ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ایرانی فوج کے بعض اعلی کمانڈروں ، افسروں اوراہلکاروں سے خطاب

اسلامی جمہوریہ ایران کی آرمی ڈے کی مناسبت سے (1)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ تمام عزیز بھائیوں، بہنوں ؛ تمام محترم حاضرین بالخصوص اپنے عزیز شہداء کے اہلخانہ کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور انشاء اللہ گذشتہ کئی برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی عظیم اور گرانقدرکوششوں کے نتائج کا قابل فخر اور مایہ ناز تاج ہمیشہ اس مؤمن ، محنتی اور صبور ادارے کے سرپر باقی اور قائم و دائم  رہے۔تمام محترم حاضرین، اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام فوجیوں اور ان کے محترم اہلخانہ کو آرمی ڈے کی مناسبت سے بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آج یہاں پر آپ کےاجتماع پر بھی شکر و سپاس ادا کرتا ہوں ؛ اور اس ترانے کو پیش کرنے پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جس کے شعر بھی اچھے اور جس کو پیش کرنے کا انداز بھی بہترین اور متفاوت تھا۔

بیشک حضرت امام خمینی (رہ) کے ممتاز، نمایاں اور مفید اقدامات اور خلاقیت میں آرمی ڈے اور یوم فوج بھی شامل ہے(2) اگر ہم ایک نظر میں جائزہ لیں کہ ان ایام میں ایران اور انقلاب کے دشمنوں کے ذہن میں ملک کے مختلف اداروں اور شعبوں کے بارے میں جو ریشہ دوانیاں جاری تھیں ان کے پیش نظر ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن کو آرمی ڈے کے عنوان سے موسوم کرنا بہت بڑا اور نمایاں کام تھا، مفید کام تھا ضروی اور لازمی کام تھا ۔ آپ جوانوں میں سے بعض کو وہ دن یاد نہیں ہیں ، آپ میں سے بعض ان دنوں میں  پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؛ دشمن کی بڑی خطرناک ریشہ دوانیاں جاری تھیں حتی ایران کی فوج کو نابود کرنے کے لئے فوج کے اندر تلاش و کوشش کی جارہی تھی؛ اس کام کے لئے وہ منطق اور فلسفہ پیش کرتے تھے، خود فوج کے اندر ایسے عناصر موجود تھے جو مکتبی اور توحیدی فوج کے عنوان سے فوج کو نابود اور ختم کرنا چاہتے تھے؛ ایسی ریشہ دوانیاں موجود تھیں۔ لیکن حضرت امام خمینی (رہ) ان ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے مد مقابل کھڑے ہوگئے؛ حضرت امام خمینی (رہ) نے تشخیص دیدیا کہ فوج کو اپنی قوت اور قدرت کے ساتھ باقی رہنا چاہیے اسے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اوران عوامل کو دور کردینا چاہیے  جنھوں نے طاغوتی دور میں فوج کو عوام سے جدا کردیا تھا ؛ اور انھوں نے ان عوامل کو دور کردیا۔ اور فوج ایک انقلابی ادارے کے عنوان سے باقی رہی نہ صرف لفظی اور زبانی دعوے کی حد تک بلکہ تمام میدانوں میں عملی طور پر انقلابی ادارے کے عنوان سے باقی رہی ، میدان کے وسط میں باقی رہی اور اس نے اپنا نقش اور کردار ایفا کیا۔

ہم  پر مسلط کردہ  آٹھ سالہ جنگ سے قبل بھی کچھ حوادث موجود تھے، لیکن مختلف میدانوں میں آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تمام حقائق روشن ہوگئے اور ہم نےجنگ کے ایام میں جنگ کے میدان میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں اس جلسہ میں اور گذشتہ کئی جلسوں میں کئی بار تکرار کیا ہے۔سن 1359 ہجری شمسی میں جنگ کے اوائل میں قریب سے اور بعد میں جب میں صدر بن گیا تو مختلف رپورٹوں اور جلسات میں ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ فوج نے کیا کارنامہ انجام دیا، اس دن کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے؛ اس واقعہ کی حفاظت کرنی چاہیے اور 29 فروردین کے معنی کو درست سمجھنا چاہیے۔ انتیس فروردین یعنی ایرانی فوج ایران سے ، انقلاب سے اور ایرانی عوام متعلق ہے اور وہ عوام کے اہداف کی خدمت اور انقلاب اسلامی کے اہداف کی خدمت میں تیارکھڑی ہے؛ جیسا کہ ہمارے عزیز جوانوں نے ابھی ترانے میں پیش کیا؛ فوج انقلاب کے ساتھ کھڑی ہوگئی، 29 فروردین کے معنی یہ ہیں یہ بڑے کاموں میں سے ایک عظیم کام تھا جس کے آثار باقی ہیں؛ اس کے بعد بھی اس کے مزید آثار نمایاں ہوں گے ۔ اور انشاء اللہ اس فضا میں، اس ماحول میں اس سمت و سو میں آپ جوان رشد و فروغ حاصل کریں گے اور اسی سمت گامزن رہیں گے۔ اور انشاء اللہ آپ اپنے ملک کے لئے افتخار خلق کریں گے۔اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ایک اہم خصوصیت انقلابی اور دینی بصیرت ہے، دینی پابندی ہے دینی فرض شناسی اور تعہد ہےاور یہ بات بہت بڑي بات ہے۔ دینی فرض شناسی کا مطلب یہ ہے کہ فوج ان تمام قوانین اور ضوابط کی پابند ہے جنھیں اسلام نے مسلح افواج کے لئے اور ان کی فوجی سرگرمیوں کے لئے مقرراور معین کیا ہے۔دنیا کی فوجیں جب ایک میدان میں کامیابی کا احساس کرتی ہیں تو وہ میدان میں کسی روک اور ٹوک کے بغیر وارد ہوجاتی ہیں اور ایسے کام سرانجام دیتی ہیں جو شرم اور پشیمانی کا باعث ہوتے ہیں اور جن کے نمونوں کو ہم نے مختلف جگہوں پر مشاہدہ کیا ہےیہ اس وقت کی صورتحال ہے جب وہ کامیابی محسوس کرتی ہیں اور چھوٹے اور بڑے پر رحم نہیں کرتی ہیں ۔ جب وہ خطرہ محسوس کرتی ہیں تو پھر دوسرے طریقے استعمال کرتی ہیں اور ایسے اقدامات انجام دیتی ہیں جو اسلام کی نظر میں جرم ہیں اور آج بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی جرم ہیں۔البتہ منہ زور اور طاقتور حکومتیں نہ بین الاقوامی قوانین پر توجہ دیتی ہیں اور نہ ہی انسانی اصولوں پر ان کی توجہ ہوتی ہے۔وہ ممنوعہ ہتھیاروں سے استفادہ کرتی ہیں ، عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں ، جن جنگوں میں امریکہ براہ راست یا غیر مستقیم وارد ہوا ان جنگوں میں اس قسم کے سنگين جرائم بڑی تعداد میں رونما ہوئے، دنیا کی فوجوں کی یہ صورتحال ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج اور اسلامی جمہوریہ ایران سے وابستہ مسلح افواج  اسلامی اصولوں اور اسلامی قوانین کی پابند ہیں؛نہ وہ کامیابی کے موقع پر شرکشی اور طغیانی سے کام لیتی ہیں اور نہ خطرے کے موقع پر غلط اور ممنوعہ وسائل اور ہتھیاروں سے استفادہ کرتی ہیں۔ کئی عرصہ تک ہمارے سرحدی شہروں اور حتی بعد میں تہران اور اصفہان پر صدامی میزائلوں سے وحشیانہ اور سفاکانہ حملے کئے گئے، اسی تہران کے کئی محلوں میں میزائل گرے میزائلوں سے حملے کئے گئے وہی میزائل جنھیں یورپی ممالک نے صدام معدوم کو دے رکھا تھا، امریکہ انھیں نشانہ بتا تا تھا امریکی انھیں ہدایت کرتے تھے؛ فوجی مقاصد کے لئے ہوائی فوٹو دشمن کو دیئے جاتے تھے دشمن کے میزائل ہمارے شہروں پر گرتے تھے جس کے نتیجے میں ہمارے بے دفاع عوام شہید اور زخمی ہوجاتے تھے ؛ گھر تباہ و برباد اور ویران ہوجاتے تھے۔ ہم نے کچھ مدت کے بعد دشمن کے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرلی اور ہم نے بھی جوابی کارروائی کی صلاحیت حاصل کرلی ، ہم نے بھی میزائل حاصل کرلئے ، ہم بھی جوابی کارروائی کرسکتے تھے ہم بھی عراقی شہروں پر میزائل فائر کرسکتے تھے ہم بغداد پر میزائل داغ سکتے تھے ؛ حضرت امام خمینی (رہ) نے ہمیں کہا کہ اگر کسی غیر فوجی ٹھکانے پر حملہ کرنا چاہا تو پہلے ریڈیو کے ذریعہ حتمی طور پر اعلان کرنا چاہیے کہ ہم فلاں جگہ پر میزائل سے حملہ کریں گے تاکہ لوگ اس جگہ سے نکل جائیں ؛ آپ ملاحظہ کریں کہ دنیا میں اس قسم کے قیود اور ضوابط کا رواج نہیں ہے۔

دنیا کی مسلح افواج ، جہاں تک ہمیں معلوم ہے ان قیود اور ضوابط کی پابند نہیں ہیں تمام ممالک کی مسلح افواج کے بارے میں ہمیں کم و بیش معلوم ہے ؛ آج آپ اس کا ایک نمونہ یمن میں ملاحظہ کررہے ہیں؛ اس سے قبل آپ نے فلسطین میں اس کا مشاہدہ کیا؛ غزہ میں آپ نے دیکھا ؛ لبنان میں مشاہدہ کیا؛ دنیا کے دوسرے نقاط میں مشاہدہ کیا؛ وہ ان قوانین اور اصولوں کا لحاظ نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ایران کی مسلح فوج اسلامی قوانین کے تابع ہےوہ ان اصولوں کو مد نظر رکھتی ہے ہم نے اگر کہا ہے اور یقینی طور پر کہا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں سے استفادہ نہیں کرتے انہی اصولوں کی بنا پر ہم نے کہا ہےاسلامی اصولوں اور قوانین کی پابندی کی وجہ سے ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی یہ سب سے بڑي اور عظیم خصوصیت ہے۔

آج ہمارے دشمن ہم پر اس ملک میں اور اس ملک میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ یہ الزام حقیقت کے خلاف ہے؛ ایسی کوئی بات نہیں ہے؛ ہم کسی ملک میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ البتہ جہاں ہمیں حملے کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں ہم دفاع کرتے ہیں؛ مقتدارنہ دفاع کرتے ہیں لیکن ہم مداخلت نہیں کرتے ہیں، ہم ان لوگوں سے متنفر اور بیزار ہیں جو بے دفاع لوگوں پر حملہ کرتے ہیں، عام شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتے ہیں، بچوں کو ذبح کرتے ہیں ، عورتوں کو قتل کرتے ہیں، لوگوں کے گھروں کو ویران کرتے ہیں، ہم ایسے لوگوں سے متنفر اور بیزار ہیں ان سے برائت کا اعلان کرتے ہیں؛ وہ لوگ اسلام سے بے خبر ہیں ؛ وہ لوگ بے شعور ہیں اور جاہل ہیں۔ ہماری مسلح افواج کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ تمام مراحل میں اور تمام جگہوں پر اسلامی قوانین اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہے جنگ کی صورت ہو یا صلح کی صورت ہو دونوں صورتوں میں ایرانی فوج اسلامی قوانین کی پابند ہے۔ہماری مسلح افواج کی یہ ایک اہم خصوصیت ہےعوام کے اندر ہماری فوج ، ہماری سپاہ اور ہماری مسلح افواج کی محبوبیت کی ایک اصلی وجہ یہی ہے لوگ دیکھتے ہیں کہ فوج ان کی طرح فکر کرتی ہے، فوج عوام کی طرح عمل کرتی ہے، فوج کے عقائد عوام کے عقائد جیسے ہیں، فوج کی ہمدردی بھی انہی امور سے ہے جن سے عوام کو ہمدردی ہے؛ اس سے عوام اور مسلح افواج کے درمیان ارتباط میں اضآفہ ہوتا ہے، یہ ایک اہم خصوصیت ہے۔

ایک دوسری خصوصیت جس کی طرف ہماری مسلح افواج کی توجہ مبذول رہنی چاہیے، خوش قسمتی سے توجہ بھی ہے اور یہ بات مکمل طور پر آشکارا ہے، اور وہ اس آیہ شریفہ " وَ اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَ مِن رِباطِ الخَیلِ تُرهِبونَ بِه‌ عَدُوَّ اللهِ وَ عَدُوَّکُم " (۳) پر توجہ ہے اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ دشمن سے غافلگیر نہ ہوں؛ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر چنانچہ دشمن  تم پر حملہ کرے تو اس صورت میں تمہارے پاس ہتھیاروں کی ، جنگي وسائل اور جنگی ساز و سامان کی کمی نہیں ہونی چاہیے  آمادگی اور دفاعی تیاری میں کوئی خامی نہیں ہونی چاہیے تمہیں نقصان نہ اٹھانا پڑے ؛ کیونکہ آپ کا نقصان قوم کا نقصان ہےاور قوم کا نقصان اسلام کا نقصان ہےلہذا میں  عرض کرچکا ہوں کہ اس سلسلے میں ہماری مسلح افواج نے جو پیشرفت حاصل کی ہے وہ ملک کی سطح پر ایک ممتاز نمونہ ہے البتہ خوش قسمتی سے عالمی سطح پر ہمارے ملک نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں خاطر خواہ اور ممتاز اور نمایاں ترقی اور پیشرفت حاصل کی ہے اور پیشرفت کے مجموعی لحاظ سے فوجی وسائل میں بھی ہمارا ملک بہترین حالت اور ممتاز شرائط میں ہے حالیہ برسوں میں جتنا ہم کرسکتے تھے ملک کو فوجی وسائل کے لحاظ سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اقتصادی پابندیوں، وسائل کی کمی ، موجودہ شرائط اور عالمی دباؤ کے باوجود بہت ہی عظیم کام انجام پذير ہوا ہے بہت ہی نمایاں کام کیا ہے۔

خوش قسمتی سے مسلح افواج نے مختلف شعبوں میں  براہ راست منصوبہ بندی  یا سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے اداروں کی مدد سے بڑے اور  نمایاں کام انجام دینے میں کامیاب ہوگئی ہیں اور اس کام کو جاری رہنا چاہیے۔ جس بات پر میں تاکید کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ملک کے دفاعی شعبہ میں جاری ترقیات، رزمی آمادگی اور دفاعی سازو سامان کی تیاری کا سلسلہ جاری اور ساری رہنا چاہیے ؛ ہمارے دشمن ہماری ترقی اور پیشرفت کے خواہاں نہیں ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے کا ذریعہ یہی مسئلہ ہے ، میزائل سسٹم کا مسئلہ، ڈرون طیاروں کا مسئلہ، اور یہی فوجی وسائل جنھیں ہمارے جوانوں نے کسی کی مدد کے بغیر ملک کے اندر تیار کیا ہے، دشمن چاہتے ہیں یہ کام ملک کے اندر نہ ہو وہ اس فوجی پیشرفت کو متوقف کرنا چاہتے ہیں۔ اور صحیح و عقلائی منطق اور قرآن مجید کی آیہ شریفہ کی پشتپناہی ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم فوجی وسائل کی ساخت اور تیاری کے راستے پر گامزن رہیں ۔

مد مقابل فریق اپنی تمام تر پستی کے باوجود ہمیں فوجی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے؛ کچھ عرصہ تک خاموش رہا تھا ، لیکن کچھ دن قبل پھر اس نے دھمکی کے بارے میں اپنی زبان کھول دی ہے میز پر رکھے ہوئے آپشنز اور فوجی آپشنز کی بات کررہا ہے، خوب دشمن یہ شیخی اور لاف بھی مارتا ہے یہ غلط دھمکیاں بھی دیتا ہے اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو سلب کر دینا چاہیے۔ کیا ان کی یہ بات احمقانہ نہیں ہے؟ اگر وہ ہمیں اس طرح آشکارا دھمکی بھی نہ دیتے تب بھی قرآن مجید اس آیہ شریفہ " وَاَعِدُّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ و مِن رِباطِ الخَیل "،(۴)کے حکم کے مطابق  ہمیں اس سلسلے میں ہوشیاررہنا چاہیے ، حتی اگر وہ دھمکی بھی نہ دیتے تب بھی ہمیں آگاہ اور ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنی آمادگی اور تیاری کے سلسلے میں غفلت اور کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔؛ ہمیں اپنی آمادگيوں اور تیاریوں میں اضافہ کرنا چاہیے ؛ اب جبکہ وہ آشکارا اور صریح دھمکی بھی دے رہے ہیں  ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے؛ ایکطرف وہ  فوجی کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں  اور دوسری طرف ہمیں کہتے ہیں کہ ہم میزائل نہ بنائیں، وہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہم ایسا نہ کریں ویسا نہ کریں ، مسلسل عالمی سطح پر گمراہ کن پروپیگنڈے کے لئے احمقانہ باتیں کررہے ہیں  جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، نہیں ، اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت اور واضح کیا ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں مقتدارانہ  طور پرعمل  کرتا ہے؛ پوری قوم اہنی اور مضبوط و مستحکم  ہاتھوں کے ساتھ  دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں اور ہر حملہ آور کے حملے کو ناکام بنانے کے لئے تیار ہیں۔ ہماری قوم ملکی دفاع کے سلسلے میں منسجم اور متحد ہے  اور وہ اس سلسلے میں کسی دوسری چیز سے متاثر نہیں ہوتی ؛ یہ ایک نکتہ اور اسلامی جمہوریہ اپنی آمادگي اپنی تیاری اور اپنے دفاع کی ہمیشہ حفاظت کرےگی ، یہ رہا دوسرا نکتہ۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام ادارے، وزارت دفاع سے لیکر فوج و سپاہ اور دوسرے مختلف ادارے اسے ایک دستور العمل کے طور پر تصور کریں اور اپنی تیاریوں میں روز بروز اضافہ کریں؛ یہ تیاریاں ہتھیاروں کے سلسلے میں بھی اور  انتظامی امور کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں بھی  اور ایسی چیزوں میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بھی  اہم ہیں جن سے مسلح افواج کے جوش و ولولہ اور جذبہ میں اضافہ ہوتا ہے البتہ ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے ہماری فوج میں ، ہمارے جوانوں میں، ہمارے دلیر مردوں میں اس سلسلے میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے، وہی چیز جو انقلاب کا ہدف تھی ، وہی چیز جو 29 فروردین کا ہدف تھی  وہی چیز جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل کا ہدف تھی جنھیں حضرت امام خمینی (رہ) نے تدبیر کے ساتھ انجام دیا وہ محقق ہوگئی ہے؛ عظیم جذبات اور عظیم آمادگی اور تیاری ! ابھی بھی فوج کے وہ جوان جنھوں نے نہ انقلاب کو دیکھا اور نہ ہی حضرت امام خمینی (رہ) کو دیکھا ؛ نہ جنگ کے ایام کو درک کیا ، نہ ان کے پاس ان دنوں کے بارے میں کوئی یادداشت ہے وہ اس دور کے جوان ہیں وہ فوج کے اندر سے مجھے مختلف طریقوں سے پیغام دیتے ہیں کہ وہ فداکاری کے لئے آمادہ ہیں، ایئر فورسز کے پائلٹ کا پیغام ایک ہی قسم کا ہے بحریہ کے جوان کا پیغام ایک ہی قسم کا ہے بری فوج کے جوان کا پیغام ایک ہی طرح کا ہے ؛ وہ آمادہ ہیں، جس فوجی اور جس سپاہی کے اندر یہ جوش و جذبہ اور ولولہ ہوگا تو قطعی طور پر وہ تمام مشکلات ، امتحانات اور آزمائشوں میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھےگا؛ آپ کو اسی جذبے اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے لہذا بصیرت کی حفاظت ، صحیح سمت کی حفاظت ، لازمی آمادگی اعلی و اچھا جذبہ ہتھیاروں اور جنگی وسائل میں روز افزوں اضافہ اور رزمی تیاریاں  اساسی اور بنیادی امور میں شامل ہیں جن کا مسلح افواج کے اندر ہونا بہت ضروری ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کسی ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے؛ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے بھی کبھی خطرہ نہیں تھے ، اور ہم دور اور دراز کے ممالک کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں ہیں  اور اس بات دلیل ہماری بالکل نزدیک کی تاریخ بھی ہے کہ حتی جب ہمارے بعض ہمسایہ ممالک نے ہمارے ساتھ اایسی رفتار روا  رکھی جو ایک ہمسایہ ملک کے لئے سزاوار نہیں تھی ، ہم نے برداشت اور صبر سے کام لیا ، اسلامی جمہوریہ ایران نے کسی ملک پر چڑھائی نہیں کی  اور نہ کرےگی ۔ اب انھوں نے ایٹمی مسئلہ کا جعلی اور مصنوعی افسانہ درست کیا ہے ایٹمی ہتھیاروں کا مسئلہ امریکہ اور اس کے بعد یورپی ممالک اور بعض ان کے دوسرے حواریوں  نے بلند کیا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران حطرے کا باعث ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خطرے کا باعث خود امریکہ ہے آج  امریکی حکومت دنیا کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ امریکہ تمام انسانی ، اخلاقی اور بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ دوسرے ممالک میں مداخلت کرتا ہے امریکہ ایک بےلگام ملک ہے جو دیگر ممالک میں بحران اور کشیدگی پیدا کرتا ہے، امریکہ نے دنیا میں بد امنی پھیلا رکھی ہے۔ ہمارے علاقہ میں  اسرائیل بحران کا باعث ہے اور جو امریکہ کا زنجیری کتا ہے؛ یہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا میں بد امنی پھیلا رکھی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا میں امن کا خواہاں ہے بدامنی کا خواہاں نہیں ہے حتی وہ ہمسایہ ممالک کے امور میں بھی مداخلت نہیں کرتا ، حتی بعض ہمسایہ ممالک کی بری رفتار کو بھی صبر کے ساتھ برداشت کرلیتا ہے، بدامنی بے لگام طاقتوں کی جانب سے پھیلائی جار رہی ہے  جو تمام جگہوں پر تسلط جمانا چاہتی ہیں آج یمن میں دردناک اور افسوس ناک حوادث  رونما ہورہے ہیں اور امریکہ ظالم کی حمایت کررہا ہے، مغربی ممالک ظالم کی حمایت کرتے ہیں؛ بد امنی ان کی طرف سے پھیلائی جارہی ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے لئے اور دوسروں کے لئے امن و سلامتی کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت سمجھتا ہے اور اپنی سلامتی کی حفاظت کے لئے استقامت و پائداری کا مظاہرہ اور مقتدرانہ دفاع کرتا ہے ؛ اس بات پر مسلح افواج کے حکام کی توجہ ہمیشہ مبذول رہنی چاہیے، ملک کی سلامتی کی حفاظت ، سرحدوں کی سلامتی کی حفاظت ، عوام کی عمومی زندگی کی سلامتی کی حفاظت  ایسے امور ہیں جن کی ذمہ داری ان حکام کے دوش پر ہے جو اس سلسلے میں سرگرم اور فعال ہیں ۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلح افواج کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے اور انشاء اللہ آپ جوانوں کو اللہ تعالی اپنا نقش ایفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نقش صرف جنگ کرنا نہیں ہے ، آمادگی پیدا کرنا، پیشرفت اور ترقی حاصل کرنا، ذاتی اور شخصی اصلاح  کرنا اور اداری و انتظامی امور کی تعمیر جیسے امور بڑے کاموں کا حصہ ہیں؛ البتہ اگر کسی دن  جھڑپ اور جنگ ہوجائے تو میدان کارزار میں حاضر ہونا بھی آمادکیوں اور تیاریوں کا اہم حصہ ہے، امیدوار ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو تمام میدانوں میں توفیق عطا فرمائے۔

والسّلام‌عليکم‌ورحمةالله‌وبرکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: رہبر معظم کے خطاب سے قبل فوج کے سربراہ جنرل صالحی نے رپورٹ پیش کی۔

2: ر۔ک؛ صحیفہ امام (رہ) ج 7 ص 20 ؛ ایرانی قوم کے نام پیغام اور آرمی ڈے کا اعلان ( 1/26/ 1358)

3: سورہ انفال ، آیہ 60 کا بعض حصہ ، جتنا ممکن ہوسکے اپنے فوجی طاقت اور گھوڑوں میں اضافہ کریں ، تاکہ خدا کا دشمن اور خود تمہارا دشمن دیکھ کر ہراساں ہوجائے۔

4: بالا