بسم اللہ الرحمن الرحیم
ولادت امام مجتبیٰ، امام حسن علیہ الصلاۃ و السلام، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک پر حسن مجسم کہ جنہوں نے یہ نام اس نومولد بچے کے لئے انتخاب کیا۔ اور یہ بات بہت زیادہ باعث عظمت ہے، بہت اہم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مبارک بچے کے لئے نام کا انتخاب کیا انشاء اللہ آپ سب کو مبارک ہو۔
رمضان المبارک کی برکتوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں آپ کے حساس دلوں کے لئے، آپکی لطیف روح کے لئے، آپ کے سیال احساسات کے لئے، حقیقت میں اگر یہ طے ہو کہ کچھ افراد کو ان برکات کے ذخائر اور انبار سے استفادہ کرنا ہے، تو جو لوگ اس سے بہت زیادہ استفادہ کریں گے اور کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جو اہل ذوق ہیں، روح کے حامل ہیں، دل والے ہیں، لطیف احساسات کے حامل ہیں، یعنی آپ لوگ، آپ سے بہتر کون ہو گا جو اس مبارک مہینے کے دنوں، راتوں، گھنٹوں ، لمحوں اور لحظات سے بہرمند ہو، کہ یہ مہینہ خدا سے قربت کا مہینہ ہے، رقت قلب کا مہینہ ہے، خدائے متعال سے انس کا مہینہ ہے، ذکر کا مہینہ ہے، خشوع کا مہینہ ہے، اور کون ہو گا ان افراد سے بہتر کہ جو پاک و لطیف دلوں اور بہترین احساسات کے مالک ہیں۔
ذکر و شوق و انس کی جنت میں داخل ہونے کے لئے بہترین وسیلہ وہ دعائیں ہیں جو اس مہینے میں وارد ہوئی ہیں۔ چاہے وہ دعائیں ہوں کہ جو صرف اس مہینے سے مخصوص ہوں یا وہ دعائیں کہ جن کو ہر وقت پڑھنے کا دل چاہتا ہے۔ مثلا مناجات شعبانیہ، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، اس نے استفادہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، وَ اسمَع دُعائی اِذا دَعَوتُک، وَ اسمَع نِدائی اِذا نادَیتُک، وَ اقبِل عَلَیَّ اِذا ناجَیتُک؛(۲) ان چیزوں کو آپکے لطیف دل اور زیادہ حضور کے زریعے اور زیادہ توجہ کے زریعے بیان کر سکتے ہیں۔ فَقَد هَرَبتُ اِلَیکَ وَ وَقَفتُ بَینَ یَدَیک؛ یہ وہ تعبیریں ہیں، یہ وہ کلمات ہیں کہ جو لطیف ترین دلوں اور فصیح ترین زبانوں سے صادر ہوئے ہیں، انکو کون قبول کرے گا، انکو کون درک کرے گا، ان سے کون استفادہ کرے گا، آپ سے بہتر کون ہے، آپ کے پاک اور لطیف دلوں کے علاوہ کون ہے، اس ماہ مبارک میں دعاوں سے غفلت نہ کریں۔ دعائے مناجات شعبانیہ میں هَب لی قَلباً یُدنیهِ مِنکَ شَوقُهُ وَ لِساناً یُرفَعُ اِلَیکَ صِدقُهُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُهُ مِنکَ حَقُّه؛ وہ دل کہ جس کا شوق اسے عروج عطا کرتا ہے، اوپر لے کر جاتا ہے، ذات ربوبیت سے نزدیک کرتا ہے، اس کو خدا انسان سے طلب کرتا ہے، خوب، کون سا دل ہے جو زیادہ آمادہ ہے اس لطیف و حساس دل کے مقابلے میں؟ کہ الحمداللہ وہ آپ لوگوں میں موجود ہے۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی میں: بِکَ عَرَفتُکَ وَ اَنتَ دَلَلتَنی عَلَیکَ وَ دَعَوتَنی اِلَیکَ وَ لَولا اَنتَ لَم اَدر ما اَنت؛ حضرت حق سے ، محبت اور عزت کے مبدا و منشا سے یہ لطیف معنوی رابطہ، یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، یہ بہت زیادہ اہم ہے، یہ ان دلوں کو گرم کرتا ہے جو لطافت کے حامل ہیں، انکی حفاظت کرتا ہے، انہیں امید عطا کرتا ہے، ان دلوں کے لئے پناہ گاہ اور تکیہ گاہ بن جاتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مرحوم اخوان نے یہ شعر کس کے لئے اور کس لئے کہا ہے، میں اس شعر کو صحیفہ سجادیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھتا ہوں، میں اس شعر کو دعائے ابو حمزہ ثمالی کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھتا ہوں: «ای تکیهگاه و پناه زیباترین لحظههای پرعصمت و پرشکوهِ تنهایی و خلوت من ای شطّ شیرین پرشوکت من». اے میری پر عصمت اور پر شکوہ تنہائی اور خلوت کے زیبا ترین لمحوں کی پناہ گاہ ، اے عظمت سے لبریز میری شیریں نہر، اسے کہتے ہیں دعا۔ اس کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ دعا سے منہ نہ موڑیں، دعا بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دعا وہی اکسیر ہے کہ جو نا امیدی سے آلودہ دلوں کو، بد بینی میں آمیختہ، غلط احساسات سے آلودہ دلوں کو منقلب کرتی ہے۔ اسے درست راستے کی جانب ہدایت کرتی ہے، دعا ایسی چیز ہے۔ ان راتوں سے استفادہ کریں، آپ لوگ وہ شایستہ ترین افراد ہیں کہ دعا مانگ سکتے ہیں اور اس سے حقیقی معنی میں بہرمند ہو سکتے ہیں۔ استفادہ کریں۔ البتہ دعا کے الفاظ کا پڑھنا دعا کے پڑھنے سے نچلا مرحلہ ہے۔ کہ انہیں الفاظ کو انسان پڑھے اور ان کے صحیح معنی کو نہ سمجھ سکے یا انکے ظاہری معنی کو سمجھے، لیکن دعا میں ڈوب جانا اس کے مضامین میں ڈوب جانا اور انکی گہرائی میں اترنا، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
شعر ایک با اثر عنصر ہے، اسکا اثر گفتگو اور کلام کے تمام تر سلیقوں میں دو چنداں ہے۔ یعنی کوئی بھی گفتگو، جتنی بھی خوبصورت ہو، جتنی بھی فصیح ہے، جتنی پر مغز ہو، اگر اس میں شعر نہ ہو تو اثر نہیں رکھتی، شعر ایک ایسی دستگاہ ہے، ایک ایسا عنصر ہے۔ شعر متحرک کرنے کا نقش رکھتا ہے۔ جہاں متحرک کرنے کی جگہ ہے وہاں شعر اپنے سننے والے کے لئے اور اسکے لئے کہ جو شعر کو اپنے لئے پڑھتا ہے، رہنما کا کردار ادا کرتا ہے، سمت معین کرنے کا کردار ادا کرتا ہے، راستہ دکھانے کا کردار ادا کرتا ہے، خوب اسے کہتے مسئولیت آور، جب آپ کے پاس کوئی ایسی دولت ہے، ثروت ہے، امکانات ہیں کہ جس کے زریعے بڑے کام انجام دیئے جا سکتے ہیں، اور اگر آپ نے اس سے استفادہ نہ کیا ہو، اپنی ذمہ داریوں کے برخلاف عمل کیا ہو، اپنے عہد کے خلاف عمل کیا ہو، اسے اس سلسلے میں ضرور جواب دینا ہوگا، اب جبکہ خدائے متعال نے آپ کو یہ نعمت دی ہے لیکن دوسری تمام نعمتوں کی طرح اس نعمت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، عطائے الہی کے بارے میں سوال کیا جائے گا، آپ سے سوال کیا جائے گا آپ نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟
شعر کے زریعے اپنے مخاطب کو صحیح راستے اور صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی جاسکتی ہے۔اور اسے غلط راستے کی طرف بھی لے جایا جاسکتا ہے اور اسے برباد بھی کیا جاسکتا ہے۔ شعر اس کو پستی کی جانب بھی لے جا سکتا ہے، اس طرح کے اشعار بھی موجود ہیں، خاص طور پر آجکل کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بے لگام ثقافت جو ہر طرح کی اخلاقی اور انسانی اقداروں سے دور ہے اور ان جدید ترین وسائل کے زریعے- میڈیا کے جدید وسائل- کے زریعے فراوانی کے ساتھ منتشر کی جارہی ہے۔ بعض اوقات شعر لغزش، انحراف اور فساد میں مبتلا ہونے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ بنا بر ایں شعر سے دونوں طرح سے استفادہ کیا جاتا۔ شاعر اپنے لطیف احساسات کے زریعے خود درک بھی کرتا ہے اور اپنے شوق کی وجہ سے بھی وہ شعر کہتا ہے، وہ اداس بھی ہوتا ہے تو شعر کہتا ہے۔ اس کا اداسی اور غم کی حالت میں شعر کہنا بھی اس کے شوق کی وجہ سے ہے۔اسکےغم کی وجہ سے ہے، ان احساسات، ادراک اور مشاہدات کی وجہ سے جس کا دوسرے افراد مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ اسکی دو سمتیں ہیں، یہ نیکیوں کی طرف لے جا سکتا ہے اور اسکے برعکس بھی۔ اگر شعر بہت زیادہ جنسی شہوت کی جانب مائل ہو جائے، جیسا کہ افسوس کے ساتھ آج ملک میں کچھ لوگ اشعار کو اس جانب کھینچ رہے ہیں بلکہ زبردستی کھینچ کر لے جا رہے ہیں، ہمارے جوانوں کی جانب سے با صفا، لطیف، بہت زیادہ معنوی، حماسی اور انقلابی فضا میں حرکت کرنے کے بعد اب کچھ افراد نے شروع کر دیا ، مختلف طریقوں سے اور سب سے زیادہ سائبر اسپیس کے زریعے، دوسرے طریقے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں، اشعار کے زریعے جوانوں کو شہوت جنسی کے غلط استعمال کی جانب کھینچ رہے ہیں اور لے کر جارہے ہیں۔ یہ بہت بری چیز ہے، یہ خطرے کی گھنٹی ہے، بعض اوقات یہ ہوتا ہے اور بعض اوقات شخصی فائدے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے اور کبھی ظلم و ستم کی تعریف کے لئے ایسا کیا جاتا ہے، افسوس کے ساتھ ہماری تاریخ میں اس معنی کی بہت زیادہ مثالیں موجود ہیں، ظلم و ستم اور ستمگر کی تعریف و تمجید کی۔
آج الحمداللہ اسکا مد مقابل ہمارے پاس موجود ہے، یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان شاعر اسکے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں، اس سے پہلے بھی میں نے یمن سے متعلق آقائے سیار اور دوسرے شعرا کے اشعار سنے تھے، پڑھے تھے، بہت اچھے اشعار تھے، وہ اشعار جو آپ لوگوں نے کہے ہیں یا وہ اشعار جو آج دوستوں نے یہاں پر سنائے، بہت اچھے اشعار تھے، یہ درست ہے، یہ درست ہے، یہ صحیح کام ہے، یہ وہ عہد ہے جس کے بارے میں خداوند متعال سوال کرے گا۔ دعائے مکارم اخلاق کا ایک جملہ یہ ہے:وَ اسْتَعْمِلْنِی بِمَا تَسْأَلُنِی غَداً عَنْهُ،(۴) ہمیں اسکی فکر کرنا چاہئے، کل ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا، کہتے ہیں خدایا جن چیزوں کے بارے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ کل مجھ سے سوال کیا جائے گا، آج مجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق اور انہیں انجام دینے کے اسباب مہیا فرما دے۔ خوب اب آپ کے پاس وسیلہ موجود ہے، ممکن ہے کوئی متنفر ہو شعر نہیں کہہ سکتا ہو، الحمداللہ آپ تو اشعار کہہ سکتے ہیں، شعر کہیں، اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ یہ اشعار جو آپ بحرین کے لئے کہتے ہیں، یا یمن کے لئے کہتے ہیں، یا لبنان کے لئے کہتے ہیں، یا غزہ کے بارے میں کہتے ہیں، یا فلسطین کے بارے میں کہتے ہیں، یا شام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ہر ہر شعر کہ جو آپ امت مسلمہ کے اہداف کو نطر میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ان اشعار کا ہر ہر پہلو عملی ہے اور قابل استفادہ ہے۔ اگر اس طرح کے اشعار اس جہت میں ہی جاری رہیں تو اس وقت «انَّ مِنَ الشِّعرِ لَحِکمَه»(۵) آپ کے شعروں پر صادق آئے گا، کہ حقیقتا شعر حکمت ہے۔
میں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں ، البتہ یہ بات میں بارہا اس محفل میں اور دوسری محفلوں میں بیان کر چکا ہوں، حق اور باطل کے معرکے میں غیر جانبداری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایک جگہ غلط جنگ چھڑی ہوئی ہے اس کی علیحدہ بحث ہے، لیکن جب حق ہے اور باطل ، یہاں پر غیر جانبداری کوئی معنی نہیں رکھتی، یا حق کی طرف ہوں یا باطل کی طرف، ہاں کوئی فوجی بن کر قیام کرتا ہے، کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتا ہے، مختلف طریقوں سے قیام کیا جا سکتا ہے، اپنے افکار و نظریات کے زریعے قیام کیا جا سکتا ہے، لیکن قیام کرنا چاہئے، شاعر حق و باطل کی جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ اگر شاعر یا ہنر مند غیر جانبدار ہو گا تو وہ خدا کی نعمتوں کو ضایع کرے گا۔ اگر خدا نخواستہ باطل کی طرفداری کرے گا تو وہ خیانت کرے گا، ظلم کرے گا، اسے بے کار چھوڑ دینا اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ گناہ ہے۔ آپ کی ملت نے ان چند سالوں میں مسلسل بہت زیادہ مظلومیتیں دیکھی ہیں، ان مظلومیتوں کو بیان کیا جانا چاہئے، انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔
سن 1987میں سردشت پر بمباری کی گئی۔ انہی دنوں کی بات ہے، یہ کوئی مذاق ہے؟ ایک شہر پر کیمیکل بمباری کی گئی، ایک شہر کے ہزاروں افراد کو، بچوں ، بزرگوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور مردوں کو نابود کر دیا گیا اور دنیا سکوت اختیار کئے رہی۔ وہ دنیا کہ جس کے لئے بعض اوقات کسی بلی کے گڑھے میں گر جانے کا واقعہ ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ جسے اخباروں ، نیوز چینلز اور ٹی وی کے زریعے دکھایا جاتا ہے کہ جی ہاں ایک بلی یا ایک لومڑی گڑھے میں گر گئی ہے، فلاں ادارہ، فلاں ادارہ فلاں ادارہ سب جمع ہو جاتے ہیں تاکہ اسے زندہ اس گڑھے سے زندہ باہر نکال سکیں، یا ایک آبی جانور جو ساحل پر آگیا ہے اور مرنے کے قریب ہے، اسے کسی نہ کسی طرح پانی میں واپس بھیج دیں، ان چیزوں کے لئے دنیا میں وبال کھڑا کر دیتے ہیں، لیکن ایک شہر پر کیمیکل بمباری کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام پر دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ میں جو دنیا کا لفظ استعمال کر رہا ہوں اس کا مطلب ملتیں نہیں ہیں، ملتوں کے پاس وسائل نہیں ہیں، اس سے میری مراد دنیا کے تشہیراتی وسائل پر مسلط طاقتیں ہیں۔ اسکو اگر فارسی میں کہوں تو امریکا، برطانیہ، مغربی تسلط پسند طاقتیں، صیہونی طاقتیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جو دنیا کی تشہیراتی فضا پر مسلط ہیں، جو نہیں چاہتے کہ کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آئے۔ آج کل یمن کو تاراج کر رہے ہیں، کل غزہ کو تاراج کیا، اس سے کچھ عرصہ پہلے لبنان کو تاراج کیا، کسی نے آواز نہیں اٹھائی، لیکن آپ فرض کریں کہ دو اسمگلروں کو ایک جگہ سزا دی جائے اور انہیں پھانسی پر لٹکایا جائے، اس پر ایک تشہیراتی وبال کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ دنیا یہی ہے، ایسی دنیا کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے؟ ایک با شرف انسان کو اس طرح کی محاذ بندی کے مقابلے میں، اس طرح کی خباثتوں کے مقابلے میں، اس طرح کی بے حیائی کے مقابلے میں، دینی جوش و جذبے اور ایمانی وظیفے سے قطع نظر ہو کر شرف انسانیت اور ضمیر انسانیت، انسان کی انسانیت کیا حکم دیتی ہے؟ یہ سب کاندھوں پر ذمہ داری ہے۔
البتہ میں ملک میں انقلاب کے بعد شعر و ادب کی پیشرفت و ترقی سے بہت مطمئن ہوں اور حقیقتا بہت بہتر ہو گیا ہے۔ یہ جوان جو آج شعر پڑھتے ہیں، ان کا ان جوانوں سے بہت واضح اور نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے کہ جو دس سال پہلے اشعار پڑھتے تھے۔، یعنی حقیقت میں بہت اچھی پیشرفت ہوئی ہے، اشعار بہت اچھے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں شعر و ادب کی گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے، اس سے بہت زیادہ ہے، آپ دیکھیں کہ یہ ہماری صاحبزادی ٹیچر ہیں، میں نے سنا ہے کہ طالبعلموں کی سرگرمیوں کے لئے شہرستان ادب بنایا ہے، لوگوں کو جمع کیا ہے۔ ہمارے طالبعلم، ہمارے جوان، ہمارے نوجوان، ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے اشعار کہتے ہیں وہ بھی اتنے اچھے اشعار، اتنے اچھے مضامین پر مشتمل، اتنے پختہ خیالات کے حامل، یہ بہت اچھی بات ہے، البتہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہمارے اشعار کی عمومی سطح ایران میں موجود متناسب عمومی سطح تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ یعنی ہمارے یہاں ایسے ادوار گذر چکے ہیں، جو ہم سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہیں، کہ ہمارے اشعار کی عمومی سطح، یعنی اس اوج و سربلندی کے زمانے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جو موجودہ سطح سے بالاتر تھا۔ برجستہ افراد موجود تھے، شعرائے کرام موجود تھے، چاہے قصیدہ ہو، چاہے غزل ہو، مختلف روشوں میں ، ہمیں انہیں اپنانا چاہئے تاکہ ہماری شعری سطح اوپر آئے، یہ محنت طلب ہے، یہ چیز جدوجہد مانگتی ہے۔
ہم اپنی گنجائش کے لحاظ سے بہت وسعت کے حامل ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم اس وسیع گنجائش کو آگے لے کر جائیں اور یہ کام انتہائی ضروری ہے۔ البتہ حوزہ ھنری کی یہ ذمہ داری ہے، دوسرے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے، سرکاری ادارے اور نظام سے وابستہ ادارے اور ان جیسے دوسرے ادارے، ریڈیو اور ٹی وی کا نشریاتی ادارہ، و دیگر ادارے، یہ سب کا وظیفہ ہے۔ شعرو ادب کو ترقی عطا کرنے کی ضرورت ہے، شعر و ادب ایک عظیم اور اہم وجود کا نام ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے نظام میں، ہمارے ملک میں، جن لوگوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے، بعض افراد ، میں سب کے بارے میں نہیں کہوں گا، شعر و ادب کی اصل اور حقیقی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے، انہوں نے شعر و ادب کی قدر کو نہیں سمجھا۔ ما قَدَروا الشِّعرِ حَقَّ قَدرِه، وہ حقیقت میں شعر و ادب کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔ شعر کی عجیب و غریب تاثیر ہے۔ بعض اوقات ایک شعر، یا ایک غزل مثلا ایک شعر کا قطعہ، ایک یا دو گھنٹوں کی تقریر سے زیادہ بہتر انداز میں باخبر انسان پر اثرات چھوڑتی ہے۔ یہ چیز بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ جیسا کہ اصطلاحا کہا جاتا ہے گراں قیمت خزانہ ہے، یہ اس طرح کی اہمیت کا حامل ہے، اس کی قدر کو جاننا ضروری ہے۔
اس ضمن میں عرض کروں کہ ایک کام جو ہمارے ملک میں بہت اچھی طرح انجام پا رہا ہے اور الحمد اللہ اس محفل میں بھی ہمیں اسکے آثار نظر آ رہے ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم اس بات کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور میں اس سے بہت زیادہ راضی ہوں، جوان شاعروں کی جانب سے حوادث اور واقعات پر بہت تیزی کے ساتھ ردعمل دکھایا جانا ہے۔یہ قابل قدر ہے، یہ بہت اچھا ہے۔ شاید کوئی یہ خیال کرے کہ یہ منفی عمل ہے، نہیں یہ بہت زیادہ مثبت عمل ہے۔ ہماری پوری تاریخ اور زمان معاصر میں کہ جو ہم سے نزدیک ہے ایسے موارد موجود ہیں کہ اسی طرح کے ردعمل کی وجہ سے بہترین آثار وجود میں آئے ہیں۔ جب اسرائیلی ہوائی جہاز کو اس لڑکی نے ہائی جیک کیا تھا، مرحوم امیری فیروزکوہی نے ایک قصیدہ لکھا تھا، امیری فیروزکوہی کو جو دوست پہچانتے ہیں وہ انکے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ جوان، انقلابی اور اس طرح کی شخصیت کے حامل نہیں تھے لیکن اس وقت ایک خاص احساس انکے اندر پیدا ہو گیا تھا ، انہوں نے اسی وقت سن انیس سو ۔۔۔۔۔ ایک بہترین اور زبردست قصیدہ لکھا تھا، اس موقع کی مناسبت سے اس وقت کی مناسبت سے۔ آنجا غزالہ ای۔۔۔۔۔۔۔ اب اسکے کئی اشعار مجھے یاد نہیں ہیں، اس زمانے میں اس کےاکثر اشعار مجھے یاد تھے، میں نے خود ان کی زبانی ہی سنا تھا۔ بہر حال ، یہ بہت اچھی بات ہے، یہ کہ حوادث اور واقعات کے سلسلے میں ردعمل دکھایا جائے اور اسے بیان کیا جائے، یہ بہت اچھی بات ہے۔
اور امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ روز بروز رزمیہ شعر و شاعری بلندی و مرتبہ پیدا کرے۔ البتہ رزمیہ اور انقلابی شاعری سے میری مراد وہ اشعار نہیں ہیں کہ جو انقلاب کے زمانے میں لکھے گئے ہوں چاہے ضد انقلاب اشعار ہی کیوں نہ ہوں، انقلابی اور رزمیہ اشعار سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رزمیہ شاعری وہ شاعری ہے کو جو جنگ کے بارے میں لکھی جائے چاہے جنگ مخالف شاعری ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ یہ رزمیہ شاعری نہیں ہے، یہ جنگ مخالف شاعری ہے۔ انقلابی اشعار یعنی وہ اشعار کہ جو انقلابی اہداف کے تحت لکھے گئے ہوں، یہ انقلابی شاعری ہے، نہ کہ وہ اشعار جو انقلاب کے زمانے میں لکھے جائیں، اس سے میری یہ مراد نہیں ہے۔ میری مراد وہ اشعار ہیں کہ جو انقلابی اہداف کی خدمت کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے، عدل و عدالت کی خدمت کرنے کے لئے، دین کی خدمت کرنے کے لئے، اتحاد و وحدت کی خدمت کرنے کے لئے، ملی رفعت و سربلندی کی خدمت کرنے کے لئے، ملک کی ہمہ جانبہ ترقی و پیشرفت کی خدمت کرنے کے لئے، ملک میں حقیقی معنی میں انسان سازی کے عمل کی خدمت کرنے کے لئے، اسے انقلابی اشعار کہہ سکتے ہیں کہ جو انقلاب کے ہدف کے لئے لکھے جا رہے ہیں۔
امید کرتا ہوں کے خداوند متعال آپ کو کامیاب کرے، آپ کو زندگی عطا کرے، آپ کی جوانیاں ایک لمبے عرصے تک صراط مستقیم پر چلتی رہیں اور ملک کو اور مستقبل کو اور آئندہ نسلوں کو انشاء اللہ بہرہ مند کرتی رہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ولادت امام مجتبیٰ، امام حسن علیہ الصلاۃ و السلام، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک پر حسن مجسم کہ جنہوں نے یہ نام اس نومولد بچے کے لئے انتخاب کیا۔ اور یہ بات بہت زیادہ باعث عظمت ہے، بہت اہم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس مبارک بچے کے لئے نام کا انتخاب کیا انشاء اللہ آپ سب کو مبارک ہو۔
رمضان المبارک کی برکتوں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں آپ کے حساس دلوں کے لئے، آپکی لطیف روح کے لئے، آپ کے سیال احساسات کے لئے، حقیقت میں اگر یہ طے ہو کہ کچھ افراد کو ان برکات کے ذخائر اور انبار سے استفادہ کرنا ہے، تو جو لوگ اس سے بہت زیادہ استفادہ کریں گے اور کرتے ہیں وہ لوگ ہیں جو اہل ذوق ہیں، روح کے حامل ہیں، دل والے ہیں، لطیف احساسات کے حامل ہیں، یعنی آپ لوگ، آپ سے بہتر کون ہو گا جو اس مبارک مہینے کے دنوں، راتوں، گھنٹوں ، لمحوں اور لحظات سے بہرمند ہو، کہ یہ مہینہ خدا سے قربت کا مہینہ ہے، رقت قلب کا مہینہ ہے، خدائے متعال سے انس کا مہینہ ہے، ذکر کا مہینہ ہے، خشوع کا مہینہ ہے، اور کون ہو گا ان افراد سے بہتر کہ جو پاک و لطیف دلوں اور بہترین احساسات کے مالک ہیں۔
ذکر و شوق و انس کی جنت میں داخل ہونے کے لئے بہترین وسیلہ وہ دعائیں ہیں جو اس مہینے میں وارد ہوئی ہیں۔ چاہے وہ دعائیں ہوں کہ جو صرف اس مہینے سے مخصوص ہوں یا وہ دعائیں کہ جن کو ہر وقت پڑھنے کا دل چاہتا ہے۔ مثلا مناجات شعبانیہ، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، اس نے استفادہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے، وَ اسمَع دُعائی اِذا دَعَوتُک، وَ اسمَع نِدائی اِذا نادَیتُک، وَ اقبِل عَلَیَّ اِذا ناجَیتُک؛(۲) ان چیزوں کو آپکے لطیف دل اور زیادہ حضور کے زریعے اور زیادہ توجہ کے زریعے بیان کر سکتے ہیں۔ فَقَد هَرَبتُ اِلَیکَ وَ وَقَفتُ بَینَ یَدَیک؛ یہ وہ تعبیریں ہیں، یہ وہ کلمات ہیں کہ جو لطیف ترین دلوں اور فصیح ترین زبانوں سے صادر ہوئے ہیں، انکو کون قبول کرے گا، انکو کون درک کرے گا، ان سے کون استفادہ کرے گا، آپ سے بہتر کون ہے، آپ کے پاک اور لطیف دلوں کے علاوہ کون ہے، اس ماہ مبارک میں دعاوں سے غفلت نہ کریں۔ دعائے مناجات شعبانیہ میں هَب لی قَلباً یُدنیهِ مِنکَ شَوقُهُ وَ لِساناً یُرفَعُ اِلَیکَ صِدقُهُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُهُ مِنکَ حَقُّه؛ وہ دل کہ جس کا شوق اسے عروج عطا کرتا ہے، اوپر لے کر جاتا ہے، ذات ربوبیت سے نزدیک کرتا ہے، اس کو خدا انسان سے طلب کرتا ہے، خوب، کون سا دل ہے جو زیادہ آمادہ ہے اس لطیف و حساس دل کے مقابلے میں؟ کہ الحمداللہ وہ آپ لوگوں میں موجود ہے۔
دعائے ابو حمزہ ثمالی میں: بِکَ عَرَفتُکَ وَ اَنتَ دَلَلتَنی عَلَیکَ وَ دَعَوتَنی اِلَیکَ وَ لَولا اَنتَ لَم اَدر ما اَنت؛ حضرت حق سے ، محبت اور عزت کے مبدا و منشا سے یہ لطیف معنوی رابطہ، یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، یہ بہت زیادہ اہم ہے، یہ ان دلوں کو گرم کرتا ہے جو لطافت کے حامل ہیں، انکی حفاظت کرتا ہے، انہیں امید عطا کرتا ہے، ان دلوں کے لئے پناہ گاہ اور تکیہ گاہ بن جاتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ مرحوم اخوان نے یہ شعر کس کے لئے اور کس لئے کہا ہے، میں اس شعر کو صحیفہ سجادیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھتا ہوں، میں اس شعر کو دعائے ابو حمزہ ثمالی کو مخاطب کرتے ہوئے پڑھتا ہوں: «ای تکیهگاه و پناه زیباترین لحظههای پرعصمت و پرشکوهِ تنهایی و خلوت من ای شطّ شیرین پرشوکت من». اے میری پر عصمت اور پر شکوہ تنہائی اور خلوت کے زیبا ترین لمحوں کی پناہ گاہ ، اے عظمت سے لبریز میری شیریں نہر، اسے کہتے ہیں دعا۔ اس کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ دعا سے منہ نہ موڑیں، دعا بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دعا وہی اکسیر ہے کہ جو نا امیدی سے آلودہ دلوں کو، بد بینی میں آمیختہ، غلط احساسات سے آلودہ دلوں کو منقلب کرتی ہے۔ اسے درست راستے کی جانب ہدایت کرتی ہے، دعا ایسی چیز ہے۔ ان راتوں سے استفادہ کریں، آپ لوگ وہ شایستہ ترین افراد ہیں کہ دعا مانگ سکتے ہیں اور اس سے حقیقی معنی میں بہرمند ہو سکتے ہیں۔ استفادہ کریں۔ البتہ دعا کے الفاظ کا پڑھنا دعا کے پڑھنے سے نچلا مرحلہ ہے۔ کہ انہیں الفاظ کو انسان پڑھے اور ان کے صحیح معنی کو نہ سمجھ سکے یا انکے ظاہری معنی کو سمجھے، لیکن دعا میں ڈوب جانا اس کے مضامین میں ڈوب جانا اور انکی گہرائی میں اترنا، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
شعر ایک با اثر عنصر ہے، اسکا اثر گفتگو اور کلام کے تمام تر سلیقوں میں دو چنداں ہے۔ یعنی کوئی بھی گفتگو، جتنی بھی خوبصورت ہو، جتنی بھی فصیح ہے، جتنی پر مغز ہو، اگر اس میں شعر نہ ہو تو اثر نہیں رکھتی، شعر ایک ایسی دستگاہ ہے، ایک ایسا عنصر ہے۔ شعر متحرک کرنے کا نقش رکھتا ہے۔ جہاں متحرک کرنے کی جگہ ہے وہاں شعر اپنے سننے والے کے لئے اور اسکے لئے کہ جو شعر کو اپنے لئے پڑھتا ہے، رہنما کا کردار ادا کرتا ہے، سمت معین کرنے کا کردار ادا کرتا ہے، راستہ دکھانے کا کردار ادا کرتا ہے، خوب اسے کہتے مسئولیت آور، جب آپ کے پاس کوئی ایسی دولت ہے، ثروت ہے، امکانات ہیں کہ جس کے زریعے بڑے کام انجام دیئے جا سکتے ہیں، اور اگر آپ نے اس سے استفادہ نہ کیا ہو، اپنی ذمہ داریوں کے برخلاف عمل کیا ہو، اپنے عہد کے خلاف عمل کیا ہو، اسے اس سلسلے میں ضرور جواب دینا ہوگا، اب جبکہ خدائے متعال نے آپ کو یہ نعمت دی ہے لیکن دوسری تمام نعمتوں کی طرح اس نعمت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، عطائے الہی کے بارے میں سوال کیا جائے گا، آپ سے سوال کیا جائے گا آپ نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟
شعر کے زریعے اپنے مخاطب کو صحیح راستے اور صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی جاسکتی ہے۔اور اسے غلط راستے کی طرف بھی لے جایا جاسکتا ہے اور اسے برباد بھی کیا جاسکتا ہے۔ شعر اس کو پستی کی جانب بھی لے جا سکتا ہے، اس طرح کے اشعار بھی موجود ہیں، خاص طور پر آجکل کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بے لگام ثقافت جو ہر طرح کی اخلاقی اور انسانی اقداروں سے دور ہے اور ان جدید ترین وسائل کے زریعے- میڈیا کے جدید وسائل- کے زریعے فراوانی کے ساتھ منتشر کی جارہی ہے۔ بعض اوقات شعر لغزش، انحراف اور فساد میں مبتلا ہونے کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ بنا بر ایں شعر سے دونوں طرح سے استفادہ کیا جاتا۔ شاعر اپنے لطیف احساسات کے زریعے خود درک بھی کرتا ہے اور اپنے شوق کی وجہ سے بھی وہ شعر کہتا ہے، وہ اداس بھی ہوتا ہے تو شعر کہتا ہے۔ اس کا اداسی اور غم کی حالت میں شعر کہنا بھی اس کے شوق کی وجہ سے ہے۔اسکےغم کی وجہ سے ہے، ان احساسات، ادراک اور مشاہدات کی وجہ سے جس کا دوسرے افراد مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ اسکی دو سمتیں ہیں، یہ نیکیوں کی طرف لے جا سکتا ہے اور اسکے برعکس بھی۔ اگر شعر بہت زیادہ جنسی شہوت کی جانب مائل ہو جائے، جیسا کہ افسوس کے ساتھ آج ملک میں کچھ لوگ اشعار کو اس جانب کھینچ رہے ہیں بلکہ زبردستی کھینچ کر لے جا رہے ہیں، ہمارے جوانوں کی جانب سے با صفا، لطیف، بہت زیادہ معنوی، حماسی اور انقلابی فضا میں حرکت کرنے کے بعد اب کچھ افراد نے شروع کر دیا ، مختلف طریقوں سے اور سب سے زیادہ سائبر اسپیس کے زریعے، دوسرے طریقے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں، اشعار کے زریعے جوانوں کو شہوت جنسی کے غلط استعمال کی جانب کھینچ رہے ہیں اور لے کر جارہے ہیں۔ یہ بہت بری چیز ہے، یہ خطرے کی گھنٹی ہے، بعض اوقات یہ ہوتا ہے اور بعض اوقات شخصی فائدے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے اور کبھی ظلم و ستم کی تعریف کے لئے ایسا کیا جاتا ہے، افسوس کے ساتھ ہماری تاریخ میں اس معنی کی بہت زیادہ مثالیں موجود ہیں، ظلم و ستم اور ستمگر کی تعریف و تمجید کی۔
آج الحمداللہ اسکا مد مقابل ہمارے پاس موجود ہے، یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے کچھ جوان شاعر اسکے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ہیں، اس سے پہلے بھی میں نے یمن سے متعلق آقائے سیار اور دوسرے شعرا کے اشعار سنے تھے، پڑھے تھے، بہت اچھے اشعار تھے، وہ اشعار جو آپ لوگوں نے کہے ہیں یا وہ اشعار جو آج دوستوں نے یہاں پر سنائے، بہت اچھے اشعار تھے، یہ درست ہے، یہ درست ہے، یہ صحیح کام ہے، یہ وہ عہد ہے جس کے بارے میں خداوند متعال سوال کرے گا۔ دعائے مکارم اخلاق کا ایک جملہ یہ ہے:وَ اسْتَعْمِلْنِی بِمَا تَسْأَلُنِی غَداً عَنْهُ،(۴) ہمیں اسکی فکر کرنا چاہئے، کل ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا، کہتے ہیں خدایا جن چیزوں کے بارے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ کل مجھ سے سوال کیا جائے گا، آج مجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق اور انہیں انجام دینے کے اسباب مہیا فرما دے۔ خوب اب آپ کے پاس وسیلہ موجود ہے، ممکن ہے کوئی متنفر ہو شعر نہیں کہہ سکتا ہو، الحمداللہ آپ تو اشعار کہہ سکتے ہیں، شعر کہیں، اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ یہ اشعار جو آپ بحرین کے لئے کہتے ہیں، یا یمن کے لئے کہتے ہیں، یا لبنان کے لئے کہتے ہیں، یا غزہ کے بارے میں کہتے ہیں، یا فلسطین کے بارے میں کہتے ہیں، یا شام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ہر ہر شعر کہ جو آپ امت مسلمہ کے اہداف کو نطر میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ان اشعار کا ہر ہر پہلو عملی ہے اور قابل استفادہ ہے۔ اگر اس طرح کے اشعار اس جہت میں ہی جاری رہیں تو اس وقت «انَّ مِنَ الشِّعرِ لَحِکمَه»(۵) آپ کے شعروں پر صادق آئے گا، کہ حقیقتا شعر حکمت ہے۔
میں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں ، البتہ یہ بات میں بارہا اس محفل میں اور دوسری محفلوں میں بیان کر چکا ہوں، حق اور باطل کے معرکے میں غیر جانبداری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایک جگہ غلط جنگ چھڑی ہوئی ہے اس کی علیحدہ بحث ہے، لیکن جب حق ہے اور باطل ، یہاں پر غیر جانبداری کوئی معنی نہیں رکھتی، یا حق کی طرف ہوں یا باطل کی طرف، ہاں کوئی فوجی بن کر قیام کرتا ہے، کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتا ہے، مختلف طریقوں سے قیام کیا جا سکتا ہے، اپنے افکار و نظریات کے زریعے قیام کیا جا سکتا ہے، لیکن قیام کرنا چاہئے، شاعر حق و باطل کی جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ اگر شاعر یا ہنر مند غیر جانبدار ہو گا تو وہ خدا کی نعمتوں کو ضایع کرے گا۔ اگر خدا نخواستہ باطل کی طرفداری کرے گا تو وہ خیانت کرے گا، ظلم کرے گا، اسے بے کار چھوڑ دینا اچھی بات نہیں ہے بلکہ یہ گناہ ہے۔ آپ کی ملت نے ان چند سالوں میں مسلسل بہت زیادہ مظلومیتیں دیکھی ہیں، ان مظلومیتوں کو بیان کیا جانا چاہئے، انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے۔
سن 1987میں سردشت پر بمباری کی گئی۔ انہی دنوں کی بات ہے، یہ کوئی مذاق ہے؟ ایک شہر پر کیمیکل بمباری کی گئی، ایک شہر کے ہزاروں افراد کو، بچوں ، بزرگوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور مردوں کو نابود کر دیا گیا اور دنیا سکوت اختیار کئے رہی۔ وہ دنیا کہ جس کے لئے بعض اوقات کسی بلی کے گڑھے میں گر جانے کا واقعہ ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہو جاتا ہے کہ جسے اخباروں ، نیوز چینلز اور ٹی وی کے زریعے دکھایا جاتا ہے کہ جی ہاں ایک بلی یا ایک لومڑی گڑھے میں گر گئی ہے، فلاں ادارہ، فلاں ادارہ فلاں ادارہ سب جمع ہو جاتے ہیں تاکہ اسے زندہ اس گڑھے سے زندہ باہر نکال سکیں، یا ایک آبی جانور جو ساحل پر آگیا ہے اور مرنے کے قریب ہے، اسے کسی نہ کسی طرح پانی میں واپس بھیج دیں، ان چیزوں کے لئے دنیا میں وبال کھڑا کر دیتے ہیں، لیکن ایک شہر پر کیمیکل بمباری کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام پر دنیا خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ میں جو دنیا کا لفظ استعمال کر رہا ہوں اس کا مطلب ملتیں نہیں ہیں، ملتوں کے پاس وسائل نہیں ہیں، اس سے میری مراد دنیا کے تشہیراتی وسائل پر مسلط طاقتیں ہیں۔ اسکو اگر فارسی میں کہوں تو امریکا، برطانیہ، مغربی تسلط پسند طاقتیں، صیہونی طاقتیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جو دنیا کی تشہیراتی فضا پر مسلط ہیں، جو نہیں چاہتے کہ کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی آئے۔ آج کل یمن کو تاراج کر رہے ہیں، کل غزہ کو تاراج کیا، اس سے کچھ عرصہ پہلے لبنان کو تاراج کیا، کسی نے آواز نہیں اٹھائی، لیکن آپ فرض کریں کہ دو اسمگلروں کو ایک جگہ سزا دی جائے اور انہیں پھانسی پر لٹکایا جائے، اس پر ایک تشہیراتی وبال کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ دنیا یہی ہے، ایسی دنیا کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے؟ ایک با شرف انسان کو اس طرح کی محاذ بندی کے مقابلے میں، اس طرح کی خباثتوں کے مقابلے میں، اس طرح کی بے حیائی کے مقابلے میں، دینی جوش و جذبے اور ایمانی وظیفے سے قطع نظر ہو کر شرف انسانیت اور ضمیر انسانیت، انسان کی انسانیت کیا حکم دیتی ہے؟ یہ سب کاندھوں پر ذمہ داری ہے۔
البتہ میں ملک میں انقلاب کے بعد شعر و ادب کی پیشرفت و ترقی سے بہت مطمئن ہوں اور حقیقتا بہت بہتر ہو گیا ہے۔ یہ جوان جو آج شعر پڑھتے ہیں، ان کا ان جوانوں سے بہت واضح اور نمایاں فرق دیکھنے میں آیا ہے کہ جو دس سال پہلے اشعار پڑھتے تھے۔، یعنی حقیقت میں بہت اچھی پیشرفت ہوئی ہے، اشعار بہت اچھے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں شعر و ادب کی گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے، اس سے بہت زیادہ ہے، آپ دیکھیں کہ یہ ہماری صاحبزادی ٹیچر ہیں، میں نے سنا ہے کہ طالبعلموں کی سرگرمیوں کے لئے شہرستان ادب بنایا ہے، لوگوں کو جمع کیا ہے۔ ہمارے طالبعلم، ہمارے جوان، ہمارے نوجوان، ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے اشعار کہتے ہیں وہ بھی اتنے اچھے اشعار، اتنے اچھے مضامین پر مشتمل، اتنے پختہ خیالات کے حامل، یہ بہت اچھی بات ہے، البتہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہمارے اشعار کی عمومی سطح ایران میں موجود متناسب عمومی سطح تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ یعنی ہمارے یہاں ایسے ادوار گذر چکے ہیں، جو ہم سے بہت زیادہ دور بھی نہیں ہیں، کہ ہمارے اشعار کی عمومی سطح، یعنی اس اوج و سربلندی کے زمانے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ جو موجودہ سطح سے بالاتر تھا۔ برجستہ افراد موجود تھے، شعرائے کرام موجود تھے، چاہے قصیدہ ہو، چاہے غزل ہو، مختلف روشوں میں ، ہمیں انہیں اپنانا چاہئے تاکہ ہماری شعری سطح اوپر آئے، یہ محنت طلب ہے، یہ چیز جدوجہد مانگتی ہے۔
ہم اپنی گنجائش کے لحاظ سے بہت وسعت کے حامل ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم اس وسیع گنجائش کو آگے لے کر جائیں اور یہ کام انتہائی ضروری ہے۔ البتہ حوزہ ھنری کی یہ ذمہ داری ہے، دوسرے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے، سرکاری ادارے اور نظام سے وابستہ ادارے اور ان جیسے دوسرے ادارے، ریڈیو اور ٹی وی کا نشریاتی ادارہ، و دیگر ادارے، یہ سب کا وظیفہ ہے۔ شعرو ادب کو ترقی عطا کرنے کی ضرورت ہے، شعر و ادب ایک عظیم اور اہم وجود کا نام ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے نظام میں، ہمارے ملک میں، جن لوگوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے، بعض افراد ، میں سب کے بارے میں نہیں کہوں گا، شعر و ادب کی اصل اور حقیقی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے، انہوں نے شعر و ادب کی قدر کو نہیں سمجھا۔ ما قَدَروا الشِّعرِ حَقَّ قَدرِه، وہ حقیقت میں شعر و ادب کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے۔ شعر کی عجیب و غریب تاثیر ہے۔ بعض اوقات ایک شعر، یا ایک غزل مثلا ایک شعر کا قطعہ، ایک یا دو گھنٹوں کی تقریر سے زیادہ بہتر انداز میں باخبر انسان پر اثرات چھوڑتی ہے۔ یہ چیز بہت اہمیت کی حامل ہے، یہ جیسا کہ اصطلاحا کہا جاتا ہے گراں قیمت خزانہ ہے، یہ اس طرح کی اہمیت کا حامل ہے، اس کی قدر کو جاننا ضروری ہے۔
اس ضمن میں عرض کروں کہ ایک کام جو ہمارے ملک میں بہت اچھی طرح انجام پا رہا ہے اور الحمد اللہ اس محفل میں بھی ہمیں اسکے آثار نظر آ رہے ہیں اور اس سے پہلے بھی ہم اس بات کا مشاہدہ کر چکے ہیں اور میں اس سے بہت زیادہ راضی ہوں، جوان شاعروں کی جانب سے حوادث اور واقعات پر بہت تیزی کے ساتھ ردعمل دکھایا جانا ہے۔یہ قابل قدر ہے، یہ بہت اچھا ہے۔ شاید کوئی یہ خیال کرے کہ یہ منفی عمل ہے، نہیں یہ بہت زیادہ مثبت عمل ہے۔ ہماری پوری تاریخ اور زمان معاصر میں کہ جو ہم سے نزدیک ہے ایسے موارد موجود ہیں کہ اسی طرح کے ردعمل کی وجہ سے بہترین آثار وجود میں آئے ہیں۔ جب اسرائیلی ہوائی جہاز کو اس لڑکی نے ہائی جیک کیا تھا، مرحوم امیری فیروزکوہی نے ایک قصیدہ لکھا تھا، امیری فیروزکوہی کو جو دوست پہچانتے ہیں وہ انکے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ جوان، انقلابی اور اس طرح کی شخصیت کے حامل نہیں تھے لیکن اس وقت ایک خاص احساس انکے اندر پیدا ہو گیا تھا ، انہوں نے اسی وقت سن انیس سو ۔۔۔۔۔ ایک بہترین اور زبردست قصیدہ لکھا تھا، اس موقع کی مناسبت سے اس وقت کی مناسبت سے۔ آنجا غزالہ ای۔۔۔۔۔۔۔ اب اسکے کئی اشعار مجھے یاد نہیں ہیں، اس زمانے میں اس کےاکثر اشعار مجھے یاد تھے، میں نے خود ان کی زبانی ہی سنا تھا۔ بہر حال ، یہ بہت اچھی بات ہے، یہ کہ حوادث اور واقعات کے سلسلے میں ردعمل دکھایا جائے اور اسے بیان کیا جائے، یہ بہت اچھی بات ہے۔
اور امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ روز بروز رزمیہ شعر و شاعری بلندی و مرتبہ پیدا کرے۔ البتہ رزمیہ اور انقلابی شاعری سے میری مراد وہ اشعار نہیں ہیں کہ جو انقلاب کے زمانے میں لکھے گئے ہوں چاہے ضد انقلاب اشعار ہی کیوں نہ ہوں، انقلابی اور رزمیہ اشعار سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رزمیہ شاعری وہ شاعری ہے کو جو جنگ کے بارے میں لکھی جائے چاہے جنگ مخالف شاعری ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ یہ رزمیہ شاعری نہیں ہے، یہ جنگ مخالف شاعری ہے۔ انقلابی اشعار یعنی وہ اشعار کہ جو انقلابی اہداف کے تحت لکھے گئے ہوں، یہ انقلابی شاعری ہے، نہ کہ وہ اشعار جو انقلاب کے زمانے میں لکھے جائیں، اس سے میری یہ مراد نہیں ہے۔ میری مراد وہ اشعار ہیں کہ جو انقلابی اہداف کی خدمت کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے، عدل و عدالت کی خدمت کرنے کے لئے، دین کی خدمت کرنے کے لئے، اتحاد و وحدت کی خدمت کرنے کے لئے، ملی رفعت و سربلندی کی خدمت کرنے کے لئے، ملک کی ہمہ جانبہ ترقی و پیشرفت کی خدمت کرنے کے لئے، ملک میں حقیقی معنی میں انسان سازی کے عمل کی خدمت کرنے کے لئے، اسے انقلابی اشعار کہہ سکتے ہیں کہ جو انقلاب کے ہدف کے لئے لکھے جا رہے ہیں۔
امید کرتا ہوں کے خداوند متعال آپ کو کامیاب کرے، آپ کو زندگی عطا کرے، آپ کی جوانیاں ایک لمبے عرصے تک صراط مستقیم پر چلتی رہیں اور ملک کو اور مستقبل کو اور آئندہ نسلوں کو انشاء اللہ بہرہ مند کرتی رہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ