رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک بھر میں انیسویں نماز کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں اسلامی مسجد کو دنیا و آخرت کے امتزاج اور فرد ومعاشرے کے باہمی روابط اور پیوند کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ہر علاقہ اور ہر مقام پر مساجد کو خیر و برکت و سعادت کی جگہ اور تفسیر و حدیث کے مقام اور سماجی و سیاسی معارف کے منبر اور اخلاقی تعلیمات اور وعظ و نصیتحت کے مرکز کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔عدلیہ کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین رئیسی نے بیرجند میں نماز کے اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کو پڑھ کر سنایا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسجد کے نام سے تشخص کو وجود میں لانے کا حسین اور دلکش سلسلہ سب سےپہلے قبا اور پھر مدینے میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے ابتدائی دور میں آغاز ہوا یہ سلسلہ اسلام کی خلاقیت کا سب سے بہترین سلسلہ ہے۔ خانہ خدا اور بندوں کا گھر، روحانی معراج و ذکر خدا وندی کا مرکز اور دنیوی علم وجہاد و تدبیر و تدبر کا اہم مقام ہے جو عبادت کی جگہ بھی ہے اور سیاسی امور کو انجام دینے کا مرکز بھی ہے، یہ باہم پیوستہ دوہرے سلسلے ہیں جو اسلامی مسجد کی تصویر بھی پیش کرتے ہیں اور دنیا میں رائج دیگر عبادت گاہوں سے اس کے فرق کو بھی واضح کرتے ہیں۔ اسلامی مسجد عبادت و بندگی کے خالص شوق و اشتیاق ،جذبات اور صحیح و سالم ، اور پاک و پاکیزہ زندگی کی امید و نشاط کو ایک دوسرے سے منسلک کرتی ہے اور افراد و معاشرے کو اسلامی منزل کے قریب پہنچاتی ہے۔ مسجد، اسلامی مکتب فکر میں دنیا و آخرت کے امتزاج اور افراد و معاشرے کے باہمی روابط کا شاندار آئینہ ہے۔
اس نقطہ نگاہ کی بنیاد پر ہمارے دل مسجد کے لئے دھڑکتے اور احساس ذمہ داری و جذبہ اشتیاق سے معمور ہو جاتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں ان مساجد کی تعداد کم نہیں ہے جو اس دلکشش اور شوق انگیز تصویر کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ ہماری نیک و پاکیزہ ،نوجوان نسل کی موجودگی اور باہمی ہمدردی کےجذبے سے سرشار اور باخبر علمائے کرام اور اساتید کے وجود سے مسجدیں حقیقی معنی میں ذکر و عبادت اور فکر ومعرفت کا مرکز بن گئی ہیں اور ہمارے دلوں میں عظیم و گرانقدر ذکر کو جگہ ملی ہے۔ تاہم جب تک یہ فریضہ حسن و خوبی اور کمال کے ساتھ پایہ تکمیل تک نہ پہنچا دیا جائےاس وقت تک ہم میں سے کوئي بھی مساجد کی کمی یا ان میں موجود علمی کمزوری اور خامی سے معاشرے، نوجوانوں، خاندانوں اور آئندہ نسلوں کے لئے پیدا ہونے والے خطرات سے بے فکر نہیں رہ سکتا ہے اور ملک و نظام و عوام کو اسلامی مسجد سے ملنے والی برکتوں سے محروم نہیں کر سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا مناسب ہے۔
سب سے اہم بات مسجد کی عمارت اور اس میں با صلاحیت عالم دین کی موجودگی ہے۔ ملک میں اس وقت دسیوں ہزار مسجدیں موجود ہیں لیکن اب بھی دیہاتوں، شہروں اور کالونیوں میں ہزاروں مساجد کی ضرورت ہے۔ مسجد تک آسان رسائی ہمارے مؤمنین اور نوجوانوں کی بہت اہم ضرورت ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی موجودگی کی مانند مسجد میں پرہیزگار، دانشمند، ماہر اور جذبہ ہمدردی سے سرشار عالم دین کی موجودگی مسجد کی روح و جان کا درجہ رکھتی ہے۔ امام جماعت کو چاہیے کہ وہ خود کو آمادہ و تیارکرنے کے لئے روحانی طبابت کو اپنا فریضہ تصور کرے اور مساجد کے امور دیکھنے والے مراکز اور دینی مدارس ہر جگہ اس کی مدد کریں۔ مسجدوں کو تفسیر و حدیث کی درسگاہ، سماجی و سیاسی تعلیمات کا اہم مرکز اور وعظ و نصیحت اور اخلاقی تربیت کا سرچمشہ ہونا چاہیے۔ مساجد کے متولیان کرام، انتظامیہ کے افراد اور دیگر ذمہ دار حضرات کی محبت آمیز باتوں سے نوجوانوں کے پاکیزہ دلوں کو مشتاق بنانا چاہیے اور ان میں کشش اور لگاؤ پیدا کرنا چاہیے ۔ نوجوانوں کی موجودگی اور رضاکارانہ جذبات سے مساجد میں زندگی، نشاط اور امید کی لہر موجزن ہونی چاہیے۔ ہر مقام اور ہر علاقے میں مسجد اور تعلیمی مرکز کے مابین مناسب اور مؤثر رابطہ و تعاون ہونا چاہیے ۔
کتنی اچھی بات ہے کہ ہر علاقے میں مسجد کے اندر تمام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے امام جماعت کی طرف سے ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مسجد کا رابطہ ایسے نوجوانوں سے مضبوط اور مستحکم ہونا چاہیے جو شادی کرنے جا رہے ہیں، یا جنہیں علمی، سماجی، کھیل کود اور فن و ہنر کے میدانوں میں کامیابیاں ملی ہیں مسجد کا رابطہ ان بلند ہمت افراد سے بھی قوی اور مضبوط ہونا چاہیےجو دوسروں کی مدد کو اپنی بلند ہمتی کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ستم رسیدہ افراد سے بھی رابطہ مضبوط ہونا چاہیے جو غمگسار کی تلاش و جستجو میں ہیں حتی ان نومولودبچوں سے بھی رابطہ مستحکم ہونا چاہیے جنہوں نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے، مسجد کو ہر علاقے اور محلے میں خیر و برکت کی بنیاد اور مرکز ہونا چاہیے اور بدرجہ اولی اس میں پڑوسیوں کی زحمت اور تکلیف کا کوئی شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ تکلیف دہ آوازوں کا بلند ہونا خاص طور پر رات کو لوگوں کے آرام کے وقت نامناسب عمل اور بسا اوقات خلاف شریعت فعل ہے۔ مسجد سے بس ایک ہی آواز بلند ہونی چاہیے اور وہ آواز اذان کی دلنواز اور دلنشیں آوازہے۔
مساجد کی تعمیر اور ان کی ظاہری اور روحانی آرائش پر توجہ دینا سب کا فریضہ ہے، اس میں ہر شخص کو اپنی طاقت و توانائی کے مطابق حصہ لینا چاہیے۔ عوام الناس، بلدیہ اور حکومتی ادارے، ہر ایک کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دانا، فرض شناس و پرہیزگار عالم دین ان مقدس کوششوں کا مرکزی نقطہ ہو سکتا ہے اور اسے ایسا ہونا بھی چاہیے۔
اللہ تعالی سے سب کے لئے توفیقات کا طالبگار ہوں اور مجاہد و خدمتگذار عالم دین حجت الاسلام و المسلمین جناب قرائتی کے لئے طول عمر، اعلی ہمت اور روز افزوں کامیابیوں کی دعا کرتا ہوں۔
سیدعلی خامنهای
18 /مهرماه/ 1389