ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا پائدار معیشت کے اہم عناصر،تقاضوں اور شرائط کے متعلق خطاب

بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم

میں تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید پیش کرتا  ہوں اور اس دعوت کو قبول کرنے اور اجلاس میں تشریف لانے پر آپ سب کا شکر گزار ہوں انشاء اللہ اس دوستانہ ماحول میں جو باتیں پیش کی جائیں گی وہ ملکی ترقی کی راہ میں اور ملک کے اعلی اہداف تک پہنچنے کے لئےممد و مددگار اور آگے کی سمت گامزن رہنے میں مفید ، مؤثر اور مثبت ثابت ہوں گی۔
آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو یہاں تشریف لانےکی یہ زحمت دینے کا مقصد یہ ہے کہ ان مقاومتی و مزاحمتی معاشی اور اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں آپس میں تبادلہ خیال کیا جائے جس کا حال ہی میں حکمنامہ اور حکمنامہ جاری اور جس کا اعلان کیا گيا (1) ۔ تاکہ ان پالیسیوں کے جو شرائط ، لوازمات و مقدمات ہیں ان کی کسی حد تفصیل اور تشریح کے بارے میں بات چیت کی جائے ۔ ہمارے دوش پر ان اہم اور اساسی پالیسیوں کے متعلق جو اہم ذمہ داریاں ہیں انہیں بیان کر دیا جائے۔ پہلے بھی اقتصادی شعبہ سے متعلق گوناگوں پالیسیوں کے حکمنامے اور حکمنامہ جاری کئے جا چکے ہیں۔ جیسے انرجی کی پالیسی، قومی پیداوار کی پالیسی، دفعہ چوالیس کی پالیسی، سرمایہ کاری کی سکیورٹی کی پالیسی، پانی کی پالیسی وغیرہ۔ ان پالیسیوں میں توجہ کا مرکز ایک نقشہ راہ اور روڈ میپ پیش کرنا ہوتا تھا۔ یعنی مثال کے طور پر اگر قومی پیداوار کے مسئلہ میں، پانی کے مسئلہ میں، انرجی کے مسئلہ میں یا دیگر مسائل میں ہم شیڈول اور فریم ورک پیش کرنا چاہتے تھے جس کی بنیاد پر حکام اپنا کام انجام دیں، تو یہ نقشہ راہ پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن اس دفعہ کی پالیسیوں کے سلسلے میں صرف روڈ میپ نہیں پیش کیا گيا ہے بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر طے کرنے کا پیمانہ بھی پیش کیا گيا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ٹریفک کے قوانین اور علامات ہوتی ہیں۔ ان پالیسیوں کی مختلف شقوں میں کچھ فرائض کا تعین کیا گيا ہے جو حقیقت میں اس نقشہ راہ کے مطابق درست پیشرفت اور ترقی کی ضمانت بھی ہیں۔ یعنی یہ کلی، ہمہ گیر اور عمومی پالیسیاں ایسی ہیں کہ ان کے ہر حصے میں کچھ معیاروں اور علامتوں کو مقرر اور معین کر دیا گيا ہے۔ ان پالیسیوں کی شقوں کے مطالعہ میں ان اقدامات اور کاموں کو واضح کر دیا گيا ہے جنہیں انجام دیا جانا ہے۔ پائدار اور مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا یہ پکیج در حقیقت ایک مقامی علمی نمونہ اور مقامی علمی ماڈل ہے جو ہماری اسلامی و انقلابی ثقافت سے ماخوذ ہے اور جو ہماری موجودہ اور مستقبل کی صورت حال سے مطابقت رکھتا ہے۔ میں اس کی تشریح کروں گا کہ یہ ماڈل صرف موجودہ ملکی حالات کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کے لئے ایک دراز مدتی حکمت عملی اور جامع تدبیر ہے جس سے اقتصادی شعبہ میں اسلامی جمہوری نظام کے اہداف کی تکمیل ہو سکتی ہے، جس سے ہماری مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں بڑھنے اور وسعت پانے کی صلاحیت بھی ہے، یعنی ان پالیسیوں کو ایسے شیڈول اور فریم ورک کی بنیاد پر تیار نہیں کیا گيا ہے جس پر جمود طاری ہو، یہ ارتقائی عمل طے کرنے والا نمونہ ہے، مختلف حالات سے جو بعض ادوار میں پیدا ہو جاتے ہیں، خود کو ہم آہنگ کرنے والا نمونہ ہے۔ یہ عملی طور پر ملکی معیشت میں ایک طرح کی لچک پیدا کر دے گا یعنی گوناگوں طوفانوں کے نتیجے میں اس معیشت کو تباہ ہونے اور ختم ہوجانے کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ان طوفانوں میں بعد میں ذکر کروں گا یہ ماڈل صاحب نظر افراد کی بحث و گفتگو اور اتفاق رائے سے اسی طرح عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں کی موجودگی میں مجمع تشخیص مصلحت نظام کی بحث و گفتگو کے بعد تیار کیا گيا ہے۔ اس عمل میں اقتصادی اور معاشی ماہرین کے نظریات اور ان کی آراء سے استفادہ کیا گیا ۔ اس اقتصادی ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر سب کا اتفاق رائے ہے۔ یعنی مجمع تشخیص مصلحت نظام میں اس پر باقاعدہ بحث ہوئی ہے،اس کی باریکیوں کا جائزہ لیا گيا ہے، اس کے تمام پہلوؤں پر بحث اور گفتگو کی گئی ۔ مجمع تشخیص مصلحت نظام  میں تینوں قوا کے سربراہان شامل ہیں دوسرے بھی بہت سے حکام موجود ہیں، سب نے باقاعدہ بحث کی، غور کیا، جائزہ لیا اور بڑے مضبوط اور مستحکم  انداز میں اسے تیار کیا گیا ہے۔
پائدار اور مزاحمتی معیشت کی جانب یہ رجحان صرف ہم سے مختص نہیں ہے۔ آج بہت سے ممالک کی اس ماڈل پر توجہ مرکوز ہوگئی ہے خاص طور پر ان حالیہ برسوں کے دوران دنیا میں جو شدید اقتصادی زلزلے دیکھنے میں آئے ہیں ان کی وجہ سے بہت سے ممالک اپنی اپنی معیشتوں کو مستحکم بنانے کی فکر میں مصروف ہو گئے ہیں۔ البتہ ہر ملک کے اپنے خاص حالات اور شرائط ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی جو مشکلات اور خامیاں ہیں، وہ مغرب اور امریکہ سے شروع ہوئیں اور بہت سے ملکوں میں پھیل گئیں۔ مجموعی طور پر عالمی معاشی نظام ،پیکر واحد کی طرح ہے جس کے اجزا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا ان مشکلات سے تمام ملکوں کا متاثر ہونا فطری امر تھا۔ کچھ ممالک کم متاثر ہوئے کچھ پر زیادہ اثر پڑا۔ لہذا بہت سے ممالک اب اس فکر میں لگ گئے ہیں کہ اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم کریں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اپنے اپنے خاص شرائط اور حالات کے مطابق اسی مزاحمتی معیشت کی منصوبہ بندی کریں اور اسے جامہ عمل پہنائیں۔ میری نظر میں ہمیں پائدار اور مزاحمتی معیشت کی ضرورت دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں دوسروں سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنی معیشت کو مستحکم اور مضبوط بنائیں ۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارے اور دیگر ممالک کے درمیان ایک بات مشترکہ طور پر موجود ہے کہ ہم بھی عالمی معیشت سے وابستہ ہیں اور اس رابطے کو ہم جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں، ہم عالمی معیشت سے الگ اور جدا ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، دنیا کی موجودہ صورت حال میں یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ لہذا عالمی معیشتوں میں جو تبدیلیاں پیش آتی ہیں ان سے ہم بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ وہ خصوصیت ہے جو ہمارے یہاں پائی جاتی ہے۔ ہم اپنی خود مختاری کی وجہ سے، اپنےعز و وقار کی وجہ سے، بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کے دباؤ میں نہ آنے کی وجہ سے ، اپنے استقلال کی وجہ سے دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ آپ موجودہ حالات اور شرائط میں مشاہدہ کر رہے ہیں، ہمارے بارےمیں مخالفت و دشمنی، خلل اندازی کی کوششیں، بہانے بازی، اور مشکل تراشی کی کوششیں دوسرے ملکوں کی نسبت بہت زیادہ ہیں۔ لہذا ہمیں اس بات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ ہماری معیشت کے ستون اور بنیادیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوں۔ اپنی معیشت کو ایسی پوزیشن میں نہ رہنے دیں کہ ناگزیر تبدیلیاں اور معاند دشمنوں  کے ناپاک عزائم اس پر اثر انداز ہو سکیں۔ تو ہمیں پائدار اور مزاحمتی معیشت کی سخت ضرورت ہے۔
میں مزاحمتی معیشت کے نمونہ  کی خصوصیات اور اہم عوامل کی ایک اجمالی فہرست آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے ان عوامل کی فہرست پیش کروں گا  اور اس کے بعد یہ نکتہ بیان کروں گا کہ ہم موجودہ دور میں مزاحمتی معیشت کو ایک اہم ضرورت اور احتیاج کیوں سمجھتے ہیں اور کیوں اس کے لئے تلاش و کوشش کررہے ہیں، تیسرے حصے میں ان لوازمات اور ضروری اقدامات کی طرف اشارہ کروں گا جو ہمیں انجام دینے ہیں۔
میں اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں دس خصوصیات کا ذکر کروں گا جو میں نے نوٹ کر رکھی ہیں، یہ اس مزاحمتی معیشت کی خصوصیات ہیں اور در حقیقت اس پیکیج کے عناصر و عوامل ہیں۔ ایک امر ملکی معیشت میں رونق اور تحرک پیدا کرناہےاور اہم معیاروں جیسے اقتصادی رشد و نمو، قومی پیداوار، روزگار، افراط زر میں کمی، زر مبادلہ میں اضافہ، فلاحی اور رفاہی  صورت حال کو بہتر بنانا۔ ان پالیسیوں میں ملکی معیشت کی رونق اور تحرک اور ان معیاروں کی بہتری کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ انہیں معیاروں میں سماجی مساوات کا انتہائی اہم اور کلیدی معیار بھی شامل ہے۔ یعنی ہم سماجی انصاف سے عاری اقتصادی رونق کی ہرگز حمایت نہیں کرتے، ہم اسے قبول نہیں کرتے۔ بعض ممالک ہیں جن کی اقتصادی ترقی کا گراف تو بہت اچھا ہے، قابل تعریف ہے، اقتصادی رشد و نمو بہت اچھا ہے لیکن تفریق، طبقاتی فاصلہ اور مساوات و انصاف کا فقدان انہی ملکوں میں صاف محسوس ہوتا ہے۔ ہم اسے اسلام کی منشا اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کے منافی مانتے ہیں۔ لہذا ہمارا ایک اہم معیار سماجی انصاف کا معیار ہے۔ محروم طبقات کو ملک کی اقتصادی ترقی سے حقیقی معنی میں فائدہ پہنچنا چاہیے۔ تو سب سے پہلا عامل یہ ہے۔
دوسرا عامل مشکلات پیدا کرنے والے عوامل و اسباب کا سامنا کرنے کی توانائی کا حصول ہے ۔ ان پالیسیوں میں اس عامل کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے، اس پر بھی دھیان دیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، بعض ملکوں کی معیشتوں کو متاثر کرنے والے اسباب میں عالمی سطح پر اقتصادی میدان میں ہونے والی دگرگونی شامل ہے ۔ جیسا کہ حالیہ برسوں میں ہم نے مشاہدہ کیا یا دوسرے مواقع پر بھی یہ صورت حال پیش آچکی ہے اور اس نے دنیا کے ملکوں کو متاثر کیا ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک ملک کے سربراہ تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کی تھی۔(2) اس زمانے میں اس خطے میں ایک عجیب و غریب انتشار کی صورت حال تھی۔ اس ملک کے صدر نے مجھ سے کہا کہ آپ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ راتوں رات ہمارا ملک دولت مند سے غریب ملک بن گیا! غیر مستحکم معیشت اسی کو کہتے ہیں۔ تو معیشتوں کو متاثر کرنے والا ایک اہم عامل عالمی سطح پر رونما ہونے والی ناموافق تبدیلیاں ہیں جو ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان تبدیلیوں اور طوفانوں میں ایک  قدرتی آفات اور دوسرے اقتصادی پابندیوں جیسے معاندانہ اقدامات ہیں۔ آپ فرض کیجئے کہ فیصلہ کرنے والے مراکز تیل کے بارے یہ فیصلہ کریں اور تیل کی قیمت مثال کے طور پر چھ ڈالر فی بیرل کر دیں، ایسا ہمارے ساتھ ہو چکا ہے، ان میں سے بہت سی باتیں معمول کا حصہ نہیں ہوتیں بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، فیصلہ کرکے اور طے شدہ عزائم کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں، کچھ مراکز ان کے لئے کام کرتے ہیں۔ تو دوسرا اہم عامل مزاحمت کی توانائی اور خطرہ پیدا کرنے والے عوامل کا سامنا کرنے کی قوت کا حصول ہےمیں جس کے بارے میں وضاحت کی۔
تیسرا اہم نکتہ اندرونی اور داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنا ہے، ان پالیسیوں میں اس چیز کو مد نظر رکھا گیا ہے، میں ان توانائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں مختصر وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں؛ علمی استعداد اور صلاحیتوں کے اعتبار سے، افرادی قوت کے اعتبار سے، قدرتی ذخائر کے اعتبار سے، مالیاتی وسائل کے اعتبار سے اور جغرافیائی خصوصیات کے اعتبار سے ہمارے پاس بے پناہ اور نہایت اہم صلاحیتیں موجود ہیں۔ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں اصلی بنیاد اور تکیہ گاہ اندرونی اور داخلی توانائیوں کو قرار دیا گیا ہے جو بہت وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ  نہیں ہے کہ ہم بیرون ملک موجود وسائل و امکانات پر اپنی آنکھ بند کر لیں۔ نہیں، ہم ان سے بھی یقینی طور پر استفادہ کریں گے، بھرپور استفادہ کریں گے لیکن ہم بنیادی طور پر داخلی وسائل و امکانات پر تکیہ کریں گے اور اپنے اندرونی ذحائر کو اپنا اساس اور محور قرار دیں گے۔
چوتھا نکتہ مجاہدانہ طرز عمل ہے ، ان پالیسیوں میں مجاہدانہ طرز عمل کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ مجاہدانہ تلاش و کوشش، ہمت و حوصلہ اور مجاہدانہ نظم و نسق۔ معمول کی رفتار اور کام سے پیشرفت حاصل نہیں ہوتی، عام رفتار اور کبھی کبھی عدم توجہ اور غ فلت کے ساتھ چلنے کی صورت میں عظیم کارنامے انجام نہیں دئیے جا سکتے۔ اس کے لئے مجاہدانہ ہمت و حوصلہ درکار ہوتا ہے، مجاہدانہ اقدامات اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اقدامات انجام دئیے جائیں وہ علمی معیاروں کے بالکل مطابق ہوں، بھرپور انداز میں انجام دئیے جائیں، منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دئیے جائیں اور مجاہدانہ روش اختیار کی جائے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران تینوں شعبوں کے سربراہان سے میری جو ملاقات ہوئی (3) میں نےاس میں اس بات کو پیش کیا۔ صدر محترم کی زبانی یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ حکومت کے اندر جو افراد ان امور پر مامور ہیں وہ بھی مجاہدانہ انداز سے اور پوری محنت اور لگن کے ساتھ یہ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے، یہ ضروری ہے، اس کے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔
پانچواں نکتہ جو ان پالیسیوں میں مد نظر رکھا گیا ہے وہ عوام کا بنیادی اور محوری کردار ہے۔ تجربات سے بھی ثابت ہے اور اسلامی تعلیمات میں بھی اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ جب عوام میدان میں اترتے ہیں تو اللہ تعالی بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ یَدُ اللهِ مَعَ الجَماعَة؛ (4) جہاں بھی عوام موجود ہوں گے اللہ تعالی کی عنایت ، نصرت الہی اور خدا وند متعال کی حمایت بھی ان کے ساتھ ہوگی۔ اس کی بہترین مثال آٹھ سالہ مقدس دفاع ہے، اس کی ایک اور مثال خود اسلامی انقلاب ہے، اس کی ایک اور مثال گزشتہ 35 سال کے دوران انتہائی دشوار مراحل سے کامیابی کے ساتھ ہمارا گزرنا ہے۔ چونکہ عوام میدان میں موجود تھے لہذا کام انجام پاتے رہے۔ ہم نے اقتصادی میدان میں اس مسئلہ کو جتنی اہمیت دینی تھی اتنی اہمیت نہیں دی۔ ہے دفعہ چوالیس کی جو پالیسیاں منظور کیں اور جن کا حکمنامہ اور حکمنامہ جاری کیا ان کا مقصد یہی تھا لیکن ان پالیسیوں پر جیسا عمل ہونا چاہیے تھا ویسا عمل نہیں ہوا۔ میں نے انہی برسوں میں اسی جگہ پر حکام کے ساتھ ملاقات میں دفعہ چوالیس کی کلی پالیسیوں کے بارے میں گفتگو کی (5)۔ سب نے اس کی تائید بھی کی، عملی طور پر کچھ اقدامات بھی انجام دئیے گئے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن جو حق تھا وہ ادا نہیں ہوا۔ ہمیں عوام پر اعتماد اور تکیہ کرنا چاہیے، عوام کو اہمیت دینا چاہیے، عوام اپنے وسائل کے ساتھ اقتصادی میدان میں آئیں، ماہرین، تجربہ کار افراد، صنعت کار، سرمایہ دار میدان میں آئيں، ملک کے اندر موجود بے پناہ توانائیوں سے استفادہ کیا جائے۔ میں برسوں سے عوام کے مختلف طبقات سے باقاعدہ رابطے میں ہوں لیکن اس کے باوجود بسا اوقات ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں جو میرے لئے بالکل نئی ہوتی ہیں جن سے میں اب تک ناواقف تھا۔ ملک کے اندر کام کے لئے پوری طرح آمادہ، مہارت رکھنے والے، خلاقانہ صلاحیتوں کے مالک، ٹکنالوجی سے آگاہ اور سرمایہ رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود ہے، وہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت انہیں میدان میں لانے کے لئے راستہ ہموار کرے، ان کی راہنمائی کرے وہ کہاں کام کرسکتے ہیں، ان کی حمایت اورپشتپناہی کرے، حکومت کی بنیادی ذمہ داری یہی ہے۔ حکومت کی اقتصادی سرگرمیوں کا جہاں تک سوال ہے تو کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں اس کی شراکت ضروری ہے تو وہ شریک رہے لیکن اقتصادی سرگرمیوں کی بنیادی ذمہ داری عوام کو دی جائے۔ ان پالیسیوں میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
چھٹا نکتہ ضروری اشیاء کی سلامتی اور سکیورٹی سے متعلق ہے۔ ان اشیاء میں سب سے پہلے غذائی اشیاء اور دواؤں کا نمبر آتا ہے۔ ملک کی داخلی پیداوار کی اس طرح منصوبہ بندی کی جائے کہ حالات کیسے بھی ہوں، غذائی اشیاء اور دواؤں کے مسئلے میں وطن عزیز کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یہ ان پالیسیوں کا بہت اہم عامل ہے جن کا حکمنامہ اور حکمنامہ جاری کیا گیا ہے۔ ہمیں خود کفیل ہونا ہے، ہمیں خود کفائی کی منزل تک پہنچانے والے راستوں اور مقدمات پر بھرپور طریقے سے توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
ساتواں نکتہ، تیل پر انحصار میں کمی پر مبنی ہے۔ ہماری معیشت کی ایک بڑی کمزوی تیل پر اس کا انحصار ہے۔ دسیوں سال کی مدت کے دوران یہ عظیم خداداد نعمت سیاسی، اقتصادی اور سماجی میدانوں میں مشکلات کا باعث بنی۔ ہمیں اس کا بنیادی حل تلاش کرنا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تیل کو استعمال ہی نہ کیا جائے، ہمارا یہ کہنا ہے کہ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال کمترین سطح تک پہنچایا جائے۔ تیل کو ایک محصول کے طور پر رکھا جائے، ان پالیسیوں میں اس پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ تو ایک اساسی اور بنیادی کام یہی ہے جو انجام پانا چاہیے۔ اس کے لئے بلند ہمتی کی ضرورت ہے اور ہم نے ان پالیسیوں کے حکمنامہ کی تیرہویں شق میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس شق پر سنجیدگی سے عمل کیا جانا چاہیے۔
آٹھواں نکتہ اشیاء کے درست اور صحیح استعمال کا مسئلہ ہے۔ کفایت شعاری کا مسئلہ، فضول خرچی سے اجتناب، اسراف سے پرہیز، غیر ضروری  اخراجات سے اجتناب۔ البتہ اس سلسلے میں سب سے پہلے میرا خطاب حکام سے ہے۔ حکام صرف اپنی ذاتی زندگی میں نہیں جو دوسرے درجے کا مسئلہ ہے، بلکہ اپنے دائرہ کار کے اندر اور اپنے ادارے میں اسراف اور فضول خرچی کا سد باب کریں ۔ اگر اس میں کامیابی مل جائے یعنی ہم حکام اس اصول کے پابند ہو جائیں تو یہ جذبہ اور مزاج، یہ عادت اور یہ اخلاق عوام میں بھی پیدا ہوجائےگا۔ آج ہم عوام کے درمیان اور ان لوگوں میں بھی جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اسراف اور فضول خرچی دیکھ رہے ہیں، بہت سے مواقع پر ہمیں اسراف دکھائی دیتا ہے۔ عوام سے بھی ہم سفارش کریں گے لیکن یہ «کونوا دُعاةَ الناسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم» (6) کی منزل ہے۔ حکام کو چاہیے کہ اپنے ادارے میں اس نکتے پر خاص توجہ مبذول کریں ۔ اسراف نہ ہونے پائے۔ اخراجات کا جو معیار بنایا جائے وہ حقیقت میں عاقلانہ، مدبرانہ اور اسلامی ہو۔ ہم عوام سے یہ نہیں کہتے کہ خود کو مشقت میں ڈالیں، ممکن ہے بعض افراد ہماری بات کو اسی انداز سے پیش کریں۔ پائدار اور مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کا حکمنامہ جاری ہوا تو ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ کچھ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ لوگ تو عوام کو فقیرانہ اور مفلسانہ زندگی بسر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ہمارا موقف اس کے بالکل برعکس ہے اگر ان پالیسیوں پر عملدرآمد ہوا تو عوام کی حالت میں بہتری آئیگی۔ کمزور طبقات کی حالت بہتر ہوگی۔ جس ملک میں افراط زر مناسب سطح پر ہو، روزگار کے مواقع مناسب انداز میں موجود ہوں، وہاں عوام آرام و سکون کے ساتھ آسودہ زندگی گزاریں گے۔ ہم عوام سے کبھی نہیں کہیں گے کہ مفلسانہ زندگی گزاریں۔ ہمارا بس یہ کہنا ہے کہ فضول خرچی نہ ہو، صحیح اور درست استعمال کرنا الگ چیز ہے اور غلط استعمال کرنا ایک الگ بات ہے۔
میں نے کچھ برس پہلے  سال کے آغاز کے اپنے خطاب میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی تھی (7)۔ ہم حکام کو چاہیے کہ اسے اپنا نصب العین بنائیں۔ پانی کے استعمال میں اسراف، روٹی کے استعمال میں اسراف، غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف، دواؤں کے استعمال میں اسراف، سامان کے استعمال میں اسراف، آرائش اور زینت کی اشیاء کے استعمال میں اسراف، ان چیزوں سے ملک کے اہم ذخائر کا ایک بڑا حصہ ضائع اور برباد ہو جاتا ہے۔ یہ ان چیزوں میں ہے جن پر سنجیدگی سے توجہ مبذول کرنےکی ضرورت ہے۔ صحیح اور درست استعمال، اسراف، تضییع اور فضول خرچی سے الگ طریقہ ہے۔
نواں نکتہ بدعنوانی اور کرپشن کے سد باب کا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام اقتصادی میدان میں قدم رکھیں تو پھر اس شعبہ کو تحفظ دینا ہوگا۔ اگر تحفظ دینا ہے تو بدعنوان عناصر، غلط فائدہ اٹھانے والوں، قانون شکنی کرنے والوں اور قانون کو چکمہ دینے والوں کے منہ پر لگام چڑھانا پڑے گی۔ اسی کو بدعنوانی کا سد باب کہتے ہیں، اس پر سنجیدگی سے عمل ہونا چاہیے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کل حکام کے بیانات میں بھی یہ بات بار بار سنائی دے رہی ہے لیکن صرف کہنا کافی نہیں ہے۔ مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سے تعلق رکھنے والے تمام حکام کے دوش پر اس سلسلے میں اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اگر معاشرے اور ملکی معیشت کی حالت ایسے مکان جیسی ہو جس میں دروازہ نہ لگا ہو، جو چاہے اس میں داحل ہو جائے، جیسے چاہے اس میں رہے، جو چاہے اٹھا کر لے جائے، استعمال کرے تو ظاہر ہے کہ شریف انسان جو حلال راستے سے روزی حاصل کرنے کا قائل ہے، وہ ہرگز اس کا رخ نہیں کرے گا۔ حالات میں استحکام ہونا چاہیے۔ اس طرح کے حالات ہوں تبھی کوئی سرمایہ کار کام کرنے پر تیار ہوگا اور اسے احساس تحفظ رہے گا۔ ایسے حالات اور ماحول میں اگر کوئی بھی شخص اپنی خلاقیت  اور محنت ولگن کے ذریعہ، اپنے سرمائے اور سرمایہ کاری کے ذریعہ دولتمند ہو جاتا ہے تو اسلامی نظام اس کی حمایت کرے گا، اس کی پشت پناہی کرے گا۔ اگر اس طرح کا صحتمند ماحول قائم ہو جائے تو دولت کا حصول اور آمدنی مباح ہوگی اور اسلامی نظام بھی اس کا حامی ہوگا۔ یہ نواں نکتہ ہے۔
پائدار اور مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا دسواں نکتہ علم و دانش کے محور پر ان پالیسیوں کا استوار ہونا ہے۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔ خوش قسمتی سے آج علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ملک جس مقام پر ہے اس کے پیش نظر ہم اس طرح کی بڑی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور اپنی معیشت کو  علم محور معیشت بنانے کی بات کر سکتے ہیں۔ میں بعد میں اس سلسلے میں کچھ تفصیلات بیان کروں گا۔ ہمارے ملک میں ماہر افراد، سائنسدانوں، علم محور کمپنیوں اور خلاقانہ صلاحیتوں کے مالک افراد  کی بڑی تعداد موجود ہے، ہمارے پاس بہترین افرادی قوت موجود ہے۔ اگر ہم اس دسویں نکتے پر پوری طرح توجہ دیں تو علم و سائنس سے دولت و ثروت تک کا سلسلہ فعال ہو جائے گا اور اس میں وسعت آئیگی۔ انشاء اللہ مزاحمتی معیشت میں یہ ہدف ضرور حاصل ہوگا۔ یہ وہ اہم خصوصیات اور عوامل ہیں جنہیں ان پالیسیوں کے تعین میں مد نظر رکھا گیا ہے۔ دوسری بھی بہت سی اہم باتیں ہیں جو پالیسیوں کے متن میں موجود ہیں، تاہم ان میں سب سے اہم یہ دس نکات تھے جو میں نے پیش کردیئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات اور شرائط میں مزاحمتی معیشت کا موضوع اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایک عارضی منصوبے پر عمل کرنا چاہتے ہیں؟ چونکہ اس وقت ہمارے ملک کو پابندیوں، دباؤ اور اقتصادی جنگ کا سامنا ہے لہذا اس اقتصادی لشکر کشی کا سامنا کرنے کے لئے ہم پالیسی ساز اور مؤثر ٹیمیں بنا رہے ہیں اور اسی سلسلے میں ہم نے ان پالیسیوں کو وضع کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ طویل مدتی پالیسیاں ہیں، موجودہ دور کے لئے بھی مفید ہیں اور ایسے حالات کے لئے بھی مؤثر اور کارآمد ہیں جب ہمارے اوپر کسی قسم کی پابندی نہ ہو۔ یعنی یہ ایسی طویل مدتی پالیسیاں ہیں جن پر ملکی معیشت کی بنیاد رکھی جانی ہے، یہ وقتی تدبیر نہیں ایک طویل مدتی نقشہ راہ ہے، ایک اسٹراٹیجک پالیسی ہے۔ ہمارا ملک ایک بڑا اور قدیم تاریخ کا مالک ملک ہے، اپنا ایک مقام رکھتا ہے، آج دنیا میں بڑا باوقار ملک سمجھا جاتا ہے، ارتقائی عمل طے کرنے والی ثقافت، درخشاں ماضی اور اعلی اہداف رکھنے والا ملک ہے جس کے پاس بیان کرنے کے لئے اپنا نظریہ موجود ہے۔ اتنی خصوصیات کے مالک ملک کی معیشت میں وہی خصوصیات ہونی چاہیے جن کا ذکر مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں کیا گيا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ پالیسیاں رجعت پسندانہ نہیں ہیں۔ خود کو خود ساختہ خول میں محصور کر لینے والی پالیسیاں نہیں ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی نئی فکر اور نیا نظریہ معرض وجود میں آئے تو یہ معیشت اسے اپنے اندر جگہ نہ دے سکے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس میں بڑی لچک اور گنجائش ہے۔ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے، اس میں وسعت پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا مرکزی راستہ بدلنے والا نہیں ہے۔
ہم نے حکمنامہ کا جو متن تیار کیا اس کے مقدمے میں چار نکات کو یہ پالیسیاں تیار کرنے کے اہم محرکات اور اسباب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ یہ چاروں نکات میں یہاں بھی پیش کررہا ہوں۔ ان میں ایک تو ملک کے اندر وسیع پیمانے پر موجود مادی و معنوی توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں، میں نے حکمنامہ میں پالیسیوں کے مقدمے میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ملک کے اندر موجود توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ ہم میں بہت سے افراد ان حیرت انگیز صلاحیتوں کی وسعت سے آگاہ نہیں ہیں، یا ان کی اہمیت پر غور نہیں کرتے۔ یعنی ہم جانتے ہیں، ہمارے پاس اعداد و شمار ہیں مگر غور نہیں کرتے۔ بعض حکام ایسے بھی ہیں، جن کے پاس اعداد و شمار ہیں لیکن ان اعداد و شمار کی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر افرادی قوت جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ ہم آج افرادی قوت کے اعتبار سے اور نوجوانوں کی تعداد کے اعتبار سے بہترین پوزیشن میں ہیں۔ اس وقت ہماری اکتیس فیصدی سے زیادہ آبادی پندرہ سے انتیس سال کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہترین صورت حال بلکہ غیر معمولی حد تک اچھی صورت حال ہے۔ البتہ میں آبادی بڑھانے کے سلسلے میں جس چیز پر بار بار تاکید کر رہا ہوں، اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری یہ اہم خصوصیت سلب ہو جائیگی۔ نسل میں اضافے کے موضوع پر بھی پالیسیاں وضع کی جارہی ہیں اور ان کا بھی حکمنامہ جاری کیا جائیگا۔ تو ہماری موجودہ پوزیشن یہ ہے: اکتیس فیصدی سے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے۔ انقلاب کے اوائل کے مقابلے میں اس وقت ہمارے ملک میں طلباء کی تعداد پچیس گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ اس وقت کے مقابلے میں ہماری آبادی دگنی ہوئی ہے لیکن طلبہ کی تعداد پچیس گنا زیادہ ہے۔ طلبہ کی تعداد بڑھ کر اکتالیس لاکھ ہو گئی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت عظیم تبدیلی ہے۔ یہ رشد و نمو بھی بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے اور یہ ہمارا گرانقدر سرمایہ بھی ہے جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے ۔ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والےافراد کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ اکیڈمک بورڈوں کے ارکان کی تعداد پینسٹھ ہزار ہے جو اوائل انقلاب کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ علم محور کمپنیوں کی تعداد پانچ ہزار ہے جن میں سترہ ہزار ماہرین اور اسپیشلسٹ مشغول اور مصروف ہیں۔ آپ غور کیجئے یہ صلاحیتیں کتنی اہم ہیں؟! آج حالت یہ ہے کہ دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ملکوں کی پوزیشن اور مقام کا تعین کرنے والے مراکز اور ادارے ہمیں دنیا میں پندرہویں مقام پر تسلیم کرتےہیں، کچھ اداروں نے سولہویں مقام پر اور کچھ نے پندرہویں مقام پر ہمیں رکھا ہے۔ البتہ یہ رتبہ گزشتہ سال 2013 کا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بعض سائنسی شعبوں میں ہمارا مقام اس سے بہت بالاتر ہے۔ بعض علمی شعبوں میں ہم دنیا کے سات آٹھ ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں، بعض میدانوں میں دنیا کے پہلے چار پانچ ملکوں میں ہمارا نام لیا جاتا ہے۔ یہ ہماری افرادی قوت اور آمادگی کا مظہر ہے۔
ایک اور اہم توانائی، معدنیاتی سرمائے سے متعلق ہے۔ تیل اور گیس کے اعتبار سے ہم پہلے نمبر پر ہیں۔ میں نے گزشتہ سال نوروز کے موقعہ پر کہا تھا (8) کہ تیل اور گیس کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے ہم دوسرے نمبر پر ہیں اور تیل کے اعتبار سے دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہیں لیکن حال ہی میں صدر محترم نے ایک رپورٹ مجھے پیش کی جس کی بنیاد پر ہم گیس کے ذخائر کے اعتبار سے آج دنیا میں پہلے مقام پر ہیں، اور تیل کے ذخائر کے لحاظ سے حتمی طور پر ہم دوسراے مقام پر ہیں، یہ بہت اہم چیز ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کے پاس تیل اور گیس دونوں کی مقدار ہمارے  عزیز وطن کی مقدار کے برابر ہوں ۔ تیل اور گیس آج کی دنیا کی شہ رگ ہے۔ موجودہ دور میں تو یہی عالم ہے اور آئند برسوں میں بھی یہی صورت حال رہے گی۔ کب انسانیت تیل اور گیس سے بے نیاز ہوتی ہے اور اس کو تیل سے چھٹکارا ملتا ہے اس کے بارے میں ابھی کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ یہ ایک حیاتی اور اساسی مادہ آپ کے ملک میں ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی توانائی ہے؟ یہ کو‏ئی معمولی بات ہے؟ یہ تو تیل اور گیس کا مسئلہ ہے۔ ہمارے دیگر معدنیاتی ذحائر بھی اسی طرح سےہیں۔ سونے کی معدنیات، سیمنٹ کی معدنیات، گرانقدر اور نایاب دھاتوں کی معدنیات۔ جو رپورٹیں ہمیں ملتی ہیں ان میں بعض تو حیران کر دینے والی ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی صلاحیتیں اور توانائياں ہیں ۔ ہماری صنعتی اور معدنیاتی صلاحیتیں متعدد اقسام کی اور بے پناہ مقدار میں ہیں۔ عالمی رپورٹوں اور اعداد و شمار کے مطابق ہمارا ملک تقریبا ایک ہزار ارب ڈالر کی قومی پیداوار کے ساتھ دنیا کی سترہویں معیشت ہے۔ بنیادی تنصیبات جیسے سڑکیں اور پل، آج ہمارے ملک میں الگ الگ سائز کے چھ سو سے زیادہ پل ہیں۔ جب اسلامی انقلاب نے اس ملک کو اپنے ہاتھ میں لیا تو پورے ایران میں دس پندرہ پل تھے، مگر آج چھ سو سے زیادہ چھوٹے بڑے پل ہیں۔ ان میں بعض تو کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا بھی یہی عالم ہے، اعداد و شمار بہت اچھے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع، بین الاقوامی بحری حدود تک آسانی کے ساتھ دستیابی، شمال جنوب اور مشرق و مغرب چاروں سمتوں کا نقطہ اتصال ہونے کی وجہ سے ٹرانزٹ کے اعتبار سے ہماری بہت بڑی اہمیت ہے۔ آب و ہوا کا تنوع، آلودگی سے پاک توانائی جیسے جوہری توانائی، سولر انرجی اور پانی سے تیار ہونے والی انرجی کے مواقع۔ یہ ساری چیزین ملک کے اندر موجود ہیں۔ یہ پہلی وجہ ہے جس نے ہمیں ایسی معیشت کا نمونہ تیار کرنے کی ترغیب اور تشویق  دلائی جس کا نام مقاومتی اور مزاحمتی معیشت ہے۔
دوسری اہم وجہ وہ مشکلات ہیں جو ہمیں در پیش ہیں۔ پرانی اور دائمی مشکلات۔ انہیں ایک اجتماعی اقتصادی مہم کے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے ایک تیل کی آمدنی پر انحصار ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔ ایک اور مشکل درآمدات کی عادت ہے وہ بھی غیر ترجیحی درآمدات۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس عادت میں مبتلا ہیں، ہم خود کو اس سے نجات نہیں دلا سکے ہیں۔ ہماری نگاہیں غیر ملکی مصنوعات پر لگی رہتی ہیں۔ طویل عرصہ سے جاری افراط زر، بے روزگاری، اقتصادی ڈھانچے کے کچھ حصوں میں خامیوں کا موجود ہونا، مالیاتی سسٹم میں موجود خامیاں، ہمارا مالیاتی نطام، ہمارا بنکاری سسٹم، ہمارا کسٹم نظام، اخراجات کے معیار میں خامیاں، پیداوار کے شعبے کی کمیاں، محصولات کے سلسلے میں موجود کمیاں۔ یہ مشکلات آج ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ہمیں ان خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ یہ مشکلات بھی دردمند انسان اور بلند ہمت حکام کے لئے ایک اہم محرک ہیں، کہ وہ مزاحمتی معیشت کی تشکیل کے بارے میں غور و فکر کریں اور اس سلسلے میں کوئی کام کرنے کے بارے میں سوچیں۔ یہ مشکلات مجاہدانہ مہم، اجتماعی و دردمندانہ سعی پیہم کے بغیر دور نہیں ہوں گی۔ اس مہم کے کچھ تقاضے ہیں جو میں آپ کی خدمت میں ابھی عرض کروں گا۔
مزاحمتی معیشت کی تیسری اہم وجہ غیر ملکی اقتصادی خطرات ہیں۔ پابندیاں پہلے سے ہی موجود تھیں، مگر سنہ 90 (ہجری شمسی )کے موسم گرما سے لیکر اب تک یہ پابندیاں اقتصادی جنگ کی صورت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب یہ با مقصد پابندیاں نہیں رہیں، یہ ہماری قوم کے خلاف کھلی اقتصادی جنگ ہے۔ اس کی وجہ نہ تو ایٹمی معاملہ ہے، نہ انسانی حقوق کی صورت حال ہے اور نہ ہی اس جیسے دیگر مسائل ہیں۔ اس کی اصلی وجہ ایرانی قوم  کا جذبہ حریت و خود مختاری ہے جس سے دشمن بھی واقف ہیں اور ہم بھی آگاہ ہیں ، اس کی وجہ اسلام پر استوار ایک نئے پیغام کا حامل ہونا ہے جو دیگر ممالک اور دیگر اقوام کے لئے نمونہ عمل قرار پا سکتا ہے۔ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ان میدانوں میں کامیاب ہو جائےتو دنیا میں اس لہر کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بڑی اہم تحریک ہے۔ تو اصلی ماجرا یہ ہے۔ اب اس کے لئے کبھی ایٹمی انرجی کا بہانہ تلاش کر لیتے ہیں، کبھی یورینیم کی افزودگی کو بہانہ بنا لیتے ہیں، کبھی انسانی حقوق کی بات کرنے لگتے ہیں کبھی اسی طرح کا کوئی اور شوشہ چھوڑتے ہیں۔ پابندیاں تو ہم پر اس وقت بھی لگی ہوئی تھیں جب ایٹمی مسئلے کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں تھا، اسی طرح آئندہ بھی یہ پابندیاں موجود رہیں گی۔ یہ ایٹمی مسئلہ اور یہ مذاکرات اگر ان شاء اللہ کسی حل تک پہنچ جاتے ہیں، تب بھی آپ دیکھیں گے کہ یہ دباؤ موجود رہے گا ۔ ہمیں اس دباؤ کے سامنے خود کو مستحکم بنانا چاہیے، اپنے داخلی ڈھانچے کو مضبوط بنانا چاہیے۔ اپنی معیشت کو ہم اتنا مستحکم بنا دیں کہ دشمن اسے کوئی نقصان پہنچانے سے بالکل مایوس ہوجائے۔ جب دشمن پر قنوطیت طاری ہو جائےگی تب عوام بھی مطمئن ہو جائيں گے اور حکام بھی آسودہ خاطر ہوں گے۔
مزاحمتی معیشت کی چوتھی وجہ عالمی معاشی بحران ہے۔ میں نے اس سلسلے میں پہلے بھی اشارہ کیا کہ یہ بحران مغربی معیشت اور امریکی اقتصاد سے پیدا ہوا ہے۔ یورپ میں بھی مشکلات امریکی معیشت کے بحران کی وجہ سے بڑھی ہیں، البتہ اس کے عوامل بھی موجود تھے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی ہوا۔ ہم اپنے ارد گرد حصار کھینچ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم نہ تو چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اقتصادی اعتبار سے ساری دنیا سے رابطہ ختم کر لیں۔ یہ چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مناسب ہے۔ لہذا ہماری معیشت کا بھی متاثر ہونا طے ہے، تو ہمیں چاہیے کہ اسے مستحکم بنائیں۔ یہ تھے مزاحتمی معیشت کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے کے چار محرکات و اسباب اور ہماری اس گفتگو کا یہ دوسرا حصہ تھا۔
تیسرا حصہ توقعات اور تقاضوں کے بارے میں ہے۔ یہ اتنا بڑا منصوبہ، ہمہ گیر اور وسیع نقشہ راہ  پیش کیا گيا ہے۔ مگر صرف پالیسیوں کو متعارف کرا دینے سے مشکلات حل ہونے والی نہیں ہیں، یہ تو ابتدائی منزل ہے، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
سب سے پہلے تو حکام ، سرگرم افراد اور عوام کا پختہ اور راسخ عزم درکار ہے، انہیں چاہیے کہ وہ عزم بالجزم کریں، سب سے پہلے یہ کام مجریہ کرے، حکومتی عہدیدار کریں، اسی طرح مقننہ اور عدلیہ کے حکام نیز دیگر وہ شعبے جن کا اقتصادی مسائل سے رابطہ ہے۔ سب کو چاہیے کہ اس مسئلے میں پختہ عزم ارادہ کے ساتھ کام کریں۔ پختہ عزم اور مضبوط قوت ارادی کے بغیر کوئی بڑا کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔
دوسری اہم چیز عملی طور پرمیدان عمل میں قدم رکھنا ہے۔ اس میدان میں کام کرنا عمل صالح کا مصداق ہے۔ جو بھی اس میدان میں عمل کرے گا وہ یقینی طور پر «وَ عَمِلوا الصالِحات» (9) کا مصداق قرار پائے گا۔ یہ تجویز، یہ عظیم نقشہ راہ، باقاعدہ پروگرام اور پروجیکٹ کی شکل میں تبدیل ہو۔ اگر یہ کام انجام دیا گیا تو گویا ہم حقیقی معنی میں اقتصادی جہاد میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ ہم نے موجودہ ہجری شمسی سال کو سیاسی و اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا ہے۔ الحمد للہ سیاسی جہاد تو بھرپور انداز میں انجام پذیر ہوگیا لیکن اقتصادی جہاد پر کام نہیں ہوا  ۔ البتہ سال کے ان آخری ایام میں ان شاء اللہ یہ عمل اقتصادی جہاد کا آغاز قرار پائے گا۔ یقینی طور پر رواں برس 93 (ہجری شمسی میں) حکام سنجیدگی اور محنت سے اقتصادی جہاد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔
تیسرا مسئلہ ان پالیسیوں کو اجرائی اور عملی منصوبوں میں تبدیل کرنا ہے۔ تینوں شعبوں کے سربراہان نے اپنے ماتحت اداروں کو اس کے لئے ضروری احکامات صادر کر دئیے ہیں۔ صدر محترم نے بھی، پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بھی اور عدلیہ کے سربراہ نے بھی اپنے ماتحت اداروں کو احکامات صادر کردیئے ہیں کہ ہر شعبہ اجرائی منصوبے تیار کرے۔ تاہم میں ٹائم ٹیبل اور نظام الاوقات کے تعین پر تاکید کرنا چاہتا ہوں، اس کا فریم ورک اور شیڈول تیار ہونا چاہیے۔ جو حکمنامہ محترم نائب صدر نے اداروں کے لئے جاری کیا ہے میں نے وہ دیکھا ہے۔ اس کا شیڈول بھی معین ہونا چاہیے، واضح ہونا چاہیے کہ کتنا کام انجام پایا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور اس پر عملدرآمد کے لئے ابھی کتنا وقت لگےگا ۔ اس میں سرعت آنی چاہیے۔ ہر ادارے کی ذمہ داری معین ہونا چاہیے۔ خاص طور پر مجریہ میں تمام اداروں کے حصے کا کام واضح ہونا چاہیے۔ خاص طور پر مدت کو واضح کرنے والی علامتوں کو معین کرنا چاہیے تا کہ صحیح نگرانی کی جا سکے، کام کی پیشرفت کا اندازہ کیا جا سکے اور راستے کی درستگی کا یقین حاصل کیا جا سکے۔
چوتھا مسئلہ مختلف شعبوں کے درمیان ہم آہنگی کا مسئلہ ہے۔ اس ہم آہنگی کا راستہ مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہان کو نکالنا ہے۔ ہم آہنگی سے بڑی مدد ملے گی۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان ہم آہنگی، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی۔ کچھ شعبہ ایسے ہیں جن میں باہمی ہم آہنگی کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ شعبہ ایسے ہوتے ہیں جہاں ہم آہنگی کے بغیر کام تو ممکن ہے لیکن ہم آہنگی کا بہت گہرا اور مثبت اثر ہوتاہے۔ بہرحال یہ بہت ضروری ہے۔ اس کا طریقہ تینوں قوا کے سربراہان کو طے کرنا ہے۔
پانچواں مسئلہ ہر سطح پر نظارت و نگرانی کا ہے۔ نگرانی بہت ضروری ہے۔ تینوں قوا کے سربراہان بھی اپنے تحت اداروں کی مکمل نگرانی کریں، مجمع تشخیص مصلحت نظام بھی اپنی نگرانی کی ذمہ داری پر سنجیدگی سے عمل کرے اور اداروں پر نگرانی کرے ۔ رہبری کا ادارہ بھی نگرانی کرےگا۔ تو یہ نگرانی بڑی اہم ضرورتوں کا حصہ ہے۔
چھٹا مسئلہ رکاوٹوں کو دور کرنے کا مسئلہ ہے۔ کچھ رکاوٹیں موجود ہیں جنہیں دور کیا جا سکتا ہے۔ کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں۔ میں نے تینوں قوا کے سربراہان کے ساتھ اپنی ملاقات میں تاکید کی ہے کہ قانون پر قانون وضع کرنا کام کو مشکل کر دیتا ہے، رکاوٹ بننے والے قوانین کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ کیونکہ آج ہمارے پاس قوانین موجود ہیں، اب اگر ہم مزید قانون وضع کریں تو ممکن ہے کہ مشکل ساز ہو۔ اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپس میں متضاد اور متصادم قوانین کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔ عدالتی رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں، ان کی بھی نشاندہی ضروری ہے۔ اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے افراد، سرمایہ کاروں، سائنسدانوں، خلاقانہ صلاحیت اور مہارت رکھنے والے افراد سب کو یہ محسوس ہو کہ ان کے سامنے کوئی بھی غیر معقول رکاوٹ موجود نہیں ہے اور وہ آسانی سے اپنا کام انجام دے سکتے ہیں۔
چوتھا اہم کام ماحول سازگار بنانے کا ہے ۔ پائدار اور مزاحمتی معیشت کی صحیح تصویر پیش کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں ملکی ذرائع ابلاغ اور قومی نشریاتی ادارے کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے لیکن یہ کام صرف انہیں تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے ملک کا دشمن اور مخالف میڈیا، انقلاب مخالف ذرائع ابلاغ، ہماری قومی پیشرفت کے دشمن ذرائع ابلاغ گھات میں ہیں اور انہوں نے اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے اور آئندہ بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہوگی۔ مزاحمتی معیشت کے سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، اعتراض کرنا، ہنگامہ آرائی کرنا، بے حد اہم چیزوں کو بالکل معمولی بنا کرپیش کرنا، یہ تمام کام مخالف ذرائع ابلاغ کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے بالکل مخالف سمت میں کام کرنا ہے۔ ماحول سازگار بنانا ہے تاکہ عوام باخبر ہو جائیں اور یقین کر لیں۔ تب ہم اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
میں اپنے بیان کے اختتام میں بات یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ احتساب اور اطلاع رسانی بہت ضروری ہے۔ ہمارے پاس نگرانی کا مضبوط مرکز ہونا چاہیے جو اس عمل کی پیشرفت کا باریکی کے ساتھ جائزہ لیتا رہے، اطلاعات جمع کرتا رہے، اندازہ لگاتا رہے، نتیخہ اخذ کرتا رہے اور ضرورت کے مطابق ہر مرحلے کے لازمی اقدامات کی نشاندہی بھی کرے۔ ہر شعبے کے لئے معیاروں کو مشخص کیا جائے اور سرانجام عوام کو ساری اطلاعات فراہم کی جائیں۔ عوام کو باخبر رکھنا چاہیے ۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں یہی میرے عرائض ہیں جو میں بیان کرنا چاہتا تھا۔
ملک میں بہت بڑے کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم بلند ہمتی کے ساتھ، اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اعتماد کرتے ہوئے بتدریج اور مناسب و لازمی رفتار کے ساتھ  اس منصوبہ کو آگے بڑھائیں۔ یہ ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے اثرات و نتائج میں بہت زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ یہ طویل مدتی منصوبہ ہے لیکن اس کے ثمرات بہت جلد نظر آنے لگیں گے ان شاء اللہ۔ یعنی اس عمل کے ثمرات اور نتائج کا آغاز قریب ہےاور عوام اپنے اس عمل کے نتائج کی حلاوت اور شیرینی کو بہت جلد محسوس کرلیں گے عوام کو اس  کے نتائج کا زيادہ انتظار نہیں کرنا پڑےگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسی حکومت کے دور اقتدار میں، جو ترقی جاری ہے اور جو کام انجام دئیے جا رہے ہیں ان کے ثمرات سے عوام بہرہ مند ہوں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کی مدد فرمائے، ہم سب کی ہدایت فرمائے، ہمیں ہماری کوتاہیوں اور خامیوں سے آگاہ کرے، ہمیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، جو کچھ اس کی خوشنودی کا باعث ہے ہمیں اس کے عمل کی توفیق مرحمت فرمائے اور ہمیں اسے انجام دینے پر قادر فرمائے۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے اور صبر و حوصلے کے ساتھ تمام باتوں کو سماعت کیاامید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ یہ گفتگو ایک عمومی اور عملی اقدام کا مقدمہ ثابت ہوگی۔

و السلام علیکم و رحمةالله و برکاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)19 فروری 2014
2) 10 دسمبر 1997
3) 25 فروری 2014
4) نهج‌البلاغه، خطبه‌
۱۲۷
5) اقتصادی شعبے کے عہدیداروں اور دفعہ چوالیس پر عملدرآمد کے ذمہ دار کی قائد انقلاب اسلامی سے 19 فروری 2006 کو ہونے والی ملاقات
6) بحارلانوار، جلد
۶۷، صفحہ ۳۰۹
7) 21 مارچ 1998
8) 20 مارچ 2012
9)  سوره‌ عصر، آیه‌
۳