ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا 19 دی کی مناسبت سے قم کے عوام سے خطاب

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں قم کے تمام بھائیوں، بہنوں، عزیز نوجوانوں، علمائے کرام، طلاب محترم، اعلی علمی شخصیات کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں جو اس انتہائی اہم مناسبت کے موقع  پر ایک بار پھر ہمارے حسینیہ اورامام بارگاہ میں تشریف لائے اور اپنے وجود کی برکتوں، پاکیزہ احساسات و جذبات اور دانشمندانہ و مدبرانہ گفتگو سے یہاں کی فضا کو معطر بنایا اور 19 دی ماہ مطابق  نو جنوری کے لازوال تاریخی واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ یہاں پیش کئے جانے والے پروگرام اور ترانہ پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ؛ اچھا ترانہ پیش کیا جس کا مضمون بھی اچھا اور پسندیدہ ہے۔
انیس دی ،مطابق نو جنوری کا واقعہ  کوئی تکراری اور عادت کی بنا پر انجام پانے والا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک بنیادی، کلیدی اور اصولی مسئلہ ہے۔یہ چیز ہماری تمام اہم اور عظیم تاریخی مناسبتوں میں نظر آتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل جس نے اوائل انقلاب کی نوجوان نسل کی ذمہ داری اس وقت اپنے دوش پر اٹھائی ہے، ان تاریخی واقعات کو بار بار یاد کرکے اپنی تحریک اور اپنے مشن کی تاریخی حیثیت اور ماہیت کا تعارف کراتی ہے اور اسے خود بھی اس کا باقاعدہ احساس و ادراک ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ  نے اس منزل تک پہنچنے کے لئے جو محنت ،جفاکشی اور جانفشانی کی ہے، جو سختیاں برداش کی ہے، جن خطرات کا عوام نےدلیری اور  بے جگری کے ساتھ سامنا کیا ہے، ان کی قدر و اہمیت کو مد نظر رکھنا ضروری ہے، انہیں بیان کرنا لازمی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آج  کے پاس جو کچھ ہے وہ آسانی کے ساتھ  ہاتھ آنے والی نعمت نہیں ہے، حادثاتی اور اتفاقی طور پر مل جانے والی دولت و ثروت نہیں ہے۔

«رو خطر كن ز كام شير بجوى»

ایرانی قوم نے خطرات تحمل کئے، سختیاں برداشت کیں، جانوں کا نذرانہ پیش کیا، طاغوتی حکومت کے ظالم اہلکاروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، لوگوں نے اپنی جانیں دیں ، شہید ہوئے، زخمی ہوئے، تب جاکر یہ عظیم اور پرعزم کارواں اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس منزل تک کاروان انقلاب کو کامیابی نصیب ہوئی ؛یہ دوسرا اہم نکتہ ہے۔
تیسرا اہم نکتہ وہ درس و سبق ہے جو آج ہم سیکھ رہے ہیں ۔ ہمارے عزیز نوجوانوں نے ان ایام کو نہیں دیکھا ہے، انہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس وقت کیا حالات تھے؟ جن لوگوں نے وہ زمانہ دیکھا ہے انہیں معلوم ہے کہ طاغوتی حکومت کے استبداد کے سامنے پائداری سے ڈٹ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ ظواہر کے جال میں اسیر رہنے والے مصلحت کوش افراد سے اگر کہا جاتا تھا کہ ایرانی عوام یا مثال کے طور پر اہل قم پہلوی طاغوتی  حکومت کے سامنے علم بغاوت بلند کرنا چاہتے ہیں اور اسے نابود کر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو مضحکہ خیز انداز میں مسکرا دیتے  اور ہنس جاتے تھےاور کہتے تھے کہ کیا محال کام بھی انجام دئیے جا سکتے ہیں؟ لیکن یہ کارنامہ انجام پذیر ہوا۔ محال نظر آنے والا کام بھی ممکنات کے دائرے میں آگیا، انجام پذير بھی ہوگيا اور ہمیشہ کے لئے یادگار اور زندہ جاوید بن گیا۔ یہ ایک سبق ہے۔
آج بھی ایرانی قوم کے پیش نظر کچھ  اعلی اور بلند اہداف ہیں، اس کے کچھ عزائم ہیں، اس کے کچھ بلند مقاصد ہیں۔ اپنے عزیز وطن کے لئے بھی، دنیائے اسلام کے لئے بھی اور عالم بشریت کے لئے بھی۔ اس قوم کے سامنے کچھ وحشی درندے ، بھوکے بھیڑئے اور آوارہ پھرنے والے جانور، یہ طاقت و دولت کی کمپنیاں اور دنیا طلب و دنیا پرست گروہ صف آرا ہیں۔ اسلحہ تیار کرتے ہیں، ہتھیار ایکسپورٹ کرتے ہیں، جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اقوام متحدہ کو اپنی مرضی و خود غرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں اپنے فوجی بھیج دیتے ہیں، ہولناک جرائم انجام دیتے ہیں، ظلم کی حمایت کرتے ہیں، غاصب صہیونیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، انسانی معاشرے میں ظلم کا بازار گرم کرتے ہیں۔ اسی ظاہری طاقت کے ذریعہ اور اسی ظاہری رعب و دبدبے کی بدولت جس کا ایک نمونہ ہم نے ایران میں پہلوی طاغوتی دور میں دیکھا ہے۔ آج بھی کچھ لوگ اسی طرح یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ دولت و طاقت، ذرائع‏ ابلاغ ، میڈیا، سیاست اور اقتصاد کی اتنی عظیم اور منظم طاقت کے سامنے کیا کوئی ٹک سکتا ہے؟ کیا ان سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ آج بھی وہی باتیں کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ تجربہ گواہ ہے کہ استقامت کی جا سکتی ہے اور یہ ہماری بات نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے کہا ہے کہ اگر تم نے اللہ کے لئے میدان میں قدم رکھے اور پائداری و استقامت کا مظاہرہ کیا تو تمہاری فتح و کامرانی یقینی ہے۔ «و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار ثمّ لا يجدون وليّا و لا نصيرا سنّة اللّه الّتى قد خلت من قبل و لن تجد لسنّة اللّه تبديلا».(1)یہ صرف صدر اسلام کی جنگ سے مخصوص نہیں ہے یہ تو قرآن کے بقول«و لو قاتلكم الّذين كفروا لولّوا الأدبار»؛ سنّت خداوندی ہے۔ بیشک اگر ہمیں اپنی بات کے تمام پہلوؤں کا علم نہیں ہے، یا ہم اپنی بات کہنے کا طریقہ نہیں جانتے، یا اپنی بات پر ہم خود قائم رہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، یا شیطانی وسوسوں میں پڑ کر ہمارے اندر سستی ، غفلت اور تساہلی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر مجاہدت اور جدوجہد کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، یہ تو سب جانتے ہیں۔ ساری بحث: «لينصرنّ اللّه من ينصره».(2) میں مضمر نکتے کے بارے میں ہے۔ اللہ کی مدد کرنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ تدبر کیا جائے، جدید افکار و نظریات کا ذخیرہ تیار کیا جائے، اسے دنیا میں صحیح شکل میں پیش کیا جائے، پھر اس پر ثابت قدمی سے قائم رہا جائے، اس کو آگے لے جانے کی فکر کی جائے، اس سفر میں پیش آنے والے خطرات کا بے خوف و خطرمقابلہ کیا جائے۔ اگر ہم اسے انجام دینے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالی یقینا ہماری مدد اور نصرت کرے گا۔ "لینصرنّ" کا مفہوم یہی ہے۔ یعنی اللہ ضرور بالضرور مدد کرے گا۔. «و من اصدق من اللّه قيلا»؛(3)اللہ سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے؟
ایرانی قوم نے اسے عملی طور پر آزمایا۔ چنانچہ اگر آج بھی ہمارے عزیز عوام، ہمارے بلند ہمت اور پرعزم نوجوان اپنی اس راہ میں استقامت و پائداری کا مظاہرہ کریں تو یہ طے ہے کہ اپنے وقت پر، مناسب حالات پیدا ہو جانے کے بعد تمام امنگیں اور تمام امیدیں پوری ہو جائیں گی، تمام نعرے اور دعوے عملی جامہ پہن لیں گے، صرف عزیزوطن کے اندر ہی نہیں بلکہ عالم اسلام، امت اسلامیہ اور انسانی معاشرے کی سطح پر بھی اس کی عملی تصویریں نظر آئیں گی۔ ہر عمل اور فعل کے لئے خاص وقت اور مدت درکار ہوتی ہے، اس کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے اور وہ وقت آ جانے پر امیدیں پوری ہوجاتی ہیں۔ جس منزل پر ایرانی قوم کی نگاہیں ہیں اور جس کی جانب اس کا سفر جاری ہے اس منزل تک وہ ضرور پہنچے گی  لیکن اس کے لئے استقامت اور پائداری شرط ہے،جب وہ مطلوبہ منزل مل جائے گی تو پھر کیا صورت حال ہوگی؟ پوری دنیا کا راستہ تبدیل ہوتا دکھائی دے گا، تاریخ کا رخ ایک نئی سمت میں مڑتا دکھائي دےگا ۔ آج تاریخ جس راستے پر چل رہی ہے وہ ظلم کا راستہ ہے، تسلط پسندی کا راستہ ہے۔ دنیا میں کچھ طاقتیں کشور گشائی اور توسیع پسندی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور کچھ اقوام ہیں جنہوں نے ان کی توسیع پسندی کا شکار ہونا اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ ان حالات میں اگر ایرانی قوم اپنے مشن میں کامیاب ہو گئی، اگر اسے اس کی مطلوبہ منزل مل گئی تو پھر تاریخ کا رخ ایک بار پھر بدلے گا۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کے لئے حالات سازگار ہوں گے، دنیا ایک نئے دور میں قدم رکھے گی۔ اس کا انحصار ہمارے عزم و ارادے پر ہے، اس کا دارو مدار ہماری اور آپ کی معرفت پر ہے۔ اللہ تعالی اپنے وعدوں کے ایفاء کے متعلق لوگوں کے دلوں کو مطمئن کرنے کے لئے بعض وعدے مختصر مدت میں ہی پورے کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی نےحضرت  موسی کی ماں پر وحی نازل کی کہ: «فألقيه فى اليمّ». " بچےکو دریا میں ڈال دو"  اس کے بعد ارشاد فرمایا: «انّا رادّوه اليك و جاعلوه من المرسلين».(4)اللہ نے دو وعدے کئے، بچے کو موج دریا کی آغوش میں دے دو اور گھبراؤ نہیں، ہم اسے تمہارے پاس واپس پلٹا دیں گے اور اسے مقام نبوت پر فائز کریں گے۔ یہ در حقیقت وہ نبوت تھی جس کا انتظار بنی اسرائیل برسوں بلکہ صدیوں سے کر رہے تھے۔ پھر جب فرعون کے محل میں حضرت موسی کو دوبارہ آغوش مادر ملی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ«فرددناه الى امّه كى تقرّ عينها و لا تحزن و لتعلم انّ وعد اللّه حقّ»؛(5) ہم نے ایک وعدے کو پورا کر دیا موسی کو ان کی آغوش میں لوٹا دیا تا کہ انہیں یقین ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور دوسرا وعدہ بھی یقینا پورا ہوگا۔
اللہ تعالی نے ایرانی عوام کے ساتھ بھی یہی لطف کیا اور بہت سے وعدوں کی تکمیل فرمائی، بڑے عظیم کام انجام پذیر ہوئے۔ میرے عزیز نوجوانو! آپ یقین جانئے کہ اس زمانے میں کوئی بھی یہ یقین اور باور کرنے کو تیار نہیں تھا کہ طاغوتی سلطنتی نطام کو ہلایا جا سکتا ہے، اسے نابود کرنا تو خیر بہت بڑی بات تھی۔ لیکن آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ طاغوتی نظام جو دنیائے اسلام کا بد ترین نطام تھا، ایران سے مکمل طور پر مٹ گیا اور معروف محاورہ ہے؛ تاریخ کے اوراق کی نذر ہو گیا۔ اس زمانے میں اگر کوئی یہ کہتا تھا کہ ایران امریکی تسلط کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے تو جن لوگوں کو امور مملکت کا علم تھا، وہ پورے وثوق سے یہی کہتے تھے کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ملک کے جملہ امور اور تمام دراز مدتی پالیسیاں امریکیوں کے ہاتھ میں تھیں۔ بسا اوقات وہ جزوی باتوں اور معاملات میں بھی مداخلت کرتے تھے؛ کہ فلاں وزارتخانہ کا قلمدان کس کو دیا جائے، کسے نہ دیا جائے، تیل کی قیمت میں کتنا اضافہ کیا جائے۔ جس طرح کا تسلط امریکہ نے اور اس کی دیکھا دیکھی میں دیگر عالمی اوباشوں نے ہمارے ملک پر، ہمارے عوام پر، ہمارے مفادات اور ہماری عزت و آبرو پر جما لیا تھا، اس کو دیکھتے ہوئے کون سوچ سکتا تھا کہ یہ غلامی ایک دن ختم ہو جائے گی؟ آج آپ دیکھئے! دنیا میں اگر کبھی آزاد و خود مختار اور امریکہ اور اس جیسی دیگر سامراجی طاقتوں کی استکباری پالیسیوں سے خود کو بالاتر رکھنے والی قوم کی بات ہوتی ہے تو ایران کا نام لیا جاتا ہے۔ دوسری قومیں ایرانی قوم کو عزت اور تحسین آمیز نگاہ سے دیکھتی ہیں، ایرانی قوم کی استقامت کو دیکھ کر ان میں جوش و خروش پیدا ہو جاتا ہے، ایرانی قوم کی صاف گوئی کو دیکھ کر، اس کی  شجاعت کو دیکھ کر اور اس کی ثابت قدمی کو دیکھ کر ان میں بھی ہیجان پیدا ہوجاتی ہے۔
تمام سامراجی طاقتوں نے، تمام سامراجی حکومتوں نے آپس میں ساز باز کرکے ایرانی قوم کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں تاکہ ان پابندیوں کے ذریعہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں، اسے تھکا دیں اور اس کے جذبہ استقامت کا امتحان لیں۔ سامراجی طاقتیں اس بات کا خود اعتراف بھی کرتی ہیں کہ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ایرانی عوام کو اسلامی جمہوری نظام کے مد مقابل کھڑا کر دیں، تا کہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کے اندازے اور ان کی پالیسیاں تبدیل ہوں۔ یہ بات وہ صراحت سے کہتے ہیں۔ اوائل میں جب ہم اپنے تجزئے میں یہی بات کہتے تھے، اس وقت یہ طاقتیں اس صراحت کے ساتھ یہ بات نہیں کہتی تھیں، لیکن آج وہ صاف صاف کہہ رہی ہیں۔ اس کا جو نتیجہ نکلا ہے وہ آپ اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی اصولوں کی طرف، انقلابی اہداف کی طرف، استقامت و خداداد عزت و وقار کی طرف ایرانی قوم کا رجحان اور میلان روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دشمنوں نے جو سوچا اس کے بالکل برخلاف نتیجہ سامنے آیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہمیں ملنے والے اہم سبق ہیں۔ انہی اسباق میں سے ایک اہم سبق یہی 19 دی کا واقعہ ہے، جس کا سہرا آپ اہل قم کے سر ہے۔ البتہ اہل قم کے پاس یہی ایک افتخار نہیں ہے بلکہ تاریخ میں بے شمار افتخارات ہیں جو قم سے وابستہ ہیں۔ اس نوے سال کے عرصے میں، سو سالہ مدت میں قم سے بے شمار چشمے جاری ہوئے ہیں۔ اہل قم نے ہی مرحوم حاج شیخ رضوان اللہ علیہ کا کھلے دل سے استقبال کیا، انہیں لاکر اس عظیم دینی درسگاہ کی داغ بیل ڈالی۔ اس دینی درسگاہ میں دینی تربیت کا بے مثال اور غیر متوقع گہوارہ تیار ہوا جو اہل قم کی بلند ہمتی کی برکتوں کا نتیجہ تھا۔ تربیت کا وہ عظیم گہوارہ جس سے حضرت امام خمینی (رہ)  جیسی عظیم الشان شخصیت نکلی اور انھوں نے اس ملک  میں بلکہ پوری دنیا  میں  اس عظیم واقعہ کو جنم دیا۔ سنہ تیرہ سو بیالیس ہجری شمسی (مطابق انیس سو ترسٹھ عیسوی) کے واقعات، سنہ تیرہ سو اکتالیس (انیس سو باسٹھ) کے واقعات، انقلابی تحریک سے وابستہ نشیب و فراز، مسلط کردہ جنگ کے واقعات اور دیگر تمام مراحل میں قم کا کردار اور اس کا تعاون بہت نمایاں نظر آتا ہے اور میری دعا ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔ میں آپ عزیز اہل قم کی خدمت میں ایک اہم نکتہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک میں اور جدو جہد میں پوری ہوشیاری اور ذہانت کے ساتھ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا، اس کی باریکیوں کو بھانپ لینا، اس کے عزائم کو سمجھ لینا، بیحد اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی ذاتی لڑائی میں، شخصی دفاع کے مسئلے میں اپنے حریف کے مد مقابل کھڑے ہیں اور اس کی نقل و حرکت کو غور سےدیکھ رہے ہیں تو وہ آپ کو کوئی ضرب نہیں لگا پائے گا۔ لیکن اگر آپ کی توجہ ہٹی، آپ نے کوئی بھی غفلت برتی، آپ کا ارتکاز ختم ہوا، آپ کا ذہن کسی اور چیز میں مشغول ہوا اور آپ پہلے سے اندازہ نہیں کر پائے کہ دشمن کیا اقدام کرنا چاہتا ہے تو یقینا آپ مار کھا جائیں گے۔ دشمن سویا نہیں ہے، دشمن جاگ رہا ہے۔: «و انّ اخا الحرب الأرق و من نام لم‌ينم عنه».(6)اگر آپ کے حواس درست نہیں ہیں، اگر آپ اپنی پوزیشن کی طرف سے غافل ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ دشمن بھی غافل ہو جو آپ کے مقابل کھڑا ہے۔ ممکن ہے کہ پوری توجہ سے وہ آپ پر نظر رکھے ہوئے ہو اور اسی لمحہ آپ پر حملہ کردے ،وار کر دے۔ تو ذہن بیدار رہنا چاہیے۔ ہم یہ جو اتنی تاکید کرتے ہیں، سفارش کرتے ہیں، حکام سے بھی کہتے ہیں، عوام سے بھی کہتے ہیں کہ خود کو فروعی اور جزوی مسائل میں نہ الجھائیں، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہم جو اخبارات و جرائد کو، ذرائع ابلاغ کو، ویب سائٹوں کو جن کا آج کل بہت رواج ہو گیا ہے، بار بار سفارش کرتے ہیں کہ غلط باتوں اور موضوعات کو منظر عام پر پیش نہ کیجئے  کیونکہ اس سے عوام کے ذہن الجھ سکتے ہیں لہذا اس لئے ہم بار بار تاکید کرتے ہیں ۔
قوم کے ہوش و حواس بیدار رہنے چاہییں ، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے قدم کس سمت میں بڑھ رہے ہیں، اسی کو اجتماعی تقوی بھی کہتے ہیں۔ قوم کو علم ہونا چاہیے کہ کیا اقدام کرنے جا رہی ہے، پوری طرح ہوشیار اور چوکنا رہے کہ اس پر کہاں سے وار ہو سکتا ہے۔ شخصی رفتار و گفتار میں بھی اگر ہمارے اندر تقوا ہے تو ہم اپنے اعمال کے متعلق محتاط رہیں گے، اپنے ہر عمل پر غور سےنظر رکھیں گے۔ جس جگہ انسان کے پاؤں پھسلتے ہوں  وہاں وہ قدم نہیں رکھتا۔ جہاں سقوط اور گر جانے کا خطرہ ہو وہاں انسان بہت چوکنا ہو جاتا ہے۔ اور ایسا بہت ضروری ہوتا ہے۔
دشمن کی نقل و حرکت کے جائزے سے جو چیز سامنے آتی ہے اور آج میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ ابھی انتخابات کو بیشک پانچ مہینے کا وقت باقی ہے لیکن دشمن ابھی سے انتخابات کی فکر میں لگ گيا ہے۔ آئندہ خرداد کے مہینے میں جو انتخابات ہونے والے ہیں، وہ اگر ہماری نظر سے اہم ہیں تو دشمن کے نقطہ نگاہ سے بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ دشمن کی توجہ انتخابات پر مرکوز ہے۔ اگر اس کے بس میں ہوتا کہ انتخابات کو رکوا دے تو وہ یقینا کچھ نہ کچھ ایسی حرکت کر دیتا کہ انتخابات منعقد نہ ہو پاتے۔ لیکن یہ اس کے بس میں نہیں ہے، یہ اس کی توانائی سے باہر ہے، انتخابات رکوانے میں کامیاب ہو جانے میں اسے سخت مایوسی کا سامنا ہے ورنہ وہ ایسا ضرور کرتا۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے پارلیمانی انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم سے بھی کہا کہ اگر ممکن ہے تو انتخابات کو دو ہفتہ کے لئے مؤخر کر دیجئے۔ ہم نے کہا کہ ہرگز نہیں، انتخابات کا انعقاد اپنے معینہ وقت پر ہی ہونا چاہیے، ایک دن آگے نہ ایک دن پیچھے۔ وہ ناکام ہو گئے، ان کی کوششیں بے سود رہیں۔ اس کا انہیں تجربہ ہو چکا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ انتخابات میں تاخیر ممکن نہیں ہے، لہذا اب دوسرے راستے تلاش کر رہے ہیں۔
دشمنوں کی ایک کوشش یہ بھی ہے کہ انتخابات میں عوام کی شرکت بہت محدود رہے۔ یہ بات سب ذہن نشین کر لیں کہ اگر کوئی ہمدردی کے تحت ہی سہی  اور انتخابات کے بارے میں  عام سفارش کرنا چاہتا ہے کہ انتخابات اس طرح کے ہوں، فلاں چیزیں انتخابات میں نہ ہونے پائیں وہ اس پہلو پر ضرور نظر رکھے کہ کہیں  وہ دشمن کے مقصد کو پورا کرنے میں مددگار تو ثابت نہیں ہو رہا ہے، کہیں لوگوں کو انتخابات سے مایوس تو نہیں کر رہا ہے۔ بار بار اسی بات کی رٹ نہ لگائیں کہ انتخابات آزاد اور شفاف ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ انتخابات کا آزادانہ اور شفاف انعقاد ضروری ہے۔ انقلاب کے آغاز  سے لیکر اب تک ہم تیس سے زائد انتخابات منعقد کر چکے ہیں۔ کب انتخابات آزادانہ نہیں ہوئے؟ کون سا ملک ہے جہاں ایران سے زیادہ آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں امیدوار کی صلاحیت اور اہلیت نہیں دیکھی جاتی، جو ان باتوں پر اتنا ہنگامہ کیا جا رہا ہے، بار بار کہا جا رہا ہے، بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے کہ رفتہ رفتہ عوام کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ ان انتخابات کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے؟ یہ در حقیقت دشمن کی خواہش ہے۔ ملک کے اندر جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ غفلت میں ایسا کر رہے ہوں۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ آپ غفلت کا شکار نہ ہوں، اپنے حواس بیدار رکھیں، تا کہ آپ کے اس عمل سے دشمن کے مقاصد کی تکمیل نہ ہو، آپ اس کا ہدف پورا ہونے کا ذریعہ نہ بنیں۔ تو یہ انتخابات کی رونق اور آب و تاب کم کرنے کا دشمن کا ایک منصوبہ اور حربہ ہے۔
ایک اور مسئلہ عوام میں یہ تاثر پھیلانے کا ہے کہ انتخابات میں اتنی شفافیت نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔ ویسے میں بھی تاکید کرتا ہوں کہ انتخابات صاف ستھرے اور شفاف ہوں لیکن یہ بات کہنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں، ہمارے قوانین میں انتخابات کی سلامتی  اور شفافیت کو یقینی بنانے کے قانونی راستے موجود ہیں۔ اب اگر کوئی چاہے کہ غیر قانونی طریقے سے عمل کرے تو اس سے وطن عزیز کو نقصان پہنچے گا۔ جیسے دو ہزار نو میں کچھ لوگوں نے غیر قانونی راستے اختیار کرنے کی کوشش کی تو وطن عزیز کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی، عوام کے لئے مشکلات کھڑی ہوئیں اور یہ افراد دنیا و آخرت میں خود اپنی بدبختی و سقوط کے باعث بنے۔ بڑے اچھے قانونی راستے موجود ہیں۔ بیشک میں بھی تاکید کرتا ہوں کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد اسی طرح انتخابات کے لئے کام کرنے والے دیگر افراد سب قانون کے مطابق پوری توجہ سے اور تقوی و پاکدامنی کا پورا خیال رکھتے ہوئے اپنا کام کریں تا کہ صحیح و سالم انتخابات ہوں اور یقینی طور پر ایسا ہی ہوگا۔
دشمن کا ایک حربہ یہ ہے کہ انتخابات کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں کو کسی مختلف مسئلے میں الجھا دے۔ کسی حادثہ اور واقعہ کو وجود میں لائے، کوئی نیا قضیہ اٹھائے، کوئی سیاسی مسئلہ کھڑا کرے، کوئي اقتصادی مسئلہ اٹھائے یا سیکورٹی سے متعلق کوئی معاملہ سامنے لے آئے، جس میں لوگ الجھ کر رہ جائیں۔ یہ دشمن کی سازش کا حصہ ہے تا ہم مجھے یقین ہے کہ ایرانی قوم کی بصیرت و دور اندیشی ایسی ہے کہ وہ دشمن اور اس کے زر خرید غلاموں کے ان معاندانہ حربوں سے متاثر ہونے والی نہیں ہے۔ انشاء اللہ انتخابات  اللہ تعالی کے فضل و کرم سےپورے جوش و جذبے کے ساتھ  منعقد ہوں گے۔ البتہ انتخابات کے بارے میں مجھے بہت کچھ کہنا ہے۔ اگر زندگی رہی تو آئندہ دنوں میں انتخابات کے بارے میں مزید گفتگو کروں گا۔ کچھ سفارشیں، باتیں اور نکات ہیں جنہیں بیان کرنا ہے تاہم اس وقت اختصار سے ہی عرض کروں گا۔ آپ  اس بات پر توجہ دیں کہ انتخابات میں شرکت آپ کا فریضہ بھی ہے اور آپ کا حق بھی ہے۔ ایرانی قوم کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ہم میں سےہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں اور ساتھ ہی یہ ایک فریضہ بھی ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے۔ جو لوگ اسلامی جمہوری نظام پر عقیدہ رکھتے ہیں، آئین کو دل سے قبول کرتے ہیں، وہ اپنے اس حق سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور اپنا فریضہ بھی پورا کرتے ہیں۔ یہ فریضہ ہر کسی کو پورا کرنا ہے۔ ایک شخص جو امیدوارہے اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ عوام کے سامنے اپنی لیاقت اور صلاحیت کو پیش کرے۔ جو شخص بھی اپنے کو اہل سمجھتا ہے، اپنے اندر اجرائی امور کی توانائی پاتا ہے سامنے آئے اور خود کو انتخابات کے لئے پیش کرے۔ ملک کو چلانا اور اجرائی شعبے کو سنبھالنا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ بڑے اور سنگین کام مجریہ کے اعلی سطح کے عہدیداروں کے دوش پر ہوتے ہیں۔ جو لوگ نچلی سطح پر مصروف کار ہیں ممکن ہے وہ اس کام کی سنگینی کا اندازہ نہ کر پائیں کہ اس کا وزن کتنا زیادہ ہے۔ جو لوگ میدان میں اتر رہے ہیں ان میں اس بھاری بوجھ کو اٹھانے اور آگے لے جانے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ وہ صلاحیتیں جن کا تعین آئین نے کیا ہے اور شورائے نگہبان و گارڈین کونسل  جن کو معیار قرار دیتی ہے امیدوار کے اندر موجود ہوں، وہ حقیقی معنی میں اسلامی نظام اور آئين سے قلبی لگاؤ رکھتا ہو، آئین کے نفاذ کا عزم رکھتا ہو۔ کیونکہ صدر جمہوریہ حلف لیتا ہے کہ آئین کو نافذ کرے گا تو جھوٹی قسم تو کھائی نہیں جاتی۔ جو لوگ اپنے اندر یہ خصوصیات موجود پاتے ہیں وہ انتخابات کے میدان میں آئیں۔ جو لوگ انتخابی میدان میں نہیں اترنا چاہتے انہیں چاہیے کہ انتخابات میں شاندار عوامی شرکت اور انتخابات کے پرشکوہ انعقاد میں مدد اور تعاون فراہم کریں۔
میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ اللہ کے وعدوں پر ہمارا جو اعتماد اور ایمان ہے اور یقینی طور پر اللہ کے وعدے برحق اور سچے ہیں، اس کے پیش نظر اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس قوم کو موجودہ مرحلے میں بھی اور آئندہ مراحل میں بھی اپنے دشمنوں پر فتح و کامرانی عطا فرمائے گا۔ اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے بارے میں ہمیں کسی بدگمانی و بے اعتمادی میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔«الظّانّين باللّه ظنّ السّوء»؛(7)ہمیں اس طرح کے لوگوں کے زمرے میں قرار نہیں دیا۔ ہم اللہ تعالی کے وعدوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، ہمیں ان وعدوں پر مکمل اعتماد اور یقین ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نصرت و مدد کا وعدہ کیا ہے اور دوسری طرف انسان ، لوگوں کی اس عظیم شراکت اور دلی تعاون کا مشاہدہ کرتا ہے، ان کے لگاؤ، ان کے بلند حوصلے کو دیکھتا ہے، ان نوجوانوں کے اخلاص، ان کی پاکیزگی ، ملک بھر میں ان مؤمن اور محبت کرنے والے ماں باپ کو دیکھتا ہے، ہر طبقے، ہر شکل اور ہر منظر نامے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ قوم بحمد اللہ میدان میں مضبوط و مستحکم اور بھرپور ثبات قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔
ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ آپ اہل قم کو، قم کی عظیم الشان دینی درسگاہ کو اپنے لطف و کرم اور رحمت و عنایت سے نوازے۔ حضرت امام خمینی (رہ) کی روح طیبہ کو اپنے اولیائے خاص کے ساتھ محشور فرمائے، جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ ہموار کیا،۔ اس راہ میں ایثار و فداکاری کے عظيم  نمونے پیش کرنے والے شہداء اور راہ حق کے تمام مجاہدین کو اپنے فضل و کرم کے سائے میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌

1)فتح: 22 و 23
2) حج: 40
3) نساء: 122
4) قصص: 7
5) قصص: 13
6) نهج البلاغه، نامه‌ى 62
7) فتح: 6