ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا خبرگان کونسل کے اراکین سے خطاب

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌

میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر و سپاس بجا لاتا ہوں کہ اس نے زندگی عطا کی  اور اس عظيم الشان اجلاس میں شرکت کرنے اور کچھ باتیں سننے اور کچھ باتیں بیان کرنے کا موقعہ عطا فرمایا۔ میں خبرگان کونسل کے محترم صدر (1) کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو خبرگان کونسل کا مقررہ وقت پر اجلاس منعقد کرتے ہیں حالانکہ انہیں طبیعت ناساز رہتی ہے اور اس وجہ سے انھیں کافی دشواری ہوتی ہے۔ اسی طرح خـرگان کونسل کےدیگر محترم اراکین کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہوں۔
اس کونسل کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے، اس سے قبل ہم نے کچھ باتیں پیش کیں، آپ حضرات نے بھی کئی بار اس پر روشنی ڈالی۔ اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی جمہوری ایران کے اہم ستونوں میں اس کونسل کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہے۔ لیکن بعض اوقات خاص مناسبتوں اور اندرونی و بیرونی مسائل اور پالیسیوں کے پیش نظر اس کونسل میں شامل بزرگ علماء کا ملکی سطح اور عوام پر گہرا اثر ہوتا ہے جس کی بنا پر خـبرگان کونسل کی اہمیت بہت زيادہ نمایاں ہوجاتی ہے۔

میری نظر میں موجودہ دور ایسے ہی ادوار میں سے ایک ہے۔ ہمارے اردگرد بہت ہی اہم مسائل رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ مسائل کا تعلق براہ راست ہم سے ہے اور کچھ مسائل کا تعلق براہ راست ہم سے نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس طرح کے مسائل دنیا میں اور ہمارے علاقے میں کثرت کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔ ایشیا میں، افریقہ میں اور یورپ میں عام حالات کا مشاہدہ کیجئے تو بڑی پیچیدہ صورت حال نظر آتی ہے۔ بڑے اہم مسائل دکھائی دیتے ہیں۔ فطری طور پر ان مسائل کے سلسلے میں اسلامی جمہوری نظام کا اپنا ایک مؤقف ہے۔ موجودہ دور میں اس نظام کے حوالے سے اپنے نفس کامحاسبہ اور اپنے فریضہ کا ادراک ہم سب کی اہم ذمہ داری ہے۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ دنیا میں بڑی مشکلات ہیں اور آج علاقائی معاملات بلکہ اکثر اوقات عالمی معاملات میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثر ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ لہذا اسلامی نظام کے تمام اہم ادارے منجملہ خبرگان کونسل مسائل کا خلاقانہ اور کلیدی نقطہ نگاہ سے جائزہ لے، علماء امت کے ہادی ہیں  لہذا ان کا ذاتی اور شخصی فریضہ ہوتا ہے کہ مسائل اور حقائق کا غور سے مطالعہ کریں اور عوام کے سامنے حقائق کی تشریح علماءکی اہم ذمہ داری ہے، اسلامی نظام میں علماء کی ذمہ داری صرف نماز اور روزے کے مسائل بیان ہی نہیں ہے،بلکہ  وہ عوام میں بیداری پیدا کرنا ، عوام کو مسائل سے آگاہ کرنا ، لوگوں کے سامنے حقائق بیان کرنا اور لوگوں کی بصیرت میں اضافہ کرنا ان کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ اسی طرح خود اس کونسل کا رکن ہونا بھی ذمہ داری کا باعث ہے یہ کونسل ایک حکومتی ادارہ ہے، لہذا اس حوالے سے  بھی خبرگان کونسل کی کچھ اہم ذمہ داریاں ہیں۔
میں سب سے پہلےدو چیزیں پیش کروں گا۔ پہلے میں کچھ باتیں عالمی مسائل کے بارے میں  پیش کروں گا ایسے عالمی مسائل جو ہم سے بھی مربوط ہیں، کیونکہ بہت سے عالمی مسائل ایسے بھی ہیں جن کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تو میں چند نکات ان عالمی مسائل کے بارے میں بیان کروں گا جو ہم سے متعلق ہیں۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ آج دنیا بڑی بنیادی اور اساسی قسم کی تبدیلیوں سے دوچار ہے اور اس بات کا کوئی بھی منکر نہیں ہے۔ آپ شمالی افریقہ کے علاقے اور افریقہ کے دیگر خطوں کو مشاہدہ کیجئے، ایشیا کے علاقے اور یہاں نمودار ہونے والی طاقتوں کو ملاحظہ کیجئے جو بین الاقوامی سطح پر بھی بڑی طاقتوں کے سامنے خود کو منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں، یا جو حالات یورپ میں رونما ہورہےہیں ان کو دیکھئے تو دنیا بنیادی تبدیلیوں کے دور سے گزرتی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے عالمی اور تاریخی تبدیلیاں دن رات میں رونما نہیں ہوتیں، یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اگر تبدیلی ہو رہی ہے تو انھیں چھ ماہ میں یا ایک سال یا دو سال کے اندر نظر آنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے۔ تبدیلی کے آثار کو محسوس کرنا چاہیے، ممکن ہے کہ یہ تبدیلی بیس سال میں انجام پذیر ہو، لیکن ہمیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ تو پہلا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کلیدی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور ہمارے لئے اس کا ادراک بہت ضروری ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے تسلط پسند سامراجی محاذ کا آرام و سکون ختم ہوگيا ہےتسلط پسند محاذ جو اب تک پوری دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرتا تھا  چاہے وہ امریکی محاذ ہو یا یورپی محاذ، پہلےان کے اندر اقتصادی لحاظ ، ذرائع ابلاغ  کے لحاظ سے، سماجی اسودگی کے لحاظ سے ان کے اندر ارام و سکون پایا جاتا تھا جو اب ختم ہورہا ہے۔ ان ملکوں کے پاس وسائل کی کمی نہ پہلے تھی اور نہ آج ہے۔ پیسہ بھی ہے، اسلحہ بھی ہے، تبلیغاتی ذرائع ابلاغ بھی ہیں اور سائنس و ٹکنالوجی بھی ہے۔ لہذا جس طاقت کے پاس یہ سارے وسائل موجود ہوں اسے پوری طرح مطمئن اور آسودہ خاطر ہونا چاہیے، آرام اور سکون ہونا چاہیے۔ برسوں سے ان ملکوں میں یہ سکون اور آسودہ خیالی رہی ہے۔ لیکن اب وہ آرام و سکون باقی نہیں رہا۔
اب ان کے پاس کئی میدانوں میں یہ سکون باقی نہیں رہا۔ سب سے پہلے ان ممالک کے اقتصادی شعبہ کو ملاحظہ کیجئے کہ آج ان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ حالانکہ اقتصادی پیشرفت اور اقتصادی رشد و نمو ان کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ یورپی ممالک بھی شدید اقتصادی اور معاشی بحران میں گرفتار ہیں، امریکہ بھی معاشی بحران میں ڈوبتا جارہا ہے۔ ان کی  مستحکم معیشت آج شدید معاشی بحران کے آثار کو چھپانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ آپ غور کیجئے! ایک حکومت اپنے ملک کی پوری قومی پیداوار سے زیادہ قرضہ کے نیچے دبی ہوئی ہو تو اس کا  کیا عالم ہوگا، آج امریکہ کی یہی حالت ہے۔ آج وہ ایسی نادہندہ حکومت ہے جس کے پاس اپنا قرضہ ادا کرنے کا بظاہر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بہت سے بڑے منصوبے عملی جامہ نہیں پہن سکتے۔ خود امریکہ کے اندر یہ حالت ہے۔ بڑے اور طاقتور یورپی ممالک میں بھی اسی قسم کے حالات ہیں البتہ ان کے بارے میں کم گفتگو ہوتی ہے۔ امریکہ کے موجودہ صدر نے اپنے پہلے دور صدارت میں عوام سے عمومی میڈیکل انشورنس کا وعدہ کیا لیکن تقریبا چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ یعنی امریکہ اتنے مالیاتی وسائل رکھنے والا ملک، اتنے ذخائر سے مالامال ملک ہے لیکن وہاں کا صدر اپنے عوام سے کئے ہوئے ایک وعدے کو بھی پورا کرنے کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا ، امریکی صدر اپنے وعدے کو پورا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ آج امریکہ کے حالات اس حد تک خراب ہوگئے ہیں۔ لہذا اقتصادی میدان میں استکباری محاذ کے اہم ممالک کی جو مضبوط اور مستحکم پوزیشن تھی،وہ  آج شدید بحران  کا شکار ہوگئی ہے، سامراجی طاقتیں آج مشکلات میں گرفتار ہیں۔ خبروں میں سبھی دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یورپ کے بھی مختلف ممالک گوناگوں اقتصادی بحرانوں میں گرفتار ہوگئے ہیں۔
سامراجی محاذ اخلاقی کے میدان میں بھی بازی ہار چکا ہے۔ موجودہ مغربی تمدن انسان کے احترام اور عزت کے نظرئے کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہ تہذیب "ہیومونزم " کے مکتب فکر کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت ہی اس تہذیب و تمدن کا قبلہ، اور اصلی عنصر ہے۔ لیکن آج مغربی تہذیب میں انسانیت تباہ و برباد اور  پامال ہوکر رہ گئی ہے جس سے یہ حقیقت نمایاں ہوگئی ہے  کہ ان کے اس مکتب فکر کو شکست اور ناکامی کا سامناہے۔ پہلے تو وہ اسے علمی تقاضا قرار دیتے تھے اور یونیورسٹیوں کے ماحول کا نام دیتے تھے اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کی تلاش و کوشش کرتے تھے لیکن بتدریج یہ خامیاں نمایاں اور آشکار ہونے لگیں اور اس تہذیب کا اصلی چہرہ سامنے آگیا۔ اس تمدن کا باطن انسانیت کے خلاف  اور انسان کی پاکیزہ فطرت سے متصادم ہے،اور اس کا باطنی چہرہ خود بخود نمایاں ہونے لگا ہے۔ اس کا ایک نمونہ قتل و غارت اور تشدد کا رجحان ہے۔ مغربی ممالک میں یہ قتل و غارت اور تشدد اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ انگریز ہندوستان میں جرائم کا ارتکاب کرتے تھے، برمہ میں مجرمانہ حرکتیں کرتے تھے لیکن دوسرے خطوں میں خود کو بہت صاف ستھرا، مہذب ،مؤدب اور پاکیزہ بناکر پیش کرتے تھے مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آج ان کے وحشیانہ اقدام سب کے سامنے ہیں جو لوگ عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں وہ استکباری محاذ کے سامنے اس کے تشدد کی داستان پیش کر رہے ہیں۔ قتل و غارت، تشدد اور انسانیت کو تباہ و برباد اور مسخ کر دینے والے شہوانی اعمال ، ہم جنس پرستوں کی آپسی شادیاں! یہ ہم جنس پرستی سے الگ ایک چیز ہے، جو کئی گنا زیادہ سنگین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت کے مخالف کو اعلانیہ طور پر اپنے درمیان اور سماج میں جگہ دی جا رہی ہے۔ قرآن میں آیا ہے؛ «وَ تَأتونَ فى ناديكُمُ المُنكَر» (2)۔ آج وہ صریحی طور پر اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔ دو ہم جنس باز ایک دوسرے سے شادی کرتے ہیں، کلیسا میں اس کا اندراج بھی ہوتا ہے، امریکی صدر جمہوریہ بھی اس پر اظہار خیال فرماتے ہیں، اپنا مؤقف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، اس کا مخالف نہیں ہوں! یعنی ان کے درمیان شہوت پرستی اور اس جیسے دیگر غیر اخلاقی مسائل کا وہ باطنی و درونی فسق و فجور اور فساد طشت از بام ہو گیا ہے۔
مغربی ممالک کی دہشت گردی کی اعلانیہ حمایت اور پشت پناہی ، جسے آپ علاقائی مسائل میں اچھی طرح مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کچھ وحشی لوگ ایک انسان کا سینہ چاک کرکے جگر باہر نکالتے ہیں اور ٹی وی کیمروں کے سامنے اسے چبا جاتے ہیں، یورپی حکومتوں پر سکوت طاری ہے۔ وہ احتیاط کرتی ہیں، کچھ بولتی نہیں۔ یہ نہیں کہتیں کہ ہم اس کی حمایت کر رہے ہیں، بلکہ یہ بیان دیتی ہیں کہ ہم تو مخالف محاذ کی مدد کر رہے ہیں۔ آج مغربی ممالک صورت حال یہ ہے ۔ یعنی آج مغربی ممالک  دہشت گردوں کی، وہ بھی وحشیانہ اور درندہ صفت دہشت گردوں کی حمایت کررہےہیں اور ان کے وحشینا اور ہولناک جرائم پر خاموش تماشائي بنے ہوئے ہیں۔
مغربی ممالک میں آزادی اظہار کے نام پر اسلامی مقدسات کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں اسلام کی عظيم اور نورانی ہستیوں کی توہین کی جاتی ہے ، گستاخیاں کی جاتی ہیں۔ انبیا (ع) کی عظیم ہستیوں کی توہین کی جاتی ہے، صرف ہمارے پیغمبر اکرم (ص) کی ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء (ع) کی توہین کی جاتی ہیں۔ میں نے ثقافتی حکام سے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بہت سے ثقافتی عہدیدار میدان عمل میں ثقافتی مسائل سے سروکار نہیں رکھتے مثلا کتابیں پڑھیں، مختلف کتابوں کو دیکھیں، ان چیزوں سے دور ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ مغرب والے حضرت موسی (ع)کی توہین کرتے ہیں، حضرت عیسی (ع)کی توہین کرتے ہیں۔ انبیاء کرام (ع) کی آشکارا توہین کرتے ہیں۔ یہ سب آج کل ہو رہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مغربی ممالک  اخلاقیات کے میدان میں بھی شکست اور ناکامی سے دوچار ہوگئے ہیں استکباری محاذ جو  پوری دنیا کو کنٹرول کرنے کا مدعی تھا، آج اخلاقی میدان میں شکست سے دوچار  ہوگیاہے اور اسے اس میدان میں بھی بہت سے مشکلات کا سامنا ہے۔
مغربی تہذیب و تمدن کو اگر علمی شناخت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو بھی یہ تہذیب شکست سے دوچار ہوگئی ہے۔ کیونکہ مغربی تہذیب کی علمی بنیادیں یکے بعد دیگر منہدم ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ ایسے مفکرین آئے جنہوں نے "بشریات" کے شعبے میں اور دیگر علمی میدانوں میں بھی ان کے نظرئے پر خط بطلان کھینچ دیا۔ اس طرح اس تہذیب کی علمی بنیادیں بھی تباہ وبرباد ہو گئی ہیں۔
سامراجی محاذ کو عالمی عزت و وقار کے لحاظ سے بھی شکست و ناکامی کا سامنا ہے اور موجودہ عالمی حالات اس کا واضح نمونہ ہیں ۔ آج استکباری محاذ کا ہاتھ خالی ہے۔ اس کی کوئی عزت و آبرو باقی نہیں رہ گئی ہے۔ یعنی مغربی حکومتوں اور ان کے آلہ کار اور غلام حکمرانوں کے سنگين اور ہولناک جرائم اقوام عالم کی نگاہوں کے سامنے آ چکے ہیں۔ چنانچہ آج سامراجی طاقتیں دنیا میں سب سے منفور سمجھی جاتی ہیں۔ البتہ ان حکومتوں کے بعض حکمراں، کچھ ان کی آلہ کار اور پٹھو حکومتیں، بعض کمزور حکومتیں اور بزدل حکومتیں پردہ پوشی اور تعریف و تمجید کرتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں  اقوام عالم کی نظر میں بہت زيادہ منفور ہیں۔ لوگ ان سے اس علاقے میں بھی اور دیگر خطوں میں بھی متنفر ہیں۔ اسلامی ممالک میں تو ان کے بارے میں بڑی شدت سے نفرت پائی جاتی ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ لہذا عزت و وقار کے میدان میں بھی انہیں شکست اور ناکامی کا سامنا ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس نے غنڈہ گردی کرنے والے اس محاذ کے لئے کچھ بھی باقی نہیں رکھا،جس کی قیادت امریکی حکومت کرتی ہے، امریکہ سامراجی طاقتوں میں سب سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے لیکن اس کی بھی کوئی عزت باقی نہیں ہے۔ جو نکات میں بیان کرنا چاہتا ہوں ان میں یہ دوسرا نکتہ ہے ۔
اگلا نکتہ عالمی حقائق اور دنیا کے حالات اور قوموں کی بیداری کے بارے میں ہے ۔ ہم نے عرض کیا کہ عرب علاقے میں، شمالی افریقہ کے علاقے میں اسلامی بیداری رونما ہوئی ۔ اس اہم تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے سامراجی محاذ تیار ہو گیا اس نے پہلے تو کسی بھی صورت میں اسے اسلامی بیداری تسلیم نہیں کیا ،اور کہا کہ  اس کا اسلام سے کوئی ربط نہیں ہے۔ لیکن بعد میں واضح ہو گیا کہ نہیں، یہ بیداری پوری طرح اسلام سے متعلق ہے۔ انہوں نے اس وقت تو علی الظاہر بیداری اس لہر کو دبا دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ شمع بجھنے والی نہیں ہے۔ جب کسی قوم میں اسلامی فرائض کا احساس بیدار ہو جاتا ہے، اسلامی شناخت کا احساس موجیں مارنے لگتا ہے تو پھر اسے اس آسانی سے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کچھ دیر کے لئے مان لیا جائے کہ ایک حکومت کا تختہ الٹ دیا گيا، اسے فوجی کودتا کے ذریعہ یا کسی اور طریقے سے کچل دیا گيا، لیکن عوام میں جو جذبہ بیدار ہوا ہے، عوام میں جو خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہو اہے اور ان میں اسلامی شناخت
کا جو رجحان پیدا ہوا ہے وہ مسلسل آتش فشاں کی مانند پک رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی بیداری کی یہ لہر ختم ہو گئی ہے۔ آج کی دنیا کی یہ بھی ایک حقیقت ہے، اسلامی استقامت بام عروج پر پہنچ گئی ہے۔
ایک اور اٹل حقیقت جو شاید ان حقائق میں سب سے زیادہ اہم ہے، وہ ایرانی قوم کا اسلامی انقلاب کے ساتھ معاملہ ہے۔ آفتاب انقلاب کے طلوع ہونےکو پینتیس سال گزر گئے ہیں  لیکن اسلامی انقلاب سے ایرانی قوم کی والہانہ محبت ، الفت ،رغبت اور لگاؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، اس نے انقلاب کو حاشیہ پر نہیں ڈالا، اپنے انقلابی مزاج اور جذبات کو کمرنگ نہیں ہونے دیا۔ آپ نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ بائیس بہمن مطابق گیارہ فروری کو مشاہدہ کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں میں متعدد بار عرض کر چکا ہوں کہ ہم اسے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ جن حقائق پر توجہ دینا ضروری ہے ان کی تشریح کے ساتھ ہی ان حقائق کے ذیل میں اپنے نوجوانوں کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔ یہ بھی ایک اساسی مسئلہ ہے۔ تو ہم آج ایسی دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس دنیا میں، ہمارے اطراف میں، ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو بنیادی اور اساسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ اورمقدمہ ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی فکر کا نمو اور اسلامی استقامت کا نمو دیکھنے میں آ رہا ہے، اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کا درخت مضبوط اور تناور ہو چکا ہے اور اسے مزید استحکام مل رہا ہے۔ تو ہمیں اپنے مسائل اور عالمی حالات کا بڑی سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔
دوسری چیز جو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارے دوش پر کون سی اہم ذمہ داریاں ہیں۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں۔ البتہ یہی ساری باتیں نہیں ہیں۔ میں جو باتیں عرض کرنے جا رہا ہوں وہ نئی نہیں ہیں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن سے آپ حضرات بخوبی آگاہ ہیں تاہم ان کا اعادہ کرنا اور دہرا دینا بھی مفید اور سودمند ہے۔ ہماری ذمہ داریاں بہت ہیں۔ ان میں مندرجہ ذیل ذمہ داریاں شامل ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں۔
ایک اہم ذمہ داری حقیقت بینی ہے ہمیں چاہیے کہ اپنے معاشرے اور سماج کے حقائق پر نظر رکھیں۔ عام طور پر جب ہم حالات کو دیکھتے ہیں تو انسانی مزاج کے مطابق پہلے خامیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح جو حقائق ہم دیکھتے ہیں مثلا گرانی کو دیکھتے ہیں، بعض اسلامی اہداف کی عدم تکمیل کو دیکھتے ہیں، بیشک یہ بھی حقائق ہیں جنہیں ہم اکثر و بیشتر دیکھتے ہیں، بعض لوگ ہیں جو انہی میں مبالغہ آرائی بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس ملک کے اندر ان کے علاوہ بھی کچھ حقائق موجود ہیں۔ یہ حقائق بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم حقیقت تو یہی اسلام پر استوار نظام کی استقامت و پائیداری ہے جس کا ہم نے ذکر کیا، یہ بھی ایک اٹل اور واضح حقیقت ہے۔ اسلام کے دشمن اور ایران کے دشمن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک سال، دو سال یا پانچ سال بعد عوام تھک ہار جائیں گے، انہیں یاد بھی نہیں رہے گا، وہ انقلاب سے کنارہ کش ہوجائیں گے، چنانچہ دنیا کے بہت سے انقلابات کے سلسلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بہت سے انقلابات میں ایسا ہوا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ تمام انقلابات  میں یہ صورت حال پیش آئی۔ یہ تمام انقلاب جو گزشتہ دو سو سال اور ڈھائی سو سال کے عرصے میں رونما ہوئے، جہاں تک مجھے علم ہے، یہی حالات ہوئے۔ تھوڑا وقت گزرا تو عوامی جوش و ولولہ ٹھنڈا اور ماند پڑ گیا، انقلاب کی لہر ختم ہو گئی اور سب کچھ پہلے والی حالت پر واپس آگیا۔
میں اپنی صدارت کےزمانے میں ایک ملک کے دورے پر گیا، ایسے ملک کے دورے پر جہاں سات آٹھ سال قبل انقلاب آیا تھا۔ اس ملک کا صدر بھی انہی انقلابی رہنماؤں میں سے تھا۔ جب ہم وہاں گئے اور اس جگہ پر پہنچے جہاں ہمیں مہمان کے طور پر بلایا گیا تھا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ سب کچھ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پرتگال کے استعمار کے زمانے میں تھا، وہ ملک پرتگال کی نوآبادیات کا حصہ تھا۔ جو حالت استعماری دور میں تھی وہی اب بھی نظر آ رہی تھی۔ ظاہری تکلفات، آداب و اطوار، معاشرت کا انداز سب کچھ وہی تھا، کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ حالانکہ شروع میں جب یہ لوگ اقتدار میں آئے تھے تو یہ صورت حال نہیں تھی۔ بعد میں رفتہ رفتہ ان پر سابق استعماری حکام اور مستبد حکمرانوں کا انداز اور طور طریقہ حکمفرما ہو گیا۔ لیکن ایران کا اسلامی انقلاب مغلوب نہیں ہوا، اسلامی جمہوری نظام مغلوب نہیں ہوا۔ جو لوگ اس ملک پر اور اس انقلاب پر وہی سابقہ عادات و اطوار، طرز عمل اور روش کار مسلط کرنا چاہتے تھے وہ اس مقصد میں ناکام ہوگئے۔ انقلاب بدستور اسلام کی بات کرتا رہا، خود مختاری کی بات کرتا رہا، قومی استقامت کا پیغام دیتا رہا، اندرونی پیشرفت و  ترقی کی بات کرتا رہا، انصاف و مساوات پر تاکید کرتا رہا اور ان اعلی اہداف کی جانب محنت اور لگن کے ساتھ گامزن ہے اعلی اہداف کے لئےکام کر رہا ہے۔ یہ سب انقلاب سے وابستہ مسائل ہیں۔ یہ سب اہم چیزیں ہیں، یہ حقائق ہیں۔
ایک اور حقیقت جس کے بارے میں کبھی غفلت نہیں کرنی چاہیے، وہ موجودہ نوجوان نسل کے اندر موجزن انقلابی جذبہ ہے۔ یہ الگ بات ہوگی کہ انقلاب کے زمانے کے ہم جیسے کچھ بوڑھے افراد انقلابی بنے رہیں اور ہمارے نوجوان ہمارے طور طریقے اور انداز سے خود کو دور کر لیں، ہمارے یہاں یہ صورت حال نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آج انقلابی نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ انقلابی نوجوان پورے ملک میں سرگرم ہیں اور ان کا تعلق معاشرے کے تمام طبقات سے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ایسے نوجوان ہیں جو دیندار بھی ہیں اور انقلابی بھی ہیں۔ میری نظر میں انقلاب کے آغاز کے انقلابی نوجوانوں سے یہ نوجوان زیادہ بلند مرتبہ کے مالک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس زمانے میں تو اتنا عظیم اور ہنگامہ خیز انقلاب رونما ہوا تھا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں انٹرنیٹ نہیں تھا، سیٹلائٹ چینل نہیں تھے، یہ گوناگوں تبلیغاتی وسائل نہیں تھے، نوجوان نسل ان تمام اافکار اور خطرات کی زد پر نہیں تھی، مگر آج کا نوجوان ان تمام خطرات سے دوچار ہے۔ انٹرنیٹ اس کے سامنے ہے، اس نوجوان کو گمراہ کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر تبلیغاتی کوششیں جاری ہیں لیکن اس کے باوجود یہ نوجوان دیندار نوجوان ہے، صوم و صلاۃ کا پابند نوجوان ہے، نماز کو خاص اہمیت دیتا ہے، نماز شب پڑھتا ہے، نافلہ نمازیں پڑھتا ہے، اہم دینی پروگراموں میں شرکت کرتا ہے، انقلاب کی حمایت کے لئے سینہ تانے ہوئے ہے، اس کی زبان سے ایسے نعرے نکلتے ہیں جو اس کے دل کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ آج کی انقلابی نسل ہماری نظر میں ہمارا عظیم افتخار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم حقیقت جس پر ہمیں توجہ دینا چاہیے،وہ  ہماری بے پناہ قومی و اندرونی صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ ملک کے حکام، نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مجھے ان ایام میں ان سے ملاقات کا موقعہ ملا، میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھی اس کے قائل ہیں، اس سے باخبر ہیں، واقف ہیں کہ ہمارے ملک کی کیا داخلی صلاحیتیں ہیں۔ یہی بے پناہ صلاحیتیں باعث بنیں کہ بندہ ناچیز اور دیگر ہم خیال افراد اور رفقائے کار مزاحتمی معیشت کے موضوع پر غور کریں۔ ورنہ اگر ہمارے عزیز وطن کے پاس یہ داخلی توانائیاں نہ ہوتیں تو مزاحمتی معیشت کو وجود میں لانا ممکن ہی نہیں تھا۔ مزاحمتی معیشت تبھی تشکیل پا سکتی ہے جب داخلی صلاحیتیں اور توانائیاں بیشمار اور فراوانی کے ساتھ موجود ہوں۔ جب ہم اقتصادی شعبے کے حکام کے ساتھ ملاقات کرتے ہیں اور اس شعبے سے وابستہ اہلکاروں سے گفتگو کرتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ملک کے اندر وسیع پیمانے پر صلاحیتں اور توانائیاں نظر آ رہی ہیں۔ تو یہ بھی ایک حقیقت ہے جو بہت اہم ہے۔
ہمارے دشمنوں کا کینہ اور عناد بھی ایک اور اہم حقیقتہے جس سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ دشمن کے معاندانہ اقدامات سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ بقول سعدی:
"دشمن چون از همه حیلتی فرومانَد، سلسله‌ی دوستی بجنبانَد"، (3)
اور پھر دوستی کا جھانسا دیکر ایسا حملہ کرتا ہے کہ کوئی دشمن کیا کرے گا۔ اسے فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہمارے دشمن موجود ہیں، اسلام کے دشمن موجود ہیں، ہماری قومی خود مختاری کے دشمن موجود ہیں، ہماری قوم کے اندر جو خصوصیات ہیں ان کی وجہ سے اس قوم کے دشمن موجود ہیں۔ ہاں اگر اس قوم نے بھی انقلاب سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہوتی، اسلام سےرابطہ ختم کر لیا ہوتا، تسلط پسند اور جارح قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہوتا تو پھر یہ دشمن طاقتیں ہم سے بہت خوش رہتیں، ہماری خوب تعریفیں کرتیں۔ لیکن وہ تو ہماری قوم کی دشمنی دل میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ؛ "قَد بَدَتِ البَغضآءُ مِن اَفواهِهِم" (4) جو بیان وہ دیتی ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا بغض اور کینہ کس قدر ہے۔ "وَ ما تُخفى صُدورُهُم اَكبَر" (5) جو دشمنی وہ زبان سے ظاہر کرتے ہیں وہ ان کے دل میں موجود کینے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ ان کے دلوں میں یہ دشمنی کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بھی ایک اٹل اور ناقابل انکار حقیقت ہے جسے ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قوم کے مقابل اور اسلامی نظام کے مقابل یہی دشمن بے دست و پا ہو گیا ہے، بے بس ہو گیا ہے۔ اس کی ناتوانی اور کمزوری  کی اگر آپ دلیل مانگیں تو اس کی دلیل یہ ہے کہ مقابلہ آرائی میں ناکام ہو جانے کی وجہ سے ہی دشمن نے اقتصادی پابندیوں کا راستہ اختیار کیا ہے۔ورنہ اگر وہ مقابلہ کرنے پر قادر ہوتا تو پابندیوں کی کیوں ضرورت پڑتی؟ ان پابندیوں کا اسے نہ کوئی فائدہ پہنچا ہے اور نہ ہی پہنچے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن بار بار فوجی حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔ اگر وہ دنیا میں عام طور استعمال ہونے والے حربوں اور طریقوں کے ذریعہ اس انقلاب کو ختم کرنے پر قادر ہوتا، ایرانی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا تو اسے ان دھمکیوں اور اس دباؤ کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہ پابندیاں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس کا  خود انہوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ خوش قسمتی سے آج حکومتی عہدیداروں میں، صدر محترم، متعلقہ وزرا، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے درمیان مزاحمتی معیشت کے مسئلے پر جو اتفاق رائے موجود ہے وہ بہت اہم ہے اور جس پر اظہار تشکر اور قدردانی کرنا چاہیے، انہوں نے واقعی اس نظرئے کا خیر مقدم کیا، البتہ خود یہ عہدیدار بھی تشخیص مصلحت نظام کونسل میں، اس موضوع پر ہونے والی مشاورت میں شریک تھے اور بحث میں پوری طرح شامل تھے، تو ان کا یہ اتفاق رائے اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ دشمنوں نے بغض و عداوت میں ایرانی قوم پر جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کا کوئي اثر باقی نہیں رہے گا۔ ان شاء اللہ یہ مزاحمتی معیشت دشمنوں کی تمام چالوں پر غالب آجائیگی۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ حقیقت بھی میں آپ کے سامنے بیان کردوں کہ اچھے حقائق بہت ہیں، ہم نے جہاں بھی اللہ پر توکل کیا ہے، عوامی قوت پر اعتماد کیا ہے اور مجاہدانہ انداز میں کام کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں، ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ آپ آغاز انقلاب سے لیکر اب تک جائزہ لیجئے۔ جہاں بھی ہم نے عوام کو میدان عمل میں وارد کیا ہے اور اللہ کا نام لیکر مجاہدانہ انداز میں اپنا کام شروع کیا ہے، وہاں ہمیں ضرور فتح ملی ہے۔ خود انقلاب کی تحریک میں یہی ہوا۔ عوام میدان میں آئے، سڑکیں عوام سے بھر گئیں، مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ میدان میں حاضر ہوئے اور جو اقدام انجام پایا، وہ مجاہدانہ اقدام تھا۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران بھی عوام میدان عمل میں موجود تھے۔ آٹھ سال تک جنگ کوئی مذاق نہیں ہے، اس ملک پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی تھی۔ حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے، " اللہ ان کی روح مطہرہ کو شاد کرے اور انبیاء و اولیا کے ساتھ محشور فرمائے" اس حقیقت کا بخوبی ادراک کر لیا تھا، اللہ نے یہ خیال الہام کی صورت میں آپ کے ذہن میں ڈال دیا تھا، اللہ نے ہدایت فرمائی تو آپ نے عوام کو میدان عمل میں اتارا اور اللہ کا نام لیکر آگے بڑھے۔ آٹھ سالہ جنگ میں ہمیں فتح نصیب ہوئی ۔ دوسرے معاملات میں بھی جب عوام میدان میں آئے، عوام کی زبان و دل پر اللہ تعالی کےنور کا سایہ رہا اور کام مجاہدانہ انداز میں کیا گيا تو ہمیں کامیابی عطا ہوئی۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے۔
آخری بات حقائق کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئے ہیں؛ وَاذكُروا اِذ اَنتُم قَليلٌ مُستَضعَفُون؛ (6) ہمیں وہ دن فراموش نہیں کرنا چاہیے جب ہم مستضعف تھے، ہم کمزور تھے، ہمارے وفادار نوجوان بھی کم اور کمزور تھے، پیچھے تھے لیکن آج اللہ تعالی نے انہیں قوی بنا دیا ہے۔ ہمارے خیال میں ہمارا ایک فرض تو یہی ہے کہ ان حقائق کو کبھی فراموش نہ ہونے دیں، ان حقائق کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔
میں نے ایک اور فریضہ بھی نوٹ کر رکھا ہے، جس پر ہمیشہ اور خاص طور پر آج کے ان حالات میں ہم سب کی توجہ رہنی چاہیے دشمن محاذ سے اپنے فرق اور فاصلے کو صریحی انداز میں نمایاں رکھنا ہے۔ حدبندی ہونا چاہیے۔ آیہ شریفہ میں ارشاد پروردگار متعال ہے؛ قَد كانَت لَكُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فى اِبراهيمَ وَ الَّذينَ مَعَهُ اِذ قالوا لِقَومِهِم اِنّا بُرَءآؤُ مِنكُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ الله كَفَرنا بِكُم وَ بَدا بَينَنا وَ بَينَكُمُ العَداوَةُ وَالبَغضآءُ ابداً حَتّى‌ تُؤمِنوا بِاللهِ وَحدَه (7) یہ قرآن نے صرف تاریخ نہیں بیان کی ہے۔ قرآن صریحی طور پر یہ کہہ رہا ہے کہ یہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے؛ "قَد کانَت لَکُم اُسوَةٌ حَسَنَةٌ فی اِبراهیم" یعنی آپ بھی ایسے بنیں۔ حدبندی کریں۔ حدبندی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم رابطہ ختم کر لیں۔ اس پر توجہ دیجئے! کسی کو غلط فہمی نہ ہو کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ساری دنیا کے دشمن بن جائیں۔ نہیں ہمیں حدبندی کرنا ہے، حدود کو معین رکھنا ہے، اس میں خلط ملط نہیں ہونے دینا ہے۔ جیسے جغرافیائی حدود ہوتی ہیں۔ جغرافیائی حدود کے سلسلے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک کے اطراف میں واقع ممالک کے ساتھ اپنی سرحدوں کو معین کر لیتے ہیں۔ سرحدیں معین کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دوسرے ملکوں میں نہ جائیں اور دوسرے ممالک کے لوگ آپ کے یہاں نہ آئیں۔ سرحدوں کو معین کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آمد و رفت اصول و ضوابط کے تحت ہو۔ یہ واضح رہے کہ ہم کب جا رہے ہیں، کون جارہا ہے، کیسے جارہا ہے؟ وہاں سے کون آرہا ہے، کب آ رہا ہے، کیسے آرہا ہے، کیوں آرہا ہے؟ جغرافیائی حدود اسی لئے ہوتی ہیں اور جغرافیائي حدبندی اسی طرح کی جاتی ہے۔ عقیدہ و ایمان کے سلسلے میں بھی یہی روش اختیار کی جانی چاہیے۔ اسی آیت شریفہ میں اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طرز عمل بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ: اِلّا قَولَ ابراهيمَ لِاَبيهِ لَاَستَغفِرَنَّ لَك؛ (8) یعنی یہ حدبندی اس بات میں رکاوٹ نہیں بنے گی کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد سے یہ کہیں کہ مجھے آپ پر رحم آ رہا ہے، میں آپ کے لئے استغفار کروں گا، یہ ساری چیزیں ہیں۔ لہذا حدبندی کا مطلب یہ واضح ہونا ہے کہ ہم کون ہیں اور آپ کون ہیں۔ میرے خیال میں سورہ مبارکہ "قل يا ايها الكافرون" اسی حدبندی کو بیان کر رہا ہے: لا اَعبُدُ ماتَعبُدون، و لا اَنتُم عابِدُونَ مااَعبُد؛ (9) یعنی سرحد واضح رہنی چاہیے، مخلوط نہیں ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس حدبندی کو کم رنگ یا ختم کر دینا چاہتے ہیں وہ حقیقت میں عوام کی خدمت نہیں کر رہے ہیں، وہ ملک کی خدمت نہیں کر رہے ہیں، چاہے وہ دینی و اعتقادی حدبندی کا مسئلہ ہو یا سیاسی حدبندی کا معاملہ ہو۔ خود مختاری بھی ملک کے لئے ایک طرح کی سرحد کا درجہ رکھتی ہے۔ جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ قوم کی خود مختاری کی اہمیت کو، عالمگیریت کے نام پر اور گلوبل ولیج کے نام پر، ختم کر دیں یا کم رنگ کر دیں، مقالے لکھ رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ملک کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ دنیا سے ہمارا رابطہ ہونا چاہیے۔ بیشک رابطہ رکھئے! لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ آپ کس سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، کیوں رابطہ قائم کر رہے ہیں، کس انداز سے رابطہ قائم کر رہے ہیں، یہ چیزیں واضح رہنی چاہیے، حدبندی کرنے اور سرحد کو واضح رکھنے کا یہ مطلب ہے۔ اندرونی سطح پر بھی حدبندی کا یہی معاملہ ہے۔ میری نظر میں یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ حدود کو معین کر لیں۔
بعض لوگ ہیں جو ملک کے لئے کوئی بھی مشکل اور مسئلہ پیش آتے ہی ان لوگوں کی ملامت شروع کر دیتے ہیں جو استقامت و پائداری کے حامی ہیں۔ آپ نے دیکھا ، اگر انسان اپنی بات پر اس طرح بضد رہتا ہے تو یہ مشکلات پیش آتی ہیں! صدر اسلام میں بھی یہی ہوا تھا۔: لَو اَطاعونا ماقُتِلوا قُل فَادرَءوا عَن اَنفُسِكُمُ المَوت (10) اللہ نے یہ طے کر دیا ہے کہ اگرہم سنت الہیہ کے مطابق نہیں چلیں گے تو مشکلات سے دوچار ہوں گے۔ جنگ بدر کے سلسلے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ: يَقولونَ لَو كانَ لَنا مِنَ الاَمرِ شَى‌ءٌ ما قُتِلنا هاهُنا (11) یعنی ماجرا یہ نہیں ہے کہ اگر ہم دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیں تو ہماری مشکلات ختم ہو جائیں گی، ہماری مشکلات دور ہو جائیں گی۔ ہرگزنہیں۔ مجھے حقیقت ملک کے حکام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ دشمن کے سامنے اپنی بات دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں، ایرانی قوم اور انقلاب کی عملی پوزیشن کو صریحی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ چیز ہمیں پورے ملک میں عام کر دینا چاہیے۔ یہ بھی ہمارے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے۔
ایک اور مسئلہ جو ہمارے اہم فرائض کا حصہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں شرپسندوں کی عداوت اور دشمنی سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔ دشمنی تو بیشک موجود ہے۔ جو قوم بھی اپنا ایک نظریہ، ایک مؤقف اور خاص طرز عمل رکھتی ہے، وہ دشمنوں کی عداوت اور دشمنی سے محفوظ نہیں ہے۔ آج میری نظر میں  ایرانی قوم کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس قوم کا دشمن اور ایرانی قوم کے دشمن ساری دنیا میں انتہائی بدنام لوگ ہیں۔ آپ ملاحظہ فرمائیں! آج امریکی حکومت عالمی سطح پر تشدد پسند اور جرائم میں آلودہ حکومت کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ آج بین الاقوامی سطح پر امریکی حکومت کا تعارف یہ ہے؛ ایک تشدد پسند طاقت، جو جرائم میں ملوث ہے، اپنی پست حرکتوں کی جسے کوئی پروا نہیں ہے اور جو بڑی آسانی سے قوموں کے حقوق اور انسانی حقوق کو پامال کرتی ہے۔ خود اپنے ملک کے اندر بھی اس حکومت کو جھوٹی اور مکار حکومت کے طور پہچانا جاتا ہے جو وعدے تو کرتی ہے لیکن عمل نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں کرائے جانے والے سروے میں موجودہ صدر کے بارے میں بھی اور سابق صدر کے بارے میں عوامی حمایت کی سطح بہت کم تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام انہیں پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔ ہماری دشمنی کسی آبرومند اور باعزت حکومت سے نہیں، منطقی اور مدلل مؤقف رکھنے والی حکومت سے نہیں ہے، اس قسم کی حکومتوں سے ہے۔ لہذا ان سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ نصرت خداوندی پر تکیہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جناب مہدوی (12) صاحب نے ابھی قوم موسی کے بارے میں آیت قرآنی کا حوالہ دیا۔ اسی آیت کا ایک حصہ میں بھی پڑھتا ہوں؛ جب بنی اسرائیل روانہ ہوئے اور مصر سے باہر نکلے، جناب موسی (ع) انہیں لیکر نکلے تھے، تو کچھ دیر بعد فرعون کا لشکر ان کا پیچھا کرتا ہوا آن پہنچا؛۔ فَلَمّا تَرآءَا الجَمعانِ قالَ اصحابُ موسى‌ اِنّا لَمُدرَكون، (13) جب یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے یعنی یہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ لشکر فرعون آ رہا ہے، لشکر فرعون بھی ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا تو جناب موسی (ع) کے ساتھیوں نے کہا کہ "انّا لمدرکون" اب ہم پکڑے جائیں گے اب ہماری خیر نہیں ہے، اب ہمارا قصہ تمام ہے؛ قالَ كَلّا اِنَّ مَعِىَ رَبّى سَيَهدين؛ (14) دیکھئے یہ بہت بڑا سبق ہے۔ آپ اللہ کے ساتھ رہیں ! بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ اسے دوسرے کے حوالے کردےگا جو اللہ کے ساتھ ہے؛۔ لاَتخافا اِنَّنی مَعَکُما اَسمَعُ و اَری‌؛ (15) حضرت موسی کی داستاں میں ہی ایک اور جگہ پر آیا ہے کہ اگر ہم اللہ کے ساتھ ہوں، اللہ کے لئے ہوں تو اللہ مدد کرتا ہے۔ تو یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم خوف و ہراس نہ کھائیں۔
قومی اتحاد، قومی یکجہتی اور انسجام کی حفاظت بھی ہمارا اہم فریضہ ہے۔ تکفیری طاقتوں کی موجودگی جو بدقسمتی سے ہمارے علاقے میں بعض جگہوں پر بڑے سرگرم ہیں، ان سے لاحق سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں ہے کہ وہ بے گناہ افراد کو قتل کر رہے ہیں، بیشک یہ بھی بڑا بھیانک جرم ہے، لیکن ان سے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی فرقوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا کر رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس بدگمانی کا سد باب کیا جانا چاہیے۔ نہ تو اہل تشیع میں یہ خیال پیدا ہونا چاہیے کہ جو گروہ اس طرح شیعوں کو مار رہا ہے وہی اہل سنت کا اصلی محاذ ہے لہذا اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور نہ ہی اہل سنت اس گروہ کی ان باتوں سے متاثر ہوں جو وہ شیعوں کے بارے میں کہتے ہیں، شیعوں کے خلاف تہمتیں لگاتے ہیں اور اختلاف کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ شیعہ اور اہلسنت دونوں کوبہت ہوشیار رہنا چاہیے  یہ بات ملک کے تمام علاقوں میں تمام افراد ذہن نشین کر لیں۔ اہل سنت بھی بخوبی سمجھ لیں اور اہل تشیع بھی جان لیں۔ ملک میں آج جو اتحاد ہے اسے ہرگز ختم نہ ہونے دیں۔ اس اتحاد و یکجہتی کا ایک حصہ شیعہ سنی اتحاد اور قومیتوں کا اتحاد ہے۔ قومیتی مسائل کو اٹھانا اور اختلاف کی آگ شعلہ ور کرنا بہت خطرناک ہے، آگ سے کھیلنے کی مانند ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ ثقافت کا مسئلہ ہے۔ میں نے اندازہ لگایا اور محسوس کیا کہ آپ حضرات بھی اس سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ میں بھی بہت فکرمند ہوں۔ ثقافت کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہماری اس استقامت، اس پیشرفت  اور سرانجام اللہ تعالی کی بتوفیق سے فتح و کامرانی کا دارومدار اسلامی و انقلابی ثقافت کے قائم رہنے پر منحصرہے، اس کا انحصار مؤمن کے ثقافتی پہلو کی مضبوطی اور استحکام  پر استوار ہے، ثقافت کے میدان میں اگنے والے پودوں کے استحکام پر ہے۔ الحمد للہ ہمارے ملک میں ایمانی جذبہ سے آراستہ بڑے اچھے نوجوان موجود ہیں جو فن و ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ ان میں بعض نوجوان ہیں اور بعض نوجوانی کے دور سے گزر چکے ہیں۔ تو ثقافتی میدان میں کام کرنے والوں کی ہمارے یہاں کمی نہیں ہے۔ ثقافتی مسئلے پر ہمیں بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بھی اس امر پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، دوسرے لوگ بھی اس پر توجہ دیں۔ میں بھی آپ کی اس تشویش میں شریک ہوں اور امید کرتا وں کہ ثقافتی شعبہ کے حکام پوری توجہ اور دقت کے ساتھ کام کریں گے۔ ثقافتی مسائل کا معاملہ مذاق نہیں ہے، اس میں غفلت نہیں ہونی چاہیے، اگر اس میدان میں کہیں کوئی خلل پیدا ہو گيا تو یہ اقتصادی میدان کی کسی مشکل جیسا نہیں ہے کہ بعد میں بھی جس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ پیسہ جمع کیا جا سکتا ہے، نقد سبسیڈی دیکر اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ثقافتی مشکل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوتی۔ پھر بڑی محنت کرنی پڑے گی  ۔ در حقیقت مؤمن اور انقلابی نوجوانوں کی قدر کرنا چاہیے، سب ان کی قدر کریں۔ یہ انقلابی اور مؤمن نوجوان ہی ہیں جو سینہ سپر ہوکر کھڑے ہو جاتے ہیں، انھوں نےآٹھ سال تک مسلط کردہ جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھائے ، یہ کام انہی نوجوانوں کا ہے۔ جو لوگ ان نوجوانوں کو حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور دوسروں کو ان کے سلسلے میں کمراہ کرتے ہیں  ، وہ حقیقت میں ملک کی، ملکی خود مختاری کی، ملکی ترقی کی اور اسلامی انقلاب کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ ان نوجوانوں کی حفاظت کرنا چاہیے، ان کی قدردانی کرنا چاہیے، آج بھی ان نوجوانوں کی تعداد الحمد للہ کم نہیں ہے۔ ان نو جوانوں کی تعداد بہت زيادہ ہے۔ ان مؤمن نوجوانوں کو گوناگوں اور مختلف بہانوں کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، البتہ وہ الگ تھلگ ہونے والے بھی نہیں ہیں۔ جوش و جذبے سے شار یہ نوجوان ان باتوں سے الگ تھلگ ہونے والے نہیں ہیں۔ لیکن بہرحال ہمیں ان کی قدر اور احترام کرنا چاہیے۔
ماحول سازی کا مسئلہ آخری مسئلہ ہے ۔ میں نے جو باتیں عرض کی ہیں یہ فقط نصیحت اور دل کا بوجھ ہلکا کر لینے کی بات نہیں ہے کہ میں بیان کروں آپ سن لیں یا آپ بیان کریں اور میں سن لوں۔ ان چیزوں کے لئے سازگار ماحول بنانا چاہیے۔ یہ باتیں عوام کے ذہن نشین کرانی چاہییں ۔ یعنی جس چیز کو تمام لوگ مانتے اور قبول کرتے ہیں اس پر دائمی طور پر ان کی توجہ بھی ہونی چاہیے۔ یہ چیز ماحول سازی سے ممکن ہے۔ منطقی انداز میں، مدلل انداز میں، عالمانہ اور مدبرانہ روش سے اظہار خیال کرکے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے۔ علمی اور منطقی انداز میں خوش اسلوبی سے اسے پیش کرنے اور لوگوں کے ذہنوں میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
میری اللہ تعالی سےدعا ہے کہ وہ  آپ تمام حضرات کو اپنی توفیقات عطا فرمائے، ہماری نصرت اور مدد فرمائے، ہماری ہدایت فرمائے اور ہمیں  اپنے فرائض پر عمل کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا ہمیں پختہ عزم نصیب فرمائے۔
«اللهم قو علی‌ خدمتک جوارحی، و اشدد علی العزیمة جوانحی و هب لی الجد فی خشیتک، و الدوام فی الاتصال بخدمتک».

و السلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)    آیت‌ الله مهدوی‌ کنی‌
2) سوره‌ عنکبوت،آیت
۲۹
3) گلستان، باب هشتم، در آداب صحبت‌
4) سوره‌ آل عمران، آیت
‌۱۱۸
5) سوره‌ آل عمران، آیت
۱۱۸
6) سوره‌ انفال، آیت
‌۲۶
7) سوره‌ ممتحنه، آیت
‌۴
8) سوره‌ ممتحنه، آیت
‌۴
9) سوره‌ کافرون، آیات
۲و۳
10) سوره‌ آل عمران، آیت
۱۶۸
11) سوره‌ آل عمران، آیت
۱۵۴
12) ماہرین کی کونسل کے سربراہ
13) سوره‌ شعراء آیت
۶۱
14) سوره‌ شعراء، آیت
۶۲
15) سوره‌ طه، آیت
۴۶