ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا عالمی کانفرنس میں شریک یونیورسٹیوں کےاساتذہ اور اسلامي بيداري کےمہمانوں سے خطاب


بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

میں سب سے پہلے مختلف ممالک سے آنے والے معزز مہمانوں اور اسی طرح ایران کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ڈیڑھ سال سے اب تک اسلامی بیداری کے موضوع پر متعدد اجلاس اور نشستیں  منعقد ہو چکی ہیں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ اساتذہ کے اجلاس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ معاشرے کے اندر ایک نئی فکر اور نئی تحریک کی تخلیق معاشروں کے خاص افراد کے ہاتھوں عمل میں آتی ہے، معاشرے کے علماء اور دانشوروں کے ذریعہ انجام پاتی ہے۔ وہی کسی  قوم کے فکری رجحانات کو خاص سمت و جہت عطا کر سکتے ہیں جو قوموں کی نجات کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ معاشرے کو ایسی سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں جو قوم کی تباہی، بربادی و بدبختی باعث ہو۔ بد قسمتی سے یہ دوسری صورت حال گزشتہ ستر اسی برسوں کے دوران دنیا کے بعض ممالک منجملہ خود ہمارے ملک میں حکمفرما رہی ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) سے روایت منقول ہے کہ: «لا تصلح عوامّ هذه الأمّة الاّ بخواصّها قيل يا رسول‌الله و من خواصّها قال العلماء»؛ آپ نے سب سے پہلا نام علماء کا لیا، اس کے بعد مزید چند اصناف کا ذکر کیا ہے۔ مختصر یہ کہ یونیورسٹی کے اساتذہ، دانشور اور مفکر طبقہ کسی بھی ملک میں عوام کو خاص سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ اس کے لئے اخلاص کی شرط ہے، شجاعت کی شرط ہے اور دشمنوں سے نہ گھبرانا شرط ہے۔ اگر خوف پیدا ہو جائے، اگر لالچ پیدا ہو جائے، اگر غفلت  اور سستی برتی جائے اور کاہلی و تساہلی سے کام لیا جائے تو پھر سب کچھ خراب ہو جائے گا۔ اگر خوف کو قریب نہ آنے دیا جائے، شجاعت سے کام لیا جائے، حرص و طمع  کو اختیار نہ کیا جائے، غفلت  سے کام نہ لیا جائے، ہوشیار و بیدار رہا جائے تو سارے کام حسن و خوبی کے ساتھ  انجام پائیں گے۔
انقلاب کے  آغاز میں ،اکتیس، بتیس سال پہلے ،میں ایک نہایت اہم مسئلہ میں مشورےکے لئے انقلابی کونسل کے دو ارکان کے ہمراہ  حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ ملاقات کے لئے قم گیا۔ حضرت امام خمینی (رہ) اس وقت قم میں تشریف فرما تھے، ابھی آپ تہران تشریف نہیں لائے تھے۔ ہم اس مسئلہ میں حضرت امام خمینی (رہ) سے مناسب اقدام کے لئے ان کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے۔ جب ہم نے صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے ہم سے سوال فرمایا کہ کیا آپ لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھرحضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایاکہ جائيے اور اپنا اقدام شروع کیجئے۔ ہم نے ویسا ہی کیا اور کامیابی بھی ملی۔ اگر ہمارے اندر خوف پیدا ہو جائے، حرص و طمع پیدا ہو جائے، غفلت کی کیفیت پیدا ہو جائے اور اگر انحرافی رجحان پیدا ہو جائے تو کاموں کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دینے میں مشکل ہوجائے گی۔
آج دنیا کو ایک عظیم واقعہ کا سامنا ہے۔ یہ عظیم واقعہ اسلامی بیداری ہے ، یہ ایک اٹل اور فیصلہ کن حقیقت ہے۔ مسلم اقوام اور اسلامی قومیں بتدریج بیدار ہو رہی ہیں۔ اب مسلمان قوموں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنا اتنا آسان نہیں رہا جیسا پہلے عالمی جنگ کے بعد اور انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران تھا۔ دنیا کی استکباری اور سامراجی طاقتیں اگر آج مسلم اقوام پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہیں تو یہ ان کے لئے آسان کام نہ ہوگا۔ امت مسلمہ میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی ہے، اسلامی بیداری ان کے اندر اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ کچھ ملکوں میں یہ بیداری انقلاب میں تبدیل ہو گئی اور بدعنوان اور امریکی پٹھو حکومتوں کے سربراہ سرنگوں ہوگئے، البتہ ابھی اسلامی بیداری کا صرف ایک حصہ سامنے آیا ہے، یہ یہیں تک محدود نہیں رہے گی، اسلامی بیداری کا دائرہ بہت وسیع اور اس کی جڑیں بہت  ہی عمیق اورگہری ہیں۔
دشمن، اسلامی بیداری کے نام سے ہی پریشان اور ہراساں ہے، اس کی یہی کوشش ہے کہ اس عظیم تحریک سے اسلامی بیداری کے عنوان کو الگ کر دے، کیوں؟ اس لئے کہ جب اسلام اپنی حقیقی شکل میں اور پورے آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو دشمن طاقتوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ انہیں ڈالروں کے غلام اور ڈالروں پر فریفتہ ہونے والے اسلام سے کوئی خوف نہیں ہے، بدعنوانی اور عیش و عشرت میں غرق اسلام سے انہیں کوئی ڈر نہیں ہے، انہیں اس اسلام سے کوئی خطرہ نہیں جو مسلمانوں کی زندگی اور ان کےطرز عمل میں موجود نہ ہو۔ ہاں اگر عمل کی صورت اختیار کر جانے والا اسلام، مسلمانوں کے دلوں پر چھا جانے والا اسلام، اللہ پر توکل کا درس دینے والا اسلام، االلہ تعالی کے وعدےپر یقین رکھنے کی تلقین کرنے والا اسلام کہ «و لينصرنّ الله من ينصره»،(1)انہیں مضطرب اور پریشان کر دیتا ہے۔ اگر اس اسلام کے آثار کہیں دکھائی پڑ جائیں تو دنیا کی استکباری اور سامراجی طاقتیں پیچ و خم کھانے لگتی ہیں۔«كأنّهم حمر مستنفرة. فرّت من قسورة»(2) -یہی وجہ ہے کہ وہ اس تحریک کو اسلامی بیداری کا نام دئیے جانے پر بوکھلا جاتی ہیں۔ تا ہم ہمارا یہی مؤقف ہے کہ یہ اسلامی بیداری ہے، یہ حقیقی بیداری ہے جو لوگوں کےدلوں کی گہرائیوں میں سما گئی ہے، دور دور تک پھیل گئی ہے اور جسے دشمن آسانی کے ساتھ اغوا نہیں کر سکتے۔ البتہ ضروری ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے۔ یہی وہ پہلا نکتہ ہے جس پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ عالم اسلام کی ان تحریکوں کی، مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات کی کمزوریوں کی نشاندہی کیجئے، انہیں لاحق خطرات کا تعین کیجئے۔ ان کی مشکلات کو پہچانا جائے۔ جو انقلاب آئے ہیں انہیں ہم اسلامی انقلاب کیوں قرار دے رہے ہیں؟ آپ لوگوں کے نعروں پر غور کیجئے۔ اس پوری مدت میں بدعنوان حکومتوں کی سرنگونی کے عمل میں اسلام پسند گروہوں کے کلیدی کردار پر غور کیجئے! اگر اسلام پر گہرا عقیدہ رکھنے والے، اگر عوام کے اندر گہرے اسلامی نظریات کے حامل افراد نہ ہوتے تو مصر اور تیونس میں یہ عظیم اجتماعات منعقد نہ ہو تے۔ جن لوگوں نے اپنی تحریک اور اپنی عظیم افرادی قوت کے ذریعے حسنی مبارک اور بن علی کے اقتدار کے ایوانوں کو زلزلے کی نذر کر دیا وہ مسلمان عوام تھے جن کی زبانوں پر اسلامی نعرے تھے۔ ان بدعنوان حکومتوں کے سقوط میں اسلام پسندحلقوں کا کلیدی کردار بہترین دلیل اور بین ثبوت ہے کہ یہ تحریکیں اسلامی تحریکیں ہیں۔ اس کے بعد جب بھی ووٹنگ کا مسئلہ آیا عوام نے اسلام پسند رہنماؤں کو ووٹ دیا، ان کی حمایت دی، انہیں ترجیح دی۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آج پورے عالم اسلام میں آزادانہ انتخابات کرائے جائیں اور مسلم رہنما انتخابی میدان میں موجود ہوں تو شاید چند معدود استثنائات کے علاوہ ہر جگہ عوام اسلام پسندوں کو ہی منتخب کریں گے۔ یہی صورت حال ہر جگہ ہے۔ لہذا اس تحریک کے اسلامی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
ہم نے کمزوریوں اور خطرات کو پہچاننے کے بارے میں بات کہی۔ کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ہی اہداف کا بیان کر دیا جانا بھی ضروری ہے۔ اگر اہداف بیان نہ کئے گئے تو تذبذب کی کیفیت پیدا ہوگی، آشفتگی و انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اہداف کا بیان کر دینا ضروری ہے۔ اس بیداری کا ایک اہم ترین ہدف عالمی استکبار کے شرپسندتسلط سے آزادی اور  رہائی ہے۔ اس کو پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے۔ اگر ہمارا یہ خیال ہے کہ ممکن ہے امریکہ کی قیادت میں عالمی استکبار اسلامی تحریک کو تسلیم کر لے تو یہ بہت بڑی بھول ہے۔ جہاں اسلام ہوگا، اسلام پسندی ہوگی، اسلام نواز لوگ ہوں گے وہاں امریکہ کی انھیں راستے سے ہٹانے کی پوری کوشش ہوگی ،البتہ ممکن ہے کہ اس کے ہونٹوں پر ظاہری مسکراہٹ بھی نظر آئے۔ اسلامی تحریکوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے فرق کو نمایاں رکھیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ امریکہ کے خلاف جنگ شروع کر دیجئے! ہم صرف یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کے سلسلے میں امریکہ اور مغربی استکبار کی سوچ اور مؤقف کیا ہے۔ اسے وہ خوب سمجھ لیں۔ اگر انہوں نے اس کو نہ سمجھا تو یقینی طور پر دھوکہ اور فریب کا شکار ہوجائیں گےاور دشمن کے مکر و فریب کے جال میں پھنس جائیں گے۔
اس وقت عالمی استکباری طاقتیں ، دولت، ثروت، ہتھیار اور علم کے ذریعہ دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں لیکن وہ فکری خلا سے دوچار ہیں، رہنما افکار کے خلا میں مبتلا ہیں۔ یہ عالمی استکباری طاقتوں کے سامنے بہت بڑا بحران ہے۔ اس کے پاس بشریت کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، ان کے پاس لوگوں کی نظروں کے سامنے، دانشوروں اور روشن فکر افراد کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی نظریہ نہیں ہے۔ لیکن آپ کے پاس موجود ہے، آپ کے پاس اسلام ہے۔ جب ہمارے پاس فکر ہے، نقشہ راہ اور منصوبہ ہے تو ہم اپنے اہداف کا تعین بھی کر سکتے ہیں اور اپنے راستے پر ثابت قدمی سے گامزن بھی رہ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ ان کا ہتھیار کام آئےگا نہ علم، نہ پیسہ نہ دولت۔  ایسا نہیں ہے کہ ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اثر تو ہوتا ہے لہذا ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی سوچنا پڑے گا، اگر وقت رہا تو اس بارے میں بھی گفتگو کروں گا۔ تاہم سب سے پہلے ہمیں نقشہ راہ  اور نظریہ پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اہداف کا تعین ہونا چاہیے۔ ان انقلابات کے سلسلے میں ایک اہم ہدف یہ ہے کہ اسلام کے محور سے خارج نہ ہونے پائیں۔ اسلام ہی محور بنا رہے۔ اسلامی فکر اور اسلامی شریعت کو محور میں رکھا جائے۔ یہ تاثر دینے اور غلط فہمی پیدا کرنے کی بڑی کوششیں  کی جارہی ہیں کہ اسلامی شریعت پیشرفت، تبدیلی اور تمدن جیسی چیزوں کے لئے سازگار نہیں ہے۔ یہ خیال دشمن کا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے، اسلام پوری طرح ان چیزوں سے سازگار اور متفق ہے۔ البتہ دنیائے اسلام میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنے رجعت پسندانہ طرز عمل، فکری جمود اور اجتہاد و استنباط کی کمزوری کے نتیجے میں دشمن کے اس خیال کو درست ثابت کیا ہے۔ یہ کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن ایسے مسلمان ہیں جو دشمن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد، بعض اسلامی ممالک میں اس طرح کے افراد دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں لیکن ان کے اندر اسلامی معارف و تعلیمات کے حوالے سے ذرہ برابر جدت نظری اور جدت فکری دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا کو اسلام کی تا ابد ضرورت ہے، اسلام ہر دور اور ہر صدی میں درکار ہے، انسانی ارتقاء کے لئے اس کی ضرورت ہر دور اور ہر زمانے کو ہے۔ وہ فکر جو اسلام کے اندر سے جملہ ضرورتوں کی تکمیل کی راہیں اخذ کر سکے، اس فکر کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض افراد ہیں جو اس فکر سے محروم ہیں، وہ بس کفر کے فتوے دینا جانتے ہیں، دوسروں کو فاسق و فاجر ٹھہرا دینا انہیں خوب آتا ہے اور خود کو بڑے طمطراق سے مسلمان قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ چیزوں کے معاملے میں یہ نام نہاد مسلمان، دشمنوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں! مختصر یہ کہ ہمیں شریعت اسلامیہ اور اسلامی افکار کو اپنی سرگرمیوں اور جد وجہد کا مرکز ومحور قرار دینا چاہیے۔ یہ ایک  اہم اور بڑا ہدف ہے۔
ایک اور ہدف  نظام کی تشکیل ہے ان ملکوں میں جہاں انقلاب آئے ہیں اگر نظام  تشکیل نہ دیا گيا تو انقلاب خطرے میں پڑ جائے گا۔ شمالی افریقہ کے انہی ملکوں میں ساٹھ ستر سال قبل بیسویں صدی کے وسط کا ایک تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ اسی تیونس میں انقلاب آیا، عوامی تحریک چلی، کچھ نئے چہرے اقتدار میں آئے۔ اسی مصر میں انقلاب آیا، کودتا ہوا، تحریک چلی اور کچھ نئے افراد نے  حکومت کی زمام اپنے ہاتھ میں لی۔ کچھ اور جگہوں پر بھی یہی عمل دہرایا گيا لیکن کہیں بھی نظام  تشکیل نہیں پاسکا۔ نظام  تشکیل نہ دینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ انقلاب تو مٹ ہی گئے، لیکن وہ افراد جو انقلاب کے نام پر اقتدار میں پہنچے تھے خود بھی منحرف اور منقلب ہوکر رہ گئے۔ ان کی پالیسیوں میں ایک سو اسی درجہ کی تبدیلی پیدا ہو گئی۔ وہ بھی بہک گئے، گمراہ ہوگئے۔ تیونس میں بھی یہی ہوا، مصر میں بھی یہی ہوا اور اس زمانے کے سوڈان میں بھی یہی عمل دہرایا گيا۔ میرے خیال میں یہ سنہ انیس سو چونسٹھ پینسٹھ یا چھیاسٹھ کی بات ہے، میں شہر مشہد میں چند احباب کے ساتھ صوت العرب ریڈیو کی نشریات سن رہا تھا۔ مصر کے صوت العرب ریڈیو کے پروگرام قاہرہ سے نشر ہوتے تھے۔ ریڈیو سے جمال عبد الناصر، معمر قذافی اور جعفر نمیری کی تقریریں نشر ہو رہی تھیں جو اس وقت ایک جگہ پر جمع تھے۔ اس زمانے میں ملک کی آمر حکومت کے استبداد کی چکی میں ہم پس رہے تھے۔ ہمیں ان شعلہ بیانیوں سے بڑا لطف آتا تھا اور ہم جوش و جذبے سے سرشار ہوجاتے تھے۔ عبد الناصر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے جانشینوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہ آپ کے سامنے ہیں۔ قذافی کا انجام کیا ہوا وہ بھی آپ نے دیکھا، نمیری کا انجام بھی جو ہوا اس سے سبھی واقف ہیں۔ یہ انقلاب الٹ گئے۔ کیونکہ ان میں نہ تو فکر تھی اور نہ ہی وہ نظام کوتشکیل دے سکے۔ لہذا اب جن ملکوں میں انقلاب آئے ہیں وہاں نظام  کی تشکیل ہونا چاہیے، مضبوط اور مستحکم بنیاد  نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ عوامی پشتپناہی اور حمایت کو قائم رکھنے کا ہے۔ عوام سے ہرگز دور نہیں ہونا چاہیے۔ عوام کی کچھ توقعات ہیں، ضروریات ہیں۔ اصلی طاقت بھی عوام کے ہی ہاتھ میں ہے۔ جہاں عوام جمع ہو جاتے ہیں، جب عوام متحد ہو جاتے ہیں، جب ملک کے رہنماؤں اور سربراہوں کے پیچھے متحد اور ہمفکر عوام پشت پناہی کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں وہاں امریکہ تو کیا امریکہ سے بڑی طاقت بھی بے دست و پا ہوکر رہ جاتی ہے۔ عوام کو ساتھ رکھنا چاہیے، انہیں اپنے قریب رکھنا چاہیے، یہ کام آپ حضرات کر سکتے ہیں۔ یہ ذمہ داری دانشور، مصنفین، شعرا اور علمائے دین ہی پوری کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ مؤثر علمائے دین واقع ہوئے ہیں۔ علمائے دین کے دوش پر سنگین  ذمہ داریاں اور فرائض ہیں، انہیں عوام کو آگاہ کرنا ہے، عوام کو حالات سے باخبر رکھنا ہے، انہیں سمجھانا ہے کہ ہم کس منزل پر کھڑے ہیں، بتائیں کہ ہمارے سامنے کیا رکاوٹیں ہیں، ہمارے دشمن کون لوگ ہیں؟ عوام میں آگاہی اور بصیرت پیدا کریں۔ اگر یہ کام انجام پا گیا تو دشمن کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
ایک اور مسئلہ جوانوں کی علمی تربیت کا مسئلہ ہے، اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبہ میں آگے بڑھیں۔ میں نے عرض کیا کہ مغرب اور امریکہ علم کی مدد سے دنیا کے ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا ایک حربہ سائنس و ٹکنالوجی کا حربہ تھا۔ انہوں نے دولت و ثروت  بھی اپنے علم کی مدد سے حاصل کی۔ البتہ کچھ دولت و ثروت  تو انہوں نے فریب، خباثت اور سیاسی چالوں سے جمع کی لیکن سائنس و ٹکنالوجی کا  بھی اس میں مؤثر کردار تھا۔ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک روایت ہے؛«العلم سلطان من وجده صال و من لم يجده صيل عليه»(3) علم حاصل کرنا ضروری ہے، علم مل گیا تو آپ کے بازوؤں کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اگر آپ کے پاس علم نہیں ہے تو مضبوط پنجہ رکھنے والے لوگ آپ کا ہاتھ مروڑ دیں گے۔ اپنے نوجوانوں کو علم و دانش کی رغبت دلائیے۔ آپ کو اس میں کامیابی ملے گی۔ ہم نے اپنے ملک میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ انقلاب اسلامی  سے پہلے علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہم آخری صف میں تھے۔ ہم پر کسی کی نگاہ بھی نہیں پڑتی تھی لیکن انقلاب کی برکت سے، اسلام کی برکت سے اور شریعت اسلامی کی بدولت آج یہ عالم ہے کہ دنیا میں جو علمی ادارے و مراکز آچ  اعداد و شمار کے نتائج کا اعلان کرتے ہیں انہوں نے  ایران کی علمی حیثیت کوتسلیم کیا اور ان کی بات عالمی سطح پر پیش کی گئی کہ ایران سائنس و ٹکنالوجی کے لحاظ  سے دنیا میں سولہویں مقام پر ہے۔ یہ رپورٹ چند ماہ قبل کی ہے۔ جن اداروں نے یہ اعداد و شمار جاری کئے ان کی یہ پیشنگوئی بھی تھی کہ آئندہ چند برسوں میں، آنے والے دس بارہ برسوں میں ایران عالمی رینکنگ میں ایک ہندسے والی پوزیشن حاصل کر لیگا۔ ان کے اندازے کے مطابق ایران چوتھے نمبر پر ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی علمی پیشرفت کی رفتار بہت تیز ہے۔ البتہ اس وقت ہم کافی پیچھے ہیں۔ ہماری رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے کئی گنا زیادہ ہے، پھر بھی ہم ابھی پیچھے ہیں۔ اگر ہم اسی سرعت سے آگے بڑھتے رہے تو آگے نکل جائیں گے۔ عالم اسلام میں یہ حرکت جاری رہنا چاہیے۔ اسلامی ممالک کے پاس  صلاحیت ، توانائی و استعداد کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس با صلاحیت نوجوان ہیں، بہترین دماغ ہیں۔ تاریخ کے ایک دور میں دنیا کا علم ہمارے اختیار میں تھا تو آج اس عہد کو دہرایا کیوں نہیں جا سکتا؟ ہم یہ توقع کیوں نہیں رکھ سکتے کہ آئندہ تیس سال میں دنیائے اسلام ایک بار پھر ساری دنیا کا علمی مرکز بن جائے اور علمی امور میں اسلامی ممالک سے رجوع کیا جائے؟ یہ مستقبل ہماری دسترسی اور پہنچ میں ہے۔ بس ہمت سے کام لینے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اسلام کی برکتوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظام نے ثابت کر دیا ہے کہ برق رفتاری سے ترقی کرنے پر قادر ہے۔ ایک اور کلیدی موضوع اتحاد و یکجہتی کا ہے۔ میرے بھائیو اور بہنو! میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ میں جو سب سے بڑا حربہ ہے اور جسے وہ ہمارے خلاف جی بھر کے استعمال کر رہے ہیں وہ ہمارے درمیان اختلافات ہیں، شیعہ سنی اختلافات، علاقائی، لسانی اور نسلی اختلافات، بےجا غرور اور برتری۔ وہ شیعہ سنی اختلافات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اختلافات کی آگ شعلہ ور کریں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی ممالک میں، انہی ملکوں میں جہاں عوامی انقلاب آئے ہیں اختلاف پیدا کرنے کی پراسرار اور خوفناک کوششیں ہو رہی ہیں۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ مغرب اور امریکہ عالم اسلام کے دشمن ہیں۔ اس نقطہ نگاہ سے ان کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا چاہیے۔ وہ اشتعال انگیزی کرتے ہیں، ان کی خفیہ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، جہاں بھی ان کے قدم پڑے ہیں انہوں نے تباہی و بربادی کی ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں جہاں تک ہو سکا انہوں نے تخریب کاری سے کام لیا ہے، البتہ انہیں شسکت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے برخلاف ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، عالم اسلام پیشرفت کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ فلسطین کا حالیہ واقعہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ غزہ اور صہیونی حکومت کے درمیان آٹھ روزہ جنگ ہوئی جس میں  اسرائيل کی سب سے طاقتور فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اسرائيل کو اپنی فوجی طاقت پر بہت ناز تھا لیکن اس کا یہ طلسم اب ٹوٹ گيا ہے۔ جب جنگ بندی کی بات آئی تو اس مرتبہ فلسطینیوں نے شرطیں عائد کیں ، کیا یہ قابل یقین بات ہے؟ اگر دس سال پہلے آپ سے یہ بات کہی جاتی تو کیا آپ اس بات پر یقین کر سکتے تھے کہ ایک دن فلسطینی وہ بھی سارے فلسطینی نہیں بلکہ فلسطین کے ایک گوشے یعنی غزہ کے فلسطینی صہیونی حکومت کی جارحیت کا جواب دیں گے اور جب جنگ بندی کی بات آئے گی تو فلسطینیوں کی جانب سے شرطیں رکھی جائیں گی؟ فلسطینیوں کو شاباش اور صد آفرین ہے ، حماس ، جہاد اور وہ مجاہد تنظیمیں قابل تعریف ہیں جنہوں نے غزہ میں جنگ کی اور شجاعت کے جوہر دکھائے! شجاعت اسے کہتے ہیں ۔ میں اپنی طرف سے تمام فلسطینی مجاہدین کے جذبہ ایثار و قربانی ، مجاہدانہ کوششوں  اور ان کےصبر و استقامت پر شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے آپنی آنکھوں سے دیکھا کہ؛ «انّ مع العسر يسرى» (4)
اگر ہم صبر و ضبط سے کام لیں گے تو اللہ ہمارے لئے راستوں کو کھول دے گا۔ انہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، اللہ نے ان کے لئے راستے کھول دئیے۔ یہ ایک سبق ہے، خود ان کے لئے بھی سبق ہے اور دوسروں کے لئے بھی سبق ہے۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو معمولی نہ سمجھئے۔ یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔
ہمارے بحرینی بھائی نے بحرین کے سلسلے میں عالم اسلام کی خاموشی اور عدم توجہ  کی یہاں جو بات کہی وہ بالکل درست ہے۔ اس مسئلے میں بعض افراد کے سکوت کی وجہ بد قسمتی سے یہی فرقہ پرستی کا قضیہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر کوئی قوم کسی ڈکٹیٹر کے خلاف قیام کرتی ہے تو اس قوم کی حمایت کی جانی چاہیے مگر یہ کہ وہ قوم شیعہ ہو جیسے بحرینی عوام۔ اگر شیعہ ہے تو دفاع نہ کیا جائے! بعض لوگوں کے اندر یہ غلط اور گمراہ فکر پائی جاتی ہے۔ اسے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
دشمن کو پہچاننا چاہیے ، دشمن کی سازشوں اور اس کے حربوں کو پہچاننا بہت ضروری ہے، دشمن کے حیلوں اور بہانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے حملہ شروع کرتا ہے؟ ہم شام کے مسئلے کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔ ہمیں ہرگز یہ گوارا نہیں کہ کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے، اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ شام کو جو لوگ خانہ جنگی کی طرف لے جا رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں، جو لوگ شام کو تباہی اور برادر کشی کی آگ میں جھونک رہے ہیں وہ خطاکار ہیں۔ قوموں کے مطالبات بغیر تشدد کے رائج طریقوں سے پورے ہونے چاہییں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کی ہدایت فرمائے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ آپ کی محنتوں اور کوششوں میں  خير اور برکت عطا فرمائے، پروردگار متعال سے دعا ہے کہ عالم اسلام کی اس عظیم بیداری کو امت اسلامیہ کے درخشاں اور تابناک مستقبل سے ملادے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1)حج: 40
2) مدثر: 50 و 51
3) شرح نهج‌البلاغه ابن‌ابى‌الحديد، ج 20، ص 319

4) شرح: 6