ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا انیس دی کی مناسبت سے قم کے عوام سے خطاب

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

آپ تمام محترم بھائیوں ، بہنوں، علمائے کرام اور عزیز نوجوانوں کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور نبی معظم و مکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت امام صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت آپ سب کو، ایرانی قوم  اور امت اسلامی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
19 دی مطابق 9 جنوری کا دن ایک عظیم، تاریخی اور فیصلہ کن دن  ہے میں اس دن کے بارے مین کچھ عرض کرنے سے پہلے قم کے عوام کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اب تک اس  عظیم واقعہ کو نہ تو فراموش کیا ہے اور نہ ہی آئندہ اسے فراموش ہونے دیں گے۔ کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ ان عظیم تاریخوں اور ان عظیم واقعات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور انھیں فراموش کردیا جائے۔ باضابطہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ اسلامی انقلاب اور مقدس دفاع کے دور کے قابل فخر واقعات اور فیصلہ کن اقدامات کو فراموش کر دیا جائے۔ ان کی  19 دی کے واقعہ کے بارے میں  بھی یہی خواہش ہے کہ اسے فراموش کردیا جائے۔ ظالموں اور ستمگروں نے واقعہ عاشورائے حسینی کو بھی  ہمیشہ کے لئے مٹا دینے کی کوشش کی تھی، لیکن حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ ہماری پھوپھی " زینب کبری سلام اللہ علیہا " نے دو اہم اقدامات انجام دئیے۔ ایک اقدام قیدی کی حیثیت سے کوفہ و شام میں انجام دیا، جس کے دوران آپ نے حقائق کو آشکار اور برملا کیا، صداقت اور حقیقت  کو  واضح و روشن  کرنے والے خطبے ارشاد کئے۔ دوسرا اقدام  چہلم کے موقع پر زیارت کے لئے کربلا حاضر ہونا تھا ۔ وہ پہلا چہلم تھا یا دوسرا چہلم یا کچھ بھی رہا ہو آپ کا  زیارت کے لئے تشریف لانا یہ درس دیتا ہے کہ اہم، مؤثر اور جذباتی قسم کے واقعات و حوادث کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ایسے واقعات کو فراموش کرنے کے سلسلے میں بعض عناصر کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انشاء اللہ ، جب تک قومیں بیدار ہیں،یہ عناصر کامیاب نہیں ہوں گے۔ جب تک حق گو زبانیں موجود ہیں، جب تک زیور ایمان اور جوش و جذبے سے آراستہ قلوب موجود ہیں، کوئی بھی ان واقعات کو فراموش نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ اب تک یہ کوششیں ناکام رہی ہیں۔ یہ عناد اور عداوت پ مبنی جذبے صدر اسلام سے لیکر بعد کے ادوار تک جاری رہے ہیں یعنی واقعہ عاشورا کے تقریبا ایک سو ستر یا ایک سو اسی سال بعد عباسی خلیفہ متوکل نے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر کو مسمار اور اس کی نشانی کو مٹا دینے کی کوشش کی۔ یعنی ایرانی قوم کو ابھی بہت دنوں تک اس بات کے لئے آمادہ رہنا چاہیے کہ دشمن، انقلاب کے پرکشش واقعات و حوادث کو ذہنوں سے مٹانے کے لئے اپنی معاندانہ کوششیں انجام دے سکتا ہے اور فتنہ و فساد پھیلا سکتا ہے۔ دشمن باز آنے والا نہیں ہے۔ انقلاب کے حقائق میں تحریف کرنے اور اس کی یادیں ذہنوں سے مٹا دینےمحو کرنے کی تلاش و کوشش جاری رکھےگا، اس کی کوشش یہ رہیگی کہ ایرانی قوم اپنی تحریک کو، اپنے ماضی کو اور اپنے عظیم کارنامے کو فراموش کردے جو اس نے سر انجام دیا ہے،قوم غفلت و فراموشی میں مبتلا ہو جائے۔ جو اپنے قابل فخر اور مایہ ناز ماضی سے آگاہ اور باخبر نہ ہو وہ مستقبل میں بھی قابل فخر کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ دشمن اپنی ان کوششوں میں مصروف ہے۔
آپ نے انیس دی کے واقعہ کو زندہ رکھا، 29 بہمن کے واقعہ کو فراموش نہیں ہونے دیا،22 بہمن کے واقعہ کو زندہ رکھا  9 دی کے واقعہ کو مضبوط اور مستحکم عزائم کے ساتھ زندہ رکھا۔ یہ در حقیقت دشمنوں کے مقابلے میں ایک مجاہدانہ  اور اہم حرکت ہے۔ کچھ لوگ انقلاب کے حقائق میں تحریف کرنا ، انہیں ذہنوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں اس کے لئے وہ مال و دولت خرچ کرتے ہیں، با قاعدہ کام کرتے ہیں۔ جو کتابوں اور اخبارات و جرائد کی دنیا سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ دشمن کیا کام کر رہا ہے۔ یہ لوگ منحوس اور خبیث پہلوی خاندان کے چہرے کو دوبارہ سنوارنے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہیں جس خبیث حکومت  نے کرپشن ،بدعنوانی اور اغیار کی غلامی اور نوکری کرکے ہمارے ملک کی ترقی کو کئی برس پیچھے دھکیل دیا اور ایرانی قوم کو سخت مشکلات  اور مصائب سے دوچار کر دیا، ہمارے دشمن پہلوی خاندان کو سنواریں، اس کی آرائش اور زینت کریں ۔ آج یہ کوشش وہی محاذ انجام دے رہا ہے جو  اسلامی نظام کا مخالف محاذ ہے۔ اس کی پشت پناہی وہ لوگ کر رہے ہیں جو شروع سے اسلامی انقلاب کے دشمن تھے، انقلاب لانے برپا کرنے والے عوام کے دشمن تھے، اسلامی انقلاب کے ساتھ عوام کی وفاداری کے مخالف تھے۔ اب تک تو وہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں،  لیکن انہوں نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ انقلاب کے بعد دوسری اور تیسری نسل کو وہ  اسلامی نظام سے روگرداں اور دور کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ انقلاب کی تیسری نسل کو بھی وہ اس سے جدا نہیں کر سکے۔ انیس دی مطابق تیس دسمبر 2009 کے عظیم واقعہ  اور نمایاں کارنامہ کو انہی نوجوانوں نے اور انقلاب کی اسی تیسری نسل نے انجام دیا، اسی تیسری نسل نے 9 دی کے واقعہ کو  وجود بخشا اور ان لوگوں کےمنہ پر ایسا زوردار طمانچہ رسید کیا جو فتنہ و آشوب کے ذریعہ انقلاب  اسلامی کی سمت کو بدل دینا چاہتے تھے۔ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا؟ یہ کام نوجوانوں کا تھا، انقلاب کی تیسری نسل کے نوجوانون کا تھا۔ اب دشمن کی نظریں آئندہ نسلوں پر ہیں، کیونکہ دشمن جانتا ہے کہ  ایرانی قوم کا سرمایہ اس ملک کے عوام ہیں۔ دشمن کے ذہن میں یہ فتنہ آج بھی موجود ہے۔ البتہ جب تک آپ جیسے لائق نوجوان اور آپ جیسے مؤمن افراد ، با بصیرت اور آگاہ لوگ موجود ہیں، دشمن ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
خوب، انیس دی کیا تھا؟ سب جانتے ہیں کہ 19 دی کی تاریخ ایرانی قوم  کے اندر ایک وسیع تحریک کے آغاز کا محور بن گئی۔ راکھ کے ڈھیر میں دبی آگ تھی جو روز بروز شعلہ ور ہوتی جا رہی تھی، 19 دی کا واقعہ اس آگ کے شعلہ بن جانے کا دن تھا۔ یہ کارنامہ اہل قم کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا جو متعدد تحریکوں کا باعث بنا۔ عوام متحد ہوکر میدان میں  حاضر ہوگئے۔ حضرت امام خمینی کی آواز پر لبیک کہنے والے آگے بڑھے اور شاہی بدعنوان حکومت سے ٹکراگئے۔ جس حکومت کے خلاف عوام نے جنگ کا آغاز کیا وہ کیسی حکومت تھی؟ کون حاکم تھا؟ یہ جاننا بہت اہم ہے۔ میں اس کی دو تین خصوصیات بیان کروں گا۔ کیونکہ میں نے عرض کیا کہ ان دنوں بعض عناصر حقائق میں رد وبدل کرنےکی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ کوشش ہو رہی ہے کہ اس قوم کی تاریخ کے حالیہ ادوار کے خبیث، مکروہ  اور تاریک و سیاہ کارکردگی کے مالک افراد کو اس طرح درست بنا کر پیش کیا جائے تاکہ عوام کو حقیقت کا اندازہ نہ ہو سکے اور لوگوں کو پتہ نہ چل سکے کہ انہوں نے انقلاب کے ساتھ کیا کیا؟!
شہنشاہی بدعنوان حکومت کی ایک اہم خصوصیت ، آمریت اور عوام  کے خلاف شدید گھٹن کا ماحول اور انتہائی بے رحمانہ اور سفاکانہ رویہ تھا جو ممکن ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی نظر آئے۔ یہاں ہم نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ عوام سے کیا سلوک کیا جاتا تھا اور عوام کو کس طرح  ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ رضاخان کے دور حکومت میں بھی، جس کا مشاہدہ ہماری گزشتہ نسل نے اور ہمارے بزرگوں نے کیا اور ہمارے لئے نقل کیا، اسی طرح آخری دور میں بھی جس کے گواہ ہم خود ہیں، یہی عوام اور ہم خود میدان میں تھے۔ ظاہر ہے آج کے نوجوانوں نے وہ دور نہیں دیکھا ہے، اس بارے میں بہت کثرت کے ساتھ مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ ان کا عوام کے ساتھ، مجاہدین کے ساتھ، معمولی سی تنقید کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا۔ جو سلوک کیا جاتا تھا، جو ایذائیں پہنچائی جاتی تھیں، جو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ خوفناک قیدخانے، جن کے کچھ آثار اور نشانیاں آج بھی موجود ہیں، لوگ جاکر دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ یہ لوگ طاقت، ظلم و استبداد اور سختی کے ذریعہ اپنی حکومت چلا رہے تھے اور یہی لوگ جو آج انسانی حقوق کی پاسداری کے بڑے دعویدار ہیں اور اس بدنام زمانہ نعرے کو بار بار دہراتے ہیں، اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ اسی پہلوی ڈکٹیٹر حکومت کی مدد کرتے تھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہیں تو خبر ہی نہیں تھی! کیونکہ اس شاہ کی خوفناک اور جہنمی خفیہ ایجنسی ساواک کی تشکیل خود صہیونیوں کے ہاتھوں، خود امریکیوں کے ہاتھوں اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ذریعہ ہوئي تھی۔ ساواک نے ہر قسم کا ظلم و ستم  انہیں سے سیکھا تھا تو ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ انہیں خبر نہ رہی ہو۔ ابھی حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ اس وقت خود بھی بہت بڑی مشکل میں گرفتار ہیں۔ حالیہ مہینوں میں جو انکشافات ہوئے اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے اپنے مخالفین کے ساتھ رفتار کے بارے میں جو حقیقت سامنے آئی ہے وہ کہاں اور انسانی حقوق، آزادی بیان ، جمہوریت اور لبرلزم کی دلکش باتیں کہاں؟! (1)۔ حقیقت میں  یہ بڑی عجیب  و غریب دنیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس خبیث حکومت کی ایک خصوصیت یہی تھی؛ کہ وہ  بہت ہی سخت اور ظالم و جابر حکومت تھی اور تنقید کرنے والوں کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتی تھی ۔


پہلوی حکومت کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ اس کا بیرونی طاقتوں پر ذلت آمیز انحصار تھا۔ یہی کتابیں جو خبیث پہلوی حکومت کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے لکھی جا رہی ہیں ان میں ان حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے حالانکہ یہ حقائق ناقابل انکار ہیں۔ رضاخان برطانیہ کے اشارے پر اقتدار میں پہنچا اور برطانیہ کی ہی مرضی کے مطابق اقتدار سے  ہٹا دیا گیا۔ جیسے ہی انگریزوں نے حکم دیا کہ اسے جانا ہے، سترہ اٹھارہ سال حکومت کرنے کے باوجود اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ یعنی برطانیہ کے علاوہ  اس کا کوئي حامی اور پشت پناہ نہیں تھا ۔ وہی اسے لایا اور جب ابرطانیہ نےمحسوس ہوا کہ اب اسے جانا چاہیے تو اسے ہٹا دیاگيا۔ انگریزوں کے حکم سے آیا اور انہیں کے حکم سے رخصت ہوگیا۔ اس کے بعد برطانیہ نے محمد رضا کو اقتدار دلایا سنہ انیس سو چالیس کے عشرے کے اواخر تک۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں امریکی، میدان میں کود پڑے اور انہوں نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اب ساری پالیسیاں امریکہ کی وضع کردہ ہوتی تھیں۔ امریکی مفادات کا جو بھی تقاضا ہوتا، داخلی سطح پر بھی اور علاقائی و بین الاقوامی پالیسیوں میں بھی اسی کے مطابق عمل کیا جاتا۔ یعنی ایرانی قوم کی حد درجہ توہین اور بے عزتی تھی۔ یہ اس خبیث حکومت کی ایک اور خصوصیت تھی۔ آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکی، ایرانی قوم کے سلسلے میں، اسلامی انقلاب کے بارے میں اور اسلامی نظام کے سلسلے میں عداوت اور دشمنی  پر مبنی رفتار اپناتے ہیں، ان کی رفتار معاندانہ ہے اور وہ سختی اور رعب  کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کی اصلی وجہ یہی ہے۔ کہ وہ ایران میں ایسا دور دیکھ چکے ہیں۔ ایسا ملک اور ایسا نظام ان کے ہاتھ سے نکل گیا، لہذا اسلامی انقلاب سے ان کی دشمنی  دائمی اور ابدی دشمنی ہے۔
پہلوی حکومت کی تیسری خصوصیت بدعنوانی اور کرپشن تھی  ۔ انواع و اقسام کی بدعنوانیاں، جنسی بدعنوانیوں سے لیکر اقتصادی اور مالی بدعنوانیوں تک وہ برائیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ان بد عنوانیوں میں تقریبا سارے درباری اور ان کے ارد گرد رہنے والے لوگ ملوث تھے اور جس کی داستانیں بڑی شرم ناک ہیں ۔اس زمانے کے اکثر لوگ بھی ان حقائق سے آگاہ تھے البتہ زبان سے کچھ کہنے کی جرئت نہیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی یہ حقائق غیر ملکیوں کے قلم سے پھسل جاتے تھے تو جنسی بدعنوانیوں اور مالی کرپشن کے بارے میں کچھ باتیں لکھ جاتے تھے۔ جنسی بدعنوانی اور مالی بدعنوانی، وہ بھی صرف متوسط سطح تک نہیں بلکہ اعلی ترین سطح تک۔ قوم کے مالیاتی ذرائع پر سب سے زیادہ دباؤ رہتا تھا، بد ترین مالی فساد  اور سب سے زیادہ رشوت اور مالی بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ خود محمد رضا اور اس کے قریبی افراد تھے۔ وہ لوگوں کو غربت اور افلاس میں مبتلا کرکے اپنے لئے سرمایہ اور دولت اکٹھا کرتے تھے ۔ کرپشن، جنسی بدعنوانی، مالی و اقتصادی بدعنوانی، نشہ، منشیات کی ترویج، صنعتی منشیات کا خود حکومت کے عناصر کی طرف سے پرچار ایران میں کیا گيا۔ محمد رضا کی ایک بہن کو سوئیزرلینڈ کے ایئرپورٹ پر ہیروئن سے بھرے بیگ کے ساتھ سوئس پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ یہ خبر دنیا بھر میں پھیل گئی، لیکن فوری طور پر اس خبر پر پردہ ڈالنے کی کوشش شروع ہو گئی۔ یہ خود ان کا اپنا معاملہ تھا لہذا اسے دبا دیا گیا۔ معاملے کو حل کر لیا۔ پہلوی دور میں اس طرح کی صورت حال تھی۔
عوام پر عدم توجہ طاغوتی پہلوی حکومت کی ایک اور اہم خصوصیت تھی ۔ عوام کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ ہم نے اپنی زندگی میں، اپنی جوانی کے دور میں ایک دفعہ بھی کسی الیکشن میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی محلے اور گلی کوچے کے دوسرے افراد سے کبھی سنا کہ انہوں نے انتخابات میں شرکت کی ہو۔ الیکشن ہوتا ہی نہیں تھا۔ کبھی کبھی تو بالکل کھلے عام اور کبھی ذرا خاموشی سے مٹھی بھر زر خرید افراد کو پکڑ لے جاتے تھے اور مجلس شورا اور سینیٹ میں لے جاکر بٹھا دیتے تھے اور اپنا کام کرتے رہتے تھے۔ عوام کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ اقتدار میں کون سے افراد ہیں۔ حکومت اور رعایا کا رابطہ پوری طرح منقطع تھا۔ ملکی مسائل کے بارے میں سیاسی امور و مسائل کے سلسلے میں عوام کی معلومات اور آگاہی آج کے بالکل برعکس تھی لوگ پہلوی حکومت سے بالکل الگ اور جدا تھے۔


علمی و سائنسی ترقی پر عدم توجہ، قومی سطح پر احساس کمتری کا فروغ  اور مغرب کے سلسلے میں مبالغہ آرائی بھی پہلوی حکومت کی ایک اور خصوصیت تھی۔ علم و سائنس کے میدان میں حرکت اور پیشرفت کے آثار نہیں تھے، علمی تحریک کا تو کوئي ذکر ہی نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ میں عوام کو دوسرے  ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیاء  اور مصنوعات کا عادی بنا دیا گيا تھا، بد قسمتی سے یہ عادت آج بھی باقی ہے۔ جب طویل مدت کے دوران کسی چیز کی عادت پڑ جاتی ہے تو پھر آسانی کے ساتھ  اس سے نجات نہیں مل سکتی۔ ان لوگوں نے ملک کی داخلی پیداوار اور قوم کے حقیقی ذرائع اور وسائل کو متحرک کرنے کے بجائے، لوگوں کو تیل سے حاصل ہونے والی ثروت کا عادی بنا دیا تھا، لوگوں کا مزاج بدل دیا تھا، زراعت کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا، ملک کی قومی صنعتوں کو نابود کر دیا تھا۔ ملک کو پوری طرح بیرونی ممالک اور دشمنوں پر منحصر کر دیا تھا۔ عوام کی تحقیر کی جاتی تھی ، قوم کے اندر موجود توانائیوں اور صلاحیتوں کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور صاف طور پر یہ بات کہتے بھی تھے۔ مغربی ثقافت کی تعریف اور اس کے قصیدے پڑھتے تھے۔ پہلوی حکومت ان تمام برائیوں کی حامل اور خباثت میں ڈوبی ہوئی حکومت تھی۔ عوام کو اس صورت حال کا  اچھی طرح ادراک تھا۔ ظاہر ہے کہ ایرانی عوام بڑے باہوش ہیں، حقائق کو سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ لیکن توجہ دلانا بھی ضروری ہے، کوئی پیغام رسا آواز ہونی چاہیے، زیور ایمان سے آراستہ دل ضروری ہے جو لوگوں کو جدوجہد کے میدان میں اتر نے کی دعوت دے۔ گوشہ و کنار میں مخالفت ہوتی تھی، جدوجہد تھی، لیکن ایک مرتبہ  پوری قوم میدان میں اتر پڑے اس کے لئے ایک مرد الہی کی ضرورت تھی اور اللہ تعالی نے عوام کو یہ تحفہ عطا کر دیا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ وہی آواز اور پیغام بن گئے جس میں عوام کی تمام تمنائیں اور تمام مطالبات یکجا جمع تھے۔ عوام نے اس آواز پر لبیک کہا، فداکاری ، جاں نثاری اور قربانی کے بے مثال نمونے پیش کئے۔ میدان میں اتر پڑے اور پہلوی حکومت سے بر سر پیکار ہوکر سرانجام فتح سے ہمکنار ہوگئے۔
دشمنوں کی اسلامی نظام  کے ساتھ عداوت اور دشمنی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ایک انتہائی حساس علاقے میں، دولت سے مالا مال ملک کے اندر، محل وقوع کے الحاظ  سے اسٹراٹیجک  اور غیر معمولی اہمیت رکھنے والے ملک میں اسلام، عوام اور عوامی تمناؤں کا پرچم بلند ہو گیا۔ دشمنوں کے ہاتھ سے وہ ملک نکل گیا جہاں وہ ایک بدعنوان حکومت کی حمایت کرتے تھے اور اس حکومت کے حکام ان کے اشاروں پر حرکت کرتے تھے

اب اس ملک میں تبدیلی اور انقلاب آگیا  لوگ دشمنوں کے مطالبات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لوگ اپنی سمت و جہت اور اعلی اصولوں کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں، لوگ گذشتہ ڈکٹیٹر حکومت کی پالیسی کے خلاف عمل کررہے ہیں۔ اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی خدمت اور افادیت یہ رہی کہ اس نے عوام کو اس حکومت کے شر سے محفوظ کر دیا۔ انقلاب کے بعد سے تاب تک جو کچھ حاصل ہوا، یہ قومی وقار، یہ عظیم عوامی تحریک، یہ عمومی بصیرت و شعور، یہ سائنسی و علمی ترقی، دنیا اور علاقے میں ملک کی یہ اہم پوزیشن، یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ  ایرانی قوم کے راستے سے وہ رکاوٹ دور ہو گئي ہے اور رکاوٹ کو ہٹانے کا کام عوام نے کیا ہے، یہ کام دین اسلام نے کیا ہے، یہ کارنامہ لوگوں کے عقیدے و ایمان نے انجام دیا ہے۔
آج سامراجی محاذ اس نظام کی مخالفت اور دشمنی پر کمر بستہ ہے۔ کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ دشمن اپنا عناد ختم کر دیگا۔ اگر آپ قوی رہیں گے، اگر آپ پوری طرح آمادہ  رہیں گے، اگر آپ دشمن کو اور اس کے تمام حربوں کو اچھی طرح پہچانتے ہوں گے، تو دشمن مجبور ہوکر معاندانہ اقدامات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ لیکن اگر آپ غفلت میں رہیں گے، آپ دشمن پر اعتماد کرنا شروع کر دیں گے تو اس کو آپ کے ملک میں اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے گا اور وہ اپنا کام شروع کر دے گا۔ آج سامراجی طاقتوں کی طرف سے ایرانی قوم  پر جو دباؤ ڈالا جا رہا ہے، وہ اسی گہری اور ختم نہ ہونے والی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ یہ دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ایرانی قوم اس دشمنی کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے، اس نے دائمی استقامت کا ثبوت دیا ہے، اسلامی جمہوری نظام کی حفاظت کی ہے، اپنے اعلی اہداف کی جانب گامزن ہے، اس عظیم سفر میں ایرانی قوم  کی شکست کی جو بے بنیاد اور غلط باتیں بغیر سوچے سمجھے کہی جاتی ہیں اور جو دعوے کئے جاتے ہیں ان کے بالکل برخلاف ایرانی قوم نے عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ قوم نے بڑے مناسب انداز میں ترقی کا سفر طے کیا ہے۔ اس نے دشمن کے دباؤ کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، کامیابی سے اپنی حفاظت کی ہے، ترقی اور پیشرفت  کا سلسلہ جاری رکھا ہے،  ایرانی قوم اپنے اعلی اہداف و مقاصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔
ہم ہمیشہ کہتے ہیں اور بارہا کہا ہے کہ ہم اسلامی احکامات اور تقاضوں کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنا سکے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، لیکن ہم اس سلسلے میں کافی سفر طے کرچکے ہیں۔ ہم اس ملک میں پوری طرح سماجی انصاف قائم تو نہیں کر سکے لیکن  اس منزل تک پہنچنے والا راستہ ہم کافی حد تک طے کر آئے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب ملک کی ساری ثروت چند بڑے گھرانوں پر صرف ہو جایا کرتی تھی، ان سے اگر کچھ بچتا تھا تو کچھ بڑے شہروں کو مل جاتا تھا، آج ملک کے گوشے گوشے تک وطن عزیز کی دولت و ثروت پہنچ رہی ہے۔ یہ عظیم سفر، سماجی انصاف اور اسلامی اخلاقیات کی منزل کی طرف پیش قدمی کا مظہر ہے یہ عظیم سفر جاری ہے۔ بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ اخلاقیات کی لوگ بات کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں۔ جی ہاں، مطلوبہ اسلامی اخلاقیات تک پہنچنے کے لئے ہمیں ابھی لمبا راستہ طے کرنا ہے، اس میں شک نہیں، مگر ہم کافی پیشرفت کر چکے ہیں، ایرانی یہ راستہ طے کر رہی ہے، ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ علم و سائنس کے میدان میں ہونے والی ترقی کا بعض لوگ غیر دانشمندانہ طور پر انکار کرتے ہیں۔ آخر وہ کیوں اس کا انکار کرتے ہیں؟ اس قوم نے علم و سائنس کے میدان میں ترقی کی ہے۔ یہ ہمارا دعوی نہیں بلکہ ہمارے دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں  اور بین الاقوامی سائنسی مراکز بھی آج اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ ایسے میں چند افراد تمام چیزوں کا انکار کردیتے ہیں ، قوم کی تحقیر کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اسلامی نظام نے ملک کو جو عظیم ترقی عطا کی ہے اور کامیابی کے ساتھ جو سفر طے کروایا ہے اسے نظر انداز کرنا  غیر منصفانہ عمل ہے، غلط ہے۔ بیشک ابھی ہمارے سامنے طویل سفر ہے، ہم ابھی اپنے اعلی اہداف حاصل نہیں کر سکے ہیں، اعلی اسلامی اہداف ابھی بہت دور ہیں۔ صدر اسلام میں بھی پیش قدمی کا یہ عمل موجود تھا، وہ لوگ بھی سفر میں تھے۔ آپ یہ نہ سوچئے کہ صدر اسلام میں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں یا آنحضرت کے خلفاء کے زمانے میں، عوام ان اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچ گئے تھے۔ ایسا نہیں ہوا تھا۔ مگر اہمیت اس چیز کی ہوتی ہے کہ ملک حرکت میں آ جائے، ہماری قوم آگے بڑھ رہی ہے۔ پیش قدمی کے اس عمل کو غلط باتوں سے، سست اور ناپختہ بیانات سے مخدوش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ایسا کوئی کام نہ کیجئے جس سے عوام کے اندر شکوک و شبہات جنم لیں عوام کے اندر مایوسی پیدا ہو جنہوں نے پیش قدمی کا یہ عمل شروع کیا ہے اور امید و نشاط کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ۔ قوم نے ترقی کی ہے، کارہائے نمایاں انجام پائے ہیں۔ اس کی گواہی آج ساری دنیا دے رہی ہے۔ جو لوگ دوسرے ملکوں سے آتے ہیں، وہ گواہی دے رہے ہیں، ایرانی قوم کی تعریف و تحسین صرف ہم نہیں کر رہے ہیں، ہمارے مخالفین بھی ہمارا قیصدہ پڑھ رہے ہیں، ہمارے دشمن بھی ہماری ترقی کا اعتراف کررہےہیں۔ ایرانی قوم کی قوت و طاقت کی تعریف ہو رہی ہے، اس کی استقامت اور پائداری کو سراہا جا رہا ہے، اس کی استعداد اور صلاحیتوں کو داد تحسین دی جارہی ہے ، اس راستے میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابیوں کا ہر طرف چرچہ ہے، لوگ ایرانی قوم کی تعریف کر رہے ہیں۔
آج ہماری قوم کو اتحاد و اتفاق کی سب سے زیادہ ضرورت ہے عوام کو دو محاذوں میں تقسیم کرنا، لوگوں کے درمیان جدائی ڈالنا، عوام کے اندر اختلاف اور تفرقہ ڈالنے والے نعرے لگانا غلط ہے چاہے  وہ کسی بھی نام سے ہو ، یہ ایرانی کے مفادات کے منافی اور ایرانی عوام کی امنگوں کے خلاف ہے۔ اتحاد و اتفاق ضروری ہے ،عوام کو چاہیے کہ وہ حکام کی مدد کریں، حکومت سے تعاون کریں۔
حکومتی اہلکار بھی سن لیں! جو چیز انہیں ان کے فرائض منصبی ادا کرنے پر قادر بنا سکتی ہے وہ اندرونی وسائل ، توانائیوں پر اعتماد اور عوام کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔ میں نے حکام کے ساتھ ہونے والے عمومی اور خصوصی جلسات میں یہ بات  بارہا  عرض کی ہے کہ اغیار سے امید  نہ لگائیں۔ بیشک آج دشمنوں نے ایرانی قوم  کے لئے پابندیوں کے ذریعہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اب اگر انہوں نے آکر یہ پابندیاں اٹھانے کے لئے ایسی شرط رکھ دی جسے آپ کی غیرت قبول کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے تو آپ کیا کریں گے؟ وہ شرط رکھیں گے کہ آپ اسلام سے کنارہ کش ہو جائیں! خود مختاری سے دست بردار ہو جائیں، علم و سائنس کے میدان میں ترقی کا عمل روک دیں، فلاں قابل فخر  کارنامے کو فراموش کردیں، تب ہم پابندیاں ہٹائیں گے، تو آپ کیا کریں گے؟ آپ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ یقینا ملک کا کوئی بھی اہلکار اسے قبول نہیں کرے گا کہ کسی کلیدی مسئلے یا ہمارے اعلی اہداف میں شامل کسی معاملے پر سودا کرکے پابندیاں ختم کرائی جائیں۔ البتہ دشمن اس مرحلے میں تو ہمارے اعلی مقاصد اور بنیادی اصول سے صریحی طور پر تعرض نہیں کرےگا۔ لیکن اگر ہم نے ایک بار پسپائی اختیار کرلی تو پھر وہ واضح  لفظوں میں یہ مطالبات شروع کر دیگا۔ اس وقت یہ صورت حال نہیں ہے کہ دشمن صریحی طور پر ہمارے اعلی اہداف و مقاصد کی مخالفت کرے، انہیں نظر انداز کرنے کی شرط رکھے۔ لیکن ہمیں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ باریکی سے جائزہ لینا چاہیے کہ جو تجویز دی جا رہی ہے، جو بات کہی جا رہی ہے، دشمن جو اقدام کر رہا ہے اس کا اصلی ہدف کیا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی اہلکار دشمن کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر آمادہ اور رضامند نہیں ہوگا اور اس لئے کہ پابندیاں ختم ہوجائیں یا کم ہو جائیں، اعلی اہداف سے دست بردار ہونے پر ہرگز تیار نہیں ہوگا۔ جب یہ صورت حال ہے تو آپ آگے آئیے اور کچھ ایسا بندوبست کیجئے کہ ملک پابندیوں کے مقابلے میں پوری طرح محفوظ ہو جائے، مزاحمتی معیشت سے یہی مراد ہے۔ آپ اس بات پر بنا رکھئے کہ دشمن پابندیاں ہٹانے کے لئے ایسی شرط رکھتا ہے جسے آپ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، آپ اس معاملے میں اس نہج پر فکر کریں  اور مزاحمتی معیشت کے سلسلے میں عملی اقدامات شروع کردیں تو پابندیاں بے اثر ہوکر رہ جائیں۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایسی تیاری کیجئے کہ تیل پر ملک کا مالی انحصار کم سے کم ہو جائے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مختصر سی مدت میں تیل کی قیمت کو نصف تک کم کردیا گيا ہے۔ اگر ہمارا انحصار تیل پر رہے گا تو ہمارے لئے مشکلات کھڑی ہوں گی۔ اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ ملک کے اعلی حکام کی بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک یہی ہے کہ ایسے انتظامات کریں کہ اگر دشمن پابندیاں اٹھانے پر تیار نہ ہو تو ملک کی ترقی اور پیشرفت نیز عوام کے رفاہی وسائل پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر موجود وسائل اور توانائیوں کا رخ کریں، ملک کے اندر موجود صلاحیتوں سے ہمیں استفادہ کرنا چاہیے۔ راستے موجود ہیں، ایسے افراد موجود ہیں جو صاحب نظر ہیں، مخلص اور ماہر افراد موجود ہیں جن کا کہنا ہے کہ ایسے راستے فراہم ہیں جن کی مدد سے ملک خود کفیل ہو سکتا ہے۔ یہ ملکی حکام اور اعلی عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ دوسروں سے امید نہ لگائیں، اغیار کا طریقہ یہ ہے کہ کبھی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تو آپ جتنی پسپائی اختیار کریں گے وہ اتنی ہی آگے بڑھتے چلے آئیں گے، آپ ایک قدم پيچھے ہٹے تو وہ ایک قدم آگے آ جائیں گے۔ استکباری نظام رحمدلی، انصاف، انسانیت اور رواداری برتنے والا نظام نہیں ہے۔ آپ جتنی نرمی دکھائیں گے وہ اتنا آپ کے سینے پر سوار ہو جائیں گے۔ تو کوئی مستقل راہ حل تلاش کیجئے۔ مستقل راہ حل یہ ہے کہ ملک کو ایسی حالت میں پہنچائیے کہ اسے دشمن کی تیوریوں پر بل پڑنے سے کوئی نقصان نہ پہنچے، دشمن کی پابندیوں سے کوئی ضرر نہ اٹھانا پڑے، راستے بھی موجود ہیں، ایسے اقدامات ہیں جو انجام دئیے جا سکتے ہیں، بعض اقدامات کئے بھی گئے ہیں اور کامیاب بھی رہے ہیں، نتیجہ بخش ثابت ہوئے ہیں، تو یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ دشمن کے ہاتھ سے یہ حربہ سلب کیاجا سکتا ہے، ورنہ اگر ہم دشمن سے امید وابستہ کریں گے اور آپس میں بحث کریں گے کہ اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو وہ پابندیاں نہیں ہٹائیں گے تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ امریکی بڑی بے حیائی کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اگر ایران ایٹمی مسئلے میں پیچھے ہٹ جاتا ہے تب بھی ساری پابندیاں ایک ساتھ نہیں اٹھائی جائيں گی۔ یہ صریحی طور پر کہہ رہے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس دشمن پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں مذاکرات کا مخالف نہیں ہوں۔ مذاکرات کریں، جب تک چاہیں مذاکرات کریں! لیکن میرا یہ مؤقف ہے کہ امیدیں ان چیزوں اور جگہوں سے وابستہ کیجئے جو حقیقت میں امید لگانے کے لائق ہیں، خیالی اور موہوم ذرائع سے امید  نہیں لگانا چاہیے۔ یہ چیز ضروری ہے۔ بحمد اللہ ملک کے حکام اپنے کام میں مصروف ہیں، محنت کر رہے ہیں، موثر اقدامات انجام دے رہے ہیں، میرا نظریہ یہ ہے کہ تمام ذمہ دار ادارے مدد کریں، حکومت کا ہاتھ بٹائیں، کیونکہ کام بہت دشوار ہے۔ حکومتی عہدیدار بھی بہت محتاط رہیں اور عوام کو تقسیم نہ کریں، تنازعہ پیدا نہ کریں، غیر ضروری باتیں نہ کریں، ہمارے عوام کا یہ اتحاد، ہماری قوم کی یہ بلند ہمتی، ہمارے عوام کی یہ قوت ایمانی، صحیح مقصد کے لئے صرف ہونی چاہیے۔ ان شاء اللہ راستے کھل جائیں گے۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح انقلاب کے اوائل کی نسبت آج ہماری حالت میں زمین و آسمان کا فرق آیا ہے، ہم نے بہت پیشرفت کی ہے، بیس سال قبل کی نسبت  ہماری حالت کافی بدل چکی ہے، دس سال قبل کی نسبت بھی ہماری آج کی حالت کافی جداگانہ ہے، ہم بہت آگے پہنچ گئے ہیں۔ ایرانی قوم  انشاء اللہ اس مایہ ناز اور قابل فخر راستے پر روز بروز آگے کی سمت رواں دواں رہے گی۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم اور اس کی توفیق سے ہماری قوم اور آپ نوجوان وہ دن مشاہدہ کریں گے جب دنیا کے مستکبر، سرکش، ظالم اور جابر دشمن، آپ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ہمارے بزرگ راہنما اور امام (رہ) پر اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں جنہوں نے ہمارے لئے استقامت، اللہ پر توکل اور بصیرت کا راستہ ہموار کردیا۔ ہمارے عزیز شہیدوں پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں جو اس راستے پر گامزن رہے، جوش و جذبے اور ولولہ سے سرشار آپ عزیزوں، آپ نوجوانوں  اور آپ انسانوں پر اللہ کا لطف و کرم نازل  ہو ،جو اس راستے پر رواں دواں ہیں۔

والسّلام ‌علیکم ‌و رحمة الله ‌و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) فراموش کرنا

2)  امریکی صدر اور سابق نائب صدر کا سی آئي اے کی جیلوں میں قیدیوں کو دی جانے والی ایذاؤں کے سلسلے میں اعتراف

3) فریب کار