رہبری کے شرائط
دو بنیادی شرطیں: وہ شرائط جو زعامت اور رہبری کیلئے ضروری ہیں انکا سرچشمہ براہ راست حکومت اسلامی کے انداز طبیعت سے ظاہر ہوتا ہے عقل و تدبیرجیسی عام شرائط کے علاوہ دو بنیادی شرطیں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
1: قانون کے بارے میں علم و آگاہی کا ہونا
2: عدالت کا ہونا
جیسا کے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کے بعد اس بات میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا کہ منصب خلافت کس کو سنبھالنا چاہیے لیکن اس کے با وجود مسلمان اس بات پر متفق تھےکہ منصب خلافت پر فائز ہونے والے شخص کو عالم وفاضل اور آگاہ ہونا چاہیے اختلاف صرف دو موضوعات میں تھا:
1- چونکہ اسلام کی حکومت قانون کی حکومت ہے لہذا رہبر و زعیم اور حاکم کیلئے قانون کے بارے میں علم و آگاہی ضروری ہے جیسا کے روایات میں بھی وارد ہوا ہے صرف رہبر و حاکم کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ جس کام اور مقام پر فائز ہوں اس کے بارے میں علم و آگاہی رکھتے ہوں البتہ حاکم ورہبر کیلئے ضروری ہے کہ وہ علمی میدان میں سب سے افضل و اعلی ہو ہمارے آئمہ (ع) اپنی امامت کیلئے اسی مطلب کو استدلال کے طور پر پیش کرتے تھے کہ امام کو دوسروں سے افضل ہونا چاہیے شیعہ علماء نے دوسروں پر جو اعتراضات وارد کئے ہیں وہ بھی اسی امر سے متعلق ہیں کہ جب فلاں حکم کے بارے میں خلیفہ سے معلوم کیا گیا تو خلیفہ اسکا جواب نہ دے سکے پس وہ امامت اور خلافت کے لائق و سزاوار نہیں ہے فلاں کام کو اسلامی احکام کے خلاف انجام دیا لہذا خلافت و امامت کےلائق نہیں ہے۔۔۔(1)
مسلمانوں کی نظر میں رہبر کے لئے قانون سے واقفیت اور عدالت دو بنیادی رکن اور شرائط ہیں اور اسمیں دوسرے امور کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے مثلا ملائکہ کے علم کی کیفیت کے بارے میں ، صانع تبارک و تعالی کے علم کے بارے میں کہ وہ کن اوصاف کا حامل ہے ، ایسے علوم کا امامت کے موضوع میں کوئی دخل نہیں ہے چنانچہ اگر کوئی تمام طبیعی علوم کے بارے میں معلومات فراہم کرلے اور طبیعت کی تمام قوتوں کو کشف کرلے یا میوزک کے بارے میں خوب جان لے پھر بھی اس میں خلافت کے منصب پر فائز ہونےکی صلاحیت و لیاقت پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کو ان لوگوں پر افضلیت اور برتری حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام کے قانون کو جانتے ہیں اور عادل ہیں اور حکومتی امور کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
جو چيز خلافت سے متعلق ہے اور رسول اکرم(ص) اور ہمارے آئمہ (ع) کے زمانے میں اسکے بارے میں بحث اور گفتگو ہوتی رہی ہے اور مسلمانوں کے درمیان بھی مسلّم امر رہا ہے وہ یہ ہے کہ اوّلا حاکم اور خلیفہ کو اسلام کے احکام کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے یعنی اسے اسلامی قانون کا ماہر ہونا چاہیے دوسرے یہ کہ اسےعادل ہونا چاہیے اور اعتقادی اور اخلاقی کمال کا حامل ہونا چاہیے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ اسلام کی حکومت قانون کی حکومت ہے نہ اس میں جاہ طلبی و خود غرضی اور نہ ہی اشخاص کی عوام پر حکومت کی کوئی گنجائش ہے
جو رہبر اورحاکم قانونی مطالب سے آگاہ نہ ہو وہ حکومت کے لائق وسزاوار نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر وہ تقلید کرے گا تواس سےحکومت کی طاقت وقدرت مضمحل اور کمزور ہو جائے گي اور اگر تقلید نہیں کرےگا تو اسلام کے قانون کاحاکم اور مجری نہیں بن سکتا اور یہ بات مسلّم ہے کہ (( الفقہاء حکام علی السلاطین )) " فقہاء سلاطین پر حاکم ہیں " (2) سلاطین اگر اسلام کے تابع ہیں تو انکے لیئے ضروری ہے کہ وہ فقہاء کی اطاعت اور پیروی کریں اور اسلامی قوانین اور احکام کو فقہاء سے معلوم کرکے جاری کریں اس صورت میں حقیقی حکام وہی فقہاء ہیں لہذا ضروری ہے کے حاکمیت سرکاری طور پر فقہاء کے ہاتھ میں رہے نہ کہ ان لوگوں کے ہاتھ میں رہنی چاہیئے جو نادانی اور جہل کی بنا پر فقہاء کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں
2- رہبر اور حاکم کو اخلاقی اقدار اور اعتقادی کمال کا حامل اور عادل ہونا چاہیے جو شخص حدود الہی یعنی اسلامی سزاؤوں کوجاری کرے گا اور بیت المال میں دخل اور تصرف کرنے کے امور کو سنبھالے گا اور حکومت کا نظام اپنےہاتھ میں لے گا اورخداوندمتعال اسکواپنے بندوں پرحکومت کا اختیار بخشےگا اسکو گناہکار اور بد کردار نہیں ہونا چاہیے (( و لا ینال عہدی الظالمین )) (3) خداوند ظالم اور گنہکار کو ایسا حق و اختیار عطا نہيں کرتاہے
حاکم اگرعادل نہیں ہوگا تواس صورت میں وہ مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے ، مالیات وصول کرنے اور انکو صحیح طریقے سے مصرف کرنے اور قانون کو صحیح طور پر اجراء کرنے میں عدل وانصاف کا لحاظ نہیں رکھےگا اور ممکن ہے وہ اپنے خاندان والوں ، قریبی ساتھیوں اور دوستوں کو معاشرے پر مسلط کردے اور مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کیلئے مصرف کرنے میں مشغول ہوجائے (4)
مرجعیت کی شرط ضروری نہیں ہے :
میرا ابتدا ہی سے اس بات پر اعتقاد تھا کہ مرجعیت کی شرط ضروری نہیں ہے وہ مجتہدکافی ہےجوعادل ہے اور جسکو ملک کی خبرگان کونسل کی تایید حاصل ہے عوام نے خبرگان کونسل کے نمائندوں کو اس لئے ووٹ دیا ہے کہ وہ انکی حکومت کیلئے رہبر معین کریں اور جب خبرگان کسی شخص کو رہبری کیلئے معین و منتخب کریں گے تو اسکی رہبری و زعامت عوام کے لئے مورد قبول ہوگی اور اس صورت میں وہ عوام کا منتخب ولی بن جائے گااور اسکا حکم نافذ العمل ہوگا (5)
رہبری کے نمونے
رہبر عدالت میں:
صدر اسلام میں دو ادوار میں دو مرتبہ اسلام کی اصلی حکومت محقق اور قائم ہوئی ہے ایک مرتبہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دور میں اوردوسری مرتبہ حضرت علی (علیہ السلام) کے دور میں جب وہ کوفہ میں حاکم تھے ان دو ادوار میں معنوی قدریں حاکم تھیں یعنی عدل و انصاف پر مبنی حکومت بر قرار تھی اور حاکم ایک ذرہ برابر بھی قانون کے خلاف عمل نہیں کرتا تھا ان دو دوروں میں قانون کی حکومت رہی ہے اور شاید اسکے علاوہ ہم کبھی بھی اس طرح کی قانون کی حکومت تلاش نہ کرسکیں گےایسی حکومت جسکا ولی امر(( جسے آج کی اصطلاح میں صدر یا سلطان سے تغبیر کرتے ہیں)) قانون کے مقابلے میں معاشرے کی نچلی سطح کے فرد کے مساوی اور برابر ہو صدر اسلام کی حکومت میں ایسا رہا ہے حتی تاریخ میں حضرت علی (علیہ السلام) کا ایک واقعہ بھی موجود ہے : کہ جب حضرت علی (علیہ السلام) حاکم تھے اور انکی حکومت حجاز سے لیکر مصر اور ایران تک پھیلی ہوئی تھی اور گورنر و قضات سبھی ان کی طرف سے منصوب اورمعین ہوتے تھے ایک دفعہ ایک یمنی نے حضرت علی (علیہ السلام) کے خلاف مقدمہ دائر کیا وہ یمنی بھی آپکی حکومت کا ایک فرد تھا قاضی نے حضرت علی (علیہ السلام) کو طلب کیا قاضی بھی وہ تھا کہ جسکوخود حضرت علی (علیہ السلام) نے منصوب کیا تھا۔ حضرت علی (علیہ السلام) قاضی کے پاس پہنچے تو قاضی حضرت علی (علیہ السلام) کے احترام میں کھڑا ہونا چاہتاتھا امام (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قضاوت میں تم ایک فریق کا احترام مت کرو میں اور میرا فریق دونوں مقدمہ میں برابر و مساوی ہیں اس کے بعد جب قاضی نے حضرت علی (علیہ السلام) کے خلاف حکم صادر کیا تو حضرت علی (علیہ السلام) نے خندہ پیشانی کے ساتھ اس کا حکم قبول کر لیا
یہ ایسی حکومت ہے کہ جسکے قانون کے مقابلے میں سبھی مساوی اور برابر ہیں کیونکہ اسلام کا قانون الہی قانون ہے اور خداوند متعال کے سامنے سبھی مساوی اور برابر ہیں چاہے حاکم ہو یا محکوم چاہے پیغمبر (ص) ہو یا امام (ع) اور چاہے عوام(6)
رہبر عوام کے درمیان:
اسلامی حاکم اور راہنما دوسرے حکام " جیسے سلاطین اور جمہوری صدور " کے مانند نہیں ہے اسلام کا حاکم وہ حاکم ہے جو مدینہ کی اس چھوٹی سی مسجد میں تشریف لاتے اور عوام کی گفتگو سنتےتھے اور وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں مملکت کے امور تھے وہ بھی عوام کے تمام طبقات کی طرح مسجد میں جمع ہوتے تھے اور انکا اجتماع ایسا ہوتاتھا جسمیں اگر کوئی غیر آجاتاتھا تو وہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ انمیں صاحب منصب اور صدر مملکت کون ہے اور معمولی لوگ کون ہیں لباس عام لوگوں جیسا ، طرز زندگی عوام جیسی ، عدل و انصاف کو برقرار کرنے کیلئے یہ طرز عمل تھا کہ اگر ایک معمولی شخص حکومت کے پہلے درجے کے شخص کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائرکرے تو وہ قاضی کے پاس پہنچ جاتے تھے اورقاضی اگرحکومت کے پہلے درجے کے شخص کو حاضر کرتا تھا اور وہ بھی حاضر ہوجاتے تھے(7)
ولایت فقیہ ڈکٹیٹری کے برعکس ہے :
اسلام میں قانون حکومت کرتاہے پیغمبر اکرم (ص) بھی الہی قانون کے تابع تھے آنحضور قانون کےمطابق عمل کرتے تھے خداوند تبارک و تعالی کا ارشاد ہے جو میں چاہتاہوں اگر اسکے خلاف تم عمل کرو گے تو میں تمہارا مؤاخذہ کروں گااورتمہاری شہ رگ (( وتینت )) کاٹ دوں گا(8) اگر پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) (معاذ اللہ) ایک ڈکٹیٹر شخص ہوتے یا ایک ایسے شخص ہوتے کہ جس سے لوگ ڈرتے کہ اگر وہ کبھی موقع پاکر مکمل قدرت حاصل کرلیں گے تو ڈکٹیٹری کریں گے نہ کل پیغمبر (ص) ڈکٹیٹر تھے اور نہ آج فقیہ ڈکٹیٹر ہو سکتاہے (9)
فقیہ میں استبداد نہیں پایا جاتاہے وہ فقیہ جو ان اوصاف کا حامل ہوتا ہے وہ عادل ہوتا ہے ایسی عدالت جو سماجی عدالت کی مظہر ، ایسی عدالت جسمیں جھوٹ کا ایک کلمہ اسکو عدالت سے ساقط کردے گا ، نامحرم پر ایک نظر اس کو عدالت سے گرا دےگی ایک ایسا انسان نہ غلط عمل کرسکتا ہےاورنہ کبھی غلط کرتا ہے (10)
رہبری کے اختیارات اور حکومت:
اگر ایک لائق انسان جسمیں یہ دو خصلتیں پائی جاتی ہیں حکومت تشکیل دینے کیلئے کمربستہ ہوجائے اور حکومت تشکیل دیدے تو معاشرے کے امور کو چلانے کیلئے اس کو بھی وہی ولایت حاصل ہے جو ولایت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو حاصل تھی اور تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اسکے حکم کی اطاعت کریں اور اس سلسلے میں یہ وہم غلط ہے کہ معاشرتی اور سماجی امور میں رسول اکرم (ص) کے اختیارات حضرت علی (علیہ السلام) کےاختیارات سے زیادہ تھے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے اختیارات ولی فقیہ کے اختیارات سے زیادہ ہیں البتہ رسول اکرم (ص) کے فضائل تمام عالم پر محیط ہیں اور انکے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کے فضائل اور کمالات سب سے زیادہ ہیں لیکن معنوی فضائل و کمالات کا زیادہ ہونا حکومتی اختیارات میں اضافے کا سبب نہیں بن سکتاہے کیونکہ فوج ، سپاہ اور رضاکاردستوں کوتیار کرنے یا گورنروں کو مقرر کرنے یا مالیات وصول کرنے اور اسکو مسلمانوں کے مصالح میں مصرف کرنے میں جواختیارات رسول اکرم (ص)یا دوسرے آئمہ (علیہم السلام) کو حاصل تھے خداوند متعال نے انھیں اختیارات کو موجودہ حکومت کیلئے بھی قرار دیا ہے البتہ کوئی شخص معین نہيں ہے بلکہ عنوان ((عالم عادل)) ہے
جب ہم کہتے ہیں کہ وہ ولایت جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا دوسرے آئمہ (ع) کے پاس تھی وہ غیبت کے دور میں فقیہ عادل کے پاس ہے اور اس سلسلے میں کسی کو اس وہم اور شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ فقہاء کا مقام بھی وہی ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یا آئمہ معصومین (علیہم السلام) کا ہے کیونکہ یہاں پر بحث مقام و منزلت سے نہیں ہے بلکہ بحث ذمہ داری اور وظائف سے متعلق ہے ولایت یعنی حکومت ، ملک کے نظم و نسق کو چلانا ، شریعت کے قوانین کا اجراء کرنا جو ایک سنگین اور اہم ذمہ داری ہے نہ یہ کہ اس سےکسی کیلئے غیر معمولی شان و منزلت پیدا ہوجاتی ہے اور اسکو معمولی حد سے بڑھا کر کسی اونچے مقام پر پہنچادیتی ہے دوسرے الفاظ میں حکومت یعنی ملک میں نظم و نسق کو برقرار کرنا اور بہت سے افراد اس کو امتیاز تصور کرتے ہيں جبکہ یہ کوئی امتیاز نہیں بلکہ ایک سخت و سنگین اور دشوار ذمہ داری ہے
ایک اہم امر جسکی ولایت عہدیدار ہے حدود الہی کا جاری کرنا ہے ( یعنی اسلام کے جزائی قوانین کا اجراء ) کیا حدود کے اجراء میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) امام(علیہ السلام) اور فقیہ کے درمیان کوئی امتیاز ہے؟ یا چونکہ فقیہ کا رتبہ بہت ہی کم ہے لہذا اسکو کمتر سزا تجویز کرنا چاہیے ؟ زانی کی حد100 کوڑے ہے اگر رسول خدا (ص) یہ حد جاری کریں گے تو150 کوڑے ماریں گے اور حضرت علی (علیہ السلام)جاری کریں گے تو 100 کوڑے ماریں گے اور فقیہ جاری کرےگا تو50 کوڑے مارے گا ؟یا یہ کہ حاکم اجرائی امور کا ذمہ داراور عہدیدار ہے اور اسے خداوند متعال کے حکم کےمطابق حد جاری کرنا چاہیے، چاہیے حاکم رسول خدا (ص) ہوں ، حضرت علی (علیہ السلام) ہوں یا حضرت علی (ع) کے بصرہ یا کوفہ میں نمایندے یا قاضي ہوں یا موجودہ دور میں فقیہ ۔
رسول اکرم (ص)اور حضرت علی (علیہ السلام) کے اہم وظائف میں سے مالیات ،خمس و زکوۃ ، جزیہ اور خراجیہ زمین کا ٹیکس وصول کرنا ہے رسول خدا (ص) زکوۃ کتنی وصول کریں گے کیا ایک جگہ سے ایک دسواں حصہ ( 10/1 ) اور دوسری جگہ سے ایک بیسواں حصہ (20/1) وصول کریں گے ؟
حضرت علی (علیہ السلام) خلیفہ ہوگئے تووہ کیا کریں گے ؟ آپ موجودہ دور میں فقیہ اور نافذ الکلمہ ہوگئے تو آپ کیا کریں گے ؟ کیا ان امور میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ولایت کا حضرت علی (علیہ السلام) کی ولایت او رعادل فقیہ کی ولایت کے درمیان کوئی فرق ہے ؟
خداوند متعال نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو تمام مسلمانوں کا ولی قرار دیا ہے اور جب تک وہ حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) موجود ہیں انکی ولایت حضرت علی (علیہ السلام) پر بھی جاری ہے آنحضور(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کے بعد امام (ع) کی ولایت تمام مسلمانوں حتی اپنے بعد والے امام (ع)پر بھی نافذ ہے یعنی اسکے حکومتی احکامات اور اوامر سب پر نافذ و جاری ہیں اور وہ گورنروں کو منصوب اور معزول کرسکتاہے
جیسا کے پیغمبر اسلام (ص) احکام الہی کے اجراء کرنے اور اسلام کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے پر مامور تھے اور خداوند متعال نے انکو مسلمانوں کا ہادی ، ولی اور راہنما قرار دیا اور انکی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اسی طرح فقہاء عادل بھی حاکم وولی و راہنما ہیں اور معاشرے میں احکام کے اجراء کرنےاور اسلام کے اجتماعی نظام کو برقرار کرنے اور چلانے پر مامور ہیں
حکومت احکام اوّلیہ میں سے ہے اورفرعی احکام پر مقدم ہے :
اگر حکومت کے اختیارات فرعی احکام کے دائرے میں ہوں تو نبی اکرم (ص) کو پیش کی جانی والی حکومت الہیہ اور ولایت مطلقہ بے معنی ہو کر رہ جائے گی لہذا حکومت جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ولایت مطلقہ کا ایک شعبہ ہے اسلام کے احکام اوّلیہ میں سے ہے اور وہ تمام فرعی احکام حتی نماز ، روزہ اور حج پر بھی مقدم ہے حاکم ایسی مسجد یا گھر کو منہدم کرنے کا حکم دے سکتا ہے جو سڑک کے راستے میں واقع ہے اور گھر کی قیمت صاحب گھر کو واپس کرسکتا ہے حاکم ضرورت کے موقع پر مسجد کو بند کرسکتا ہے ایسی مسجد کو خراب کرسکتا ہے جو ضرر و نقصان کا سبب ہو حکومت ایسی شرعی قرار دادوں کو یک طرفہ طور پر باطل کرسکتی ہے جو عوام سے طے کی ہیں اور جو ملک کے مصالح اور اسلام کے خلاف ہوں اور ہر اس امر پر پابندی عائد کرسکتی ہے جو مصالح اسلام کے خلاف ہو چاہیے وہ امر عبادتی یا غیر عبادتی ہو حکومت حج جیسی اہم عبادت پر جانے سے روک سکتی ہے اگر وہ اسلامی ملک کے مصالح کے خلاف ہو(12)
ولایت اور محدود مالکیت کا حق:
اسلام میں مشروع اموال کیلئے بعض حدود ہیں اورایک امر جو ولایت فقیہ سے متعلق ہے وہ یہی حدود اور تحدید کا امر ہے اور جسے ہمارے روشن فکر افراد درک کرنے سے قاصر ہیں اور نہیں سمجھتےکہ ولایت فقیہ کیا ہے ،
اس کے باوجود کہ مالکیت کو شارع مقدس نے محترم قرار دیا ہے لیکن ولی فقیہ اگر اسی محدود مالکیت کو اسلام و مسلمانوں کے مصالح کے خلاف تشخیص دےگاتو وہ اسی جائز اور مشروع مالکیت کو ایک معین حد تک محدود کرسکتا ہے اور وہ فقیہ کے حکم سے
مصادرہ اورضبط کرلی جائےگي (13)
1- بحار الانوار، ج 25، ص116؛ نہج البلاغہ ص 588، خطبہ172؛الاحتجاج،ج1ص229
2- مستدرک الوسائل ج17ص321((کتاب القضاۃ))،((ابواب صفات قاضی))، باب 11، حدیث33
3- سورہ بقرہ/124
4- ولایت فقیہ- 61-58
5- صحیفہ نورجلد21، ص129_تاریخ 9/2/68 شمسی
6- صحیفہ نورجلد10،ص169_168 تاریخ17/8/58 شمسی
7- صحیفہ نورجلد3، ص84 تاریخ18/8/57 شمسی
8- اشارہ بہ آيات مبارکہ:44_46 سورہ الحاقہ میں ارشاد ہے(( و لو تقوّل علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین))(اگر محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جھوٹی باتیں ہماری نسبت دیتے تو ہم ضرور اسکو اپنے قہر میں گرفتارکرلیتے اور اسکی شاہ رگ کو کاٹ دیتے)
9- صحیفہ نورجلد10ص29،تاریخ30/8/58 شمسی
10- صحیفہ نورجلد11ص133، تاریخ 7/10/58 شمسی
11- ولایت فقیہ، ص93_92
12- صحیفہ نورجلدج20 ص 170 ، تاریخ 16/10/66 شمسی
13- صحیفہ نورجلد10 ص138، تاریخ 14/8/58 شمسی