ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عید سعید غدیر کے دن عوام کےمختلف طبقات سے خطاب

بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

تمام حاضرین محترم ، تمام عزیز و گرامی بھائیوں اور بہنوں ، ایرانی قوم ، دنیا بھر کے تمام شیعوں اور ان تمام افراد کو عید سعید غدیر کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتا ہوں جو اسلام کے معرفت افزا حقائق اور اس عظیم دین کے معارف سے آشنائی حاصل کرکے محظوظ اور لطف اندوز ہوتے ہیں اور لذت محسوس کرتے ہیں۔ تمام حاضرین محترم کو خوش آمدید پیش کرتاہوں، خاص طور پر ان بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں جو دور دراز کے علاقوں سے یہاں تشریف لائے ہیں اور اپنی آمد سے اس حسینیہ کی رونق دوچنداں کی ہے۔ غدیر کے متعلق اور غدیر کے حوالے سے چند باتیں عرض کروں گا اور کچھ نکات ان فرائض کے سلسلے میں بیان کروں گا جو غدیر کے موضوع، غدیر کے اس مسئلے اور غدیر سے وابستہ معارف کے علم کی بنیاد پر ہمارے اوپر عائد ہوتے ہیں اور جن پر توجہ مرکوز کرنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
تاریخ اسلام میں غدیر کا مسئلہ بہت بڑی  اہمیت کا حامل مسئلہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فیصلہ کن اور حیرت انگیز واقعہ کے رونما ہونے اور اس ارشاد نبوی(ص) : «مَن کُنتُ مَولاه فَهذا عَلىٌّ مَولاه»، (
۱) کو صرف شیعہ راویوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس کا شمار مسلمہ حقائق میں ہے۔ جن لوگوں نے بھی کوئي اشکال پیش کیا ہے، کوئی اختلاف رائے ظاہر کیا ہے، انہوں نے بھی اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ظاہر کیا کہ یہ جملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا یا نہیں، بلکہ ان لوگوں نے اس جملے کی تاویل کرنے اور اس کی الگ توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ خود اس واقعہ کا رونما ہونا ایک مسلمہ تاریخی اور اسلامی حقیقت ہے۔ فکر و نظر اور معرفت کے میدان میں داخل ہونے والوں کے اذہان میں اس جملے کے معنی کے متعلق سے جو سوالات اور اشکالات ہیں، وہ سب وہی اشکالات ہیں جو ایک ہزار سال پہلے تھے اور بزرگ علمائے کرام نے ان کے جوابات بھی دے دئيے ہیں اور خود اس واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس جملے کے معنی کے بارے میں شک و تردید کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے سوال کیا کہ: «اَلَستُ اَولى‌ بِکُم مِن اَنفُسِکُم» (۲)، یہ در حقیقت قرآن کی اس آیہ کریمہ کی جانب اشارہ ہے جس میں ارشاد رب العزت ہے: «اَلنَّبِىُّ اَولى‌ بِالمُؤمِنینَ مِن اَنفُسِهِم» (۳)، اس کے بعد یہ جملہ ارشاد فرمایا: «مَن کُنتُ مَولاه فَهذا علىٌّ مَولاه»۔ تو اس واقعہ کے سلسلے میں کسی بھی شک و تردید کی گنجائش نہیں ہے۔ اس پرمغز، تاریخ ساز اور انتہائي باعظمت جملے کے معنی و مفہوم کے بارے میں یہ بیان کیا جانا چاہیے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و امامت کے عہدے پر منصوب کئے جانے اور وصی پیغمبر (ص) مقرر کئے جانے کے علاوہ کہ جو اس جملے کا مشہور اور رائج مفہوم ہے، ایک اور مفہوم بھی اس جملے میں مضمر ہے، جس کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے، وہ ہے امت کے حکومتی امور اور سیاسی مسائل پر اسلام کی توجہ اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے اس مسئلے کی اہمیت و کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ جن لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کو سماجی مسائل سے اور سیاسی امور سے لا تعلق بناکر رکھیں اور اسے شخصی مسائل اور لوگوں کی نجی زندگی کے امور تک محدود کر دیں، یعنی اسلام کے سلسلے میں سیکولر نظریہ اپنائیں جس کا پروپیگنڈہ دشمنوں نے کیا اور دشمنوں کے آلہ کاروں نے برسوں مسلمانوں کے درمیان جس سوچ کو عام کرنے کی کوشش کی، غدیر کا یہ واقعہ ایسے لوگوں کا بہترین اور مضبوط جواب ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حساس موقعہ پر، اپنی زندگی کے آخری مہینوں میں، اللہ تعالی کے حکم سے ایک اساسی اور فیصلہ کن مسئلہ کو اٹھایا۔ یہ مسئلہ تھا پیغمبر اکرم کا زمانہ گزر جانے کے بعد والے دور کے لئے حاکم اور امیر المومنین کا اپنے جانشین کی حیثیت تقرر۔ یہ تقرر اور تعین صرف روحانی و معنوی پہلوؤں تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ روحانی و معنوی پہلوؤں کے لئے کسی تقرری اور امام منصوب کئے جانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ منصوب یا معزول کرنے کا تصور حکومت، ملک کا نظم و نسق چلانے، سیاست، اسلامی معاشرے کے انتظامی امور سنبھالنے جیسے میدانوں میں ہی قابل تصور ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عوام کو اس کی سفارش کی۔ غدیر کے واقعہ کا یہ انتہائي اہم پہلو ہے اور ایسے تمام لوگوں کا دنداں شکن جواب ہے جو یہ گمان کرتے ہیں اور اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ اسلام کو سیاسی امور سے، حکومتی مسائل سے اور اس جیسے دیگر معاملات سے الگ تھلگ رکھنا چاہیے۔ مختصر یہ کہ یہ دو حقیقتیں، یعنی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کے دور کے لئے امام منصوب کیا جانا اور حکومت، سیاست، قیادت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امت کی رہنمائی اور انتظامی امور پر توجہ، واقعہ غدیر کی انتہائی اہم اور حساس حقیقتیں ہیں، یہ ان اہم معارف کا حصہ ہیں جو واقعہ غدیر میں پوشیدہ ہیں، یہ تمام مسلمانوں کے لئے اور مسلمانوں کے زمانہ حال و مستقبل کے لئے بڑا عظیم سبق بھی ہے۔
آج ہمیں جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ غدیر کا مسئلہ عقیدے اور دینی نظریے سے وابستہ مسئلہ ہے۔ مکتب اہل بیت اطہار (ع) اور مکتب امامت کے پیروکار اور شیعہ غدیر کے مسئلہ سے گہرائی کے ساتھ وابستہ ہیں، یہ واقعہ شیعہ نظریے اور شیعہ مکتب فکر کی بنیاد و اساس ہے۔ اس میں کسی کو کوئی کلام نہیں ہے۔ جن کو کوئی شبہ ہے یا کوئی بحث کرنی ہے وہ علمی حلقوں میں، ماہرین کی نشستوں میں، بیٹھ کر اس بارے میں بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں، شیعہ مؤقف بہت مضبوط ،مستحکم، شیعوں کے دلائل پختہ دلائل اور شک و تردید سے بالاتر ہیں لیکن اس کا اثر مسلمانوں کی عمومی زندگی پر، مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور ایک ساتھ آگے بڑھنے کے عمل پر، ان کے درمیان باہمی اخوت کے جذبے پر نہیں پڑنا چاہیے۔ شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان اختلافات یا اسلام کے ان دونوں بنیادی اور اساسی فرقوں کے اندر پیدا ہونے والے گوناگوں مسلکوں کے درمیان اختلاف کا مسئلہ اسلام دشمنوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، صرف شیعوں کے دشمنوں کی دلچسپی کی بات نہیں ہے۔ کئی برسوں سے یہ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کے بیج بوئے جائیں، کیونکہ مسلمانوں کے درمیان  اختلافات بھڑکیں تو اس سے مسلمانوں کی ہمت و شجاعت، مسلمانوں کی توانائی و طاقت اور مسلمانوں کے احساسات و جذبات ان کے اندرونی اور داخلی تنازعات کی نذر ہو جائيں گے، بیرونی مسائل پر اور بڑے دشمنوں پر توجہ دینے کا انہیں موقع ہی نہیں ملے گا۔ برسوں سے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے بعد کے دور میں استعمار کی یہ اہم پالیسی رہی ہے۔ کیونکہ سامراجی طاقتوں نے عالم اسلام میں اسلامی جمہوریہ کی فکر و نظر کے بڑھتے ہوئے دائرے کو دیکھا تو انھوں نے تفرقہ انگیزی پر اور زیادہ توجہ مرکوز کی، زیادہ محنت اور دلچسپی کے ساتھ یہ کام کیا، سرمایہ کاری کی، تاکہ عالم اسلام اسلامی جمہوریہ سے خود کو دور کر لے۔
اسلامی جمہوری نظام، ہمارا عظیم انقلاب، ہمارے عظیم  امام (رضوان اللہ تعالی علیہ)، عالم اسلام کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرانے میں کامیاب ہوئے، دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوئے، ان جذبات و اقدامات کو صحیح رخ اور سمت میں موڑنے میں کامیاب ہوئے۔ اس چیز نے دشمن کو خوزدہ اور ہرا
ساں کر دیا، استکبار کو، صیہونزم کو بلکہ واضح الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امریکی سیاست کے رہنماؤں کو خوفزدہ کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے تفرقہ انگیزی کے اسی پرانے نسخےکا پھر سہارا لیا۔ اس سے پہلے بھی اور آج بھی وہ شیعہ سنی اختلافات کی آگ زیادہ سے زیادہ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دونوں فرقوں کی توجہ اصلی دشمن کی طرف سے ہٹ جائے جو صرف شیعوں کا دشمن نہیں یا صرف اہل تسنن کا دشمن نہیں بلکہ اسلام کا دشمن ہے، یہ دونوں فرقے آپس ہی میں الجھ جائیں۔ یہ استعمار کی پالیسی اور سازش ہے اور اس پالیسی  کی سب سے زیادہ ماہر خبیث برطانوی حکومت اور اسکے سیاسی اور سکیورٹی اداروں کو حاصل ہے، جو طویل عرصے سے اس میدان میں کام کرتے رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیسے مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور نفاق کا بیج بویا جاتا ہے، انہوں نے اس کے طریقوں کو بارہا آزمایا ہے، انہیں علم ہے اور وہ بڑی محنت سے اس کے لئے وہ کام کر رہے ہیں۔
یہ جو آج عراق میں، شام میں اور علاقے کے بعض دیگر ملکوں میں"تکفیر" کی تحریک نمودار ہوئی ہے اور جو حقیقت میں تمام مسلمانوں سے بر سر پیکار ہے یعنی صرف شیعوں سے نہیں۔ یہ تکفیری تحریک خود استعماری طاقتوں کے ہاتھوں پروان چڑھی ہے۔ انہوں نے القاعدہ کے نام سے اور داعش کے نام سے ایک چیز تیار کر لی ہے، اسلامی جمہوریہ کا مقابلہ کرنے کے لئے، اسلامی بیداری کی تحریک کا سد باب کرنے کے لئے، لیکن اب یہی آگ ان کے دامن تک پہنچ گئی ہے، آج خود ان کا دامن بھی ان شعلوں کی زد پر ہے۔ البتہ آج بھی اگر گہری تجزیاتی نظر سے جائزہ لیا جائے تو انسان یہی محسوس کرے گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جو اقدامات انجام دے رہے ہیں اور جنہیں انہوں نے داعش سے مقابلے کی کارروائی کا نام دے رکھا ہے اور جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، وہ اس خبیثانہ تحریک کو جڑ سے ختم کرنے کی کارروائی کے بجائے مسلمانوں کی آپسی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے ذریعہ اس جاہل، متعصب اور بڑی طاقتوں کے آلہ کار گروہ کو بنایا ہے۔ ورنہ ان کا ہدف وہی پرانا ہدف ہے۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کی توجہ ان کے اصلی اور حقیقی دشمن کی جانب سے کسی اور طرف موڑ دیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شیعہ ہو یا سنی، جو بھی اسلام سے وابستہ ہے، جو بھی قرآن کی حاکمیت کو تسلیم کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ، امریکی سیاست، استکباری سیاست اور صیہونی سیاست، اسلام کے اصلی دشمن ہیں، یہ اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، یہ اسلام کی حاکمیت اور بالادستی کے دشمن ہیں، آج وہ جو بھی کوششیں کر رہے ہیں، پینتیس سال سے جاری ان کی مہم کا حصہ ہیں۔ پینتیس سال سے وہ مختلف انداز سے کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر یہ نصرت خداوندی اور لطف پروردگار رہا کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف انہوں نے جو سازش بھی کی ، اس میں انھیں شکست اور ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا اس مرتبہ بھی انشاء اللہ انہیں شکست کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔
شیعہ ہوں یا سنی تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے جذبات کو برانگیختہ کرکے، دشمن کے مددگار نہ بنیں۔ شیعوں کو چاہیے کہ ذہن نشین کر لیں کہ اگر شیعہ سنی اختلافات اور تنازعات کو بھڑکایا گيا تو دونوں فرقوں کے مشترکہ دشمن اور اصلی دشمن کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ دشمن کو یہ موقع ہرگز نہ دیں۔ اہل تسنن کو بھی اسی طرح ہوشیار رہنا چاہیے۔ دونوں فریق بہت محتاط رہیں، ایک دوسرے کے جذبات کو مشتعل نہ کریں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں، مسلم مذاہب کے درمیان، مسلم فرقوں کے درمیان اور خاص طور پر شیعہ سنی فرقوں کے درمیان تنازعہ اشتعال انگیزی کا باعث نہ بننے پائے کیونکہ ایسا کام دشمنان اسلام کے لئے خاص دلچسپی اور کشش رکھتا ہے، اس نکتے پر سب توجہ دیں۔ اگر کوئی شخص اس طرح کا کوئی کام کرتا ہے جس سے دوسرے فریق کے احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہو اور عداوت اور کینہ پیدا ہوتا ہے، تو اسے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ امریکہ کی مدد کر رہا ہے، خبیث برطانیہ کی مدد کر رہا ہے، صیہونزم کی مدد اور نصرت کررہا ہے۔ ایسے لوگوں کی مدد کر رہا ہے جنہوں نے داعش، القاعدہ اور ان جیسے دیگر گروہوں کو جنم دیا ہے، جنہوں نے "تکفیر" کی تحریک کو تشکیل دیا ہے تاکہ شیعہ سنی اختلافات میں نئی شدت پیدا ہو جائے۔ آج اسلامی وحدت و اتحاد، اسلامی اخوت و برادری، اسلامی یگانگت و یکجہتی، تمام اسلامی معاشروں کا انتہائی اہم اور لازمی فریضہ ہے، اس فریضہ کے سلسلے میں سب کو پابند رہنا چاہیے۔ البتہ اسلامی جمہوری نظام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے والے مؤمن، بابصیرت اور آگاہ مسلمان، اپنے فریضہ سے اچھی طرح آگاہ اور آشنا ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہاں بھی اور دیگر جگہوں پر بھی وہ اپنے ان فرائض پر عمل کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے، آپ سب کو اور عالم اسلام کو عید غدیر کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) الاحتجاج، جلد‌۲، صفحہ‌۴۵۰؛ خطبہ غدیر
۲) جامع الاحادیث شیعه، جلد‌۲۳، صفحہ‌۷۴۲
۳) سوره‌ى احزاب، آیه‌ ۶ کا ایک حصہ۔