ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس کے افسروں اور اہلکاروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم  (1)

میں سب سے پہلے آپ تمام عزیز بھائیوں ، بہنوں ، پولیس کے اعلی افسروں کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں آپ اہم ترین اور ممتازترین قومی ضروریات کو پورا کررہے ہیں آپ نے اپنےدوش پر یہ عظیم ذمہ داری لے رکھی ہے محترم وزیر داخلہ (2) بھی تشریف فرما ہیں انھیں بھی خوش آمدید عرض کرتا ہوں، ان شاء اللہ آپ سب مؤفق اور کامیاب و کامراں رہیں۔

ہمیں ایکدوسرے کو مبارکباد پیش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ماہ رجب کو درک کرنے کی ایک بار پھر توفیق عطا فرمائی ہے رجب کا مہینہ الہی اقدار سے قریب ہونے اور اللہ تعالی کی مقدس ذات کا تقرب حاصل کرنے اور خودسازی کا مہینہ ہے۔ یہ ایام جو ہماری روایات میں ممتاز ایام کے عنوان سے بیان ہوئے ہیں ، یہ تمام ایام غنیمت کا موقع ہیں ؛ اور ہر فرصت اور موقع بھی ایک نعمت ہےاور ہر نعمت پر شکر و سپاس بھی ضروری ہے، نعمت پر شکر و سپاس یہ ہے کہ انسان نعمت کو پہچان لے اور اس نعمت کے اقتضا کے مطابق عمل کرے ، اس سے استفادہ اٹھائے، نعمت کو خدا کی طرف سے سمجھے اور اس سے راہ خدا میں کام لے؛ رجب کا مہینہ ان نعمتوں کا مہینہ ہے۔ اس کے بعد شعبان کا مہینہ ہے کہ وہ بھی ایک دوسری نعمت ہے اور اہل نظر ، کملین (3) اور اہل توحید کے نزدیک یہ دونوں مہینے رمضان المبارک کا مقدمہ ہیں؛ اور رمضان کا مہینہ عروج اور بلندی کا مہینہ ہے؛ معراج کےسفر پر جانے کا مہینہ ہے، نفس کی پاکیزگی کا مہینہ ہے ، نفس کی طہارت کا مہینہ ہے یہ وہ امور ہیں جن کی ہم سب کو ضرورت ہے، ماہ رجب کی قدر و قیمت پہچانئے؛ اس مہینہ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں جتنا زیادہ ممکن ہوسکے اپنے توسلات ، دعاؤں اور راز و نیاز میں اضافہ کیجئے؛ اللہ تعالی کو یاد کیجئے ، کام کو اس کے لئے انجام دیجئے؛ یہ تلاش و کوشش جو آپ کررہے ہیں ، یہ محنت جو آپ کررہے ہیں ، اس کو اللہ تعالی کے لئے انجام دیجئے۔

آپ کا کام منجملہ ایسا کام ہے جس میں آسانی کے ساتھ  قصد خدا اور قربت کی نیت کی جاسکتی ہے اس میں تمام کاموں کو اللہ تعالی کے لئے انجام دیا جاسکتا ہے حتی معاش کی تلاش کے سلسلے میں کی جانی والی زحمت کو بھی اللہ تعالی کے لئے قراردیا جاسکتا ہے؛ بعض کاموں میں الہی ارادہ اور قصد قربت کرنا بہت ہی آسان ہے؛ آپ کا کام بھی اسی زمرے میں آتا ہے؛ کیونکہ آپ کا کام معاشرے کی خدمت ہے، آپ کا کام عوام کی خدمت ہے ، آپ کا کام اسلامی جمہوریہ ایران کی خدمت ہے، آپ کا کام اسلام کی خدمت ہے، اسلام کی نصرت ہے یہی آیہ شریفہ جس کی ابھی یہاں  عزیز جوان نے تلاوت کی  کہ" یاَیُّهَا الَّذینَ ءامَنوا کونوا اَنصارَ الله " (۴)  اللہ تعالی کی نصرت کریں ؛ آپ اللہ تعالی کے ناصرین  اور اس کی مدد کرنے والوں اور اس کی نصرت کرنے والوں میں شامل ہو جائيں  ۔ خوب، اس آیت کا ایک مصداق یہی ہے؛ آپ کا کام ایسے کاموں میں شامل ہے جو حقیقت میں نصرت اسلام ہوسکتا ہے۔جو نصرت دین ہوسکتا ہے، عوام کی نصرت اور مدد پر مبنی ہوسکتا ہے، لہذا یہ قصد قربت ، کہ آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کہیں ! میں یہ خدمت جو کررہا ہوں ،یہ جو اس وقت ادارے میں ہوں، اس وقت جو ڈیوٹی دے رہا ہوں اور کام کو بہتر انجام دینے کے لئے جو کوشش کررہا ہوں ، یہ پانچ منٹ جو مقررہ وقت سے زیادہ ادارے میں رہ  رہا ہوں  اور کام انجام دے رہا ہوں اس کام کو تیرے لئے انجام دے رہا ہوں یہ ایک بہترین موقع ہے کہ آپ کا کام اللہ تعالی کے لئے انجام پذیر ہو۔اس مہینے کے برکات اور فیوضات سے بھر پور استفادہ کریں  منجملہ یہی چیزیں جو میں نے عرض کی ہیں۔

پہلے میں پولیس کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کرنا لازم سمجھتا ہوں، خوب ، بہت اچھے اور عمدہ کام انجام پا رہے ہیں ، ممکن ہے ایک جکہ ، دو جگہ ،پنج جگہ کچھ اشکالات بھی موجود ہوں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سطح پر پولیس جو کوشش انجام دے رہی ہے حق اور انصاف کی روشنی میں وہ کوششیں قابل قدر اور لائق تحسین ہیں، ان کوششوں کا ایک نمونہ عید کے ایام میں آپ کی زحمات ہیں؛ عید کے ایام میں سبھی اپنے گھروں میں ہیں ، اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہیں ، اپنے بچوں کے پاس ہیں ، لیکن آپ کے جوان ، آپ کے اہلکار سڑکوں پر ، شہروں میں ، ہائی وے پر یہاں ، وہاں سرگرم اور دوسروں کو آرام پہنچانے کے لئےمحو تلاش ہیں ؛ دوسروں کے لئے تشویش میں مبتلا ہیں، سڑکوں پر ایک طرح کی پریشانی، شہر وں میں دوسری قسم کی پریشانی ، تھانوں میں ایک اور قسم کی تشویش ، ہائي وے پر ایک اور نوعیت کی پریشانی ؛ یہ بہت گرانقدر عمل ہے اس عمل پر شکریہ ادا کرنا لازم ہے ؛ اور میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔

پولیس کی اہمیت جس پر ہم اس قدر اعتماد کرتے ہیں اس کی اصل وجہ پولیس کے دوش پر عائد ماموریت کی اہمیت ہے، ہر انسان کی اہمیت اس کی ذمہ داری اور عہدے کے پیش نظر ہے جو ذمہ داری اور عہدہ وہ اپنے دوش پر لئے ہوئےہےاور یہ انسان اس مجموعہ اور اس ادارے کے ہمراہ  اسی قدر اہمیت والا بن جاتا ہے جس ذمہ داری کو آپ نے اپنے دوش پر لے رکھا ہے وہ ملک میں سکیورٹی اور امن و سلامتی کا قیام ہے، اور یہ بات بہت ہی مہم ہے ؛ جس جگہ امن و سلامتی نہیں ہے وہاں لوگ امن و سلامتی کی قدر کو سمجھتے ہیں؛ جہاں مرد گھر سے باہر جاتا ہے، عورت گھر سے باہر جاتی ہے، جوان اور بچے گھر سے باہر جاتے ہیں جبکہ انھیں دوبارہ گھر واپس لوٹنے کا اطمینان نہیں ہوتا ہے؛ سڑک پر بد امنی ہے، گلی میں بد امنی ہے، صحرا میں بد امنی ہے، ناخوشگوار حوادث شہریوں کے انتظار میں ہیں ؛ وہ جگہیں جہاں انسان اپنے گھر کے اندر بدامنی کا احساس کرتا ہے ایسے موقع پر اور ایسی جگہوں پر انسان ،امن و سلامتی کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتا ہے ، امن و سلامتی کتنی اہمیت کی حامل ہے؛ امن و سلامتی کا قیام ، اور اس امن و سلامتی کو فروغ دینا یہ آپ کا کام ہے سب  سےاہم ادارہ جس نے اس اہم ذمہ داری کو اپنے دوش پر لےرکھا ہے وہ پولیس کا ادارہ ہے اور یہ کام بہت ہی اہم کام ہے لہذا پولیس کے ادارے کی اہمیت  اس لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔

خوب، امن و سلامتی بھی کوئی تبلیغاتی اور زبانی امر نہیں ہے کہ انسان اعلان کرے کہ ہم نے امن و سلامتی قائم کردی ہے ، آپ سو مرتبہ اعلامیہ صادر کریں، اعلان کریں پکار کر کہیں ، کہ ہاں ، ہم نے فلاں سڑک پر امن قائم کردیا ہے اور بعد میں رات کے وقت جب لوگ اس سڑک پر رفت و آمد شروع کریں تو انھیں بد امنی کا سامنا کرنا پڑے ، تو وہ آپ کے اعلامیے اور وہ آپ کی تبلیغات سب غیر مشثر ثابت ہوں گی ، " دوصد گفته چون نیم کردار نیست" ؛ عوام کو امن و سلامتی کا احساس ہونا چاہیے اور امن کا احساس بھی امن کے حقیقی وجود پر متوقف ہے ؛ امن حقیقت میں موجود ہونا چاہیے،البتہ بہت اچھے کام انجام پذیر ہوئے ہیں؛ جو اعداد و شمار پولیس کے سربراہ نے پیش کئے ہیں وہ اعداد و شمار میں نے بھی رپورٹوں میں دیکھے ہیں اور یہ اقدام بھی گرانقدر ہیں  لیکن ان پر اکتفا نہین کرنی چاہیے انھیں کافی نہیں سمجھنا چاہیے ؛ آپ کی نیت اور آپ کا عزم یہ ہونا چاہیے کہ جتنا ممکن ہوسکے امن و سلامتی کی سطح کو اتنا ہی بلند و بالا لے جانا چاہیے۔مثال کے طور پر فلاں سڑک کے حوادث کی مقدار میں اتنے فیصد کمی واقع ہوگئی یہ کافی نہیں ہے۔

بلکہ آپ کی ہمت اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ سڑکوں پر حوادث رونما ہی نہ ہوں، چوری کے واقعات کا سد باب ہونا چاہیے ، شہروں کے اندر جو حوادث اور واقعات رونما ہوتے ہیں وہ رونما نہیں ہونے چاہییں آپ کی ہمت اس بات پر مبذول ہونی چاہیے  جب آپ اس بات پر کمر ہمت باندھ لیں گے قدرتی طور پر کام مسلسل اور پیہم انجام پذیر ہوگا جو کام انجام دے رہے ہیں وہ حذف نہیں ہوگا۔

ایک مہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم جو بات سماجی سلامتی اور انفرادی سلامتی کے بارے میں کرتے ہیں ، اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ آپ جب گھر سے باہر آتے ہیں ادارہ تک ، دکان تک ، اپنے کام کے محل تک یا مدرسہ تک ، فرض کریں کہ کوئی شخص آپ پر سڑک پرچاقو سے حملہ نہ کرے، ہاں ، یہ سلامتی کا ایک پہلو ہے کہ کوئي شخص کسی پر حملہ نہ کرے ، بیشک یہ بات بھی ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  باریک قسم کے موارد بھی امن و سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں جو دیکھنے اور مشاہدہ میں نظر نہیں آتے لیکن ان کا خطرہ کہیں زیادہ ہوتا ہےمثال کے طور پر منشیات کے فروغ  کے ذریعہ جو بدامنی پھیلائی جاتی ہے؛ چنانچہ وہ ہماری تفریحی جگہوں پر ، ہمارے باغوں  اور پارکوں میں، ہماری سڑکوں پر،  ہمارے مدرسوں میں اس طرح ہو کہ جو لوگ وہاں جاتے ہیں بالخصوص جوان جو اکثر وہاں جاتے ہیں ، اگر انہیں منشیات کے فروغ کے مقابلے میں سلامتی فراہم نہ کی جائے تو یہ بد امنی بہت ہی خطرناک بد امنی ہے، مثال کے طور پر ، ہمارے جوانوں کو منکرات، فحشاء اور غیر اخلاقی امور کی طرف کھینچنے کے مقابلے میں امن و سلامتی فراہم نہ کی جائے ، یہ بھی ایک بہت بڑی بد امنی ہے، آپ کو حتمی طور پر اس بات کی اطلاع ہے اور ہمارے پاس بھی بعض رپورٹیں ہیں کہ بعض افراد اپنے مافوق مراکز کے حکم کے مطابق پیسہ خرچ کرکے جوانوں کو غیر اخلاقی ، فحشاء اور منکرات کے شبانہ مراکز کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں ! یہ بات اس سے الگ ہے کہ کوئی جوان کوئی غیر شرعی عمل انجام دے ؛ نہیں یہ جوانوں کو غیر اخلاقی اور فحشاء مراکز کی طرف کھینچنا بد امنی ہے؛ آپ کو اس بد امنی کا مقابلہ کرنا چاہیے؛ آپ کو اس بد امنی کا سد باب کرنا چاہیے فرض کیجئے گوناگوں حوادث اور حملوں کے لحاظ سے ہماری سڑکوں پر امن قائم ہوجائے لیکن ہمارے جوانوں کی سلامتی خطرے میں ہو جو انہیں وسوسہ کے ذریعہ ، مدرسے سے، پارک سے، یونیورسٹی سے فحشاء اور منکرات کی شبانہ محفلوں کی طرف کھینچ لے جائیں اور انھیں غلط باتوں سے آشنا کریں ، اور انھیں عزتوں پر حملہ کرنا سکھایا جائے؛ یہ وہ چیزيں ہیں جو سکیورٹی کے اہم مسائل میں شامل ہیں، یعنی اگر ہماری سکیورٹی ایسی ہو کہ یہ چیزیں اس میں لحاظ نہ ہوں تو یہ سکیورٹی اور امن و سلامتی نہیں ہےکیونکہ منشیات، منکرات، فحشاء اور چوری کی طرف افراد کو کھینچنا سکیورٹی کے بہت ہی اہم مسائل میں شامل ہیں۔

ایک اور مسئلہ بھی ہے جو میں نے سنا ہے کہ بعض اوقات بعض سڑکوں پر دولت اور ثروت کے نشے میں مست جوان مہنگی اور اونچے ماڈل کی گاڑیوں  پر سوار ہوتے ہیں  اور بلا وجہ بڑی سرعت کے ساتھ سڑکوں پر گاڑياں دوڑاتے ہیں اور سڑکوں پر بد امنی پھیلاتے ہیں دوسروں کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں یہ بھی بد امنی کا حصہ ہے، اس قسم کی بدامنی کے بارے میں بھی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اس پر کام کرنا چاہیے، یہ امن و سلامتی کے مختلف اور گوناگوں پہلو ہیں ۔

ایک اور اہم مسئلہ ہے اور میں نے جس کے بارے میں بارہا متوجہ کیا ہے اور وہ پولیس کے اقتدار کا مسئلہ ہے پولیس کی ذمہ داری امن و سلامتی کا قیام ہے ، پولیس اسلامی جمہوری حاکمیت کا مظہر ہے؛ یعنی یہ بات  اسلامی جمہوری نظام کے وظائف  میں شامل ہے کہ وہ معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام کو یقینی بنائے۔ اخلاقی سلامتی، سماجی سلامتی  ، جیسا کہ تشریح کی گئی یہ ہمارے وظائف کا حصہ ہے یہ اسلامی جمہوری نظام کے وظائف کا حصہ ہے؛ ہم ان چیزوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے ؛ پولیس اس امن و سلامتی کو میدان میں برقرار کرنے کا اصلی مظہر ہے ؛  لہذا پولیس کے پاس ، آپ کے پاس اقتدار ہونا چاہیے ؛ تاکہ آپ مقتدرانہ طور پر عمل کرسکیں اور اپنے وظائف کو انجام دے سکیں؛ تاکہ آپ فیصلہ کن طریقہ سےعمل کرسکیں  ؛ لکن اہم نکتہ یہ ہے کہ اقتدار کو ظلم کے ساتھ اشتباہ نہیں کرنا چاہیے ؛ اقتدارکو بغیر کسی حد و حدود اور  بے لگام حرکت کرنے کے ساتھ اشتباہ نہیں کرنا چاہیے ؛ مثال کے طور پر امریکہ میں پولیس بہت مقتدر ہے ، مضبوط پٹھوؤں والے افراد کو بھی کیمرے کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے کہ یہ پولیس کے عنوان سے میدان میں کام انجام دے رہے ہیں ؛ ہاں ، لیکن وہ بے گناہ افراد کو مارتے ہیں ، بے گناہ افراد کو قتل کرتے ہیں ؛ کسی کو اس عنوان سے قتل کرتے ہیں کہ مثلا اس کے پاس اسلحہ تھا ،پندرہ سولہ گولیاں چلا کر قتل کردیتے ہیں ، نابود کردیتے ہیں ؛ یہ اقتدار پسندیدہ اقتدار نہیں ہے؛ یہ اقتدار ظلم کے ہمراہ ہے؛ یہ ایسا اقتدار ہے جس کے ذریعہ سلامتی کا قیام عمل میں نہیں آسکتا ؛ بلکہ یہ عمل خود بدامنی کا باعث بنتا ہے، اس کے بعد عدالت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عدالت بھی ان کو آزاد کردیتی ہے یہ خبریں آپ سنتے ہیں، معنوی اقدار سے خالی دنیا میں اس قسم کے واقعات بہت زيادہ ہیں ؛ جنھیں آپ مشاہدہ کررہےہیں ، مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جہاں اس وقت صدر بھی سیاہ فام ہے اس کے باوجود سیاہ فاموں کے ساتھ ایسی رفتار روا رکھی جاتی ہے، اس مناسبت سے کہ ایک دن کسی شخص نے ،ایک صدر نے غلامی کو ختم کیا ہے ، اس موقع پر جشن مناتے ہیں جبکہ یہ بات بھی محل اشکال ہے ؛ اس پر بھی اعتراض وارد ہے ، یعنی ابراہم لنکن جس کے بارے میں کہتے ہیں اس نے غلامی کو ختم کیا ہے تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے والے اسے قبول نہیں کرتے ، مسئلہ کی حقیقت یہ نہیں ہے، مسئلہ غلامی ختم کرنے کا مسئلہ نہیں ہے ؛ مسئلہ شمال اور جنوب کا مسئلہ تھا  امریکہ کے شمال اور جنوب میں طولانی جنگیں تھیں اور صنعت اور زراعت کے درمیان جنگ تھی ،جھگڑا ان باتوں پر تھا ؛ بحث یہ نہیں تھی کہ بشر دوستانہ احساسات و جذبات کی بنا پر ایسا کیا گیا، لیکن اس حالت میں بھی سیاہ فاموں پر ظلم کیا جاتا ہے، ان کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے انھیں ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے ، اس کے بعد ان کی جان کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے پولیس میں اس قسم کا اقتدار اسلام کو پسند نہیں ہے ہمیں اس قسم کا اقتدار پولیس میں پسند نہیں ہے، نہیں ، ہم پولیس کو ہالی وڈ سنیما کی شکل و صورت میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے ہم چاہتے ہیں کہ کام حقیقی شکل و صورت میں انجام پذير ہونا چاہیے، پولیس کو فیصلہ کن اقدام کے ساتھ عدل و انصاف کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ، رحم و مروت کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے پولیس کو بعض جگہوں پر رحم و ہمدلی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے ؛ یہ اقادم مظہر اسلام ہے اللہ تعالی کی ذات بھی ایک طرف  رحمن اور رحیم ہے اور دوسری طرف عذاب الیم ہے یعنی ان دو باتوں کو باہم اور ایکدوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے اور یہ چیزہماری  زندگی کے تمام شعبوں میں، ہمارے تمام کاموں میں  جاری اور ساری رہنی چاہیے اور پولیس کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے ۔

ایک دوسرا مسئلہ جو میری نظر میں بہت مہم ہے اور وہ قانون پر توجہ اور قانون گرائی ہے قانون پر توجہ دو طرح سے ممکن ہے ، ایک عوام کے ساتھ رفتار میں ؛ یعنی آپ دیکھیں کہ کہاں قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے جہاں قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے وہاں آپ اس کا مقابلہ کریں ،دوسرا اپنے ادارے کے اندر قانون پر توجہ دیں  یعنی پولیس اہلکار کو ادارے کے اندر حقیقی معنی میں قانون پر عمل کرنا چاہیے ، قانون کی رعایت کرنی چاہیے ؛ پولیس ادارے کے اندر قوانین پر عمل سب سے زیادہ نمایاں رہنا چاہیے ، پولیس اہلکار کے صحیح و سالم ہونے کا مسئلہ بہت ہی اہم ہے، میں اس سلسلے میں پولیس کے سابقہ افسروں کو بھی ہمیشہ اس بات کی سفارش کرتا رہا ہوں ، اور پولیس کے موجودہ سربراہ اور افسروں کو بھی سفارش کرتا ہوں کہ وہ پولیس اہلکاروں کے صحیح و سالم ہونے کے مسئلہ کو بہت زيادہ اہمیت دیں ؛ پولیس ادارے کے اہلکاروں کے صحیح و سالم ہونے میں اور دوسرے اداروں کے اہلکاروں کے صحیح ہونے میں بہت بڑا فرق ہے، پولیس اہلکارعوام کے درمیان اور عوام پولیس کے ساتھ ہیں ،خدانخواستہ کوئی بھی قانون شکنی، بد عملی ، بد رفتاری سامنے آئے تو وہ فوری طور پر عوام کے درمیان پھیل جائے گي؛ باقی اداروں کا رابطہ عوام کے ساتھ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا زیادہ رابطہ پولیس کا عوام کے ساتھ ہے لہذا اگر خدانخواستہ کوئی غلطی ، اشتباہ ،خیانت، مشکل پیش آجائے تو وہ فوری طور پر عوام کے درمیان پھیل جائے گي جب یہ چیز عوام میں پھیل جائے گی تو اس وقت صرف پولیس ادارے کی عزت نہیں جائے گی جیسا کہ میں نے عرض کیا ؛پولیس اسلامی حاکمیت کا مظہر اور نمائندہ ہے ، پولیس عوام میں اسلامی نظام کا نمائندہ ہے تو اس صورت میں پورے نظام کی عزت و آبرو ختم ہوجائے گي۔ لہذا آپ کو پولیس اہلکاروں کے صحیح و سالم ہونے کے معاملے پر بہت زيادہ توجہ مبذول کرنی چاہیے۔تھانوں کے اندر ، سڑکوں پر، ہائی ویز پر ،ہر جگہ پولیس اہلکاروں پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے ؛ پولیس اہلکاروں کی اچھی رفتار اور سالم کردار پر توجہ رکھنی چاہیے اور حقیقت میں پولیس اسلامی نظام کو عزت و عظمت عطا کرسکتی ہے ، یعنی اگر ہم یہ فرض کریں کہ پانج یا دس ادارے اپنی ذمہ داریوں اور اپنے وظائف پر عمل نہ کریں لیکن پھے بھی ضروری اور لازم شرائط کی حامل پولیس  اور صحیح العمل پولیس عوام کی نظر میں اسلامی نظام کو آبرومند بنا سکتی ہے؛ آپ نظام کے لئے آبرو کا باعث بن سکتے ہیں اور خدانخواستہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے لہذا ان امور پر توجہ مبذول کرنی چاہیے جس میں ادارے کی حفاظت سب سے اہم ہے ادارے کے اندر اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور قدرتی طور پر اس کے اثرات باہر مرتب ہوں گے۔

خوب ، پولیس کے سربراہ کی رپورٹ  میں معنوی، اخلاقی ،دینی اور اعتقادی جہات اور بعض دیگر امور پر توجہ اور منصوبہ بندی کی گئی ہے؛ بہت اچھی بات ہے دنیا میں رونما ہونے والی جدید ترقیات ، کام کی پیشرفت  اور علم و ٹیکنالوجی پر بھی توجہ بہت اچھا اقدام ہے اس سے ادارے کو ارتقا ملے گا۔ اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کیجئے؛ کام کو اللہ تعالی کے لئے انجام دیجئے، کام کو صحیح اور درست انجام دیجئے؛ انشا اللہ ، خدا وند متعال بھی اس میں برکت عطا کرےگا اور انشاء اللہ آپ کے وجود کو بھی اسلامی جمہوری نظام کے لئے برکت کا باعث بنائے گا؛ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں، اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب اور کامراں فرمائے؛ تاکہ آپ ضروری کام انجام دے سکیں ، مختلف شعبوں میں بعض کام مشترک ہیں حکام کو آپس میں تعاون کرنا چاہیے اور انشاء اللہ تاکہ باہمی تعاون کے ساتھ آپ بڑے کام انجام دے سکیں۔

والسّلام‌علیکم‌ ورحمةالله ‌وبرکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)  یہ ملاقات پولیس افسروں اور اہلکاروں کے بیسویں سمینار کی مناسبت سے ہوئی جو 5 اور 6 اردیبہشت کو تہران میں منعقد ہوا ، رہبر معظم کے خطاب سے قبل پولیس کے ڈائریکٹر جنرل حسین اشتری نے رپورٹ پیش کی۔

2 ) جناب عبد الرضا رحمانی فضلی  ( وزیر داخلہ اور پولیس میں کل قوا کے جانشین )

3 ) کامل انسان

4 ) سورہ صف ،آیت نمبر 14  کا بعض حصہ