ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مؤثر افکار کے پہلے اجلاس میں فرمایا:

فکر و شعور ، علم و دانش اور زندگي و معنویت کے میادین، اسلامی و ایرانی پیشرفت کے اہم نمونے ہیں

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کےدرجنوں ماہرین ، اساتذہ اور دانشوروں نے بدھ کی رات میں اسلامی جمہوریہ ایران میں مؤثر افکار کے پہلے اجلاس میں اسلامی - ایرانی نمونہ کے پہلوؤں ، خصوصیات اور اصولوں پرباہمی تبادلہ خیال کیا اور انتہائي غور و خوض کے ساتھ اس کا جائزہ لیا۔  

یہ اجلاس 4 گھنٹے تک جاری رہا ، اجلاس کے آغاز میں 14 ماہرین و مفکرین اور صاحب نظر افراد نے ساڑھے تین گھنٹے تک اسلامی – ایرانی پیشرفت کے سلسلے میں  اپنے مختلف نظریات ،خیالات اور آراء کو پیش کیا۔

اس اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مؤثر و مفید نمونہ کی تدوین کے سلسلے میں ملک کے تمام ممتاز افراد کی صلاحیتوں اور توانائیوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور فکر و علم و زندگي اور معنویت کے چار عناصر کو اسلامی و ایرانی پیشرفت کے چار اہم نمونے قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نمونہ کی تدوین ملک کے تمام منصوبوں اور پروگراموں میں سب سے اہم اور بلند و بالا ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مؤثر و مفید افکار کے پہلے اجلاس میں اساتید ،فضلاء اور دانشوروں کی جانب سے پیش کئے جانے والے علمی مقالات پر مسرت و خوشی کا اظہار کیا اور اس امر کو ملک کے دانشوروں اور فضلاء کی عظیم علمی استعداد و صلاحیت کا مظہر قراردیا اور اس امر کی اہمیت کی وضاحت و تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران میں اس قسم کے اجلاس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مؤثر و مفید افکار پر مبنی اجلاس کے سلسلے کو جاری رکھنے پر تاکید کی اور اس قسم کے اجلاس منعقد کرنے کا اصلی مقصد ملک کے طویل اور اساسی مسائل میں دانشوروں اور ماہرین کے نظریات و افکار سے استفادہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک میں بڑے امور اور اہم اہداف موجود ہیں اور ان امور کے محقق ہونے کے لئے ملک کے دانشوروں اور ماہرین کے نظریات اور علمی خیالات سے استفادہ ضروری ہے اور اس کے لئے لازمی ہے کہ دانشور ان اہم اور بلند منصوبوں میں اپنا تعاون فراہم کریں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دانشوروں کے درمیان ملک کے طویل منصوبوں کے بارے میں گفتگو اور تبادلہ خیال اور پھر معاشرے کی عمومی سطح پر ان کے منعکس کرنے کو ان جلسات کا دوسرا اہم مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا: ان جلسات کا تیسرا مقصد ملک کے مستقبل کے لئے رہنما اصول و خطوط اور علامات معین کرنا بھی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان جلسات میں آخری نتائج تک پہنچنے کے لئے جلد بازی سے اجتناب پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ایرانی پیشرفت کا نمونہ تدوین کرنے کے لئے طویل عرصہ درکار ہے اور یہ عظیم کام مختصر اور درمیانہ مدت میں انجام پانا ممکن نہیں ہے البتہ اس کام میں معقول سرعت بھی درکار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں ہدف مشخص ہوتا ہے لیکن ممکن ہے کہ حالات و شرائط کے تحت بعض اقدامات میں اصلاحات کی ضرورت پیش آجائے اور یہ مسئلہ اس نمونہ کے انعطاف کا مظہر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی، ایرانی پیشرفت کے چار نمونوں کی تعبیر کو جامع نقشہ قراردیتے ہوئے فرمایا: جامع نقشہ کے بغیر گذشتہ 30 سال کی طرح ہمیں بعض اقتصادی یا ثقافتی مسائل میں تناقض کا سامنا کرنا پڑےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کلمہ اسلامی کے انتخاب کی تشریح کی اور اسلامی معارف و اہداف و اصول اور اقدار کی پاسداری و حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہماری حکومت اسلامی حکومت ہے، ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر اپنی پیشرفت و ترقی کے نمونہ کی تدوین کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تعبیر " اسلامی ایرانی پیشرفت" میں کلمہ ایرانی کے انتخاب کی وجہ اس نمونہ کی تدوین میں ایران کےتاریخی ، جغرافیائی ، ثقافتی ، سماجی اور  اقتصادی شرائط کو مد نظر رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس کے علاوہ اس نمونہ کی تدوین کرنے والے بھی ایرانی ماہرین اور دانشور ہیں  اور در حقیقت یہ نمونہ ملک کے مستقبل کے نقشہ کے لئے اس سرزمین کے ماہرین کی تلاش و کوشش کا نتیجہ ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کلمہ توسعہ کے بجائے کلمہ پیشرفت کے انتخاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کلمہ توسعہ ایک جانی پہچانی اور متعارف عالمی اصطلاح ہے جو اپنے خاص معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے اور جس کے بارے میں ہم موافق نہیں ہیں لہذا ہم نے کلمہ پیشرفت سے استفادہ کیا اور اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے دور میں کبھی کسی سے مفاہیم کا قرضہ نہیں لیا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مطلوب حالت  کا نقشہ تیار کرنے اور موجود حالت سے مطلوبہ حالت تک پہنچنےکی راہوں کو مشخص کرنے کو اسلامی – ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی تدوین اور ترسیم کے لئے ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی اور ایرانی دو مفہوموں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے تجربات سے ہر گز استفادہ نہیں کریں گے ہمیں اس راہ میں اپنی آنکھیں باز رکھنی چاہییں اور صحیح  انتخاب کرنا چاہیے اور ہمیں اس راستہ میں ہر صحیح اور درست علم سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی _ ایرانی پیشرفت کے نمونہ کے سلسلے میں بیان کئے گئے تمام سوالات کے جوابات دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایک سوال یہ ہے کہ اس نمونہ کی تدوین کے لئے اس دور کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تیس برسوں کے فراواں تجربات اور بیشمار معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ دور اس کام کے آغاز کے لئے مناسب اور بہترین دورہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض لوگ اس بات پر اعتقاد و یقین رکھتے ہیں کہ ملک میں اس نمونہ کو وجود میں لانے کی فکری توانائی موجود نہیں ہے جبکہ اس وقت بہت سی اچھی صلاحیتیں اور توانائياں موجود ہیں اور ملک میں موجود بہت سی ظرفیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی ماہرین ، ایرانی دانشور اور ایرانی مفکرین اس نمونہ کو تدوین کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں اور اس حرکت میں یقینی طور پر پیشرفت حاصل ہوگی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیشرفت و ترقی کے طریقوں اور میدانوں  کی تشریح میں فکر و علم و زندگی اور معنویت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ، ایرانی پیشرفت کا نمونہ اس طرح تدوین ہونا چاہیے جو معاشرے کو فکری معاشرے کی طرف لے جائے اور معاشرے میں فکر و شعور کا چشمہ ایک حقیقت کے طور پرجاری ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں روشوں کے مشخص ہونے اور فکر و توجہ کے میدان میں پیشرفت کے ضروری شرائط اور وسائل منجملہ  تعلیم و تربیت  اور ذرائع ابلاغ کو پیشرفت کے نمونہ کی تدوین میں سب سےاہم قراردیا ہے۔

علم کا میدان دوسرا میدان تھا جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیشرفت کے میدان کے عنوان سے پیش کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا: علمی استقلال کے سلسلے میں موجودہ اچھی حرکت اور خلاقیت کو مزید قوت اور سرعت کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے، اور پیشرفت کی تمام راہوں کو جامع اور گہری علمی نظر کے ذریعہ  پیشرفت کے نمونہ میں مشخص اور واضح کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی، عدل و انصاف، فلاح و بہبود، آزادی، حکومت ، قومی عزت و استقلال جیسے زندگی کے اصلی خطوط اور مسائل پر توجہ کو اسلامی _ ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کے اس نمونہ میں زندگی کے مسائل پر کافی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معنویت کو چوتھا اور اہم عنصر قراردیا اور اسلامی و ایرانی پیشرفت کے بلند مدت اور پیچیدہ نمونہ کی تدوین میں اس پردقیق توجہ مبذول کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: معنویت تمام میدانوں اور مسائل میں حقیقی پیشرفت کی روح ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت ولی عصر امام زمانہ (عج) کے دور میں انسانی زندگی کو بشر کی زندگی کا کامل نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: انسان اپنی چند ہزار سالہ تاریخ میں زندگی کے ّپیچ و خم اور نشیب و فراز میں گرفتار ہے اور حضرت ولی عصر (عج) کے ظہور کے بعد ترقی اور پیشرفت کی ایک عظیم شاہراہ تک پہنچ جائے گا البتہ اس سلسلے میں دائمی اور مسلسل تلاش و کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مؤثر افکار کے پہلے اجلاس میں  اپنے خطاب کو  پیشرفت کے نمونہ میں اسلامی متن کو ملحوظ رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے جاری رکھا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی و ایرانی پیشرفت کی تدوین کے نمونہ میں مسئلہ توحید پر مکمل توجہ کو ضروری قرار دیتے ہوئےفرمایا: اگر توحید کے مسئلہ کو عوام کی زندگی میں فروغ دیا جائے اور اللہ تعالی کی ذات پر اعتقاد  اور اس اعتقاد پر مکمل طور پرعمل کیا جائے تو انسانی معاشرے کی مشکلات حل ہوجائیں گی اور حقیقی پیشرفت کی راہیں باز ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاد و  قیامت اور اخروی حساب و کتاب پر توجہ کو پیشرفت کےنمونہ میں تمام دشواریوں کو برداشت کرنے کا منطقی سبب اور ایثار و قربانی اور فداکاری کے جذبے کے فروغ کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اس بنیادی و اساسی اور فیصلہ کن مفہوم کو اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں اپنی جگہ پیدا کرنا چاہیے۔

دنیا و آخرت کے درمیان پیوستگی ، عدم تفکیک اور اسلام کی نگاہ میں انسان کو محور قراردینے کے دوسرے ایسے نکات تھے جنھیں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی اور ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں قابل توجہ قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام اور مغربی فلسفہ میں انسان کے محور قرار پانے میں نمایاں فرق اور تفاوت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کا آخری ہدف و مقصد انسان کی نجات، فلاح  اور رستگاری ہے اور اس نقطہ نظر میں عدل و انصاف، فلاح و بہبود ، امن و سلامتی اور عبادت، درمیانہ اہداف یا ہدف تک پہنچنے کا مقدمہ ہیں اور اصلی ہدف و مقصد یہ ہے کہ انسان نیک اور سعادتمند بن جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام کے زاویہ نگاہ سے انسان کو مکلف ، مختار اور الہی ہدایت میں شامل موجود قراردیا اور پیشرفت کے نمونہ میں اس نقطہ نظر کی تجلی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس زاویہ نگاہ میں عوامی حکومت جو عوام کا حق ہے اس کے علاوہ ان پر تکلیف اور ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ معاشرے میں جاری اصلاح یا فساد کا مجھ سے  کوئی تعلق نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام کے زاویہ نگاہ سے حکومت کے مسئلہ کو اسلام کے ديگر مسائل میں قراردیا اور اسے اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں ملحوظ رکھنے پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا: اسلام میں انفرادی صلاحیتیں ایسی اہم ہیں  کہ ہر شخص ذمہ داری اٹھانے اور مدیریت قبول کرنے کے لئے تیار ہے جبکہ اس سلسلے میں لازمی صلاحیتوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے اگر انسان  بغیر صلاحیت کے کسی ذمہ داری کو اپنے دوش پر اٹھائے گا تو گویا اس نے ایک غیر شرعی اور ناجائز کام انجام دیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نظر میں دیگر نکات کی تشریح میں عدم استعلا اور جاہ طلبی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام میں ایسے شخص کو ذمہ داری قبول کرنے کا بالکل کوئی حق نہیں ہے جو جاہ طلب ، برتری کا خواہاں اور تمام چیزوں کو اپنے اختیار اور قدرت میں رکھنا چاہتا ہو  اور عوام کو بھی ایسے شخص کو انتخاب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اس سعادت بخش نقطہ نظر پر بھی اسلامی اور ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں کافی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد پر توجہ کو بھی پیشرفت کے نمونہ میں ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کا نمونہ جو ممتاز ماہرین کی باہمی تلاش و کوشش اور فکر سےتدوین پائے گا اس میں عدل و انصاف کو ایک اصلی رکن کے عنوان سے ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ اسلام میں عدل و انصاف حق و باطل کی پہچان اور حکومتوں کے جائز اور ناجائز ہونے کا اصلی ملاک و معیار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی تدوین کے سلسلے میں اقتصاد پرغیر مادی نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثروت کے لئے اسلام بڑی اہمیت کا قائل ہے اور ثروت کی پیداوار کو اچھا اور قابل قدر سمجھتا ہے بشرطیکہ اس سے فساد و تسلط پیدا کرنے اور اسراف کرنےمیں استفادہ نہ کیا جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر مؤثر و مفید افکار کی نشستوں کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی ضرورت پر ایک بار پھرتاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی تدوین کے لئے ممکن ہے کہ یونیورسٹیوں اور حوزات علمیہ میں  دسیوں علمی اور فکری اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت پڑے، ابھی کام کا آغاز اور ابتدا ہے ملک کے تمام ماہرین اور دانشوروں کی ظرفیت اور  صلاحیت سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ انشاء اللہ مطلوب نقطہ تک پہنچ جائیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا:  اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی حقیقت و ماہیت کو حکومت اور پارلیمنٹ سے بالا دستی اور برتری حاصل ہونے کی وجہ سے منظوری کی کوئی ضرورت نہیں۔

  رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کی فعالیت پر نگرانی اور نظارت کے لئے ایک مرکز کی تشکیل پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ یہ اہم کام اور عظیم حرکت کسی ایک مجموعہ تک محدود نہیں اور اس کے لئے ملک کے تمام مفکرین اور ماہرین کا تعاون بہت ضروری ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس کام کی نظارت اور نگرانی کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی جائے گی وہ ملک کے ممتاز ماہرین اور دانشوروں کو اسلامی و ایرانی پیشرفت کی تدوین کے عظیم ہدف تک پہنچنے کے سلسلے میں ضروری سہولیات فراہم کرےگي۔

مؤثر  افکار پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے پہلےاجلاس کے آغاز میں علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر مسعود درخشاں نے "پیشرفت کی اسلامی و ایرانی بنیادوں پر ایک نظر" عنوان کے تحت مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا: اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کو الہی و شرعی احکام اور معیاروں پر استوار ہونے کے ساتھ ہی نصف صدی تک تیل کی آمدنی پر منحصر رہنے والی ایرانی معیشت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر درخشاں نے مزید کہا:پیشرفت کا نمونہ اندرونی پیداوار کا مسئلہ ہے اور اس کے نفاذ کے لئے حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کے حکام کے قومی عزم و ارادہ اور اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔
اسلامی و ایرانی پیشرفت کے پہلے اجلاس کے دوسرے خطیب مشہد کی فردوسی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر مصطفی سلیمی فر تھے انھوں نےاپنی گفتگو میں حالیہ صدیوں میں پیشرفت کے نظریات میں بتدریج آنے والی تبدیلی کے عمل کا جائزہ لیتے ہوئےکہا:پیشرفت کے مفہوم کے سلسلے میں آنے والے تمام تر تغیرات کے باوجود یہ پیشرفت اپنے مطلوبہ ہدف کو نہیں حاصل کر سکی کیونکہ ترقی کے اس نقطہ نگاہ کا سرچشمہ سیکولر اورالحادی اعتقادات پر استوار تھا ادھر ایران کی پیشرفت میں بھی جغرافیائی اور آئیڈيالوجیک لحاظ سے نمایاں فرق ہے لہذا اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کی اچھی طرح وضاحت کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر سلیمی فر نے اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں عدل و انصاف کی بنیاد پر معاشرے کی تشکیل، مؤمن افراد کی تربیت، پیشرفتہ اقتصاد کے حصول کے سلسلے میں تلاش وکوشش اور عوام کی حد اکثر شراکت کو لازمی قراردیتے ہوئے کہا: ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاح ، معاشرے میں دینی شناخت و معرفت کے فروغ اور علمی پیداوار اور علمی فروغ جیسے مؤثر طریقوں ، بنیادی آئین اور 20 سالہ منصوبہ کی دستاویزات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی وضاحت کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر سلیمی فر نے اپنے مقالہ کے اختتام میں بعض نظارتی، سماجی ، سیاسی اور مدیریتی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کیا۔
اسلامی فکر و ثقافت کےتحقیقی مرکز سے جناب حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید حسین میر معزی نے بھی اس اجلاس میں کہا: پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی اصطلاح سے پیشرفت کے اسلامی نمونے کی ایران کی معاشی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی خصوصیات سے ہم آہنگی ضروری ہے۔

ڈاکٹر میر معزی نے مزید کہا: موجودہ علمی ذخائر کی تجمیع، پی ایچ ڈی کے مختلف دوروں کی تشکیل و تعریف، اسلامی انسانی علوم و فلسفہ میں تحقیقی ٹیموں کی تشکیل سے پیشرفت کے اسلامی اور ایرانی نمونے کی تدوین کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔
اس اجلاس میں یزد یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر زہرا نصر اللہی نے بھی اپنے خطاب میں پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں مغربی پیشرفت کے تمام ماڈل آزمائے جا چکے ہیں  جن سے کوئی خاطر خواہ اور مطلوب نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ہے۔

 ڈاکٹر زہرا نصر اللہی نے پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے میں صحیح ہدف، تجزیہ نگار اور توانا افراد کی تربیت کو پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کے لئے ضروری قراردیا اور فکر و شعور کی گہرائی  اور اس کے عمیق ہونے پر تاکید کرتے ہوئے کہا:  ہمیں ملک کےمستقبل کے سلسلے میں تحقیق و ریسرچ کے پیش نظر پیشرفت کے صحیح نمونہ کی وضاحت اور تشریح کرنی چاہیے۔

یونیورسٹی کی استاد محترمہ ڈاکٹر زہرا نصر اللہی نے صرف اسلامی ظواہر و شکل و صورت پر اکتفا کرنے ، کسی بنیادی سسٹم کے نہ ہونے ، مغرب ، اسلام اور ایران کے بارے میں کافی شناخت کے نہ ہونے ، ہر تبدیلی کے مقابلے میں محاذ آرائی کرنے ،ملک کے علمی حلقہ میں خوداعتمادی کے فقدان،  عالمی رقیبوں میں ضروری اور سنجیدہ انعطاف کے نہ ہونے کو پیشرفت کے صحیح نمونے کے محقق ہونے میں  سب سے اہم رکاوٹیں قراردیا۔

پیشرفت کے اسلامی و ایرانی نمونے کےاس اجلاس میں  مشہور ومعروف مفکر حجت الاسلام و المسلمین ڈاکٹر حمید پارسا نیا نے اسلامی پیشرفت اور علم مآبانہ مدیریت کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور اسمیں انھوں نے تاریخي و سماجی اصولوں کے پیش نظر  ماڈرن توسعہ کے سلسلے میں مطالعہ کو ضروری قراردیا۔

ڈاکٹر پارسا نیا نے انسانی معاشرے کے لئے مغربی پیشرفت کے نمونہ کے ناکام تجربہ کی طرف اشارہ کیا  اور علم و اسلامی عقلانیت ، فکر و شعور کے میدان میں مثبت آزادی کو اسلامی پیشرفت کے ضروریات قراردیتے ہوئے کہا: سخت رویے اور علم مآبانہ مدیریت سے پرہیز کرنے کے ساتھ  ہمیں ہوشمندانہ مدیریت کے سائے میں ، علم و ثقافت کی صحیح نسبت کو اسلامی ثقافت کے افق پر نقش کرنا چاہیے اور علمی پالیسیوں کو  اپنے تاریخی و تمدنی شرائط اور ضرورتوں کے مطابق فراہم کرنا چاہیے۔

امام صادق علیہ السلام یونیورسٹی کے ڈاکٹر عادل پیغامی نے عشرہ پیشرفت و عدالت کی اہمیت اور ضروریات پر روشنی ڈالی۔

ڈاکٹر عادل پیغامی نے خلاقیت ، مسئلہ حل کرنے کی مہارت ، تنقید اور فیصلہ کرنے کی مہارت میں اضافہ کو پیشرفت و ترقی کی اساسی اور بنیادی مہارتیں قراردیتے ہوئےکہا: موجودہ معیار جو ملک میں اعداد و شمار پیش کرنے کے معیار ہیں وہ معاشرے کو مطلوب عدل و انصاف اور پیشرفت تک نہیں پہنچا سکتے اور اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ہر شعبہ میں اعداد و شمار کے لئے جدید معیاروں کو تدوین کرکے انھیں عمل کا ملاک و معیار قراردینا چاہیے۔

شہید بہشتی یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات ڈاکٹر فرامرز رفیع پور ، مؤثر افکار پر مبنی پہلے اجلاس کے ساتویں مقرر تھے انھوں نے اپنے مقالے میں مغربی استعمار کی تشکیل کے تاریخی شواہد کی تشریح کرتے ہوئے اس بات کو ثابت کیا کہ استعمار اپنے زیر تسلط اور اسلامی ممالک میں سماجی ، ثقافتی اور معاشرتی اقدار میں تبدیلی ایجاد کرکے اپنے اہداف کو عملی جامہ پہناتا ہے۔

ڈاکٹر رفیع پور نے اسلام و ایران کا تقابل کرنے والی فکر کو مستردکرتے ہوئے کہا: ایران میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد میں عاشورا کی عظيم الشان تقریب ایرانیوں کے قومی اتحاد اور قومی تشخص کی علامت میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس حقیقت سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ایران اور اسلام کے درمیان ایسامضبوط و مستحکم رشتہ ہے جو کبھی  ٹوٹ نہیں سکتا۔

ڈاکٹر رفیع پور نے الفت و محبت کو حقیقی پیشرفت کی رمز و کلید قراردیتے ہوئے کہا: مغربی توسعہ و پیشرفت تضادات کو فروغ دیکر اور عمودی روابط کے ذریعہ انسانی معاشرے میں الفت کو عملی طور پر سست کر دیتے ہیں اور وہ دلسوز ماہرین و دانشور جو اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کی تلاش میں ہیں انھیں یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے۔

تہران یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر حداد عادل نے بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ میں دینی اصولوں اور ایران و جہان میں موجود حقائق پر بھی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔

ڈاکٹر حداد عادل نے عدل و انصاف کی فراہمی، خاندانی بنیاد کے استحکام  اور عورت کے حقوق پر توجہ کو اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کے اصلی عناصر قراردیتے ہوئے کہا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ کی تدوین میں قوی نقاط اور دوسروں کے کامیاب تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔

  مؤثر افکار کے پہلےاجلاس میں ایوان صدر کے اسٹراٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر پرویز داؤدی نے نویں اور دسویں حکومتوں میں پیشرفت کے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین کے لئے انجام دی جانے والی کوششوں کے بارے میں  رپورٹ پیش کی۔

ڈاکٹر داؤدی نے طویل المدت تعمیراتی منصوبوں کے سلسلے میں اسلامی جمہوری منشور کی تدوین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس وقت بھی یونیورسٹیوں اور حوزات علمیہ کے محققین و ماہرین اقتصادی پیشرفت اور سیاسی پیشرفت کے دو شعبوں میں معیاروں کے تعیین کے لئے بائيس منصوبوں کی تدوین پر کام کررہے ہیں۔

ڈاکٹر پرویز داؤدی نے کہا: اس سلسلے میں اقتصادی رشد اور عدل و انصاف کے تمام معیاروں کی تدوین، اسراف، اسلام کی نظر میں مطلوب خاندان ، سماجی نظم و نسق اور انضباط، اسلامی معماری اور شہری تعمیرات، استقلال ، آزادی، قومی اتحاد، قانون پر عمل  اور سیاسی شراکت جیسے امور ماہرین گروپ کے منصوبوں میں شامل ہے۔

تربیت مدرس یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر عماد افروغ نے بھی مؤثر اور اسٹراٹیجک افکار کے پہلے اجلاس میں صرف کمیت اور تجربہ کو ہی مد نظر رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: پیشرفت کے نمونہ کی ہر قسم میں ثقافت کو اصلی ملاک و معیار قرار دیناچاہیے۔

 ڈاکٹر عماد افروغ نے انقلاب اسلامی کے عمیق اور دقیق فہم کو اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کی تدوین کے لئے لازمی قراردیا اور انقلاب اسلامی کے اہداف اور نعروں یعنی آزادی ، عدل و انصاف بالخصوص معنویت کوہر قسم کے نمونے میں مکمل طور پر مد نظر رکھنے کو ضروری قراردیا ۔

ڈاکٹر افروغ نے عالمی مسائل پر دقیق توجہ کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا: سرمایہ داری اپنے اندرونی اور بنیادی تضادات کی وجہ سے عالمی قدرت نہیں رہی ہے لیکن عالمی ضروریات اور حقائق پر مسلمان قوموں اور مسلمان ماہرین کی توجہ کے باعث اسلام اس طاقت و توانائی کا حامل ہے۔

قم اور نجف اشرف کے حوزات علمیہ کے استاد آيت اللہ محمد مہدی آصفی نے بھی اس اجلاس میں مغربی نمونے کو اسلامی معاشرے کے لئے نامطلوب قراردیتے ہوئے کہا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونے کی تدوین میں یہ بات مشخص ہونی چاہیے کہ اسلام کی نظر میں پیشرفت ہدف ہے یا نتیجہ؟

آیت اللہ آصفی نے تاکید کرتے ہوئے کہا: پیشرفت کی اصلی بنیاد یونیورسٹیوں میں علمی توانائیوں کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے پر منحصر ہے۔

 علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر سید حبیب اللہ طباطبائیان نے بھی اپنے مختصر بیان میں ملک میں جاری پیشرفت کی صحیح جانچ کو ضروری قراردیتے ہوئے کہا: ملک میں جاری پیشرفت کا جائزہ اور اس کی مسلسل جانچ سے کمزور نقاط کی تقویت اور قوی نقاط کو مزید مضبوط بنانے کی راہیں ہموار ہونگي ۔
آيت اللہ حائری شیرازی نے بھی مؤثر افکار کے پہلے اجلاس میں طبیعی قوانین کی مراعات کو حقیقی پیشرفت کے لئے اہم قراردیا۔

حوزہ علمیہ کی استاد اور یونیورسٹی پروفیسر محترمہ علا سوند نے اس اجلاس میں آخری خطیب کے عنوان سے پیشرفت میں خاندانی اصول اور بنیادوں پر خصوصی توجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلام کی مؤثر اور اسٹراٹیجک نگاہ میں ثقافت اور معنویت پر مبنی پیشرفت اہمیت کی حامل ہے۔

محترمہ علاسوند نے کہا: اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ کہیں مصلحت کے نام پر اسلامی مفاہیم   مقام عمل میں سیکولر ازم کا لباس نہ پہن لیں اور عملی طور پر مغربی پیشرفت نافذ نہ ہوجائے۔


مؤثر اوراسٹراٹیجک افکار کے پہلے اجلاس کے سکریٹری ڈاکٹر واعظ زادہ نے اس اجلاس کے انعقاد کے سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئےکہا: تقریبا دس مہینے قبل یہ تجویز سب سے پہلے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سے سامنے آئی جس کے بعد مرکزی دفترکا قیام عمل میں آیا اور تجربہ کار دانشوروں، اساتذہ، مفکرین اور صاحب نظر افراد کے ساتھ اس سلسلے میں گفتگو کے بعد اسلامی و ایرانی پیشرفت کے نمونے کا موضوع انتخاب ہوا۔

ڈاکٹر واعظ زادہ نے ملک میں دانشوروں ، اساتذہ  اور فضلا کی باہمی گفتگو اور فیصلہ میں باہمی مشارکت کی ضرورت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مؤثر و اسٹراٹیجک افکار پر مبنی اجلاسوں میں نظری پہلوؤں پر غور و خوض کے علاوہ بیان کئے گئے عملی پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔

700 /