ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا حضرت امام رضا (ع) کے حرم مطہر میں عوام سے اہم خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الأطیبین الأطهرین المنتجبین الهداة المهدّیین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الأرضین. اللّهم صلّ علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها، اللّهم صلّ علی ولیّک علیّ ابن موسی عدد ما احاط به علمک، صلاةً دائمة بدوام عظمتک و کبریائک، اللّهم سلّم علی ولیّک علیّ ابن موسی الرّضا عدد ما فی علمک، سلاماً دائماً بدوام مجدک و عظمتک و کبریائک.

اللہ تعالی کا شکر اور سپاس  ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے فضل و کرم  سے عمر عطا کی اور اس نے ہمیں ایک بار پھر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کے جذبات ، محبت و الفت  سے سرشار اس اجتماع میں  ایک اور نئے سال کی آمد پر اس منور ، ملکوتی اور آسمانی بارگاہ میں گفتگو اور ہمکلام ہونے کا موقع دیا۔آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو میری آواز سن رہے ہیں اور اسی طرح ایرانی قوم کو نئے سال اور نوروز کی آمد پر ایک بار پھر مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں  دنیا بھر کے تمام مسلمانوں اور ایرانی  قوم کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں برکتوں سے مملو و معمور سال اور سعادت و کامرانی سے آراستہ آیام کی دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی اپنا فضل و کرم کرم فرمائےاور آج سے شروع ہونے والےاس سال کو ایسا سال قرار دے جو ایران کی عظیم الشان قوم کے شایان شان ہو، اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس سال کو اپنےفضل و کرم اور الطاف سے سرشار سال قراردے۔
ایک جملہ گزرنے والے سال 1392 (ہجری شمسی) کے بارے میں عرض کرتا ہوں جو کل اختتام پذیر ہوا۔ میں نے آغاز سال کے اپنے پیغام میں بھی اشارہ کیا کہ اس سال کے دوران سیاسی جہاد کے میدان میں جو توقعات تھیں وہ ایرانی قوم نے پوری کیں۔ بیشک سیاسی جہاد ایران کی عظيم الشان قوم کے دو کارناموں کی صورت میں زیادہ نمایاں رہا۔ ایک کارنامہ سال کے پہلے نصف حصے میں انتخابات کی صورت میں نمایاں ہوا اور دوسرا کارنامہ سال کے دوسرے حصہ میں عوام کی عظیم اور ملک گیر ریلیوں کی شکل میں نمایاں ہوا۔انتخابات کے بارے میں ہم نے بہت کچھ کہا ہے۔ اس مرتبہ کے انتخابات اور انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک  منعقد ہونے والے مختلف انتخابات کے بارے میں، اسی طرح 22 بہمن مطابق گیارہ فروری کو ملک گیر سطح پر نکلنے والی عظیم ریلیوں کے بارے میں اس حقیر نے بھی اور دوسرے افراد نے بھی بہت سے مطالب بیان کئے ہیں، میں وہی باتیں دہرانا نہیں چاہتا، لیکن ان دونوں واقعات کے سلسلے میں دو نکتے بیان کرنا چاہوں گا۔ ان دونوں واقعات کے بارے میں جن میں ہر ایک واقعہ عالمی تبلیغاتی اداروں کے معاندانہ پروپیگنڈوں، سازشوں  اور کوششوں کے جواب میں ملک و قوم کی حقیقی صورت حال کا ایک جامع پیغام ہے۔ میں  نئے 1393 (ہجری شمسی مطابق 21 مارچ 2014 الی 20 مارچ 2015) کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے قبل ان دو نکات کے متعلق کچھ مطالب پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

پہلا نکتہ انتخابات کے بارے میں ہے۔ عزیز بھائی اور بہنیں اس بات پر توجہ دیں، کہ انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک انتخابات میں عوام کی شرکت کی شرح کم نہیں ہوئی ہے، اس میں عوامی کی شرکت کی سطح نیچے نہیں آئی ہے۔ یہ سب سے اہم اور بہت بڑی بات ہے۔ پچھلے انتخابات یعنی گیارہویں صدارتی انتخابات میں ہمارے عوام کی شرکت کی شرح  72 فیصد رہی ہے۔ صدارتی انتخابات میں عرام کی شرکت کی یہ شرح عالمی سطح پر بھی شرکت کی نمایاں شرح ہے اور انقلاب کے آغاز سے اب تک جو انتخابات ہمارے ملک کے اندر منعقد ہوئے ہیں ان میں بھی پولنگ کی یہ بہت اچھی اور نمایاں شرح ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں دینی جمہوریت کو مکمل استحکام حاصل ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام ملک کے اندر جمہوریت کی جڑیں مستحکم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ جو ملک صدیوں سے ظالم ،مستبد اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کے ہاتھوں میں رہا، جمہوریت اور ارباب اقتدار کے انتخاب میں عوام کی شرکت سے کچھ ایسا مانوس اور اس کا کچھ ایسا عادی ہو گیا کہ انقلاب کے جوش و خروش اور ولولوں کو 35 سال گزر جانے کے بعد بھی جب انتخابات ہوتا ہے تو 72 فیصد عوام اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کی قدر وقیمت کو ّہچاننا چاہیے۔ میں آپ نوجوانوں اور پورے ملک میں ان افراد کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو صاحب فکر و نظر ہیں، کہ وہ اس عظیم نعمت کا شکر و سپاس بجا لائیں ، جیسا کہ سن 2009 ء مطابق 1388 ہجری شمسی میں کچھ لوگوں نے اس کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا تھا۔ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کچھ لوگ ملک کے اندر ہونے والے انتخابات میں عدم شفافیت کی بات کرتے ہیں، گویا وہ دشمن کی باتوں کو دہراتے اور تکرار کرتے ہیں، یہ بھی نعمت کا  کفران ہے۔ ایران کے اندر جمہوریت پوری طرح مضبوط و مستحکم اور معمول کی چیز بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ملک بھرے میں، دیہاتوں میں، شہروں میں ہر جگہ الیکشن میں ووٹنگ کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو باقاعدہ محسوس کرتے ہیں اور پولنگ مراکز پر پہنچتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انتخابات میں عوامی شرکت کی شرح 72 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی اور اہم بات ہے۔ دنیا میں ووٹنگ کی یہ شرح بہت اچھی شرح  تسلیم کی جاتی ہے۔
دوسرا نکتہ جس پر میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خاص توجہ دینی چاہیے، 22 بہمن مطابق گیارہ فروری کی عظیم ریلیوں کے بارے میں ہے۔ کچھ لوگ اجتماعات میں عوام کی وسیع پیمانے پرشرکت کا اندازہ لگاتے ہیں، کچھ لوگ کیمرے کی مدد سے اور دیگر وسائل کے ذریعہ بڑے مجمع میں موجود لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اس سال اس پہلو پر کام کرنے والے تمام افراد نے، ان تمام لوگوں نے جو عوام کی عظیم ریلیوں پر دقیق اور گہری نظر رکھتے ہیں، مجھے یہ رپورٹ پیش کی کہ تہران اور دوسرے بڑے اور معروف شہروں میں ریلیوں کے شرکاء کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی اور لوگوں کے اندر جوش و خروش اور جذبہ و ولولہ بھی کہیں زیادہ دکھائی دیتا تھا، لوگوں کے نعرے زیادہ ولولہ انگیز، بامعنی اور جوش و جذبے سے سرشار تھے۔ کیوں؟ مختلف مسائل کا تجزیہ کرنے والے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے اور میری نظر میں بھی یہ نتیجہ بالکل درست ہے کہ عوام کی اس عظیم شرکت کی وجہ یہ تھی کہ اس سال سامراجی اور استکباری طاقتوں کا ایرانی قوم کے بارے لہجہ اور انداز زیادہ گستاخانہ اور توہین آمیز تھا۔ کیونکہ ایٹمی مسئلے کے بارے میں مذاکرات ہوئے تھے۔ امریکی سیاستدانوں نے بیان دئیے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ ایرانی قوم اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئی ہے، اس نے اپنے اصولوں کو نظر انداز کردیا ہے، اس فکر و سوچ کی بنیاد پر ایرانی قوم  کے سلسلے میں ان کا لہجہ اور انداز گستاخانہ اور توہین آمیز ہو گیا تھا۔ عوام نے اسے دیکھا اور اچھی طرح بھانپ لیا ۔ جب دشمن اپنے اصلی چہرے کے ساتھ یا ایسے چہرے کے ساتھ میدان میں آتا ہے جو اس کے اصلی چہرے کے بالکل قریب ہے، تو عوام میں شرکت کا جوش و خروش اور ولولہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ عوام نے دیکھا کہ امریکی حکام گستاخیاں کر رہے ہیں، ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ عوام اسلامی نظام سے کنارہ کش اور الگ ہو گئے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ 22 بہمن مطابق گیارہ فروری کو یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ عوام مکمل طور پر اسلامی نظام، اسلامی جمہوریہ اور اسلام کے سرافراز اور سربلند پرچم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس سے اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور ایران کے مخالفین کی شرارت و عناد کے متعلق ہمارے عوام کی حساسیت اور ان کے جذبہ حمیت کا پتہ چلتا ہے۔ تو یہ 22 بہمن مطابق گیارہ فروری کی ریلیوں کے حوالے سے اہم نکتہ ہے۔
نئے سال کا جہاں تک تعلق ہے تو میں نے اس بارے میں کچھ باتیں نوٹ کی ہیں، کچھ عرائض پیش کرنے ہیں، میں اپنے عرائض اور مطالب کو اسی مختصر وقت کے اندر پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو آج ہمیں ملا ہے، آج چونکہ جمعہ بھی ہے وقت محدود ہے اور نماز جمعہ سے پہلے ہماری گفتگو کا اختتام بھی ضروری ہے، تو ان شاء اللہ میں اسی وقت میں اپنی جملہ باتیں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اب اگر کوئی بات بیان کرنے سے رہ گئی تو میں امید کرتا ہوں کہ صاحبان نظر اور معاشرے کے پڑھے لکھے اور دانشور افراد رائے عامہ کے لئے اس کی تشریح کریں گے کیونکہ وہ اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کا ادراک رکھتے ہیں، انہیں علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج کس مقام پر ہے اور کیا اقدامات انجام دئے جا رہے ہیں ۔ میرا مؤقف جو میں آج مختصر طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ ایک جملے میں بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ ایرانی قوم  خود کو مضبوط اور مستحکم بنائے۔ یہ میرا مؤقف ہے۔ یہ قومی اقتدار سے متعلق بات ہے۔ میں اپنی قوم کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر قوم قوی نہ ہو، کمزور ہو تو اس پر اغیار منہ زوری اور اپنی مرضی مسلط کریں گے، اگر قوم طاقتور نہ ہو تو خراج اور ٹیکس حاصل کرنے والی عالمی طاقتیں اس سے زبردستی اور غنڈہ گردی کے ذریعہ ٹیکس وصول کریں گی، اس سے ٹیکس اور خراج وصول کریں گی، اگر ان کے بس میں ہوا تو اس قوم کی توہین کریں گی، اگر ان کا بس چلا تو اس قوم کو کچل کر رکھ دیں گی۔ مادہ پرستانہ افکار کی بنیاد پر جو دنیا چل رہی ہو اس کا مزاج ہی یہی ہے۔ جو بھی خود کو طاقتور پائے گا وہ کمزور دکھائی دینے والوں پر اپنی مرضی مسلط کرے گا، خواہ کمزور نظر آنے والا کوئی فرد ہو یا کوئی قوم ہو۔ معروف شاعر کا شعر ہے؛ـ

مرگ برای ضعیف امر طبیعی است
هر قوی اوّل ضعیف گشت و سپس مرد

"کمزور کا مر جانا فطری امر ہے، قوی پہلے کمزور ہوتا ہے پھر اس کی موت واقع ہوتی ہے" ۔کہتے ہیں کہ پکا ہوا مرغ لاکر ایسے انسان کے سامنے رکھا گیا جو گوشت نہیں کھاتا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا، اس کی دونوں آنکھوں سے حسرت کے آنسو بہنے لگے، اس نے سامنے رکھے ہوئے مرغ کو دیکھتے ہوئے کہا؛ـ

گفت از چه شیر شرزه نگشتی
تا نتواند کست به مسلخ آورد

"اس نے کہا کہ خود کو شیر جیسا طاقتور کیوں نہیں بنایا، کہ کوئی تجھے مذبح تک لانے کی جرئت ہی نہ کرتا۔"
اگر تم خود اپنا دفاع کر نے کی صلاحیت رکھتے اور تمہارے اندر طاقت ہوتی تو کوئی اس طرح تمہارا سر کاٹنے کی ہمت نہ کرتا۔ میں نہ تو اس شاعر کو مانتا ہوں اور نہ ہی ابو العلا معری کو جن کے حوالے سے یہ بات نقل کی گئی ہے؛ لیکن اس بات سے میں پوری طرح متفق ہوں کہ مادی نظریات کی بنیاد پر چلنے والی دنیا میں کمزور کی موت ایک فطری امر ہے۔ میں اسے مانتا ہوں۔ اگر قوم بیدار نہیں ہوتی، خود کو طاقتور نہیں بناتی تو دوسرے آکر من مانی کریں گے اور اپنی بات منوائیں گے۔

 بعض قومیں ایسی ہیں جنہیں طاقتور بننے کے لئے بڑا لمبا سفر طے کرنا ہے، ان میں یہ امید نہیں پائی جاتی کہ وہ توسیع پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کر پائیں گی۔ لیکن ہماری قوم ایسی نہیں ہے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ طاقتور بننے کی ہمارے اندر بھرپور صلاحیت موجود ہے، اس کے لئےضروری وسائل اور ذرائع بھی موجود ہیں، ہماری قوم قومی اقتدار کے راستے پر رواں دواں بھی ہے، اس نے کافی راستہ طے بھی کر لیا ہے۔ اسی بنیاد پر میں سن ہجری شمسی 1393 کے نقشہ راہ اور  روڈ میپ کے دو بنیادی عنصر ان چیزوں کو سمجھتا ہوں جن کا میں نے سال کے آغاز میں  اپنے پیغام میں ذکر کیا؛ قومی عزم اور جہادی مدیریت کے ہمراہ  پائدارمعیشت اور ثقافت۔
کسی بھی قوم کی طاقت کا انحصار صرف اس بات پر نہیں ہوتا کہ اس کے پاس  پیشرفتہ فوجی ساز و سامان اور مسائل موجود ہوں۔ البتہ پیشرفتہ ہتھیار بھی ضروری ہیں لیکن صرف ہتھیاروں کے سہارے پر کوئی قوم طاقتور نہیں بن سکتی۔ میں جب غور کرتا ہوں تو مجھے تین اہم عناصر نظر آتے ہیں جن میں سے دو تو یہی ہیں جن کا ذکر میں نے اپنے پیغام میں کیا ہے۔ اگر ان تینوں عناصر پر بھرپور توجہ مبذول کی  جائے تو قوم طاقتور بن سکتی ہے۔ ایک معیشت، دوسرے ثقافت اور تیسرے علم و دانش۔ گزشتہ دس بارہ سال کے دوران علم و دانش کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا اور لکھا گيا ہے اور الحمد للہ اس کا اثر بھی ہوا۔ آج علم و دانش کے میدان میں ہم پیشرفت اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ شاید میں اس موضوع کا بھی بعد میں مختصر طور پر ذکر کروں، تاہم اقتصاد اور ثقافت کے سلسلے میں معمول سے زیادہ توجہ اور محنت کی ضرورت ہے تاکہ ہم ملکی معیشت کو ایسی شکل میں ڈھالیں کہ دنیا کے دوسرے سرے پر بیٹھ کر کوئی اپنے ایک فیصلے اور ایک اجلاس سے ہمارے ملک کے اقتصاد اور ہمارے عوام کی معیشت پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ ایسا کرنا ہمارے اختیار میں ہے اور ہمیں یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ یہ وہی پائدار اور مزاحمتی معیشت ہے جس کی پالیسیوں کا ابلاغ اسفند کے مہینے میں انجام دیا جا چکا ہے۔ ملک کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ میرا ایک اجلاس ہوا جس میں تفصیل کے ساتھ اس بارے میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اس پر اتفاق بھی کیا۔ یعنی تینوں شعبوں، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہان ان پالیسیوں کی تدوین کے عمل میں باقاعدہ طور پر شامل بھی تھے، انہوں نے ان پالیسیوں کا خیر مقدم بھی کیا اور کہا کہ ہم اس پر عمل کریں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے عزیز عوام سے پائدار اور مزاحمتی معیشت کے بارے میں تھوڑی گفتگو کروں اور عوام خود میری زبان سے وہ باتیں سن لیں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔
پائدار اور مزاحمتی اقتصاد یعنی ایسا اقتصاد جو مضبوط اورمستحکم بنیاد پر استوارہو، عالمی سطح پر پیدا ہونے والےمعاشی زلزلےاور جھٹکوں ، امریکہ اور دوسرے ملکوں کی پالیسیوں سے درہم برہم نہ ہو جائے۔ یہ ایسی معیشت ہے جس کا دارومدار عوام پر ہے۔ مزاحمتی معیشت کے بارے میں جو در حقیقت ایک مستحکم معیشت ہے، تین اہم سوال ہیں۔ میں یہ تینوں سوال پیش کروں گا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ پائدار اور مزاحمتی معیشت کی کیا خصوصیات ہیں اس میں کون سی چیزیں ضروری ہیں اور کن چیزوں کی نفی ضروری ہے؟ اس معیشت کی خصوصیات کیا ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ مزاحتمی اور مستحکم معیشت جس کا ہم نعرہ لگا رہے ہیں کیا عملی طور پر ممکن ہے یا یہ محض خیالی اور تصوراتی چیز ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مزاحتمی معیشت عملی طور پر ممکن ہے تو اس کے تقاضے اور ضروریات اور شرائط  کیا ہیں اور اس کے لئے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟ آج میں ان تینوں سوالوں کے جواب دوں گا، ان کا تعلق پائدار اور مزاحمتی معیشت سے ہے۔ اس کے بعد میں ثقافت کے مسئلے کے بارے میں بھی اپنے عرائض پیش کروں گا جو میرے نزدیک بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔


پہلا سوال: میں نے کہا کہ مزاحمتی معیشت میں کون سی چیزیں ہیں اور کون سی باتیں نہیں ہونی چاہییں۔ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ یہ ایک علمی ماڈل ہے جو ملکی ضرورتوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہے، یہ اس کا مثبت اور لازمی پہلو ہے، یہ ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے۔ یعنی بہت سے دوسرے ممالک بھی ان دنوں سماجی جھٹکوں اور گزشتہ تیس سال کے دوران اقتصادی میدان میں رونما ہونے والے نشیب و فراز  کے پیش نظر اپنے اپنے حالات کے مطابق اسی سمت میں آگے بڑھنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ جو کام ہم انجام دے رہے ہیں دیگر ممالک بھی اس کی فکر میں ہیں، یہ صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ معیشت " اندرونی توانائیوں اور پیداوار پر منحصر" ہے۔ اندرونی پیدوار کا کیا مطلب ہے؟ یعنی یہ پائدار معیشت ہمارے اپنے ملک اور ہمارے اپنے عوام کے اندر موجود صلاحیتوں اور استعداد سے وجود میں آئے گی اور ہمارے اپنے ملک کے وسائل اور ذرائع پر اس پودے اور اس درخت کے نشونما کا انحصار ہوگا۔ " اندرونی پیداوار"  کا مفہوم یہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ معیشت ملک کے اندر محدود رہ جانے والی معیشت نہیں ہے۔ یعنی مزاحمتی معیشت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی معیشت کو اپنے ملک کی حدود میں محصور اور محدود کردیں۔ نہیں ایسا نہیں، یہ بیشک "اندرونی پیداوار"  ضرور ہے لیکن یہ پیداوار باہر کی دنیا میں پھیلنے والی ہے۔ عالمی معیشتوں سے تعاون کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک کی معیشتوں سے لین دین رکھنے اور تعاون کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تو " یہ اندرونی پیداوار" ہے لیکن باہر پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ باتیں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ عناد رکھنے والے قلم، زبانیں اور دماغ اپنے کام میں لگ گئے ہیں۔ یہ ذہنیت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ حکام ملکی معیشت کو ملک کے اندر محدود و محصور کردینا چاہتے ہیں۔ عوام اور عہدیداروں کو اس راستے سے دور رکھنا چاہتے ہیں جو سعادت و کامرانی کا راستہ ہے ۔ میں یہ باتیں بیان کر رہا ہوں تا کہ ہماری رائے عامہ کے لئے صورت حال روشن اور واضح ہو جائے۔
تیسرے یہ کہ یہ معیشت جو پائدار اور مزاحمتی اقتصاد کے نام سے متعارف کرائی جارہی ہے اس میں عوام کی حیثیت بنیادی اور کلیدی ہے۔ یہ سرکاری اقتصاد نہیں ہے، عوامی اقتصاد ہے، عوامی ارادے سے، عوامی سرمائے سے اور عوامی شراکت سے اسے جامہ عمل پہنانا ہے۔ سرکاری نہیں ہے اس کا مطلب یہ  نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے، منصوبہ بندی کرنا، زمین ہموار کرنا، استعداد اور توانائیوں کو فروغ دینا، رہنمائی اور مدد کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اقتصادی سرگرمیاں اور اقتصادی کام عوام کے ہاتھ میں ہوگا، عوام کے اختیار میں ہوگا، اور حکومت ذمہ دار ادارے کی حیثیت سے نگرانی کا کام انجام دے گي، راہنمائی اور ہدایت کرے گی، مدد کرےگی۔ اگر کہیں کچھ لوگ غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، اقتصادی بدعنوانی کی کوشش کریں تو حکومت انہیں روکے، جہاں کچھ لوگوں کو مدد کی ضرورت پیش آئے، وہاں حکومت ان کی مدد کرے۔ لہذا حالات کو سازگار اور موافق بنانا اور کام کو آسان کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چوتھی چیز ہم نے یہ کہی کہ مزاحمتی معیشت ' علم محور " ہے۔ یعنی علم و سائنس کے شعبے کی ترقی سے بھرپور استفادہ کرےگی، سائنسی ترقی کی بنیاد پر آگے بڑھے گی، علم و دانش کے محور کے ارد گرد رہےگی۔ لیکن اس کا مطلب یہ  نہیں کہ یہ معیشت صرف سائنسدانوں اور صاحبان رائے سے مخصوص ہے اور صرف دانشوروں کا طبقہ ہی اس میں کوئی رول ادا کر سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، بیشک تجربات اور مہارتیں، وہ افراد جو تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں صنعت کاروں کے پاس جو تجربات ہیں وہ بھی بہت اثر رکھتے ہیں، ان تجربات سے بھی اس معیشت میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ' علم محور اقتصاد" تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجربہ کار کسان اور صنعت کار جنہوں نے گزشتہ برسوں کے دوران اپنے تجربات کی مدد سے بڑے نمایاں کام انجام دئیے ہیں، وہ اب کوئی رول ادا نہیں کر سکتے، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ان کا رول بھی بہت اہم ہے۔
پانچویں چیز یہ ہے کہ یہ معیشت انصاف اور مساوات کو اپنا محور قرار دیتی ہے۔ یعنی صرف سرمایہ داری اور خالص پیداوار کے معیاروں جیسے قومی رشد و نمو اور قومی پیداوار کی علامات پر ہی اکتفا نہیں کرتی۔ اس کے مد نظر صرف یہ نہیں ہے کہ ہم بیان کریں کہ قومی شرح نمو اتنی فیصد ہے یا ہماری قومی پیداوار اتنی ہے، جو آپ سرمایہ دارانہ معیشتوں میں اور عالمی سطح کے شرح نمو میں دیکھتے ہیں۔ بعض ممالک کی قومی پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن اسی ملک میں کچھ لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں، ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔ لہذا انصاف، سماجی انصاف اور اقتصادی مساوات مزاحمتی معیشت کا بہت اہم معیار ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا میں ترقی اور نمو کے لئے جو پیمانے معین ہیں ان کو یکسر نظر انداز کر دیں۔ ہم ان پیمانوں اور معیاروں کو بھی دیکھتے ہیں لیکن ہماری معیشت کا محور انصاف اور مساوات پر مبنی ہے۔ اس پروگرام میں مساوات اور انصاف کا مطلب غربت تقسیم کرنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب سرمائے کی پیداوار میں اضافہ اور قومی ثروت کا فروغ ہے ۔
چھٹی چیز یہ کہ ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت ملک کی اقتصادی مشکلات کا بہترین حل ہے،اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ملک کی موجودہ مشکلات کو مد نظر رکھ کر یہ بات کہی جا رہی ہے جن کا ایک حصہ پابندیوں کا نتیجہ ہے یا ایک حصہ کسی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے۔ یہ دائمی حل ہے۔ مزاحمتی معیشت یعنی اقتصاد کے ستونوں اور بنیادوں کو مستحکم ،مضبوط اور پائدار بنانا۔ اس طرح کی معیشت پابندیوں کے عالم میں بھی اور معمول کے حالات میں بھی ثمر بخش ہوگی اور لوگوں کی مدد کریگی۔ یہ ہے پہلے سوال کا جواب۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا یہ اقتصادی پروگرام جسے آپ مزاحمتی معیشت سے  تعبیر کررہے ہیں، ایک تصوراتی اور خیالی چیز ہے جسے عملی جامہ پہنانے کی آپ تمنا رکھتے ہیں یا نہیں یہ کوئی باقاعدہ عملی جامہ پہننے والا نظریہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بالکل قابل عمل چیز ہے اور یقینی طور پر ممکنات میں سےہے، کیوں؟ اس کی وجہ ملک اور عوام کے اندر موجود صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں، اس ملک میں بے پناہ اور غیر معمولی توانائیاں موجود ہیں۔ میں ان میں سے بعض صلاحیتوں کی جانب اشارہ کروں گا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں ثابت کرنے کے لئے عجیب و غریب اعداد و شمار کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں۔ ہماری اہم توانائیوں اور صلاحیتوں میں سے ایک ہماری افرادی قوت ہے۔ ہمارے ملک میں افرادی قوت ہماری انتہائی اہم صلاحیتوں اور توانائیوں میں سے ایک ہے۔ یہ بہت بڑی اہم چیز ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارے ملک میں پندرہ سے تیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد ، ہماری کل آبادی کے کافی بڑے حصے پر مشتمل ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی خصوصیت ہے۔ ہمارے یہاں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ یعنی ان گزشتہ برسوں میں ہمارے ایک کروڑ نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے ہیں۔ چالیس لاکھ طالب علم ایسے ہیں جو آئندہ چند سال کے اندر یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر نکلنے والے ہیں۔ ہمارے عزیز نوجوان یہ بات یاد رکھیں کہ یہ جو ہم چالیس لاکھ طالب علموں کی بات کر رہے ہیں، شاہ کے طاغوتی دور میں طلبہ کی تعداد سے پچیس گنا زیادہ تعداد ہے۔ ملک کی آبادی اس وقت کے مقابلے میں آج دگنی ہوگئی ہے لیکن طلبہ کی تعداد اس دور کے مقابلے میں پچیس گنا زیادہ ہے۔ آج ہمارے یہاں طلبہ اور فارغ التحصیل ہو چکے نوجوانوں کی تعداد کا یہ عالم ہے۔ اس کے علاوہ بھی دسیوں لاکھ کی تعداد میں ہمارے یہاں تجربہ کار اور ماہر افراد موجود  ہیں۔ آپ غور کیجئے، دفاع مقدس کے دور میں یہی افرادی قوت ہماری مسلح فورسز کی مدد کے لئے آگے آئی تھی۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران ہماری ایک بہت بڑی مشکل یہ تھی کہ ہمارے بہت سے سسٹم ناکارہ ہو جاتے تھے، ہمارے مراکز پر بمباری کی جاتی تھی اور ہمارے فوجی خالی ہاتھ رہ جاتے تھے، نقل و حمل کے وسائل اور دیگر ساز و سامان تباہ ہو جاتا تھا۔ یہ مشکلات اورمسائل تھے۔ تہران اور دیگر علاقوں سے کچھ تجربہ کار اور ماہر افراد روانہ ہوئے جنہیں میں نے خود بھی جنگ کے اوائل میں دیکھا ہے، میں انہیں دیکھتا تھا اور ابھی حال ہی میں الحمد للہ توفیق حاصل ہوئی اور ان سے ملاقات کا موقعہ ملا، ان میں سے کچھ لوگ ملنے کے لئے آئے، اس وقت نوجوان تھے مگر اب کافی وقت گزر چکا ہے لیکن جوش و جذبہ وہی ہے، تو یہ لوگ میدان جنگ میں گئے اور صف اول تک پہنچ گئے۔ ان میں کچھ تو شہید ہو گئے، ان لوگوں نے وسائل اور سسٹم کی مرمت کا کام اپنے دوش پر لیا، تعمیرات کا کام انجام دیا، صنعتی تعمیرات کا کام انجام دیا۔ یہ عجیب و غریب پل جو جنگ کے دوران ہماری مسلح فورسز کے بہت کام آتے تھے، دیگر بے شمار وسائل، گاڑیاں، سڑکیں وغیرہ یہ سب انہی تجربہ کار اور ماہر افراد نے تیار کئے۔ وہ آج بھی موجود ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی ماشاء اللہ ان کی خاصی تعداد ہے۔ یہ اعلی تعلیم یافتہ افراد نہیں ہیں مگر ایسا تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں کہ بسا اوقات تو اعلی تعلیم یافتہ افراد سے بھی کہیں زیادہ کارآمد اور بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہماری افرادی قوت کا ایک اہم حصہ ہے، یہ افراد زرعی شعبے میں بھی ہیں اور صنعتی شعبے میں بھی کثرت سے موجود ہیں۔
ہمارے ملک کے اندر موجود اہم صلاحیتوں اور توانائیوں میں ایک ہمارے قدرتی وسائل اور ذخائر ہیں۔ میں نے گذشتہ سال اسی جگہ پر تیل اور گیس کے بارے میں بتایا تھا کہ تیل اور گیس دونوں مجموعی طور پر دیکھے جائیں تو ہمارا ملک پہلے نمبر پر ہے۔ یعنی دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کے پاس تیل اور گیس دونوں ذخائر اس مقدار میں ہوں جس مقدار میں ایران کے پاس ہیں۔ ہمارے تیل اور گیس کے ذخائر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہیں۔ اس سال جو میں یہاں آیا ہوں اور آپ سے گفتگو کر رہا ہوں تو اس دوران گیس کے جو نئے ذخائر ملے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ سال گیس کے ذخائر کے سلسلے میں ہمارے جو اعداد و شمار تھے ہمارے ذخائر اس سے کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ تو تیل اور گیس کے ذخائر کی صورت حال ہے۔ انرجی کے ذخائر ،جس پر ساری دنیا کی روشنی، حرارت، صنعت اور ترقی کا انحصار ہے ان کی سب سے بڑی مقدار ہمارے ملک میں موجود  ہے۔ اس کے علاوہ سونے اور نایاب معدنیات کی کانیں اس پورے ملک میں جابجا موجود ہیں۔ لوہا، قیمتی پتھر، انواع و اقسام کی قیمتی اور اہم دھاتیں جن پر صنعتوں کا انحصار ہے ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں، یہ بھی بہت اہم پہلو ہے۔
ہمارے ملک کی ایک اور انتہائی اہم خصوصیت اس کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ ہم پندرہ ملکوں کے پڑوسی ہیں جو ہمارے یہاں آمد و رفت رکھتے ہیں۔ نقل و حمل اور ٹرانزٹ ہمارے ملک کی بہت اہم خصوصیت ہے، ہمارے جنوب میں بحیرہ عرب اور شمال میں بحیرہ کیسپین واقع ہے۔ ہمارے ان پڑوسی ملکوں میں تقریبا سینتیس کروڑ لوگوں کی آبادی ہے۔ اتنے سارے ہمسایہ ممالک اور رابطے کی یہ کیفیت کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی اور معاشی رونق کے لئے بہت اہم خصوصیت ہے۔ یہ سب ہمارے اپنے داخلی بازار سے ہٹ کر ہے۔ ہمارے اپنے ملک کا ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کا بازار کسی بھی معیشت کے لئے بہت اہم اور اچھا بازار ہے۔
ہمارے ملک کے پاس ایک اور اہم خصوصیت سافٹ اور ہارڈ دونوں طرح کے بنیادی سسٹم اور تنصیبات ہیں۔ سافٹ ویئر جیسے دفعہ چوالیس کی پالیسیاں ، ترقیاتی منصوبے' "پانچ مراحل پر استوار ترقیاتی منصوبہ "  ان گذشتہ برسوں میں جو کام انجام پائے۔ اسی طرح بنیادی تنصیبات میں اور انفراسٹرکچر میں ہماری سڑکیں، پل، ڈیم، کارخانے وغیرہ ہیں۔ یہ سب کسی بھی ملک کی پیشرفت و ترقی کے لئے بہت اہم مقدمات ہیں، یہ کسی بھی ملک کے لئے بہت اہم خصوصیات ہیں۔ اب ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو ان توانائیوں اور صلاحیتوں سے آپ اچھی طرح استفادہ کر سکتے تھے، لیکن چونکہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں لہذا آپ اپنی ان توانائیوں کو بروئے کار نہیں لاسکتے۔ یہ تصور غلط ہے، یہ خیال درست نہیں ہے۔ ہم دوسرے بھی بہت سےشعبوں میں پابندیوں کے باوجود انتہائی نمایاں اور بلند مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال علمی اور سائنسی شعبے کی ترقی ہے، ایک اور مثال صنعت و ٹکنالوجی کے میدان کی کامیابیاں ہیں، ان شعبوں میں ہم پر پابندیاں لگی ہوئی تھیں اور آج بھی لگی ہوئی ہیں۔ آج بھی جدید ٹیکنالوجی کے سلسلے میں دنیا کے اہم سائنسی مراکز کے دروازے ایرانی سائنسدانوں اور ایرانی طلبہ کے لئے بند ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی ہے، ایٹمی شعبے میں ترقی کی ہے، اسٹیم سیلز کے شعبے میں ہم نے ترقی کی ہے، دفاعی صنعت کے شعبے میں ہم نے پیشرفت حاصل کی ہے، ڈرون طیاروں اور میزائل کے شعبے میں ہم نے ترقی کی جو دشمن کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے، تو پھر ہم اقتصادی شعبے میں ترقی کیوں نہیں کر سکتے؟ جب ہم ان میدانوں میں اور نمایاں شعبوں میں اتنی ترقی کرنے پر قادر ہیں تو اقتصادی میدان میں بھی ہمیں اپنے عزم کو پختہ کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملاکر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ معیشت کو بھی فروغ دیں۔ ہماری نگاہ امید دشمن کے ہاتھوں پر مرکوز نہ ہو کہ کب وہ پابندیاں اٹھائے گا، کب فلاں چیز کی موافقت کرے گا، اس کو جہنم میں ڈالئے، ہمیں اپنی توانائيوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
تیسرا سوال جو میں نے بیان کیا اب اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ یہ عظیم کام، یہ پائدار اور مزاحمتی معیشت جامہ عمل پہنے، اس کے لئے ہمیں کیا اقدامات انجام دینے ہیں، اس کے تقاضے اور شرائط کیا ہیں؟ میں مختصر طور پر اس کا جواب دوں گا؛ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ حکام قومی پیداوار کی حمایت کریں، قومی پیداوار ملک کی معاشی پیشرفت کی بنیادی اور کلیدی کڑی ہے۔ حکام قومی پیداوار کی حمایت کریں! کس طرح حمایت کریں؟ اس طرح حمایت کریں کہ جہاں کسی قانون کی ضرورت ہے، قانون سے مدد کریں، جہاں عدالتی پہلو سے مدد کی ضرورت ہے وہاں اس پہلو سے مدد بہم پہنچائیں، جہاں انتظامی اور اجرائی امور میں مدد کی ضرورت ہے وہ مدد فراہم کریں۔ شوق دلائیں، کام کریں، یہ تمام اقدامات انجام دیں تاکہ قومی پیداوار کو فروغ حاصل ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ ملک کے سرمایہ کار اور افرادی قوت جن پر پیداوار کا انحصار ہے، قومی پیداوار کو خاص طور پر اہمیت دیں۔ کس طرح؟ اس طرح کہ پیداوار میں اضافہ کریں۔ پیداوار میں اضافہ سے مراد یہ ہے کہ جو وسائل موجود ہیں ان کو احسن طریقہ سے کام میں لائیں، محنت کش طبقہ اپنا کام پوری توجہ اور باریک بینی سے انجام دے۔ "رحم الله امرء عمل عملاً فأتقنه" محصول میں اضافے کا مطلب یہ ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالی رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کوئی کام انجام دیتا ہے تو بھرپور طریقے سے اور محکم انداز میں سرانجام دیتا ہے۔ جو شخص سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ اس سرمائے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کرے۔ یعنی پیداوار پر آنے والے خرچ کو کم کرے۔ بعض دفعہ غیر مدبرانہ روش اور درست منصوبے اور پروگرام کے فقدان کی وجہ سے پیداوار کا خرچ بڑھ جاتا ہے اور سرمائے اور محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی پیداوار کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ملک کے سرمایہ کار پیداواری سرگرمیوں کو دیگر سرگرمیوں پر ترجیح دیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ افراد کے پاس سرمایہ موجود تھا اور اسے وہ کسی میدان میں لگا کر اچھا منافع حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا، وہ پیداواری سرگرمیوں کی جانب گئے ، انہوں نے کہا کہ ہم ملکی پیداوار کو تقویت پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ نیک عمل ہے،یہ ایک طرح کا نیک کام بھی ہے، اس کا شمار انتہائی قابل تعریف کاموں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سرمایہ ہے وہ اپنا سرمایہ پیداواری کاموں میں لگائیں اور ملکی پیداوار کی مدد کریں، خواہ ان کا یہ سرمایہ کم ہو یا زیادہ۔
اس کے بعد یہ نکتہ عرض کرنا ہے کہ ملک کے عوام ہر سطح پر قومی پیداوار کی ترویج کریں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب وہی ہے جو میں نے دو تین سال قبل اسی جگہ پر تاکید کے ساتھ بیان کیا تھا اور کچھ لوگوں نے خوش قسمتی سے اس پر عمل بھی کیا البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سب اس پر عمل پیرا ہوں، وہ داخلی مصنوعات کا استعمال ہے ۔ میرے عزیزو! جب آپ درآمدات کے بجائے ملک کے اندر تیار ہونے والی اشیاء اور مصنوعات کو خریدتے ہیں تو ایک طرف تو آپ روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مددگار بنتے ہیں، دوسری طرف آپ ایرانی محنت کش طبقے کو اس بات کی تشویق دلاتے ہیں کہ وہ اپنی مہارت اور جدت عملی کا مظاہرہ کرے۔ جب داخلی مصنوعات کا استعمال بڑھتا ہے تو یہ مصنوعات تیار کرنے والا جس کے اندر کچھ جدت عملی اور صلاحیتیں ہیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لاتا ہے۔ جب آپ داخلی مصنوعات کو استعمال کریں گے تو اس سے قومی ثروت میں اضافہ ہوگا۔ ماضی میں، طاغوتی شاہی دور میں غیر ملکی مصنوعات کا استعمال عام تھا، جب کوئی چیز خریدنے کے لئے لوگ جاتے تھے تو سب سے پہلے دریافت کرتے تھے کہ ایرانی ہے یا غیر ملکی ہے؟ اگر غیر ملکی ہو تو زیادہ رغبت سے خریدتے تھے۔ یہ چیز ختم ہونا چاہیے اور اس کے برعکس صورت حال پیدا ہونا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ درآمدات اشیاء کا خریدنا حرام ہے، تاہم ہمارا یہ کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لئے داخلی مصنوعات کی خریداری ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کا ان تمام چیزوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کردار عوام کو ادا کرنا ہے۔ البتہ دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی حکام اور عہدیداروں کی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے۔ بسا اوقات عوام کے اندر اسراف اور فضول خرچی کی وجہ ان لوگوں کا طرز عمل بنتا ہے جنہیں وہ اپنا بڑا سمجھتے ہیں۔ اگر اعلی سطح پر اسراف نہ ہو تو عوام کے اندر بھی اسراف میں کمی واقع ہوگی۔ تو داخلی اور اندرونی پیداوار کا فروغ ایک اہم ضرورت ہے۔
میں اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ مزاحمتی معیشت کا مطلب ہے معیشت کی بنیادوں اور ستونوں کو مضبوط اور مستحکم بنانا جو ہماری عمومی ذمہ داری ہے، اس میں سب اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، حکام بھی اور عوام بھی، اسی طرح وہ لوگ بھی جو کوئی مہارت رکھتے ہیں، وہ لوگ بھی جن کے پاس سرمایہ ہے، وہ لوگ بھی جو صاحب نظر ہیں۔ ہم نے جو باتیں عرض کیں وہ ان چیزوں کا خلاصہ ہے جو بیان کی جانی چاہیے۔ اب مفکر اور دانشور حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس کی تفصیلات کو بیان کریں۔
میری گفتگو کا دوسرا حصہ ثقافت کے بارے میں ہے۔ میں ایک جملے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میرے عزیزو! ثقافت، معیشت سے بھی زیادہ اہم ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ثقافت اس آکسیجن کی مانند ہے جس سے ہم سانس لیتے ہیں، آپ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں، خواہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں۔ اب اگر یہ ہوا صاف ستھری ہوئی تو آپ کے بدن پر اس کے اپنے اثرات ہوں گے اور اگر ہوا آلودہ ہوئی تو اس کے کچھ اور اثرات مرتب ہوں گے۔ کسی ملک کی ثقافت ہوا کی مانند ہوتی ہے، اگر صحیح ہو تو اس کے کچھ اثرات ہوں گے۔ ہم داخلی پیداوار کے بارے میں ابھی گفتگو کر رہے تھے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ داخلی مصنوعات کے استعمال کا حقیقی معنی میں رواج ہو تو اس کے لئے ضروری ہےکہ عوام کے ذہن میں داخلی مصنوعات کے استعمال کی ثقافت قائم ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز کریں تو ضروری ہے کہ یہ بات لوگوں کے ذہن میں پورے یقین کے ساتھ بیٹھ جائے۔ یہی ثقافت ہے۔ ثقافت کا مطلب ہے لوگوں کا یقین، ان کا ایمان، عوام کے عادات و اطوار، وہ چیزیں جن سے لوگ روزانہ روبرو ہوتے ہیں اور جن کا عوام کے حرکات و سکنات اور اعمال و اقدامات میں اثر ہوتا ہے، یہی ثقافت ہے۔ لہذا اس کی بڑی اہمیت ہے۔ مثال کے طور پر سماجی شعبہ میں قانون کی بالادستی یعنی یہ کہ لوگ قانون کا احترام کریں، یہ ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔ سماجی تعاون ایک ثقافتی معاملہ ہے۔ شادی اور کنبے کی تشکیل ایک ثقافتی مسئلہ ہے۔ بچوں کی تعداد ثقافت کا حصہ ہے۔ اگر ان امور میں لوگوں کی نظر اور لوگوں کی سوچ درست ہوگی تو معاشرے میں لوگوں کی زندگی کا ایک انداز ہوگا اور اگر سوچ اور سمت درست نہ ہو تو زندگی کسی اور نہج پر آگے بڑھے گی، اور خدانخواستہ ہم بھی اسی بلا میں گرفتار ہو سکتے ہیں جس میں آج وہ ممالک مبتلا ہیں جنہوں نے خاندان اور خاندانی بنیادوں کو مسمار کر دیا اور شہوت و لذت کی ترویج کی۔ وَاتَّبِعوُا الشَّهَواتِ فَسَوفَ یَلقَونَ غَیّا (
۱) ــ ان کا یہی انجام ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ثقافتی شعبہ دشمنوں کے نشانے پر ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ثقافت کا اثر بہت زیادہ ہے۔ ثقافتی میدان میں دشمن کا نشانہ اور اس کے حملوں کی آماجگاہ ہے لوگوں کا ایمان اور عقیدہ۔ ثقافتی حکام اس شعبے میں ہونے والی دراندازی کی طرف سے ہوشیار رہیں، ثقافتی دراندازی بہت خطرناک ہے۔ حکام بہت محتاط رہیں، بہت ہوشیار رہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام ثقافتی مسائل کی جڑ اغیار ہیں۔ نہیں، خود ہم نے بھی کوتاہی کی ہے، حکام، ثقافتی شعبہ اور دیگر شعبوں کے حکام سے کوتاہی ہوئی ہے، غلطیاں ہوئی ہیں جن کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری دشمن کی گردن پر نہیں ڈالتے لیکن ثقافتی معاملے میں دشمن کی ریشہ دوانیوں کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ آج بھی اور اوائل انقلاب میں بھی دشمن کے تبلیغاتی اداروں کی ساری کوشش یہ رہی کہ عوام کو انقلاب کی بنیادوں کے سلسلے سے الگ کردیں۔ انہوں نے عوام کی فکر اور طرز عمل کو نشانہ بنایا، لوگوں کے عقائد و نظریات پر حملہ کیا۔ ان چیزوں کو انسان کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
یہاں ممکن ہے کہ یہ سوال پیدا ہو کہ آپ کہتے ہیں کہ ملک کے حکام بہت محتاط رہیں، تو سوال یہ ہے کہ کتنا محتاط رہیں؟ کیا یہ آزادی سے متصادم نہیں ہے جو انقلاب کا نعرہ بھی ہے اور جو اسلامی جمہوریہ کے اہم ستونوں کا حصہ ہے ؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں! آزادی سے اس کا کوئي تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ آزادی، تمام اصولوں اور ضوابط کو خیرباد کہہ دینا نہیں ہے، آزادی مکمل لااوبالی نہیں ہے۔ آزادی جو ایک عظیم نعمت خداوندی ہے اپنے کچھ ضوابط اور اصول رکھتی ہے۔ ضوابط کے بغیر آزادی بے معنی ہے۔ اگر ملک میں کچھ ایسے افراد ہوں جو نوجوانوں کے ایمان و عقیدے پر وار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو آزادی کا واسطہ دیکر اس پر خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔ جیسے اگر کوئی ہیروئن یا دیگر نشہ آور اشیاء جو بدن کو زہر آلود اور خاندانوں کو تباہ کردیتی ہیں، لوگوں کے درمیان پھیلانے کی کوشش کرے تو لا تعلق ہوکر بیٹھا نہیں جا سکتا۔ اگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ فن و ہنر کی آڑ میں، چرب زبانی کرکے، یا دیگر وسائل کی مدد سے مثلا پیسے کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، لوگوں کے ایمان و عقیدے پر وار کر رہے ہیں، لوگوں کی اسلامی و انقلابی ثقافت میں دراندازی کر رہے ہیں، اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں کہ سب کو آزادی حاصل ہے تو اس طرح کی آزادی دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے! ساری دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ وہی ممالک جو آزادی کا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اپنی ریڈ لائنوں کے سلسلے میں بہت سخت عمل کرتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کوئی بھی شخص یورپی ممالک میں ہولوکاسٹ کے بارے میں ایک لفظ نہیں بول سکتا۔ حالانکہ معلوم نہیں کہ اس واقعہ کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں اور اگر حقیقت میں ہولوکاسٹ ہوا ہے تو کیسے ہوا۔ ہولوکاسٹ کے بارے میں اظہار خیال، اس کے بارے میں کسی بھی طرح کے شبہ کا اظہار، بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر سختی سے روک لگائی جاتی ہے، ایسا کرنے والے کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، عدالتی کارروائی شروع ہو جاتی ہے اور اوپر سے وہ آزادی کے علم بردار بھی بنے ہوئے ہیں۔ جو چیزیں ان کی نظر میں ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہیں ان کی وہ بڑی سختی سے پابندی کرتے ہیں تو پھر انہیں ہم سے کیوں یہ توقع ہے کہ ہم اپنے ملک اور اپنے نوجوانوں کی انقلابی اور اعتقادی ریڈ لائنوں کو نظر انداز کر دیں؟ اگر کوئی قومی خود مختاری کے جذبے کو نشانہ بنائے، اس وقت کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو خود مختاری کی بات ہوتی ہے تو مذاق کرکےمسکراتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ سب پسماندگی کی باتیں ہیں، خود مختاری کیا ہوتی ہے؟ وہ اغیار پر انحصار کو تھیوری کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خود مختاری کے نظرئے کا مذاق اڑاتے ہیں، خود مختاری کی زندگی بسر کرنے کے نوجوانوں کے جذبے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ کوئی دینی و اخلاقی اصولوں کی توہین کرتا ہے، فارسی زبان کا مذاق اڑاتا ہے، ایرانی آداب و اخلاق کی توہین اور تحقیر کرتا ہے، یہ چیزیں ہیں، یہ چیزیں آج کل نظر آ رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ ایرانی نوجوان کے قومی جذبہ ، غیرت اور حمیت کو کچل دیں۔ بار بار منفی اخلاقیات کا حوالہ دیتے ہیں کہ آپ اہل یورپ سے سیکھئے، اہل مغرب سے سبق لیجئے، ان لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے رواداری اور تحمل کا جذبہ ہے، ہم ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ کیا واقعی یہ حقیقت ہے؟ آج کی بات نہیں بیس سال اور پچاس سال پہلے کی بات ہے، یورپی ملکوں کی سڑکوں پر یورپی ملکوں کے دار الحکومت کی سڑکوں پر کوئی خاتون باحجاب نکلتی ہے تو وہاں کے نوجوان اس پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے پردہ نشیں خاتون کو مار مار کر زخمی کر دیتے ہیں بلکہ قتل کر ڈالتے ہیں اور کوئی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پاتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک آدمی کو جو اس ملک کا رہنے والا نہیں ہے لوگوں کی نظروں کے سامنے آگ لگا دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں رواداری؟ یہ واقعہ تو ابھی حال ہی میں رونما ہوا ہے۔ چند ماہ قبل کچھ بد معاش لڑکوں نے ایک یورپی ملک کے ایک شہر میں ایک ایرانی کو زد وکوب کیا، پھر اس پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی اور پڑوسی کھڑے دیکھتے رہے، کوئی کچھ نہیں بولا۔ کیا مخالف کو تحمل کرنا اسے کہتے ہیں؟ جو لوگ ایرانی کی، ایرانی شناخت کی اور ایرانی اخلاقیات کی تحقیر کرتے ہیں، جو لوگ اسلامی اصولوں کو لوگوں کے ذہنوں میں متزلزل کر دینے کی کوشش کرتے ہیں، جو لوگ انقلاب کے اصلی نعروں پر حملے کر رہے ہیں، جو لوگ کنبے اور خاندان کو بے وقعت ظاہر کرتے ہیں، شادی کو بے معنی قرار دیتے ہیں، یہ چیزیں آج ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، کچھ لوگ یہ کام کر رہے ہیں، جو لوگ لذت پسندی کو اقدار میں شمار کرتے ہیں، لذت پسندی بھی در حقیقت مغربی ثقافت کا مظہر ہے، جس چیز سے بھی لذت حاصل ہو، کسی کو منشیات سے لذت ملتی ہے، کوئی جنسی شہوت کی تسکین سے لذت پاتا ہے، کوئی دوسروں کو زد وکوب کرکے لذت حاصل کرتا ہے، تو جس چیز سے بھی لذت حاصل ہو اسے جائز مانتے ہیں۔ جو لوگ اس طرح کی باتوں کی ترویج کریں ان کے سامنے خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ کچھ لوگ ہر خوب و بد کے جواز کی ترویج کرتے ہیں۔ ایسے میں متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ اپنے فرائض کو محسوس کریں۔ ثقافت کو تباہ کرنے کے سلسلے میں تخریبی عناصر ایک اہم حربہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ پختہ قومی عزم کی جگہ لوگوں میں شک و تردد کی حالت پیدا کر دیں۔ اگر قوم کے اندر پختہ عزم نہ ہو تو وہ کسی منزل تک نہیں پہنچ سکتی۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ملک کی تقدیر اور مستقبل سے تعلق رکھنے والے مسائل کے سلسلے میں قوم کے پختہ عزم کو ختم کر دیں، اس کے اندر شک و شبہ پیدا کر دیں، قومی خود اعتمادی اور وقار کی جگہ ان کے اندر حقارت اور پستی کا احساس پیدا کریں۔ پختہ ایمان کی جگہ، شکوک و شبہات اور بے دینی، محنت و جفاکشی اور بلند ہمتی کی جگہ تعیش اور غفلت جیسی چیزوں کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ سازشیں ہیں جو آزمائی جاتی ہیں۔ لہذا ملک کے سرکاری ثقافتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان مسائل کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل کریں۔ بعض فرائض اقدامی ہیں اور بعض دفاعی ہیں، دونوں ہی طرح کے فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اقدامی فرائض پر بھی اور دفاعی فرائض پر بھی۔ ہمارے ملک کے تبلیغاتی ادارے چاہے وہ براہ راست حکومت سے تعلق رکھتے ہوں یا جو براہ راست حکومت سے مربوط نہیں ہیں، بیرونی ذرائع ابلاغ اور انہی کی زبان بولنے والے دیگر تبلیغاتی اداروں کی ہنگامہ خیزی سے ہراساں نہ ہوں، خود کو انہیں کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش نہ کریں، یہ تو ملک کے سرکاری ثقافتی اداروں سے متعلق بات تھی۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ ان نوجوانوں کی خدمت میں عرض کرنا ہے جو ملک بھر میں رضاکارانہ طور پر ثقافتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور الحمد للہ اس کا دائرہ بھی کافی وسیع ہو چکا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو نوجوان تہران میں دیگر شہروں میں، دیگر صوبوں میں، خود مشہد میں اور دوسرے مختلف اور گوناگوں شہروں میں ثقافتی کاموں میں مصروف ہیں، خود اپنی مرضی اور ارادے سے اور خود اپنے جذبات و احساسات کی بنیاد پر، وہ اپنا یہ کام پوری سنجیدگی ،محنت اور لگن کے ساتھ جاری رکھیں، انہوں نے بڑے اچھے کام انجام دئیے ہیں ان کے بارے میں کچھ اطلاعات الحمد للہ ہم تک بھی پہنچی ہیں۔ ہمارے یہ نوجوان یاد رکھیں کہ انقلابی اور باایمان نوجوانوں کے اندر ثقافتی کاموں کی یہی وسعت ملک کی ترقی و پیشرفت میں اور ایرانی قوم  کے دشمنوں کے سامنے ہماری استقامت و ثابت قدمی میں بہت کلیدی رول ادا کرتی رہی ہے۔ ان کے علاوہ جو ثقافتی مراجع ہیں۔ ثقافتی امور کے مراجع کون لوگ ہیں؟ ان سے مراد علما، اساتذہ، انقلابی مفکرین، فرض شناس فنکار ہیں ، ان لوگوں کو چاہیے کہ ملک کے ثقافتی حالات و تغیرات کا ناقدانہ نظر سے جائزہ لیتے رہیں اور آگاہ اور خبردار کرتے رہیں۔ البتہ خبردار کرنے کے سلسلے میں میرا یہ خیال ہے کہ یہ عمل مدلل انداز میں اور واضح بیان کے ذریعہ درست نقطہ نظر کو پیش کرنے کی صورت میں انجام دیا جائے۔ الزامات لگانے اور ہنگامہ برپا کرنے کی میں ہرگز حمایت نہیں کرتا۔ لوگوں کو دین کے دائرے سے خارج قرار دینا، الزام لگانا، میں ان چیزوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ ہمارے ملک کی انقلابی برادری جو ہمارے نوجوانوں کے درمیان، ہمارے دانشوروں کے درمیان، ہمارے اساتذہ کے درمیان، ہمارے بزرگوں کے درمیان اور ہمارے اعلی تعلیم یافتہ افراد کے درمیان بڑی کثرت سے موجود ہے وہ مدلل طرز بیان کے ساتھ اس میدان میں وارد ہو، تعمیری تنقید کرے۔ وہ خامیوں اور کوتاہیوں کو ہم عہدیداروں تک پہنچائیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عہدیدار کو خبر نہیں ہوتی کہ معاشرے میں کیا حالات ہیں۔ لیکن وہ نوجوان تو معاشرے کے وسط میں موجود ہے، وہ اچھی طرح سمجھتا ہے، ہم نے ثقافتی شعبے میں، قومی عزم اور جہادی مدیریت کی جو بات کہی ہے اس سے مراد یہی ہے۔
میں اپنے عرائض کے اختتام  میں ایرانی قوم کی خدمت میں ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا؛ آپ یاد رکھئے کہ عالمی برادری کے حقائق اور تغیرات امریکہ کی مرضی اور خواہش کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہو رہے ہیں۔ عالمی استکبار اور ایرانی قوم کے دشمنوں کی جو خواہش تھی وہ پوری نہیں ہو سکی۔ عالمی سطح پر بھی یہ خواہش نہ تو پوری ہوئی اور نہ ہوگی۔ امریکہ فلسطین میں ناکام ہو گیا، اس نے فلسطین کے لئے جو منصوبہ بنایا تھا اور جس کے لئے اس نے بڑی کوشش بھی کی وہ عملی جامہ نہیں پہن سکا اور ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ منصوبہ پورا نہیں ہوگا۔ وہ فلسطینی ملک کو ایک یہودی ملک بنا دینا چاہتے ہیں۔ یعنی فلسطینی خواہ مسلمان ہو یا عیسائی اس کے فلسطین میں رہنے کا کوئی امکان نہ رہے، یعنی فلسطین کا معاملہ جڑ سے ختم ہی کر دیں۔ اس کی بڑی کوشش کی، گذشتہ چند برسوں میں بڑی جد وجہد کی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکے۔ امریکہ فلسطین میں اپنا مقصد پورا نہیں کر پایا، شام میں بھی اس کی مراد پوری نہیں ہوئی، عراق سے بھی بے مراد اسے نکلنا پڑا، افغانستان اور پاکستان میں بھی اس کے جو مقاصد تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ اور اب آپ یورپ میں بھی دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں کہ امریکہ کا منصوبہ نقش بر آب ہو گیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے وطن عزیز میں انہوں نے انقلاب کے خلاف جتنی بھی سازشیں کیں اور ہماری انقلابی قوم کے خلاف جتنے بھی پروپیگنڈے کئے وہ سب ناکام ہوگئے۔ اس کی دلیل یہی عوام کی شرکت ہے۔ امریکی حکومت کے اندر مؤثر افراد نے واضح طور پر یہ کہا کہ ہم نے پابندیاں عائد کیں اور ان میں شدت پیدا کی کہ عوام اسلامی نظام سے منحرف ہو جائیں، عوام کو ہم سڑکوں پر اتار لیں۔ انہوں نے واضح طور پر یہ بات کہی کہ پابندیاں اس لئے ہیں کہ انقلاب کو جڑ سے ختم کر دیا جائے، عوام کو اسلامی نظام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا جائے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ وہی نکلا جو ہم نے عرض کیا کہ سنہ 1392 میں صدارتی انتخاب ہوا تو عوام کی شاندار شرکت رہی اور 22 بہمن سنہ 1392 مطابق11 فروری 2014 ء کو ریلیاں نکلیں تو عوام کی شرکت گزشتہ برسوں سے کہیں زیادہ اور بھر پور رہی اور لوگوں میں جوش و جذبہ کئی گںا زیادہ نظر آیا۔ یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں۔ عزیز نوجوان یہ بات یاد رکھیں کہ مستقبل آپ کا ہے، اللہ تعالی کی توفیق سے آپ کے دشمنوں کو شکست نصیب ہوگی۔ میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنی توفیقات سے آپ سب کی سعادت  اور نیکی کی سمت ہدایت فرمائے اور حضرت ولی عصر (عج)  کے قلب مقدس کو ہم سب سے راضی و خوشنود فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: سوره مریم، آیت۵۹