں جیسے طویل اور گرم دنوں میں روزہ رکھنا، پورے ملک میں وسیع قرآنی محافل، دعا اور توسل کی عظیم مجالس - کہ جس میں ہزاروں بزرگوں، جوانوں، مردوں اور عورتوں نے خدا کی بارگاہ میں دست دعا بلند کیا اور اپنے خدا سے مخلصانہ اور مطیعانہ انداز میں فریاد کی – انفاق کرنے میں، وسیع افطاریوں میں کہ خوش قسمتی سے چند سالوں سے رائج ہوگئی ہے، مساجد میں، فٹ پاتھوں پر، سڑکوں پر، اور سب سے آخر میں قدس کی عظیم ریلی میں دیکھنے میں آئیں؛ یہ سب خدا کی رحمتوں کی علامات ہیں؛ روزہ داروں نے ایک رات پہلے ۲۳ رمضان اور شب قدر کی مناسبت سے صبح تک جاگ کر گذاری اورگرمیوں کے گرم دن میں روزے کی حالت میں اس ریلی میں شرکت کی۔ یہی سب ایرانی قوم کی شناخت کے صحیح راستے ہیں؛ یہ ہے ایرانی قوم۔ یہ ہے ملت ایران کہ رمضان میں، محراب عبادت میں اُس طرح، اور استکبار سے مقابلے اور جدوجہد کے میدان میں خود کو اِس طرح پیش کرتے ہیں اور منواتے ہیں۔ ہماری قوم کو اغیار کی خود غرضانہ زبان سے نہیں پہچاننا چاہیے؛ ہماری قوم کو خود اس سے، اُس کے نعروں سے، اُس کے تحرک سے، ان عظیم جلووں سے پہچاننا چاہیے؛ یہ ہے ایرانی قوم۔ جس چیز کے ذریعے دشمن کوشش کرتا ہے کہ ایرانی قوم کا تعارف کروائے اور افسوس کے ساتھ بعض سوء نظر افراد بھی اسی چیز کا تکرار کرتے ہیں، وہ انحرافی اور غلط بات ہے۔ ایرانی قوم وہی قوم ہے جس نے اپنے مختلف پہلوؤں اور جزئیات کو اس رمضان کے مہینے میں دکھایا۔ انشاء اللہ آج آپ سب لوگ کامیابی کی سند حاصل کریں گے؛ آج ملت ایران انشاء اللہ عید کی مناسبت سے، ان عبادات کی کامیابی کی سند خدا کی لطف و رحمت سے حاصل کرے گی؛ آپ میں سے بعض لوگ کامیابی کی سند کے علاوہ انشاءاللہ انعام بھی لیں گے، درجات بھی بلند ہوں گے، معنوی اور روحی ترقی بھی حاصل کریں گے۔ ایرانی قوم کے نعروں نے بتا دیا کہ صحیح سمت کیا ہے؛ قدس کی ریلی میں مردہ باد اسرائیل اور مردہ امریکہ کے نعروں نے ملکی فضا کو جھنجوڑ دیا؛ صرف تہران اور بڑے شہروں میں نہیں؛ اس عظیم حرکت کی فضا پورے ملک میں قائم تھی۔
خدایا! اپنے لطف و کرم کے سبب اس ایرانی قوم سے قبول کرلے؛ خدایا! اس قوم پر اپنی توفیقات، رحمتوں اور نہ ختم ہونے والی عنایات کو نازل فرما؛ خدایا!ہمارے ہر دلعزیز شہداء، عظیم امام اور جس نے اس راہ میں قوم کی مدد کی ہے، اُنہیں اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں قرار دے۔
بِسمِاللهِالرَّحمنِالرَّحیمِ
وَالعَصرِ. اِنَّ الاِنسانَ لَفی خُسر. اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر.( )
دوسرا خطبہ
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین، امیرالمؤمنین، و سیّدة نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمة و امامی الهدی و علیّ بن الحسین زینالعابدین و محمّد بن علیٍّ و جعفر بن محمّدٍ و موسی بن جعفرٍ و علیّ بن موسی و محمّد بن علیٍّ و علیّ بن محمّدٍ و الحسن بن علیٍّ و الخلف الهادی المهدیّ، حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک۔
تمام نمازی بھائیوں اور بہنوں کو سلام اور عید کی مبارک کے ساتھ تقوا کی نصیحت۔ ہماری دوسرے خطبے میں پہلی گفتگو ہے۔
اس رمضان اور اس سے پہلے ہمارے علاقے کے حوادث بہت ناگوار تھے اور ہیں؛ افسوس کے ساتھ چند بدبختوں نے علاقے کے بہت سے لوگوں کے لئے رمضان کے مہینے کو تلخ بنادیا۔ یمن، بحرین، فلسطین، شام میں بہت سے مسلمان مومن لوگوں نے دشمنوں کے غلط کاموں کی وجہ سے سخت دن گزاریں ہیں ، سختی سے روزے رکھےہیں۔ یہ تمام باتیں ہماری قوم کے لیے اہم ہیں۔
ایک مسئلہ ہمارا اندرونی مسئلہ بھی ہے، جو ایٹمی مذاکرات کا مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس مسئلے پر چند نکات پیش کروں۔ پہلا نکتہ اس طویل اور نفس گیر مذاکرات میں کردار ادا کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ محترم وزیر خارجہ اور بالخصوص مذاکراتی ٹیم کہ جنہوں نے واقعاً زحمت اٹھائی اور کوشش کی؛ چاہے یہ متن کہ جسے آمادہ کیا ہے، پہلے سے طے شدہ قانون کو سامنے رکھتے ہوئے منظور ہو یا نہ ہو، اُن کا اجر محفوظ ہے؛ یہ بات خود اُن بھائیوں سے بھی عرض کی ہے۔ البتہ اس متن کی منظوری کے لئے، ایک طے شدہ قانونی راستہ ہے کہ جسے طے کرنا چاہیے اور انشاء اللہ طے ہوگا۔ ہماری اُمید یہ ہے کہ اس کام میں ہاتھ ڈالنے والے لوگ، مفادات – ملک کے مفادات، قوم کے مفادات - کو دقت سے نظر میں رکھیں اور جو چیز قوم کو پیش کریں گے، سر بلند کرکے خدا کی بارگارہ میں بھی پیش کریں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چاہے یہ متن منظور ہو یا نہ ہو، خدا کی طاقت و قوت سے اُ س سے کسی بھی قسم کے سوء استفادہ کی اجازت نہیں دی جائیگی؛ نظام اسلامی کی اصولی بنیادوں میں خدشہ ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائیگی؛ خدا کے فضل سے دفاعی صلاحیتوں اور ملک کی امنیتی حدود کی حفاطت ہوگی، اگرچہ ہم جانتے ہیں دشمن بالخصوص اس نکتے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اسلامی جمہوری اپنی دفاعی اور امنیتی صلاحیتوں کی حفاظت – وہ بھی ان پابندیوں کے ماحول میں کہ جسےدشمنوں نے فراہم کیا ہے - کے مسئلہ میں دشمن کی من مانی کے آگے ہرگز تسلیم نہیں ہوگا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ چاہے یہ متن منظور ہو یا نہ ہو، ہم علاقے میں اپنے دوستوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے: فلسطین کی مظلوم قوم، یمن کی مظلوم قوم، شام کی حکومت اور قوم، عراق کی حکومت اور قوم، بحرین کے مظلوم لوگ، لبنان اور فلسطین میں سچے سپاہیوں کی مزاحمت [یہ سب] ہم ہمیشہ ان کی حمایت کرتے رہیں گے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اس مذاکرات اور تہیہ شدہ متن کے باوجود، کسی بھی صورت میں امریکہ کی مستکبر حکومت کے مد مقابل ہماری سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ جس طرح کے کئی بار پہلے بھی کہا جا چکاہے، دنیا اور علاقے کے مختلف مسائل میں ہمارے امریکہ سے کوئی مذاکرات نہیں ؛ دو طرفہ مسائل میں کوئی مذاکرات نہیں؛ کبھی استثنائی موارد میں جیسے اس ایٹمی مسئلہ میں ہم نے مصلحت کی بنیاد پر مذاکرات کئے؛ فقط یہی مسئلہ نہیں تھا، اس سے پہلے بھی کچھ موارد تھے کہ میں نے پہلے عمومی تقاریر میں اُس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ علاقے میں امریکہ کی سیاست اسلامی جمہوریہ کی سیاست سے ۱۸۰ ڈگری کا اختلاف رکھتی ہے۔ امریکی حزب اللہ اور لبنان میں جاری جدوجہد – جو ایک ملک میں قومی دفاع کی فداکار ترین طاقت ہے – پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے، اس سے بڑھ کا نا انصافی نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں اُس کے مقابل میں دہشت گرد اسرائیل جو بچوں کو قتل کرتا ہےکی حمایت کرتے ہیں، ایسی سیاست سے کیسے معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ کس طرح مذاکرات کیے جاسکتےہیں، کیسے معاہدے کئے جاسکتے ہیں؟ اور دوسرے موارد بھی ہیں کہ جن کی تفصیلات کو میں کسی اور جگہ کے لئےچھوڑ رہا ہوں۔
ایک اور نکتہ ان چند دنوں میں امریکہ کی ڈینگوں کے بارے میں ہے۔ مذاکرات کے بعد سے اب تک کے چند دنوں میں، امریکی مسئولین – اُن کی حکومت میں شامل مرد اور عورتیں- ڈینگیں مارنے میں مشغول ہیں، ہر کوئی اپنی زبان میں ڈینگیں مار رہا ہے۔ البتہ ہمیں ان کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں؛ اُن کے اندرونی مسائل انہیں ڈینگیں مارنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہاں، ہم ایران کو مذاکرات کی میز تک لے آئے، ہم نے ایران کو جھا دیا، ہم نے ایران کو ایٹمی ہتھیار سے منع کردیا، ہم نے فلاں کام کردیا اور اس طرح کی باتیں! ٹھیک، حقیقت میں کچھ اور بات ہے۔ کہتےہیں ہم نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کی ترقی کو روک دیا ہے؛ ایران کے ایٹمی ہتھیار کا امریکہ یا غیر امریکہ کی گفتگو سے کوئی واسطہ ہی نہیں؛ خود وہ لوگ بھی جانتے ہیں؛ کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی حرمت کے بارے میں فتوی کی اہمیت کو بھی زبان پر لائے ہیں؛ ہم قرآن اور شریعت اسلام کے حکم کی بنیاد پر، ایٹمی ہتھیار کی پیداوار اور اُس کی دیکھ بھال اور اُس سے کام لینے کو حرام سمجھتے ہیں اور اس طرح کا اقدام نہیں کریں گے؛ اس کا اُن سے کوئی ربط ہی نہیں، اس مذاکرات سے بھی ربط نہیں ہے۔ خود وہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے – جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار کے بارے میں جو چیز ایران کے مانع ہے، اُن کی دھمکیاں ، بڑی بڑی باتیں نہیں؛ ایک شرعی مانع ہے؛ اس فتوے کی اہمیت کو جانتے ہیں – پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم تھے [نہیں کرنے دیا]؛ اپنے لوگوں سے بھی سچ نہیں بولتے، حقیقت نہیں بتاتے۔ وہ مختلف دیگر کے مسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی صنعت کے مسئلے میں ایسا کیا، ایسا کہا، ایران کو جھا دیا؛ ایران کے جھکنے کو خواب میں دیکھیں۔ [امریکہ کے] دوسرے پانچ وزرائے اعظم انقلاب کے شروع سے آج تک، اس آرزو میں مر گئے یا تاریخ میں کھو گئے کہ اسلامی جمہوریہ کو جھکا دیں، آپ لوگ بھی اُنہی کی طرح ہیں؛ آپ لوگوں کی بھی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی کہ اسلامی ایران کو جھکا دیں۔
ایک نکتہ جو امریکی صدر کی ان چند روزہ گفتگو میں موجود تھا وہ امریکہ کی سابقہ غلطیوں کا اعتراف تھا؛ البتہ اُنہوں نے بہت سے معاملات میں سے صرف چند بیان کئے۔ اعتراف کیا کہ امریکیوں نے ۲۸ مرداد (۱۹ اگست) کو ایران میں غلطی کی؛ اعتراف کیا کہ صدام کی مدد کرکے امریکیوں نے غلطی کی؛ دو تین موارد بیان کئے، [لیکن] دسیوں موارد کو بیان نہیں کیا؛ دوسرے ظالم و جابر پہلوی کی ۲۵ سالہ حکومت کے بارے میں نہیں کہا؛امریکہ کے ذریعے انجام پانے والے شکنجوں، قتل و غارت، جرائم، تباہ کن تشدد، ایران قوم کی عزت پامال کرنے، ایرانی قوم کے اندرونی اور بیرونی منافع کو پامال کرنے کے بارے میں نہیں کہا، اسرائیلیوں کے غلبے کے بارے میں کچھ نہیں کہا، سمندر سے میزائل مار کر مسافر طیارے میں موجود مسافرین کی ہلاکت کے بارے میں نہیں کہا، اور بہت سی دوسری باتیں؛ [لیکن] چند غلطیوں کو دہرایا۔ ناصح کے طور پر اِن حضرات کو کچھ کی طرف اشارہ کرتا ہوں: آج آپ لوگ اتنے سال گزرنے کے بعد ۲۸ مرداد یا آٹھ سالہ جنگ اور اسلامی جمہوریہ ے دفاع کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ غلط کیا؛ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی غلطی کر رہے ہو، ابھی بھی اس علاقے میں مختلف جگہوں پر اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ اور ایرنی قوم کے بارے میں غلطی کر رہے ہو؛ کچھ سالوں بعد کوئی دوسرا آئیگا اور آپ کی ان غلطیوں کو برملا کریگا، جس طرح آج آپ لوگ اپنے گزرے ہوئے لوگوں کی غلطیوں کو برملا کر رہے ہیں؛ آپ لوگ بھی غلطی کر رہے ہیں، بیدار ہوجاؤ، غلطیوں سے باہر آجاؤ، حقیقت کو جان لو۔ علاقے میں بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
جو چیز میں ایرانی قوم سے عرض کرنا چاہتا ہوں [یہ ہے]: اسلامی جمہوریہ خدا کی توفیق اور اُس کی مدد و قوت سے، قدرتمند اور قوی ہے، دن بہ دن اور بھی قوی ہو رہا ہے۔ دس، بارہ سال ہونے کو ہیں کہ دنیا کی چھ بڑی حکومتیں – معاشی دولت وغیرہ کے اعتبار سے، اُن کا شمار دنیا کے قدرتمند ممالک میں ہوتا ہے – یہ لوگ ایران کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں، اس ہدف کے ساتھ کہ ایران کو ایٹمی صنعت سے روکا جائے؛ یہ واضح کہا ہے۔ اُن کا اصلی ہدف یہ ہے کہ ایٹمی صنعت کے تمام نٹ بولڈز کلی طور پر کھول دیئے جائیں؛ یہ کئی سال پہلے ہمارے حکام سے واضح طور پر کہہ چکے ہیں، ابھی بھی اسی آرزو میں ہیں۔ دس، بارہ سال اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کشمکش، [اس کا] نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ چھ بڑی طاقتیں مجبور ہیں کہ ملک میں چھ ہزار سینٹری فیوجز (centrifuges) کو برداشت کریں؛ اس ملک میں اس صنعت کے تسلسل پر مجبور ہوگئے؛ مجبور ہوگئے کہ اس صنعت کی تحقیقات اور ترقی کو برداشت کریں۔ ایٹمی صنعت کی تحقیق اور اس کی ترقی کا کام جاری رہے گا۔ ایٹمی صنعت کی گردش جاری رہے گی؛ یہ وہ چیز ہے جس کی اُنہوں نے سالوں کوش کی، [لیکن] آج کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں کہ میں کوئی اعتراض نہیں۔ ایرانی قوم کی قدرت کےعلاوہ اس کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ یہ سب کچھ قوم کے کی جدوجہد اور ڈٹے رہنے کی وجہ سے ہے، اور ہمارے عزیز سائنسدانوں کی دلیری اور جدیت کی وجہ سے ہے۔ شہر یار، رضائی نژاد، احمدی روشن، علی محمدی جیسے لوگوں پر خدا کی رحمت ہو؛ ایٹمی شہداء پر خدا رحمت ہو، ان کے گھر والوں پر خدا کی رحمت، ایسی قوم پر خدا کی رحمت جو اپنی بات اور اپنے حق کے لئے ڈٹی رہے۔
ایک اور بات بھی عرض کروں جو آخری نکتہ بھی ہے۔ یہ جناب کہتے ہیں کہ ایرانی فوج کو نابود کرسکتا ہوں۔ پرانے زمانے میں لوگ ایسی باتوں کو "مفلسی میں ڈینگیں مارنا" کہتے تھے۔ ( ) میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اس بات کو سنیں گے، اگر چاہتے ہیں تو صحیح سمجھیں، اگر چاہتے ہیں اپنے تجربے سے صحیح استفادہ کریں، جان لیں، ہم کسی بھی طرح کی جنگ کو خوش آمدید نہیں کہتے، ہم کسی جنگ کے لئے پیش قدمی اور جلد بازی نہیں کریں گے، لیکن اگر یہاں کوئی جنگ چھڑی، جو اس جنگ سے ذلیل و خوار ہوکر باہر نکلے گا وہ ظالم اور جارح امریکہ ہے۔
بسماللهالرّحمنالرّحیم
اِذا جآءَ نَصرُاللهِ وَ الفَتح. وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فى دینِ اللهِ اَفواجًا. فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّهُ کانَ تَوّابًا۔( )
و السّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
بسماللهالرّحمنالرّحیم
السّلام علیکم و رحمةالله. الحمدلله ربّالعالمین، الحمدلله الّذی خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون. نحمده و نسبّحه و نتوب الیه و نصلّی و نسلّم علی حبیبه و نجیبه و خیرته فی خلقه سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّةالله فی الارضین۔
آپ تمام بھائیوں ،بہنوں ، ملت عزیز ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو [اس] عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور آپ تمام نمازیوں اور اپنے آپ کو تقویٰ، پرہیزگاری،نفس کی حفاظت اور گناہوں سے دوری کی نصیحت کرتا ہوں۔
اس سال رمضان کا مبارک مہینہ اپنے معنی کے اعتبار سے واقعاً ایک بہترین مہینہ تھا؛ اس قوم پر خدا کی برکتیں نازل ہوئیں اور اس کی مثالیں مختلف جگہوں پر دیکھی گئیں جیسے طویل اور گرم دنوں میں روزہ رکھنا، پورے ملک میں وسیع قرآنی محافل، دعا اور توسل کی عظیم مجالس - کہ جس میں ہزاروں بزرگوں، جوانوں، مردوں اور عورتوں نے خدا کی بارگاہ میں دست دعا بلند کیا اور اپنے خدا سے مخلصانہ اور مطیعانہ انداز میں فریاد کی – انفاق کرنے میں، وسیع افطاریوں میں کہ خوش قسمتی سے چند سالوں سے رائج ہوگئی ہے، مساجد میں، فٹ پاتھوں پر، سڑکوں پر، اور سب سے آخر میں قدس کی عظیم ریلی میں دیکھنے میں آئیں؛ یہ سب خدا کی رحمتوں کی علامات ہیں؛ روزہ داروں نے ایک رات پہلے ۲۳ رمضان اور شب قدر کی مناسبت سے صبح تک جاگ کر گذاری اورگرمیوں کے گرم دن میں روزے کی حالت میں اس ریلی میں شرکت کی۔ یہی سب ایرانی قوم کی شناخت کے صحیح راستے ہیں؛ یہ ہے ایرانی قوم۔ یہ ہے ملت ایران کہ رمضان میں، محراب عبادت میں اُس طرح، اور استکبار سے مقابلے اور جدوجہد کے میدان میں خود کو اِس طرح پیش کرتے ہیں اور منواتے ہیں۔ ہماری قوم کو اغیار کی خود غرضانہ زبان سے نہیں پہچاننا چاہیے؛ ہماری قوم کو خود اس سے، اُس کے نعروں سے، اُس کے تحرک سے، ان عظیم جلووں سے پہچاننا چاہیے؛ یہ ہے ایرانی قوم۔ جس چیز کے ذریعے دشمن کوشش کرتا ہے کہ ایرانی قوم کا تعارف کروائے اور افسوس کے ساتھ بعض سوء نظر افراد بھی اسی چیز کا تکرار کرتے ہیں، وہ انحرافی اور غلط بات ہے۔ ایرانی قوم وہی قوم ہے جس نے اپنے مختلف پہلوؤں اور جزئیات کو اس رمضان کے مہینے میں دکھایا۔ انشاء اللہ آج آپ سب لوگ کامیابی کی سند حاصل کریں گے؛ آج ملت ایران انشاء اللہ عید کی مناسبت سے، ان عبادات کی کامیابی کی سند خدا کی لطف و رحمت سے حاصل کرے گی؛ آپ میں سے بعض لوگ کامیابی کی سند کے علاوہ انشاءاللہ انعام بھی لیں گے، درجات بھی بلند ہوں گے، معنوی اور روحی ترقی بھی حاصل کریں گے۔ ایرانی قوم کے نعروں نے بتا دیا کہ صحیح سمت کیا ہے؛ قدس کی ریلی میں مردہ باد اسرائیل اور مردہ امریکہ کے نعروں نے ملکی فضا کو جھنجوڑ دیا؛ صرف تہران اور بڑے شہروں میں نہیں؛ اس عظیم حرکت کی فضا پورے ملک میں قائم تھی۔
خدایا! اپنے لطف و کرم کے سبب اس ایرانی قوم سے قبول کرلے؛ خدایا! اس قوم پر اپنی توفیقات، رحمتوں اور نہ ختم ہونے والی عنایات کو نازل فرما؛ خدایا!ہمارے ہر دلعزیز شہداء، عظیم امام اور جس نے اس راہ میں قوم کی مدد کی ہے، اُنہیں اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں قرار دے۔
بِسمِاللهِالرَّحمنِالرَّحیمِ
وَالعَصرِ. اِنَّ الاِنسانَ لَفی خُسر. اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر.( )
دوسرا خطبہ
بسماللهالرّحمنالرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین، امیرالمؤمنین، و سیّدة نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمة و امامی الهدی و علیّ بن الحسین زینالعابدین و محمّد بن علیٍّ و جعفر بن محمّدٍ و موسی بن جعفرٍ و علیّ بن موسی و محمّد بن علیٍّ و علیّ بن محمّدٍ و الحسن بن علیٍّ و الخلف الهادی المهدیّ، حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک۔
تمام نمازی بھائیوں اور بہنوں کو سلام اور عید کی مبارک کے ساتھ تقوا کی نصیحت۔ ہماری دوسرے خطبے میں پہلی گفتگو ہے۔
اس رمضان اور اس سے پہلے ہمارے علاقے کے حوادث بہت ناگوار تھے اور ہیں؛ افسوس کے ساتھ چند بدبختوں نے علاقے کے بہت سے لوگوں کے لئے رمضان کے مہینے کو تلخ بنادیا۔ یمن، بحرین، فلسطین، شام میں بہت سے مسلمان مومن لوگوں نے دشمنوں کے غلط کاموں کی وجہ سے سخت دن گزاریں ہیں ، سختی سے روزے رکھےہیں۔ یہ تمام باتیں ہماری قوم کے لیے اہم ہیں۔
ایک مسئلہ ہمارا اندرونی مسئلہ بھی ہے، جو ایٹمی مذاکرات کا مسئلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اس مسئلے پر چند نکات پیش کروں۔ پہلا نکتہ اس طویل اور نفس گیر مذاکرات میں کردار ادا کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ محترم وزیر خارجہ اور بالخصوص مذاکراتی ٹیم کہ جنہوں نے واقعاً زحمت اٹھائی اور کوشش کی؛ چاہے یہ متن کہ جسے آمادہ کیا ہے، پہلے سے طے شدہ قانون کو سامنے رکھتے ہوئے منظور ہو یا نہ ہو، اُن کا اجر محفوظ ہے؛ یہ بات خود اُن بھائیوں سے بھی عرض کی ہے۔ البتہ اس متن کی منظوری کے لئے، ایک طے شدہ قانونی راستہ ہے کہ جسے طے کرنا چاہیے اور انشاء اللہ طے ہوگا۔ ہماری اُمید یہ ہے کہ اس کام میں ہاتھ ڈالنے والے لوگ، مفادات – ملک کے مفادات، قوم کے مفادات - کو دقت سے نظر میں رکھیں اور جو چیز قوم کو پیش کریں گے، سر بلند کرکے خدا کی بارگارہ میں بھی پیش کریں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چاہے یہ متن منظور ہو یا نہ ہو، خدا کی طاقت و قوت سے اُ س سے کسی بھی قسم کے سوء استفادہ کی اجازت نہیں دی جائیگی؛ نظام اسلامی کی اصولی بنیادوں میں خدشہ ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائیگی؛ خدا کے فضل سے دفاعی صلاحیتوں اور ملک کی امنیتی حدود کی حفاطت ہوگی، اگرچہ ہم جانتے ہیں دشمن بالخصوص اس نکتے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اسلامی جمہوری اپنی دفاعی اور امنیتی صلاحیتوں کی حفاظت – وہ بھی ان پابندیوں کے ماحول میں کہ جسےدشمنوں نے فراہم کیا ہے - کے مسئلہ میں دشمن کی من مانی کے آگے ہرگز تسلیم نہیں ہوگا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ چاہے یہ متن منظور ہو یا نہ ہو، ہم علاقے میں اپنے دوستوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے: فلسطین کی مظلوم قوم، یمن کی مظلوم قوم، شام کی حکومت اور قوم، عراق کی حکومت اور قوم، بحرین کے مظلوم لوگ، لبنان اور فلسطین میں سچے سپاہیوں کی مزاحمت [یہ سب] ہم ہمیشہ ان کی حمایت کرتے رہیں گے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اس مذاکرات اور تہیہ شدہ متن کے باوجود، کسی بھی صورت میں امریکہ کی مستکبر حکومت کے مد مقابل ہماری سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ جس طرح کے کئی بار پہلے بھی کہا جا چکاہے، دنیا اور علاقے کے مختلف مسائل میں ہمارے امریکہ سے کوئی مذاکرات نہیں ؛ دو طرفہ مسائل میں کوئی مذاکرات نہیں؛ کبھی استثنائی موارد میں جیسے اس ایٹمی مسئلہ میں ہم نے مصلحت کی بنیاد پر مذاکرات کئے؛ فقط یہی مسئلہ نہیں تھا، اس سے پہلے بھی کچھ موارد تھے کہ میں نے پہلے عمومی تقاریر میں اُس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ علاقے میں امریکہ کی سیاست اسلامی جمہوریہ کی سیاست سے ۱۸۰ ڈگری کا اختلاف رکھتی ہے۔ امریکی حزب اللہ اور لبنان میں جاری جدوجہد – جو ایک ملک میں قومی دفاع کی فداکار ترین طاقت ہے – پر دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے، اس سے بڑھ کا نا انصافی نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں اُس کے مقابل میں دہشت گرد اسرائیل جو بچوں کو قتل کرتا ہےکی حمایت کرتے ہیں، ایسی سیاست سے کیسے معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ کس طرح مذاکرات کیے جاسکتےہیں، کیسے معاہدے کئے جاسکتے ہیں؟ اور دوسرے موارد بھی ہیں کہ جن کی تفصیلات کو میں کسی اور جگہ کے لئےچھوڑ رہا ہوں۔
ایک اور نکتہ ان چند دنوں میں امریکہ کی ڈینگوں کے بارے میں ہے۔ مذاکرات کے بعد سے اب تک کے چند دنوں میں، امریکی مسئولین – اُن کی حکومت میں شامل مرد اور عورتیں- ڈینگیں مارنے میں مشغول ہیں، ہر کوئی اپنی زبان میں ڈینگیں مار رہا ہے۔ البتہ ہمیں ان کے اس کام پر کوئی اعتراض نہیں؛ اُن کے اندرونی مسائل انہیں ڈینگیں مارنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہاں، ہم ایران کو مذاکرات کی میز تک لے آئے، ہم نے ایران کو جھا دیا، ہم نے ایران کو ایٹمی ہتھیار سے منع کردیا، ہم نے فلاں کام کردیا اور اس طرح کی باتیں! ٹھیک، حقیقت میں کچھ اور بات ہے۔ کہتےہیں ہم نے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کی ترقی کو روک دیا ہے؛ ایران کے ایٹمی ہتھیار کا امریکہ یا غیر امریکہ کی گفتگو سے کوئی واسطہ ہی نہیں؛ خود وہ لوگ بھی جانتے ہیں؛ کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی حرمت کے بارے میں فتوی کی اہمیت کو بھی زبان پر لائے ہیں؛ ہم قرآن اور شریعت اسلام کے حکم کی بنیاد پر، ایٹمی ہتھیار کی پیداوار اور اُس کی دیکھ بھال اور اُس سے کام لینے کو حرام سمجھتے ہیں اور اس طرح کا اقدام نہیں کریں گے؛ اس کا اُن سے کوئی ربط ہی نہیں، اس مذاکرات سے بھی ربط نہیں ہے۔ خود وہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے – جانتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار کے بارے میں جو چیز ایران کے مانع ہے، اُن کی دھمکیاں ، بڑی بڑی باتیں نہیں؛ ایک شرعی مانع ہے؛ اس فتوے کی اہمیت کو جانتے ہیں – پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ ہم تھے [نہیں کرنے دیا]؛ اپنے لوگوں سے بھی سچ نہیں بولتے، حقیقت نہیں بتاتے۔ وہ مختلف دیگر کے مسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی صنعت کے مسئلے میں ایسا کیا، ایسا کہا، ایران کو جھا دیا؛ ایران کے جھکنے کو خواب میں دیکھیں۔ [امریکہ کے] دوسرے پانچ وزرائے اعظم انقلاب کے شروع سے آج تک، اس آرزو میں مر گئے یا تاریخ میں کھو گئے کہ اسلامی جمہوریہ کو جھکا دیں، آپ لوگ بھی اُنہی کی طرح ہیں؛ آپ لوگوں کی بھی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی کہ اسلامی ایران کو جھکا دیں۔
ایک نکتہ جو امریکی صدر کی ان چند روزہ گفتگو میں موجود تھا وہ امریکہ کی سابقہ غلطیوں کا اعتراف تھا؛ البتہ اُنہوں نے بہت سے معاملات میں سے صرف چند بیان کئے۔ اعتراف کیا کہ امریکیوں نے ۲۸ مرداد (۱۹ اگست) کو ایران میں غلطی کی؛ اعتراف کیا کہ صدام کی مدد کرکے امریکیوں نے غلطی کی؛ دو تین موارد بیان کئے، [لیکن] دسیوں موارد کو بیان نہیں کیا؛ دوسرے ظالم و جابر پہلوی کی ۲۵ سالہ حکومت کے بارے میں نہیں کہا؛امریکہ کے ذریعے انجام پانے والے شکنجوں، قتل و غارت، جرائم، تباہ کن تشدد، ایران قوم کی عزت پامال کرنے، ایرانی قوم کے اندرونی اور بیرونی منافع کو پامال کرنے کے بارے میں نہیں کہا، اسرائیلیوں کے غلبے کے بارے میں کچھ نہیں کہا، سمندر سے میزائل مار کر مسافر طیارے میں موجود مسافرین کی ہلاکت کے بارے میں نہیں کہا، اور بہت سی دوسری باتیں؛ [لیکن] چند غلطیوں کو دہرایا۔ ناصح کے طور پر اِن حضرات کو کچھ کی طرف اشارہ کرتا ہوں: آج آپ لوگ اتنے سال گزرنے کے بعد ۲۸ مرداد یا آٹھ سالہ جنگ اور اسلامی جمہوریہ ے دفاع کے بارے میں اعتراف کرتے ہیں کہ غلط کیا؛ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی بھی غلطی کر رہے ہو، ابھی بھی اس علاقے میں مختلف جگہوں پر اور بالخصوص اسلامی جمہوریہ اور ایرنی قوم کے بارے میں غلطی کر رہے ہو؛ کچھ سالوں بعد کوئی دوسرا آئیگا اور آپ کی ان غلطیوں کو برملا کریگا، جس طرح آج آپ لوگ اپنے گزرے ہوئے لوگوں کی غلطیوں کو برملا کر رہے ہیں؛ آپ لوگ بھی غلطی کر رہے ہیں، بیدار ہوجاؤ، غلطیوں سے باہر آجاؤ، حقیقت کو جان لو۔ علاقے میں بڑی غلطیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
جو چیز میں ایرانی قوم سے عرض کرنا چاہتا ہوں [یہ ہے]: اسلامی جمہوریہ خدا کی توفیق اور اُس کی مدد و قوت سے، قدرتمند اور قوی ہے، دن بہ دن اور بھی قوی ہو رہا ہے۔ دس، بارہ سال ہونے کو ہیں کہ دنیا کی چھ بڑی حکومتیں – معاشی دولت وغیرہ کے اعتبار سے، اُن کا شمار دنیا کے قدرتمند ممالک میں ہوتا ہے – یہ لوگ ایران کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں، اس ہدف کے ساتھ کہ ایران کو ایٹمی صنعت سے روکا جائے؛ یہ واضح کہا ہے۔ اُن کا اصلی ہدف یہ ہے کہ ایٹمی صنعت کے تمام نٹ بولڈز کلی طور پر کھول دیئے جائیں؛ یہ کئی سال پہلے ہمارے حکام سے واضح طور پر کہہ چکے ہیں، ابھی بھی اسی آرزو میں ہیں۔ دس، بارہ سال اسلامی جمہوریہ کے ساتھ کشمکش، [اس کا] نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ چھ بڑی طاقتیں مجبور ہیں کہ ملک میں چھ ہزار سینٹری فیوجز (centrifuges) کو برداشت کریں؛ اس ملک میں اس صنعت کے تسلسل پر مجبور ہوگئے؛ مجبور ہوگئے کہ اس صنعت کی تحقیقات اور ترقی کو برداشت کریں۔ ایٹمی صنعت کی تحقیق اور اس کی ترقی کا کام جاری رہے گا۔ ایٹمی صنعت کی گردش جاری رہے گی؛ یہ وہ چیز ہے جس کی اُنہوں نے سالوں کوش کی، [لیکن] آج کاغذات پر دستخط کر رہے ہیں کہ میں کوئی اعتراض نہیں۔ ایرانی قوم کی قدرت کےعلاوہ اس کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ یہ سب کچھ قوم کے کی جدوجہد اور ڈٹے رہنے کی وجہ سے ہے، اور ہمارے عزیز سائنسدانوں کی دلیری اور جدیت کی وجہ سے ہے۔ شہر یار، رضائی نژاد، احمدی روشن، علی محمدی جیسے لوگوں پر خدا کی رحمت ہو؛ ایٹمی شہداء پر خدا رحمت ہو، ان کے گھر والوں پر خدا کی رحمت، ایسی قوم پر خدا کی رحمت جو اپنی بات اور اپنے حق کے لئے ڈٹی رہے۔
ایک اور بات بھی عرض کروں جو آخری نکتہ بھی ہے۔ یہ جناب کہتے ہیں کہ ایرانی فوج کو نابود کرسکتا ہوں۔ پرانے زمانے میں لوگ ایسی باتوں کو "مفلسی میں ڈینگیں مارنا" کہتے تھے۔ ( ) میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، جو لوگ اس بات کو سنیں گے، اگر چاہتے ہیں تو صحیح سمجھیں، اگر چاہتے ہیں اپنے تجربے سے صحیح استفادہ کریں، جان لیں، ہم کسی بھی طرح کی جنگ کو خوش آمدید نہیں کہتے، ہم کسی جنگ کے لئے پیش قدمی اور جلد بازی نہیں کریں گے، لیکن اگر یہاں کوئی جنگ چھڑی، جو اس جنگ سے ذلیل و خوار ہوکر باہر نکلے گا وہ ظالم اور جارح امریکہ ہے۔
بسماللهالرّحمنالرّحیم
اِذا جآءَ نَصرُاللهِ وَ الفَتح. وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فى دینِ اللهِ اَفواجًا. فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّهُ کانَ تَوّابًا۔( )
و السّلام علیکم و رحمةالله و برکاته