ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا 29 بہمن کو تبریز کے تاریخی قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے خطاب

حسینیہ امام خمینی (رہ) میں انتیس بہمن سن 1356 ہجری شمسی کے قیام کی مناسبت سے سالگرہ (1)

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

سب سے پہلے میں اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں آپ طولانی سفر طے کرکے آج یہاں ہمارے اس حسینیہ (2) تشریف لائے ہیں اور اس کو اپنے اخلاص کے ذریعہ اور اپنی اس روحانیت و معنویت کے ذریعہ روشن اور منور کیاجو آذربائیجان اور تبریز کے عوام میں عام طور پر پائی جاتی ہے، میں تمام عزیزوں ،خاص طور پر شہداء کے عزیز اہل خانہ، ، جانبازوں ،ایثارگروں، علمائے کرام اور محترم عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ در حقیقت ہر سال 29 بہمن مطابق 18 فروری کا دن ہمارے لئے مبارک اور با برکت دن ہے۔ اس دن ہمیں یہ توفیق حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں اس حسینیہ میں کچھ عزیز نوجوانوں، عزیز و غیور عوام، صاحب ایمان عوام، ملک کی طویل تاریخ میں بار بار امتحانوں پر پورے اترنے والے عوام سے ملاقات اور زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے، یہ ہمارے لئے حقیقت میں بڑی مسرت بخش بات ہے۔ میں اس دن کو حقیقی معنی میں ایک مبارک دن سمجھتا ہوں۔ بحمد اللہ یہ مجلس جوش و جذبے اور گہرے معانی و مفاہیم سے معمور مجلس ہے۔ جیسا کہ آپ نے اس خوبصورت اور دلکش ترانے میں بیان کیا «آماده جوانلار، آزاده جوانلار»؛(3) میں بھی حقیقت میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ آپ کے اس ترانے میں ایک جملہ تھا کہ «شیطان بیزه ال تاپماز»؛(4) حقیقت میں ایسا ہی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آذربائيجان اور تبریز کے ماضی کے گوناگوں واقعات اور عجیب و غریب نشیب و فراز کے بارے میں جو کچھ اذہان میں ہے اس سے اس حقیقت کی تصدیق اور تائید ہوتی ہے۔ جناب شبستری صاحب کا بھی حقیقت میں شکر گزار ہوں، ان کا وجود تبریز کے عوام کے لئے برکت اور سعادت کا باعث ہے، ان کے لئےایک نعمت ہے۔ بیشک ایک فرض شناس، صاحب بصیرت، انقلابی عناصر کے قدرداں عالم دین کا وجود ہر شہر کے لئے خاص طور پر تبریز جیسے شہر اور آذربائیجان جیسے صوبے کے لئے سنہرا موقع ہے، مجھے امید ہے کہ اس موقع سے مکمل طور پر اور کما حقہ استفادہ کیا جائے گا، انشاء اللہ۔
میں نے اب تک آذربائیجان اور تبریز کی تعریف اور فضیلت کے بارے میں بہت سے مطالب پیش کئے ہیں اور حقیقت میں ان باتوں پر میں تہہ دل سے یقین بھی رکھتا ہوں۔ بس ایک جملہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ آذربائیجان  اور تبریز کے عوام نے ثابت کر دیا کہ وہ پیشقدم بھی ہیں،اور وہ موقع شناس بھی ہیں، بر وقت عمل اور اقدام کرتے ہیں، دلیر اور شجاع بھی ہیں چنانچہ مشکلات سے کبھی خائف نہیں ہوتے اور ساتھ ہی حقیقی معنی میں وہ مؤمن اور صاحب ایمان بھی ہیں۔ یہ حقائق ایسےہے کہ ان کی تصدیق ہر وہ شخص کرے گا جو آذربائیجان کی تاریخ سے واقف اور آشنا ہے ، چاہےانقلاب مشروطیت سے متعلق واقعات ہوں، چاہےاس سے قبل تنباکو کے بائیکاٹ اور برطانوی کمپنی کے خلاف محاذ سنبھالے کا مسئلہ ہو، چاہے اس کے بعد قومی تحریک اور بعد کے واقعات ہوں یعنی سنہ 1330 و 31 ہجری شمسی  کے واقعات ہوں، چاہےاسلامی تحریک سے متعلق واقعات ہوں، چاہے اسلامی انقلاب کی کامیابی و کامرانی سے متعلق واقعات ہوں، ان تمام واقعات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں  کہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام نے ان واقعات میں بروقت اقدام کیا اور دوسروں سے پہلے میدان میں وارد ہوئے، وہ تمام واقعات میں پیشقدم اور پیش پیش رہے۔ شجاعت و دلیری کا بھی شاندارمظاہرہ کیا اور حقیقی معنی میں پیر و جواں، مرد و عورت سب نے اسلامی ایمان اور مذہبی ایمان کو معیار قراردیا ۔ یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی فتح اور کامیابی کے بعد بھی اب تک جاری ہے۔ وہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کا زمانہ، وہ قابل فخر عاشورا لشکر، شہید باکری جیسے روحانیت و معنویت سے سرشار عظیم کمانڈر، اسی طرح کےدوسرے واقعات، 30 دسمبر 2009 عیسوی مطابق نہم دی 1388 ہجی شمسی کا عظیم کارنامہ جو نہم دی مطابق تیس دسمبر کو رونما ہوا لیکن تبریز میں یہی واقعہ آٹھ دی مطابق انتیس دسمبر کو انجام دیا گیا۔ ان چیزوں میں خاص معنی و مفہوم ہے۔ یہ علامتیں ہیں، یہ نشانیاں ہیں۔ میں یہ باتیں آپ کو خوش کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ پتہ چلے کہ ہمارے عزیز وطن کا یہ خطہ، کیسی عظیم صلاحیتوں کا مالک ہے۔ اس نظام کو، اسلامی انقلاب کو ابھی طویل سفر طے کرنا ہے۔ اور یہ سارے اوصاف و خصوصیات اس طولانی سفر میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایرانی عوام نے انتیس بہمن سن 1356 ہجری شمسی مطابق اٹھارہ فروری سنہ 1978 کو میدان میں اتر کر جو کام انجام دیا وہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے کارنامہ سے مشابہت رکھتا تھا جنہوں نے عاشورا کے واقعہ کو فراموش نہیں ہونے دیا۔ انتیس بہمن مطابق  18 فروری سنہ 1978 کو تبریز کے عوام نے عظیم واقعہ کو فراموش ہونے سے بچایا، ورنہ منصوبہ یہ تھا کہ قم میں انجام پانے والا قتل عام اور عوام کا کارنامہ ہمیشہ کے لئے فراموش ہو جائے۔ لیکن تبریز کے عوام نے ایسانہیں ہونے دیا۔ میں اس بات کو کبھی فراموش نہیں کروں گا کہ اس زمانے میں یہ خبریں آرہی تھیں کہ ظالم و جابر اور طاغوتی شاہی حکومت نے اعلی فوجی افسرون کو تبریز بھیجا ہے تاکہ وہ عوام کے مظاہروں کو بند کروائیں۔ لیکن تبریو کےعوام نے انتیس بہمن مطابق  18 فروری کا عظیم کارنامہ انجام دیا اور یہ آج تک زندہ ہے۔ اور اس دن کی خاص اہمیت کی وجہ سے ہی میں آپ سے ملاقات کے سلسلے میں اتنی تاکید کرتا ہوں۔
کام عوام کے ہاتھ میں رہے، میدان عوام کے ہاتھ میں رہے، خلاقیت اور اقدام عوام کے پاس رہے  یہ حضرت امام خمینی (رہ) کے ہنر کا نتیجہ تھا، یہ حضرت  امام خمینی (رہ) کا کرشمہ تھا۔ حضرت امام خمینی (رہ) نے میدان ان کے ہاتھوں میں دیا جو اصلی مالک ہیں، ظاہر ہے ملک کے مالک موجود ہیں۔ طاغوتی شاہی دور میں کہتے تھے کہ ملک کا ایک مالک ہے؟ ملک کا مالک کون تھا؟ شاہ۔ جبکہ وہ ملک میں ایک سپاہی اور ایک اضافی فرد سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ وہ ملک کا مالک نہیں تھا، ملک کے مالک تو عوام ہیں۔ بیشک ملک کا مالک ہے، لیکن ملک کا مالک کون ہے؟ ملک کےمالک عوام ہیں۔ جب کام خود عوام کے ہاتھوں میں سونپ دیا جاتا ہے جو ملک کے مالک ہیں، مستقبل کے مالک ہیں، تو پھر سارے کام صحیح اور درست طریقہ سے انجام پذیر ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اندر ہر دور میں حکام کی یہ مدبرانہ کوشش ہونی چاہیے کہ کاموں کو مناسب تدابیر کے ساتھ، صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ، تمام باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کے حوالے کر دیں۔ پھر سارے کام آگے بڑھیں گے۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک ہم نے جو کام بھی عوام کے حوالے کیا ہے، وہ بہترین انداز میں انجام پایا ہے، جو کام بھی حکام اور سربراہوں کے حوالے کیا وہ کام رہ گیا متوقف ہوگيا اور انجام تک نہیں پہنچا ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ کام ہمیشہ متوقف ہی رہا، لیکن اکثر و بیشتر یا تو رک گیا یا سست روی کا شکار ہوگیا۔ اگر پوری طرح متوقف نہیں ہوا تو کندی کا ضرور شکار ہوا۔ مگر جو کام بھی عوام کے حوالے کیا گیا، عوام نے اسےبہترین انداز میں انجام دیاہے۔
یہ چیزیں صرف ہم سے مخصوص نہیں ہیں، یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ معاملہ صرف ہم ایرانیوں تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کی کسی بھی جگہ اگر کوئی بڑا کام عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور عوام بھی ہدف کےمطابق کام کر رہے ہوں، یعنی ایسے لوگ نہیں ہیں جو بغیر ہدف اور زندگی کے امور میں سرگرداں اور روز مرہ کے ذاتی کاموں میں الجھے رہتے ہیں نہیں بلکہ ایسے عوام جن کے پیش نظر ہدف ہو ، تو وہ کیسا ہی کام ہو، کتنا ہی دشوار کام ہو، اہم دفاعی کام ہو، سکیورٹی سے متعلق امور ہوں، جب عوام کا ہاتھ لگ جاتا ہے، میدان جب عوام کے اختیار میں آجاتا ہے تو پھر وہ کام آگے بڑھتا ہے۔ آپ ذرا دیکھئے اور غور کیجئے، دس سال سے بھی کم وقت میں لبنان کی مزاحمتی فورس نے جلاد صیہونی جرار (5)فوج کو کتنی دفعہ شکست سے دوچار کیا۔ پہلے لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورس نے اور پھر فلسطین کے مزاحمتی محاذ نے۔ لبنان کی مزاحمتی فورس نے پہلے تو صہیونیوں کو جنوبی لبنان سے نکلنے پر مجبور کردیا، اس کے بعد 33 روزہ جنگ میں صہیونیوں کی ناک زمین پر رگڑ دی ، امریکہ نے صہیونیوں کی مدد کی، اندرونی خیانتکار افراد نے بھی مدد کی لیکن مزاحمتی فورس نے جو عوامی صفوں سے نکلی ہے، جو زیور ایمان سے آراستہ ہے، جو ہدف کے ساتھ کام کرتی ہے اور جو مکمل ادراک کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، ان سب کو میدان میں میں شکست و ناکامی سے دوچار کردیا۔ حال ہی میں مزاحمتی فورس نے صہیونی فوج پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس کے زخم ابھی تازہ ہیں، جسے ابھی کوئی بھولا نہیں ہے۔ فلسطینی مزاحمتی محاذ بھی اسی طرح 22 روزہ جنگ میں، 8 روزہ جنگ میں اور گزشتہ موسم گرما میں ہونے والی 51 روزہ جنگ غزہ میں محدود طاقت اور تھوڑے سے ہتھیاروں کی مدد سے تھوڑی سی تعداد میں لوگوں نے ایک محدود علاقے کے اندر صہیونی حملہ آور فوج کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ، اسے ایسا رسوا کیا کہ وہ جنگ بندی کے لئے مجبور ہوگئی۔ عراق میں حالیہ دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے انہیں آپ نے دیکھا، جو لوگ امریکہ، صہیونیوں اور دوسروں کے مکر و فریب میں آ گئے تھے، وہ بغداد کے قریب تک پہنچ گئے، لیکن عراق کی مجاہد عوامی فورسز ملک کی فوج کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر انھوں نےداعش سے موسوم عناصر پر کاری ضرب وارد کی۔ شام میں بھی یہی ہوا، عوامی فورسز نے اپنی فوج کی مدد کی۔ بامقصد عوام ایسے ہوتے ہیں ، جب بھی میدان عوام کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے، عوامی جوش و جذبہ اور عوام کے اندر موجود گوناگوں اور بے پناہ توانائیاں، کاموں کو بہترین انداز میں انجام دیتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہی 22 بہمن مطابق 11 فروری کی تاریخ ہے۔
حقیقت میں میری زبان اپنے عزیز عوام اور عظیم الشان ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرنے اور اس سال 22 بہمن کے جشن میں عوامی شرکت کی تعریف اور توصیف کرنے سے قاصر ہے۔ مجھے جو صحیح رپورٹیں ملی ہیں، اور جنہیں صحیح اور ٹھیک طورپر تیار کیا جاتا ہے، تقریبا تمام صوبائی مراکز میں، کم سے کم ایک ہزار شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں ۔ جو اندازہ لگایا گيا اس کے مطابق تقریبا تمام صوبائی مراکز میں اس سال ریلیوں میں عوام کی شرکت گزشتہ سال کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ تقریبا سارے ہی شہروں کا یہی حال تھا۔ بعض شہروں میں عوام شدید سردی، برفباری اور بارش کے باوجود سڑکوں پر نکل آئے اور ریلیوں میں شریک ہوئے۔ اہواز جیسے شہروں میں گرد و غبار کے طوفان کے باوجود لوگ ریلیوں میں شریک ہوئے۔ یہ کوئی مذاق کی بات ہے؟ اسلامی انقلاب کو 36 سال ہوگئے ہیں؟ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ عوام کے ذریعہ اس پرشکوہ انداز میں انقلاب کا جشن منایا جاتا ہو؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کام عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جب کام عوام کے حوالے کردیا جاتا ہے تو وہ اسی انداز سے عمل کرتے ہیں۔ یہ ایک کلی قاعدہ ہے۔ جہاں بھی ملک کےچھوٹے بڑے مسائل میں عوام کی شرکت ہوئی وہاں ہم نے یہی معجزہ دیکھا ہے۔
میں آج اقتصاد اور معیشت کے بارے میں تھوڑی گفتگو کرنا چاہتا ہوں؛ ملکی معیشت کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کئی سال سے میں نئے سال کے آغاز پر اقتصادی امور پر تاکید کرتا آرہا ہوں، ان پر خاص توجہ دیتا ہوں، یہ ملک بہت بڑا ملک ہے، بہت وسیع و عریض ملک ہے، بڑی آبادی والا ملک ہے، اس ملک کے اندر سات کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ایک بہت بڑا بازار ہے، ان چیزوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، یہ بہت باعظمت چیزیں ہیں۔ آپ ایک نظر ہمارے پاس موجود ان توانائیوں اور وسائل پر ڈالئے ۔ ہماری افرادی قوت کو جس میں اس ملک کے نوجوانوں کی عظیم تعداد شامل ہے، جو مہارت رکھتے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، جوش و جذبے سے سرشار ہیں، کام کرنےکے لئے آمادہ ہیں، اسی طرح ہمارے پاس قدرتی وسائل کو بھی آپ دیکھئے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے سامنے اقتصادی مشکلات ہیں۔ تو مشکل کہاں پرہے؟ راہ حل کیا ہے؟ کیا کرنا چاہیے؟
میں یہ بات آپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد یعنی سنہ 1367 (ہجری شمسی مطابق 1988 عیسوی) سے جب آٹھ سالہ دفاع مقدس ختم ہوا تو سامراجی طاقتوں کی ایک عام سازش آمادہ ہو چکی تھی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو علاقے کی مؤثر اقتصادی طاقت نہ بننے دیا جائے۔ اس کے لئے انہوں نے محنت اور جد وجہد کی، انھوں نےباقاعدہ اس مسئلے پر کام کیا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو ہم نے ملک کے اقتصادی مسائل اور ترقی کے لئے منصوبہ بندی کا سلسلہ شروع کیا، ہم منصوبوں میں مصروف ہو گئے۔ ان طاقتوں نے  درک کرلیا کہ اگر ایران کا راستہ نہ روکا گیا، اگر اس کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی گئیں، اگر مداخلت نہ کی گئي، اگر خلل ایجاد نہ کیا گیا تو ایران اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کی مدد سے ،اسلام پر تکیہ کرکے، عوام کے تعاون سے ایک علاقائی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو جائے گا اور علاقے اور دنیا کی معیشت پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے ، ظاہر ہے اس دور میں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا سایہ ہمارے سروں پر تھا، آپ کی حیات مبارکہ کا زمانہ تھا، ۔ لہذا منصوبہ بندی کی گئی کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ یہ چیزیں ایٹمی مسئلے سے متعلق نہیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ایٹمی مسئلہ تو دس سال بارہ سال سے سامنے آیاہے، یہ باتیں ایٹمی معاملے کے پیش آنے سے پہلے کی ہیں۔ یہ سنہ اٹھاسی نواسی کی باتیں ہیں جب ایٹمی مسائل کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ ہمارے دشمنوں نے اسی زمانے سے اپنا کام شروع کر دیا تھا۔ جو باخبر افراد ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایران کو حاشیہ پر ڈالنے، تیل اور گیس کی پائپ لائن کے معاملے میں ایران کو محروم کرنے، زمینی، فضائی اور بحری راستوں کے معاملے میں ایران کو پیچھے دھکیل دینے، مواصلاتی ٹیکنالوجی کے نیٹ ورک سے ایران کو دور رکھنے کے لئے مغربی طاقتوں اور خاص طور پر امریکہ کی منصوبہ بندی بڑی خاموشی سے شروع ہو گئی، ایک طرح کی پابندی کا آغاز ہو گیا تھا۔ ایران جب بھی کوئی اہم اقتصادی پروجیکٹ آگے بڑھانا چاہتاتھا تو دوسرے فریقوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔ یہ ساری چیزیں ایران کے سلسلے میں رونما ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے افراد نادانی و جہالت میں یہ نہ کہیں اور اس تصور  میں نہ رہیں کہ کسی نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے، بہت محنت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دشمن نے منصوبے کے تحت کام کیا ہے اور آج تک وہ اپنا منصوبہ ایک ایک قدم کرکے آگے بڑھا رہا ہے اور اس پر عمل کر رہا ہے۔ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ملک کی داخلی کاوشوں اور دشمن کی معاندانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے۔ دشمن کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دشمن نے اقتصادی میدان میں اہم سازشیں کیں، بعض مواقع پر اس نے آشکارا اقدام کیا اور بعض مواقع پر اعلان کے بغیر اقدامات انجام دیئے لیکن با خبر لوگ سمجھتے تھے کہ دشمن کیا کر رہا ہے، دشمن کون ہے؟ دشمن امریکہ اور اس کے نقش قدم پر چلنے والی بعض یورپی حکومتیں ہیں۔ تو یہ چیزیں آج کی نہیں ہیں۔
خوب،  اس کا علاج کیا ہے؟ یہ تو واضح ہے،کہ دشمن تو عداوت اور دشمنی ہی کرے گا، کیا ہم دشمن سے کوئی امیدلگا سکتے ہیں؟ نہیں، دشمن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے، دشمن سے گلہ و شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیا ہمیں امریکہ سے گلہ و شکوہ ہے؟ ۔ ہرگز نہیں۔ انسان گلہ و شکوہ دوست سے کرتا ہے۔ دشمن کی تو فطرت ہی معاندانہ اقدامات کرنا ہے۔ تو راہ حل کیا ہے؟ راہ حل یہ ہے کہ قوم اندرونی طور پر محنت کرے، ایسے اقدامات انجام دے کہ دشمن کا حتمی اور یقینی وار ناکام اور غیر مؤثر ہوجائے، یا اس کا اثر بہت محدود ہو جائے۔ یہ ہے راہ حل۔ میرے عزیزو! میرے نوجوانو! اس بات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
ہمارے اقتصاد اور ہماری معیشت میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ ہمارا اقتصاد اور ہماری معیشت تیل پر منحصر ہے، دوسری خامی یہ ہے کہ ہماری معیشت حکومتی معیشت پر مبنی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ دو بڑی خامیاں ہیں۔ ہماری معیشت تیل پر منحصر معیشت ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیل کو جو ہمارا پائدار سرمایہ ہے اور جس کے اندر کئی گنا اضافی ارزش اور قدر و قیمت کی گنجائش موجود ہے، اسے زمین کے نیچے سے باہر نکالیں اور اسے خام ہی دنیا کو فروخت کر دیں، اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے کو ملک کے اخراجات پر صرف کریں۔ اس سے بڑا نقصان اور گھاٹے کا سودا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ تیل پر منحصر اقتصاد اور معیشت ایسی ہی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے تیل کو مختلف مصنوعات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہےکہ بعض سائنسی تحقیقات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہی خام تیل جسے ہم پٹرول، ڈیزل، کیروسن وغیرہ میں تبدیل کرکے استعمال کرتے ہیں، ان چیزوں کے بجائے اسی خام تیل سے وہ مصنوعات تیار کرکے جو اب تک انسان نے تیار نہیں کی ہیں، تیل کی افزودہ ارزش میں سو گنا کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم ان چیزوں سے غافل ہیں۔ خام تیل کو کنوؤں کے اندر سے باہر نکالیں، اس سرمائے کو، ایسے سرمائے کو جو زمین کے اندر دوبارہ پیدا نہیں ہوتا، ان چیزوں میں ہے جو ختم ہو جانے والی ہیں، جنہیں دوبارہ نہیں پیدا کیا جا سکتا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نکال لیتے ہیں، اس کی جگہ دوبارہ پر ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہے، جب ہم نے تیل کو باہر نکالا تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔ تیل اس طرح کی چیز ہے۔ گیس اسی طرح کی چیز ہے۔ ہم اسے فروخت کریں اور اس سے ملنے والے پیسے کو ملک کے اخراجات پر صرف کردیں، اس سے بری صورت کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ یہ گزشتہ طاغوتی حکومت کا منحوس ورثہ ہے۔ یہ پیسہ کمانے کا بہت آسان طریقہ ہے۔ مختلف ادوار میں بعض حکام نے اسی آسان راستے سے پیسہ حاصل کرنے کو ترجیح دی۔ تو یہ ایک خامی ہے۔
دوسری خامی اقتصاد کا حکومتی ہونا ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا اور یہ ان مسائل میں ہے، جسے ہم وجود میں لائے ہیں،اسے دوسروں نے ہم پر مسلط نہیں کیا ہے، انقلاب کے اوائل میں جو طرز فکر موجود تھا اس کی بنیاد پر ہم نے معیشت کو حکومت کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ اب لاکھ کوششیں ہو رہی ہیں کہ اقتصاد و معیشت عوام کے ہاتھوں میں منتقل ہو جائے، اسے عوام کو سونپ دیا جائے، ایسی درست منصوبہ بندی کے ساتھ حوالے کیا جائے جس میں انصاف و مساوات کے تقاضے پورے ہوں، مگر معاملہ صحیح انداز میں انجام نہیں پا رہا ہے، بہت دشوار ہے۔ ہم نے آرٹیکل 44 سے متعلق کلی پالیسیوں کا حکمنامہ جاری کیا، اس کا مقصد یہ تھا کہ معیشت کو حکومتی اقتصاد سے باہر نکالا جائے۔ میں نے اسی حسینیہ کی اوپری منزل میں اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں کے اجلاس میں تشریح کی تھی کہ ہمیں زر مبادلہ کی کس مقدار میں احتیاج ہے اور یہ مقدار اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہم یہ کام انجام نہیں دیتے۔ آرٹیکل 44 پر ان پالیسیوں کے مطابق عمل ہونا چاہیے (6) جن کا ہم حکمنامہ جاری کر چکے ہیں،یہ کام انجام دیا جانا چاہیے۔
میں نے اس سال، گزشتہ سال، اس سے پہلے والے سالوں میں، اقتصاد اور معیشت کے بارے میں گفتگو کی۔ حقیقت میں حکام بھی محنت اور لگن سے کام کر رہے ہیں۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ محنت سے کام کیا جا رہا ہے۔ ان حالیہ برسوں میں محنت کی گئی ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کوششوں اور اقدامات میں ایک نئی جان ڈالنے اور نئی روح پھونکنے کی ضرورت ہے۔
آج انتیس بہمن "مطابق 18 فروری" ہے۔ گزشتہ سال 29 بہمن کو ہم نے مختلف اداروں کو مزاحمتی اور پائدار معیشت کی کلی پالیسیوں کا حکمنامہ جاری کیا تھا۔ آج ایک سال پورا ہو گیا۔ مزاحمتی معیشت ملک کے لئے بہت ضروری ہے۔ پابندیاں عائد رہیں تب بھی مزاحمتی معیشت ضروری ہے اور پابندیاں ہٹ جائیں تب بھی یہ لازمی ہے۔ جس زمانے میں اس ملک پر کوئی پابندی نہ لگی ہو تب بھی مزاحمتی معیشت اس ملک کی اہم ضرورت ہوگی۔ مزاحمتی معیشت اور اقتصاد کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملکی اقتصاد اور معیشت کی عمارت کو اس طرح تعمیر کریں کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے حوادث اور زلزلے اسے متاثر نہ کر سکیں۔ کسی دن تیل کی قیمت سو ڈالر سے پینتالیس ڈالر پرآجائے تو ہم غم و سوگ منانے پر مجبور نہ ہوں، کسی دن امریکیوں نے دھمکی دے دی کہ ہم فلاں اور فلاں چیزوں پر پابندی عائد کر دیں گے یا وہ پابندی عائد کر دیں تو ہمارے یہاں فرش ماتم نہ بچھ جائے۔ ہم یہ سوگ منانے پر مجبور نہ ہوں کہ یورپی ممالک نے ہمارے جہاز رانی کے شعبہ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اگر ملک میں مزاحمتی اقتصاد و معیشت ہوگی تو عالمی سطح کے یہ زلزلے اور حوادث عوام کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گے۔ مضبوط و پائدار مزاحمتی معیشت کا یہی مطلب ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک کے اندر اقتصادی عمارت ایسی ہو کہ افرادی قوت کو اس میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے، حقیقی معنی میں ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس کے لئے درست منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ملکی معیشت کی عمارت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ میں ابھی اس سلسلے میں کچھ مزید باتیں عرض کروں گا جن پر عمل کیا جانا چاہیے۔ ملک کے حکام کی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ملکی اقتصاد اور معیشت اس سمت میں جائے۔ اگر یہ ہو گيا تو خوشحالی نظر آئے گي، اگر یہ ہو گيا تو دشمن کی دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کر پائیں گی، پابندیوں کا نام سن کر ہم پر لرزہ طاری نہیں ہوگا۔ تیل کی قیمت گر جانے کا ہم سوگ نہیں منائیں گے۔ اسے مزاحمتی معیشت کہتے ہیں۔ مزاحمتی معیشت کا بنیادی طور پر انحصار اور تکیہ عوام پر اور قومی پیداوار پر ہے۔
ملکی اقتصاد اور معیشت میں ایک اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سالانہ بجٹ کا انحصار تیل پر بالکل ختم ہونا چاہیے۔ البتہ جو باتیں میں یہاں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور بار بار یاد دلاتا رہا ہوں، ان کا کہنا تو آسان ہے، ان کو عملی جامہ پہنانا کافی مشکل کام ہے۔ میں خود بھی کئی برسوں تک  اجرائی کاموں میں مشغول رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اجرائی امور بہت دشوار ہوتے ہیں، البتہ میرا نظریہ یہ ہے کہ ان سخت کاموں کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ دشوار کاموں کو عملی جامہ پہنانا درحقیقت لفظوں میں کسی بات کو بیان کرنے سے زیادہ مشکل اور سخت ہوتا ہے لیکن اگر ہمت سے کام لیا جائے، عوام پر بھروسہ کیا جائے، نوجوانوں کی خدمات حاصل کی جائیں، اندرونی سرمائے سے استفادہ کیا جائے، اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر توکل کیا جائے جس نے نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے تو اسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ ایک اور کام جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ مالی بجٹ، داخلی پیداوار کی بنیاد پر تیار کیا جائے، یعنی اس پیسے پر تیار کیا جائے جو عوام کی پیداواری سرگرمیوں سے اور ان کے ذریعے ادا کئے گئے ٹیکس سے حاصل ہوا ہے۔ ٹیکس کے بارے میں بھی کچھ باتیں پیش کروں گا۔

میرے عزیزو! ٹیکس کی ادائیگی ایک فریضہ ہے۔ ہم آج غریبوں اور کمزور لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے ہیں، ملازمت پیشہ افراد سے ٹیکس لے رہے ہیں، مزدوروں سے ٹیکس لے رہے ہیں، دوکانداروں سے ٹیکس لے رہے ہیں، لیکن بڑے بڑے سرمایہ دار ہیں جن سے ہم ٹیکس وصول نہیں کرسکتے، مالدار اور سرمایہ دار لوگ ہمیشہ ٹیکس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ جرم ہے۔ ٹیکس سے بھاگنا جرم ہے۔ جو بھی حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتا، جو شخص حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ جرم کا ارتکاب کررہا ہے اسے حکومت کو ٹیکس دینا چاہیے کیونکہ حکومت نے اس کے کام کے لئے ایسی با برکت فضا اور ایسا با برکت ماحول پیدا کیا ہے جس میں اس نے آرام کے ساتھ کام کیا اور سرمایہ جمع کیا ہے۔

اس نے جو پیسہ کمایا ہے، اس فضا اور ماحول کی برکت سے ہے جو حکومت نے قائم کر رکھا ہے، یہ سرمایہ حکومت کی محنتوں اور کاموں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، تو اسے ٹیکس ادا کرنا چاہیے، اب اگر وہ ٹیکس ادا نہیں کرتا تو در حقیقت وہ ملک کو تیل کی آمدنی سے وابستہ کر رہا ہے۔ جب ملک تیل کی آمدنی سے وابستہ ہو گیا تو یہی مشکلات پیش آتی رہیں گی ۔ کبھی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، کبھی تیل کی قیمت گرا دی جاتی ہے، کبھی آنکھ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، ملک اس حالت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ تو ٹیکس کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ ٹیکس کے شعبہ کے حکام منصوبہ بندی کر رہے ہیں، بڑے اچھے اقدامات انجام دے رہے ہیں۔ یہ کام جلدی ہو جانا چاہیے، اس پرعملدرآمد شروع ہو جانا چاہیے۔ اس طرح ملک کا بجٹ اور حکومت چلانے کا خرچہ عوام کی اپنی اندرونی آمدنی سے نکل آئے گا۔ یعنی اسی ٹیکس کی رقم سے حکومت کا خرچہ نکل آئے گا، ٹیکس کا رابطہ پیداواری سرگرمیوں اور تجارت سے ہے۔
ایک اور اہم نکتہ پیداوار کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ہے جو آج کل کی رائج اصطلاح ہے۔ میں فارسی زبان میں دو کلموں میں اس کی تشریح یوں کرتا ہوں کہ ہمارے سرمایہ کار اور اقتصادی مراکز اضافی اخراجات کا سد باب کرکے پیداوار پر آنے والے خرچ کو کم کریں اور اس کے معیار کو بہتر بنائیں۔ اسے کہتے ہیں بہتر بنانا۔ البتہ پیداوار پر آنے والے اخراجات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جو سرمایہ کاروں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر افراط زر کی شرح بڑھ گئی ہو اور مزدوری بڑھ گئی ہو، خام مال مہنگا ہو گیا ہو، کسی حد تک یہ چیزیں بھی مؤثر ہیں لیکن کسی حد تک چیزوں کی تباہی و بربادی بھی ہے، اسراف بھی ہے، بیجا اخراجات بھی ہیں، ان چیزوں کا سد باب کرنا چاہیے۔
ایک اور اہم مسئلہ داخلی توانائيوں اور صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کا مسئلہ ہے۔ ہمارا ملک بڑے حساس علاقے میں واقع ہے۔ ہمارے بہت سے ہمسایہ ممالک ہیں، ایک طرف سمندر ہے، دوسری طرف بھی سمندر ہے۔ ساری دنیا تک رسائی کا راستہ ہے۔ اگر آپ نقشے کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ ہمارا ملک حساس زمینی اور فضائی چوراہے پر واقع ہے۔ بین الاقوامی سمندروں تک پہنچ رکھتا ہے، یہ چیزیں بہت اہم مواقع میں شمار ہوتی ہیں۔ ان وسائل اور مواقع کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ منصوبہ بندی کی جائے، ان مواقع کا بہترین طریقہ سےاستعمال اور استفادہ  کرنے کے بارے میں غور و فکر کرنی چاہیے۔
ایک اور اہم مسئلہ، داخلی مصنوعات اور اشیاء کے استعمال کا مسئلہ ہے جس کا بہت زیادہ تعلق عوام سے ہے۔ میں نے سال کے آغاز کی اپنی تقاریر اور دوسری تقریروں میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے اور ایک بار پھر اعادہ کرتا ہوں کہ عوام داخلی اشیاء کا استعمال کریں۔ ٹریڈ مارک کے پیچھے نہ جائیں۔ آج کل فیشن ہے برانڈ کا کہ فلاں برانڈ ہے، برانڈ کیسا، آپ ملک کے اندر تیار ہونے والی اشیاء کو استعمال کیجئے۔ جن چیزوں کا ایرانی متبادل موجود ہے، عوام کو چاہیے کہ خاص قوم پرستانہ جذبے کے ساتھ ایرانی متبادل چیزوں کا استعمال کریں، درآمداتی چیز کو ترک کر دیں۔ یہ بات میں کسی خاص صنف اور طبقے کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں۔ جب ہم کوئی بات کہتے ہیں تو کچھ مذہبی افراد فورا اس پر عمل کرتے ہیں، ایک دوسرے کو پیغام دیتے ہیں کہ فلاں چیز خریدیں اور فلاں چیز نہ خریدیں۔ میں یہ بات صرف دیندار افراد اور ان لوگوں سے نہیں کہہ رہا ہوں جو ہماری بات کو شرعی حجت سمجھتے ہیں۔ میں یہ بات ہر اس شخص کے لئے بیان کر رہا ہوں جو ایران سے محبت، الفت اور لگاؤ رکھتا ہے، جسے ملک کے مستقبل کی فکر ہے، جسے اپنے بچوں کی فکر ہے جو آئندہ  اسی ملک میں زندگی بسر کریں گے۔ جب آپ غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں تو در حقیقت غیر ملکی سرمایہ کار، غیر ملکی اقتصادی مرکز اور غیر ملکی مزدور کی طاقت اور وسعت میں مسلسل اضافہ کرتے ہیں اور داخلی پیداوار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بات میں تمام افراد سے خاص طور پر ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو بڑے پیمانے پر چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کے افراد بھی اسی طرح سے خاص خیال رکھیں، حکومتی اداروں کی عمارتوں میں استعمال کی چیزوں میں ہمیشہ داخلی مصنوعات کو فوقیت اور ترجیح دیں۔
اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب بھی ایک اہم فصل ہے۔ اسراف سے پرہیز، مال کا ضیاع، عمومی املاک کا ضیاع ، پانی کا ضیاع، روٹی کا ضیاع ، مٹی کا ضیاع۔ مٹی بھی ایک دولت ہے، پانی بھی سرمایہ ہے، روٹی بڑی قیمتی شئ ہے۔ سب خیال رکھیں، سب متوجہ رہیں، ذمہ داری کا احساس کریں، ان چیزوں کو ضائع اور برباد نہ کریں۔
دانش و تعلیم محور کمپنیاں ؛ میں دانش محور اور علم محور کمپنیوں پر یقین رکھتا ہوں ۔ آج ہمارے پاس بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں، ہائي اسکول کے بچوں نے ایک دو ہفتہ قبل اسی حسینیہ میں ایک نمائش کا اہتمام کیا (7)۔ یہاں انہوں نے لاکر واقعی عجیب و غریب اور حیرت انگیز چیزیں ہمیں دکھائیں، اکثر نوجوان، ہائی اسکول کے طلبہ تھے! یہ طلبہ ہمارا سرمایہ ہیں، یہ ہماری ثروت اور دولت ہیں۔ دانش محور کمپنیاں قائم ہوں۔ دانش محور کمپنیاں صرف صنعتی میدان تک محدود نہیں ہیں۔ صنعت کے شعبے میں، زراعت کے شعبے میں، سروسز کے شعبے میں، ضرورتوں کی نشاندہی کے لئے جمع ہوں، غور کریں، گوناگوں اقتصادی مراکز کو کن چیزوں کی ضرورت ہے، کہاں پر خامیاں ہیں، ان کا احاطہ کریں۔ ان میدانوں میں بھی دان و علم محور کمپنیاں کام کر سکتی ہیں۔ اشیاء کی اسمگلنگ اور کالا بازاری کا سد باب ملکی معیشت کے حوالے سے بہت اہم اور ضروری ہے۔ بینکنگ کے نظام میں نادہندگی کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے، کچھ لوگ ہیں جو بینکوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات کا ناجائز اور غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ قرضہ کسی کام کے لئے لیتے ہیں اور اسے خرچ کسی اور کام پر کرتے ہیں جو ملکی مفاد میں نہیں ہے، پھر بینکوں سے لیا گيا قرضہ لوٹاتے بھی نہیں۔ یہ لوگ حقیقت میں مجرم ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو بھی بینک کا مقروض ہے وہ مجرم ہے۔ نہیں، ممکن ہے کوئی شخص بینک کا مقروض ہو، لیکن وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ اس کی مزید مدد کی جانی چاہیے۔ ایسے افراد ہیں جو مقروض ہیں لیکن ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ لیکن بعض افراد ایسے ہیں جن کا مواخذہ کرنا چاہیے جنھیں گرفتار کرنا چاہیے، ان سے جواب طلب کیا جانا چاہیے۔ یہ کام ملک کے اندر انجام پانے چاہییں ۔
یہ تمام کام کون کرے؟ ان برسوں کے دوران ہم نے بار بار متنبہ کیا۔ حکام نے بھی بڑی محنت کی۔ لیکن نہ میرے دیئے گئے انتباہات کافی ہیں اور نہ حکام کی محنت کافی ہے ۔ اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ مؤثر اور ٹھوس کارروائی کی جانی چاہیے۔ عوام کو چاہیے کہ حکومت کی مدد کریں، حکام سے تعاون کریں، عدلیہ سے تعاون کریں تاکہ ان کاموں کو انجام دیا جا سکے۔ ہم کر سکتے ہیں، ہمارے دشمن پابندیوں کے سلسلے میں جو کھوکھلی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور بیان بازی کرتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہم ان کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سارے کام نہ کئے تو نتیجہ وہی ہوگا جو آج آپ ملاحظہ کر رہے ہیں۔ دشمن اپنی جگہ پر بیٹھ کر ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے شرطیں طے کرے گا اور پھر کہے گا کہ اگر شرطوں کو قبول نہ کیا تو یہ پابندیاں لگا دیں گے، وہ پابندیاں لگا دیں گے۔ یہی ہوتا ہے۔
دشمن پابندیوں سے اچھی طرح استفادہ کر رہا ہے۔ اس کا ہدف یہ ہے کہ ایرانی قوم کی تذلیل کی جائے، ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ عظیم تحریک جسے ایرانی قوم آگے بڑھا رہی ہے وہ متوقف ہوجائے ۔

 اسلامی انقلاب کی تحریک، اسلامی نظام کی تحریک، جدید اسلامی تمدن کی تحریک، وہ سب کو متوقف کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ تحریک صہیونی سرمایہ داروں اور دنیا کی ظالم و خوںخوار کمپنیوں کے مالکان کے مفادات کے بالکل خلاف ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ تحریک پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہے، قومیں اس کی جانب متوجہ اور  راغب ہو رہی ہیں، لہذا وہ اس سلسلے کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ یہ تمام پابندیاں، یہ دھمکیاں، یہ شرطیں سب اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہیں۔
میرا عقیدہ اور نظریہ تو یہ ہے کہ اگر ایٹمی معاملے میں بھی ہم بالکل اسی طرح عمل کریں جس طرح  وہ چاہتے ہیں تب بھی ان کی تباہ کن کارروائياں اور پابندیاں متوقف ہونےوالی نہیں ہیں۔ وہ اس کے بعد بھی گوناگوں مشکلات کھڑی کرتے رہیں گے۔ کیونکہ وہ خود اسلامی انقلاب کے دشمن ہیں۔ البتہ میرا یہ خیال ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتیں بہت بلند و بالا ہیں۔ ابھی دو دن پہلے، رضاکار طلبہ نے مجھے پیغام بھجوایا اور شکوہ کیا کہ آپ اسلامی انقلاب کے اہداف کی تکمیل میں ہم طلبہ کا استعمال نہیں کرتے، یہ بہت اہم بات ہے۔ زیر تعلیم طالب علم کو توقع ہے اور وہ مجھے پیغام بھجواتا ہے کہ کیوں علاقے میں انقلاب سے وابستہ امور چاہے وہ عسکری امور ہوں، سکیورٹی کے معاملات ہوں یا دیگر مسائل ہوں، ہمیں کیوں نہیں استعمال کرتے۔ ہمارے نوجوانوں کا جذبہ ایسا ہے ۔ ایرانی قوم کے جوش و جذبے کو آپ نے بائيس بہمن مطابق گیارہ فروری کے دن مشاہدہ کیا۔ البتہ ایک طرف منہ زور اور تسلط پسند امریکی حکومت ہے جو علاقے میں تمام تر ناکامیوں کے باوجود سامراجی لہجہ ترک کرنے پر تیار نہیں ہے اور دوسری طرف اس کے اشاروں پر چلنے والی کچھ یورپی حکومتیں ہیں جو نئی پابندیاں عائد کرتی ہیں۔
البتہ ایرانی قوم بھی پابندی لگا سکتی ہے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ اگر معاملہ پابندیاں لگانے کا ہے تو مستقبل میں ایرانی قوم کی جانب سے مغربی ممالک پرپابندیاں لگائی جائیں گی۔ دنیا میں گیس کا بڑا حصہ ہمارے پاس ہے، گیس انتہائی اہم اور مؤثر انرجی ہے اور دنیا کو اس کی اشد ضرورت ہے، خود یورپی ممالک کو بھی گیس کی سخت ضرورت ہے۔ یہ گیس ہمارے پاس ہے۔ ایران میں اب تک گیس کی تلاش میں جو ذخائر ملے ہیں ان کی بنیاد پر دنیا کی گیس کا بیشتر حصہ ایران کے پاس ہے۔ گیس اور تیل کو ایک ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو دونوں کے مجموعی ذخائر کے اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا پہلا ملک ہے۔ ہم مناسب وقت میں ان پر پابندیاں عائد کرسکتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران یہ کام انجام دے سکتی ہے۔
ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مضبوط اور مستحکم قوت ارادی کی مالک ہے۔ جس میدان میں بھی اور جس معاملے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران نے سنجیدگی کے ساتھ قدم رکھا ہے، اس میں ثابت کر دیا ہے کہ وہ مضبوط اور پختہ و قوی ارادے کی مالک ہے، اس کا عزم پختہ ہے، وہ کام انجام دینے پر قادر ہے۔ خود داعش کے مسئلے میں، انہوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا۔ البتہ یہ ان کا صریح اور واضح جھوٹ ہے، یہ ان کا فریب ہے۔ انھوں نے ہماری وزارت خارجہ کو خط بھیجا کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ داعش کی حمایت کر رہا ہے تو یہ جھوٹ ہے، ہم حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد داعش کو امریکہ کی طرف سے ملنے والے ہتھیاروں کی تصویریں منظر عام پر آگئیں جو تصاویر انقلابی مجاہدین کے پاس تھیں وہ منظرعام پر آ گئيں! وہ صرف لفاظی کرتے ہیں، بیان بازی سے کام لیتےہیں، جھوٹے اور بے بنیاددعوے کرتے ہیں۔ غلط بیانی سے کام لیتےہے اور وہ بھی ایسی غلط بیانی جس کی حقیقت فورا کھل جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا نہیں ہے۔ جب ہم میدان میں قدم رکھتے ہیں تو جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چمک اور گرج نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہے تو اسی وقت جب واقعی بارش ہوتی ہے (9)۔ ایرانی قوم  مستقبل میں ہر اعتبار سے افتخارات اور عزت و وقار کی بلندیوں پر نظر آئے گی۔
جو ان شاء اللہ بہت زیادہ دور نہیں ہے اور آپ عزیز نوجوان وہ دن ضرور اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، اللہ تعالی آپ سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے، آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں جگہ عطا فرمائے۔ «مندن ده سلام یتیرین عزیزلریم تبریزلی لرو آذربایجانی لار»؛(10) آپ ہمیشہ کامیاب اور سلامت رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) رہبر معظم کے خطاب سے قبل صوبہ مشرقی آذربائیجان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور آذربائیجان کے امام جمعہ آیت اللہ محسن مجتھد شبستری نے کچھ مطالب پیش کئے۔

2) حسینیہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ
3) آمادہ نوجوان، حریت پسند نوجوان
4) شیطان ہم پر غالب نہیں آ سکتا

5) بہت کشندہ
6) اقتصادی شعبے میں سرگرم افراد سے ملاقات میں کی جانے والی تقریر مورخہ (
۱۳۹۰/۵/۲۶ ہجری شمسی مطابق 17 اگست 2011)
7) حسینیہ امام خمینی(رہ) میں نینو ٹیکنالوجی کی مصنوعات اور پیداوار کی نمائش کے مشاہدے کے وقت کی تقریر مورخہ (
۱۳۹۳/۱۱/۱۱ہجری شمسی مطابق 31 جنوری 2015)

8) شور و غل و آہ و فریاد
9) نهج‌البلاغه، خطبه‌
۹؛ «وَ لَسنا نُرعِدُ حَتّی نوقِعَ وَ لانُسیلُ حَتّی نُمطِر»
10) میری جانب سے میرے تمام عزیزوں ، تبریزیوں اور آذربائیجانیوں کو سلام پہنچا دیجئےگا۔