ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مشہد مقدس میں نئےہجری شمسی سال 1394 کے پہلے دن عوام سے اہم خطاب

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

الحمد لله ربّ‌ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی اله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیة الله فی الارضین. اللّهمّ صلّ علی فاطمة بنت نبیک و زوجة ولیّک و امّ السبطین الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّة الطّهرة الطّاهرة المطهّرة التّقیّة النّقیّة الزّکیّة سیّدة نساء اهل الجنّة اجمعین. اللّهمّ صلّ علی ولیّک علیّ بن موسی عدد ما فی علمک صلاة دائمة بدوام ملکک و سلطانک. اللّهمّ سلّم علی ولیّک علیّ بن موسی عدد ما فی علمک سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک.

اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار پھر اور ایک سال اورہمیں یہ موقع عنایت فرمایا کہ ہم ایک بار پھر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں، زائرین و مجاورین حرم رضوی سے حضرت ابو الحسن علی ابن موسی الرضا علیہ الصلاۃ و السلام کی بارگاہ اور ان کے سائےمیں ملاقات کریں۔
ایران کےذہین مسلمانوں نے نوروز کی قدیم روایت کو اپنے عقیدے کے مطابق اور اپنی مرضی کے مطابق نئی شکل میں تبدیل کرلیا؛  نوروز کی ظاہری شکل و صورت کو باقی رکھا، لیکن اس کے متن اور مضمون کو بدل دیا۔ قدیم زمانے میں نوروز بادشاہوں کا نوروز ہوتا تھا؛ یہ سلاطین اور حکمرانوں کے لئے اقوام پر اپنی عظمت و شوکت کے اظہار کا موقع ہوا کرتا تھا۔ لوگوں سے ہدیے اور تحفے وصول کرنے کا موقع ہوتا تھا۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی جب نوروز اموی اور عباسی خلفاء کے دربار میں وارد ہوا تو قدیم ایرانی بادشاہوں اور سلاطین کے طور طریقے کے مطابق ان کے درباروں میں اسے منایا گیا۔ لیکن ایرانی مسلمانوں نے اس انداز کو، اس تہوار کے پیکر کو اپنے فائدے کے مطابق بدل دیا۔ اگرچہ یہ تبدیلی ایک دفعہ عمل میں نہیں آئی، لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ عظمت و عزت کے سرچشمہ یعنی اللہ تعالی کی ذات سے بندوں کے رابطے اور انس کا یہ ایک ذریعہ و وسیلہ بن گیا ہے۔ ایرانی نوروز میں آج اس تہوار کی حقیقت ایک عوامی حقیقت ہے۔ نوروز کے موقع پر لوگ ایک دوسرے سے محبت و مہربانی سے پیش آتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارک باد اور تہنیت پیش کرتے ہیں، تحفے دیتے ہیں۔ آج صدیاں گزر جانے کے بعد نوروز میں وہ شاہانہ تقریبات اور روایتی انداز اور رسومات ختم ہو چکی ہیں۔ نوروز کے ایام میں اور 'تحویل سال' کے موقع پر ہمارے وسیع و عریض ملک میں سب سے زیادہ ازدہام کے مراکز آئمہ علیہم السلام اور ان کی اولادوں کے مزارات ہوتے ہیں۔ گزشتہ شب، آدھی رات کے وقت، اس مقدس بارگاہ میں لاکھوں مؤمنین اپنے پاکیزہ قلوب کے ساتھ عظمت و قدرت کے مرکز کی جانب متوجہ ہوئے اور اپنے خالق حقیقی سے راز و نیاز میں مصروف اور مشغول رہے ۔ حالات کو تبدیل کر دینے والے خالق سے اپنے لئے بہترین حالت کی التجا کی اور دینی اعمال بجا لائے۔ لہذا جو نوروز آج ہم مناتے ہیں، وہ قدیمی اور روایتی نوروز نہیں ہے، ایرانی نوروز ہے، ایران کی مسلمان قوم کا نوروز ہے جس نے اس قدیمی تہوار کو اپنے لئے اور اپنے اعلی اہداف و مقاصد کی جانب گامزن رہنے کے لئے ایک سرمائے میں تبدیل کر لیا ہے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ایران کی عزیز قوم کی نصرت و مدد فرمائے کہ وہ تمام مسائل میں اور تمام مواقع پر اپنی اس ذہانت سے بھر پور استفادہ کر سکے۔ اس سال نوروز کے ایام جو عالم اسلام کی عظیم خاتون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کے موقع پر آئے ہیں تو نوروز کے مراسم میں کسی بھی صورت میں اس عظیم ہستی کے اسم مبارک، عزت و تکریم اور آپ کے ذکر کے منافی کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ یقینا ایسا ہی ہوگا اور کوئی منافی اقدام انجام پذیر نہیں ہوگا۔ میں نے چند باتیں مد نظر رکھی ہیں جو اس عظیم اجتماع میں تشریف فرما آپ محترم بھائیوں اور بہنون اورتمام ایرانی قوم کی خدمت میں عرض کروں گا۔
بحث کا آغاز ایک قرآنی نکتہ سے کرتا ہوں، اللہ تعالی نے جن لوگوں کی نصرت کا وعدہ کیا ہے ان کے لئے کچھ شرطیں مقرر کی ہیں۔: وَ اِنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لَقَدیر (
۱) اَلَّذینَ اِن مَکَّنّاهُم فِی الاَرضِ اَقامُوا الصَلوةَ وَ ءاتَوُا الزَّکوة وَ اَمَروا بِالمَعروفِ وَ نَهَوا عَنِ المُنکَرِ وَ لِلّهِ عاقِبةُ الاُمور (۲) خداوند عالم نے اس آیہ شریفہ میں چار اوصاف ان مؤمنین کے سلسلے میں بیان کئے ہیں جن کے اختیار میں قدرت قرار پاتی ہےاور جو ظالم و جائر طاقتوں کے تسلط سے نجات حاصل کرتے ہیں، چار اوصاف میر کئے ہیں اوروعدہ فرمایا ہے: «اِنَّ اللهَ عَلی نَصرِهِم لَقَدیر» اللہ تعالی ایسی قوم کی مدد کرنے پر قادر ہے اور یقینا مدد فرمائے گا۔ ان چار صفتوں اور شرطوں میں سے ایک نماز ہے، ایک شرط زکات ہے، ایک امر بالمعروف ہے اور ایک نھی عن المنکر ہے۔ ان چار خصوصیات اور چار معیاروں میں سے ہر ایک کے اندر انفرادی و ذاتی پہلو بھی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان میں سماجی اور معاشرتی پہلو بھی ہے، جس کا سماجی نظام کی تشکیل میں گہرا اثر ہے۔ حقیقت نماز کے اندر بےشمار اسرار پوشیدہ ہیں ، وہ ہر مومن کی معراج ہے؛ «قُربانُ کُلِّ تَقی»(۳) ہے۔ کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے، تمام اعمال سے برتر اور افضل ہے، اس کے ساتھ ہی نماز میں سماجی اور معاشرتی پہلو بھی پوشیدہ ہے۔ نماز کا سماجی پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر فرد، نماز کے ذریعے ایک مرکز واحد سے متصل ہوتی ہے۔ نماز کے وقت آن واحد میں، اس وسیع و عریض دنیائے اسلام میں ہر جگہ پر تمام مسلمین اپنے قلوب کو مرکز واحد سے متصل کر لیتے ہیں۔ مرکز واحد سے تمام دلوں کا اتصال، ایک سماجی ، معاشرتی و اجتماعی معاملہ ہے، یہ نظام  کی تشکیل سے متعلق پہلو ہے، یہ اسلامی نظام کے خدوخال اور ڈھانچے کی تشکیل دینے والا عمل ہے۔
زکات جو انفرادی اور ذاتی  پہلو کی حامل ہے، جو انسان کو دوسرے افراد کے لئے اپنی پسندیدہ چیزیں قربان کر دینے اور ایثار کا درس دیتی ہے ، جو اپنی جگہ پر بڑا اہم تجربہ اورامتحان بھی ہے، اسی زکات کے اندر ایک سماجی پہلو کی بھی ترجمانی موجود ہے۔ قرآنی آیات میں زکات کا لفظ ہر طرح کے 'انفاق' کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اصطلاح میں جسے زکات کہتے ہیں اس کے لئے بھی جیسے؛ «خُذ مِن اَموالِهِم صَدَقَةً» (
۴) میں اس کی جانب اشارہ ہے۔ زکات کے معنی انفاق کرنے کے ہیں ۔ تاہم زکات کا سماجی پہلو، نظام کی تشکیل میں مددگار سماجی پہلو یہ ہے کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی ماحول  میں جس انسان کے پاس مال دنیا ہے، وہ اپنا فرض سمجھتا ہے، اپنے دوش پر ذمہ داری کا احساس کرتا ہے، خود کو اسلامی معاشرے کا مقروض سمجھتا ہے، فقرا اور کمزور طبقات کے بارے میں بھی اور راہ خدا میں انجام پانے والے عمل کے بارے میں بھی خود کو مقروض سمجھتا ہے۔ اس زاویہ سے زکات نظام کی تشکیل دینے والا حکم ہے۔
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جو ایک طرح سے اسلام کی تمام سماجی و معاشرتی  سرگرمیوں کی بنیاد ہے؛ «بِها تُقامُ الفَرائِض» (
۵) امر بالمعروف یعنی مومنین جو دنیا میں کہیں بھی قیام پذیر ہوں، اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ معاشرے کو نیکی، اچھائی اور بھلائی کی جانب لے جائيں۔ نہی عن المنکر یعنی سب کو برائیوں سے اور برےاعمال سے باز رکھنے کی کوشش کریں۔ ان چار شرطوں اور اوصاف میں سے ہر ایک شرط و  وصف  اسلامی نظام کی تشکیل اور ڈھانچے کا ترجمان ہے۔
ضمنی طور پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکراہم معنی کو 'نصاب' سے کم اہمیت والے امور تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔ بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا انحصار اس پر ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کو یا کسی مرد کو جو فروعات دین میں سے کسی ایک کی پابندی نہیں کرتا، اسے حکم دے،یا منع کرے، روکے ، ٹوکے۔ بیشک یہ امر بالمروف اور نھی عن المنکر ہے، لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے ترجیحی موضوع نہیں ہے۔ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر میں سب سے اہم ترجیح یہ ہے کہ سب سے بڑی نیکی کا حکم دیا جائے اور سب سے بڑی برائی سے روکا جائے۔ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اسلامی نظام تشکیل دیا جائے اور پھر اس نظام کی حفاظت کی جائے۔ یہ ہے امر بالمعروف۔ اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلامی نظام کی حفاظت سے بڑی کوئی اور نیکی نہیں ہے۔ اس راہ میں جو جدوجہد کرے، وہ امر بالمعروف پر عمل پیرا ہے۔ ایرانی قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت سب سے بڑی نیکی ہے۔ بڑے 'معروف' یہ ہیں: ثقافت کا ارتقاء، اخلاقیاتی ماحول کی سلامتی، خاندانی ماحول کی سلامتی، نسل میں اضافہ اور ملک کو بلندیوں پر لے جانے کی آمادگی رکھنے والی نوجوان نسل کی تربیت، معیشت اور پیداوار کی رونق میں اضافہ، اسلامی اخلاقیات کی وسیع پیمانے پر ترویج، سائنس و ٹکنالوجی کی ترویج، اقتصادی و عدالتی انصاف کا قیام، ایرانی قوم اور اس سے آگے بڑھ کر امت مسلمہ کی قوت و طاقت بڑھانے کے لئے جدوجہد، اتحاد بین المسلمین کے لئے سعی و کوشش، یہ اہم ترین معروف اور نیکیاں ہیں اور سب کی ذمہ داری ہے کہ ان نیکیوں کی راہ میں جد و جہد کریں، حکم دیں۔ ان کے مد مقابل اور ان کے مخالف جو چیزیں ہیں وہ منکرات ہیں۔ اخلاقی پستی و انحطاط منکر ہے، دشمنان اسلام کی مدد منکر ہے، اسلامی نظام کو کمزور کرنا منکر ہے، اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچانا منکر ہے، معاشرے کی معیشت کو کمزور کرنا منکر ہے، سائنس و ٹکنالوجی کو نقصان پہنچانا منکر ہے، ان منکرات سے روکنا چاہیے۔ امر بالمعروف کرنے والی سب سے پہلی ہستی خود اللہ تعالی کی  ذات اقدس ہے جو فرماتا ہے؛ اِنَّ اللهَ یَأمُرُ بِالعَدلِ وَ الاِحسانِ وَ ایتآئِ ذِی‌القُربی وَ یَنهی عَنِ الفَحشآءِ وَ المُنکَرِ وَ البَغی (
۶) اللہ تعالی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والا ہے۔ نیک کام بھی واضح ہیں اور منکرات بھی نمایاں ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات گرامی، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والوں میں سب سے افضل ہے۔ قرآن مجید کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے«یَأمُرُهُم بِالمَعروفِ وَ ینهاهُم عَنِ المُنکَر» (۷) ائمہ علیہم السلام امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والی عظیم ہستیاں ہیں۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: اَشهَدُ اَنَّکَ قَد اَقَمتَ الصَّلاةَ وَ آتَیتَ الزَّکاةَ وَ اَمَرتَ بِالمَعروفِ وَ نَهَیتَ عَنِ المُنکَر (۸) مؤمنین دنیائے اسلام میں جہاں کہیں بھی آباد ہوں، وہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے والے ہیں: وَ المُؤمِنونَ وَ المُؤمِناتُ بَعضُهُم اَولیآءُ بَعضٍ یَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَ یَنهَونَ عَنِ المُنکَرِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ یَؤتونَ الزَّکوة (۹) یہ نظام کی تشکیل کے چار بنیادی ستون ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی کچھ اہم شاخیں ہیں۔ اسلامی نظام، نماز قائم کرنے، زکات دینے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنے پر استوار ہے۔ یعنی اسلامی نظام میں لوگوں کے درمیان سماجی، معاشرتی اور قلبی لگاؤ اوردلی یکجہتی اور انسجام ہوتا ہے۔
میں اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی اس بحث سے اس سال کے نعرے کے لئے ایک نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں ، جس کا ذکر میں نے گزشتہ رات، نصف شب کی اپنی گفتگو میں کیا۔ ہمارے معاشرے میں، ہمارے اس وسیع و عریض ملک میں اسلام تمام لوگوں کو یکجہتی ، اتحاد، باہمی تعاون اور ایک دوسرے کا مددگار اور ممد و معاون بننے کی دعوت دیتا ہے چاہےان کا تعلق کسی بھی سماجی طبقے سے ہو، کسی بھی سماجی رجحان سے ہو، ہم سب کو اسلام امداد باہمی کا درس دیتا ہے اسلامی نظام میں حکومت کو عوامی پشت پناہی حاصل ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ افراد بھی جنہوں نے حکومت میں موجود کسی خاص شخص کو ووٹ نہیں دیا ہے، حمایت و پشت پناہی کریں۔ ہماری اسلامی مملکت میں سماجی وقومی  یکجہتی کا واقعی اور حقیقی مفہوم یہی ہے۔ سب بر سر اقتدار حکومت کے ساتھ جو کاموں کی انجام دہی اور خدمات میں مصروف ہے یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کریں، اس کی مدد کریں، خصوصا ایسے مواقع پر  اسے بڑے مسائل در پیش ہوں، اس سلسلے میں بھی مجھے کچھ باتیں عرض کرنی ہیں۔
آج قوم کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے حکام کی حمایت کرے اور حکومتی عہدیداروں کی مدد کرے۔ یہ صرف موجودہ حکومت کی بات نہیں ہے، تمام حکومتوں کے سلسلے میں یہی ہونا چاہیے۔ آئندہ بھی جو حکومتیں تشکیل پائیں گی ان کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال ہونی چاہیے۔ کیونکہ پہلی بات یہ ہے کہ تمام حکومتوں کی سب سے کلیدی اور اساسی فکر عوام کی مشکلات کا ازالہ ہوتا ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ الگ الگ حکومتوں کے پاس الگ الگ توانائیاں اور صلاحیتیں ہوں ، سب ایک ہی سطح کی نہ ہوں۔ ممکن ہے کہ ہر حکومت کا اپنا انداز اور طرز فکرالگ ہو، لیکن نصب العین تمام حکومتوں کا یہی ہے کہ اپنے دور میں حتی المقدور ملک کی مشکلات کو حل کریں۔ آئین کے دائرے میں جو حکومت بھی تشکیل پائے وہ قانونی حکومت ہے، اس کی قانونی حیثیت ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کس صدر کو کتنی اکثریت میں عوام نے ووٹ دیا ہے۔ ووٹوں کی اکثریت میں کمی یا زیادتی کا تعلق مقبولیت سے ہوتا ہے، حکومت کی قانونی و آئینی حیثیت سے نہیں۔ آئین کے دائرے میں عوامی ووٹوں کی جس اکثریت سے بھی کوئی فرد منتخب ہو، اس کی قانونی حیثیت ہے، حکومت قانونی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ اسے قانونی حکومت سمجھیں اور جہاں تک ممکن ہے اس کی مدد کریں۔ البتہ حقوق دو طرفہ ہوتے ہیں۔
البتہ ہر حکومت کے کچھ ناقدین ہوتے ہیں، چنانچہ موجودہ حکومت پر بھی کچھ تنقید کرنے والے افراد موجود ہیں۔ گزشتہ حکومتوں میں بھی ہر ایک کے کچھ ناقدین رہے ہیں۔ یہاں تک تو اس مسئلے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو موجودہ طریقہ کار سے اتفاق نہیں رکھتے، اسے صحیح نہیں مانتے، اس حکومت کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، اس کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ ناقدین ہیں اور تنقید کرتے ہیں۔ اس میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن تنقید عقل و منطق کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ مختلف حکومتوں پر میری بھی تنقید رہی ہے اور میں نے ہمیشہ آگاہ اور متنبہ بھی کیا ہے۔ جب بھی کسی مسئلے میں کوئی خامی اور عیب مجھے نظر آیا کوئی چیز قابل تنقید دکھائی دی تو میں نے آگاہ اور متنبہ کرنے میں کبھی پس و پیش نہیں کیا۔ لیکن میں نے انتباہ مناسب صورت میں، مناسب موقع و محل پر اور مناسب انداز میں دیا ہے۔ کبھی پیغام بھجوایا اور کبھی سامنے کہا، کچھ مسائل کو اصرار کے ساتھ اٹھایا۔ متنبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ یہ انتباہ اس انداز میں ہونا چاہیے کہ جو لوگ مصروف عمل ہیں ، جو افراد خدمات انجام دے رہے ہیں ان سے عوام کا اعتماد سلب نہ ہو۔ انتباہ اس انداز سے دیا جائے کہ عام سطح پر بے اعتمادی کا سبب نہ بنے، اس میں توہین کا پہلو نہ ہو، خشم اور غصہ میں نہ ہو۔ حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کو سب اسلامی اخوت کے تناظر میں دیکھیں اور اسی معیار کے مطابق عمل کریں۔
البتہ یہ چیز دو طرفہ ہوتی ہے۔ میں عوام کو بھی سفارش کروں گا کہ حکومت سے ہمدردانہ انداز میں، تعاون اور ہمدلی کے جذبے کے ساتھ اپنی بات کہیں اور ملک کے حکام کو تینوں قوا (مجریہ، عدلیہ، مقننہ) میں، میری یہ تاکید ہے کہ وہ اپنے ناقدین سے، اپنے اوپر تنقید کرنے والوں سے شائستہ انداز میں پیش آئیں۔ ان کی تحقیر نہ کریں، ان کی توہین نہ کریں۔ عہدیداران کی طرف سے ناقدین کی توہین حکمت و تدبیر کے خلاف ہے۔ میں اپنے عزیز عوام کو عدم توجہ اور لا تعلقی کی دعوت نہیں دے سکتا، میں عوام سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ نگرانی نہ کریں۔ بلکہ میں انہیں ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں پوری توجہ رکھنے کی دعوت دیتا ہوں۔ لیکن میں تاکید کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ حکام کے سلسلے میں عوام کا سلوک اور ناقدین کے بارے میں حکام کا رویہ ہرگز تخریبی نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی تحقیر نہ ہو، کسی طرح کی توہین کا پہلو نہ ہو۔ ممکن ہے کہ کسی مسئلے میں کچھ لوگوں کو تشویش ہو۔ فکرمند ہونا تو جرم نہیں ہے! تشویش میں مبتلا ہونا تو گناہ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو ملک کے کسی حساس اور اہم مسئلے کے بارے میں حقیقت میں اضطراب اور تشویش ہو۔ اس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ تشویش دوسروں پر الزام عائد کرنے اور ان کی خدمات اور زحمتوں کو نظر انداز کرنے کا سبب نہ بنے، دوسری جانب حکومت اور حکومت کے طرفدار فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرنے والوں کی توہین نہ کریں،  میں یہ بات اپنے عزیز عوام کی خدمت میں وضاحت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں اور پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں نے اقتدار میں رہنے والی تمام حکومتوں کی ہمیشہ حمایت کی۔ موجودہ حکومت کی بھی حمایت کرتا ہوں۔ اگر ضرورت ہو تو انتباہ بھی دیتا ہوں، البتہ میں نے بلینک چیک کسی کو نہیں دیا ہے۔ میں کارکردگی کا جائزہ لیتا ہوں اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ اللہ تعالی کی توفیق سے، اس کی مدد و نصرت سے آئندہ بھی کارکردگی کے مد نظر عمل کروں گا۔ یہ تو نئے سال کے نعرے کے سلسلے میں اور حکومت اور عوام کے درمیان ہمدلی و ہم زبانی کے حوالے سے پہلی بات ہے؛  جو میں نے عرض کی۔ ہمدلی کا مظاہرہ کریں، ایک آواز ہو جائيں، تعاون کریں، مشکلات دور کرنےکے لئے ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملا کر آگے بڑھیں۔
میں نے عرض کیا کہ اس بات کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بڑے مواقع موجود ہوں اور انسان کو بڑے مسائل پیش آنے کی توقع  اور انتظارہو۔ اس وقت وہی ایام ہیں۔ آج ہمارے پاس بہت بڑے مواقع بھی موجود ہیں اور بڑے چیلنج بھی در پیش ہیں۔ ہمیں ان مسائل سے نمٹنا ہے اور ان مواقع کی مدد سے ان مسائل پر اللہ تعالی کے فضل سےقابو بھی پانا ہے۔ بہت سے مواقع ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ انہیں میں سے ایک ملک کے اندر مؤثر، کارآمد اور مہارت رکھنے والی افرادی قوت ہے۔ بحمد اللہ کارآمد اورمؤثر  نوجوانوں کی اکثریت ملک میں موجود ہے، جو جوش و جذبے اور خلاقانہ صلاحیتوں سے سرشار ہے۔
ہمارے پاس موجود اہم مواقع میں اسلامی نظام، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور اسلامی نظام کے اعلی اہداف  کے ساتھ  عوام اور نوجوانوں کی ہمراہی اور وابستگی ہے۔ میں آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ یوم قدس کی ریلیوں کو مشاہدہ کریں ، بائیس بہمن ( مطابق 11 فروری اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کی ریلیوں کو ملاحظہ کریں، ان میں بنیادی طور پر نوجوان نظر آئیں گے۔ یہ نوجوان وہی ہیں جن پر شب و روز آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی مسلسل تباہ کن بمباری ہوتی رہتی ہے۔ دنیا میں، سائبر دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ آڈیو اور ویڈیو ذرائع ابلاغ کی سطح پر سیکڑوں ذرائع ابلاغ بلکہ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو ہزاروں ذرائع ابلاغ، ہمارے نوجوانوں کی فکر و نظر کو تہہ و بالا کر دینے کے لئے بمباری میں مصروف ہیں۔ ان میں بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو دین سے منحرف کر دیں، ان میں بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی نظام سے بیزار کر دیں، کچھ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اختلافات پیدا کرنے کے لئے برانگیختہ کریں، بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے شوم اور خبیثانہ اہداف کے لئے استعمال کریں، بعض کی کوشش ہے کہ ان میں لاابالی پن اور بے مقصد زندگی گزارنے کے رجحان کی ترویج کریں، یہ بمباری پیہم اور دائمی طور پر ہمارے نوجوانوں پر انہیں آدیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ ذرائع ابلاغ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود آپ دیکھتے ہیں کہ ملک بھر میں یہی نوجوان کروڑوں کی تعداد میں 11 فروری کو باہر آتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہیں، حضرت امام (رہ) سے، اسلام سے اور اسلامی نظام سے اپنی عقیدت ،محبت اور الفت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔
اہم فرصتوں اور مواقع میں سے ایک فرصت اقتصادی پابندیوں کے دور میں سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں حاصل ہونے والی ترقی اور پیشرفت ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عالمی و بین الاقوامی طاقتیں اور حکومتیں سرمائے اور پیسے سے کسی قوم کی مدد کرتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی قوم پر سارے دروازے بند کر دیتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ قوم مختلف شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتی ہے۔ آج آپ جن کامیابیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں انہیں کم نہ سمجھئے؛ یہی جنوبی پارس کا بارہواں فیز جس کا چند روز قبل صدر محترم کے ہاتھوں افتتاح ہوا، بہت بڑا اور انتہائي پیچیدہ صنعتی پروجیکٹ ہے، جو ملک کے اقتصادی رشد و نمو میں اور ملک کی عمومی تلاش وکوشش کے ثمرات میں نمایاں طور پر اضافہ کر سکتا ہے۔ اس طرح کے متعدد نمونے ہمارے پاس موجود ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ مسلح فورسز کی مشقوں میں ایسے سسٹم اور ساز و سامان نظر آئے جنہیں دیکھ کر دشمن حیرت زدہ ہیں۔ زبان سے اپنی حیرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم اس تعجب کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں بہت تعجب ہے۔ یہ سب کچھ پابندیوں کے دور میں انجام پایا ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے، یہ بہت اہم خصوصیت اور بہت ہی سنہری اور حسین موقع ہے۔ پابندیوں کے ان برسوں میں یعنی 2010، 2011، 2012 اور 2013 میں لگائی گئی پابندیاں ان کے خیال میں کمر شکن پابندیاں تھیں جو ہمارے ملک پر عائد کی گئیں۔ ان حالات میں ہمارے نوجوانوں نے اور ہمارے ماہرین اور دانشوروں نے یہ کارنامے انجام دیئے ہیں۔ یہ ملک کے پاس بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس طرح یہ پابندیاں بھی مواقع میں تبدیل ہو گئیں۔ میں بعد میں اس کے بارے میں اشارہ کروں گا کہ یہ پابندیاں کس طرح ایک لحاظ سے ایرانی قوم کے لئے اہم موقع ثابت ہوئیں۔ بیشک ان پابندیوں کی وجہ سے کچھ  مشکلات اور مسائل  پیدا ہوئے ہیں، لیکن یہ پابندیاں ان میدانوں میں جن کا میں نے ذکر کیا مواقع میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔ البتہ کچھ مسائل بھی ہیں، آج میں ان مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس وقت سب سے بڑا اور سب سے فوری مسئلہ قومی معیشت کا مسئلہ ہے، ہمارے عوام کی بجا توقع یہ ہے کہ رشد و نمو کے مراحل طے کرنے والی معیشت کے مالک ہوں، رفاہ عامہ کے وسائل موجود ہوں، کمزور طبقہ اس حالت سے باہر آئے جو قابل قبول نہیں ہے، مشکلات سے اسے نجات ملے۔ یہ ہمارے عوام کی توقعات ہیں اور یہ توقعات بالکل بجا ہیں۔ ملکی معیشت کو موثر انداز میں متحرک کرنے اور ایک بڑا کام انجام دینے کی ضرورت ہے جس کی بعض خصوصیات پر میں گفتگو کروں گا۔ البتہ میں کئی سال سے معیشت اور  اقتصاد کے موضوع پر گفتگو کررہا ہوں۔ میں نے چند سال قبل اسی تقریر میں پیشین گوئی کی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے دشمنوں کی پوری توجہ ہماری معیشت پر مرکوز ہونے والی ہے (10)۔ حکام کو اس بارے میں متوجہ رہنا چاہیے اور ملکی معیشت کو نشانہ بنانے والے دشمنوں کی معاندانہ پالیسیوں اور مخاصمانہ اقدامات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہیے، کمر ہمت باندھ لینی چاہیے، میں اقتصاد اور معیشت کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
اس وقت عدالت و پیشرفت کی دہائی کا نصف سے زیادہ حصہ گزر چکا ہے۔ ہم نے ایک دہائی کوعدالت و پیشرفت کی دہائی قرار دیا۔ ہم نے بیس سالہ منصوبہ معین کیا تھا اور اس کے لئے پالیسیاں تیار کی تھیں، اس مدت کا آدھا حصہ گزر چکا ہے، دس سال بیت چکے ہیں، باقی دس سال اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بڑے اہم مسائل ہیں، ان حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو اقتصادی مسائل کی حساسیت و اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ہمارے دشمن کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ اقتصادی دباؤ کے پیچھے ان کے سیاسی اہداف کارفرما ہیں۔ ان کا ہدف یہ ہے کہ ایران کے عوام کو اسلامی نظام کے خلاف کھڑا کر دیں (11)۔ آپ توجہ فرمائيں، ہاں بالکل "امریکہ مردہ باد" کہنا چاہیے کیونکہ امریکہ ہی اس دباؤ کا اصلی محرک اور سبب ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ ہمارے عزیز عوام کی معیشت کو حملوں کی آماجگاہ بنائیں۔ ان کا مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ عوام کو نظام کے خلاف کھڑا کریں۔ صریحی طور پر وہ کہتے بھی ہیں کہ ہم اقتصادی دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ عوام کی زندگی سخت ہو جائے اور لوگ حکومت کے خلاف اور اسلامی نظام کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور ہو جائيں۔ آشکارا طور پر یہ بات کہتے ہیں، البتہ اس کے ساتھ ہی جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایرانی عوام کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔ اس جھوٹ پر یقین نہیں کیا جا سکتا، دشمن کی باتوں کا ویسے بھی یقین نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال ان کا ہدف وہی سیاسی ہدف ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ امن و سلامتی جو ہمارے ملک میں اس وقت ہے اور جو مغربی ایشیا کے علاقے میں بے مثال ہے جہاں ہمارا ملک واقع ہے، بحمد اللہ ایسا امن آج نہ ہمارے مشرق میں ہے، نہ مغرب میں ہے، نہ شمال میں ہے اور نہ جنوب میں ہے، جو امن و سلامتی ہمارے ملک کے اندر موجود ہے وہ کسی بھی ملک میں نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو استعمال کرکے اس امن و سلامتی کو تباہ کردیں، عوام کو اکسا رہے ہیں کہ امن و سلامتی کا یہ ماحول درہم برہم ہو جائے، ملک بھر میں احتجاجی اقدامات شروع ہو جائیں، اشتعال دلا رہے ہیں، اس کے لئے باقاعدہ کام کر رہے ہیں، منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بڑے کر و فرکے ساتھ  وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ خاص طرح کی صورت حال ہے، یہ ایک چیلنج ہے۔ جب اس طرح کا مسئلہ ہمیں در پیش ہے تو ملک کی تمام فورسز کو شانہ بشانہ ہوکر کھڑے ہو جانا چاہیے، مل کر کام کرنا چاہیے، ملک کے اقتصادی اور معاشی مسئلے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔
میں معیشت اور اقتصاد کے مسئلے میں چند نکات بیان کروں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ آج امریکہ کی معاندانہ پالیسیوں کی وجہ سے اقتصادی میدان، جنگ کا میدان بن گیا ہے، کارزارکا میدان بن گیا ہے، یہ مخصوص طرح کی جنگ کا میدان ہے۔ اس میدان کارزار میں ہر شخص ملک کے مفادات کے مطابق جدوجہد کر سکتا ہے، خدمات انجام دے سکتا ہے۔ آج جو بھی ملکی معیشت کی مدد کر سکے گویا اس نے جہاد کیا ہے۔ یہ جہاد ہے۔ البتہ ایسا جہاد ہے کہ جس کے اپنے مخصوص وسائل اور ہتھیار ہیں، اس کے خاص طریقے اور اقدامات ہیں۔ یہ جہاد سب کے سب مل کر اس کی مخصوص تدابیر کے ذریعے اور مخصوص ہتھیاروں کے ذریعے لڑیں۔ یہ پہلا نکتہ ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وطن عزیز کی معیشت کے سلسلے میں دراز مدتی سطح پر دو طرح کے نظریات ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اہل نظر حضرات، اسی طرح ہمارے عزیز عوام اور نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں کہ ملکی معیشت کی پیشرفت اور رونق کے سلسلے دو نظریات ہیں۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ ہمیں ملکی معیشت کی پیشرفت و ترقی کو ملک کی داخلی توانائیوں اور عوام کے اندر موجود صلاحیتوں سے حاصل کرنا چاہیے۔ ملک کے اندر بہت زیادہ صلاحیتیں موجود ہیں، جن سے اب تک یا تو بالکل استفادہ نہیں کیا گيا، یا پھر ان سے صحیح طریقے سے استفادہ نہیں کیا گيا ہے۔ ہمیں ان توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ یعنی اندرونی ذرائع کی مدد سے حاصل ہونےوالی معیشت ہو، ایسی معیشت جس کا سرمایہ اور جس کے مواد ملک کے اندر سے ہوں، ملکی توانائیوں سے حاصل ہوں  اور خود ہمارے عوام کی صلاحیتوں پر استوار ہوں۔ تو ایک نظریہ یہ ہے جو کہتا ہے کہ اقتصادی ترقی کے لئے ہمیں ملک کے اندر موجود توانائیوں، وسائل اور عوامی صلاحیتوں کو پہچاننا اور انہیں صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے معیشت ترقی اور پیشرفت کے مراحل طے کریگی۔ یہ ایک نظریہ ہے۔
ملکی اقتصاد اور معیشت کے بارے میں دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کے لئے بیرونی مدد لی جائے۔ اس نظریہ کے مطابق ہم اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کریں تاکہ ہماری معیشت ٹھیک ہو۔ فلاں استکباری طاقت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا جائے تاکہ ہماری معیشت ترقی کرے۔ مختلف شعبوں میں اور مختلف مسائل میں ہم استکباری طاقتوں کی جانب سے مسلط کردہ پالیسیوں کو تسلیم کر لیں تاکہ ہماری معیشت میں رونق پیدا ہو۔ یہ دوسرا نکتہ نظر ہے ۔ آج ملک کے جو حالات ہیں ان سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ دوسرا نکتہ نظر بالکل غلط، بے سود اور بے نتیجہ ہے۔ یہی پابندیاں جو آج ایرانی قوم  پر لگائی گئی ہیں، اس دوسرے نظرئے کے غلط ہونےکی محکم دلیل ہیں۔ یعنی جب آپ آس آس میں بیٹھے رہیں گے کہ بیرونی طاقتیں آکر آپ کی معیشت کو فروغ دیں اور آپ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تاکہ آپ کی معیشت ترقی کرے تو یہ طاقتیں کسی خاص سطح پر پہنچ کر مطمئن ہونے والی نہیں ہیں۔ جب آپ باہری دنیا سے امید لگائیں گے تو آپ کو تیل کی قیمتوں میں گراوٹ جیسی صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اچانک استکباری طاقتیں اپنے علاقائی ایجنٹوں اور آلہ کاروں کے ساتھ یہ فیصلہ کریں گی کہ تیل کی قیمت کو نصف یا اس سے بھی کم کر دینا ہے۔ آپ کو اس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اگر آپ بیرونی طاقتوں سے امید لگائیں گے تو یہی ہوگا۔ لیکن اگر آپ کی توجہ داخلی توانائیوں پر مرکوز رہے گی  تو پھر ایسا نہیں ہوگا۔ آج بیرونی طاقتوں اور سامراجی حکومتوں کے سربراہان، اسی دوسرے نظرئے کو ہمارے عوام کے اندر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میں نےعید نوروز کی مناسبت سے ایرانی عوام کے نام امریکہ کے صدر کے پیغام کو دیکھا ہے وہ اپنے اس پیغام میں کہتے ہیں کہ آپ ہماری بات مان لیجئے۔ ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایٹمی مذاکرات میں جو کچھ ہم آپ سے کہیں آپ اسے قبول کر لیجئے، تاکہ آپ کے ملک میں کام کے مواقع پیدا ہوں، تاکہ سرمایہ کاری ہو، تاکہ آپ کے ملک میں اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں۔ یعنی یہ وہی دوسرا نظریہ ہے۔ یہ نظریہ ایسا ہے جو کبھی بھی نتیجہ بخش ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہمیں ملک کی اندرونی صلاحیتوں اور توانائیوں پر توجہ دینی ہوگی۔ داخلی توانائیاں بیشمارہیں۔ مزاحمتی معیشت کا مسئلہ جو ہم نے اٹھایا ہے اور جس پر بحث کی ہے اسی پہلو پر مرکوز ہے۔ خوش قسمتی سے اسے پذیرائی ملی ہے تمام اہل نظر افراد نے اس کی حمایت کی۔ میں نے سماجی اور اقتصادی امور کے ماہرین میں کسی ایک شخص کو بھی نہیں دیکھا جس نے مزاحمتی معیشت کے حوالے سے جو پالیسیاں طے کی گئی ہیں انہیں مسترد کیا ہو۔ مزاحمتی معیشت کا موضوع ملک کے داخلی وسائل پر مرکوز ہے۔ جب آپ کو اپنی زمینوں کے لئے باہر سے پانی لانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے تو آپ کو چاہیے کہ خود کنواں کھودیں اور زمین کے اندر سے پانی نکالیں تاکہ اس بخیل ہمسائے کے پانی کی آپ کو ضرورت نہ رہے۔ آپ اپنی اندرونی توانائیوں سے استفادہ کرکے اپنے کاموں کو انجام دیجئے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔
تیسرا نکتہ مقررہ اہداف کے سلسلے میں ہے؛ چاہےمعیشت ہو یا کوئی دوسرا پروگرام ہو کہیں بھی ہدف معین کرنے کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ منزل کا تعین ضروری ہے۔ اگر کسی بھی مسئلے میں اہداف اور منزل کا تعین کئے بغیر حکومتی عہدیداران آگے بڑھتے ہیں تو روز مرہ کی یکسانیت کی کیفیت میں مبتلا ہوکر رہ جائیں گے اور کسی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ واضح اور طے شدہ ہدف ضروری ہے جس کی جانب پیش قدمی کے لئے تمام وسائل اور متعلقہ اداروں کو منظم کیا جائے۔ میری نظر میں اس سال اور آئندہ برسوں میں جو چیز معیشت و اقتصاد کا بنیادی ہدف ہونا چاہیے وہ قومی پیداوار پر سرمایہ کاری ہے۔ قومی پیداوار کو فروغ دینے کے لئے ہر شعبے کی طرف سے بھرپور کوشش ہونی چاہیے ۔ اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے تمام افراد اسی طرح عوام سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ قومی پیداوار کو مضبوط بنانے کے لئے مدد فراہم کریں۔
البتہ مدد کرنےکے کچھ راستے موجود ہیں جن میں بعض کی طرف میں اشارہ کروں گا۔ ایک انتہائی ضروری کام یہ ہے کہ چھوٹی اور اوسط درجے کی پیداواری یونٹوں کی پشت پناہی کی جائے۔ ایک اور اہم کام یہ ہے کہ علم محور یونٹوں کی سرگرمیوں کو وسعت دی جائے۔ ہم سائنس و ٹکنالوجی پر جو اتنی توجہ دیتے ہیں تو اس کا صرف یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمارا علمی معیار بلند ہو بلکہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان کی ترقی سے اقتصادی رشد و نمو کو بھی مدد ملنی چاہیے۔ علم محور یونٹیں قومی معیشت کے ارتقاء میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک اور اہم کام ہے خام مال کی فروخت کے سلسلے کو محدود کرنا۔ میں نے حال ہی میں تیل پر ملکی معیشت کے انحصار کے حوالے سے جو تنقید کی اور اپنی تقریر میں اس موضوع کو اٹھایا تو اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں یہ کوشش کرنا چاہیے کہ خام مال کی فروخت کا سلسلہ رفتہ رفتہ کم ہو اور پھر بالکل ختم ہو جائے۔ افزودہ ویلیو کی کوشش کرنا چاہیے۔ بینک بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں، مددگار کا رول بھی اور تخریب کار کا کردار بھی۔ اس پر ملک کے بینکنگ شعبے کے اعلی حکام کی توجہ رہنی چاہیے۔ ملک بھر میں بعض بینک ہیں جو خاص روشوں سے چھوٹی اور اوسط درجے کی اقتصادی یونٹوں کو بند کروا رہے ہیں، نابود کر رہے ہیں۔ تو بینک مددگار بھی واقع ہو سکتے ہیں اور تخریب کار بھی بن سکتے ہیں۔ ایک اور بنیادی کام سرمایہ کاری کے عمل کو آسان بنانا ہے، ایک اور بنیادی کام استعمال کی اشیاء کی درآمدات کو کم کرنا ہے، ایک اور بنیادی کام اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ حکومتی عہدیداران متعدد تدابیر اختیار کر سکتے ہیں، جن میں بعض یہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ البتہ یہ سارے ہی کام بڑے دشوار ہیں۔ ان کو زبان سے بیان کر دینا تو آسان ہے، ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی حکام کو چاہیے کہ یہ مشکل کام ضرور انجام دیں، کیونکہ یہ بڑا حیاتی معاملہ ہے۔ عوام بھی اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جو لوگ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ چیزوں کی پیداوار پر سرمایہ لگائیں۔ جو لوگ صارف ہیں، ظاہر ہے سبھی صارف ہیں، وہ داخلی مصنوعات کا استعمال کریں۔ میں نے اس معاملے پر بارہا تاکید کی ہے اور آج ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ سب ایرانی اشیاء اور مصنوعات کا استعمال کریں۔ ایرانی محنت کشوں کی حمایت کریں۔ ایرانی مصنوعات کا استعمال کرکے ملکی پیداواری یونٹوں کی رونق بڑھائیں۔ فضول خرچی سے پرہیز، جو لوگ فضول خرچی کرتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ اسراف، فضول خرچی اور چیزوں کی بربادی جس کی اسلام میں بڑی مذمت کی گئی ہے، قومی اقتصاد کی سطح پر بہت فیصلہ کن ہے۔ اگر اسراف، فضول خرچی اور ذاتی چیزوں کی تضییع چاہے وہ پانی کی تضییع ہو، روٹی کی تضییع ہو یا مہمانی کے موقع پر، عقد نکاح کی تقریب میں، شادیوں میں اور دیگر مواقع پر دوسری چیزوں کی تضییع ہو، اس سے اجتناب کیا جائے تو قومی معیشت کو اس سے مدد ملے گی۔ جو لوگ بیرون ملک سے تجارت کرتے ہیں، دوسرے ملکوں سے لین دین رکھتے ہیں، وہ بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کا کردار یہ ہے کہ بہترین انداز میں کام کریں تاکہ ایرانی قوم کے وقار اور عظمت میں اضافہ ہو۔ یہ تیسرا نکتہ ہے۔
معیشت اوراقتصادی مسئلے سے متعلق چوتھا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کے پاس واحد حربہ پابندیوں کا ہے۔ یہ سبھی جان لیں۔ ایرانی قوم کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کے پاس واحد حربہ پابندیاں ہیں۔ اگر ہم صحیح انداز میں کام کریں تو پابندیاں غیر مؤثرہو سکتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، یہی پیداواری اور صنعتی مراکز جن کا اس وقت حکومتی ادارے افتتاح کر رہے ہیں، منجملہ جنوبی پارس گیس فیلڈ کا یہی بارہواں فیز جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا، یہی دفاعی پیشرفت، یہ سائنس و ٹکنالوجی کے پارک وغیرہ، یہ ایسے اہم کام ہیں جو ان پابندیوں کو ختم کر سکتے ہیں، پابندیوں کے اثرات کو پہلے تو کم کریں گے اور پھر رفتہ رفتہ ختم کر دیں گے۔ پابندیاں ان کا سب سے مشکل حربہ تھا لیکن ہمیں اس کی کچھ برکتیں بھی حاصل ہوئیں۔ پابندیوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمارے اوپر یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ہم اندرونی توانائیوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر حکومتی عہدیداران، اگر عوام اور خاص طور پر اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد کمر ہمت  باندھ لیں اور محنت کریں، اسی طرح ذرائع ابلاغ بھی مدد کریں، جس کے بارے میں ابھی میں گفتگو کروں گا، تو ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ پابندیاں ایرانی قوم کی پیشرفت کے عمل کو روکنے میں ناکام ہوجائیں گی۔
ایک نکتہ ایٹمی مسائل کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے دوسرے بھی متعدد نکات ہیں لیکن اس موضوع پر اپنی بحث کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ ایٹمی مسائل کے بارے میں چند جملے ہیں؛ ایٹمی مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے دشمن جو ایرانی قوم کے مد مقابل کھڑے ہیں اور ان میں سب سے اہم امریکہ ہے، یہ لوگ خاص تدابیر اور پالیسیوں کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کا ہمیں پوری طرح علم اور  اندازہ ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ انہیں ان مذاکرات کی ضرورت ہے۔ امریکہ کو ایٹمی مذاکرات کی بہت ضرورت ہے۔ آپ امریکیوں کے درمیان جو اختلاف دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے سینیٹر کسی انداز سے، امریکی حکومت کسی اور انداز سے گفتگو کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں ان مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ نہیں، حکومت کے مد مقابل فریق چاہتا ہے کہ مذاکرات کا امتیاز اور سہرا اس کی حریف جماعت یعنی ڈیموکریٹک پارٹی کے سر نہ بندھنے پائے، وہ اس کوشش میں ہے۔ انہیں ان مذاکرات کی ضرورت ہے اور وہ اپنے فائدے کے لئے مذاکرات چاہتے ہیں، البتہ ظاہری طور پر اظہار بے نیازی کرتے ہیں۔
امریکی صدر کے نوروز کے اسی پیغام میں افسوس کے ساتھ کئی باتیں سچائی اور  صداقت سے عاری تھیں۔ حالانکہ ایرانی قوم کے ساتھ بظاہردوستی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن انسان واضح طور پر دیکھ رہا ہے کہ یہ بیان صادقانہ نہیں ہے۔ ایک بات تو یہی تھی کہ ایران کے اندر کچھ ایسے لوگ ہیں جو ایٹمی مسئلے کے سفارتی حل سے اتفاق نہیں رکھتے۔ یہ وہ کہتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایران میں ایسے افراد ہیں جو نہیں چاہتے کہ ایٹمی مسئلہ سفارتی مذاکرات کے ذریعے حل ہو۔ یہ جھوٹ ہے، ایران میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ ایٹمی مسئلہ حل ہو اور مذاکرات کے ذریعہ حل ہو۔ ایرانی عوام بس یہ نہیں چاہتے کہ امریکہ کے رعب و دبدبے اور دھمکی کے سامنے اور اس کی منہ زوری کے سامنے گھٹنے ٹیکے جائیں۔ ایرانی عوام یہ نہیں چاہتے۔ ایرانی قوم جس چیز کا مقابلہ کر رہی ہے وہ مد مقابل فریق کی زیادتی اور زبردستی ہے۔ مد مقابل فریق کہتا ہے کہ آئیے مذاکرات کرتے ہیں اور آپ ہماری بات من و عن تسلیم کر لیجئے ان کا یہ کہنا ہے۔ ہماری قوم اس مؤقف کے خلاف استقامت دکھا رہی ہے اور یقینا نہ ہمارے حکام، نہ مذاکراتی ٹیم اور نہ ان کی پشت پر موجود ایرانی قوم کوئی بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔
ایٹمی مسائل میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج مذاکرات ہو رہے ہیں اور امریکہ اور یورپ کی کچھ حکومتوں سے مذاکرات ہو رہے ہیں، امریکہ سے مذاکرات صرف اور صرف ایٹمی معاملے میں ہو رہے ہیں، کسی اور مسئلے میں نہیں۔ یہ بات سارے لوگ جان لیں۔ ہم علاقائی مسائل کے بارے میں امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ علاقائی مسائل کے بارے میں امریکہ کے اہداف ہمارے اہداف سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں۔ ہم علاقے میں امن و سلامتی چاہتے ہیں۔ قوموں اور عوام کا غلبہ چاہتے ہیں۔ امریکہ کی پالیسی علاقے میں بدامنی کو ہوا دینا ہے۔ آپ مصر کو دیکھئے؛ لیبیا پر نظر ڈالئے؛ شام کا جائزہ لیجئے؛ استکباری نظام اور اس میں سر فہرست امریکہ، قوموں کے ذریعے وجود میں آنے والی اسلامی بیداری کی لہر کے خلاف حملہ آور ہوا اور یہ حملہ اب بھی جاری ہے۔ وہ علاقے میں قوموں کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ ان کا مقصد ہے ۔ یہ ہمارے مقاصد کے عین مخالف چیز ہے۔ ہم نہ تو علاقائی مسائل میں، نہ داخلی امور میں، نہ اسلحے کے حوالے سے، کسی بھی مسئلے میں امریکہ سے کوئی گفتگو نہیں کریں گے۔ مذاکرات صرف ایٹمی مسئلے کے لئے اور یہ دیکھنے کی خاطر ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں سفارتی طریقہ سے ہم کس طرح نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے؛ کہ امریکی بار بار کہتے ہیں کہ" ہم ایران سے معاہدہ کریں گے، اس کے بعد دیکھیں گے، اگر ایران نے معاہدے پر عمل کیا تب پابندیاں ہٹائیں گے۔" یہ غلط اور ناقابل قبول بات ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ پابندیوں کا خاتمہ مذاکرات کے موضوع میں شامل ہے، مذاکرات کے بعد کا نتیجہ نہیں۔ جو متعلقہ افراد ہیں وہ ان دونوں باتوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ امریکی دھوکہ ہے جو وہ کہہ رہے ہیں کہ" ہم معاہدہ کر لیں گے، پھر طرز عمل دیکھیں گے، تب پابندیاں ہٹائیں گے" ایسا نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ہمارے حکام نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا ہے اور صدر محترم نے بھی صریحی طور پر اعلان کر دیا ہے کہ معاہدہ ہوتے ہی بغیر کسی تاخیر کے فورا پابندیاں ختم ہوں۔ یعنی پابندیوں کا خاتمہ معاہدے کا حصہ ہے، ایسی چیز نہیں ہے جو معاہدہ ہو جانے کے بعد انجام دی جائے۔
ایک نکتہ اور بھی ہے؛ امریکی بار بار کہتے ہیں کہ ایران جو فیصلے کرے اور جن باتوں کو قبول کرے، اس کی کیفیت ایسی ہو کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ یہ بات بھی ہمیں قبول نہیں ہے۔ اگر مد مقابل فریق کے لئے یہ گنجائش ہے کہ کسی بھی بہانے سے ایرانی قوم پر دوبارہ پابندیاں لگا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہماری مذاکراتی ٹیم ایسی شرط مانیں اور ایسا کوئی اقدام کرے کہ جس میں واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔ یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ ایک عوامی صنعت ہے، ایک مقامی صنعت ہے، عوام کی ملکیت ہے۔ یہ سائنس اور یہ ٹکنالوجی عوام کی ہے۔ اس میں ترقی ہونی چاہیے۔ پیشرفت ہر صنعت و ٹکنالوجی کا لازمی حصہ ہے۔ وہ ایٹم بم کا معاملہ اٹھاتے ہیں تو انہیں خود بھی معلوم ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس مسئلے کو ایرانی قوم پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ ان مذاکرات میں ہم اپنے تمام عالمی وعدوں اور فرائض پر کاربند رہے۔ ہم مذاکرات میں سیاسی و اسلامی اخلاقیات کی رو سے اپنی ذمہ داریوں کے پابند رہے۔ ہم نے عہد شکنی نہیں کی۔ ہم نے متضاد باتیں نہیں کیں۔ ہم نے بار بار رنگ نہیں بدلا۔ ہمارے سامنے اور ہمارے مد مقابل امریکی ہیں۔ انہوں نے عہد شکنی کی، بار بار رنگ بدلا۔ فریب دینے کی کوشش کی۔ ان کا رویہ ایسا ہے جو ہماری قوم کے لئے عبرت کا باعث ہے۔ ملک کے اندر جو لوگ روشن خیال ہیں اور اب تک متوجہ نہیں تھے کہ ان کا مد مقابل حریف امریکہ کون ہے؟ بہتر ہے کہ وہ ان مذاکرات کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کس سے واسطہ ہے اور امریکہ آج دنیا میں کیا کر رہا ہے؟ وہ جو دھمکیاں دیتے ہیں بے سود ہیں۔ یہ جو دھمکیاں دیتے ہیں پابندیاں اور بھی بڑھانے کی، اپنے بیانوں میں فوجی کارروائی کی جو دھمکیاں دیتے ہیں، یہ دھمکیاں ایرانی قوم کو خوفزدہ  نہیں کر سکتیں۔ ایرانی قوم ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے اور ان شاء اللہ اس بڑے امتحان سے پوری کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر باہر نکلے گي۔ بیشک اس راہ میں توفیقات الہیہ ہمارے عوام کو کامیابی عطا کر سکتی ہیں۔
کچھ اور بھی اہم مسائل ہیں لیکن ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بیشک ہماری قوم اور ایرانی حکومت کے دوش پر بہت بڑے کاموں کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی اتحاد کا مسئلہ ہے، مستضعف اقوام کی مدد کا معاملہ ہے، علاقے میں اسلام کے روحانی و معنوی اثر و نفوذ کا مسئلہ ہے، جس کا پرچم  ایرانی قوم نے بلند کر رکھا ہے۔ یہ بہت بڑے کام ہیں اور اگر اللہ تعالی نے اپنی توفیقات ایرانی قوم کے شامل حال رکھیں اور یقینا خداوند عالم یہ توفیقات عنایت فرمائے گا، تو ان شاء اللہ آپ کی دعاؤں کی برکت سے، آپ لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کی کوشش اور ہمت کی برکت سے یہ بڑے کام ہم سرانجام دیں گے۔

و السّلام‌ علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) سوره‌ حج، آیت نمبر ۳۹ کا ایک حصہ؛ «...اور یقینا اللہ ان کو کامیاب کرنے پر پوری طرح قادر ہے.»
۲) سوره‌ حج، آیت نمبر ۴۱؛ « وہی لوگ جنہیں ہم روئے زمین پر اختیار و استطاعت عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکات ادا کریں گے، نیک کاموں کی ہدایت کا حکم دیں گے، اور برے کاموں سے روکیں گے۔ تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔»
۳) من لا یحضره الفقیه، جلد ۱ ، صفحہ ۲۱۰؛ « نماز ہر پرہیزگار کا ذریعہ تقرب ہے۔»
۴) سوره‌ توبه، آیت نمبر 103 کا ایک حصہ ؛ « اور ان کے اموال میں سے صدقہ (زکات) لو...»
۵) کافی، جلد ۵ ، صفحہ ۵۶؛ «اس کے ذریعے سے تمام واجبات اور فرائض ادا ہوتے ہیں.»
۶) سوره‌ نحل، آیت نمبر 90 کا ایک حصہ ؛ «در حقیقت اللہ تعالی انصاف، نیکوکاری اور اقرباء کو (ضرورت کی چیزیں) عطا کرنے کا حکم دیتا ہے اور برے اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتا ہے...»
۷) سوره‌ اعراف، آیت نمبر 157 کا ایک حصہ ؛ «... [وہی پیغمبر کہ جو] انہیں اچھے کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے...»
۸) کافی، جلد ۴ ، صفحہ ۵۷۰؛ « گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی، زکات ادا کی، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کیا۔»
۹) سوره‌ توبه، آیت نمبر 71 کا ایک حصہ ؛ « صاحب ایمان مرد اور عورتیں، آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں جو نیک و پسندیدہ کاموں کی ترغیب دلاتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکات ادا کرتے ہیں...»
۱۰) مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب بتاریخ 21 مارچ 2007
۱۱) حاضرین کی طرف سے امریکہ مردہ باد کا نعرہ