رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حج کےعظیم موقع پر حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے ایک اہم پیغام میں بعض اسلامی ممالک میں عوامی انقلاب و قیام کو عالم اسلام کے سب سے اہم مسائل اور ان میں پوشیدہ حقائق کو الہی آیات و بیّنات قراردیا اور اس فیصلہ کن اورحساس مرحلے میں دینی علماء ، مفکرین اور بیدار جوانوں کی عظیم و سنگین ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امت مسلمہ بالخصوص انقلاب برپا کرنے والی قوموں کو اپنی تحریک جاری رکھنے کے لئے بین الاقوامی سامراجی و استکباری طاقتوں کے حیلوں اوران کے مکر وفریب کے مقابلے میں پائداری اور ہوشیاری کے دو بنیادی عناصر کی سخت ضرورت ہے اور مغربی ممالک کے چنگال سے اسلامی ممالک کی آزادی کے لئے ایک طاقتور اسلامی بلاک کی تشکیل بھی بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب يذل ہے:
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله ربّ العالمين وصلوات الله وتحياته على سيد الأنام محمد المصطفى وآله الطيبين وصحبه المنتجبين.
آ جکل حج کی بہار اپنی تمام تر روحانی شادابی و پاکیزگی اور خداداد حشمت و شکوہ کے ساتھ آ گئی ہے اور ایمان کے نور اور شوق کے زیور سے آراستہ دل، پروانوں کی طرح کعبہ توحید اور مرکز اتحاد کے گرد محو پرواز ہیں۔ مکہ،منا،مشعر اور عرفات خوش قسمت انسانوں کی منزل ہیں جنہوں نے ”واذن فی الناس بالحج“ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے خداوند غفور و کریم کے مہمان ہونے کی سعادت پائی ہے۔ یہ وہی مبارک مکان اور ہدایت کا سرچشمہ ہے کہ جہاں پر اللہ تعالی کی بین نشانیوں کو جلا بخشی گئی اور جہان پر ہر ایک کے سر پر امن و امان کی چھتری قرار دی گئی۔
دلوں اور ذکر و خشوع کو زمزم میں پاک کریں۔ اپنی بصیرت کی آنکھ کو حضرت حق کی تابندہ آیات پر کھول دیں۔اخلاص و تسلیم پر جو کہ حقیقی عبودیت کی علامت ہیں ٹوٹ پڑیں۔ اس باپ کی ےاد کوجو کمال تسلیم کے ساتھ اپنے اسماعیل کو قربانگاہ تک لے کر گئے،بار بار اپنے دل میں زندہ کیجئے۔ اس طرح وہ منور طریق جو کہ رب جلیل سے دوستی کے لئے ہمارے سامنے کھول دی گئی ہے اسے پہچانئے اورسچے مومن کے عزم اور نیت صادقانہ کے ساتھ اس پر قدم رکھیں۔
مقام ابراہیم انہیں آیات بینات میں سے ایک ہے۔ کعبہ شریف کے پاس ابراہیم علیہ السلام کی قدم گاہ مقام ابراہیم کی واحد نشانی ہے، مقام ابراہیم ان کے ایثار،اخلاص اور قربانی کا مقام ہے۔ نفسانی تقاضوں اور پدری جذبات کے سامنے اور کفر و شرک کے غلبے اور نمرود زمانہ کے تسلط کے آگے ڈٹ جانے کا مقام ہے۔ نجات کے یہ دونوں راستے امت اسلامی کے ہم سب افراد کے سامنے موجود ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی جرات، بہادری اور محکم ارادہ ہمیں ان مقاصد کی طرف روانہ کر سکتا ہے جن کی طرف آدم سے خاتم تک تمام الہی پیغمبروں نے ہمیں دعوت دی ہے اور اس راستے پر چلنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت و سعادت کا وعدہ فرمایا ہے۔ امت مسلمہ کی اس عظیم محضر میں، شایستہ یہی ہے کہ حجاج کرام عالم اسلام کے اہم ترین مسائل پر توجہ دیں۔ ان بے شمار مسایل میں سے سرفہرست، بعض اسلامی ممالک میں برپا ہونے والا انقلاب اور عوامی قیام ہے۔ گذشتہ سال حج اور امسال حج کے درمیانی عرصہ میں عالم اسلام میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو کہ امت مسلمہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور مادی اور روحانی ترقی اور عزت و افتخار سے سرشار ایک روشن مستقبل کی نوید دے سکتے ہیں۔ مصر، تیونس اور لیبیامیں فاسد، محتاج اور ڈیکٹیٹر طاغوت، تخت اقتدار سے گر چکے ہیں جبکہ بعض دوسرے ممالک میں عوام کی ٹھاٹھیں مارتی لہروں نے زر و زور اور اقتدار کے محلات میں ویرانی اور تباہی کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔
ہماری امت کی تاریخ کے اس تازہ باب نے ایسے حقایق آشکار کئے ہیں جو کہ مکمل طور پر آےات بینات الہی ہیں اور ہمارے لئے حیات بخش سبق لئے ہوئے ہیں۔ ان حقایق کو اسلامی امہ کی تمام اقوام کے محاسبات میں استعمال میں لایا جانا چاہئے۔
سب سے پہلے یہ کہ جو اقوام کئی دھائیوں سے غیروں کے سیاسی تسلط میں رہ رہی تھیں ان کے اندر سے ایسی جوان نسل ظاہر ہوئی ہے جو اپنے اوپر محکم یقین اور تحسین بر انگیز جذبے کے ساتھ خطرات کو قبول کرتے ہوئے مسلط شدہ طاقتوں کے مقابلے پر کھڑی ہو کر اپنی تقدیر بدلنے پر کمر بستہ ہے۔
دوسرے یہ کہ سیکولر حکمرانوں کے تسلط کے باوجود اپنے ممالک میں دین کو محو کرنے کے لئے ان کی ظاہری اور خفیہ کوششوں کے با وصف، اسلام نے بھرپور اور پرشکوہ اثر و رسوخ کے ذریعے دلوں اور زبانوں کو نور ہدایت بخشی اور کروڑوں لوگوں کے گفتار و کردار کی صورت چشمہ جوشان کی طرح، ان کے رویوں اور اجتماعات کو رونق و شادابی عطا کی ہے۔ اذانیں، عبادات، اللہ اکبر کی صدائیں اور دوسرے اسلامی نعرے اور تیونس کے حالیہ انتخابات اس حقیقت کی واضع نشانی اور برھان قاطع ہیں۔ بلاشبہ اسلامی ممالک میں سے ہر ایک ملک میں غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا نتیجہ وہی ہو گا جو تیونس میں سامنے آیا ہے۔
تیسرے یہ کہ اس ایک سال کے دوران پیش آنے والے واقعات نے سب پر یہ واضع کر دےا ہے کہ خدائے عزیز و قدیر نے اقوام کے عزم و ارادوں میں ایک ایسی طاقت رکھ دی ہے کہ کسی دوسری طاقت میں اس کا مقابلہ کرنے کی جرات اور سکت ہی نہیں ہے۔ اقوام اسی خدادادی طاقت کے بل بوتے پر اپنی تقدیر کو بدل سکنے کی طاقت رکھتی ہیں اور اس طرح خدا کی نصرت کو اپنے شامل حال کر سکتی ہیں۔
چوتھے یہ کہ استکباری حکومتوں نے جن میں سر فہرست امریکا ہے ، کئی دھائیوں سے مختلف سیاسی اور سیکورٹی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے خطے میں موجود حکومتوں کو اپنا تابع فرمان اور اپنے نصایح کا پایبند بنا کر، دنیا کے اس حساس ترین خطے میں اپنے اقتصادی ،ثقافتی اور سیاسی تسلط کے لئے رکاوٹوں سے پاک وسیع شاہراہ بنا رکھی تھی ، اب اس خطے کی اقوام کی نفرت و بیزاری کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ہمیں یہ اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان عوامی انقلابوں کے نتیجے میں برقرارہونے والے نظام سابقہ ذلت آمیز غیرمتوازن رویوں کے سامنے تسلیم نہیں ہونگے اور اس خطے کی اقوام کے ہاتھوں سیاسی جغرافیہ ،عزت و استقلال کاملہ کی طرف تبدیل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ کہ مغربی طاقتوں کا منافقانہ اور دہوکے بازی پر مبنی مزاج اس خطے کے عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔ امریکا اور یورپ نے جہان تک کر سکتے تھے مصر،تیونس اور لیبیا میں اپنے مہروں کو بچانے کیلئے زور لگایا اور جب عوام کا ارادہ ان کی خواہشات پر فایق آ گیا تب کامران عوام کے لئے دھوکے پر مبنی دوستی کی مسکراہٹ سجائی۔
اللہ تعالی کی روشن آیات اور بیش قیمت حقایق جو گذشتہ ایک سال کے عرصے میں اس خطے میں رونما ہوئے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور صاحبان تدبر و بصیرت کے لئے ان کا مشاہدہ اور ادراک دشوار نہیں ہے۔لیکن اس سب کے باوجود تمام امت مسلمہ اور خصوصا قیام کرنے والی اقوام کو دو بنیادی عوامل کی ضرورت ہے:
پہلے: قیام میں تسلسل و تداوم اور محکم ارادوں میں نرمی سے شدید پرہیز۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یوں فرمایا ہے©” فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا“ اور ” فلذلک فادع واستقم کما امرت“، اور حضرت موسی علیہ السلام کے بقول، ”وقال موسی لقومہ استعینوا باللہ و اصبروا، ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبتہ للمتقین“، قیام کرنے والی اقوام کے لئے موجودہ زمانے میں تقوی کا سب سے بڑا مصداق یہ ہے کہ اپنی مبارک تحریک کو رکنے نہ دیں اور خود کو عارضی کامیابیوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ یہ اس تقوی کا وہ اہم حصہ ہے جس کو اپنانے والے کے لئے عاقبت بخیر کی وعید عطا ہوئی ہے۔
دوسرے: بین الاقوامی مستکبرین اور ان عوامی انقلابوں سے چوٹ کھانے والی حکومتوں کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہوشیار رہنا۔ وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ نہیں جائیں گے اور اپنے تمام تر سیاسی، سلامتی اور مالی وسایل کے ساتھ ان ممالک میں اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے دوبارہ تسلط کے لئے میدان میں اتریں گے۔ ان کا ہتھیار لالچ، دھمکی، فریب اور دھوکہ ہے۔ تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خواص میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتے ہیں اور خوف، لالچ اور غفلت انہیں شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن کی خدمت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ بیدار جوانوں، روشنفکر دانشوروں اور علمائے دین کی آنکھیں پوری توجہ سے اس چیز کا خیال رکھیں۔
اہم ترین خطرہ ان ممالک میں برپا ہونے والے جدید سیاسی نظام کی ساخت و پرداز پر کفر و استکبار کے محاذکی مداخلت اور اس پر اثراندازی کا ہے۔ وہ اپنی تمام توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے کوشش کریں گے تاکہ نئے برپا ہونے والے نظام ،اسلامی اور عوامی تشخص سے خالی رہیں۔ ان ممالک کے تمام مخلص حضرات اور وہ تمام افراد جو اپنے ملک کی عزت ، وقار اور تکریم کے لئے پر امید ہیں ان سب کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے تا کہ نئے نظام میں اسلامی اور عوامی ہونا اپنے تمام تر مفہوم کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ اس کے لئے آئین کا کردارسب سے نمایاں ہے ۔ قومی وحدت اور مذہبی قبایلی اور نسلی تنوع کو تسلیم کرنا، آیندہ کامیابیوں کی اہم شرط ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا اور دوسرے ممالک کی جراتمند، بہادر ،بیدار اور مجاہد اقوام کو یہ جان لینا چاہئے کہ ظلم، امریکی مکر و فریب اور دوسرے مغربی مستکبران سے انکی نجات کا صرف اور صرف یہ راستہ ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن انکے حق میں قائم ہو جائے۔ مسلمانوں کو اپنے تمام مسائل کو دنیا کے جہان خوروں کے ساتھ قطعی طور پر حل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو عالمی طاقت ہونے کی صف میں لاکھڑا کریں۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے تمام ممالک باہمی تعاون اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ یہ ناقابل فراموش نصیحت امام خمینی ( رہ )عظیم کی ہے ۔
امریکا اور نیٹو خبیث اور ڈکٹیٹر قذافی کے بہانے کئی ماہ تک لیبیا اور اس کے عوام پر آگ برساتے رہے ہیں۔جبکہ قذافی وہی شخص تھا جوکہ عوام کے جراتمند قیام سے پہلے ان کے نزدیک ترین دوستوں میں شمار ہوتا رہا۔ وہ اس سے گلے ملتے رہے اس کی مدد سے لیبیا کی دولت کو لوٹتے رہے اور اس کو مزید بہلانے کے لئے اس کے ہاتھ کو گرم جوشی سے دباتے تھے ےا پھر اس پر بوسے دیتے تھے۔ عوام کے انقلاب کے بعد اسی کو بہانہ بنا کر لیبیا کا تمام تر بنیادی ڈھانچہ تباہ و برباد کر دیا۔ کون سی حکومت ہے جس نے نیٹو کو عوام کے قتل عام اور لیبیا کی تباہی جیسے المیے سے روکا ہو؟ جب تک مغربی وحشی اور خون خوار طاقتوں کے ہاتھ اور دانت توڑ نہ دئیے جائیں گے اس طرح کے خطرات اسلامی ممالک کو درپیش رہیں گے۔ ان خطرات سے نجات ما سوائے عالمی اسلامی بلاک بنانے کے ممکن نہیں ہے۔
مغرب، امریکا اور صیہونیت ہمیشہ کی نسبت آج سب سے زیادہ کمزور ہیں ۔ اقتصادی مسائل، افغانستان و عراق میں پے در پے ناکامیاں، امریکی اور دوسرے مغربی ممالک کے عوام کے شدید اعتراضات جو کہ روز بروز وسیع تر ہو رہے ہیں، فلسطین و لبنان کے عوام کی جان فشانیاں، یمن، بحرین اور بعض دوسرے امریکا کے زیر اثر ممالک کے عوام کا جراتمندانہ قیام، یہ سب کے سب امت مسلمہ اور بخصوص جدید انقلابی ممالک کے لئے بہت بڑی بشارت ہیں۔ پورے عالم اسلام اور خصوصا مصر، تیونس اور لیبیا کے تمام مومنین مرد و خواتین،
بین الاقوامی اسلامی طاقت کے قیام کے لئے اس موقعہ سے زیادہ سے زےادہ فایدہ اٹھائیں۔ تحریکوں کے اکابرین خداوند بزرگ پر توکل اور اس کی نصرت و امداد کے وعدے پر بھروسہ کریں اور امت مسلمہ کی تاریخ کے اس جدید باب کو اپنے زندہ و جاوید افتخارات کے ساتھ جو کہ رضائے الہی کا باعث اور اس کی نصرت و امداد کے لئے راہ ہمواری ہے زینت و آراستہ کریں۔
والسلام علی عباداللہ الصالحین
سید علی حسینی خامنہ ای
۵ آبان ۱۳۹۰
29 ذیقعدہ ۱۴۳۲