ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ماحولیات کی حفاظت سے متعلق اداروں کے حکام سے خطاب

بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

میں محترم حضرات اور خواتین کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں۔ بحمد اللہ ماحولیات کے مسائل سے منسلک اور وابستہ افراد کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی اور مسرت بھی حاصل ہوتی ہے اور تشویش بھی لاحق ہوتی ہے۔ خوشی اور مسرت  اس لئے حاصل ہوتی ہے کہ بحمد للہ اتنی بڑی تعداد میں تازہ دم، شاداب، پرجوش، مہارت اور دلچسپی رکھنے والے افراد اس عظیم اور اہم ذمہ داری کی طرف متوجہ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ آپ جس مجموعہ سے منسلک اور وابستہ ہیں اورجو مختلف اداروں پر مشتمل ہے اس کے اندر آپس میں ایک موضوع اور محور کے بارے میں اتفاق نظر بھی ہے یا نہیں۔ ماحولیات کے مسئلہ کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام ادارے جو ماحولیات کے امور سے وابستہ ہیں،وہ آپس میں ایک دوسرے سے صداقت، ہمدردی اور ہمدلی  کے ساتھ تعاون کریں۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ سے آپ سب کے لئے ہدایت اور نصرت طلب کرتا ہوں۔
ہمارے آج کے اس اجلاس کی مناسبت یہ ہے کہ ہم ہر سال ہفتہ شجر کاری کی مناسبت اور ماحولیات سے متعلق دن کے موقع پرعلامت کے طور پر یہاں زمین میں ایک دو درخت لگاتے تھے۔ یہ ایک طرح ذمہ داری کا احساس تھا تاکہ عوام شجرکاری کے اہم مسئلہ پر اپنی توجہ مبذول کریں ۔ یہ مسئلہ مؤثر بھی ثابت ہوا اور ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر تہران میں شجر کاری کے موضوع پر گزشتہ برسوں کے دوران توجہ دی گئی ہے۔ ماضی میں جو بعض مشکلات اور خامیاں پیدا ہو گئی تھیں وہ بتدریج  دور ہو رہی ہیں، البتہ صرف یہی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سال ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ آج ہمیں جو  مسائل درپیش ہیں اور جن سے ہم دست و گربیاں ہیں ان کی اہمیت و کلیدی حیثیت کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ایک اجلاس بلایا جائے اور اس میں ہم کچھ مسائل آپ کی خدمت میں پیش کریں۔ تاکہ ان مسائل کو پیچھا کیا جائے اور انشاء اللہ ماحولیات سے متعلق مسائل کے حل کے سلسلے میں حکام سنجیدہ ، ٹھوس اور بنیادی اقدام عمل میں لائیں ، البتہ مجھے ان بیانات کے بارے میں ایک رپورٹ دی گئی جو سنہ 1377 ہجری شمسی تقریبا پندرہ سال سے لیکر اب تک میں نے اس مسئلہ کے بارے میں پیش کئے ہیں۔ بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں، بہت سی سفارشات کی گئی ہیں، لیکن صرف سفارشات سے بڑی مشکلات حل نہیں ہو سکتیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ مؤثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ان برسوں میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میں اسلام کے نقطہ نظر سے زمین اور اس کرہ خاکی کے بارے میں چند مطالب پیش کروں گا یہ زمین اور کرہ خاکی جو انسان کی زندگی ، اس کی پیدائش اور نشونما کا گہوارہ اور پھر انسان کی بازگشت کا مرکز ہے، میں اسلام کا نظریہ اس کے بارے میں بیان کروں گا۔ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے؛ وَ الاَرضَ وَضَعَها لِلاَنام(
۱) زمین کو یعنی اس کرہ ارض کو ہم نے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے، یہ سب کی ملکیت ہے۔ صرف کچھ لوگوں سے مختص نہیں ہے۔ اس پر کسی ایک کو دوسرے کی نسبت زیادہ مالکانہ حق حاصل نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کسی ایک نسل کی ملکیت ہو اور دوسری نسل (2)کا اس پر حق نہ ہو؛ آج یہ آپ کی ملکیت ہے، کل یہ آپ کے فرزندوں کی ملکیت ہو جائے گی، پھر آپ کے پوتے پوتیوں کی ملکیت بن جائےگی اور اسی طرح آخر تک آپ کی نسلوں کی ملکیت بنتی رہے گی۔ کرہ ارض کی ہر مقام اور ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ زمین کی پیدائش اور خلقت  انسانوں کے لئے ہوئی ہے۔ یہ انسانوں کی ملکیت ہے۔ قرآن مجید کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے؛ خَلَقَ لَکُم ما فِی الاَرضِ جَمیعًا (3) جو کچھ زمین میں ہے اور زمین سے متعلق ہے وہ سب انسانوں کے لئے خلق کیا گيا ہے۔ لہذا چونکہ یہ زمین خود آپ کی ملکیت ہے تو آپ کے لئےبہتر ہوگا کہ آپ اسے نقصان نہ پہنچائیں، آپ اسے خراب نہ کریں۔ اس کی تمام چیزیں قیمتی اور اہم ہیں۔ ممکن ہے بعض چیزیں ایک عام انسان کو قیمتی اور اہم محسوس ہوں اور بعض چیزیں غیر قیمتی اور بے فائدہ نظر آئیں، لیکن حقیقت میں وہ سب چیزیں بہت قیمتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ملک کے اندر کچھ افراد کہتے تھے کہ یہ بدبو دار اور متعفن مادہ ہمارے کس کام کا ہے؛  ان کی مراد خام تیل سے تھی۔ ممکن ہے کچھ لوگ ملک کے شمالی علاقوں کی سرسبز اور شاداب فضا سے لطف اندوز اور محظوظ ہوں اور ریگستانی علاقے انہیں پسند نہ آئیں۔ لیکن آپ جائیے اور ڈاکٹر کردوانی (4) سے بیٹھ کر بات کیجئے اور دیکھئے کہ وہ ریگستان اور صحرائی علاقہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ سب چیزیں یکساں طور پر اہم ہیں، یہ سب نعمتیں ہیں اور یہ سب کچھ آپ کی ملکیت ہے۔ لیکن آپ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ اسے نقصان پہنچائيں؛ نہ باغ اور بوستان کو نقصان پہنچائیں نہ جنگل کو ، نہ دشت اور چراگاہوں کو نقصان پہنچائیں نہ صحراؤں اور ریگستانوں کو۔ یہ تمام انسانوں کی ملکیت ہیں، انہیں آپ بہترین انداز میں استعمال کیجئے۔ ایک اور آیت میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے؛ وَ استَعمَرَکُم فیها (5) اللہ تعالی جو اس زمین کا خالق ہے اورتمہارا بھی خالق ہے، اس نے تمہیں مامور کیا ہے کہ اس زمین کو آباد کرو، یعنی اس کرہ خاکی کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں کو فعلیت تک پہنچائیں۔ بے شمار صلاحیتیں اور توانائياں ہیں جو پہلے ناشناختہ تھیں، اب ان کی شناخت ہوگئی ہے اور اب ان کی اہمیت کا ادراک ہوا ہے، اب ان کی قدر و قیمت معلوم ہوگئی۔ اور بہت سی چیزیں ہیں جو اب بھی ناشناختہ ہیں ، ان کی شناخت کے بارے میں کام کرنا اب آپ کا کام ہے، یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ آج بھی جب ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ زمین کی تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ آپ آج پانی سے، مٹی سے، ہوا سے زمین دوز مواد سے اور روئے زمین پر موجود اشیاء سے جو استفادہ کر رہے ہیں، اس سے کروڑوں گنا زیادہ استفادہ کرنے کے امکانات موجود ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہوں۔ انسان کو چاہیے کہ پیہم اور مسلسل ان توانائیوں اور صلاحیتوں کو تلاش کرتا رہے اور ان توانائیوں کو انسانی زندگی کی فلاح ،بہبود اور بہتری کے لئے کام میں لائے۔
ایک اور آیت "الدّ الخصام" کے بارے میں ہے۔ یعنی انتہائی ضدی، حد درجہ خبیث اور سخت دل دشمن۔ اس کی کچھ خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک خصوصیت یہ ہے؛ اِذا تَوَلّی‌ سَعی‌ فِی الاَرضِ لِیُفسِدَ فیها وَ یُهلِکَ الحَرثَ و النَّسل (6) کھیتی اور نسلوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے، خراب کر دیتا ہے۔ یعنی نباتات کی پیداوار اور انسانی نسل کے آگے بڑھنے کے عمل کو نابود، تباہ اور ویران کر دیتا ہے۔
آج اگر آپ ملاحظہ کریں تو عالمی سیاست میں آپ کو ایسے افراد نظر آجائیں گے جو تمام اقوام کے ساتھ یا اکثر اقوام کے ساتھ یہی کام کر رہے ہیں۔ وہ کھیتی کی تباہی اور نسلوں کی ہلاکت کا کام کررہے ہیں۔ اللہ اسے فساد قراردیتا ہے اور پھر ارشاد فرماتا ہے؛ "وَ اللهُ لا یُحِبُّ الفَساد" (7) یہ قرآن مجید کی چند آیتیں تھیں جنھیں میں نے آپ کے سامنے پیش کیا ، ان کے علاوہ بڑی تعداد میں انتہائی اعلی مضامین پر مشتمل روایتیں اسلام میں ہیں، جو زمین کے بارے میں اور ماحولیات کے بارے میں ہمارے دینی متون میں موجود ہیں۔ یہی آیتیں جنھیں ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیا (8) ان آیتوں میں ہیں جو روئے زمین پر پائی جانے والی ان اشیاء کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو سب کی سب بشریت کے لئے ہیں۔ آپ کی ملکیت ہیں۔ ماحولیات کا مسئلہ حقیقت میں بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فطرت کے بارے میں انسان اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح محسوس کرے، اپنے فرائض کو اچھی طرح درک کرے۔ جس طرح انسانوں کے بارے میں  ہم اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، اسی طرح ماحولیات کے بارے میں بھی ہمیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ اسلام اور دیگر ادیان الہیہ کا یہ مطالبہ ہے کہ انسان اور فطرت کے مابین توازن قائم رہے۔ یہی بنیادی اور اساسی مقصدہے۔ اس توازن کی حفاظت میں غفلت اور سستی اور اس پر عدم توجہ ان علل و اسباب کا نتیجہ ہے جو انسان کی خود پسندی اور ہم میں بعض لوگوں کی توسیع پسندی اور منہ زوری سے عبارت ہیں۔ اگر اس توازن کو قائم نہ رکھا گیا تو ماحولیات کا بحران پیدا ہوگا اور ماحولیات کے بحران کا نقصان تمام انسانوں اور تمام نسلوں تک پہنچے گا۔
آج یہ بحران صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے بحران کی اصطلاح مناسب نہ ہو تو کم از کم اسے ایک بڑا چیلنج ضرور کہا جائے گا۔ یہ بڑا چیلنج صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے۔ آج پوری دنیا میں یہ چیلنج موجود ہے اور یہ احساس ذمہ داری کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ 'کیوٹو معاہدے' (9) کے معاملے میں امریکہ کی حکومت نے بدمعاشی اور منہ زوری کامظاہرہ کیا۔ چند سال پہلے میں نے نماز جمعہ میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا اور یہی بات کہی تھی (10)۔ یعنی ایک معاہدے کے سلسلے میں غنڈوں جیسا رویہ، ایسے معاہدے کے سلسلے میں جو کسی ایک ملک، دو ملک یا کسی ایک خطے اور دنیا کے کسی خاص گوشے سے متعلق نہیں ہے، اس کا تعلق پوری دنیا سے ہے۔ گرین ہاؤس گیسز کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا نقصان ایک ملک اور کچھ لوگوں تک محدود ہو۔ نہیں، اس کے نشانے پر پوری انسانیت ہے۔ لیکن ماحولیات کے معاملے میں اساسی مشکل یہ ہے کہ اس کے تباہ کن اثرات جلدی اور آسانی سے ظاہر نہیں ہوتے۔ لیکن جب ظاہر ہوتے ہیں تو پھر ان کا علاج بڑا طولانی مدت اور بسا اوقات محال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر قطبی برف کے  پگھل کر پانی بننے کا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے اور دوسرے گوناگوں ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان  جس کا کوئی علاج کر سکے۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان جس کا دس سال، بیس سال یا سو سال میں تدارک کرسکے ۔ اس کے آثار انسانیت کے لئے باقی اور دائمی ہیں۔ یعنی کچھ انسان ایسے پیدا ہوئے جنھوں نے اپنی ذمہ داری کے سلسلے میں بے حسی کا ثبوت دیا اور دنیا کی عمومی ثروت کو ذاتی ثروت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، اپنے وجود کا حجم بڑھانے کے لئے تمام ممکنہ وسائل کو استعمال کیا تو اس کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا ہے۔ انسان کی منہ زوری ،سرکشی، انسان کا متکبرانہ انداز میں حدوں سے تجاوز کرنے، انسانی طاقتوں، دنیا میں زر و زور رکھنے والی طاقتوں کی غنڈہ گردی کے یہ نتائج اور یہ آثار ہیں۔
خوب، عالمی سطح پر یہ صورت حال ہے؛ اسی طرح ملکی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر بھی یہی معاملہ ہے، ظاہر ہے اس وقت ہم اپنے ملک کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی اس سطح پر بھی کچھ ایسے نقصانات ہیں جن کا تدارک ممکن نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں سستی ، غفلت، خراب کارکردگی اور عدم شناخت کی وجہ سے مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ پیش آیا ہے۔ مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا بعد میں تدارک کیا جا سکے۔ مٹی کا مسئلہ پانی سے زیادہ اہم ہے۔ ہمیں پانی کی مشکل کا بھی سامنا ہے اور یہ بہت بڑی مشکل ہے، لیکن پانی مہیا کرنے کے بہت سے راستے ہیں، زرخیز مٹی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے یہ راستے دستیاب نہیں ہیں۔ یعنی ماحولیات کی حفاظت کے اصولوں پر عدم توجہ کے اکثر ایسے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اور ان سےجو نقصان پہنچتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا کہ اس کا تدارک کیا جاسکے۔ اس کے لئے قبل از وقت احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں، علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان میں بہت سے مسائل کا وقت سے پہلے تدارک کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح بعض مشکلات ایسی ہیں کہ جن کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے اور ضروری بھی ہے کہ ان کا ازالہ کیا جائے۔
آپ مثال کے طور پر ہوا کی آلودگی کے مسئلے کو لے لیجئے! آج ہمارے بڑے شہروں میں، تہران اور دیگر بڑے شہروں میں ہوا کی آلودگی کا مسئلہ ہمارے ملک کی انتہائی اہم ماحولیاتی مشکل ہے۔ اس کے لئے احتیاطی تدابیر ہو سکتی ہیں اور اس کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم حقیقت میں ایک آواز ہوکر، اجتماعی ارادے اور ہمدلی کے ساتھ اپنی تمام توانائیوں کو اکٹھا کر لیں، اس مسئلے سے متعلقہ تمام فریق متحد ہو جائيں تو اس مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ فلاں ملک کے رقبہ کی وسعت ہمارے ملک کے رقبہ کی وسعت کا محض بیس فیصد اور ایک پنجم ہے، جبکہ آبادی ہماری آبادی سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس نے ہوا کی آلودگی کے مسئلے کو حل کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مشکل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام ممکن ہے، ہم بھی اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں۔ گرد و غبار کے طوفان کے مسئلے کو بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسائل قابل حل اور قابل علاج ہیں۔ البتہ اس کے لئے حوصلہ اور تحمل سے کام کرنے، مناسب تدابیر اپنانے اور اس پر مستقل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کا مسئلہ کسی ایک حکومت کی پیدا کی ہوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ طولانی مدت کا مسئلہ ہے۔ فلاں شخص یا کسی اور شخص کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں ہے، کسی خاص حلقہ اور جماعت کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور  شانہ بہ شانہ ہو کر کھڑے ہو کر اس مشکل کو حل کریں۔
ماحولیات میں تین چیزیں بنیادی عناصر کا درجہ رکھتی ہیں جن پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ ہوا، پانی اور مٹی۔ ان پر تمام توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اعداد و شمار مجھے پیش کئے گئے ہیں ان کے مطابق تہران میں ہوا کی آلودگی کے مسئلے کا ستر فیصد حصہ ٹرانسپورٹ سے متعلق ہے اور تیس فیصدی حصہ آلودگی پیدا کرنے والی صنعتوں سے متعلق ہے۔ بہرحال یہ اعداد و شمار ہیں جو مجھے دیئے گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں کہیں معمولی سی کمی بیشی ہو۔ آپ کے درمیان ماہرین موجود ہیں، ممکن ہے کہ ان کے پاس اور بھی درست معلومات ہوں۔ بہرحال وجہ معلوم ہو گئی۔ جب ہم وجہ کو سمجھ گئے تو گویا مشکل کے حل کی سمت میں ہم ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب پوری توجہ اور محنت سے اس مشکل کے حل کی طرف بڑھنا ہے۔ یہ باتیں صرف تبلیغی باتیں نہیں ہیں۔ یہ ایسے امور نہیں کہ پہلے ان کا پروپیگنڈہ کیا جائے، نہیں پہلے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کام انجام پا جائے گا تو عوام بغیر اعلان اور تبلیغ کے بھی محسوس کر لیں گے۔
گرد و غبار کے طوفان کا مسئلہ جو کل خوزستان میں، آج کرمان میں اور پھر ممکن ہے کہ کل کسی دوسرے علاقہ کے عوام کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کرے، اس مشکل کو حل کیا جانا چاہیے۔ گرد و غبار کے طوفان سے لوگوں کو صرف سانس کی مشکل کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ مجھے رپورٹ ملی ہے کہ ملک کے مغربی علاقوں کے جنگلات، بلوط کے جنگلات، گرد و غبار کے طوفان کی وجہ سے نابودی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ مشکل پیش آ گئی تو اس کے نقصانات تہران اور دیگر شہروں میں گرد و غبار کے طوفان سے پیش آنے والی سانس کی مشکل سے کئی گنا زیادہ ہوں گے۔ پوری توجہ سے اس مسئلے کو دیکھنا چاہیے، اس کے لئے کام کرنا چاہیے، جائزہ لینا چاہیے کہ وجہ کیا ہے، ان کےعلل و اسباب کو پہچاننا چاہیے اور سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
ایک اور مسئلہ پانی اور اس کے استعمال کا مسئلہ ہے۔ میں نے دو تین سال قبل، غالبا سال کے آغازکی اپنی تقریر میں اشارہ کیا کہ نوے فیصدی پانی زراعت پر صرف ہوتا ہے (11)۔ دوسرے تمام مقاصد کے لئے ہونے والا استعمال، پینے کے لئے، شہر میں اور صنعتوں وغیرہ میں ہونے والا استعمال دس فیصد ہے۔ زراعت پر خرچ ہونے والے پانی میں اگر ہم دس فیصد کی بچت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اسی مقدار میں اضافی پانی جو پینے کے لئے، شہروں کی ضرورتوں کے لئے اور صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے، ملک کو ملنے لگے گا۔ یہ کوئی معمولی چیز ہے؟ اتنا اہم اور با عظمت مسئلہ، کیا ایسا نہیں ہے کہ جس پر تمام متعلقہ حکام کام کریں اور اس معاملے پر توجہ دیں؟ اچھا اور صحیح نیٹ ورک تیار کرکے، ڈرپ آبپاشی کے ذریعہ پانی کی بچت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ڈیم بناکر پانی جمع کرتے ہیں لیکن آبپاشی کا نیٹ ورک نہیں تیار کرتے تو جیسا کہ بد قسمتی سے بہت سی جگہوں پر دیکھنے میں آرہا ہے، تو ظاہر ہے یہ پانی ہم ضائع کر دیں گے، پانی بخار بن کر ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈیمز پر بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ بہت سے کام ہیں جو انجام دیئے جانے ہیں۔ یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔
مٹی کا مسئلہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مٹی کے کٹاؤ اور بہاؤ کا مسئلہ طویل مدت میں پانی کی قلت کے مسئلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کچھ سال پہلے واٹر شیڈ اور پانی کے پھیلاؤ کا موضوع زیر بحث آیا تھا۔ کچھ کام بھی انجام دئے گئے۔ اس کام کو پوری سنجیدگی اور قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام متوقف نہیں ہوناچاہیے۔
میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں تجربے کی بنیاد پر عرض کر رہا ہوں کہ ملک میں ہمارے سامنے ایک بنیادی مشکل کاموں کے تسلسل پر عدم توجہ کی مشکل ہے۔ ہم کام بہترین انداز میں شروع کرتے ہیں لیکن مسلسل اور پیہم اس کی نگرانی نہیں کرتے، البتہ بعض کاموں میں توجہ کے ساتھ نگرانی بھی ہوتی ہے۔ جہاں توجہ سے نگرانی رکھی گئی ہے وہاں اچھے نتائچ اور ثمرات بھی حاصل ہوئے ہیں۔ بعض مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ کام درمیان میں ہی رک جاتا ہے، اس کی نگرانی اور اس پر توجہ نہیں رکھی جاتی۔ یہ ایک کلیدی اور بنیادی مشکل ہے۔ آپ میں ہر ایک شخص کسی نہ کسی شعبہ کے انتظامی امور کا ذمہ دار ہے۔ ملک کے عہدیدار توجہ دیں کہ دائمی نظارت اور نگرانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
ایک مسئلہ جنگلات اور چراگاہوں کا مسئلہ ہے۔ یہ جنگلات اور چراگاہیں ہمارے شہروں اور گرد و پیش کی فضا کو آکسیجن دینے والے پھیپھڑوں کا بھی کام کرتی ہیں اور مٹی کی حفاظت بھی کرتی ہیں، مٹی کو بچاتی ہیں جس کی اہمیت کے بارے میں ابھی ہم نے گفتگو کی۔ جنگلات کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں، شمالی علاقوں کے ان گھنے جنگلوں میں کہیں تو جنگلات کی لوٹ مار ہو رہی ہے اور بعض جگہوں پر وہ غفلت اور عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں۔ میں تاکید کر رہا ہوں، آپ ہرگز اس بات کی اجازت نہ دیں کہ جنگلات کو نابود کیا جائے۔ ملک کے مختلف ادارے جو اس سلسلے میں ذمہ دار ہیں، قدرتی ذخائر سے لیکر ماحولیات تک کسی کے سلسلے میں بھی اجازت نہ دیں کہ کچھ مفاد پرست افراد سیاحوں کو متوجہ کرانے کے نام پر، ہوٹل اور تفریحی پارک بنانے کے نام پر، دینی مدرسہ اور دار العلوم تعمیر کرنے جیسے بہانوں کے ذریعہ جنگلات کو تخریب کریں  اور ہمارے جنگلات کو نقصان پہنچائيں،  جہاں بھی جنگلات کو کاٹا گیاہے اس کا سختی کے ساتھ سد باب کرنا چاہیے۔
ایک مسئلہ زمینوں پر قبضہ کرنے کا مسئلہ ہے۔ البتہ زمینوں پر قبضہ کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، یہ بہت پرانا مسئلہ ہے۔ ہم اپنے بچپن اور نوجوانی کے ایام سے ہی بار بار زمینوں پر غیر قانونی قبضہ کا نام سنتے آرہے ہیں۔ مگر توقع یہ تھی کہ اسلامی نظام میں اور اسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کے بعد ہم یہ اجازت نہ دیتے کہ کچھ لوگ آئیں اور شہر کے اطراف میں، شہر کے مضافات میں بہترین علاقوں میں عمومی ثروت و سرمائے کو اپنے طور پر ذاتی ثروت میں تبدیل کر لیں۔ آپ فرض کیجئے کہ شہر کے کسی حصے میں ایک وسیع و عریض باغ واقع ہے۔ یہ عمومی سرمایہ ہے۔ اب کچھ لوگ آئیں اور چالاکی سے، قانون میں رد و بدل کرکے یا خدانخواستہ کسی ادارے کے ایک دو کمزور ایمان والے افراد کو خرید کر، اس عمومی باغ کو اپنی ذاتی ملکیت بنا لیں، تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔
زمینوں پر قبضہ کرنےکا معاملہ اب آگے بڑھ کر ٹیلوں اور پہاڑوں پر قبضہ  کی منزل تک پہنچ گیا ہے! میں کبھی کبھی جب شمالی تہران کے پہاڑوں پر کوہ پیمائی کے لئے جاتا ہوں تو دیکھتا ہوں۔ حقیقت میں بہت افسوس ہوتا ہے۔ میں نے شہر کے حکام کے ساتھ اور حکومتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں ان مسائل کو کئی بار اٹھایا ہے۔ کچھ کوشش بھی کی گئی لیکن پوری  سنجیدگی کے ساتھ اقدام کرنےکی ضرورت ہے ۔ حکام کو چاہیے کہ سوء استفادہ کرنے والوں کے خلاف سختی سے کارروائی کریں، ہمت و شجاعت سے کام کریں۔ یہ موقع نہ دیں کہ غلط طریقے سے فائدہ اٹھانے والے لوگ جانے پہچانے حربوں کے ذریعے سوء استفادہ کریں۔ وہاں اوپر جاکر جب انسان نظر دوڑاتا ہے تب سمجھ میں آتا ہے اور دکھائی پڑتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟! پہلے تو جاکر اجازت لیتے ہیں کہ زمین کے ایک حصہ پر کوئی پروجیکٹ لگائیں گے۔ جب وہ حصہ ان کا ہو گیا تو پھر فطری طور پر بتدریج زمین کا وہ پورا قطعہ ردوبدل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کام کرتے ہیں۔ شمالی تہران اور مغربی تہران کا علاقہ در حقیقت شہر کے لئے سانس لینے کی شریانوں کا درجہ رکھتا ہے۔ شمالی تہران کے پہاڑی علاقوں میں الگ انداز سے اور مغربی تہران کی زمینوں میں الگ انداز سے تعدی اور تجاوز کیا جا رہا ہے۔ مشہد میں، ہمارے شہر میں بھی، میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ شہر کا جنوبی پہاڑی علاقہ جو شہر کے لئے سانس لینےکا مرکز ہے، کچھ لوگ اس کے اوپر گھر بنانے لگے ہیں، ہوٹل تعمیر کر رہے ہیں، کثیر منزلہ عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں یہ بری چیز ہے، یہ غلط بات ہے، آپ اسے جرم قراردیں۔ ایک بنیادی کام یہ ہے کہ ان چیزوں کو قانون میں جرم قرار دیا جائے، انہیں جرم سمجھا جانا چاہیے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ صرف جاکر چیک پوسٹ بنا دینا کافی نہیں ہے، بعض مواقع پر تو چیک پوسٹ بھی نہیں بنائی جاتی، غفلت اور کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے۔
اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ تہران کے پینے کے پانی کے ذخیرے کو تاراج کیا جائے، تہران کے ہوا اور سانس لینے کے راستوں پر تجاوز کیا جائے، ملک کے دار الحکومت اور اسلامی حکومت کے مرکز تہران میں زںدگی کے سرچشموں پر کچھ لوگ حملہ کریں۔ ان سے سختی کے ساتھ نمٹا جانا چاہیے۔ اگر محکموں کے اندر ایسے افراد ہیں جو کوتاہی کر رہے ہیں تو ان کے خلاف اور بھی سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ اساسی اور ضروری کاموں میں ہے۔ قدرتی ذخائر، بلدیہ، ماحولیات اور نگراں ادارے سب کے درمیان اس افسوس ناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے مکمل ہم آہنگی اور تعاون ہونا چاہیے۔ ماحولیات کی حفاظت اور ماحولیات کے تقاضوں کو پورا کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ بیشک عوام کا بھی اس میں اہم کردار اور نقش ہو سکتا ہے، عوام بھی اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، تعاون کر سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی ادارے پوری توجہ کے ساتھ اس مسئلے کو دیکھیں۔ اگر وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو عوام  بھی ان کی مدد کریں گے۔
سب سے پہلے تو ماحولیات کے مسائل کے لئے قومی دستاویز کی تدوین کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد تمام متعلقہ ادارے تعاون کریں جن کا ذکر ہم نے اس سے پہلے کیا کہ تمام اداروں کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔ اس کے بعد تمام تعمیراتی پروجیکٹوں کے لئے ماحولیات کے دستور العمل کا ضمیمہ۔ شہری و غیر شہری اور صنعتی تعمیراتی پروجیکٹوں اور دیگر منصوبوں کے ساتھ ماحولیاتی ہدایات کا ضمیمہ ضرور ہونا چاہیے۔ سڑک کی ضرورت ہے تو بنائيے، لیکن یہ طے ہونا چاہیے کہ ماحولیات پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ کارخانہ لگنا ہے تو لگے مگر جائزہ لے لیا جائے کہ ماحولیات پر اس کا کیا اثر پڑےگا۔ بعض تجارتی مسائل اور اقتصادی مسائل میں بھی ماحولیاتی ہدایات کا ضمیمہ ضروری ہے۔
ماحولیات کے سلسلے میں تخریبی اقدامات کو جرم قرار دینا۔ عدلیہ کی سطح پر اور اس سے پہلے پارلیمنٹ میں بننے والے قوانین میں اس نکتے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ البتہ قوانین موجود ہیں اور بڑے اچھے قوانین ہیں، لیکن ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کو جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ تعزیری جرم کے طور پر اس معاملے میں کارروائی ہونی چاہیے۔ موجودہ قوانین پر نظر ثانی اور ان میں اصلاح، اور نظارت کے نظام کو مضبوط اور قوی بناناچاہیے۔ نگرانی ہونی چاہیے، نگرانی کے عمل میں کسی طرح کی کوئی غفلت اور نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ اداروں کے افسران خود نگرانی کریں، ایک اعتبار سے ماحول سازی ان سب سے اہم ہے ۔ ماحول سازی ضروری ہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ماحولیات کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ عمل پرائمری اسکول سے ہی شروع ہو جانا چاہیے۔ نصاب کی کتب میں ہمیں اپنے بچوں کو چراگاہوں، جنگلات، پانی، ہوا، مٹی اور سمندروں وغیرہ کی حیاتی حیثیت کے بارے میں بتانا چاہیے۔ وہ بچپن سے اسے سمجھیں اور اس بارے میں حساس ہو جائیں۔ ماحولیات کی حفاظت عمومی کلچر کا حصہ ہونا چاہیے۔ البتہ اس مسئلے میں قومی میڈیا کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ قومی ذرائع ابلاغ کو چاہیے کہ اس مسئلے میں ضرور اپنا کردار ادا کرے۔ تاہم عوام بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک نمونہ تو میں نے خود مشہد کے مضافات میں واقع ٹھنڈے کوہستانی علاقے 'جاغرق' میں دیکھا ہے۔ ہمارے ایک پرانے دوست کے پاس تھوڑی سی زمین تھی جو اب بھی ہے۔ اوپر تھوڑا سا پانی تھا، کیتلی سے جو دھار نکتی ہے اس کی آدھی مقدار میں پانی ایک جگہ سے آتا تھا۔ اس پانی کو جمع کر لیا، اس کی حفاظت کی، اسے صحیح راستہ دیا تو اسی زمین میں اس پانی سے کئی حوض بن گئے۔ یہ زمین آباد ہو گئی، بڑے مختصر سے پانی کی مدد سے جو ضائع ہو جاتا تو کسی کو احساس بھی نہ ہوتا اور کسی کی نظر بھی نہ پڑتی۔ ہمارے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ یزد میں، جو ملک میں پانی کی قلت  والے علاقوں میں شمار ہوتا ہے، ایک صاحب نے ایک باغ دیکھنے کے لئے ہمیں بلایا، ایک جگہ تھی جہاں درخت اور کھیت وغیرہ تھے۔ ان صاحب نے ہم سے پوچھا کہ کیا آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس جگہ کے پانی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ ہم نے کہا ہاں؟ وہ صاحب ہمیں کافی دور لیکر گئے، شاید کئی کلومیٹر کے فاصلے پر، اب صحیح سے تمام تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ خیر ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ لوٹے کے نلکےسے نکلنے والے پانی کی مقدار میں مختصر سا پانی آ رہا ہے۔ ان صاحب نے اتنی محنت کی کہ اس پانی کی حفاظت کرتے ہوئے اس کے لئے راستہ بنایا اور اس پانی کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔ یعنی اس طرح کا جو پانی ہے اسے عوام اپنے اطراف کی جگہوں پر بہترین انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ شجرکاری بھی بہت اچھے کاموں میں سے ایک ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ لوگ درخت تو لگاتے ہیں لیکن صحیح طریقے سے اس کی نگہداشت نہیں ہوتی۔ شجرکاری تو رائج ہو گئی ہے لیکن جو درخت آپ نے لگایا ہے، ضروری ہے کہ اس کی حفاظت  کیجئے۔ یا لوگ خود نحفاظت کریں یا بلدیہ سے وابستہ ادارے یہ کام انجام دیں۔ بہرحال حفاظت کا کام ہونا چاہیے۔
تہران کے اطراف میں ایک جگہ ہے، میں یہ بات یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ تہران کے مشرقی حصے میں ایک بڑا باغ ہے۔ بابائی شاہراہ سے لیکر قوچک کے پہاڑوں تک بہت طویل و وسیع رقبے پر یہ باغ محیط ہے۔ یہ زمین فوج کی ہے۔ میں کبھی کبھی صبح کے وقت وہاں سے گزرتا ہوں اور پہاڑ پر جاتا ہوں، پیدل چلتا ہوں۔ میں جب بھی وہاں جاتا ہوں میرا دل لرزنے لگتا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ درجنوں حریص اور لالچي نگاہیں اس جگہ پر لگی ہوئی ہیں۔ وہاں کچھ کام بھی شروع کر دیا تھا مگر ہم نے رکوا دیا۔ ہم نے مخالفت کی، جھگڑا کیا۔ میں جانتا ہوں کہ وقتی طور پر وہ دست بردار ہو گئے ہیں۔ مگر اس انتظار میں ہیں کہ ذرا سی غفلت ہو یا یہ حقیر نہ رہے یا غفلت ہو جائے تو فورا پہنچیں اور اس جگہ کو ہڑپ لیں۔ حقیقت میں دل کانپ جاتا ہے۔ کئی سو ہیکڑ کے رقبے پر، مجھے صحیح نہیں معلوم ہے، اتنا وسیع و عریض باغ ہے۔ اصل میں یہ فوج کا تھا لیکن اب فوج کے استعمال میں نہیں ہے۔ فوج اور وزارت انٹیلیجنس کے درمیان اس پر اختلاف ہے۔ میرے خیال میں تو یہ جگہ عوام کی ہے۔ اسے ایک عمومی تفریح گاہ اور سیاحتی مقام کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ میں نے مختلف عہدیداروں کو بار بار پیغام دیئے۔ بلدیہ کو چاہیے کہ وہ اس جگہ کو اپنے قبضہ میں لے لےاور پھر عوام کے لئے کھول دے۔ مشرقی تہران میں بہت وسیع و عریض جگہ ہے، بہت اچھی، پرفضا اور درختوں سے بھری ہوئی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ میں نے ایک دفعہ اس جگہ پر دیکھا کہ ہرنوں یا پہاڑی بکریوں کا ایک جھنڈ نظر آ رہا تھا۔ ایک ایسی جگہ ہے۔ یہ جگہ عوام کے لئے کھول دی جانی چاہیے۔ لوگ جائیں، استفادہ کریں۔ اگر کوتاہی ہوئی تو یہ جگہ بھی دوسری جگہوں کی مانند ہو جائے گی۔ افسوس ہے کہ بعض جگہوں کے بارے میں غفلت اورکوتاہی ہوئي اور ہم نے دیکھا کہ ان جگہوں پر عمارتیں کھڑی ہو گئیں۔ بعض اداروں نے بھی غفلت کے تحت، یعنی کسی لالچ میں نہیں، بلکہ اپنے ادارے کے کارکنوں کے لئے زمین کا ایک حصہ مختص کر دیا۔ ملازمین نے وہ جگہ کسی اور کو فروخت کر دی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح کی بدنظمی زمینوں کے سلسلے میں اور بڑے شہروں کے سانس اور آکسیجن کے ان مراکز کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔
بہرحال یہ مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے، بہت اہم کام ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے ہمیشہ اور ہر سال گفتگو اور سفارش کی ہے۔ میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کر دیں کہ عوام آگاہ اور مطلع ہو جائیں اور فیصلہ کریں اور اس کی روشنی میں اداروں کو نمبر دیں۔ کس ادارے کو کتنا نمبر دینا چاہیے یہ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ فیصلہ کریں کہ کس ادارے نے ماحولیات کے بارے میں یہ اقدامات انجام دینے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کونسا ادارہ اس سلسلے میں ناکام رہا ہے۔
اللہ تعال کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ  آپ سب کو ان افراد میں قرار دے جو اس میدان میں خدمات انجام دینے میں کامیابی حاصل کریں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) سوره‌ رحمن، آیت ۱۰

2) توجہ کے بغیر
3) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌
۲۹ کا ایک حصہ
4) ڈاکٹر پرویز کردوانی‌
5) سوره‌ هود، آیت نمبر‌ 61 کا ایک حصہ
6) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌ 205 کا ایک حصہ
7) سوره‌ بقره، آیت نمبر‌ 205 کا ایک حصہ
8) سوره‌ نحل، آیات
۹الی ۱۳
9) جاپان کے کیوٹو شہر میں صنعتی ممالک کے درمیان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے سے متعلق معاہدہ جو زمین کی حدت بڑھنے کا اصلی سبب مانی جاتی ہیں۔
10) تہران میں نماز جمعہ کے خطبے بتاریخ 5 اپریل 2002
11) مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ کےزائرین اور خدام کے اجتماع سے خطاب؛ بتاریخ 21 مارچ 2011

12) بعض دیگر۔